1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غزل ۔ خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے ۔ رسا چغتائی

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از محمداحمد, ‏24 مئی 2013۔

  1. محمداحمد
    آف لائن

    محمداحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2006
    پیغامات:
    125
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    غزل
    خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے
    نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے
    زُلف اُس کی ہے جو اُسے چھولے
    بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے
    تیغ اُس کی ہے شاخِ گُل اُس کی
    جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے
    یوں تو اُس پاس کیا نہیں پھر بھی
    ایک درویش کی دعا لے جائے
    زخم ہو تو کوئی دہائی دے
    تیر ہو تو کوئی اُٹھا لے جائے
    قرض ہو تو کوئی ادا کردے
    ہاتھ ہو تو کوئی چُھڑا لے جائے
    لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا
    جانے کس سمت راستہ لے جائے
    دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے
    ان بُتوں کو کہاں خدا لے جائے
    خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
    یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے
    میں غریب الدّیار، میرا کیا
    موج لے جائے یا ہَوا لے جائے
    خاک ہونا ہی جب مقدّر ہے
    اب جہاں بختِ نارسا لے جائے
    رسا چغتائی
     
    شہباز حسین رضوی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں