1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فلسفہ انقلاب اور پاکستانی قوم

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏24 فروری 2014۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    قوموں کی تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ بات بڑی واضح ہے کہ قوموں کی زندگی اور بقا تغیر وتبدیلی سے عبارت ہوتی ہے۔
    اللہ رب العزت نے اسی فلسفہ کو " نظامِ الہی " کے طور پر پیش کرتے ہوئے فرمایا ۔
    ولولادفع اﷲ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض ولکن اللہ ذو فضل علی العالمین ۔۔اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو ہٹاتا نہ رہےتو ضرور زمین تباہ ہوجائے مگر اللہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے۔( ۲/ ۲۵۹)
    پھر فرمایا ۔ولولادفع اﷲ الناس بعضھم ببعض لھدّمت صوامع وبیع وصلوات ومٰسجدیذکرفیھا اسم اﷲ کثیرا ۔
    اور اﷲ اگربعضوں کے ذریعے بعضوں کو دوسرے سے ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں، گرجے ، کلیسے اور مسجدیں ضرور ڈھا دی جاتیں جن میں اﷲ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے۔(۲۲/ ۴۰)
    بنا بریں یہ امرواضح ہوگیا کہ قوموں کی زندگی میں باہم اختلاف اور اہل حق کے ذریعے اہل باطل کو قوت و اقتدار سے ہٹائے جانےکا عمل عین قرآنی منشاء ہے۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے دین اسلام کو دنیا میں بھیجنے کا بالآخر مقصد ہی یہی فرمایا ۔
    ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔
    اللہ کی ذات وہ ہے جس نے اپنے رسول ص کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اس دین (حق) کو تمام ادیانِ (باطلہ) پر غلبہ دے سکے۔ (توبہ، آیۃ32)
    حق و باطل کی اسی کشمکش کو " انقلاب " یا " غلبہ دین حق " وغیرہ جیسے ٹائیٹل دیے جاتے ہیں۔
    لیکن کسی بھی ملک و معاشرے میں جب ظلم حد سے بڑھ جائے اور قوت و اختیارات چند ہاتھوں میں مرکوز ہوجائیں اور عوام کی اکثریت اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوجائے تو جلد یا بدیر اور معاشرے میں تبدیلی کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ عمل ایک لاوے کی طرح پہلے عوام کے سینوں میں ظلم کے خلاف نفرت بن کر پکتا ہے اور پھر کسی خاص موقع، خاص حالات کے نتیجے میں آتش فشاں بن کر پھٹتا ہے جس سے معاشرہ ایک بڑی تبدیلی یا انقلاب سے ہم کنار ہوتا ہے۔

    انقلابی قیادت کا رول

    ان حالات میں " انقلاب کی قیادت " کا رول انتہائی اہم ہوتا ہے۔ کیونکہ
    اگر انقلاب کی قیادت خدانخواستہ تشدد پسند اور ناعاقبت اندیش ہاتھوں میں ہوتو عوامی جذبات قومی افراتفری، باہم جنگ و جدل اور باہمی انتشار کی جانب بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے جس سے " تبدیلی کا عمل " مثبت کی بجائے منفی سمت جاسکتا ہے۔
    لیکن
    اگر " انقلاب کی قیادت " امن پسند، دور اندیش اور سنجیدہ فکر ہاتھوں میں ہو تو عوامی جذبات کے لاوے کو درست سمت میں رہنمائی دے کر اسے مثبت، تعمیری اور امن پسندی کی طرف موڑ کر انتہائی مثبت نتائج حاصل کرکے قوم کو ایک امن و آشتی اور سکون و اخوت کی منزل سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے۔

    اب آئیے دیکھتے ہیں کہ " انقلاب " کی بنیادی لوازمات کیا ہیں ۔

    کسی معاشرے میں " انقلاب " کے لیے 2 بنیادی عناصر ضروری ہیں۔

    نمبر 1 ۔۔ ایک متحد قوم (جو کم از کم ایک مقصدِ "انقلاب" پر متحد ہو)
    نمبر 2۔۔ لائحہ عمل اور ایک واضح منزل

    چلیے اب جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ جو دگرگوں حالات کے باعث انتہائی گراوٹ کا شکار ہے اور اہل دانش و اہل نظر پورے وثوق سے کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ اس وقت کسی بڑی " تبدیلی" کے انتہائی قریب ہے۔ تبدیلی یا انقلاب کا یہ عمل پاکستان میں کیوں شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا اور اسکی راہ میں کیا کیا رکاوٹیں حائل ہیں جو مستقبل میں بھی پاکستانی معاشرے کو تبدیلی یا انقلاب کی منزل سے دور رکھ سکتی ہیں۔

    مسئلہ نمبر 1 ۔ متحد قوم

    اگر ایماندارانہ جائزہ لیا جائے تو سچ یہ ہے کہ ۔
    ہم 1947 میں پاکستان کا مطلب کیا ۔ لاالہ الااللہ۔ کے نعرے پر آزاد ہوئے لیکن ہماری یہ بنیاد روز اول سے ہی متزلزل کرکے ہمیں صوبائی ، علاقائی، قبائیلی، ذات برادری کی عصبیتوں میں بانٹ کر لخت لخت کردیا گیا۔ علامہ اقبال رح نے انہیں عصبیتوں کی لعنت کی طرف بہت پہلے اشارہ فرماتے ہوئے ہمیں اتحاد کا درس دیا تھا۔

    یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
    تم سب ہی کچھ ہو، بتاؤ کہ مسلمان بھی ہو؟​

    پھر گذشتہ ربع صدی سے ہمیں فرقہ واریت کی آگ میں بھی اس شدت سے جھونکا جا چکا ہے کہ ہم اپنے سوا دوسرے کلمہ گو کو مسلمان سمجھنے کے لیے ہی تیار نہیں۔ اور مسلمان سمجھنا تو کجا، اسے لائق گردن زنی گردانتے ہیں۔
    الغرض ایک تلخ حقیقت ہے کہ تمام تر وسیع القلبی کے باوجود ہم عملی طور پر بطور مسلمان و پاکستانی ایک قوم کے طور پر استحکام حاصل نہیں کرسکے۔
    جو لوگ پردیس میں رہتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کسی پاکستانی سے تعارف ہوتے ہی ہمارا اگلا سوال ہوتا ہے " کس شہر یا علاقے سے ہو " اور اگر ڈاکخانہ مل جائے تو اسے گلے بھی لگالیا جاتا ہے اور اسکی ہرطرح مدد بھی کی جاتی ہے۔ وگرنہ کوئی اور رستہ دکھا دیا جاتا ہے۔
    اور پھر ہم پاکستانی یورپ بھر میں جہاں بھی ہوں گے۔ اپنی اپنی مسجد، اپنا اپنا کلچر سنٹر، اپنی اپنی تنظیمیں، اپنے اپنے گروہ ، اپنی اپنی پارٹیاں ، بلکہ پارٹیاں در پارٹیاں بنائے رکھتے ہیں۔ اور پاکستانی قوم غیر ملکیوں کے لیے ایک تماشہ بنی رہتی ہے۔
    جبکہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ سری لنکا، انڈیا، بنگلہ دیش، چائنہ، فلپائن، سمیت درجنوں دیگر ممالک کے باشندے باہم شیروشکر رہتے ہیں۔ انکے اسلامک سنٹرز، انکی مساجد اکثر و بیشتر باہمی اختلافات یا اپنی چودھراہٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہ "کمیونٹی کی ضرورت " کی بنیاد وجود میں آتے ہیں ۔ الغرض انکے ہاں قومی اتحاد کا مظاہرہ ہم سے بہت اعلی انداز میں نظر آتا ہے۔

    مسئلہ نمبر2۔ لائحہ عمل اور ایک واضح منزل ۔

    قوم کو آج تک کسی ایک واضح منزل کی طرف رہنمائی نہیں کی گئی ۔ قومی دانشوران یا تو اس اہل ہی نہیں ۔ مطلب باقی شعبہ حیات کی طرح یہاں بھی " میرٹ " کا فقدان ہے ۔ نااہل لکھاری " دانشور" کے طور پر پہچان بنا چکے ہیں۔ بلکہ بعض طالع آزما لوگ بھی " دانشور" کا خطاب لیے ہوئے ہیں۔ اب تو ستم بالائے ستم انتہائی قومی تعلیمی اداروں کی طرف سے انہیں " ڈاکٹریٹ " کی ڈگریاں عطا کرنے کی رسم بھی چل نکلی ہے۔
    یا دیگر اہل فکر و نظرنے قوم کو " اسلام ، جمہوریت و آمریت " کے چوک میں لا کھڑا کیا ہے۔ حالانکہ اسلام کا سیاسی نظام " مغربی جمہوریت" نہیں بلکہ " نظامِ مشاورت" ہے ۔ جہاں بھیڑ بکریوں کی طرح سروں کی گنتنی نہیں کی جاتی ۔ بلکہ اہل فکر و دانش کی رائے کو بعض اوقات 100 جاہلوں پر بھی مقدم گردانا جاتا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب جمہوریت میں " قانون سازی" کا اختیار عوام کو ہے۔ جبکہ اسلامی جمہوریت یا طرز حکومت میں آئین فقط قرآن و سنت ہیں ۔ البتہ اسلامی معاشرے کی ضروریات کے مطابق انکی تعبیر و تشریح کرکے " نائبیت " کے درجے میں قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔
    ہم نے تو جس " ظالمانہ نظام " کو " جمہوریت " کا نام دے رکھا ہے ایسی جمہوریت کا تصور دنیا بھر میں کہیں نہیں پایا جاتا۔ 250 خاندانوں کی بادشاہت کو " جمہوریت" کا نام دے دیا گیا ہے۔
    انقلابی تحریک کو مضبوط ہونے کے لیے اور عوام کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے جب کبھی بیداری نصیب ہوتی ہے اور قوم کسی ایک " ظالم " کے خلاف متحد ہونا شروع ہوتی تو ہے تو اچانک " جمہوری ڈرامہ کے ڈائریکٹرز " ملک میں " انتخابات " کا اعلان کروا دیتے ہیں ۔ جس سے ایک ظالم کو پسِ پردہ بھیج کر اسی قبیل سے دوسرے " ظالم " کو قوم کے سامنے " نجات دہندہ " بنا کر لایا جاتا ہے۔ قومی جذبات سرد پڑ جاتے ہیں اور عوام دوسرے ظالم سے امیدیں لگا بیٹھتی ہے۔ پھر کچھ سال بعد جب اس سے مایوسی ہوتی ہے ۔ عوام کے اندر محرومیوں کا لاوا پھر سے ابلتا ہے ۔ قوم پھر سے تبدیلی کے لیے اٹھتی ہے تو پھر سے اسٹیبلشمنٹ یا ملکی و غیر ملکی طاقتوں کی طرف سے میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے اسی اشرافیہ کے ظالمانہ نظام کے جال کے اندر سے ایک اور لیڈر ابھار دیا جاتا ہے قوم اسکے پیچھے لگ جاتی ہے اور چند سال بعد پھر مایوسیوں کے اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔
    کچھ عرصہ بعد اگر عوام اس " جمہوری ڈرامے" سے تنگ آجائے تو پھر " فوج " کو زحمت دی جاتی ہے۔ کوئی فوجی اپنے بوٹ و بندوق کے زور پر اقتدار پر بیٹھ کر " اسلام علیکم ہم وطنو " کی نوید جانفزا سناتا ہے۔ اور یہ قوم اسی فوجی کے استقبال ملک بھر میں جشن منا کر، مٹھائیاں بانٹ کر کرتی نظر آتی ہے۔ اور پھر چند سالوں بعد اسی " نجات دہندہ " کو پسِ زنداں دیکھنے کی متمنی ہوجاتی ہے۔
    اور اس کنفیوزڈ قوم کو اب تو جانوروں سے بدتر مخلوق " دہشت گردوں " کے ذریعے بھی " نفاذِ شریعت " کی راہ دکھائی جانے لگی ہے۔ اللہ پاک پاکستان کو اس شر اور فتنے سے محفوظ رکھے۔ بڑی بڑی جماعتیں، انکے اسلامی وضع قطع کے لیڈر ۔ دہشت گردوں کو " شہادت " کا درجہ دیتے ہیں۔ انکی جدوجہد کو " نفاذ شریعت " کا نام دیتے ہیں۔ میڈیا چینلز پر بیٹھ کر الٹی سیدھی تعبیریں کرکے انکی سفاکانہ دہشت گردی کو " جہاد " کا برقعہ پہناتے نظر آتے ہیں۔

    ڈاکٹر طاہرالقادری وہ واحد لیڈر ہےجس نے اپنے 30 سالہ تجربے و مشاہدے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا اور اس قوم کو یہ بتایا ہے کہ :
    لوگو ! تمھارے حقوق کا غاصب کوئی ایک شخصیت، کوئی ایک فرد، کوئی ایک پارٹی یا کوئی ایک طبقہ نہیں ۔ بلکہ ملک میں رائج یہ ظالمانہ استحصالی نظام پاکستانی قوم کا دشمن ہے۔ وہ غاصبانہ نظام جس میں کسی اہل، لائق، دیانتدار، باکردار اور محب وطن شخص کے اقتدار تک پہنچنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ بلکہ کرپٹ اشرافیہ اور کرپٹ مافیا کی جانب سے بنایا گیا یہ نظام دراصل 250-300 خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ یہ خاندان سیاست میں بھی ہیں، اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہیں، یہ خاندان بیوروکریسی میں بھی ہیں، اور اب عدلیہ و میڈیا میں بھی گرفت رکھتے ہیں۔ یہ سب ملکر اس قوم کو محکوم و محروم رکھنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔

    یہ نظام ایک تاریک سرنگ کی مثل ہے۔ اور اسکے اندر کئی چور، ڈاکو، لٹیرے نما بھوت ہیں ۔ اگر قوم سرنگ کے اندر رہ کر ان چور ڈاکو لٹیروں کے بھوتوں سے لڑتی رہے گی تو قوم کبھی کامیاب نہ ہوسکے گی کیونکہ یہ چور ڈاکو لٹیرے مسلح بھوت کی مانند ہیں جن کی طاقت صرف اندھیرا ہوتا ہے۔ اور اس سرنگ کا اندھیرا ہی انکی طاقت ہے۔
    اگر قوم کو روشنی درکار ہے۔ منزل تک پہنچنا درکار ہے۔ تو اس ظالمانہ نظام کی اس تاریک سرنگ سے نکلنا ہوگا۔ روشنی میں پہنچتے ہی ظالم لٹیروں سے نمٹنا بھی آسان ہوگا۔ جب قوم ایک دفعہ ان ظالم، غاصب، کرپٹ طبقات کے بنائے اس کرپٹ نظام سے چھٹکارا پا لے گی اور چند ہی سالوں میں ، علم، شعور، آگہی، معاشی ترقی، امن، فلاح اور عظمت و وقار کی منزلیں قدم چومیں گی۔

    ڈاکٹر طاہرالقادری نے قوم کو راہ دکھا دی ہے۔ اور مسلسل دکھارہے ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی واضح کررہے ہیں کہ
    "اللہ پاک کا نظام ہے کہ انقلاب کبھی صرف رہنما لے کر نہیں آتا ۔ انقلاب کبھی ایک انقلابی پارٹی تنہا نہیں لے کر آتی بلکہ انقلاب ۔ تبدیلی اور عزت و وقار کی منزل کے حصول کے لیے قوم کو " انقلاب کی منزل " کے لیے پر عزم ہوکر قدم بہ قدم اور شانہ بہ شانہ چلنا پڑتا ہے۔
    ۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔۔ اگلی پوسٹ ۔۔۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    قرآن مجید میں فرمانِ الہی بڑا واضح ہے۔
    إن اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ​
    اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلنا جب تک قوم خود اپنی حالت بدلنا نہ چاہے

    علامہ اقبال نے اسی آیت کا شعری ترجمہ کرتے ہوئے کہا

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

    ڈاکٹر طاہرالقادری کو اللہ تعالی نے جس علم و حکمت اور صلاحیتوں سے نواز کر بھیجا ہے۔ قوم کا ہر فرد دیکھ رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری پوری دیانتداری سے قوم کو ظلم کے اس نظام سے نجات دلانے کے لیے وہ صلاحیتیں بروئے کار لا کر جدوجہد کررہے ہیں۔ اور انشاءاللہ کل قیامت کو اپنے رب کے حضور اپنی محنت و جدوجہد کے اعتبار سے شرمندہ نہیں ہوں گے۔

    لیکن اس کرپٹ نظام کی دلدل میں پھنسے رہنے سے اگر 65 سال کے جمہوری و غیر جمہوری " تجربات" اور گذشتہ 35 سال کے 8 انتخابات سے اگر سوائے تنزلی، محرومی، بدامنی، بھوک اور افلاس کے کچھ حاصل نہیں ہوا تو اس نظام کے تحت اگلے 50 برسوں میں کوئی امید نہیں باندھی جا سکتی ہے۔

    اس کے لیے ہمیں جلد سے جلد ایک " پرامن" انقلاب کے لیے پرعزم ہونا ہوگا تاکہ ہم خود بھی اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی چند ہزار وڈیروں، ظالموں ، کرپٹ رسہ گیروں اور دہشت گردوں کے چنگل سے آزادی دلا کر ایک محفوظ، پرامن، اور ترقی یافتہ معاشرہ کی بنیاد رکھ سکیں۔

    والسلام علیکم۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں