1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فلسفی کانٹ پستہ قامت کانٹ بڑی دِلچسپ شخصیت کا مالک تھا

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏18 جون 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    فلسفی کانٹ پستہ قامت کانٹ بڑی دِلچسپ شخصیت کا مالک تھا
    [​IMG]
    عارف جمیل

    نامور فلسفیوں میں کانٹ کا نام بھی چمکتا ہوا نظر آتا ہے ۔ خصوصاً اُسکی تصنیف ’’تنقید بر عقل محض ‘‘ (Critique of Pure Reasonـ )اُسکی فلسفیانہ کاوش کا وہ ثبوت ہے جسکی اشاعت فلسفے کی دُنیا میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ کریٹیک کا لفظ تنقیدی تجزیئے کے معنوں میں استعمال ہو ا ہے اور عقل ِمحض سے مراد علم ہے۔ایسا علم جو حواس کے ذریعے حاصل نہیں ہو تا جو ہر طرح کے حسیاتی تجربات سے آزاد ہو تا ہے۔یہ علم مختلف ذہنی ساخت سے جنم لیتا ہے۔کانٹ کی یہ کتاب اوراُس کی چند دوسری تصانیف نے جدید دُنیا پر نئی سوچ کا باب کھول دیا۔ لہٰذا یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کون تھا ،کس دور کا تھا اور کن خیالات نے اُس کی سوچ پر اثر ڈالا تھا؟ عمانویل کانٹ 1724ء میں پروشیا کے شہر کوئنگسبرگ میں پیدا ہوا۔ اُس کے آبائواجداد صدیوں پہلے اسکاٹ لینڈ سے نقل مکانی کر کے پروشیا آئے تھے۔ اُس کی والدہ مذہبی خیالات رکھنے والی خاتون تھی جو کانٹ کی پہلی درسگاہ ثابت ہوئی۔ اسی لئے آغازمیں وہ سختی سے مذہبی عقائد پر عمل کرتا ہو انظر آیا۔ لیکن عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد وہ مذہب سے اتنا دُور ہو گیا کہ پھر کبھی گرجے کا رُخ کرتا نظر نہیں آیا۔ خاموش طبع، پستہ قامت کانٹ بڑی دِلچسپ شخصیت کا مالک تھا۔ لیکچر جغرافیہ پر دینے کا عادی اور اپنی ساری عمر اُسی شہر میں گزار دی۔ پرائیویٹ لیکچرار کی حیثیت سے کوئنگسبرگ یونیورسٹی میں درس دیتا رہا اور پروفیسر کے عہدے کا حقدار بن گیا لیکن ترقی دیر سے ہوئی ۔وہ 1770ء میںمابعد الطبیعات اور منطق کے مضامین کا پروفیسر مقرر ہوا۔ یہ کیسے ہوا؟ کانٹ کا دور شہنشاہ فریڈرک اعظم اور فلسفی والتیئر کا وہ دور تھا جب یورپ میں ایک نئی علمی سوچ و بحث کی بقا کا موازنہ یونانی فلسفے کے ساتھ کیا جانے لگا تھا۔ دینی و مذہبی رُحجان اپنے زور پر تھا اور معاشر ے میں زندہ رہنے والے اپنی جنگ لڑ رہے تھے لہٰذا فیصلہ کرنا مشکل ہوتا جارہا تھاکہ دُنیاوی زندگی میں کامیابی کی بنیاد اگر دینیات ہے تو پھر تلاش کس چیز کی ہے؟ کانٹ کے ذہن میں بھی شاید یہی بنیادی نکتہ آگے چل کر کچھ فلسفیوں سے اختلاف کا باعث بنا جن میں سے ایک برطانوی فلسفی ہیوم قابل ذکر رہا اور اُس کو کانٹ کے ’’محبوب دُشمن‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کانٹ جیسا بمشکل 5 فُٹ قدکا سیدھا سادہ اور شرمیلا آدمی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آزادانہ خیال اور بے باک فلسفی کا روپ دھار گیا، بلکہ یہ کہنا دِلچسپ ہو گا کہ چھوٹے قد کے فلسفی کا دماغ بڑا تھا۔ ایسے خیالات اور افکار کی آماجگاہ جنہوں نے پوری فکر انسانی کو تبدیل کر دیا اور مستقبل کے فلسفیوںنے ماضی کے فلسفیانہ نظریات پر ایک دفعہ پھر غور و فکر شروع کر دیا۔ کیا خوب کام کیا۔ کانٹ نے کہ سائنسی ترقی کو جدید خیالات سے ایسی تقویت ملی کہ آج یہ ترقی کہیں رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ کیا اُس کے علمی عروج میں اُس کا کنوارہ ہونا بھی اہم تصور کیا جا سکتا ہے۔ شادی کی کوشش کانٹ نے ضرور کی اور دو دفعہ کی۔ لیکن پہلی لڑکی سے اظہارِمحبت نہ کر سکا اور اُس لڑکی نے دوسرے شخص سے شادی کر لی۔ دوسری دفعہ جس سے شادی کی خواہش ہوئی وہ لڑکی شہر ہی چھوڑ گئی۔ اس کے بعد شاید اُس کو گھبراہٹ ہو گئی کہ شادی شُدہ آدمی کسی کام کا نہیں رہتا۔ اس میں اُس کی زندگی کے وہ اصول بھی شائد شامل ہوں جن کو وہ صنفِ نازک کی وجہ سے توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ بہرحال 80 سال عمر پانے والا کانٹ اپنے نظریات کی بنا پر حکومتِ وقت کو بھی ناراض کر بیٹھا اور 1804ء میں اُس کا انتقال ہو گیا۔ کانٹ مابعد الطبیعات کا عاشق تھا اور اسی عاشقی میں اُس نے کیا خوب کہا تھا کہ : ’’یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں مابعد الطبیعات کا عاشق ہوں لیکن میری اس محبوبہ نے میرے ساتھ بہت کم التفات کیا ہے‘‘۔ کانٹ کہتا تھا کہ مابعد الطبیعات ایک ایسا سمندر ہے جس کا نہ کوئی کنارہ ہے نہ روشنی دکھانے والا مینار۔ ساتھ ہی کانٹ نے مابعد الطبیعات میں تہلکہ خیز انقلاب پیدا کر کے ساری دُنیا کو چونکا دیا۔ اس کے مطابق انسان کے اندر کی سچائی تجربے سے آزاد ہونی چاہیے۔ اُس نے کہا کہ ہم تجربے کی بدولت کہاں تک آگے بڑھ سکتے ہیں؟ اس کا جواب ریاضی سے ملتا ہے۔ ریاضی کا علم یقینی اور ناگزیر بھی ہے۔ لہٰذا کسی موجودہ حقیقت میں تبدیلی آنا ممکن ہے لیکن یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ دو اور دو چار کے علاوہ بھی کچھ بن سکتا ہے۔ اس سچائی کو کسی تجربے کی ضرورت نہیں۔ ……

     

اس صفحے کو مشتہر کریں