1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فلسطین میں جمہوریت کے ساتھ مذاق

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏16 فروری 2007۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فلسطینی وزیراعظم ہنیہ کو مکہ معاہدے کے وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر قائم رکھنے کے وعدے کے باوجود مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا


    78 فیصد اکثریت حاصل کرنے والی حماس حکومت کو زبردستی ختم کر کے امریکن نواز الفتح پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت کی راہ ہموار کرنے کے لیے حماس کے وزیراعظم مجبوراً مستعفی ہو گئے

    یاد رہے کوئی سال بھر قبل فلسطین کے قومی انتخابات میں حماس تنظیم 78 فیصد اکثریت سے حکومت میں آئی تھی ۔ اور سابق رہنما مرحوم یا سر عرفات کی الفتح پارٹی اپنی امریکن نواز پالیسیوں کی وجہ سے پورے فلسطین میں لگ بھگ 20 فیصد سیٹیں حاصل کر پائی تھی ۔

    حماس کے حکومت میں آتے ہی جمہوریت کی چمپئین عالمی طاقت نے تمام پیمانے بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطینی عوام کو سزا دینے کا فیصلہ کیا اور عدل و انصاف کے تمام پیمانے بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطین کی ہر طرح کی امداد بند کر دی ۔ جس سے فلسطینی عوام شدید معاشی مشکلات کا شکار ہوئے۔

    لیکن جذبہء ایمانی سے سرشار اسمائیل ہنیہ اور اسکی جماعت حماس عوام کی خدمت کا عزم کیے ہوئے اسلامی دنیا کی طرف متوجہ ہوئی ۔ بدقسمتی سے یہاں بھی اکثریت امریکن نواز حکمرانوں کی تھی ۔ چنانچہ جب اسلامی دنیا سے امداد طلب کی تو انہوں نے جواباً فلسطین میں امریکن نواز الفتح کو حکومت میں برابر کا حصہ دینے کا مطالبہ کر دیا اور دوسری طرف فلسطین کے اندر الفتح نے اسلحہ کے زور پر خود فلسطین کے اندر حماس حکومت کو کمزور کرنے کے لیے نہ صرف امن و امان کا مسئلہ کھڑا کر دیا بلکہ حماس کے دفاتر و کارکنوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ مجبوراً حماس کے کارکن بھی جوابی کاروائی پر اتر آئے اور یوں فلسطین خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔

    بالآخر مسائل کے حل کے نام پر ایک مخلوط حکومت قا ئم کروانے کے لیے فلسطینی تنظیموں حماس اور الفتح کے درمیان سعودی عرب میں ایک مفاہمتی معاہدہ ہوا جسے “مکہ معاہدہ“ کا نام دیا گیا ۔ اس مفاہمت میں سعودی عرب کے حکمران شاہ عبداللہ نے دونوں تنظیموں کے رہنماؤں کو سعودی عرب آنے کی دعوت دی تھی۔


    اس معاہدے پر فلسطینی انتظامیہ کے صدر اور الفتح کے رہنما محمود عباس جو کہ امریکن نواز رہنما کے طور پر مشہور ہیں اور فلسطینیوں کی اکثریتی حمایت یافتہ جماعت حماس کے سیاسی شعبے کے رہنما خالد مشعل نے مکّہ میں دستخط کیے تھے۔


    ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ نئی حکومت میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ حماس سے تعلق رکھنے والے اسماعیل ہنیہ کے پاس ہی رہے گا جبکہ کچھ اہم عہدے غیر جانبدار ارکان کو دیے جائیں گے لیکن اب یہ اطلاع آئی ہے کہ اسماعیل ہنیہ بھی غیر متوقع طور پر مستعفی ہو گئے ہیں۔


    امریکہ اور اسرائیل نے دونوں تنظیموں کے درمیان معاہدے پر محتاط رد عمل کا اظہار کیا تھا۔

    امریکی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ ابھی ان کے پاس معاہدے کی تفصیل اور نئی حکومت کی تشکیل کے بارے میں مکمل معلومات نہیں ہیں۔

    اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کی نئی حکومت کو اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہیے، تمام معاہدوں پر عمل کرنا چاہیے اور ’دہشت گردی‘ ترک کرنی چاہیے۔‌‌‌‌


    تجزیہ نعیم رضا
    ماخذ اطلاعات بی بی سی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں