1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏29 جون 2011۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    غالب کی ایک مشہور غزل پیشِ خدمت ہے، وجۂ شہرت اس غزل کی صوفی تبسم کا پنجابی ترجمہ اور غلام علی کی گائیکی ہے۔ایک لڑی میں بلال بھائی نے فرمائش کی تھی۔ لیں جی اس غزل کے تمام منظوم ترجمے حاضر ہیں۔ ترجمہ کرنے والوں میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم جنہوں نے اردو اور پنجابی ترجمہ کیا اور سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ان کے علاوہ چوہدری نبی احمد باجوہ اور افتخار احمد عدنی نے بھی ترجمہ کیا ہے۔

    شعرِ غالب
    ز من گرت نہ بود باور انتظار بیا
    بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا
    بہ یک دو شیوہ ستم دل نمی شود خرسند
    بہ مرگِ من، کہ بہ سامانِ روزگار بیا
    بہانہ جوست در الزامِ مدعی شوقت
    یکے برغم دلِ نا امیدوار بیا
    ہلاکِ شیوۂ تمکیں مخواہ مستاں را
    عناں گسستہ تر از بادِ نو بہار بیا
    ز ما گسستی و با دیگراں گرو بستی
    بیا کہ عہدِ وفا نیست استوار بیا
    وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارد
    ہزار بار برو، صد ہزار بار بیا
    تو طفل سادہ دل و ہمنشیں بد آموزست
    جنازہ گر نہ تواں دید بر مزار بیا
    فریب خوردۂ نازم، چہا نمی خواہم
    یکے بہ پرسش جانِ امیدوار بیا
    ز خوئے تست نہادِ شکیب نازک تر
    بیا کہ دست و دلم می رود ز کار بیا
    رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مرو
    متاعِ میکدہ مستیست، ہوشیار بیا
    حصار عافیتے گر ہوس کنی غالب
    چو ما بہ حلقۂ رندانِ خاکسار بیا​
     
  2. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    منظوم ترجمہ پنجابی صوفی تبسم

    میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
    اینویں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کی تو سوچنا ایں سِتمگار آ جا
    بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووئے ،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نے
    میرے سوہنیا جا ہزار واری ،آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا
    تُو سادہ تے تیرا دل سادہ ،تینوں ایویں رقیب کُراہ پایا
    جے تو میرے جنازے تے نیں آیا، راہ تکدا اے تیری مزار آ جا
    ایہہ رواج اے مسجداں مندراں دا ،اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نے
    میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نے ،ہوش کر، بن کے ہوشیار آ جا
    سُکھیں وسنا جے تُوں چاہونا ایں میرے غالبا ایس جہان اندر
    آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا، ایتھے بیٹھ دے نے خاکسار آ جا​
     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    منظوم اردو ترجمہ صوفی تبسم

    دکھا نہ اتنا خدا را تو انتظار آ جا
    نہ ہو ملاپ تو لڑنے کو ایک بار آ جا
    وداع و وصل میں ہیں لذتیں جداگانہ
    ہزار بار تو جا، صد ہزار بار آ جا
    تو سادہ دل ہے بہت اور رقیب بد آموز
    نہ وقتِ مرگ گر آیا، سرِ مزار آ جا
    رواجِ صومعہ ہستی ہے واں نہ جا ہر گز
    متاعِ میکدہ مستی ہے بے شمار آ جا
    حصارِ امن اگر چاہیے تجھے غالب
    درونِ حلقہ رندانِ خاکسار آ جا
     
  4. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    منظوم ترجمہ چوہدری نبی احمد باجوہ

    نہیں جو مانتے تم میرا انتظار آؤ
    بہانہ جو نہ بنو، ہاں ستیزہ کار آؤ
    ستم کی اک دو ادا سے نہیں یہ دل خورسند
    بلا ہو، موت ہو، آشوبِ روزگار آؤ
    تمھارے شوق کو الزامِ مدعی کا ہے عذر
    کبھی برغمِ دلِ نا امیدوار آؤ
    ہلاکِ شیوۂ تمکیں نہ کیجیے مستوں کو
    عناں گسستہ مرے ابرِ نو بہار آؤ
    جو ہم سے کٹ کے بندھا غیر سے ہے عہد نیا
    جہاں میں عہدِ وفا کب ہے استوار آؤ
    جدا جدا ہے وداع اور وصل کی لذت
    ہزار بار اگر جاؤ، لاکھ بار آؤ
    ہو تم سادہ مگر ہمنشیں ہے بد آموز
    جنازہ مل نہ سکے گا، سرِ مزار آؤ
    فریب خوردہ ہوں میں ناز کا اسے چھوڑو
    برائے پرسشِ جانِ امیدوار آؤ
    تمھاری خو سے سرشتِ شکیب نازک ہے
    چلا میں، صبر کا دامن ہے تار تار آؤ
    رواجِ صومعہ ہستی ہے مت ادھر جاؤ
    متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آؤ
    حصار امن کی خواہش ہے گر تمھیں غالب
    اِدھر ہے حلقۂ رندانِ خاکسار آؤ
     
  5. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    منظوم ترجمہ اردو افتخار احمد عدنی

    تجھے ہے وہم، نہیں مجھ کو انتظار آجا
    بہانہ چھوڑ، مری جاں ستیزہ کار آجا
    جفا میں بخل نہ کر، میرے دل کی وسعت دیکھ
    ستم کی فوج لیے مثلِ روز گار آجا
    ہلاک شیوۂ تمکیں سے کر نہ مستوں کو
    حجاب چھوڑ کر اے بادِ نو بہار آجا
    جو تو نے غیر سے باندھا اسے بھی توڑ صنم
    ہوا ہے عہدِ وفا کب سے استوار آ جا
    وداع و وصل ہیں دونوں کی لذتیں اپنی
    ہزار بار جدا ہوکے لاکھ بار آجا
    رواجِ صومعہ، ہستی ہے، اس طرف مت جا
    متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آجا
    حصارِ امن کی خواہش ہے گر تجھے غالب
    میانِ حلقۂ رندانِ خاکسار آجا
     
  6. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    Last edited: ‏16 جون 2015
  7. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    پڑھنے کے بعد اب غلام علی کی آواز میں سن بھی لیں۔
     
    ھارون رشید اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    بہت خوب واصف بھائی۔
    ازحد ممنون و مشکور ہوں آپ کی توجہ کا۔ اور منظوم تراجم پڑھ کر مزہ آ گیا۔ اور آپ نے تراجم کا تقابلی جائزہ بھی خوب پیش کیا ہے۔
    اللہ کریم سے دعا ہے کہ آپ کے علم و عمل میں روز بہ روز اضافہ فرمایں۔
    ایک دفعہ پھر شکریہ۔
    والسلام مع الاکرام
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    لطف دوبالا ہو گیا واصف بھائی ۔ غلام علی کی آواز میں غالب کا منظوم ترجمہ
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    واہ جی واہ واصف بھائی آپ کی کمالات آپ کی شخصیت کی طرح لا جواب ہیں
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    واہ جی واہ مزا آ گیا
    اس طرح کی مفید شئیرنگز کرتے رہا کریں
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    شعرِ غالب
    دود سودائے تُتق بست آسماں نامیدمش
    دیدہ بر خوابِ پریشان زد، جہاں نامیدمش
    وہم خاکے ریخت در چشمم بیاباں دیدمش
    قطرہ بگداخت، بحرِ بیکراں نامیدمش
    باد دامن زد بر آتش نو بہاراں خواندمش
    داغ گشت آں شعلہ، از مستی خزاں نامیدمش
    قطرہء خونے گرہ گردید، دل دانستمش
    موجِ زہرابے بہ طوفاں زد زباں نامیدمش
    غربتم نا سازگار آمد، وطن فہمیدمش
    کرد تنگی حلقہء دام آشیاں نامیدمش
    بود در پہلو بہ تمکینے کہ دل می گفتمش
    رفت از شوخی بہ آئینے کہ جاں نامیدمش
    ہر چہ از جاں کاست در مستی بہ سود افزودمش
    ہرچہ با من ماند از ہستی زیاں نامیدمش
    تا ز من بگسست عمرے، خوشدلش پنداشتم
    چو بہ من پیوست لختے، بد گماں نامیدمش
    اُو بہ فکر کشتنِ من بود، آہ از من کہ من
    لاابالی خواندمش، نامہرباں نامیدمش
    تانہم بروے سپاس خدمتے از خویشتن
    بود صاحب خانہ امّا میہماں نامیدمش
    دل زباں را راز دان آشنائی ہا نخواست
    گاہ بہماں گفتمش، گاہے فلاں نامیدمش
    ہم نگہ جاں می ستاند، ہم تغافل می کشد
    آں دمِ شمشیر و ایں پشتِ کماں نامیدمش
    در سلوک از ہر چہ پیش آمد گزشتن داشتم
    کعبہ دیدم نقش پائے رہرواں نامیدمش
    بر امیدِ شیوہء صبر آزمائی زیستم
    تو بریدی از من و من امتحاں نامیدمش
    بود غالب عندلیبے از گلستانِ عجم
    من ز غفلت طوطیِ ہندوستاں نامیدمش
     
    ملک بلال، ھارون رشید اور سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    منظوم اردو ترجمہ صوفی تبسم
    دود افسون نظر تھا، آسماں کہنا پڑا
    ایک پریشاں خواب دیکھا اور جہاں کہنا پڑا
    تھا غبارِ وہم وہ، میں نے بیاباں کہہ دیا
    تھا گداز قطرہ، بحرِ بیکراں کہنا پڑا
    آگ بھڑکائی ہوا نے، میں اسے سمجھا بہار
    شعلہ بن کر داغ جب ابھرا خزاں کہنا پڑا
    قطرۂ خوں کا تھا پیچ و تاب، دل جانا اسے
    لہر تھی زہراب غم کی اور زباں کہنا پڑا
    ناموافق تھی بہت غربت، وطن کہتے بنی
    تنگ نکلا حلقہء دام آشیاں کہنا پڑا
    اس طرح پہلو میں آ بیٹھا کہ جیسے دل تھا وہ
    اس روش سے وہ گیا اٹھ کر کہ جاں کہنا پڑا
    کٹ گئی جو عمر مستی میں وہی تھا سودِ زیست
    بچ رہا جو کچھ بھی مستی میں زیاں کہنا پڑا
    تھا مجھے منظور اسے مرہونِ منت دیکھنا
    تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہنا پڑا
    یوں طریقت میں ہر اک شے سے نظر آگے پڑی
    کعبے کو بھی نقش پائے رہرواں کہنا پڑا
    شیوہء صبر آزمائی پر ترے جیتا تھا میں
    یوں تری فرقت کو اپنا امتحاں کہنا پڑا​
     
    ملک بلال، ھارون رشید اور سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    منظوم ترجمہ اردو افتخار احمد عدنی
    دود کا پردہ تھا جس کو آسماں کہتا تھا میں
    اور اک خوابِ پریشاں کو جہاں کہتا تھا میں
    ایک مٹھی خاک تھی صحرا جسے سمجھا کیا
    اور اک قطرے کو بحرِ بیکراں کہتا تھا میں
    آگ بھڑکی جب ہوا سے میں یہ سمجھا ہے بہار
    داغ جب شعلے ہوئے، ان کو خزاں کہتا تھا میں
    قطرہء خوں کی گرہ تھی جس کو دل جانا کیا
    موج تھی زہراب کی جس کو زباں کہتا تھا میں
    جب نہ غربت راس آئی میں اسے سمجھا وطن
    تنگ ہوا جب حلقہء دام آشیاں کہتا تھا میں
    تھا وہ جب تمکین سے پہلو میں، دل سمجھا اسے
    اور شوخی سے ہوا رخصت تو جاں کہتا تھا میں
    عمر جو مستی میں گزری اس کو جانا میں نے سود
    ہوش میں جتنی کٹی اس کو زیاں کہتا تھا میں
    مہرباں سمجھا کیا جب تک رہا وہ مجھ سے دور
    اور قریب آیا تو اس کو بد گماں کہتا تھا میں
    گھات میں تھا قتل کی وہ اور اسے سمجھے بغیر
    لا ابالی بے خبر، نا مہرباں کہتا تھا میں
    اپنی خدمت کا فقط احساں جتانے کیلیے
    تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہتا تھا میں
    چھوڑ پیچھے راہِ حق میں جو نظر آیا بڑھا
    کعبے کو اک نقشِ پائے رہرواں کہتا تھا میں
    شیوہء صبر آزمائی کے سہارے میں جیا
    تو ہوا مجھ سے الگ تو امتحاں کہتا تھا میں​
     
  15. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    [​IMG]
     
    Last edited: ‏16 جون 2015
  16. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    بہت خوب واصف بھائی۔
    کیا کہنے آپ کے۔
    :dilphool:
     
    ھارون رشید اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. rohaani_babaa
    آف لائن

    rohaani_babaa ممبر

    شمولیت:
    ‏23 ستمبر 2010
    پیغامات:
    197
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: غالب کی فارسی غزل بمعہ تراجم

    ملک جی اور ہارون الرشید صاحب یہ واصف حسین تو بڑے کام کا بندہ نکلا۔
     
    ھارون رشید اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    زبردست شراکت
    کیا کہنے جناب لطف آ گیا پڑھ کر :)
    یہ پہلے نظر سے گزر چکا ہے مگر مکمل نہیں تھا آپ کے طفیل سے مکمل غزل پڑھنے کو مل گئی

    دود افسون نظر تھا، آسماں کہنا پڑا
    ایک پریشاں خواب دیکھا اور جہاں کہنا پڑا
    تھا غبارِ وہم وہ، میں نے بیاباں کہہ دیا
    تھا گداز قطرہ، بحرِ بیکراں کہنا پڑا
    آگ بھڑکائی ہوا نے، میں اسے سمجھا بہار
    شعلہ بن کر داغ جب ابھرا خزاں کہنا پڑا
    قطرۂ خوں کا تھا پیچ و تاب، دل جانا اسے
    لہر تھی زہراب غم کی اور زباں کہنا پڑا
    ناموافق تھی بہت غربت، وطن کہتے بنی
    تنگ نکلا حلقہء دام آشیاں کہنا پڑا
    اس طرح پہلو میں آ بیٹھا کہ جیسے دل تھا وہ
    اس روش سے وہ گیا اٹھ کر کہ جاں کہنا پڑا
    کٹ گئی جو عمر مستی میں وہی تھا سودِ زیست
    بچ رہا جو کچھ بھی مستی میں زیاں کہنا پڑا
    تھا مجھے منظور اسے مرہونِ منت دیکھنا
    تھا وہ صاحب خانہ لیکن میہماں کہنا پڑا
    یوں طریقت میں ہر اک شے سے نظر آگے پڑی
    کعبے کو بھی نقش پائے رہرواں کہنا پڑا
    شیوہء صبر آزمائی پر ترے جیتا تھا میں
    یوں تری فرقت کو اپنا امتحاں کہنا پڑا

    اس بے مثال شراکت پر ایک حج کا ثواب آپ کی نذر
    شاد و آباد رہیں
     
  19. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بلا شبہ ایسا ہی ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں