1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فتح مکہ اور رسولِ رحمتؐ کی عظمت فات حافظ محمد ادریس

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 مئی 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    فتح مکہ اور رسولِ رحمتؐ کی عظمت فات حافظ محمد ادریس
    سیرت طیبہؐ میں فتح مکہ اہم ترین واقعات میں سے ہے۔ یہ 8ہجری میں ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں واقع ہوا۔ اس غزوہ میں آنحضورؐ کی عظمت جوبن پر نظر آتی ہے۔ فتح مکہ کے وقت نبی اکرمﷺ کداء جو مکہ کے زیریں علاقے میں واقع ہے‘ کے راستے شہر میں داخل ہوئے۔ آپؐ اس وقت اپنی ناقہ قصویٰ پر سوار تھے اور لوگوں نے دیکھا کہ آپؐ نے کجاوے کے اوپر ہی اللہ کے سامنے سجدہ کیا۔ آپؐ کی زبان پر تہلیل و تحمید جاری تھی۔ آپؐ اس وقت سورۃ الفتح کی تلاوت فرمارہے تھے۔ اس کا تذکرہ امام بخاری نے فتح مکہ کے باب میں حضرت عبداللہ بن مغفلؓ کی زبانی کیا ہے۔الغرض جس مکہ سے آپ کو ظلم و ستم کے ساتھ نکالا گیا تھا‘ اس میں صرف آٹھ سال کی مختصر سی مدت میں فاتحانہ واپسی ایک عظیم معجزہ ہے۔
    جب آپؐ مکہ میں داخل ہوئے‘ تو اس وقت حضرت اسامہ بن زیدؓ آپ کے پیچھے آپؐ کی اونٹنی پر سوار تھے۔ اس موقع پر ایک شخص آپ سے راستے میں ملا‘ وہ آپ سے کوئی بات کرنا چاہتا تھا‘ لیکن اس پر ہیبت طاری ہوگئی۔ آپؐ نے اسے تسلی دی اور فرمایا کہ اللہ کے بندے پرسکون رہو۔ میں ایک ایسی قریشی خاتون کا بیٹا ہوں ‘جو خشک گوشت کے ٹکڑے کھایا کرتی تھیں۔ بعض روایات میں کسی خاتون کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ آنحضورﷺ سے ملاقات کے وقت لرزہ براندام ہوگئی تو آپؐ نے اس سے بھی یہی فرمایا۔ یہ عظمت اور یہ انکسار! سبحان اللہ! یہ آمنہ کے درِّ یتیم ہی کا کمال اور انسانیت پر احسانِ عظیم ہے۔ آپؐ کیلئے حضرت زبیربن العوامؓ نے آپؐ کے حکم کے مطابق حجون کے مقام پر چمڑے کا ایک خیمہ نصب کروایا۔ آپؐ فتح مکہ کے روز اور اس کے بعد کے ایام اسی خیمے میں مقیم رہے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ اور حضرت میمونہؓ بھی اس خیمے میں آپؐ کے ساتھ مقیم تھیں۔ لوگوں نے آنحضورﷺ سے سوال کیا یا رسول اللہ!آپؐ کسی کے گھر میں قیام نہیں فرمائیں گے‘ تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا ہے جہاں مقیم ہوجائیں؟ حضور اکرمؐ اور بنو ہاشم کے صحابہ و صحابیات جب ہجرت کرکے حبشہ اور مدینہ چلے گئے تو ان کے تمام مسکن و مکان آپ کے چچا زاد عقیل بن ابی طالب کی تحویل میں آگئے۔ انہوں نے ان آٹھ سال میں یہ مکانات فروخت کر دیے۔ آپؐ نے اسی جانب اشارہ فرمایا تھا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ آپؐ کسی دوسرے گھر میں مقیم ہوجائیں ‘لیکن آپؐ نے فرمایا نہیں میں یہیں مقیم رہوں گا۔ (مغازی للواقدی)
    اس غزوہ میں حضرت جابرؓ آنحضور ﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ تک ہم رکاب رہے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب آپؐ مکہ میں داخل ہورہے تھے تو ایک مقام پر کھڑے ہو کر آپؐ نے شہر کے مکانات کو بھی دیکھا‘ شعب ابی طالب کی جانب بھی نظر اٹھائی‘ پھر اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے ہوئے کہا: جابر ہم اپنے خیمے میں مقیم رہیں گے۔ یہی ہماری منزل ہے۔ قریش نے شعب ابی طالب میں ہمیں محصور کرتے وقت اسی مقام پر عہدوپیمان باندھے تھے اور قسمیں کھائی تھیں‘ جہاں ہمارا خیمہ نصب ہے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ہمارے سامنے وہ کشادہ نالہ تھا‘ جہاں بنو ہاشم اور آپؐ تین سال تک محصور رہے تھے۔ یہاں سے اونٹنی پر سوار ہو کر آپؐ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔ آپؐ نے اور صحابہؓ کرام نے احرام نہیں باندھ رکھے تھے۔ اس موقع پر آپؐ نے صحابہؓ کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ یہ طواف اونٹنی پر سوار ہو کر کیا گیا تھا۔ عمرہ آپؐ نے بعد میں ادا کیا تھا۔آپؐ نے خانہ کعبہ میں داخلے کے وقت تکبیر بلند آواز سے کہی تھی اور صحابہ نے بھی مسلسل تکبیر کے نعرے لگائے ‘مگر کچھ دیر بعد آنحضور ﷺ نے اشارے سے انہیں منع فرمایا کہ وہ سکوت اختیار کریں‘ یعنی دل میں تکبیر‘ تحمید‘ تہلیل اور تقدیس پڑھیں‘ پھر صحابہ کے سامنے نبی اکرمﷺ نے اس موقع پر سورۃ الفتح کا آخری رکوع بھی تلاوت فرمایا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ اور غلبۂ اسلام کی خوش خبری سنائی تھی۔ یہ سورت صلح حدیبیہ کے وقت آپؐ پر نازل فرمائی گئی۔صاحبِ قرآنؐ ان آیات کی تلاوت فرما رہے تھے تو پورے ماحول پر سکینت کی چادر تن گئی تھی۔ صحابہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ حرمِ مکہ کے درو دیوار بھی جھوم اٹھے اور مقامِ ابراہیم و چشمۂ زمزم پر بھی ایک روحانی کیفیت طاری تھی۔
    خانہ کعبہ کی کلید برداری قریش کے قبیلہ بنو شیبہ کے پاس تھی۔ وہ لوگ ہفتے میں دو دن پیر اور جمعرات کو خانہ کعبہ کا دروازہ کھولتے تھے۔ ایک مرتبہ کلید بردار نے آنحضورؐ کیلئے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ آپؐ نے کلید بردار عثمان بن طلحہ سے فرمایا: اے عثمان تو عن قریب دیکھے گا کہ یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جہاں چاہوں گا ‘اسے رکھوں گا۔ اس پر کلید بردار نے کہا: کیا ان دنوں قریش ہلاک اور ذلیل ہوچکے ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں‘ بلکہ وہ آباد وشاد کام اور باعزت ہوں گے۔ آنحضورؐ کی ہجرت کے کئی سال بعد عثمان بن طلحہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عمرو ابن العاص کے ساتھ مکہ سے مدینہ آگیا۔ یہ تینوں اکٹھے مسلمان ہوئے۔ آنحضورؐ ان کے مسلمان ہونے پر بہت خوش ہوئے۔ فتح مکہ کے دن آپؐ نے عثمان بن طلحہ سے چابی مانگی تو وہ اپنی والدہ کے پاس چابی لینے چلا گیا۔ اس کی والدہ نے چابی دینے سے انکار کر دیا۔ اس نے کافی کوشش کی ‘مگر اس کی والدہ چابی دینے کیلئے آمادہ نہ ہوئی۔ جب کچھ وقت گزر گیا‘ تو آنحضورؐ کے حکم سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بنو شیبہ کے ہاں گئے۔ جب ان دونوں کی آواز آئی تو عثمان بن طلحہؓ کی والدہ حضرت عمرؓ سے خوف زدہ ہوگئی اور کہنے لگی کہ بنو تیم یا بنو عدی کے کسی فرد کو تو میں یہ چابی نہیں دوں گی‘ پھر اپنی شلوار کے نیفے سے چابی نکال کر اپنے بیٹے کو دے دی۔ ساتھ ہی کہا کہ تمہاری یہ ذمہ داری ہے کہ اسے واپس لے کر آئو۔عثمان بن طلحہ چابی لے کر آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا :میں پھر سے گواہی دیتا ہوں کہ آپ‘ؐ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ خانہ کعبہ کو کھولنے اور بتوں سے پاک صاف کرنے کا عمل مکمل ہوا تو آپؐ خانہ کعبہ کے دروازے میں نمودار ہوئے۔ آپؐ کے قدم خانہ کعبہ کی دہلیز پر تھے۔ حضرت عباسؓ دروازے کے نیچے کھڑے تھے ۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر کہا ''اے اللہ کے رسولؐ چابی مجھے دے دیجیے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا نہیں! انہوں نے پھر وہی سوال دہرایا تو آپؐ نے پھر انکار کیا۔ اب نبی رحمتؐ نے عثمان بن طلحہ کو بلایا اور فرمایا عثمان لو یہ چابی۔ آج میں تمہیں یہ دے رہا ہوں‘ جو شخص تم سے یہ چابی چھیننے کی کوشش کرے گا‘ اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہوگا۔
    اللہ تعالیٰ کی قدرت اور نبی اکرمؐ کا معجزہ ہے کہ خانہ کعبہ کی چابی آج تک بنو شیبہ کے پاس ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں