1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فوج ظفر موج

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏24 جنوری 2009۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    کل مجھے وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کی ویب سائٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا، میں یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ ہمارے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی کا کوئی وزیر ہے ہی نہیں اور نہ ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وزیر۔ یہ صورت حال دیکھ کر میں ایک دم سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ہم کیا سائنس، ٹیکنالوجی اور تعلیمی میدان میں ترقی کریں گے۔ حکومت نے وزیر پالیمانی امور، وزیر اطلاعات و نشریات جیسی وزاتوں کی جگہ تو پر کردی ہے جن کی زیادہ تر ملکوں میں‌کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن سائنس و ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر دوسری اہم وزارتیں‌ابھی تک خالی چھوڑی ہیں۔ جس کے دو ہی مطلب اخذ کئے جاسکتے ہیں کہ حکومت سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی یا حکومت کے پاس کوئی اہل شخص نہیں‌ہے یا حکومت ان لوگوں کو یہ وزارتیں دینا چاہتی ہے جو مستقبل میں‌حکومت کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں‌یا حکومتی جماعت میں شامل کئے جاتے ہیں۔

    اس وقت بھی ہمارے پاس وزرا کی فوج ظفر موج ہے اس کے علاوہ ناظمین، نائب ناظمین، ایم پی اے، ایم این اے، ڈیپارٹمنٹ سیکرٹریز وغیرہ لیکن اس کے باوجود ان سب نے اپنے اپنے شعبوں‌میں‌کوئی خاص کام نہیں‌کیا۔

    ایک طرف تو وزارتیں نامنتخب نمائیندوں‌کو دی جارہی ہیں۔ ان کے وزیر داخلہ کی جگہ مشیر داخلہ، وزیر خزانہ کی جگہ مشیر خزانہ کا نام دیا جاتا ہے۔ تاکہ اپنے من پسند لوگوں کو نوازا جاسکے۔

    ہم جب اپنے علاقہ کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں وہاں بھی انتظامیہ کی ایک فوج نظر آتی ہے جن کا کام انتظامی امور حل کرنا اور لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنا ہے۔ ایک علاقہ میں ایک ناظم ، نائب ناظم، جنرل کونسلر، لیبر کونسلر، لیڈی جنرل کونسلر، لیڈی لیبر کونسلر وغیرہ ہیں۔ جبکہ ان کے اوپر ٹاون ناظم، ٹاون نائب ناظم، اس سے اوپر سٹی ناظم، سٹی نائب ناظم، کمشنر، ڈی سی او اور پتہ نہیں کتنے عہدے ہیں۔ جبکہ ایم این اے، ایم پی اے کی تعداد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں کل 290 سے اوپر ایم این اے، 550 سے اوپر ایم پی اے، خواتین کی مخصوص ایم پی اے، ایم این اے کی پتہ نہیں کتنی نشستیں ہیں۔

    جبکہ وفاقی وزرا اور وزرا برائے امور مملکت کی تعداد 60 کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح صوبائی وزرا، سیکرٹریوں کی تعداد بھی کسی طور پر نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ یہ سب قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کررہی ہیں۔ وہ پیسہ جن پر عوام کا حق ہے ان پر سانپ بنے بیٹھے ہیں اور ساتھ ساتھ رو رہے ہیں کہ قومی خزانہ خالی ہے۔ ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی امداد کی ضرورت ہے۔ جو لوگ خود اپنے پاوں پر کھڑا نہیں ہوسکتے وہ قرضہ لے کر کونسا دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔

    آج تک عوام کو یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وفاق میں ہر شعبے کے دو وزیر کیوں‌ہیں۔ ایک وزیر کو وفاقی وزیر اور دوسرے کو وزیر مملکت کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی نہیں بتاسکتا کہ وزیر مملکت اور وفاقی وزیر میں کیا فرق ہے۔ اور ان کی ضرورت کیوں‌پیش آئی ہے۔ وزاتوں کی بندر بانٹ کے لئے یا عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے۔

    یہ وزرا کی فوج کیا عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کیا کام کر رہی ہے۔

    کیا عوام کو روزگار مہیا کررہی ہے
    کیا عوام کو اچھی تعلیم، اچھی صحت مہیا کررہی ہے۔
    کیا عوام کو پینے کا صاف پانی اور معیاری کھانے پینے کی اشیا مہیا کررہی ہے
    کیا عوام کو لوڈشیڈنگ، پٹرول و گیس کی قلت سے نجات دلا رہی ہے۔
    کیا عوام کو مہنگائی کے عفریت سے نجات دلا رہی ہیں۔
    کیا دنیا میں پاکستان کا وقار بحال کرر ہی ہے۔

    اگر یہ سوال عوام سے پوچھا جائے تو جواب نفی میں ہوگا۔ یہ تمام وزارتیں اور عہدے عوام کے دئیے گئے ٹیکسوں پر عیاشی کر رہی ہیں۔عوام کی دولت لوٹ رہی ہیں۔ عوام کے جذبات کے ساتھ کھیل رہی ہیں۔ یہ منگولوں کی فوج مل کر بھی عوام کے لئے کچھ نہیں کرسکتی جب تک ان کی نیت اور ان کی پالیسیاں درست نہ ہوں۔

    یہاں میں حبیب جالب کی ایک نظم کے ساتھ اس موضوع کو ختم کرتا ہوں

    کوئی ممنونِ فرنگی، کوئی ڈالر کا غلام
    دھڑکنیں محکوم ان کی لب پہ آزادی کا نام
    ان کو کیا معلوم کس عالم میں رہتے ہیں عوام
    یہ وزیرانِ کرام

    ان کو فرصت ہے بہت اونچے امیروں کے لیے
    ان کے ٹیلیفون قائم ہیں‌ سفیروں کے لیے
    وقت ان کے پاس کب ہے ہم فقیروں کے لیے
    چھو نہیں سکتے ہم ان کا اونچا مقام
    یہ وزیرانِ کرام

    صبح چائے ہے یہاں تو شام کھانا ہے وہاں
    کیوں نہ مغرور چلتی ہے میاں ان کی دکاں
    جب یہ چاہیں ریڈیو پہ جھاڑ‌سکتے ہیں بیاں
    ہم ہیں پیدل، کار پہ یہ، کس طرح ہوں ہم کلام
    یہ وزیرانِ کرام

    قوم کی خاطر اسمبلی میں یہ مر بھی جاتے ہیں
    قوت بازو سے اپنی بات منواتے بھی ہیں
    گالیاں دیتے بھی ہیں اور گالیاں کھاتے بھی ہیں
    یہ وطن کی آبروں ہیں کیجیے ان کو سلام
    یہ وزیرانِ کرام

    ان کی محبوبہ وزارت داشتائیں کرسیاں
    جان جاتی ہے تو جائے پر نہ جائیں کرسیاں
    دیکھئے یہ کب تلک یوں ہی چلائیں کرسیاں
    عارضی ان کی حکومت عارضی ان کا قیام
    یہ وزیرانِ کرام
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ زبردست :a180:
     
  3. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    راشد صاحب۔
    بہت عمدہ خیالات پر مبنی تحریر ہے۔
    کاش ہماری قوم کے دن بدل جائیں
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    راشد بھائی ۔ بہت دردِ دل سے آپ نے یہ مضمون تیار کیا اور ہم تک پہنچایا ہے۔
    بدقسمتی سے ہمیں بطور قوم خود اپنے حقوق کی پہچان ہی نہیں۔ ورنہ ہم لٹیروں کےہاتھوں لٹ جانے کے باوجود بھی انہی کی راہوں میں یوں آنکھیں نہ بچھائے بیٹھے ہوتے۔

    نشیمن ہی کے بک جانے کا غم ہوتا توکیا غم تھا
    یہاں تو بیچنے والوں نے سارا گلشن بیچ ڈالا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں