1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غیرمسلموں کے احترام میں مساوات

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏23 فروری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت عمرو بن العاص ؓ مصر کے گورنر ہیں، ان کا بیٹا ایک مصری قبطی کو درّہ مارتاہے اور کہتا ہے: میں معزز لوگوں کا بیٹا ہوں۔ وہ قبطی مصر سے چلتا ہے اور مدینہ میں امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب ؓکے پاس پہنچ کر شکوہ کناں ہوتا ہے۔ پھر معلوم ہے کیا ہوا؟ واقعہ کی تفصیل ملاحظہ ہو :
    حضرت انس بن مالک ؓاس واقعہ کے راوی ہیں، بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عمر فاروقؓ کے پاس بیٹھے تھے کہ مصر سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے امیرالمؤمنین، یہ مقام ہے جان کی امان پانے کا۔ آپؓ نے پوچھا: کیا مسئلہ ہے؟ اس نے کہا: عمروبن العاص ؓنے مصر میں گھڑدوڑ کا مقابلہ کروایا۔ میرا گھوڑا سب سے آگے نکل گیا، جب لوگوں نے دیکھا تو محمد بن عمرو اُٹھا اور کہنے لگا: ربّ ِکعبہ کی قسم!یہ میرا گھوڑا ہے، لیکن جب گھوڑا قریب آیا تو میں نے پہچان لیا اور میں نے کہا: ربّ کعبہ کی قسم !یہ میرا گھوڑا ہے۔ محمد بن عمرو نے کوڑ ا پکڑا اور مجھے مارنے لگا اور ساتھ کہہ رہا تھا ،میں شرفا کا بیٹا ہوں، تو جب اس کے باپ عمرو کو یہ اطلاع ملی تو اس نے اس خطرے سے کہ کہیں میں آپ کے پاس نہ چلا جاؤں، مجھے جیل میں بند کردیا۔ میں وہاں سے نکل بھاگا اور اب آپ ؓکے پاس آیا ہوں۔

    یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اسے بٹھایا اور پھر عمرو بن العاص ؓکی طرف یہ خط لکھا: ''جونہی میرا یہ خط تجھے ملے تو فوراً میرے پاس پہنچو اور ساتھ اپنے بیٹے کو بھی لیتے آؤ ۔ '' اور مصری سے کہا: عمرو کے آنے تک مدینہ میں ٹھہرو۔ جب خط پہنچا تو عمروبن العاص ؓنے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا:تو نے جرم کیا ہے؟اس نے کہا: نہیں۔ کہا: پھر عمر ؓ نے تیرے متعلق یہ خط کیوں لکھا ہے؟ الغرض وہ عمرؓ کے پاس حاضر ہوئے۔

    انسؓ کا بیان ہے کہ ہم عمرؓ کے پاس بیٹھے تھے کہ ہم نے عمروبن العاصؓ کو دیکھا، وہ ایک چادر اور تہبند پہنے سامنے کھڑا تھا۔ حضرت عمرؓ نے نگاہ دوڑائی کہ آیااس کا بیٹا بھی موجود ہے کہ نہیں۔ دیکھا تو وہ بھی اپنے باپ کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس دوران مصری بھی پہنچ چکا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے پوچھا: مصری کہاں ہے؟
    مصری: میں موجود ہوں۔
    عمرؓ: درہ پکڑو اور اس معززین زادہ کو مارو۔
    مصری نے درّہ پکڑا اور اسے مار مار کر لہولہان کردیا۔ ہم بھی خوش تھے کہ وہ اس کو مارے، لیکن مصری نے اسے اتنا زیادہ مارا کہ ہم نے چاہا کہ اب وہ اسے چھوڑ دے۔ حضرت عمرؓ کہہ رہے تھے : اس معززین زادہ کو اور مارو۔پھر حضرت عمرؓ نے کہا: اب یہی درہ عمرو (بن العاص) کی کمر پر بھی رسید کرو، اللہ کی قسم! اس کی حکومت کے بل بوتے پر اس نے تجھے مارا تھا۔
    مصری: امیرالمومنین، میں نے اپنا پورا پورا بدلہ لے لیا۔ اے امیرالمومنین میں نے اس کو مار لیا جس نے مجھے مارا تھا۔
    عمرؓ: اللہ کی قسم! اگر تو اس کو مارنا چاہے تو ہم نہیں چھڑائیں گے ،یہاں تک کہ تو خود چھوڑ دے اور عمرو بن العاص ؓکو مخاطب کرکے فرمایا:
    ''تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا، حالانکہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوئے ہیں؟'' عمروؓ بن العاص نے معذرت کی اور کہا: مجھے اس کا علم نہیں تھا۔ پھر عمرؓ مصری کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اب تم جاسکتے ہو ،اگر دوبارہ کوئی اندیشہ ہو تو مجھے لکھو۔''
    التذکرة الحمویة: ٢٠٩٣،٢١٠ وأخبار عمر للطنطاوي:ص١٥٥،١٥٦

    عدل و انصاف کی پوری تاریخ اس واقعہ پر انگشت بدندان ہے اور عقل محو تماشا لب ِبام۔ حضرت عمرؓ کی حکومت کا یہ مرکزی اُصول٭ تھا :
    ''ألا إن أقواکم عندي الضعیف حتی آخذ الحق له وأضعفکم عندي القوي حتی آخذ الحق منه۔''
    تاریخ دمشق: ٣٠٢٣٠ وجمہرة خطب العرب: ١٨٠١

    ''تم میں سے قوی ترین شخص بھی میرے نزدیک اس وقت تک کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے حق وصول نہ کرلوں اور تم میں سے کمزور ترین میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک میں اس کا حق اسے دلوا نہ دوں۔''
     
    آصف احمد بھٹی اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں