نہیں ہے یوں کہ بس میری خوشی اچھی نہیں لگتی اسے تو میری کوئی بات بھی اچھی نہیں لگتی میں نفرت اور محبت دونوں میںشدت کا قائل ہوں مجھے جذبوں کی یہ خانہ پری اچھی نہیں لگی میں اپنی ذات میں بھی اک خلا محسوس کرتا ہوں تمہارے بعد کوئی چیز بھی اچھی نہیں لگتی بس اک طرزِ رفاقت ہے نبھاتے ہیں جسے ورنہ بہت سے دوستوںسے دوستی اچھی نہیں لگتی یقیناَََ َ نقطہ سنجی اک حوالہ ہے ذہانت کا مگر ہر بات کی تردید بھی اچھی نہیں لگی اچانک تیرے آنے کی خوشی کچھ اور ہوتی ہے مجھے بادِ صبا کی مخبری اچھی نہیں لگی تجھے ہنستے ہوئے دیکھا ہے میں نے سب حوالوںسے تیرے چہرے پہ یہ افسردگی اچھی نہیں لگتی تبسم یہ میرا ایمان ہے جب تک حریفوںکا قدوقامت نہ ہو تو دشمنی اچھی نہیں لگتی
خوب انتخاب ہے میں اپنی ذات میں بھی اک خلا محسوس کرتا ہوں تمہارے بعد کوئی چیز بھی اچھی نہیں لگتی بہت خوب انتخاب ہے آپ کا۔
جواب: غزل نذیر تبسم میں نفرت اور محبت دونوں میںشدت کا قائل ہوں مجھے جذبوں کی یہ خانہ پری اچھی نہیں لگی ایک ایک شعر بہت خوب ہے واہ :222: