1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غصہ اور نفرت

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏7 مئی 2009۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    وہ ایک بے حس قوم تھی، ناانصافی، مہنگائی میں پسی ہوئی، ہر ظلم وزیادتی خاموشی سے برداشت کرنیوالی، مایوسی کے اندھیروں میں پھنسی ہوئی،امیرامیر ترہوتا جارہا تھا اور غریب غریب تر، یہ فرانسیسی قوم تھی آخر کار اس قوم کی بے حسی اور برداشت غصے اور نفرت میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی انہوں نے روٹی کے لئے احتجاج کرنا شروع کردیا تو ملکہ نے لوگوں کو احتجاج کرتے دیکھ کر کہا کہ اگرانہیں روٹی نہیں مل رہی تو کیک کھالیں۔

    اس احتجاج کے کچھ دن بعد ایک مالی بادشاہ کے محل کے کسی کمرے میں غلطی سے گھس گیا، معاملہ عدالت میں چلا گیا، عدالت نے مالی کو کوڑوں کی سزاسنادی، گماشتے مالی کو مار رہاتھا اور لوگ بے‌حس ہوکرمجمع کی صورت میں تماشہ دیکھ رہے تھے، مالی گماشتے کی مار کی تاب نہ لاسکا اور مرگیا تو مجمع میں سے کسی شخص نے گماشتے کو پتھر ماردیا جواب میں گماشتے نے مجمع کو گالی دیدی توتھوڑی دیر بعد اس کی وہاں لاش ملی، یہیں سے انقلاب فرانس کا آغاز ہوا۔اس کے بعد عوام نے یہ سلسلہ پکڑلیا اور اشرافیہ، وزراء، امراء کو قتل کرکےکسی نہ کسی چوراہے پر لٹکانا شروع کردیا۔ عوام نے گردنیں کاٹنے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیا۔

    مسولینی اٹلی کا ایک فاشسٹ حکمران تھا، جب لوگ اس کے ظلم و ستم سے تنگ آگئے تو لوگوں نے اسے سر عام پھانسی دیدی اور اس کی لاش کو دو دن تک لٹکائے رکھاتاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بنا، ایک عرصے تک یہاں فوجی حکومت قائم رہی آخر کار جنرل ارشاد کے خلاف عوام اٹھ کھڑی ہوئی تو مرد، بچے، عورتیں سب سڑکوں پر آگئے اور اس وقت تک گھر نہیں گئے جب تک جنرل ارشاد حسن کی حکومت ختم نہ ہوئی۔

    تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کوئی بھی قوم پہلے بے حس ہوتی ہے پھر اس کی بے حسی غصے اور نفرت میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہی غصہ اور نفرت کسی بڑی تبدیلی کا موجب بنتا ہے۔ مشرف دور میں مہنگائی، بیروزگاری، ناانصافی، لاقانونیت عام ہوگئی ہے۔ پاکستانی قوم قیام پاکستان سے اب تک حکمرانوں کی ظلم وزیادتی کا شکار بنتی آرہی ہے لیکن پھر بھی ظلم وزیادتی برداشت کرتی آرہی ہے۔ ہر ایک نے عوام کی امنگوں اور امیدوں کے ساتھ کھلواڑ کیا لیکن پھر مشرف کا دور آیا۔ جس میں کبھی بے گناہوں کو گھروں سے اٹھاکر امریکہ کے حوالے کیا جاتا اور ڈالر چھاپے جاتے، کبھی بگٹی جیسے بزرگ پر فوجی یلغار کی جاتی، کبھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں معصوم بچیوں کو نشانہ بنایا جاتا

    کبھی چیف جسٹس کو لوگوں کوانصاف دینے پر معزول کیا جاتا، ان کے بال کھینچے جاتے، کبھی 12 مئی جیسے واقعات کو اپنی طاقت کہا جاتا، کبھی وکلاء پر لاٹھی چارج اور تشدد کیا جاتا، کبھی عوام کو آٹے کے حصول کے لئے لمبی قطاروں میں‌لگایاجاتا، کبھی مخالفین کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جاتا، کبھی ایمرجنسی کا نفاذ کرکے میڈیا کو خاموش اور کبھی ججوں کو نظر بند کیا جاتا، کبھی سٹاک ایکسیینج کو اوپر نیچے کرکے اربوں روپے ڈبودئیے جاتے، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا گیا۔لوڈشیڈنگ نے بیروزگاری میں اضافہ کردیا۔ این آر او کےذریعے جرائم پیشہ اور کرپٹ افراد کے گناہ معاف کرنے شروع کردئیے۔لوگوں کی بے حسی نفرت اور غصے میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی، لوگ حکومت کی پالیسیوں اور زیادتیوں پر کڑھنا شروع ہوگئے


    پھر 18 فروری آیا لوگوں نے ایک بار پھر ووٹ کا اس امید پر استعمال کیا کہ شاید یہ لوگ منتخب ہو کر ہماری پریشانیاں کم کریں لیکن پھر دھوکا، نہ جج بحال ہوئے، این آر او کے تحت گناہ معاف کرانیوالے عوام کے خیرخواہ بن کردوبارہ آگئے۔ نہ عوام کی تکالیف کم ہوئی، پھر وہی کھیل تماشے، معاہدوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ قرآن وحدیث نہیں ہوتے۔ ججوں کو اس ڈر سے بحال نہ کیا گیا کہ کہیں این آر او کالعدم نہ ہوجائے، حکومتی معاملات کو لٹکادیا گیا، بلوچستان کا مسئلہ حل نہ ہوسکا، صوبہ سرحد کی شورش برقرار ہے، سی این جی، بجلی کی قمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، آٹا، چینی اور دیگر بنیادی ضروریات مہنگی ہورہی ہیں۔لوگوں کو ایک بار پھر انصاف تک رسائی ناممکن بنادی گئی۔

    پھر پی پی نے پنجاب کو کنٹرول کرنے کے لئے ڈوگرہ عدالتوں کے ذریعے وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف کو نااہل قراردلوایا، گورنرراج نافذ کردیا گیا، عوام پھر غصے میں، کہیں ٹائروں کو آگ لگ رہی ہے کہیں زرداری ہائے ہائے کے نعرے لگ رہے ہیں، پھر وکلاء اور سیاسی جماعتوں نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو تاجروں کے کنٹینرز پکڑ کر راستے بند کردئیے گئے، کبھی مخالفین کو ہراساں کیا جاتا، لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر تھانوں میں‌بند کردیا جاتا رہا، پھر عوامی غصہ مزید بڑھ گیا اور آخر کار سولہ مارچ آگیا، وکلاء اور لوگوں کا قافلہ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا، حکومت بوکھلاگئی پھر وہی لاٹھی چارج، آنسوگیس لیکن لوگ کامونکی تک تھے کہ حکومت کی طاقت جواب دے گئی اور جج بحال ہوگئے،عوامی طاقت کوجھٹلایاجانے لگا، کہا گیا کہ ہم نے محترمہ کی خواہش پوری کردی، اس کا کریڈٹ صدر کو جاتا ہے، خود کو دنیا میں تماشہ بنالیا۔آئے روز اپنی نااہلی کا ثبوت دیاجارہا ہے، امریکہ سے خیرات طلب کرکے اپنے ملک میں شورش پھیلائی جارہی ہے۔

    عوام کی برداشت کا امتحان لیا جارہا ہے۔عوام کی برداشت کو کمزوری سمجھاجاتا ہے، عوام بظاہر بے حس نظر آرہی ہے لیکن اپنے اندر غصہ اور نفرت پال رہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ غصہ جوالا مکھی کی صورت میں پھٹے اور ذمہ داروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ ان کا غصہ اور نفرت وہی فرانس والا نقشہ پیش کرے گا کہ روز گردنیں ماری جائیں، روز کسی نہ کسی چوراہے پر اشرافیہ کی لاشیں جھولتی نظر آئیں۔ کسی دانشور کا کہنا ہے کہ اگر عدالتیں انصاف کرنا بند کردیں تو لوگ خود انصاف کرنا شروع کردیتے ہیں، اگر حکومت عوام پر ظلم وستم شروع کردے تو پھر آئے روز باغی پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

    مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی اور ظلم وستم کی چکی میں پسی عوام یہ بھول جاتی ہے کہ وہ کس صوبے، کس فرقے، کس علاقے سے تعلق رکھتی ہے۔آج بھی بہت سے ہنگامے اور احتجاج نظر آرہے ہیں، بلوچستان سلگ رہا ہے، کلرک، اساتذہ اپنے حقوق کے لئے احتجاج کررہے ہیں، کوئی علاقہ پولیس کے ظلم وستم سے تنگ آکر سڑکوں پر لاشیں رکھ کرسڑک بلاک کردیتا ہے، کوئی دوسالہ بچی کے گٹر میں گرنے پر احتجاج کررہا ہے، کوئی سوات معاملہ پر احتجاج کررہا ہے، کہیں‌ لودشیڈنگ پر احتجاج ہورہا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سب احتجاج مل کر ایک بڑے احتجاج کی صورت اختیار کرلیں اور حکومت کے لئے صورت حال سنبھالنا مشکل ہوجائے۔
     
  2. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام عرصہ سے بے حس ہے اور کبھی کبھار اسکی بےحسی غصہ اور نفرت میں بدل جاتی ہے لیکن اس نفرت اور غصہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ نا اہل حمکران چن لیتی ہے :neu:
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    السلام علیکم ۔ راشد بھائی ۔
    آپ نے بہت اچھی باتیں تحریر کیں۔ اللہ تعالی آپ کے جذباتِ حب الوطنی میں اور اضافہ فرمائے اور ساری پاکستان کو شعور کی دولت عطا کرے۔ آمین

    آپ نے انقلابِ فرانس کی بنیاد کی طرف اشارہ کیا۔ واقعی ایسا ہی ہوا تھا ۔
    آپکے علم میں ہوگا کہ چین کا انقلاب بھی کچھ ایسی ہی بنیاد سے اٹھا تھا جہاں پر عوام کو طویل عرصے سے بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر عملاً ذلت کی غلامی کی طرف دھکیل دیا گیا تھا۔ بادشاہ و امراء عیاشیاں کرتے تھے اور عوام روٹی کے لقمے کو ترستے تھے۔
    ایک روز بادشاہ یا گورنر کے خانسامے بازار میں گوشت خریدنے آئے تو انکے ساتھ ایک کتا بھی تھا۔ بادشاہ کے نوکروں نے گوشت اور دیگر اشیائے خوردونوش خریدیں اور کھانے کا ایک ٹکڑا کتے کے آگے ڈال دیا ۔ قریب ہی ایک بوڑھی خاتون کئی دن سے بھوکی تھی ۔ اس نے جب کتے کو اعلی خوراک کھاتے دیکھا تو صبر نہ کر سکی اور کتے سے خوراک کا ٹکڑا چھین لیا ۔ اس پر بادشاہ کے نوکروں میں سے کسی نے بندوق کا بٹ اس بوڑھی عورت کا مارا جس سے وہ مر گئی ۔
    بس اسی واقعے سے عوام کے اندر اس شاہی نظام کے خلاف نفرت کا ایسا لاوا اٹھا جو بعد ازاں عظیم انقلاب پر منتج ہوا۔

    لیکن ہمارے ہاں ، اس قوم کے مقدر سے کھیلنے والوں نے بڑی سازش کر رکھی ہے۔ یہاں عوامی لاوے کو پک کر اس درجہ فارن ہائیٹ پر نہیں پہنچنے دیا جاتا کہ جہاں یہ لاوا اس ظالمانہ نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانا والا بن جائے۔ بلکہ یہاں پر کبھی جمہوریت اور کبھی آمریت کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ عوام کچھ عرصہ پِس جانے کے بعد جب اس نظام سے بیزار ہونے لگتی ہے تو فوراً عالمی اور ملکی میڈیا کے ذریعے اس وقت کے حکمران کو ہٹا کر اسکی جگہ کوئی چہرہ، کوئی اور نعرہ، کوئی اور منشور عوام کے سامنے رکھ کر عوام کے اسکے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔
    کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر عوام کے اپنے پیچھے لگایا گیا۔ پھر قوم مایوس ہوگئی کہ غیر دینی لوگوں سے کچھ نہ ملا تو اچانک ایک آمر امیر المومنین بن کر سامنے آگئے ۔ 11 سال تک عوام کو شریعت کی خوشخبریاں سناتے رہے۔ شرعی عدالت بھی بنا ڈالی لیکن شرعی عدالت کو حکم دے دیا کہ آپ اگلے 10 سال تک ملک کے سودی نظام کو نہیں چھیڑ سکتے۔ یہ شریعت کے ساتھ کھلا مذاق تھا ۔ جب اس فوجی امیر المومنین سے کچھ نہ ملا اور عوام مایوسی کا شکار ہوئے تو اچانک سی-130 کا حادثہ ہوا اور قوم کو جمہوریت کی خوشخبری سنا ڈالی گئی ۔ پھر دو بہن بھائی باری باری جمہوریت اور اسلام کے نام پر قوم کو لوٹتے چلے گئے۔ عوام فٹ بال کی طرح کبھی ایک کی تو کبھی دوسرے کی جھولی میں گرتی رہی۔ پھر جب عوام اس کھیل کو بھی کچھ کچھ سمجھنا شروع ہوگئے تو ان دونوں بہن بھائیوں کو ملک بدر کرکے " کارگل کے مجاہد "‌سامنے لائے گئے جنہوں نے 8 سال اس قوم کو روشن خیالی کے نام پر بدترین دفاعی و معاشی غلامی میں‌جکڑ کر رکھ دیا۔ عوام کا حافظہ کمزور ہونے کے بعد پھر مخصوص حالات پیدا کرکے میثاقِ جمہوریت کے ذریعے قوم دوبارہ بہن بھائیوں کے چکر میں پھنسا دی گئی ۔ اور آج کل زرداری صاحب جیسے " مخلص اور محب وطن " دشمن سے واسطہ پڑا ہوا ہے ۔ دیکھیے اس کے بعد عوام کا نجات دہندہ کون بنتا ہے ۔۔۔

    کہنے کا مطلب یہ کہ جب بھی عوام کے اندر اس جابرانہ ظالمانہ نظام سے نفرت کے جذبات پنپنے لگتے ہیں تو اچانک قوم کے سامنے کوئی چہرہ، کوئی نعرہ یا کوئی منشور لا کر رکھ دیا جاتا ہے اور عوام کو میڈیا اور دیگر ذرائع سے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اب تیرے دکھوں‌کا مداوا اسی نئے نجات دہندہ کے پاس ہے ۔۔۔ سادہ لوح عوام کے جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور وہ نئے نجات دہندہ سے امیدیں وابستہ کرکے اسی کے پیچھے چل پڑتی ہے۔

    قربان جائیں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی بصیرت اور دور اندیشی کے ۔ جنہوں نے آج سے پون صدی قبل اس ظالمانہ کھیل کی طرف اشارہ فرما دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مندرجہ ذیل اشعار پڑھیے ۔۔ غور کیجئے۔۔ پھر سے پڑھیے۔۔ غور کیجئے

    خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
    پھر سلا دیتی ہے اسکو ، حکمراں کی ساحری

    گرميء گفتارِ اعضائے مجالس الاماں ۔۔ !
    يہ بھي اک سرمايہ داروں کي ہے جنگِ زرگري

    اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
    آہ ! اے ناداں قفس کو آشياں سمجھا ہے تو


    اللہ تعالی ہمیں بطور قوم ، اپنے برےبھلے کی تمیز اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا کرے۔ آمین

    والسلام
     
  4. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شکریہ نعیم بھائی

    لیکن اب کیا کیا جائے پہلے تو غریب بھوکا مرتا تھا اب سفید پوش کا بھی یہی حال ہوگیا ہے۔ پہلے تو بی اے، ایم اے پاس بیروزگار پھرتے تھے اب اچھی سکل والے بھی بیروزگار ہوگئے ہیں یا کم تنخواہوں پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اب تو ایک صنعت کار کے پاس کوئی بیروزگار نوکری کے لئے جائے تو کہا جاتا ہے کہ آپ کی سکلز بہت اچھی ہیں لیکن لائٹ آئے گی تو کام کریں گے۔

    یہی وجہ ہے کہ صنعت کار اپنا پیسہ اور کاروبار بیرون ملک شفٹ کررہے ہیں۔غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کے حالات کی وجہ سے پیسہ نہیں لگارہے۔ لوگ پہلے دکانوں سے ایک دم دس یا بیس کلو آٹا لیتے تھے لیکن اب ان کی نوبت کلو یا آدھا کلو پر آگئ ہے۔ زرعی ادویات مہنگی ہونیکی وجہ سے کسان کھیت چھوڑ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہے اور وہ بھی بمشکل ملتی ہے۔
     
  5. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    غصہ اور نفرت
    وہ ایک بے حس قوم تھی، ناانصافی، مہنگائی میں پسی ہوئی، ہر ظلم وزیادتی خاموشی سے برداشت کرنیوالی، مایوسی کے اندھیروں میں پھنسی ہوئی،امیرامیر ترہوتا جارہا تھا اور غریب غریب تر، یہ فرانسیسی قوم تھی آخر کار اس قوم کی بے حسی اور برداشت غصے اور نفرت میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی انہوں نے روٹی کے لئے احتجاج کرنا شروع کردیا تو ملکہ نے لوگوں کو احتجاج کرتے دیکھ کر کہا کہ اگرانہیں روٹی نہیں مل رہی تو کیک کھالیں۔

    اس احتجاج کے کچھ دن بعد ایک مالی بادشاہ کے محل کے کسی کمرے میں غلطی سے گھس گیا، معاملہ عدالت میں چلا گیا، عدالت نے مالی کو کوڑوں کی سزاسنادی، گماشتے مالی کو مار رہاتھا اور لوگ بے‌حس ہوکرمجمع کی صورت میں تماشہ دیکھ رہے تھے، مالی گماشتے کی مار کی تاب نہ لاسکا اور مرگیا تو مجمع میں سے کسی شخص نے گماشتے کو پتھر ماردیا جواب میں گماشتے نے مجمع کو گالی دیدی توتھوڑی دیر بعد اس کی وہاں لاش ملی، یہیں سے انقلاب فرانس کا آغاز ہوا۔اس کے بعد عوام نے یہ سلسلہ پکڑلیا اور اشرافیہ، وزراء، امراء کو قتل کرکےکسی نہ کسی چوراہے پر لٹکانا شروع کردیا۔ عوام نے گردنیں کاٹنے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیا۔

    مسولینی اٹلی کا ایک فاشسٹ حکمران تھا، جب لوگ اس کے ظلم و ستم سے تنگ آگئے تو لوگوں نے اسے سر عام پھانسی دیدی اور اس کی لاش کو دو دن تک لٹکائے رکھاتاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بنا، ایک عرصے تک یہاں فوجی حکومت قائم رہی آخر کار جنرل ارشاد کے خلاف عوام اٹھ کھڑی ہوئی تو مرد، بچے، عورتیں سب سڑکوں پر آگئے اور اس وقت تک گھر نہیں گئے جب تک جنرل ارشاد حسن کی حکومت ختم نہ ہوئی۔

    تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کوئی بھی قوم پہلے بے حس ہوتی ہے پھر اس کی بے حسی غصے اور نفرت میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یہی غصہ اور نفرت کسی بڑی تبدیلی کا موجب بنتا ہے۔ مشرف دور میں مہنگائی، بیروزگاری، ناانصافی، لاقانونیت عام ہوگئی ہے۔ پاکستانی قوم قیام پاکستان سے اب تک حکمرانوں کی ظلم وزیادتی کا شکار بنتی آرہی ہے لیکن پھر بھی ظلم وزیادتی برداشت کرتی آرہی ہے۔ ہر ایک نے عوام کی امنگوں اور امیدوں کے ساتھ کھلواڑ کیا لیکن پھر مشرف کا دور آیا۔ جس میں کبھی بے گناہوں کو گھروں سے اٹھاکر امریکہ کے حوالے کیا جاتا اور ڈالر چھاپے جاتے، کبھی بگٹی جیسے بزرگ پر فوجی یلغار کی جاتی، کبھی لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں معصوم بچیوں کو نشانہ بنایا جاتا

    کبھی چیف جسٹس کو لوگوں کوانصاف دینے پر معزول کیا جاتا، ان کے بال کھینچے جاتے، کبھی 12 مئی جیسے واقعات کو اپنی طاقت کہا جاتا، کبھی وکلاء پر لاٹھی چارج اور تشدد کیا جاتا، کبھی عوام کو آٹے کے حصول کے لئے لمبی قطاروں میں‌لگایاجاتا، کبھی مخالفین کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جاتا، کبھی ایمرجنسی کا نفاذ کرکے میڈیا کو خاموش اور کبھی ججوں کو نظر بند کیا جاتا، کبھی سٹاک ایکسیینج کو اوپر نیچے کرکے اربوں روپے ڈبودئیے جاتے، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا گیا۔لوڈشیڈنگ نے بیروزگاری میں اضافہ کردیا۔ این آر او کےذریعے جرائم پیشہ اور کرپٹ افراد کے گناہ معاف کرنے شروع کردئیے۔لوگوں کی بے حسی نفرت اور غصے میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی، لوگ حکومت کی پالیسیوں اور زیادتیوں پر کڑھنا شروع ہوگئے


    پھر 18 فروری آیا لوگوں نے ایک بار پھر ووٹ کا اس امید پر استعمال کیا کہ شاید یہ لوگ منتخب ہو کر ہماری پریشانیاں کم کریں لیکن پھر دھوکا، نہ جج بحال ہوئے، این آر او کے تحت گناہ معاف کرانیوالے عوام کے خیرخواہ بن کردوبارہ آگئے۔ نہ عوام کی تکالیف کم ہوئی، پھر وہی کھیل تماشے، معاہدوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ قرآن وحدیث نہیں ہوتے۔ ججوں کو اس ڈر سے بحال نہ کیا گیا کہ کہیں این آر او کالعدم نہ ہوجائے، حکومتی معاملات کو لٹکادیا گیا، بلوچستان کا مسئلہ حل نہ ہوسکا، صوبہ سرحد کی شورش برقرار ہے، سی این جی، بجلی کی قمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، آٹا، چینی اور دیگر بنیادی ضروریات مہنگی ہورہی ہیں۔لوگوں کو ایک بار پھر انصاف تک رسائی ناممکن بنادی گئی۔

    پھر پی پی نے پنجاب کو کنٹرول کرنے کے لئے ڈوگرہ عدالتوں کے ذریعے وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف کو نااہل قراردلوایا، گورنرراج نافذ کردیا گیا، عوام پھر غصے میں، کہیں ٹائروں کو آگ لگ رہی ہے کہیں زرداری ہائے ہائے کے نعرے لگ رہے ہیں، پھر وکلاء اور سیاسی جماعتوں نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو تاجروں کے کنٹینرز پکڑ کر راستے بند کردئیے گئے، کبھی مخالفین کو ہراساں کیا جاتا، لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر تھانوں میں‌بند کردیا جاتا رہا، پھر عوامی غصہ مزید بڑھ گیا اور آخر کار سولہ مارچ آگیا، وکلاء اور لوگوں کا قافلہ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا، حکومت بوکھلاگئی پھر وہی لاٹھی چارج، آنسوگیس لیکن لوگ کامونکی تک تھے کہ حکومت کی طاقت جواب دے گئی اور جج بحال ہوگئے،عوامی طاقت کوجھٹلایاجانے لگا، کہا گیا کہ ہم نے محترمہ کی خواہش پوری کردی، اس کا کریڈٹ صدر کو جاتا ہے، خود کو دنیا میں تماشہ بنالیا۔آئے روز اپنی نااہلی کا ثبوت دیاجارہا ہے، امریکہ سے خیرات طلب کرکے اپنے ملک میں شورش پھیلائی جارہی ہے۔

    عوام کی برداشت کا امتحان لیا جارہا ہے۔عوام کی برداشت کو کمزوری سمجھاجاتا ہے، عوام بظاہر بے حس نظر آرہی ہے لیکن اپنے اندر غصہ اور نفرت پال رہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ غصہ جوالا مکھی کی صورت میں پھٹے اور ذمہ داروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ ان کا غصہ اور نفرت وہی فرانس والا نقشہ پیش کرے گا کہ روز گردنیں ماری جائیں، روز کسی نہ کسی چوراہے پر اشرافیہ کی لاشیں جھولتی نظر آئیں۔ کسی دانشور کا کہنا ہے کہ اگر عدالتیں انصاف کرنا بند کردیں تو لوگ خود انصاف کرنا شروع کردیتے ہیں، اگر حکومت عوام پر ظلم وستم شروع کردے تو پھر آئے روز باغی پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

    مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی اور ظلم وستم کی چکی میں پسی عوام یہ بھول جاتی ہے کہ وہ کس صوبے، کس فرقے، کس علاقے سے تعلق رکھتی ہے۔آج بھی بہت سے ہنگامے اور احتجاج نظر آرہے ہیں، بلوچستان سلگ رہا ہے، کلرک، اساتذہ اپنے حقوق کے لئے احتجاج کررہے ہیں، کوئی علاقہ پولیس کے ظلم وستم سے تنگ آکر سڑکوں پر لاشیں رکھ کرسڑک بلاک کردیتا ہے، کوئی دوسالہ بچی کے گٹر میں گرنے پر احتجاج کررہا ہے، کوئی سوات معاملہ پر احتجاج کررہا ہے، کہیں‌ لودشیڈنگ پر احتجاج ہورہا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سب احتجاج مل کر ایک بڑے احتجاج کی صورت اختیار کرلیں اور حکومت کے لئے صورت حال سنبھالنا مشکل ہوجائے۔
     
  6. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    واہہہہہہہہہہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں