1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏15 دسمبر 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    وطن عزیز کے حالات ، سیاسی و مذہبی جماعتوں کی بےتابیاں ، اور سوئے ہوئے لوگوں کی اچانک بیداری ، لگتا ہے اللہ تعالی کو اس قوم پر رحم آ گیا ہے ۔ اب چہروں پہ پڑے نقاب ہٹنے کا وقت آ چکا ہے ، بہت کچھ ظاہر ہو گا ، کردار ، ارادے اور کوششیں ۔ اللہ ہم پر رحم کرے اور ہمیں ہر فساد اور فسادی سے بچائے ۔ آمین ۔
     
  2. سہیل اقبال
    آف لائن

    سہیل اقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏27 نومبر 2011
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    آمین آپ کی بات بالکل صحیح ہے ۔اصل میں یہ ڈور کہیں‌اور سے ہلتی ہے۔ جس کا ادراک عام آدمی اور مخلص اور کمٹیڈ ورکر کو نہیں‌ہوتا۔
     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    حالت جس رُخ پر جا رہے ہیں ، اب اس میں‌ فساد کا خطرہ نظر آ رہا ہے ۔ اللہ ہم سب کو اور ہمارے پیارے ملک کو ہر بلا سے محفوظ رکھے ، اور شر و فساد کو ہم سے دور فرما دے ۔ آمین ۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    السلام علیکم ۔
    اوپر دوست احباب کی گفتگو کا نتیجہ جو مجھے سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ سہیل بھائی کا موقف ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری سن 2000یا2002 تک اس نظام کو پاکستان کے لیے قابلِ عمل قرار دیتے رہے ہیں اور اسکے حق میں قرآن و حدیث سے دلائل دیتے رہے ہیں۔اور عام طور پر سیاستدان جب موقف تبدیل کرتے ہیں تو اسکے پیچھے خفیہ ہاتھ یا کئی خفیہ اشارے ہوتے جسے سہیل بھائی یا انکے شعبے کے لوگ ہی بہتر جانتے ہیں۔
    جبکہ بھائی محمد اکرم اور رضی الرحمن کا موقف ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری ہمیشہ سے اس نظام کو ناپسند کرتے رہے اور اسکے پیچھے کوئی مخصوص وجہ نہیں۔
    بجائے اس کے کہ ہر دو موقف پر مزید دلائل دیے یا سنے جائیں۔ میرا خیال ہے بہتر ہے ہم ڈاکٹر طاہر القادری ہی کو سن لیتے ہیں کہ انہوں نے مختلف ادوار میں اس نظام سے متعلق کیا موقف اپنائے رکھا ۔



    قارئن کی سہولت کے لیے ڈاکٹر صاحب کی اس کلپ میں‌گفتگو کا متن اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہے۔

    پریس کانفرنس 5جون 1992
    اس نظام انتخابات کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
    1۔ اس نظام میں عوام کی اکثریت کی نمائندہ حکومت کی کبھی تشکیل نہیں ہوسکتی ۔
    2۔یہ نظام سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔
    3۔ یہ نظام ۔ دھن ۔ دھونس اور دھاندلی کے آزادانہ استعمال کا نظام ہے۔
    4۔ اس نظام میں مفاد پرست اور نااہل لوگ اسمبلی میں پہنچتے ہیں کیونکہ اس نظام کے تحت پارلیمنٹ کا ممبر بننے کی اہلیت کی عملا کوئی شرط یا معیار نہیں۔ اس نظام میں ان پڑھ ہو ۔ غنڈہ ہو۔ زانی ہو۔ شرابی ہو ۔ رسہ گیر ہو وہ اس نظام میں اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے ۔
    5۔ یہ نظام گروہی۔ لسانی اور فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات کا باعث ہے۔
    6۔ اس نظام سے کمزور حکومتیں تشکیل پاتی ہیں اورسیاسی استحکام نہیں آسکتا۔
    7۔ اس نظام کی تباہ کاریوں کے باعث عوام کی اکثریت کا اعتماد ووٹ سے ختم ہوچکا ہے۔ دوتہائی سے زائد اہل ووٹر اس نظام انتخابات میں ووٹ ڈالنے نہیں جاتے۔ صرف 18تا20 فیصد مشکل سے ووٹ ڈالتے ہیں اسکے علاوہ باقی سب جعل سازی ہے۔
    8۔ یہ نظام قومی مسائل کا حل نہیں ۔ ہر الیکشن حلقہ و علاقے کے لوکل مسائل پر منحصر ہوکے رہ جاتا ہے۔ اسکے لیے وننگ ہارسز Winning Horses کی ضرورت پڑتی ہے۔ قوم کے اندر قومی شعور ختم ہوجاتا ہے۔کسی پارٹی پروگرام۔ کسی منشور کسی دستور کی کوئی ضرورت نہیں۔ قیادت دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اہلیت ہے یا نہیں اسکی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ نظام انتخابات سراسر الٹی میٹلی ظلم و اندھیر نگری ہے ۔


    دوسرا خطاب ۔ تاریخ ۔2002۔08۔05

    اس ملک کی جمہوریت میں 1947 سے لے کر آج تک خاندانی وراثت ہے۔
    پیچھے 10۔15ہزار امیدوارکی برادری کا ووٹ ہے۔ یہ ارائیں ہے ۔ وہ جٹ ہے۔ وہ چوہدری ہے وہ بٹ ہے۔ برادری کا ووٹ ہے۔
    پھر غنڈہ گردی و دہشت گردی کا ووٹ ۔ اسکے بعد سرمایہ و مال و دولت ۔
    میں سوال کرتا ہوں کتنی سیاسی جماعتیں ہیں جو آج ان 4عناصر کو نظر انداز کر کے کسی شخص کو صرف اسکے کردار پر۔ تعلیم پر۔ اہلیت پر اسکی ڈیلیویری کی صلاحیت کی بنیاد پر ٹکٹ دینے کے لیے تیار ہیں ؟؟؟ وراثت کی سیاست ہے۔
    ایک تعلیم یافتہ شخص ۔ اسکو ٹکٹ صرف اس لیے نہیں ملتا کہ اسکے پاس 50۔60لاکھ خرچ کرنے کو نہیں ۔ وہ 3۔4 بار اسمبلیوں کا ممبر نہیں رہا۔
    اگر آپ نے اسی تسلسل کو ۔ اسی وراثت کو برقرار رکھنا ہے۔تو ملک میں کس قسم کی سیاسی تبدیلی کی بات کرتے ہیں ؟؟؟
    ہمیں بنیادی طور پہ اس پورے کے پورے اجارہ دارانہ سسٹم کو ایڈریس کرتے ہوئے اسے ٹھکرانا ہوگا۔


    15جنوری 2011
    مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے طلبہ سے گفتگو ۔

    ہرطرف سے ایک ہی آواز آتی ہے سسٹم بچایا جائے۔ سسٹم کو بچانا ہے۔ ان سے پوچھیے یہ سسٹم کیا ہے ؟ یہ سارے ادارے ایک ہی سسٹم کا حصہ ہیں جس سسٹم نے اس قوم کو ترقی سے روک رکھا ہے۔ ملک کو تباہی بربادی و ہلاکت کے گڑھوں میں دھکیل رکھا ہے۔ جس سسٹم نے اس قوم کے نوجوانوں کا مستقبل اندھیرا بنا رکھا ہے۔ یہ سسٹم ہے جس نے کرپٹ لوگوں کو اقتدار تک پہچانے کی ضمانت فراہم کررکھی ہے۔ جعلی ڈگریوں والے نکالے جائیں پھر 3 ماہ بعد پلٹ کے اسمبلی میں آتے ہیں ۔یہ سسٹم ہے۔
    لیڈر کیسے بنتے ہیں ؟ پیسے کے ساتھ اور پیسہ آتا ہے کرپشن سے۔ اب آپ نے دیکھا کہ کوئی کرپشن کے خلاف جنگ نہیں ۔صرف سٹیٹ منٹس ہیں۔ عملی سب کرپشن پر متفق ہیں۔ اور سسٹم پر کیوں متفق ہیں کیونکہ یہ سسٹم انکی بقا کا ضامن ہے۔
    اگر آج یہ سسٹم بدل جائے اورموجودہ سیاستدانوں کی اوور ویلمنگ میجارٹی (بھاری اکثریت) اس قابل ہی نہیں کہ وہ لیڈر کہلائیں یاپارلیمنٹ میں بیٹھیں ۔ یہ یونین کونسل کے ناظم بننے کے اہل بھی نہیں۔ انکے دس پندرہ بیس پچاس بندوں سے پوچھیں کہ انکا قومی یا سیاسی ویژن کیا ہے؟ انہیں شاید یہ بھی پتہ نہ ہو کہ ویژن کس بلا کا نام ہے؟ انکا ویژن صرف پیسہ بنانا ہے۔ پاکستان کو بنے ہوئے 63برس ہوگئے ہیں اور اس سارے عرصہ میں شاید ایک سال بھی کسی نے صحیح معنوں میں پاکستان کی ترقی کی جانب struggle نہیں کی۔ وہ شخص کیسا لیڈر ہوسکتا ہے جس کے دن رات جھوٹ میں بسر ہوں۔ دن رات جھوٹ بولے۔ کرپٹ ہو۔ ملک و قوم کا کبھی خیال بھی اسے نہ آتا ہو۔ جس کی سوچ ، جس کی جدوجہد ہر وقت صرف ذاتی ۔ خاندانی اورپارٹی مفادات کے لیے ہو۔ اور 17 کروڑ عوام اس کی ترجیحات ہی میں شامل نہ ہوں ؟
    عوام ۔ نوجوان۔ سوسائٹی ترقی صرف انکے عنوانات ہوتے ہیں۔قوم کو دھوکہ دینے کے عنوانات ہوتے ہیں۔
    اس ظلمت ، تاریکی کے ماحول میں فکری انقلاب درکار ہے۔ دین کو بچانے کی ضرورت ہے۔ایمان کوبچانا ہے۔ اس سوسائٹی کو بچانا ہے۔ نوجوان نسل کو بچانا ہے۔دین سے تعلق کو بچانا ہے۔ نسبت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانا ہے۔ قرآن کے ساتھ تعلق کو بچانا ہے۔ اس فکر کو لے کر سوسائٹی میں پھیلانا ہے۔ چاروں اطراف سے جہالت، ظلمت و تاریکی کے فروغ کی جنگ جاری ہے۔ اس میں آپ علم ۔ شعور۔ ایمان کی شمعیں لے کر نکلیں ۔ اگر آپ کی شمعیں اس تاریکی کو شکست دے دے تو اس سے بڑا انقلاب پاکستان کے اس ماحول میں کیا ہوگا ؟
    ہم ایک بڑے دشوار گذار راستے پر ہیں ۔ہمارے اندر سرے سے Extremism کا بیچ ہی نہیں ہے۔ ہم نہ مذہبی انتہا پسند ہیں اور نہ سیاسی انتہا پسند ہیں۔ ہم ماڈریٹ یعنی اعتدال پسند ہیں۔ امت وسطا ۔ اعتدال پسند امت ہونے کے علمبردار ہیں۔ اور بدقسمتی سے جہاں موجودہ سوسائٹی Extremism کی چکی میں پس رہی ہو وہ اعتدال پسند لوگوں کو اپنی ماڈریٹ فکر کے ساتھ زندہ رہنا اور اسکو طاقتور کرنا کتنا بڑا جہاد ہے یہ پیغمبرانہ کام ہے۔ میرا پیغام ملین لوگوں تک پہنچائیں۔میں نہ ماضی سے کٹی ہوئی تجدد پسندی کا قائل نہیں اور نہ ہی غیر متحرک اور جامد قدامت پسندی کا قائل ہو۔ ہم نے دونوں چیزوں کو ملانا ہے۔ یہ بہت بڑا مشن ہے اور انبیاء کا یہی ورثہ ہے۔


    مندرجہ بالا گفتگو سے یہ بات کلئیر ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر قادری کبھی بھی اس نظام انتخابات سے مطمئن نہیں رہے بلکہ ہمیشہ نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کرتے رہے۔ پھر سوال اٹھ سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب خود اس نظام کا حصہ بن کر اس میں دو بار کیوں شامل ہوئے۔ اسکا جواب بڑا واضح ہے کہ کوئی بھی جمہوریت پسند اور امن پسند شخص پہلے ایک موجودہ نظام کے اندر رہ کر اسکو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ڈاکٹر صاحب بھی غالبا اسی وجہ سے اس کوشش میں رہے ۔لیکن جیسا کہ 25مئی 1989 کو موچی دروازہ لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھ کر اپنی سیاسی جدوجہد کا اعلان کرتے ہوئے ڈاکٹر قادری نے اعلان کیا تھا کہ
    "ہم روایتی پیشہ وارانہ سیاست کرنے اس میدان میں نہیں‌اترے۔ بلکہ ہم اس قوم کا مقدر بدلنے کے لیے اس راہ کو اپنا رہے ہیں ہم ایک یا دو الیکشن لڑیں گے اور دیکھیں گے کہ آیا یہ راہ ہمیں اپنے مقصد یعنی انقلاب مصطفوی کی منزل کی طرف لے جاتا ہے یا نہیں ۔ اگر لے جاتا ہوا تو ٹھیک ۔ ورنہ ہم اس راہ کو چھوڑ دیں گے"
    اپنے اسی وعدہ کے مطابق 1989 اور اسکے بعد 2002کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا۔ (یاد رہے کہ بقیہ انتخابات کا پاکستان عوامی تحریک نے جزوی یا کلی طور پر بائیکاٹ کیا)۔ اور پھر 1998 میں پاکستان عوامی اتحاد کا چئیر مین بن کر پیپلز پارٹی سمیت درجنوں اہم سیاسی رہنماوں اور اسکے بعد جنرل پرویز مشرف کے ہمراہ درجنوں یا شاید بیسیوں آرمی جنرلز کے ساتھ کلوز انٹرایکشن اور نظام بدلنے کی کوششوں کے بےسود ہوجانے کے بعد اور سب سے بڑھ کر 2002 میں قومی اسمبلی کے اندر بیٹھ کر اسکی پوری کٹھ پتلی حیثیت جان لینے کے بعداکتوبر2004میں ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کی قومی اسمبلی کی تاریخ کا پہلا استعفی دے کر اس مفاد پرستانہ اور قوم کو تباہی و بربادی کے گڑھے میں‌دھکیلنے والے نظام سے کنارہ کش ہوگئے۔
    ڈاکٹر طاہر القادری تحریک منہاج القرآن کے ذریعے اس قوم کو منہاج انٹرنیشنل یونیورسٹی ۔ بیسیوں آئی ٹی کالجز ۔پونے چھ سو سکولز۔ سیکنڑوں فری ڈسپسنسریز ۔ پچاسوں ایمبولینس ۔ فری بلڈ بنکس و فری آئی کیمپس ۔ سینکڑوں یتیم ، بےسہارا اور غریب خاندان کے بچے بچیوں کی اجتماعی شادیاں ۔35کروڑ روپے کی لاگت سے جدید ترین معیار کا 500یتیم و بےسہارا بچوں کی پناہ گاہ "آغوش" اور یتیم بچیوں کے لیے پناہ گاہ ۔ "بیت الزاہرا" ۔۔۔شہر شہر میں دروسِ قرآن۔ فری لائبریریز۔ سیمنارز۔۔۔
    اور دنیا بھر کے 90سے زائد ممالک میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کے ذریعے اسلامک سنٹرز بنوا کر دیار غیر میں مقیم مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کا سامان کرنے کے ساتھ ساتھ ۔۔
    امت مسلمہ کوعالمی سطح پر درپیش فتنہ ء دہشت گردی کے خلاف پرامن جنگ میں مصروف ہوگئے اور شرق تاغرب اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر دہشت گردوں کی طرف سے لگائی گئی کالک کو اسلام کے چہرے سے صاف کر کے اسلام کو ایک امن پسند، محبت و اخوت اور اعتدال پسندی والا دین ثابت کرکے دیار غیر میں مسلمانوں کاسرفخر سے بلند کیا۔


    لیکن اس دوران وہ محب وطن پاکستانی کے طور پر ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سوچ و بچار میں بھی طویل میں بھی مصروف رہے اور بالاخر طویل سوچ بچار کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ پاکستانی قوم کے مسائل کی اصل وجہ موجودہ ظالمانہ ، کرپٹ اور اجارہ دارانہ انتخابی نظام کا تماشہ ہے جس نے قوم کو تباہی و ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ اور جب تک اس نظام انتخاب کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر اس کی جگہ متبادل ، عادلانہ ،منصفانہ اور دیانتدارانہ انتخاب نافذ نہیں‌ہوتا قوم کبھی بھی ترقی، فلاح و کامیابی کی طرف نہیں بڑھ سکتی ۔
    اور یہی نتیجہ انہوں نے قوم کے سامنے رکھ دیا اور شاید مستقبل قریب میں وہ اس پیغامِ انقلاب کو ملک کے ہر ہر فرد تک پہچانے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔ انکے پیغام کو قبول کرنا یا مسترد کرنا بلاشبہ قوم کے ہاتھ میں ہے۔ میرا خیال ہے ہمیں غیر جانبدار ہوکر ایک درد مند پاکستانی کے طور پر اتنا غور کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا پیغام کیا ہے؟ اور اس میں قوم کا کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہے۔

    والسلام علیکم۔
     
  5. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، امید ہے کہ سب خیریت سے ہونگے ۔
    نعیم بھائی بہت اچھا کام کیا آپ نے، امید ہے کہ آپ کی فراہم کردہ ویڈیو اور اس کا تحریری خلاصہ دیگر ساتھیوں‌کی غلط معلومات کو درست کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔

    خوش رہیں
     
  6. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    [​IMG]
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    میرے پیارے وطن کے لوگوں
    غور کرو تم غور کرو
    کیوں قول و فعل میں تضاد آیا ؟
    کیا اتنے برس بعد اب یاد آیا ؟
    کیا دل میں اب سمائی ہے ؟
    کیا ڈور کسی نے ہلائی ہے ؟
    اس پیارے وطن پہ ظلم سدا
    ہوتا ہی رہا ہوتا ہی رہا
    نئی بات ہوئی کیا ، یہ اُبال آیا
    یا اک شخص کو دیکھ کر خیال آیا
    وہ شخص کل بھی تھا ، آج رہا
    جو ہمیشہ ہی مستقل مزاج رہا
    جو ہمت سے لڑتا ہی رہا
    جو سچی باتیں کرتا ہی رہا
    جو ناکام رہا ، ناکام ہوا
    مگر اب جا کر مقبول عام ہوا
    جو ملکی تھا ۔ مقامی ہے
    جو لایا ساتھ سونامی ہے
    اسے دیکھ کر انقلاب یاد ایا
    اک بھولا ہوا خواب یاد آیا
    میرے پیارے وطن کے لوگوں
    غور کرو تم غور کرو

    آصف احمد بھٹی
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    السلام علیکم۔
    بالکل درست نظم ہے۔ گوکہ یہ شاعری کی لڑی نہیں ۔ لیکن ظاہر ہے ناظم خاص کو اظہار ِ رائے کی ہر جگہ اجازت ہوتی ہے۔ویسے ۔۔۔۔۔ عقیدت یا بغض وعناد میں اتنی چھوٹی موٹی لغزشیں‌تو سرزد ہوہی جاتی ہیں۔ :208:

    ڈاکٹر طاہر القادری کے اوپر بیان کردہ کلپس اور انکی گفتگو سے تو ہر شخص جان گیا کہ قول و فعل کا تضاد وہاں نہیں اور ویسے بھی ایک مسلمان جب اللہ ورسول :saw: کی قسم کھا کر کہہ دے کہ میں کسی خفیہ اشارے پر نہیں بلکہ ایمانی تقاضے اور جذبہ حب الوطنی کے مطابق یہ قدم اٹھا رہا ہوں‌تو باضمیر مسلمان اسے تسلیم کر ہی لیتے ہیں۔۔۔

    البتہ عمران خان صاحب کا فورٹریس سٹیڈیم میں ایک جلسہ مجھے آج بھی یاد ہے جب عمر شریف اور نصرت فتح علی خان مرحوم سمیت کئی فنکاروں کے ساتھ عمران خان کینسر ہسپتال بن جانے کا جشن منا رہے تھے ۔۔ تو عمر شریف نے عمران خان سے دومطالبات کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔ "عمران صاحب ! نمبر1۔ اب آپ شادی کر ہی ڈالیں۔
    نمبر2۔ آپ نے کینسر ہسپتال بنایا ہے۔ اب سیاست میں آکر سیاست کے کینسر کا بھی علاج کریں"
    عوام نے بھی پرجوش حمایت کے نعرے لگائے۔
    جس پر عمران خان نے کہا تھا کہ شادی والا مطالبہ تو مان لوں گا ۔
    البتہ سیاست میں کبھی نہیں‌آؤں گا۔۔۔
    اور کچھ عرصہ بعد تحریک انصاف وجود میں آگئی ۔
    کہیں قول و فعل کا تضاد اسے ہی تو نہیں کہتے؟
    پھر کرپشن کے خاتمے کے سب سے بلند و بانگ دعوے کرنے والی جماعت اپنے ہی پہلو میں ملک کے کرپٹ ترین عناصر کو خوش آمدید کہنے لگی۔ ہر کرپٹ ۔ قتل کے مقدمات کے ملزمان ۔ دو دو تین تین پارٹیاں‌بدلنے والے۔مشرف کی باقیات سمیت ہر باکردار و بے کردار کے لیے "محفوظ پناہ گاہ" بن گئی ۔۔۔
    کہیں قول و فعل کا تضاد اسے ہی تو نہیں‌کہا جاتا ؟
    چلو ہم کیا احتجاج کریں۔۔۔۔ احتجاج تو پارٹی کے زندہ ضمیر کارکنان خود ہی کررہے ہیں۔ کبھی پارٹی کے دفتروں میں‌کرسیاں چلا کر ۔
    کبھی صوابی میں ۔۔ اور آج قصور میں ایک پارٹی کےزندہ ضمیر کارکنان نے اپنے لیڈر کے خلاف بھرپور مظاہر ہ کردیا ۔
    جس قول و فعل کے تضاد پر اور جن کرپٹ رسہ گیروں و بدمعاش افراد کی شمولیت پرایک پارٹی کے اپنے نظریاتی کارکن ہی احتجاج میں‌کرسیاں‌ ایک دوسرے پر دے پاریں ۔ اس پارٹی پر یہ نظم واقعی صادق آتی ہے۔ :139:
    اور شاید اسے ہی کہتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ لو آپ اپنے دام میں‌صیاد آگیا


    لیکن میرے دل میں کرکٹ کے قومی ہیرو اور بانی کینسر ہسپتال کے طور پر عمران خان کی قدر و منزلت ابھی بھی موجود ہے۔ اب دیکھیے وہ چوروں، لٹیروں، لوٹوں، رسہ گیروں ، بدمعاشوں اور بدعنوانوں کی اکثریت پر مشتمل ٹیم کے ساتھ ملک و قوم کو کیا انقلاب دیتے ہیں۔
     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    اختلاف رائے کا حق تو دیں‌ نا ، جب ہم آپ کی رائے کا احترام کرتے ہیں تو آپ کو بھی دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہیے ، چھلے کچھ عرصے سے اس فورم پر پروفیسر صاحب کے حق میں کتنی ہی لڑیاں‌ بن چکی ہیں‌ ، جن میں کیا کیا کچھ نہ کہا گیا ہو گا ناظم خاص نے ہر ایک دوست کی اختلاف رائے کا احترام کیا اس تمام عرصے میں یہاں تحریک انصاف کے حق میں‌ ناظم خاص نے ایک لڑی بھی نہیں بنائی ، یہ تو سنا تھا کہ صاحب علم طعنے تشنوں سے زخمی نہیں کرتے ، جو بات کرتے ہیں‌ اس کی دلیل رکھتے ہیں‌ ، پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان نے کبھی بھی نہیں کہا کہ ہمارا قائد فرشتہ یا ولی اللہ ہے ، عمران ایک عام سا انسان ہے ، تمام انسانوں والی کمزوریاں اس میں‌ بھی ہیں‌ ، اور اس کا وہ سر عام اعتراف کرتا بھی رہا ہے ، اپنے ماضی کی تمام غلطیوں کی اس نے ایک بار نہیں‌ کئی کئی بار معافی مانگی ہے ، ایک بار جب سیدھا راستہ پا لیا تو اس پر چل پڑا ، پندرہ سال اس ملک کے تمام لوگ اسے پاگل کہتے رہے ، مگر وہ پورے قد کے ساتھ کھڑا رہا ، آج جب لوگ اس کے قد کے سبب اس کی طرف دیکھنے لگے ہیں تو ہر طرف سے انگلیاں‌اس کی طرف اٹھنے لگی ، یہ وہی عمران ہے جسے ون مین شو کا طعنہ دیا جاتا تھا ، آج جب اس کے شو میں دوسرے لوگ شامل ہو رہے ہیں‌تو ۔ ۔ ۔ اپنے قول و فعل کے ہر تضاد پر عمران بہادری کے ساتھ معافی مانگ چکا ہے ، مگر پروفیسر صاحب نے بینظیر بھٹو کے ساتھ اسی نظام کے ساتھ اتحاد کیا تھا ، اور پھر سالوں‌ تک پروفیسر صاحب اور ان ساتھی سندھی ٹوپی سروں پہ سجائے رہے ۔
    اختلاف رائے کا حق دیا جائے اور باہمی محبتوں کو سیاست کی نظر نہ کیا جائے ۔ شکریہ ۔
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    السلام علیکم۔
    اختلاف رائے یقینا ہر کسی کا حق ہے اور ہم پاکستانی ہر طرح کی جابےجا تنقید کے لیے اسی لفظ کا سہارا تو لیے پھرتے ہیں۔ :p_point:
    نئے موضوعات شروع ضرور ہونے چاہیئں تاوقتیکہ وہ اسلام اور پاکستان کے خلاف نہ ہو ۔ کیونکہ اسلام یا پاکستان کے خلاف ہونے کی صورت میں فورم کے بنیادی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی بن جائے گی ۔
    عمران خان یا کسی بھی شخصیت کے حق میں اسکے کارکنان لڑیاں بنائیں ۔ میرا خیال ہے ہر کسی کو اپنے دل کی بات کرنے کا حق ہے۔
    لیکن اگر ماضی قریب میں جائزہ لیا جائے تو بخوبی علم ہوجاتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اپنے نظریات کی مثبت تشہیر یا ترویج کی بجائے محض دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے کا شوق ہے۔ اس لیے وہ نئی لڑیاں بنانے کی بجائے دوسرے موضوعات میں جاکر اپنے "اختلاف رائے" کے اظہار کا آزادانہ استعمال کا حق ہی جتانے کو کل مقصد ِ حیات بنائے بیٹھے ہیں۔
    اور پھر جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے باہم کوئی اختلاف نہیں ۔ نہ دونوں نے کبھی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کی ہے۔ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔ دونوں کی جنگ اس نظام کے خلاف ۔ البتہ اس نظام سے چھٹکارہ پانے کا طریقہ کار دونوں‌کا اپنی اپنی سمجھ کے مطابق جدا ہے ۔ اور پھر ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکنان نے کبھی ایک لفظ بھی عمران خان کے خلاف نہیں لکھا تو پھر میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ عمران خان کے ایک متوالے کو ڈاکٹر طاہر القادری سے ایسا کیا اختلاف رائے ہوگیا کہ حالاتِ حاضرہ کی ہر پوسٹ میں صرف ڈاکٹر طاہر القادری کے نظریات کے خلاف ہی انکی "اختلاف رائے " کی حس جاگ اٹھتی ہے ۔ جبکہ خود ان کے اپنے لیڈر نے کبھی ڈاکٹر طاہر القادری یا انکے نظریات کے خلاف کبھی بیان تک نہیں دیا ؟ کہیں یہ اختلاف نظریاتی سے زیادہ "ذاتی " تو نہیں ؟
    کیا بہتر نہیں کہ جب مقصد ایک ہے یعنی نظام کے خلاف جنگ ۔ اور اس پر طرفین متفق بھی ہیں تو کیوں نہ اسی مشترک مقصد کے مدنظر رکھ کر اسکی طرف پیش رفت کی جائے ؟ تاکہ پہلے سے لخت لخت قوم کو مزید کشیدگی سے بچایا جاسکے ؟؟؟
    اور پھر جب مقصد ایک ہے تو عین ممکن ہے آنے والے کل میں دونوں باہم کسی مشترکہ لائحہ عمل پر متفق ہوکر اکٹھے چل پڑیں تو پھر خدا واسطے کا عناد رکھنے والے عقیدتمندان اور کارکنان کہاں جائیں گے؟
     
  11. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    جب آپ الزام لگائیں گے تو اس کا جواب بھی دینا ہو گا ، کیا اپ ایسی لڑیوں‌ یا ان تبصروں کی نشاندہی کرنا مناسب سمجھیں گے ، یا میں بھی یہی سمجھو کہ ممکن ہے کہ کہیں یہ اختلاف نظریاتی سے زیادہ "ذاتی " تو نہیں ؟
     
  12. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    نعیم بھائی ! ہمارے ہاں کنفیوژن بہت زیادہ ہے۔ کچھ میڈیا کنفیوژ کرتا رہتا ہے، کچھ ہمارے صحافی حضرات، سیاستدان بھی کنفیوژ کرتے رہتے ہیں۔
    طاہرالقادری کی باتیں بہت اچھی تھیں لیکن جب طاہرالقادری نے جیو کے پروگرام لیکن میں ثناء بچہ سے گفتگو کی تو میری کنفیوژن بہت بڑھ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ طاہرالقادری صاحب کی باتوں کو کاٹا جاتا تھا اس لئے وہ بات پوری نہیں کرسکتے تھے اور کنفیوژن بہت بڑھ گئی اور مجھے طاہرالقادری صاحب کا موقف درست نہیں لگا۔ پھر اخبارات میں جو بیانات آئے ان میں بھی کانٹ چھانٹ کی گئی۔
    طاہرالقادری صاحب نے کہا تھا کہ عوام اس انتخابی نظام سے بغاوت کریں تو میرے ذہن میں بہت سے سوالات نے جنم لیا
    1۔ پاکستان کی ایک بڑی آبادی غربت، بے روزگاری، ناخواندگی کا شکار ہے۔
    2۔ پاکستان کی 60 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ ان میں ایک بہت بڑی اکثریت ان پڑھ ہے۔ دیہاتوں میں سیاست گروپ بندی، برادری پر چلتی ہے۔ ہر شخص اپنی برداری کے لوگ کو ووٹ دینےپر فخر کرتا ہے۔ یہ لوگ ان لوگوں کو بھی ووٹ‌دیتے ہیں جو تھانے کچہری میں ان کا خیال کرے۔
    3۔ ہمارے ملک میں مختلف مفاداتی گروہ ہیں۔ ہر گروہ اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور یہ لوگ اسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جو ان کے مفادات کی حفاظت کرے۔ جیسا کہ تاجر گروہ اس پارٹی کو ترجیح دیتا ہے جو ان کے مفادت کی حفاظت کرسکتا ہو۔ ہمارے ہاں‌لینڈ مافیا، شوگرمافیا، سیمنٹ مافیا، سٹاک ایکسینج مافیا، زرعی مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا نے اپنے اپنے گروپ بنائے ہیں اور یہ اسی امیدوار کو ترجیح دیتے ہیں جو انہیں نہ چھیڑے۔
    4۔ ہمارے ہاں بہت زیادہ اخلاقی گراوٹ ہے جس کی مثال قصور کا جلسہ ہے جہاں عوام کرسیاں ہی اٹھا کر لے گئے۔
    5۔ ہمارے ہاں بیوروکریسی، فوج بہت زیادہ طاقتور ہے یہ کسی ایسے سیاستدان کو پسند نہیں کرتے جو انہیں چھیڑے۔
    6۔ ہمارے سیاستدان کو اپنے اپنے مفادات ہیں۔ اگر سیاستدان چاہتے تو اٹھارہویں ترمیم میں انقلابی تبدیلیاں لاسکتے تھے۔ انہوں نے سیاسی پارٹی کو پارٹی لیڈر کی جاگیربنادیا اور سارے پارٹی اراکین کو پارٹی لیڈر کے رحم وکرم پرچھوڑ دیا۔ تیسری بار وزیراعظم کی پابندی ہٹادی، پارٹی الیکشن کے قانون کو سرے سے ختم کردیا۔ تعلیمی نظام صوبوں کو دیکر تعلیم کا بیڑہ غرق کردیا۔ اگر یہ سیاستدان چاہتے تو متناسب نمائندگی کا نظام لاسکتے تھے۔پارلیمانی نظام میں مزید ریفارمز لاسکتے تھے۔
    7۔ مذہب کے نام پر سیاست ہوتی ہے۔ مذہب کو بعض علمائے دین نے کاروبار بنارکھا ہے۔ آج بھی جب کوئی بحران آتا ہے۔ نظام مصطفٰی کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔
    8۔ ہمارے ہاں دانشور حضرات بھی سٹیٹس کو کا حصہ ہیں۔ یہ لوگ پہلے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے تھے۔اب ڈیفنس، گلبرگ کے بنگلوں میں رہتے ہیں۔ اپنی کتاب، کالم، نظم لکھنے کے لئے چائے کا ایک کپ پاس رکھتے تھے لیکن اب اپنے پاس شراب کے پیگ رکھتے ہیں۔ پہلے یہ ریڈیو پر آکر عوام کی رہنمائی کرتے تھے آج یہ دانشور 11 بجے کے ٹی وی شو میں‌شراب کے نشے میں‌آکر گالیاں دیتے ہیں۔ یہ اپنے کالم میں نواز شریف، زرداری اور دیگر سیاستدانوں کا تواتر سے ذکر کرتے ہیں لیکن طاہرالقادری کا ذکر برائے نام کرتے ہیں اور اگر ذکر بھی کریں تو طنزیہ انداز میں کرتے ہیں۔ انہیں مذہبی لوگوں سے سخت چڑ ہے۔ یہ لوگ فیض احمد فیض کو علامہ اقبال سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیں۔
    9۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں، صحافیوں، دانشوروں کی باتوں سے منافقت اور تضاد صاف نظر آتا ہے۔ ہمارے سیاستدان طاہرالقادری، عمران‌خان کو مشرف کا ساتھ دینے پر رگڑا دیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں بھی کسی فوجی آمر نے پال پوس کر سیاسی طور پر جوان کیا۔ ان کے لئے آئی جے آئی بنوائی، انہیں‌خفیہ فنڈ دئیے گئے۔‌آج بھی اصغر خان اپنا کیس لئے پھرتا ہے لیکن سپریم کورٹ کو فرصت ہی نہیں اس کا کیس سننے کے لئے۔
    9۔ اور سب سے بڑھ کر ہماری قوم کی یادداشت بھی بہت کمزور ہے۔ یہ مشرف کی زیادتیوں کو بھی بھول گئی، نواز شریف کی زیادتیاں بھی بھول گئی، کل کلاں‌جو بھی حکومت آئے گی تب قوم کو آصف زرداری نجات دہندہ لگے گا اور تو اور ہمارے سیاسی دانشوروں کی دانشوروں کی یادداشت بہت کمزور ہے۔ کل نواز شریف نے جن اخبارات (روزنامہ جنگ) کو اپنے اوپر تنقید کرنے کے جرم میں بند کرنے کی کوشش کی آج وہی اخبارات اسے نجات دہندہ قرار دیتا ہے۔ انہیں اخبارات میں نواز شریف کی خبر کو پہلے صفحے پر نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ہے لیکن طاہرالقادری صاحب کے جلسہ یا بیان کو آخری یا اندرونی صفحہ پر شائع کیا جاتا ہے۔

    ہمارے ہاں سب کے سب سٹیٹس کو کے پجاری ہیں۔ ان حالات میں طاہرالقادری صاحب کیا کریں گے؟ اس قوم نے اقبال کے کلام سے کچھ نہیں سیکھا، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم صرف تقریروں تک محدود رہ گئی ہے۔ اس قوم کو اللہ تعالٰی نے خلفائے راشدین، شیرشاہ سوری، علاوالدین خلجی، قائداعظم، صلاح الدین ایوبی، بابا فرید اور بابا بلھے شاہ کا کلام، حضرت داتا گنج بخش، بہاوالدین ذکریا اور دوسرے اولیائے کرام سے نوازا اور سب سے بڑھ کر دنیا کی عظیم ترین شخصیت حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم دی لیکن یہ قوم اچھی مثالیں اور حکومتی ماڈل یورپ، امریکہ سے تلاش کرتی ہے ۔ سچ میں یہ کنفیوژڈ قوم ہے اور اسے ہمارے میڈیا، دانشوروں، سیاستدانوں، تعلیمی نظام نے کردیا ہے۔ ورنہ کرپٹ سے کرپٹ آدمی بھی اچھے لیڈر کے پیچھے چل کر اپنی اصلاح کرسکتا ہے۔
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: فرنٹ‌لائن پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی فکر انگیز گفتگو

    السلام علیکم۔ راشد بھائی۔ آپ کے الفاظ سے درد دل اورحب الوطنی ظاہر ہوتی ہے۔
    میں آپ سے متفق ہوں کہ صحافت بھی الا ماشاءاللہ ایک صنعت کے طور پر چلتی ہے۔ ہر چینل کی اپنی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ ہر اینکر اپنی اہمیت و قیمت بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور بات کو موڑ توڑ کر پیش کرنا بھی انہی کا خاصہ ہوتا ہے۔ فرنٹ لائن میں لیا گیا انٹرویو 2گھنٹے کا تھا جو کہ ٹی وی سکرین پر اشتہارات نکال کر صرف 38منٹ کا نشر ہوا اس میں بھی اینکر کی اپنی گفتگو بھی تھی۔ اب آپ اندازہ کرلیں کہ انٹرویو کا کیا حشر ہوسکتا ہے۔

    اگر ڈاکٹر طاہر القادری کے نظریات اورمجوزہ پروگرام کو یکسوئی سے دیکھنا ہے تو مندرجہ ذیل لنکس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

    http://www.youtube.com/watch?v=RHzCztSPkPs

    اور اے آر وائی پر پی جے میر کے ساتھ کیواینڈ اے میں گفتگو بھی بہت فکر انگیز ہے۔

    پارٹ 1۔۔
    http://www.youtube.com/watch?v=5uMpXWyebnA

    پارٹ 2۔۔
    http://www.youtube.com/watch?v=QRXUubG2I30
     

اس صفحے کو مشتہر کریں