1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غیر مسلموں کو عبادت گاہ کی اجازت شرعی یا خلاف شریعت ہے 8

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏3 جولائی 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت امام ابن کثیرؓ تصریح فرماتے ہیں:

    وأن لا نظهر الصليب على كنائسنا وأن لا نظهر صلبنا ولا كتبنا في شيء من طرق المسلمين ولا أسواقهم ولا نضرب نواقيسنا في كنائسنا إلا ضرباً خفيفاً وأن لا نرفع أصواتنا بالقراءة في كنائسنا في شيء من حضرة المسلمين ولا نخرج شعانين ولا باعوثاً ولا نرفع أصواتنا مع موتانا ولا نظهر النيران معهم في شيء من طرق المسلمين ولا أسواقهم ولا نجاورهم بموتانا ولا نتخذ من الرقيق ما جرى عليه سهام المسلمين وأن نرشد المسلمين ولا نطلع عليهم في منازلهم. قال فلما أتيت عمر بالكتاب زاد فيه ولا نضرب أحداً من المسلمين شرطنا لكم ذلك على أنفسنا وأهل ملتنا وقبلنا عليه الأمان فإن نحن خالفنا في شيء مما شرطناه لكم ووظفنا على أنفسنا فلا ذمة لنا وقد حل لكم منا ما يحل من أهل المعاندة والشقاق.( تفسیر ابن کثیر ج2 ص348)

    (1)’’ ہم اپنے گرجاؤں کے فلک بوس میناروں پر صلیب بلند نہیں کریں گے۔

    (2) ہم اپنی صلیبوں اور کتابوں کو مسلمانوں کے راستوں اور منڈیوں میں نہیں لائیں گے یعنی ان کے سرعام سٹال نہیں لگائیں گے۔

    (3) ہم اپنےگرجوں کے اندر بھی اونچی آواز سے ناقوس نہ بجائیں گے۔

    (4) ہم اپنے گرجوں کے اندر بھی اونچی آواز سے اپنی کتاب کی قراءت نہ کریں گے۔

    (5) اپنی عیدیں (شعانین اور یعوث) پڑھنے کے لیے کسی کھلے گراؤنڈ میں نہ نکلیں گے۔

    (6) ہم اپنے مردوں پر بلند آواز سے نہیں روئیں گے اور نہ اپنے مردوں کے ساتھ آگ لے کر چلیں گے ۔

    (7) اپنے مردوں کو مسلمانوں کے قبرستان کے قریب دفن نہیں کریں گے۔ اگر ہم ان تمام شرطوں کو جن کو ہم نے از خود اپنے تجویز کیا ہے ان میں سے کسی ایک شرط کی خلاف ورزی کریں گے تو عہد ذمہ ختم ہوگا اور مسلمانوں کو ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہوگا جس طرح ان باغی کافروں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں