السلام علیکم۔ مندرجہ ذیل تصاویر کو غور سے دیکھیے۔ ماں کی آنکھوں اور بچے کے چہرے کو بار بار دیکھیے۔ شاید کہ ہمارا ضمیر ہمیں فلسطین کے مسلمانوں کے درد کا احساس دلا دے ۔ یہ اس ماں کی اپنے بچے پر آخری نظر تھی ذرا اندازہ کیجئے کہ یہ ماں اپنے بچے کو آخری بار دیکھ کر کیا سوچ رہی ہوگی ؟ کیا کہنا چاہ رہی ہوگی جو وہ کہہ نہ سکی ؟ ممکن ہے وہ کہنا چاہتی ہو میرے بچے ! میرے دل کے ٹکڑے ! میں تمھیں بڑا ہوتے دیکھنا چاہتی تھی میں تمھیں بڑا آدمی بنانا چاہتی تھی تمھیں دنیا کے ہر خطرے سے بچا کر پالنا پوسنا چاہتی تھی مگر مجھے ظالمو ں نے تم سے جدا ہونے پہ مجبور کر دیا اور پھر ۔ خود کو اس بچے کی جگہ پر بٹھا کر سوچئیے کہ اس بچے کے دل پر کیا گذر رہی ہوگی ۔ جس کی ماں ، جس کی زندگی ، جس کی جنت ، جس کا سب کچھ ، جس کی ماں اسکی آنکھوں کے سامنے خون میں لت پت اس سے جدا ہورہی ہے اسکے ننھے بازوؤں میں ، خون آلود چہرے کے ساتھ زخموں سے چورچور جسم کے ساتھ ۔ دم توڑ رہی ہے اور یہ بچہ ۔ سوائے چیخنے چلانے اور آہ و زاری کرنے کے کچھ نہیں کرسکتا۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے سر کا سائباں چھنتے دیکھ کر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے [highlight=#BF0040:36cdd44d]یہ تو ایک تصویر ہے دوستو ! فلسطین میںہزاروں ایسی تصویریں بن سکتی ہیں۔ کیا بطور مسلمان بطور انسان ہماری آنکھیں بھی اس تصویر کو دیکھ کر نم ہوتی ہیں ؟[/highlight:36cdd44d]
السلام علیکم۔ نعیم بھائی کی اس پوسٹ سے واقعی فلسطینی مسلمانوں کی دردناک حالت اور مصائب و آلام کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔ ہمیںچاہیے کہ بطور مسلمان ہم ان کلمہ گو بہن بھائیوںکی حتی الامکان مدد کریں۔ دیگر تنظیمات کی طرح منہاج القرآن ویلفئیر سوسائٹی بھی 5 کروڑ روپے سے فلسطینی مسلمانوں کی امداد کا آغاز کرچکی ہے۔ اور مزید عطیات اکٹھے کرنے کے لیے اپیل جاری ہے