علامہ اقبال کا روناایک دن علامہ اقبال سے ان کے ایک دوست ملنےآئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ علامہ بیٹھے رو رہے ہیں۔ انھوں نے فوراً آگے بڑھ کر دلاسا دیا، چپ کرایا اور رونے کا سبب دریافت کیا۔ اس پر علامہ نے ان کی طرف ایک خط بڑھا دیا جو کیمبرج یونیورسٹی لندن کے ایک پروفیسر نے علامہ کو لکھا تھا۔ اس خط میں پروفیسر موصوف نے علامہ کی کسی فارسی کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ علامہ اقبال کے دوست خط پڑھ کر خوش بھی ہوئے اور حیران بھی، اور اسی حیرت و محویت کےعالم میں کہنے لگے کہ ”آپ کو تو خوش ہونا چاہیئے تھا کہ غیر اقوام بھی آپ کے کلام کی نہ صرف قدر کرتی ہیں بلکہ اپنی قوم کے نوجوانوں تک بھی آپ کا پیغام پہنچانا چاہتی ہیں“! اس پر علامہ نے فرمایا ”اسی بات کا تو رونا ہے کہ جس قوم کے مرض کا علاج اور درد کا درماں کرنے کے لئے میں نے یہ کتاب لکھی ہے، وہ پوری طرح میرا مطلب اخذ کر سکی اور نہ اس کی قدر کر سکی اور اس کے برعکس ولایت کے پروفیسر میرا پیغامِ خودی اپنی قوم کے جوانوں تک پہنچانا چاہتے ہیں حالانکہ یہ کتاب میں نے ان کے لئے نہیں لکھی“۔ اس واقعےکو پڑھنے کے بعد میرے اوپر تادیر محویت سی چھائی رہی اور میں سوچ کےعمیق سمندر میں ڈوبتا ہی چلا گیا۔ میرے اندر ایک صدا گونج رہی تھی کہ ”اقبال ابھی بھی رو رہےہیں“۔ اسی عالمِ تصور میں، تخیل کے اس پار عالمِ برزخ کے بے آب و گیاہ ریگستانوں کےبیچوں بیچ، ایک وسیع و عریض نخلستان نظر آیا۔ وہاں پہنچ کر یوں لگا جیسےجنت یہی ہے۔ دل نےکہا اقبال کا ٹھکانہ بھی یہی ہے۔ ذہن نےدل کی بات مانی اور میں ادھر چل پڑا۔ ابھی اقبال کی نشست سے چند قدم دور ہی تھا کہ ان کی آہ و بکا صاف سنائی دینےلگی۔ ذرا قریب ہوا تو انہوں نےسر اٹھا کر دیکھا اور پاس بلا کر بٹھا لیا۔ پھر جو قصہء درد چھڑا تو گویا صدیاں بیت گئیں۔ اقبال بولتے جا رہے تھے اور میں سر نیہوڑائے خاموشی سے بیٹھا سن رہا تھا۔ روحِ اقبال شکوہ کناں تھی کہ قوم نے انھیں محض ایک شاعر بنا کر رکھ دیا ہے، اور اشعار کے بین السطور پنہاں پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہو کر مقصدِ زیست کو پانے کی کبھی ضرورت تک محسوس نہیں کی۔ وہ مسلمان نوجوان جسےاقبال ہمیشہ ”شاہین“ کا خطاب دیتے چلے آئے ہیں، اس نے آج اپنے ماضی سے رشتہ منقطع کر لیا ہے اور تہذیبِ حاضر کی نِگوں کاری پر کچھ اس طرح سے مر مٹا ہے کہ اب وہ اپنے تابناک ماضی کے افسانوں تک سے بھی دور جا چکا ہے۔ وہ ملک و قوم کے روشن مستقبل کی خاطر قومی سطح پر کوئی اہم ذمہ داری نبھانے کے لئے ذہنی طور پر بالکل تیار نہیں اور محض نشاط انگیزیوں میں گِھر کر رہ گیا ہے۔ اقبال کا عطا کردہ خودی کا وہ شعور جو اغیار کے آگے دستِ طلب بڑھانے کی بجائے خود اِنحصاری کا جامع تصور پیش کرتا تھا، آج وہ ہم نے پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔ مصورِ پاکستان کےدیس میں نہ صرف ڈالر بلکہ افکار و نظریات بھی اقوامِ مغرب سے مستعار لئے جا رہے ہیں۔ سب سے اہم اور قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ قوم بھارت کے مقابلے میں فوری ایٹمی دھماکہ کر کے اپنا ایٹمی قوت ہونا منواتی اور اقوامِ عالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی خودداری کا برملا اظہار کرتی نظر آتی ہے تو دوسری طرف کشکولِ گدائی توڑنے کے اعلان کے معاً بعد اس کے حکمران اپنی جھولی پھیلائےدوسری قوموں کے در کے طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ اقبال اس بات پر حیران تھے کہ اتنی باغیرت قوم جو دشمن کے ایٹمی دھماکوں سے مرعوب ہو کر بیٹھ رہنے کی بجائے اپنے حکمرانوں کو چند ہفتوں کے اندر اندر اپنےدفاع میں ایٹمی دھماکے کرنے پر مجبور کر سکتی ہے تو دوسری طرف وہی قوم اس قدر پست ذہن کیونکر واقع ہوتی ہے کہ انہی بےغیرت حکمرانوں کو باربار منتخب بھی کرتی ہے جو اپنے مفادات کے عوض نظریہء پاکستان تک کو بیچ کھانے پر تلے بیٹھے ہیں........؟؟؟ اور میں اس سوچ میں ہوں کہ اگر اقبال آج زندہ ہوتے تو یہی قوم جو آج اُن کےگن گاتی نہیں تھکتی اُن کےساتھ وہ سلوک کرتی کہ شاید وہ پاکستان سے ہجرت کرتے ہوئے کسی اور دیس میں جا بسنے میں عافیت سمجھتے۔
علامہ اقبال کا رونا بالکل بجا ہے۔ پتہ نہیں ہمیں کب من حیث القوم اس کی سمجھ آئے گی اور کب ہم اپنی تقدیر بدلنے کے لئے اٹھیں گے۔ اللہ ہمیں ہدایت عطا کرے۔
جب تک ہم لوگ بیدار ہو کر اوروںکو بیدار کرنے کا سچا عزم لے کر پوری لگن سے اس راہ پر چل نہیں پڑتے اس وقت تک قوم علامہ اقبال کا پیغام نہیں سمجھے گی۔ ہم (الا ماشاء اللہ) میں سے ہر فرد کہتا ہے، قوم بدل جائے، دوسرے بدل جائیں، چمتکار ہو جائے، انقلاب آجائے، کرامت ہو جائے، معجزہ ہو جائے، میں نہ بدلوں لیکن قوم بدل جائے۔ یہی ہماری خرابی ہے۔ ہر کوئی دوسرے کی طرف دیکھتا ہے۔ خود کو بدلنے کا سچا عزم اور استقلال کسی میں نہیں آتا۔ یہاں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مشغول ہیں اور چاہتے ہیں قوم بدل جائے۔ وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا