1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عورت مارچ : عورت کا دشمن؟ ۔۔۔۔ ڈاکٹر احمد سلیم

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏9 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عورت مارچ : عورت کا دشمن؟ ۔۔۔۔ ڈاکٹر احمد سلیم

    آج کے دن تمام دنیا میں ’’ عورتوں کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ بلاشبہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تمام دنیا کی طرح پاکستان کی عورت بھی بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت ہمیںمغرب کی عورت جتنی مرضی آزاد نظرآتی ہو ، اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں، مغرب اسکا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ بہت سی چیزیں جنہیں اسلام کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے وہ دراصل معاشرتی رسم و رواج ہیں اور انہیں اسلام کے ساتھ نتھی کرنا درست نہیں۔ معاشرہ اور روایات ہماری زندگی کا اہم جز ہیں، لیکن بہت سی رسوم میں اصلاح کی وسیع گنجائش اور ضرورت موجودہو سکتی ہے۔
    کچھ برسوں سے عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ’’ عورت مارچ‘‘ نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا، بلکہ سب سے متنازعہ موضوع بن جاتاہے۔ اور پاکستان کا ایک مختصر اور مخصوص طبقہ، عورت مارچ کے نام پر عورت کی آزادی کے لیے سڑکوں اور میڈیا پر اپنے کچھ مخصوص نعروں کے ساتھ اچھل کود کرتا نظر آتا ہے۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا ایک بڑا حصہ ان کے ساتھ ملا ہوتا ہے اور مٹھی بھر افراد کی جانب سے شروع کی گئی اس متنازعہ بحث کو ہر ایک گھر میں لے آتا ہے۔ یہ سب بظاہر اس عورت مارچ کی کامیابی لگتی ہے لیکن جس طریقے سے اور جس قسم کے نعروں کے ساتھ یہ لوگ عورت کی آزادی کے لیے جنگ کرتے نظر آتے ہیں، ہر سنجیدہ انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ ٹولہ عورتوں کے لیے کام کر رہا ہے یا دراصل ’’ عورتوں سے دشمنی ‘‘کر رہا ہے۔ کیونکہ جس قسم کے نعرے ان کے ہاتھوں اور زبانوں پر نظر آتے ہیں اور سنائی دیتے ہیں، اس کا اثر صرف یہ ہوتا ہے کہ عورت کے حقوق کے لیے کام کرنے کے خواہشمند اور ہماری نناوے فیصد خواتین اس ڈر اور شرم سے عورت کے حق کی بات کرنے سے کترانے لگی ہیں کہ کہیں انہیں اس طبقے کا حصہ نہ سمجھ لیا جائے۔
    کسی بھی تحریک کے نعرے اس تحریک کی ’’ برانڈنگ‘‘ (Branding) ہوتے ہیں اور یہ چند سطریں اس تحریک کو کامیاب یا ناکام بناتی ہیں۔ اگر بنیادی نعرے ہی اتنے متنازعہ ہوں تو ایسی کوئی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہاں اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ ہماری عورت کو حقوق چاہئیں یا آزادی؟ اور اگر آزدی تو کس سے آزادی؟ کیا آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی ہوتا ہے؟ کیا ہماری عورت ایک انسان ہے ایک شخصیت ہے جسے بطور انسان، بہو، بیٹی اور ماں حقوق چاہئیں یا یا پھر کیا عورت صرف ایک جسم ہے اور گوشت کے اس لوتھڑے کو بس مذہب اور معاشرے کی حدود سے مکمل آزادی چاہئیے؟ ذاتی طور پر کوئی جیسے مرضی خیالات رکھے، اسکا مسئلہ ہے ، لیکن جب آپ یہ باتیں اور مطالبات سڑکوں پر اور عوام میں لے آئیں گے تو پھر عوام کی بھی تو مرضی اور آزادی ہوگی کہ وہ کس حد تک اور کیا کچھ دیکھنا سننا چاہتے ہیں اور کیا نہیں۔ جب آپ اپنی ذاتی پسند کی تعلیمات اور متنازعہ لغویات معاشرے کی بہو بیٹیوں اور سکول کالج کی لڑکیوں کو پڑھانے ، سکھانے اور انکو ورغلانے لگ جائیں گے تو پھر آپکو پوچھنا ، روکنا، اور ٹوکنا معاشرے کے ہر با شعور فرد ( مرد اور عورت دونوں) کا کام بھی ہے اور حکومت کا فرض بھی۔
    کاش یہ عورت مارچ، جانے یا انجانے میں کی جانے والی ’’ عورت دشمنی‘‘ ترک کر کے ، عورت کو ایک ’’ جسم‘‘ کی بجائے ایک انسان، ایک شخصیت سمجھتا اور عورت کے حقوق جن میں صحت، تعلیم، کام کرنے کی آزادی، جائیداد میں حصہ، شادی میں مشورہ اور مرضی وغیرہ شامل ہیں کے بارے میں جد و جہد کرتا، کہ ان سب حقوق سے نہ تو عوام کو کوئی اختلاف ہے اور نہ حکومت انکار کر سکتی ہے۔ بلکہ ان میں سے اکثر کے بارے میں تو قوانین بھی موجود ہیں، صرف ان قوانین پر عملدرآمد کروانے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔ اگر حقیقی عورتوں نے عورتوں کے حقیقی مسائل پر مارچ کرنا ہے تو ایک چھوڑ پچاس مارچ کریں، لیکن خود انکی جانب سے شائع شدہ ’’مطالبات ‘‘ کا مطالعہ کریں تو نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ اس سب کا مقصد صرف خاندانی نظام تباہ ، اور پاکستانی عورت کو بے پردہ اور مذہب سے دور کرنا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ نمبر 33 کی آیت نمبر 59 میں ہے ’’ اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔۔۔۔‘‘ ۔ یہاںواضح طور پر تمام مسلمانوں کی تمام عورتوں کے بارے میں حکم آ رہا ہے۔ سورۃ النور کی آیت نمبر 31 ’’مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیںاور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے سینوں ( گریبانوں) پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے ۔۔۔۔۔‘‘۔ جناب ، اللہ کا حکم واضح بھی ہے اور تمام مسلمانوں کی تمام عورتوں کے لیے ہے۔ یہاں توجیح دی جاتی ہے کہ اسلام میں پردے کے لیے ’’ حجاب‘‘ کا لفظ استعمال ہو ا ہے اور حجاب دل میں ہوتا ہے اور آنکھ کا ہوتا ہے اور جسم یا جسم کے کسی حصے کے چھپانے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔ جناب ، سورۃ نور میں لفظ حجاب نہیں بلکہ عربی لفظ ’’ خمر ـ‘‘ استعمال ہو ا ہے، جس کی جمع ’’خمار‘‘ ہے۔ کسی بھی مستند عربی ڈکشنری ( اگر آپکے پاس ہے ) کے مطابق اس کا مطلب ہے ایسا کپڑا جو سر کو ڈھانپنے کے لیے استعمال ہو اور یہ کپڑا یا چادر اتنی بڑی ہو کہ سینوں کو بھی ڈھانپ لے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس بڑے کپڑے سے اپنے سر اور جسم کو ڈھانپے رہو ۔ اسی طرح سورۃ الا حزاب میں عربی کا لفظ ’’ جلابیب ‘‘ استعمال ہو ا ہے جو ’’ جِلباب‘‘ کی جمع ہے۔ مستند عربی لغت کے مطابق اسکا مطلب ہے کھلا ڈلا لباس جسمیں سر کی اوڑھنی بھی شامل ہو ۔کوئی ذاتی طور پر پردہ کرے یا نہ کرے، لیکن پردے کی بات ہو یا عورت کی گواہی کی، آزادی اظہار کے نام پر قرآن مجید کی آیات کو چیلنج کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی۔ قرآن کے واضح احکام کو متنازعہ قرار دے کر کسی بھی قسم کی بحث کو ہوا دینے کا مطلب صرف اور صرف قرآن کی حقانیت اور سچائی سے انکا ر ہے، نہ کہ آزادی اظہار۔’’ رائے کی آزادی‘‘ بلا شبہ ایک اچھی چیز ہے، لیکن ساتھ ہی جب کسی کی تقریر، تحریر یا رائے معاشرے میں نفرت پھیلانے اور معاشرے میں رہنے والے افراد کی اکثریت کی دل آزاری کا سبب یعنی Hate Speech بننے لگے تو اس کو روکنا کسی بھی مہذب معاشرے کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ یہی سب کچھ اقوام متحدہ کی قراردادیں سکھاتی ہیں، اور اسلام بھی یہی تربیت دیتا ہے کہ ’’اعتدال پسندی‘‘ کا چوغہ پہن کر اور آزادیٔ اظہار کا نام لے کر معاشرے میں ’’ شر انگیزی‘‘ پھیلانے کی اجازت نہ دی جائے۔انشأاللہ اس سب بیہودگی اور اسلام اور پاکستان دشمنی کا مقابلہ پاکستانی عورت ہی کرے گی جو جانتی ہے کہ پاکستان بھی اللہ کا، جسم بھی اللہ کا اور مرضی بھی صرف اللہ کی!!​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں