1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عمرخیام کے ساتھ ساتھ

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از عمر خیام, ‏24 مئی 2015۔

  1. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    ارے واہ مراکش کے صدر کے محل سے زیادہ تو ریلوے اسٹیشن بہت زیادہ خوبصورت ہے:ida:
     
    سید شہزاد ناصر، عمر خیام اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت زبردست جناب بہت شکریہ
     
    سید شہزاد ناصر اور عمر خیام .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ارشین بخاری
    آف لائن

    ارشین بخاری ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2011
    پیغامات:
    6,125
    موصول پسندیدگیاں:
    901
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب عمر بھائی تصویریں بھی بہت اچھی ہیں :shandar:
     
    سید شہزاد ناصر اور عمر خیام .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    ملک بلال بھائی ، پاکستانی55 بھائی ۔ ابو تیمور بھائی ۔ اور ارشین بخاری بہن آپ کی پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ کی حوصلہ افزائی کی بدولت یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ملک بلال بھائی آپ کی دعاؤں کا شکریہ ۔
    پاکستانی بھائی کے شہر بولٹن جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا ، ایک بار اس کے پاس سے گذرا ضرور تھا ، ایم 62 پر سے ، پریسٹن سے اولڈھم جاتے ہوئے ۔
    اور باب السلام بھائی کے شہر مانچسٹر دو تین بار گیا ہوں ۔ ولمزلو روڈ پر صنم سویٹس ایند ریسٹورینٹ اور دلی سویٹس یا دہلی دربار سویٹس سے مٹھائی لینا بھی یاد ہے ۔ دہلی دربار ریسٹورینٹ تو شاید دبئی میں ہے ۔ ولمزلو روڈ پر پہلے صرف پاکستانی دکانیں اور ریسٹورینٹ ہوتے تھے لیکن اب کچھ عرصہ پہلے جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں عربی اور افغانی ریسٹورینٹس کی بھی کثرت دیکھی ۔ ایک قہوہ خانے میں ہم نے عربی قہوہ بھی پیا تھا۔ ہمارے ساتھیوں نے جس حیرت و استعجاب اور ذوق وشوق سے مشروبات کی ٹرے لاتی لبنانی ویٹرس کو تکا تھا ، ہمیں بھلا لگا تھا اور ہم نے اس کو اپنے فون کے کیمرے میں محفوظ بھی کرلیا تھا۔

    iphone 108.JPG

    امید ہے کہ آپ ہماری صورتحال کو بروقت بھانپنے اور اس پر برق رفتاری سے عمل کرنے کی صلاحیت کو سراہیں گے ۔
     
  5. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    آپ پاس سے گزر گے اور بتایا تک نہیں اس کا افسوس ساری زندگی رہے گا ۔افغانی اور عراقی (کرد) بڑے محنتی ہیں ۔انھوں نے کار واش سے کام شروع کیا اور بڑے بڑے ہوٹل خرید لئے ہیں ۔عراقیوں نے اپنے ریسٹورنٹز میں حقے رکھے ہوئے ہیں جس کے نوجوان لوگ عادی ہو گے ہیں ۔دس پونڈ لیتے ہیں ۔اور مختلف فلیور ہوتے ہیں ۔ اسے عام زبان میں شیشہ کہتے ہیں ۔یہ دیسی حقے سے زیادہ خطرناک ہے ۔بہت جلد عارضہ قلب میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ولمزلو روڈ مانچسٹر اور بریڈ فورڈ کے کچھ علاقے منی پاکستان سمجھے جاتے تھے لیکن اب اور جگہوں پر بھی اپنے ہوٹل اور دوکانیں ہو گی ہیں ۔بولٹن میں بھی انڈین اور پاکستانی دوکانیں بے شمار ہیں ۔اگر اللہ نے آپ کو دوبارہ یہاں آنے کا موقعہ دیا تو بائی پاس نہیں کرنا ،ہم بھی آپ کی زیارت کر لیں گے ۔
     
  6. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ :p
     
  7. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    اس کو کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار کرنا یعنی
    "فوٹو ایک اور کہانیاں دو":chp:
     
    سید شہزاد ناصر، عمر خیام اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانی55 بھائی آپ مغموم اور دلبرداشتہ نہ ہوں ، یہ ذرا پرانی بات ہے ، اس وقت ہم نے ہماری اردو پیاری کی محفل میں شرکت اختیار نہیں کی تھی ، اب کی بار کبھی شمالی انگلستان کا چکر لگا تو آپ کو انشاء اللہ پیشگی اطلاع دیں گے ۔ بلکہ آپ کو " نواب " مانچسٹر میں دعوت پر بلائیں گے ۔انگلستان میں ہماری آدھی سے زیادہ فیملی رہائش پذیر ہے لیکن وہ زیادہ تر ویسٹ مڈلینڈز میں ہیں ۔ ہمارے وہ دوست جن کے ساتھ ہم نے لاہور کا پہلا دورہ لڑکپن میں کیا تھا ، ان میں سے اسی فیصد اس وقت انگلینڈ میں ہیں ۔
     
    ملک بلال، سید شہزاد ناصر اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے آپ کے دورے کا شدت سے انتظار رہے گا
     
    ملک بلال اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    باکو رے باکو

    جس طرح دبئی کی ترقی کی اصل وجہ تیل ہے اسی طرح باکوکی تعمیر و ترقی کے پیچھے بلکہ نیچے تیل کا ہاتھ ہے ۔ آذربائیجان میں تیل آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے نکلنا شروع ہوا ۔ کہتے ہیں کہ تیل زمین کی اتنی اوپری سطح پر تھا کہ لوگ کنواں یا گڑھا کھودتے اور ڈول بھر بھر کر تیل نکالتے تھے ۔ ہمیں اتنا موقعہ نہ مل سکا کہ خود جاکے کہیں گڑھا کھودتے اور دیکھتے کہ واقعی نکلتا ہے یا کہانیاں بنی ہیں ۔ باکو تیل کی دریافت سے پہلے آٹھ دس ہزار کی آبادی والا ایک چھوٹا سا شہر تھا ، لیکن جونہی تیل نکلنا شروع ہوا آس پاس اور دوردراز سے تیل کمپنیاں دوڑی چلی آئیں اور کنویں کھود کے تیل نکالنا اور بیچنا شروع کردیا ۔ ہماری ہندوستان کی جنگ آزادی 1857 سے لیکر پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے تک کے دور میں باکو کی ترقی کی شرع لندن ، پیرس اور نیویارک سے کئی گنا زیادہ تھی ۔
    باکو کا نام عجیب ہے ، پہلے ہم سمجھے کہ ہلاکو کا کوئی بھائی یا بیٹا ہوگا جس کے نام پہ اس کا نام رکھا گیا ہے ۔ لیکن اصل میں یہ یا تو " باغ کو" ہے جو بغداد کے " باغ داد " سے بگڑ کے باکو ہوگیا ، یا تندوتیز ہواؤں کی وجہ سے اس کو "باد کوب" کہا گیا۔ یعنی مارنے پیٹنے اور پٹخنے والی ہوا کا شہر ۔ ایک اور شہر جہاں تیز ہوا چلتی ہے ، انگلینڈ کا شہر لیورپول ہے جہاں ہوا ٹوپیاں اڑا لے جاتی ہے، بنچ پر بیٹھ کر اخبار نہیں پڑھنے دیتی ۔
    آذربائیجان الف لیلوی ملک ہے ۔ کہتے ہیں کہ عرب لوگ جب فتوحات پہ فتوحات کرتے کوہ ارارات یا کاکیشیا کے علاقے میں پہنچے تو وہاں کے قوی ہیکل مردوں اور سرخ بالوں والی عورتوں کو دیکھ کے پری اور دیو سمجھ بیٹھے اور انہی کی بنیاد پر کئی الف لیلوی داستانیں تخلیق کیں ۔ کوہ قاف ، عمروعیار، امیر حمزہ ، سامری جادوگر وغیرہ سے تو ہم بھی آشنا ہیں ۔ اس زمانے میں اس علاقے کے لوگ شاید پہاڑوں میں رہتے ہوں گے ۔ کیونکہ وہاں پر اس قسم کے آثار ضرور ملتے ہیں ۔ اس خطہ میں آذر بائیجان ، آرمینیا اور جورجیا ہیں ۔ صرف آذربائیجان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ باقی دونوں ملکوں میں عیسائیوں کی اکثریت ہے ۔ ابھی ایک ہفتے پہلے ہی فرانس کی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا ہے جس کے مطابق کوئی سو سال پہلے کی ایک جنگ میں جو بیس لاکھ جورجین عثمانی ترکوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے، کو نسل کشی قراردیا گیا ہے ، اور ترکی کو معافی مانگنے کا کہا ہے ۔ ۔۔۔۔ ترکی کی حکومت نے احتجاج کے طور پر پیرس سےا پنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے ۔ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ جنگ میں مارے گئے تھے ، اور ان کی تعداد بیس لاکھ نہیں بلکہ صرف تین لاکھ تھی۔ اور اس جنگ میں ہزاروں ترکوں کی بھی موت ہوئی تھی۔
    باکو کا نام بھی ہم نے نہ سنا ہوتا لیکن ہوا یوں کہ ہمارے کزن شاہ کا مسیر یعنی خالہ زاد بھائی اسلام آباد سے یورپ جاتے ہوئے وہاں کے حیدرعلی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پھنس گیا ۔ پھنس کیا گیا بلکہ پکڑا گیا۔ اس کے پاس تمام دستاویزات بشمول پاسپورٹ اور پاسپورٹ پہ لگی تصویر کے ، اصلی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف کچھ امریکی ڈالر نقلی نکلے جو اس نے راولپنڈی میں پاکستانی روپوں کے بدلے ایک کرنسی ڈیلر سے خریدے تھے ۔ اب بھلا اس ذرا سی غلطی پر پکڑ دھکڑ کی کیا ضرورت ہے ۔ برادر اسلامی ملک کا معصوم باشندہ سمجھ کے مک مکا کرلیتے ۔ لیکن آذر بائیجان جغرافیائی طور پر تو یورپ میں شامل نہیں ہے ۔لیکن اس کے طور طریقے یوروپین ہیں اس لیے ان کو بھی فرنگی بننے کا شوق ہے ۔شاہ کے کزن کو آذری زبان بالکل بھی نہ آتی تھی ۔ تھوڑی سی انگلش بول لیتا تھا ، ائیرپورٹ سیکورٹی والوں کی انگلش اس کی انگریزی سے بھی بری تھی ۔اس لیے مواصلاتی رابطے کی کمی کی وجہ سے غلط فہمیوں کا گردوغبار چھایا ہوا تھا ۔ یہ گردوغبار مٹانے ، کسی وکیل کا بندوبست کرنے اور کزن کو خرچہ پانی دینے کیلیئے شاہ کا انتخاب ہوا ۔ اور شاہ نے اپنے ساتھ جانے کیلیئے مجھے آمادہ کرلیا ۔ آمادہ کیاکرنا تھا ۔ ایک شام کو مجھے فون کیا کہ اگلے ہفتے کی کوئی ضروری مصروفیات تو نہیں ؟ میں نے نفی میں جواب دیا اور اگلے دن وہ مجھ سے میرا پاسپورٹ لینے آگیا کہ ٹکٹ لینے اور ویزہ کا پتہ کرنا ہے ۔ تین چار دن کیلیئے عازم باکو ہوگئے ۔۔
    یہ ٹرپ سیروتفریح کا ٹرپ نہ تھا کہ ہم وہاں کے کلچر اور لوگوں کا مشاہدہ کرتے ، گلیوں بازاروں میں گھومتے پھرتے ، نکڑ پہ بنے قہوہ خانوں میں قہوہ یا کافی نما گاڑھا کڑوا سوپ پیتے ، یا کسی مسجد میں جاکے نماز پڑھتے یا کوئی مقبرہ مزار نظر آتا تو اندر جاکے دعا کے لیئے ہاتھ کھڑے کر لیتے ، بلکہ یہ بھاگ ودوڑ کا ٹرپ تھا ۔ آذری زبان فارسی اور ترکی کے بیچ بیچ کی زبان ہے ۔ کئی ایک مانوس ناموں سے واسطہ پڑا۔ حیدر علی ائیرپورٹ ۔ بی بی ہیبت مسجد، شیروان شاہ مسجد یا چوک ۔ تازہ پیر مسجد۔ نظامی سٹریٹ وغیرہ ۔۔ سب کچھ اپنا سا لگتا تھا ۔ سوائے اس کے کہ باکو دبئی کی طرح صاف ستھرا شہر ہے اور تیزی سے بلند وبالا اورجدید بلڈنگیں بن رہی ہیں ۔ شاپنگ مال بن رہے ہیں ۔ لیکن یہ دبئی کی طرح اسلامی ملک نہیں بلکہ سیکولر ہے ۔ استنبول کی طرح ہے ، اس کا جڑواں بھائی لگتا ہے سوائے اس کے کہ استنبول کے درودیوار سے عظمت رفتہ کی شان و شوکت اور تاریخ جگہ جگہ سے ٹپک رہی ہوتی ہے ۔ یہ بھی دبئی کی طرح سمندر کے کنارے پر واقع ہے ۔ دبئی خلیج فارس کے کنارے ہے تو یہ بحیرہ کیسپئین کے کنارے پر ۔۔ یعنی دبئی ایران کے ایک طرف اور یہ دوسری طرف ۔۔۔ ایران کا اثر اس پہ بھی بے حد گہرا ہے ۔ صفوی حکمرانوں نے عرصہ تک ان پر حکومت کی ہے ۔ دنیا بھر میں آبادی میں تناسب کے حساب سے ایران کے بعد دوسرا بڑا شیعہ ملک آذر بائیجان ہی ہے ۔
    شہر خوبصورت ہے ، تو شہری اس سے بھی زیادہ خوبصورت ۔۔۔۔ ۔ترکی کے شہر برصا کے بعد ہم نے سب سے زیادہ انسانی خوبصورتی یہیں دیکھی ۔ البتہ شہر ہمیں برصا زیادہ اچھا لگا تھا ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ برصا کو ہم نے فرصت میں دیکھا اور جانچا اور دوسرے یہ کہ برصا ہمارے ملتان کا جڑواں شہر بھی ہے ۔
    لیکن کاش ہم زمانۂ امن میں گئے ہوتے ، یہ افراتفری نہ ہوتی ۔ تو یہ دورہ بھی مزے سے انجوئے کرتے ۔۔ ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد ۔۔

    اور ہاں ! ہم یہ تو بھول ہی گئے کہ کزن کا کیا بنا ۔۔؟
    اس کو چار سال کی قید ہوگئی ۔۔
     
    اویس جمال لون، ملک بلال، ابو تیمور اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت زبردست جناب بہت شکریہ
     
  12. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    بہت دلچسب تحریر بہت کچھ جاننے کا موقع ملا بیلی ڈانسنگ میں مصر سرفہرست ہے بلاشبہ مصری رقص ہوشربا رقص ہے
    شراکت کا شکریہ
    سلامت رہیں
     
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    یہ ادھورے پن کا احساس ہی زندگی کی نیرنگی کا راز ہے اپنے آپ کو مکمل سمجھنے والے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں

    ضد ہے ساقی سے کہ بھر دے مرا پیمانہ ابھی
    شیخ صاحب سیکھئے آدابِ میخانہ ابھی
    باغباں توہینِ گلشن ہے چار تنکوں کے لئے
    برق سے کہ دے بنا جاتا ہے آشیانہ ابھی
     
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    واہ کیا خوب ہے :)
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    خوبصورت انداز تحریر
    گاؤں کے رسم رواج سادہ دلی اور معصومیت کو بہت خوبی سے اجاگر کیا :)
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب :)
    میں نے چار بار ہوئی سفر کیا ہے اور جو بھی ایر ہوسٹس ملی اسے دیکھ کر خدا یاد آ جاتا تھا
     
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب تصاویر :)
    مراکش کے بادشاہ کے محل کا دروازہ اورجامع الفنا عرب آرکیٹکچر کا نمونہ ہیں جبکہ ریلوے اسٹیشن جدید طرز تعمیر کے مطابق لگ رہا ہے
     
    عمر خیام اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    بہت معلوماتی اور دلچسب تحریر بہت سی نئی باتیں جاننے کا موقع ملا :)
     
    عمر خیام اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں لبنانی حسن ویسے ہی ہوشربا ہوتا ہے
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    باکو کے بارے میں دلچسپ معلومات اور زبردست انداز بیان
    مزہ آ گیا
    کیا بات ہے عمر خیام جی آپ کی
    خوش رہیں
    بہت جئیں
     
    عمر خیام، پاکستانی55 اور سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    قائرہ کا ساربان ۔۔۔۔

    قائرہ میں اہرام کی سیر کے دوران ایک بوڑھا ساربان اپنے اونٹ اور ایک ساتھی کے ساتھ ہمارے پیچھے پڑ گیا کہ جناب مصر کی خاص بات اہرام ہیں اور اہرام کی سیر کی خاص بات اونٹ کی سواری ہے ۔ اونٹ پر بیٹھ کر اہرام جو خاصا اونچا ہے ،ذرا کم اونچا نظر آتا ہے ۔ آپ کو ضرور کرنی چاہیے ۔ آپ کے لیے خاص رعایت ہے کہ آپ دونوں میاں بیوی اونٹ کی سواری کریں تو بچے کی سواری بالکل فری ۔ اونٹ کی سواری کا مزہ زندگی میں ایک بار تو ہم نے ویسے بھی چکھنا تھا، چلو یہاں ہی سہی ۔ اس سے بہتر اور کونسی جگہ ہوسکتی ہے بھلا۔ ہمارے اپنے علاقے میں تو پہاڑ وغیرہ ہوتے ہیں ، جہاں پہاڑ ہوں وہاں ڈھلوانیں ، اترائیاں اور کھائیاں بھی ہوتی ہیں ۔وہاں اونٹ سے گریں تو خدشہ یہ بھی ہوتا ہے کہ دس بارہ فٹ سے زیادہ نیچے گریں گے اور کئی سو فٹ تک لڑھکتے جائیں گے ۔ یہاں اونٹ سے گرے تو زیادہ سے زیادہ زمین پر گریں گے اور زمین بھی صحرائی۔
    اونٹ کی سواری کا معاوضہ طے کرنے کے بعد ہم نے مزے سے اونٹ کی سواری کی ۔ اونٹ کی سواری میں سب سے آسان چیز اس کی سواری ہے ۔ اونٹ کا اٹھنا اور بیٹھنا اگر آپ یا اونٹ کا مالک بالکل ہی ناتجربہ کار ہوں تو بہت نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے ۔ فوٹو بنوائے ، اونٹ کو دوڑانے کی کوشش بھی کی جو ناکام رہی ۔اونٹ اتنی مشقت پر تیار نہ تھا یا زبان کا فرق مانع رہا ۔
    اونٹ سے اترے اور ادائیگی کی کوشش کی تو اونٹ کا بوڑھا مالک کہنے لگا کہ آپ مصری پاؤنڈ دے رہو جبکہ معاملہ برٹش پاؤنڈ کا طے ہوا تھا ۔ایک برٹش پونڈ میں ان دنوں آٹھ یا نو مصری پونڈ آتے تھے۔ ہم بولے ، باؤلے ہوگئے ہوکیا ؟ یا ہمیں پاگل سمجھتے ہو جو ہم 15 منٹ کی اونٹ کی سواری کے لیے 50 برٹش پاؤنڈ دینے پر آمادہ ہوگئے تھے ۔ بھلے میاں، اس سے بہتر تھا کہ ہم 50 پونڈ میں ذرا سا اور ڈالتے تو سالم اونٹ ہی خرید لیتے ۔ خود بھی مزے سے سواری کرتے اور کرایے پر دوسرے سیاحوں کو بھی دیتے ، اچھی خاصی دیہاڑی بنا لیتے اور شام کو قیمت خرید پر بیچ دیتے ۔وہ کونسا کم تھا، کہنے لگا کہ صرف 50 مصری پونڈز میں تو اس کو وارہ ہی نہیں کھاتا ۔ اس سے بہتر تھا کہ گھر ہی بیٹھا رہتا یا اگر کام پر آتا تو آپ کو مفت میں سواری کرنے دیتا۔ آپ پر احسان بھی ہوجاتا اور دنیا میں ہماری مہمان نوازی کا ڈھنڈورا بھی پٹتا۔
    میچ کا یہ ہاف برابر رہا ۔ ادائیگی ہم نے مصری پونڈز میں ہی کی البتہ 50 کے بجائے 60 دینے پڑے ۔
    رقم کو لمبے سے چوغے کے اندر کی خفیہ جیب میں منتقل کرنے کے بعد وہ پھر مدمقابل آگیا ، کہنے لگا کہ رقم تو آپ ادا کردی ، شکریہ اس کا ، اب ذرا بخشیش بھی عطا کردیں ۔ ہم بولے کہ بخشیش تو ہم تب دیتے اگر ہم تمہاری سروس سے خوش ہوتے ۔ کہنے لگا، وہ تو آپ ہوئے تھے، اونٹ پر بیٹھ کر آپ بہت خوش ہوا تھا، اور فوٹو بھی کھنچوائے تھے ۔ اور فوٹو انسان اسی وقت بنواتا ہے جب وہ خوش ہوتا ہے ۔ کبھی غمی یا اداسی کے موقعے پر نہیں بنواتا۔ اگر ایسے موقعے پر انسان فوٹو بنوائے تو سمجھو کہ وہ اداس یا غمگین نہیں بلکہ بن رہا ہے اور کسی کو دکھانا چاہتا ہے ۔
    دس پونڈز ( مصری) مزید اس کو دینے پڑ گئے کہ اس کے دلائل مضبوط تھے ۔
    آپ سمجھو گے کہ اب شاید اس نے جان چھوڑ دی ہوگی یا ہم اس سے جان چھڑا کے چل دیئے ہوں گے ۔ لیکن کہاں صاحب ، اب اس نے کہا کہ آپ اچھے آدمی ہو ، آپ ایک سواری اور کرلو، بالکل مفت ،آپ ہندی لوگ دل کے اچھے ہوتے ہیں ۔ہم نے اس کو درست کیا کہ ہم ہندی نہیں ہیں بلکہ ہندیوں سے تو کئی سال سے جھگڑا چل رہا ہے ۔ کہنے لگا کہ عرب اور فارس سے آگے اور چین اور ہمالیہ سے پہلے ہند ہے اور وہاں کے لوگ ہندی ۔ نام بے شک وہ کوئی بھی رکھ لیں۔
    ہم نے کہا کہ تمہارا جغرافیہ تمہاری عمر کی طرح پرانا ہے مگر ہم نے اونٹ کی سواری کو بس ایک تجربہ ہی کرنا تھا سو ہم نے کرلیا ۔ اب دوبارہ کی چاہ نہیں ۔ اس نے کہا کہ چلو آپ تو ڈرپوک سے لگتے ہو ، یہ بی بی لوگ کرلیں ۔یہ میری بیٹی برابر ہے ۔بلکہ اس کی شکل بھی میری بیٹی سے ملتی ہے ۔ بالکل مفت ۔ کوئی پیسہ نہیں۔ اور یہ رعایت میں صرف اپنے گھر والوں کو دیتا ہوں ۔ دیکھو اب میں نے تمہیں اپنا کہہ دیا ، اپنے خاندان میں شامل کردیا ہے ۔ میرا دل رکھ لو ۔ پہلے والی باتیں بھول جاؤ کہ وہ تو کاروبار کی باتیں تھیں ۔ روزی روٹی بھی تو کمانی ہوتی ہے ۔ اپنا اور اس اونٹ کا پیٹ بھی بھرنا ہوتا ہے ۔اب معاملہ خاندان کے ایک فرد کا دوسرے فرد سے ہے ۔ ناں نہ کرنا۔ سچی بات یہ کہ ہم اس کے جذبہ خیر سگالی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور بیگم کو کہا ایک سواری اور لے لو ۔ یہاں کونسا اتنے "ہندی" آتے ہوں گے اور وہ بھی اس کے ہم مذہب ۔
    بیگم نے اونٹ پر بیٹھ کر ادھر ادھر ایک چکر لگایا ۔ نیچے اتری تو ہم نے بوڑھے ساربان کا شکریہ ادا کیا اور اجازت چاہی ۔ لیکن وہ بہت خرانٹ بڈھا تھا ۔ الف لیلوی بڈھے کی طرح جو کسی کے کندھے پر بیٹھ گیا تھا اور اترتا نہیں تھا ۔پھر پیسے لینے کے درپے ہوگیا۔ ہم نے اس کو یاد دلایا کہ تم نے تو کہا تھا یہ بالکل فری ہے ۔ اس کی طرف سے تحفہ ۔ لمبی چوڑی تقریر کہاں گئی ؟ کہنے لگا، وہ تو میرے دل کی ترجمانی تھی ۔ میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں ، بھولا بالکل نہیں ہوں ۔ میری طرف سے کوئی تقاضا نہیں ہے ۔ لیکن یہ رقم تو میں اپنے اونٹ کے لیے لے رہا ہوں ۔ رعایت میری طرف سے تھی ، اونٹ کو تو مشقت کرنا پڑی نا ۔ اس کا ساتھی بوڑھا بھی اس کی تائید میں سر ہلا رہا تھا کہ واقعی اونٹ نے مشقت تو کی ۔
    " کیمل ہیڈ اے ہیسل " "Camel Had a Hassle" یہ اس کے الفاظ تھے جو وہ بار بار ایک ورد کی طرح کہے جارہا تھا۔
    دس پونڈز مزید اس کو بلکہ اس کے اونٹ کو دینے پڑے ۔ اب اس کا ساتھی بوڑھا بھی بخشیش مانگ رہا تھا کہ اس کا بھی حق بنتا ہے، کیونکہ اس کو بھی بہت " ہیسل " ہوئی ہے ۔
     
    Last edited: ‏17 جون 2015
    ملک بلال، اویس جمال لون، تانیہ اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    سب سے پہلے تو آپ زبردست انداز بیاں پر داد وصول کریں:dilphool:
    اس کے بعد باقی باتیں کہ
    بوڑھا شتربان باتیں بھی ٹھیک کر گیا تھا اور دیہاڑی بھی ٹھیک لگا گیا تھا۔
    کیونکہ مصری پاونڈ کے بدلے میں برٹش پاونڈ ناں لینا بھی اس کا احسان تھا
    کیونکہ بھابھی کو اونٹ کی فری سواری کروانا بھی اس کا احسان ہی تھا۔
    اس کے علاوہ ہندی لوگوں کے تعریف میں زمین آسمان ایک کرنا بھی احسان تھا
    اور اونٹ کے اخراجات کے لئے ہمدردی بھی اس کا اونٹ پر احسان ہی تھا
    اور آخر میں اس کے ساتھی کا بھی احسان تھا کہ وہ ایک ہی تھا ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:84:
     
    پاکستانی55 اور عمر خیام .نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    بہت دلچسپ روداد لطف آیا پڑھ کر
    بوڑھے ساربان کے بارے میں پڑھ کر تاریخ کا مشہور فرضی کردار پیر تسمہ پاء یاد آ گیا
    شاد و آباد رہیں
     
    پاکستانی55 اور عمر خیام .نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    سیانے لوگوں کے ساتھ کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ ہر لمحہ ان سے سیکھنے کا عمل بغیر کسی تردد اور تکلف کے جاری رہتا ہے ۔ بہت شکریہ سید شہزاد ناصر بھائی ، مجھے پیر تسمہ پاء کا نام یاد نہیں آرہا تھا ۔
     
    پاکستانی55 اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    اب تو یاد آ گیا :)
    کبھی اس کی کہانی پڑھی تھی یادوں کے نہاں خانے میں پتہ نہیں کہاں گم ہے
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    ابو تیمور بھائی سارا مصر ایسے بڈھوں سے بھرا پڑا ہے ۔ مصر تاریخی اعتبار سے دیکھنے لائق ہے مگر مصری لوگ دنیا کے دیگر سیاحتی مراکز کے لوگوں کی طرح خوش اخلاق یا کاروباری لحاظ سے قابل اعتبار نہیں ۔ بخشیش تو ہر کوئی مانگنے پر آجاتا ہے ۔ راہ گذرتے بچے بوڑھے اور مائیاں بھی غیر ملکی کو دیکھ کر بخشیش کا نعرہ مار دیتے ہیں ۔ قائرہ اور اسوان کے درمیان نیل کنارے ایک ذرا چھوٹا شہر ہے جسے اہل عرب الاقصر اور اہل مغرب لکسور کہتے ہیں، میں ایک جگہ ہم رستہ بھول گئے اور گلیوں میں بھٹکنے لگے ۔ اب ہم بخشیش کے ڈسے کسی سے رستہ بھی نہیں پوچھ رہے تھے کہ جس سے پوچھا اس نے بتانا کچھ نہیں البتہ بخشیش مانگ لینی ہے ۔
     
    ملک بلال، اویس جمال لون، ابو تیمور اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    استنبول۔۔۔۔

    یہ بھی ایک یادگار سفر تھا
    ہم صبح ھوٹل سے نکلے تھے۔ استنبول کی مشہور بلیو مسجد، سینٹ صوفیہ کا گرجا دیکھ چکا تھا۔ ان دونوں کے سامنے فوٹو بھی بنوا چکا تھا۔
    مسجد میں دو نفل بھی پڑھ آیا تھا کہ چلو سفر کی برکت کیلیۓا چھے ہیں۔
    استنبول کا مشہور گرینڈ بازار بایاں ھاتھ پر تھا۔ سوچا کہ اس کو بعد میں دیکھیں گے۔ دوپہر کے بعد دھوپ زیادہ ہوگی تو گرینڈ بازار کی چھتوں کے نیچے سکون سے گھومیں پھریں گے۔ اس وقت توپ کاپی میوزیم دیکھ آئیں۔
    ہم نے کچھ سال پہلے ایک پاکستانی فلم دیکھی تھی۔ نام یاد نہیں رہا کہ کیا تھا۔ جاوید شیخ کی فلم تھی۔ اس کو ترکی کی کسی حسینہ سے حسب معمول پیار، عشق محبت ہوجاتا ہے۔ کہانی کچھ اتنی یاد نہیں رہی ، بہروز سبزواری کا ایک ڈائیلاگ یاد رہ گیا ہے۔ کہ ہر سین میں کہتا ہے کہ باس لاش ٹھکانے لگا دی ہے۔ لاش ٹھکانے لادوں؟۔۔ ۔۔۔۔۔۔پھر آخر میں وہ خود مرنے والا ہوتا ہے تو اس کے آخری الفاظ بھی یہی ہوتے ہیں۔۔۔ باس میری لاش ٹھکانے لگا دینا۔۔۔۔۔ بہت جذباتی سین ہوتا ہے۔

    اس فلم میں ہم نے پہلی بار توپ کاپی میوزیم کے بارے میں جانا کہ اس جگہ پر بہت سی اسلامی یادگاریں ہیں۔ دیکھنے لائق ہیں۔ ضرور جانا چاہیے۔

    توپ کاپی میوزیم کے صدر دروازے کے دائیں بائیں سٹال نما دکانیں ہیں۔ ہم اندر جارہے تھے کہ کسی نے آواز دی۔ اسلام علیکم۔ ہم نے جواب دیا۔ وہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا تھا۔ عام ترک لڑکوں سے زیادہ صاف انگریزی میں بات کررہا تھا۔ بتانے لگا کہ وہ اسلام آباد میں ایک مہینہ رہ کر آیا ہے۔ اس کا انکل اسلام آباد میں ترکی ایمبیسی میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں بہت سیر کی۔ پشاور اور مری بھی دیکھا۔۔ ہمیں دکان کے اندر لے گیا۔ ثبوت کے طور پر فوٹو دکھانے کی پیش کش کی۔

    ہمیں باتیں کرتا دیکھ کر ایک اور نوجوان بھی آگیا۔ اس نے کہا کہ اس کی بہن کی شادی ایک پاکستانی سے ہوئی ہے۔ وہ بھی اسلام آباد میں رہتی ہے۔۔ ہمیں ڈر تھا کہ یہ لوگ واقفیت نکال کر اب کوئی شے بیچنے کی کوشش کریں گے۔ ترکی، مصر، تیونس، مراکو۔۔۔۔ ان سب جگہوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ کو برادر۔ بھائی۔ بول کر دگنی تگنی قیمت پر چیز بیچ دیتے ہیں۔ اور آپ اپنے ملک و قوم کے وقار کا جھنڈا بلند کرنے کی خاطر کچھ نہ کچھ خرید ہی لیتے ہیں۔ تاکہ یہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ شاید ہمارا ملک زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا شکار ہے۔۔

    لیکن ان لوگوں نے ایسا کچھ نہ کیا۔ صرف پیار اور خلوص کی رشتہ داری جتاتے رہے۔ یہ ہمارے ساتھ ہر جگہ ہوا، ترکی میں جس جگہ بھی گیا۔۔۔ اور ہم چھ سات مختلف شہروں میں گیا۔ ہر جگہ پاکستان کی مناسبت سے بہت عزت کی گئ۔

    اب آپ لوگ سوچے گا کہ ان لوگ کو پتہ کیسے چل جاتا تھا کہ یہ بندہ اسی علاقے کا۔۔ اصل میں ہمارے ساتھ ہماری ہمسفر بھی تھی۔ اور اس کے شلوار قمیص کی وجہ سے ہر کسی کو پتہ چل جاتا تھا کہ ہو نہ ہو بے نظیر والے ملک سے اس کا تعلق ہے۔ ویسے ہم بنیادی طور پر بے نظیر کی پالیسیوں سے کبھی متفق نہیں رہا اور نہ ہی اس کی شخصیحت سے متاثر ہوا۔۔۔ لیکن جس بات کا حق بنتا ہمارے خیال میں وہ حق اس کے حقدار کو دیا جانا چاہیے۔۔ بیرونی دنیا میں بے نظیر کو اس حوالے سے جانا جاتا کہ شلوار قمیص ایک پرکشش لباس ہے۔ سلیقے سے پہنا جاۓ تو ہر جگہ چل جاتا ہے۔

    توپ کاپی میوزیم کے اندر جانے سے ہم نے ہمسفر سے پوچھ لیا کہ کیمرے کی کتنی فلمیں ہیں؟ کہنے لگی ایک کیمرے کے اندر ہے اور ایک اس کے علاوہ فالتو بیگ میں۔ ہم نے کہا کہ کچھ اور خرید لیتے ہیں۔ نہ مانی۔ کیا ضرورت ہے۔ ساٹھ ستر فوٹوؤں کی جگہ ہے۔ ہم نے کونسا اتنے زیادہ فوٹو لینے ہیں۔

    توپ کاپی کسی زمانے میں عثمانیوں کا محل تھا۔ اب عجائب گھر ہے۔

    دائیں طرف کے کمروں سے ہم نے دیکھنا شروع کیا۔

    بادشاہوں کے باورچی خانوں کے برتن۔ سونے چاندی کی صراحیاں۔ طشتریاں۔

    پھر ملبوسات کی باری آئی۔ بھاری بھاری چوغے۔ سونے کی تاروں سے کڑائی کیے ہوۓ۔

    ہتھیار، تلواریں، خنجر۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک خنجر چاندی کا۔ جس کے دستے پر بیش قیمت ہیرے، لعل اور جواہرات جڑے ہوۓ۔

    آگے ایک تخت۔۔ جو سب کا سب سونے کا بنا ہوا

    ایک اور تخت جو شاید ساگوان کی لکڑی کا بنا تھا، لیکن اس پر جواہرات، لعل اور یاقوت وغیرہ اتنا تھا کہ لکڑی چھپ گئ تھی۔ یہ تخت کسی عثمانی سلطان کو ایران کے نادر شاہ نے تحفہ دیا تھا۔

    ایک پنگھوڑا۔ جس پر ہیرے ، نیلم، یاقوت اور لعل جڑے تھے

    سلطنت عثمانیہ اپنے عروج کے دور میں آج کل کے سعودیہ، یمن، عراق، وسطی ایشائی ممالک ( یعنی جورجیا، آرمینیا۔ آذر بائیجان۔ چیچنیا ترکمانستان وغیرہ)، ترکی، شام، بلغاریہ کا آدھا علاقہ۔یوکرائن کا کچھ علاقہ ، رومانیہ، البانیہ، مصر لبنان، اردن فلسطین تک پھیلی تھی۔

    ہم آہستہ آہستہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے، ایک دالان سے دوسرے دالان ، ایک برآمدے سے دوسرے تک جارہے تھے۔ خاص خاص چیزوں کے فوٹو لے رہے تھے۔ کچھ جگہوں کے فوٹو فلیش کے ساتھ لینا ممنوع تھا۔ فوٹو بنانے والا شروع شروع کا شوق اب ماند پڑ گیا تھا۔ اب ام کتنے خنجروں، کتنے دیگچوں، یا کتنے کرتوں کے فوٹو بناتے۔ یادگار اور تبرک کی طور پر ایک فوٹو بنالیا تھا۔ ویسے بھی اس خنجر، اور تخت کو دیکھنے کے بعد آنکھوں میں عام چیز جچ بھی نہیں رہی تھی۔

    پھر مختلف قسم کے قرآن آگۓ۔

    باتصویر یعنی نقش و نگار کے ساتھ۔۔۔ ھاتھ سے خطاطی کیے ہوۓ قرآن۔ سونے کی تاروں والے۔ ایرانی خطاطی۔ مصری خطاطی۔ سمرقند بخارا سے تحفہ کے ہوۓ قرآن۔ چھوٹے چھوٹے ایک ہتھیلی کے برابر نسخے۔ بڑے بڑے ایک ایک گز کے صفحے والے نسخے۔ ہزار سال پہلے کے لکھے ہوۓ۔

    پھر ایک مدھم روشنی اور تلاوت قرآن کی مدھر اور پرسوز آواز والے کمرے میں ہم داخل ہوۓ۔ یہ دیکھنے والی اور یاد رہ جانے والی جگہ ہے۔دنیا میں شاید دو جگہیں ایسی ہیں جہاں ہمہ وقت قرآن مجید کی تلاوت بغیر کسی وقفہ کے تواتر کے ساتھ کی جاتی ہے ، ایک توپ کاپی میوزیم کا یہ کمرہ جہاں ہم کھڑے تھے اور دوسری رباط میں شاہ حسن دوم کے مزار پر ۔۔ اس جگہ پر حضرت محمدﷺ کے دندان مبارک، آپﷺ کا نقش پا۔ آپﷺ کا ایک خرقہ مبارک۔ آپﷺ کی ریش مبارک کا بال۔ آپﷺ کی تلوار اور نیزہ۔ حضرت فاطمہؓ کی چٹائی۔ چاروں خلفاۓ راشدین کی تلواریں ، نیزے۔ حضرت علی ؓ کی تلوار کا ام بچپن سے ہی بہت شہرہ سنتے آۓ ہیں کہ ان کی تلوار اتنی بھاری ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ ان کا قد باقی تمام صحابہ کرام سے چھوٹا تھا۔ گو کہ وہاں پر چھوٹی چھوٹی پرچیاں لگی ضرور تھیں کہ جن سے پتہ چلتا تھا کہ کس چیز کی کس صحابی یا مقتدر ہستی سے نسبت ہے لیکن دل کی تسلی کی خاطر ہم نے ایک گاییڈ سے پوچھا کہ ان میں سے حضرت علیؓ کی تلوار کونسی ہے ؟ واقعی وہ بڑی تھی۔ بھاری بھی ضرور ہوگی۔ ہم نے قائرہ کی ایک مسجد کے ایک عجائب گھر میں کسی صحابی کی ایک زرہ دیکھی تھی، بلکہ چھوئی تھی اور ٹٹول کر اس کا وزن جانچنے کی کوشش بھی کی تھی۔ تیس کلو گرام تو ضرور ہوگی۔ اتنی بھاری زرہ ، اتنی گرمی میں پہن کر اتنی بھاری تلواریں چلانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ آفرین ہے ان سب پر۔ ہم تو نکڑ کی دکان سے ایک دن کا سودا لائیں تو شاپر بیگ کے اٹھانے سے بازو شل ہوجاتے ہیں ۔

    قرآن کا وہ خون آلود نسخہ بھی یہیں ہے جس کی تلاوت کرتے ہوۓ حضرت عثمانؓ شہید ہوۓ تھے۔ خانہ کعبہ کا ایک بے حد پرانا غلاف، اور لکڑی کا دروازہ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی پگڑی، حضرت داؤد علیہ السلام کی کوئی شے بھی موجود تھی، اب یاد نہی رہا کہ کیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیالہ۔

    میری ہمسفر جس نے کہا تھا کہ کیمرے کی دو فلمیں بہت ہیں۔ ایسا بھی کیا۔ ۔ ۔ ۔ اس کو چار اور کی ضرورت پڑی ۔

    اور ایسی بے شمار نوادرات ہیں کہ جن کے دیکھنے سے ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ اور بندہ خود کو بے حد خوش قسمت تصور کرتا ہے۔ ہم نے بھی اپنے آپ کو بے خوش قسمت تصور کیا۔ کہ کہاں ہم جیسا پہاڑ کی دامن میں بکریاں چرانے والا آجڑی دیہاتی اور کہاں عثمانی بادشاہوں کے محلات ۔ جو چوتھائی دنیا پر حکمرانی کرتے تھے۔ اورسب سے بڑھ کر کہاں دونوں جہانوں کے بادشاہ اور ان کی زیر استعمال چیزیں۔ اگلے جہاں کو جب حساب کتاب ہوگا تو شاید یہ ہمارے بے حد کام آجاۓ کہ جس وقت ہم ان سب چیزوں کو دیکھ رہے تھے تو ہمارے دل میں احترام۔ شوق اور محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
     
  28. ابو تیمور
    آف لائن

    ابو تیمور ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مارچ 2012
    پیغامات:
    61,873
    موصول پسندیدگیاں:
    6,599
    ملک کا جھنڈا:
    بہت ہی پر اثر تحریر عمر خیام بھائی
    لیکن آپ سے اس تحریر میں ایک گلہ اور وہ بھی اہم ضرور ہے
    کہ اس سفر میں فلم اور تصویروں کو ایک خاص مقام حاصل رہا۔
    لیکن آپ نے ہمارے اس سفر میں تصاویر کا ذکر کر کر کے اور ایک بھی تصویر دکھائے بغیرنامکمل کر دیا ہے
    اس لئے سب سے پہلے اور جلدی سے اپنی کھینچی ہوئی تصاویر بھی ہمارے ساتھ شئیر کریں تو ہم سب بھی آپ کے ساتھ ساتھ اس سفر کا بھرپور لطف لے سکیں
    اور سب سے خاص بات، ان اشیا کی زیارت کر سکیں جو ہماری نظروں سے اوجھل رہ چکی ہیں
     
    ملک بلال، عمر خیام اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    جیسا کہ آپ نے اس تحریر سے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ اس زمانے میں ہمارے پاس ڈیجیٹل کیمرہ نہیں تھا ، بلکہ ایک عام سا انالاگ کیمرہ تھا ۔ ہم نے فوٹو تو بہت بنائے اور یہ فوٹواب بھی ہمارے پاس ہیں ، بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ یہ فوٹو ہمارے پاس ہونے چاہئیں ۔ کسی باکس میں پڑے ہیں ۔ کسی دن نکالیں گے اور سکین کرکے ان میں سے کچھ یہاں لگا دیں گے ۔ میوزیم میں فلیش کے ساتھ فوٹو کھینچنا ممنوع تھا کیونکہ تیز روشنی سے ان قیمتی اور تاریخی نوادرات کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ اس لیے کوالٹی کی گارنٹی نہیں۔
     
    ملک بلال، ابو تیمور اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    استنبول میں دیکھنے کو اور بھی بہت کچھ تھا۔ گرینڈ بازار۔ مشرقی تہذیبوں کا میوزیم، غلطہ کا پُل۔ خود استنبول کا شہر۔ شہر کا نظارہ۔ نظارہ بھی ایسا کہ دنیا کا کوئی اور شہر اس جیسا نہیں ۔ یہ شہر دو براعظموں میں موجود، تین سمندروں کے کنارے اور سنگھم پر۔۔۔ بحیرہ اسود ( بلیک سی) مارمورا ، اور باسفورس استنبول کے قدموں میں بچھے رہتے ہیں۔ توپ کاپی (طوپقپی ) میوزیم، نیلی مسجد اور سینٹ صوفیہ کا گرجا اور گرینڈ بازار ساتھ ساتھ ہیں۔ اور یورپی حصے میں ہیں ۔ اور یہ ذرا اونچائی پر ہیں۔ پہاڑی کے نیچے غلطہ کا مشہور پل ہے جو دونوں حصوں یعنی یورپی اور ایشیائی کو ملاتا ہے۔ غلطہ کے پل سے شاخ زریں ( گولڈن ھارن) کے نام کی ایک آبناۓ ہے جو سات کلومیٹر تک جاتی ہے۔ توپ کاپی سے باہر نکل کر ایشیائی حصے کو دیکھو تو آپ کو سات مسجدیں نظر آتی ہیں۔ جن کے ڈیزائن بالکل ایک جیسے ہیں۔ مقامی لوگ ان کو سات بہنیں کہتے ہیں۔ یہ مختلف عثمانی سلطانوں نے اپنے اپنے دور میں بنوائیں تھیں۔ پہلے کسی ایک نے بنائی ہوگی بعد میں جو بھی آیا اس نے اپنا نام بنانے کیلیےبنوائی ہوگی۔ یا یہ سوچ کر بنوائی ہوگی کہ اگر نہ بنوائی تو برادری میں ناک کٹ جاۓ گا۔

    افسوس کہ ہم کو استنبول میں زیادہ دن رہنے کا موقعہ نہیں ملا۔ ہم گیلیپولی کی طرف سے استنبول آیا تھا۔ اگلی منزل برصہ کا شہر تھا۔ استنبول کے بعد ہمیں برصہ سب سے زیادہ پسند آیا۔ شاید ا سکی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ یہ سرسبز و شاداب شہر تھا اور اس کے پس منظر میں پہاڑ تھے۔

    گیلیپولی میں پہلی جنگ عظیم میں بہت ہی زوردار جنگ لڑی گئ تھی۔ گیلیپولی اس پانی کے راستے کے داخلے کا مقام تھا جہاں سے جہاز بحیرہ روم سے بحیرہ اسود میں داخل ہوکر استنبول پہنچ سکتے تھے۔ یہ تنگ سی نہر ترک قوم کیلیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئ۔ اتحادی فوج میں ہزاروں آسٹریلیائی اور نیوزی لینڈ کے فوجی تھی۔ ہندوستانی فوج کے دو ڈویژن تھے جن میں مسلمان پلٹنیں بھی تھیں۔ پہلے تو ہندوستانی مسلمانوں کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ جرمنوں اور اطالویوں سے لڑائی ہورہی ہے۔ لیکن جب ہندوستانی مسلمانوں ( جن کی اکثریت پوٹھوہار اور سرحد سے متعلق تھی) کو پتہ چلا کہ ان کے مقابل ترک ہیں تو اکثر نے لڑنے سے انکار کردیا۔ کورٹ مارشل اور فائرنگ سکواڈ کا سامنا کیا۔ اور کئ بھگوڑے ہو کے ترکوں سے جاملے۔ چند فوجی تو جنگ کے بعد وہیں مستقل رہ گۓ۔ وہیں شادیاں کرلیں اور اب وہ اور ان کی بچے ترکوں میں ہی مدغم ہوگۓ ہیں۔ مصر میں ہم کو پتہ چلا کہ ایک ہندوستانی مسلمان فوجی نے وہیں شادی کرلی اور وہیں رہ گیا۔ اب اس کی شہریت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ مصر کا قانون اور ہے۔ عربوں کی طرح وہ کسی کو اتنی آسانی اور جلدی سے خود میں شامل نہیں ہونے دیتے، جبکہ ترکی چونکہ یورپی یونین میں شامل کو کوشاں ہے اس لیے اس کے قانون میں شہریت کا حصول آسان ہے۔ یہی حال انڈونیشیا میں بھی ہوا تھا۔ مسلمان یونٹیں جو جاپانیوں سے لڑنے گئی تھیں ان کو پتہ چلا کہ وہ انڈونیشی مسلمان بھائیوں کی آزادی کی جنگ میں مزاحم ہورہے ہیں تو انہوں نے بھی لڑنے سے انکار کیا تھا۔ اور ایک بڑی تعداد اپنے انڈونیشی بھائیوں کے شانہ بشانہ لڑی تھی۔ اور انڈونیشیا کی سرکار اور عوام کو ہندوستانی مسلمانوں کی اسی قربانی کا احساس تھا کہ جب 65ء کی جنگ چھڑی اور خدشہ ہونے لگا کہ جنگ کے اثرات مشرقی پاکستان تک بھی آجائیں گے۔ تو اس وقت کے صدر سوئیکارنو نےاپنی فضائیہ کو حکم دیا تھا کہ ایسی صورت میں بحرِ ہند میں انڈین ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاۓ اور مشرقی پاکستان میں پاکستان کے تحفظ کیلیۓ تیار رہیں۔۔۔۔ 65ء کی جنگ کے حوالے سے ۔۔۔۔ ایران کا کردار بھی بہت حوصلہ مندانہ تھا۔ رات کے پہلے پہر حملہ ہونے کے خبر ملتے ہی پاکستان کی وزارت خارجہ متحرک ہوگئ تھی اور اپنے دوست ممالک سے رابطوں میں مصروف ہوگئ۔ ایک فون کی گھنٹی ایران کے شاہی محل میں بھی بجی۔ پاکستانی سفیر نے شاہ کو بتانے کو کہا۔ محل کے سٹاف نے کہا کہ شاہ رات دیر سے سویا ہے۔ان کو جگانے کی اجازت نہیں ۔ بہت منت ترلا کیا گیا، لیکن محل کا سٹاف نہ مانا۔ پاکستان کیلیۓ ایک لمحہ لمحہ قیمتی تھا۔ سفارتی اثرورسوخ بھی چاہیے تھا۔ لیکن بڑی وجہ تیل تھی۔ جنگ نجانے کتنے دن جاری رہتی۔ پاکستان ان دنوں میں بھی آج کی طرح تہی دامن تھا۔ آخر شاہ کی ہمشیرہ ( اشرف پہلوی ) تک رسائی ہوگئ۔ شاہ کی یہ بہن اپنی آزاد اور مغربی طرز معاشرت کی بناء پر بدنامی کی حد تک مشہور تھی۔ بلکہ اندرون محل اس کو خاندان پر دھبہ سمجھا جاتا تھا۔ اور بیرون محل بھی اس کے سکینڈلز کی وجہ سے بے چینی پائی جاتی تھی۔ لیکن قدرت بے نیاز ہے۔ وہی ذات اقدس جانتا ہے کہ کس سے کس وقت کیا کام لینا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہیں لکھا کہ ہمیں خوش فہمی ہے کہ روز قیامت ہم کو حضورﷺ کی اشیاء کو محبت سے دیکھناہمارے لیے باعث بخشش ہوگا ، ایسا ہی خوش گمانی کہ روزمحشر شاہ کی بہن کی یہ نیکی کہ وہ شاہ ایران کی خوابگاہ میں گارڈ ز کے روکنے کی باوجود چلی گئ اور شاہ کو جگایا۔ شاہ نے مفت تیل دینے کا حکم دیا۔ دنیا بھر میں اپنے سفیروں کو کہا کہ پاکستان کے مؤقف کی زبردست حمایت کی جاۓ۔ ایئر فورس کی طرف کہا گیا کہ وہ پاکستان اپنے ٹیکنیشن بھیجے تاکہ ناکارآمد جہازوں کی مرمت کرسکنے میں مدد کریں۔ سب کو اللہ اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے۔۔ اللہ کی رحمتوں اور عنایتوں کی بھی بھلا کوئی حد ہے کیا اسے اک بہانہ ہی تو چاہیے۔!!!

    گیلیپولی کے معرکوں کی تفصیلات ادر موجود ایک میوزیم سے ہوجاتی ہے۔ وہیں پر ایک بڑا سا قبرستان بھی بنا ہے۔ جہاں پر اتحادیوں کے کھیت ہوجانے والے سپاہیوں کی قبریں بنی ہیں۔ مصطفی کمال کا ایک فرمان بھی ایک کتبے پر لکھا پڑھا۔ کہ " " ترک مٹی پر جو بھی مرا، دفن ہوا وہ ترک مٹی کا حصہ ہے۔۔اگر ترک دھرتی نے ان بیٹوں کو خواہ وہ ٹامی ہوں یا مہمت۔۔۔ کو بھی اپنے گلے سے لگالیا، ان کے خون کو اپنے اندر جذب کرلیا۔ تو ہمارا فرض بنتا کہ ان کی قبروں کی حفاظت کریں اور ان کو ویسا ہی عزت والا مقام دیں جو ایک بہادر کی دل میں دوسرے بہادر کے لیے ہوتا ہے۔۔۔" "

    گروپ کا سب لوگ اپنے اپنے ملک کے سپاہیوں کی قبروں کی تلاش میں نکل گئے۔ سولہ ہزار سپاہی آسٹریلیا کا اور چار ہزار نوزی لینڈ کا مرا۔ انگلینڈ، آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے فوجی بھی ھزاروں میں مرے اور وہیں دفن ہوئے ۔۔۔۔ میں بھی بے دلی سے قبروں کے کتبے دیکھنے لگ گیا۔ کہ گائیڈ نے بتایا کہ تمہاری دلچسپی کی چیز اس کونے میں ہے۔۔ میں سمجھا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ ترک مسلمانوں کی قبریں اس طرف ہیں۔ فاتحہ خوانی کرنی ہے تو جا کر کرو۔۔۔ میں اس کے بتائے ہوئے کونے میں گیا۔ تین قبریں تھیں۔۔ امام دین، محمد حسین اور اللہ دتہ کی۔۔۔۔۔ یہ میرے لوگوں کی قبریں تھیں۔یہ دیسی نام تھے ۔ یہ نام ہمارے تھے۔ محمدحسین آپ کو دنیا میں ہر جگہ مل جائیں گے۔ اللہ دتہ اور امام دین نہیں۔

    پوٹھوہار کا علاقہ پتھریلا، کھٹا پھٹا، اونچا نیچا اور بارانی ہے۔ سال میں دو ہی فصلیں ہوتی ہیں۔ سال کے آٹھ ماہ جوان لوگ ویلے رہتے ہیں۔ اس لیے فوج میں جانا ان کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ فوجی کی بہت ٹوہر ہوتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں تاج برطانیہ کو فوجیوں کی ضرورت پڑی تو اس نے برصغیر کی مارشل قوموں کو بھرتی کرنا شروع کیا ۔ دیکھا دیکھی پوٹھوار اور ملحقہ علاقوں سے ہزاروں جوان فوج میں بھرتی ہوۓ۔ ہر گاؤں، ہر پنڈ، ہر ڈھوک ، ہر موہڑے اور ہر چک سے ہر جوان جو قدوقامت والا تھااور بھاگ دوڑ سکتا تھا۔ فوج میں گیا۔ اور فوج کی نوکری کی خاطر ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ سرکار برطانیہ نے ان فوجیوں کا گھر والوں سے رابطہ کرنے کی خاطر ڈاک کا بے حد اچھا انتظام کیا تھا۔ ڈاکیا پوٹھوہاری لوک گیتوں اور ماہیوں کا ایک اہم حصہ بن گیا۔۔ گاؤں کی بڈھی مائیاں اپنے گھبرو بیٹوں اور مٹیاریں اپنے گھبرؤوں کے خط کے انتظار میں ڈاکیے کا انتظار کیا کرتی تھیں۔۔ جس گھر میں خط آتا تو ڈاکیے کو خوش ہوکر گڑ، مکئ یا چنے کے مرنڈے یا اسی قسم کی دیسی سوغات دی جاتی تھی۔

    لیکن جب جنگ عظیم چھڑی تو خط بھی خون آلود ہوگۓ۔ ڈاکیے کو گاؤں کی طرف آتا دیکھ کر مٹیاروں کے دل دھک دھک جاتے، اور دعا کرتے کہ ڈاکیا ان کی گھر کی طرف نہ آۓ۔

    خود ہمارے داداجان کا چچا پہلی جنگ عظیم میں بصرہ عراق تک گیا۔ لیکن وہ ٹھیک سلامت واپس آگیا۔ بلکہ ا سکے بعد ساٹھ سال تک زندہ رہا۔ آخر تک بصرہ کے زمانے کی تین یادگاریں ایک المونیم کا مگ، ایک تانبے کے کٹوری اور ایک لکڑی کے دستے والا کمانی دار چاقو ان کے زیر استعمال رہا۔ کٹوری تو ابا جی بھی شیو کا گرم پانی ڈالنے کے لیے کافی عرصہ تک استعمال کرتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ان کا ایک کزن برما جاکے لڑا اور ایک بھتیجا کئی سال تک مسقط اومان میں عربوں کو مورس کوڈ کی ٹک ٹک سکھاتے رہے ۔
     
    Last edited by a moderator: ‏19 جون 2015

اس صفحے کو مشتہر کریں