1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غزل ۔ رہا جر مرشدَ کامل سے دور

'آپ کی شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از ایس فصیح ربانی, ‏23 جولائی 2012۔

  1. ایس فصیح ربانی
    آف لائن

    ایس فصیح ربانی ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2010
    پیغامات:
    62
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    شاہین فصیح ربانی
    غزل

    رہا جو مرشدِ کامل سے دُور
    رہا وہ عمر بھر منزل سے دُور

    تری نظروں، تری محفل سے دُور
    ترا عاشق ہے تیرے دل سے دُور

    یہ کس منزل پہ لے آئی ہے زیست
    رہا جاتا نہیں قاتل سے دُور

    ہوا نے پھاڑ ڈالے بادبان
    سفینہ ہے ابھی ساحل سے دُور

    اڑائی راستوں نے ایسی دھول
    مسافر رہ گیا منزل سے دُور

    مرا نقصان ہی ہو گا دو چند
    حسابِ دوست ہے حاصل سے دُور

    رہِ حق میں ہوں چاہے دکھ ہزار
    خدا رکھّے مجھے باطل سے دُور

    اسے بھرنا تو ہے بچوں کا پیٹ
    رہے مزدور کیسے مِل سے دُور

    دعا میرے لبوں پر ہے فصیحؔ
    خدا رکھّے اسے مشکل سے دُور
     

اس صفحے کو مشتہر کریں