1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علوم اسلامیہ میں فقہ کی اہمیت اور کتاب وسنت سے اس کا ربط

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏25 ستمبر 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حرف ِ آغاز

    ”فقہ“ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے، وہ قرآن کریم کا خلاصہ اور سنت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی روح ہے، شریعت کے عمومی مزاج ومذاق کا ترجمان ہے اور اسلامی زندگی کے لیے چراغ راہ بھی، اس لیے علوم اسلامیہ میں اس کی جو اہمیت وضرورت ہے وہ آفتاب نیم روز کی طرح روشن ہے اور یہی نہیں کہ اس کی ضرورت صرف اور صرف ماضی ہی سے وابستہ تھی؛ بلکہ آج بھی اور آئندہ بھی اس کی ضرورت و اہمیت ماضی ہی کی طرح محسوس کی جاتی رہے گی اور مجتہدین کرام قرآن و حدیث میں غوطہ زنی کرکے فقہی اصول کے ذریعے امت کے پیش آمدہ مسائل حل کرتے رہیں گے۔

    ذیل میں اسی پر روشنی ڈالی جائے گی اوراس پہلو کو بھی اجاگر کیا جائے گا کہ علوم اسلامیہ میں ”فقہ“ ہی ایسافن ہے جس کے اندر ایسی عالمگیریت وہمہ جہتی پائی جاتی ہے کہ ہرہر مسلمان کی زندگی بلکہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس سے پوری طرح مربوط ہے، اور اس کے بغیر انسانی زندگی ادھوری ونامکمل سمجھی جائے گی، رہ گئے وہ کورچشم جو اپنی مینڈکی فطرت کی بنا پر سرے سے فقہ کے منکر ہیں اور اسے کتاب وسنت سے علیحدہ شئی گمان کرتے ہیں تو اس سلسلے میں اتنا کافی ہے کہ چاند پر دھول ڈالنے والے کا چہرہ تو گرد آلود ہوسکتا ہے؛ لیکن قمر کی چمک دمک میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔

    غرض یہ کہ ”فقہ“ قرآن وحدیث سے تیار شدہ وہ گاڑی ہے جس کے ذریعے حیاتِ انسانی مکمل زاد راہ کے ساتھ اپنی منزل مقصود (آخرت) تک بآسانی پہنچ سکتی ہے۔

    فقہ کس کا نام ہے

    لغت میں لفظ فقہ کو کسی چیز کے جاننے اور سمجھنے کے معنی میں استعمال کیاجاتا تھا، بعد میں اس کا استعمال خاص علم دین کے فہم میں ہونے لگا(۱) قرآن پاک میں یہی مراد ہے(۲) اور حدیث میں بھی یہی معنی: من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقہ فی الدین(۳)۔ عہد صحابہ و تابعین میں فقہ کا لفظ ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا جس میں ایمان و عقائد، عبادات واخلاق، معاملات اور حدود و فرائض سب شامل تھے، یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ سے منقول فقہ کی تعریف ان الفقہ ہو معرفة النفس مالہا وماعلیہا: ”جس سے انسان اپنے نفع و نقصان اور حقوق و فرائض کو جان لے وہ فقہ ہے“(۴) اپنے اندر مذکورہ تمام چیزوں کو سموئے ہوئے ہے، مگر بعد میں جب علیحدہ طور پر ہر فن کی تدوین وتقسیم ہوئی تو ”فقہ“ عبادات و معاملات اور معاشرت کے ظاہری احکام کے لیے خاص ہوگیا، چنانچہ فقہ کی تعریف علامہ ابن خلدون کے الفاظ میں اس طرح ہے کہ ”افعال مکلفین کی بابت اس حیثیت سے احکامِ الٰہی کے جاننے کا نام ہے کہ وہ واجب ہیں یا محظور (ممنوع وحرام)، مستحب اور مباح ہیں یا مکروہ“(۵) اس کی مزید وضاحت اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ”فقہ ملکہٴ استنباط اور دینی بصیرت کا نام ہے جس کے ذریعے احکامِ شریعت، اسرار معرفت اور مسائل حکمت سے واقفیت ہوتی ہے نیز نئے فروعی مسائل کے استنباط اور ان کی باریکیوں کا علم ہوتا ہے“(۶)

    فقہ کی بنیاد قرآن و حدیث ہی ہیں نہ کہ محض عقل و قیاس چنانچہ علامہ مناظر احسن گیلانی فرماتے ہیں کہ: ”فقہ کے یہ معنی نہیں کہ شریعت میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ عقل کرتی ہے؛ بلکہ وہی بات یعنی نتائج و احکام کا جو روغن وحی و نبوت کے ان معلومات میں چھپا ہوا تھا، عقل کی مشین ان ہی کو اپنی طاقت کی حد تک ان سے نچوڑنے کی کوشش کرتی ہے اسی کوشش کا نام اجتہاد ہے“(۷)

    فقہ کا اصل سرچشمہ

    یہ بات تو پوری طرح واضح ہے کہ احکام شرعیہ کے استنباط کا اصل منبع کتاب اللہ رہا، اس کے بعد سنت رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) پھر قیاس و اجماع، جس کی حقیقی تصویر اس واقعہ میں دیکھی جاسکتی ہے جب کہ حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا قاضی بناکر رخصت کرتے وقت رسول الثقلین ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تھا کہ: کوئی مسئلہ درپیش ہوتو اپنے فیصلہ کی بنیاد کس کو قرار دوگے؟ حضرت معاذ نے عرض کیا کتاب اللہ کو - آپ نے پوچھا اگر اس میں کسی کا حل نہ مل سکے تو؟ فرمایا: احادیث سے فیصلہ کروں گا۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا: کہ اگر وہاں بھی نہ ملے تو؟ اخیر میں کہا کہ اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا اورحق کی جستجو میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا(۸)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کے مزاجِ دین اور مزاجِ شریعت سے ہم آہنگی اور آگہی پر خوشی کا اظہار کیا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی جس سے اس کا رسول راضی ہے۔

    اسی طرح اسی کی ہم شکل تصویر آپ کے وصال کے بعد مسئلہ خلافت سے جھلکتی ہے جوکہ صحابہ کے اجماع سے حل ہوا، اسی کے ساتھ اس حقیقت کی حیثیت بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ درس نبوی کے سب سے پہلے مدرسہ کا پہلا معلم، جن کے اخلاق واعمال نبی کے بالکل مشابہ حضرت ابن مسعود جن کو بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ ہی میں درس و تعلیم کی اجازت دے دی تھی اور صحابہ کو حکم فرمایا کہ قرآن وحدیث اورمسائل ابن مسعود سے حاصل کرو(۹) یہی وجہ ہے کہ آپ کا فقہی طریقہٴ کار بے حد مقبول ہوا بعد میں یہی ”فقہ حنفی“ کی شکل میں ابھر کر پورے عالم میں پھیل گیا۔ مذکورہ سطور سے پوری حقیقت سامنے آگئی کہ عمارتِ فقہ کی خشت اول کتاب اللہ ہے پھر حدیث، قیاس اور اجماع۔ اور فقہ کی بنیاد بھی عہد نبوی ہی میں رکھی جاچکی تھی۔

    فقہ اسلام کا ارتقاء

    فقہ وفتاویٰ کی بنیاد تو عہد رسالت ہی میں پڑ چکی تھی اوراسی زمانے میں خود ایوانِ رسالت سے حضرت ابوبکرصدیق کا مدینہ منورہ میں منصب افتا پر فائز ہونا بھی تاریخ بتاتی ہے۔(۱۰)

    قرنِ اوّل میں جہاں امور دینیہ ودنیویہ کو حل کرنے کے لئے انفرادی و اجتماعی غور و فکر ہوتا تھا وہیں اجتماعی اور شورائی اجتہاد کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر نے اپنے عہد خلافت میں اس مقصد کے لیے اکابر صحابہ اور فقہائے صحابہ کی ایک مستقل مجلس قائم رکھی تھی۔ تابعین کے دور میں بھی مدینہ کے فقہائے سبعہ کی ایسی ہی مثالیں ملتی ہیں، یہ اس زمانہ کا سب سے بڑا اور لائق اعتبار دارالافتاء تھا،(۱۱) بعد میں کوفہ کی درس گاہِ فقہ میں اسی منہاج و طریق کو امام ابوحنیفہ نے مزید وسعت کے ساتھ اختیار کیا اور ایسی عظیم الشان اور وسیع و جامع فقہ کی بنیاد رکھی جو دیگر تمام مکاتب فقہ سے فائق و ممتاز ہے اسی کو آج فقہ حنفی سے جانا جاتا ہے۔

    فقہ اسلامی یا قانونِ اسلامی کی تدوین اور طریقہٴ کار

    تدوین و ترتیب کا باضابطہ سلسلہ اموی دور سے شروع ہوا، اور عہد عباسی کی ابتدا سے مختلف علوم و فنون کی طرف زیادہ توجہ ہوئی۔ چنانچہ اسی زمانے میں فقہ کو فن کی حیثیت حاصل ہوئی۔ علماء تاریخ فقہ کو چار دور میں تقسیم کرتے ہیں، پہلا دور اس کی نشوونما اور ابتداء کا ہے جس کا سلسلہ ۱۰ھء تک جاری رہا، دوسرا دور اس کی وسعت کا ہے جس کی مدت عہد صحابہ سے ۴۱ھء تک رہی ہے، تیسرا دور اس کی پختگی و کمال اور تدوین کا ہے جو صغارِ صحابہ کے دورسے دوسری صدی ہجری کی ابتدا تک رہا ہے اور چوتھا دور چوتھی صدی ہجری کے تقریباً نصف تک رہا۔ یہ وہ دور ہے جس کے بعد فقہ اسلامی کا دورِ تقلید شروع ہوجاتا ہے،اور عہد نبوی سے بُعد کی بنا پر لوگوں میں اسلاف جیسی فقاہت اور فقہ اسلامی میں درک و کمال باقی نہیں رہتا ہے، اس لیے عام طور پر لوگ ائمہ اربعہ کے فقہی مکاتب کے پیرو ہوجاتے ہیں۔(۱۲)

    یوں تو طلوع اسلام کے ساتھ ہی فقہ اسلامی کا آغاز ہوگیاتھا؛ لیکن چوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جس میں لوگ انتہائی سادہ، اور ضروریات محدود تھیں، اسی وجہ سے فقہائے صحابہ کی توجہات اس کی تدوین کی طرف مبذول نہ ہوسکیں، پھر حالات کے تقاضے کے پیش نظر فقہائے مدینہ نے تدوین فتاویٰ کی داغ بیل ڈالی اور فقہائے کوفہ نے فتاویٰ و قضایا کے جمع و ترتیب پر زور دیا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نخعی نے ایسے فتاویٰ اور ان کے مبادیات کو ایک مجموعہ کی شکل میں جمع کیا تھا، اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ کے پاس اور حماد کے پاس بھی ایک مجموعہ تھا(۱۳)؛ لیکن فقہ اسلامی کی باضابطہ فقہی ابواب کے مطابق تدوین کا سہرا حضرت امام حنیفہ کے سر ہے جس کی تائید امام موفق مکی کی تحریر سے یوں ہوتی ہے کہ ”امام ابوحنیفہ ہی نے سب سے پہلے علم شریعت (فقہ) کی تدوین کی ان سے پہلے یہ کام کسی اور نے نہیں کیا“۔(۱۴)

    عہد رسالت کے بعد جب اسلام کی حدود بہت بڑھ گئیں، قیصر وکسریٰ کی حکومتیں اسلام کے زیر نگیں ہوگئیں، یورپ میں اندلس تک افریقہ میں مصر اور شمال افریقہ تک اور ایشیا میں ایشیائی ترکستان اور سندھ تک اسلام پھیل گیا تو اسلام کو نئے تمدن، نئی تہذیب اور نئی معاشرتوں سے سابقہ پڑا ”وسائل اور مسائل کی نئی نئی قسمیں پیدا ہوگئیں تو تابعین کے آخرعہد میں علمائے حق کی ایک جماعت نے (امام ابوحنیفہ کی قیادت میں) کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر اس کے مقرر کردہ قوانین و حدود کے مطابق ایک ایسا ضابطہ حیات مرتب کرنا چاہاجو ہرحال میں مفید، ہر طرح مکمل اور ہر جگہ قابل عمل ہو۔“(۱۵)

    چنانچہ امام صاحب نے اپنے ایک ہزار شاگردوں میں سے چالیس کو منتخب کرکے دنیا کی بے نظیر شورائی طرز کی ایک مجلس تدوین فقہ قائم کی۔(۱۶) جس کے اندر یوسف و زفر جیسا قیاس اور صاحب بصیرت، یحییٰ بن زائدہ، حفص بن غیاث، حبان جیسا ماہر حدیث، قاسم بن معن جیسا ماہرلغت، داؤد طائی اور فضیل بن عیاض جیسا زہدوورع کا پیکر موجود تھا گویا یہ مجلس ہر علم وفن کے ماہروں سے مزین تھی اور اس پر مزید یہ کہ ابوحنیفہ جیسا جامع کمالات اس قافلے کا میر ․․․․ اللہ اکبر!

    طریقہٴ تدوین پر روشنی ڈالتے ہوئے امام شعرانی کے حوالے سے مفتی ظفیرالدین صاحب لکھتے ہیں کہ ”جب کوئی واقعہ (مسئلہ) آپڑتا تو امام ابوحنیفہ اپنے تمام اصحابِ علم وفن سے مشورہ، بحث و مباحثہ اور تبادلہٴ خیال کرتے، پہلے ان سے فرماتے کہ جو کچھ ان کے پاس حدیث اوراقوالِ صحابہ کاذخیرہ ہے وہ پیش کریں پھر خود اپنا حدیثی ذخیرہ سامنے رکھتے اور اس کے بعد ایک ماہ یا اس سے زیادہ اس مسئلہ پر بحث کرتے تاآنکہ آخری بات طے پاتی اورامام ابویوسف قلم بند کرتے اس طرح شورائی طریقے پر سارے اصول منضبط ہوئے ایسا نہیں ہوا کہ تنہا کبھی کوئی بات کہی ہو“۔(۱۷)

    یہ اسی قانونِ اسلامی کی جامعیت و وسعت ہے کہ سائنس و ٹکنالوجی کا یہ عہد جدید اور مستقبل کا کوئی بھی ترقی یافتہ اور عصری تمدن اپنے مسائل و معاملات کے لیے اس کا دامن تنگ نہیں پاسکتا۔(۱۸) ڈاکٹر حمید اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ : ”ان مباحث میں تقریباً پانچ لاکھ مسئلے مرتب ہوئے جن میں اڑتیس ہزار کا تعلق عبادات سے اور باقی کا معاملات سے تھا“(۱۹) اوریہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین ہونی چاہئے کہ اس مجلس میں محض انھیں مسائل پر بحث و مباحثہ ہوا کرتے تھے جن سے قرآن و حدیث ساکت تھے نہ کہ ان مسائل پر جن کی قرآن و حدیث میں پوری وضاحت ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں