1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علامہ اقبال رح کی ہمہ جہت شخصیت

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏9 نومبر 2008۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    علامہ اقبال کی ہمہ جہت شخصیت
    تحریر : سعید صدیقی​

    صاحبان حکمت وعلم نے اقبال کی شاعری کو قرآن حکیم سے مملو کیا ہے شارحین نے فلسفہ اسلام کا عظیم محقق اور دانائی کا سرچشمہ بتایا ہے‘ مورخین نے ملت اسلامیہ کا زبردست مصلح اور ایک انقلاب آفریں تحریک سے معنون کیا ہے‘ قوموں کے عروج وزوال پر اقبال کی فکر انگیز تحقیق کو روشنی کا مینار تسلیم کیا ہے لیکن اگر کوئی شخص بیک وقت فلسفی، شاعر، ادیب، معلم، ریفارمر، انشاء پرداز ہوسکتا ہے تو وہ حکیم الامت علامہ اقبال کی ذات ہے۔ دنیا کے مشاہیر عالم پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں جس موضوع کو انہوں نے اپنی تحقیق کا عنوان بنایا‘ بدرجہ اتم اس پر خامہ فرسائی کی اور ممتازاور منفردحیثیت سے اس موضوع پر اہل علم سے تحسین حاصل کی۔ مثال کے طور پر شیکسپیئر کے ڈرامے کے متعلق مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ہمارے وائس چانسلر سرراس مسعود نے علامہ اقبال کے استقبالیہ خطاب میں فرمایا جس طرح انگریزقوم برطانیہ کی سلطنت سے دست بردار ہوسکتی ہے لیکن شیکسپئر کو نظر انداز نہیں کرسکتی‘اسی طرح مسلمانان ہند اقبال کو کسی قیمت پر جدا نہیں کرسکتے۔

    علامہ اقبال کی اصل اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس میں مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور اسلامی اقدار کا راز مضمر تھا‘ پوری قوم نے اقبال کے اس نظریہ کو راہ عمل بناکر جہاد آزادی کا علم بلند کیا‘ اقبال نے وسیع النظری کے ساتھ ساتھ ایک معلم کی حیثیت سے مسلم قوم کے مردہ جسم میں تازہ روح انقلاب پھونک کر مسلمانوں کو حیات ابدی بخش دی‘علامہ نے برصغیر میں مسلمان قوم کی تشکیل کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا‘ یہ بات بلا تردید کہی جاسکتی ہے کہ اسلام نے ایک اخلاقی نظام کی حیثیت سے جس میں ایک خاص قسم کاسیاسی نظام بھی شامل ہے اور جس سے میری مراد ایک اسلامی ڈھانچہ ہے‘ ایک قانونی نظام کے تحت اخلاقی نظام کو چلاتا ہے اس اخلاقی نظام کو ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک فعال حیثیت حاصل رہی ہے اس نے ان بنیادی احساسات جذبات اور وفا شعاریوں کو تشکیل دیا ہے جو منتشر اور مختلف الخیال افراد اور جماعتوں کو بتدریج یکجا کرتے ہیں اور انہیں بالآخر باشعور اور منظم لوگوں کی شکل میں متشکل کرتے ہیں اور یہ کہنا کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ ہندوستان وہ ملک ہے جہاں اسلام نے لوگوں کو منظم کرنے میں بہترین کردار ادا کیاہے۔ اسلام قومی یکجہتی کے لئے مساوات عدل وراستی کے زرین اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے جماعت یا گروپ بندی کے دیگر تمام اصولوں کی سختی سے تردید کرتا ہے قیام پاکستان میں علامہ اقبال کا فرمان حقیقت میں ان کی پیغمبرانہ بصیرت پر دلالت کرتا ہے ان کا صدارتی خطبہ برصغیر ہند میں مسلمان قوم اور اسلام کے مستقبل کے بارے میں ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں تک اقبال کی شاعری کا تعلق ہے۔ بانگ درا، ضرب کلیم، ارمغان حجاز، بال جبریل پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے علامہ اقبال کی زندگی کا نچوڑ شاعری میں ضم ہوکر رہ گیا ہے۔ وہ زندگی بھر شعر کہتے رہے اور اس انداز سے اپنے افکار عالیہ کو شعر کی اضاف میں سمویا کہ اقبال کی شاعری میں تغزل کے ساتھ ملی نغمے‘ قومی ترانے‘ مناظر قدرت‘ مدح ظریفانہ‘ قطعات اور عارفانہ کلام میں امیر خسرو کے انداز میں منقبت کا رنگ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر امیر خسرو نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں عقیدت کے پھول یوں نچھاور کیے۔

    محمد کے سوا حسن ازل کاکون ہے محرم
    کہاں تک راز میں رہتا شہید ناز کا عالم
    ہوئی انا فتحنا کی تجلی جس گھڑی رقصاں
    عجب پر نور منظر تھا عجب بزم شب خوباں

    بنا ہے درد ہی سے دل چراغ قدسیاں خسرو
    عجب پرنور تھی یہ مجلس روحانیاں خسرو
    کہاں یہ بزم عالی اور کہاں پروانہ سان خسرو
    خدا خود میر مجلس بود اندرلا مکاں خسرو
    محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
    نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم

    اقبال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں سرشار ہوکر کہتے ہیں

    وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
    غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
    نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
    وہی قرآں وہی فرقاں‘ وہی یٰسین وہی طہ​

    اقبال کی ہمہ جہت شخصیت کا ایک اور پہلو گوشہ مکتوبات اقبال کی شکل میں ہمیں ملتا ہے اقبال کے مکتوبات کی اگر تعداد کا شمار کیاجائے تو وہ ہزاروں سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔ جن موضوعات کو اولین فہرست میں شامل کیا جائے ان میں وہ خطوط شامل ہیں جو انہوں نے جدوجہد آزادی یا تحریک پاکستان کے سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھے ہیں۔ انجمن ترقی اردو کے سلسلے میں وہ خطوط جو علامہ اقبال نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کو تحریر کئے تھے انہیں اپنے تبصرے کے ساتھ ممتاز حسن نے کتابی شکل میں شائع کیا ہے اقبال نے جو خطوط سید نذیر نیازی کو تحریر کئے ہیں ان مکتوبات کا مجموعہ سید نذیر نیازی نے شائع کیا جو 372صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ ان خطوط میں علامہ اقبال کی نجی زندگی والدہ جاوید کی شدید علالت کے سبب ان کی پریشانی کا احوال درج ہے۔ دہلی سے حکیم صاحب کے لاہور بغرض علاج آنے میں ہر قسم کے اخراجات کی کفالت کی یقین دہانی کے تذکرے کے ساتھ حکیم صاحب کے تجویز کردہ علاج پر زور اور ڈاکٹری علاج کے متعلق افاقہ نہ ہونے کا تذکرہ ہے۔ پھر اہلیہ کے انتقال پرملال کا تذکرہ بھی ہے۔ خطوط کی تعداد کیونکہ کثیر ہے لہٰذا بہت سی کتابوں اور انجمنوں کا تذکرہ بھی اس میں ملتا ہے۔ علامہ اقبال کے وہ خطوط جو انہوں نے محترمہ عطیہ فیضی کے نام انگریزی زبان میں تحریر کیے ہیں‘ عطیہ بیگم اپنے وقت کی عالمہ‘ فاضلہ عربی فارسی اردو انگریزی‘جرمنی‘ فرنچ زبانوں پر عبور رکھتی تھیں‘ اقبال کے دوران تعلیم انگلستان اور خاص کر ہائیڈل برگ جہاں جرمنی سے اقبال نے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔ عطیہ بیگم سے طویل خط وکتابت بشمول وہ مقالہ جو اقبال نے PHDکے لئے تحریر کیا تھا اسی کا تذکرہ ان خطوط میں ملتا ہے یہ کتاب خود عطیہ بیگم نے مرتب کی ہے اور اقبال کے خطوط کی نقل بہ شکل اصل فوٹو اسٹیٹ شائع کئے ہیں۔ عطیہ بیگم نے اس کتاب میں اقبال کی علمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں حافظ کااشعار کا حافظہ کہاہے۔اقبال کے استاد پروفیسر آرنلڈ سے بھی عطیہ بیگم کی ملاقات کیمبرج میں ہوئی عطیہ بیگم نے آرنلڈ کے الفاظ دہرائے کہ بعض اوقات شاگرد علم میں استاد سے سبقت لے جاتا تھا‘ عطیہ بیگم نے جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کا ذکر کرتے ہوئے اقبال کو پروفیسر اقبال کے نام سے موسوم کیا ہے جو طلبہ کیمبرج سے ہائیڈل برگ گئے تھے جن میں عطیہ بیگم اور ان کے بھائی فیضی بھی شامل تھے استقبال کرنے والوں میں اقبال شریک تھے۔

    علاوہ ازیں چند خواتین اساتذہ بھی تھیں جب عطیہ بیگم اوران کے ساتھی یونیورسٹی کے خوبصورت اوردل آویز باغ میں پہنچے تو وہاں قہوہ اور لذیذ کیک ان کا انتظار کررہے تھے یونیورسٹی میں پروفیسر لیکچر دیتے تواقبال انہیں گہری توجہ اور انکساری سے سنتے تھے اور واقعہ یہ ہے ”سننے میں اس قدر محو ہوجایا کرتے تھے کہ جب سبق ختم ہوجاتا تو ایسا معلوم ہوتا تھا وہ اس کے بعد تک اس کے گردوپیش کی خاموشی سے بھی سبق حاصل کررہے ہیں عطیہ بیگم لکھتی ہیں یہاں ان کا طرز عمل کس قدر مختلف تھا معلوم ہوتا تھا کہ جرمنی ان کی رگ وپے میں سرائیت کرگیا تھا وہ ان تمام درختوں جن کے پاس سے وہ گزرتے تھے اور اس گھاس سے جس پر وہ چلتے تھے علم کی خوشہ چینی کررہے تھے۔ علامہ اقبال جولائی 1907ء میں کیمبرج سے ہائیڈل برگ پہنچے تھے یہیں انہوں نے اپنا مقالہ داخل کیا تھا جس پر انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی تھی مقالہ عطیہ بیگم نے پڑھا تھا۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی شعبہ اصولی طبیعات کے علاوہ شعبہ فلسفہ کا کچھ حصہ بھی یہیں ہے نیچے شہر میں 58نمبر کا وہ مکان ہے جس میں علامہ اقبال نے قیام کیا تھا اس قیام کی یادگار کے طور پر مکان کے دروازے پر ایک سنہری تختی آویزاں ہے۔ ہائیڈل برگ کے قدرتی مناظر حسن وشادابی دریا کے سرسبز کناروں نے حضرت علامہ کو بے حد متاثر کیا تھا‘ علامہ اقبال نے جرمنی کو اپنی روح کا وطن ثانی قرار دیا۔ عطیہ بیگم اقبال کی فلسفہ دانی اہلیت قابلیت سے جس قدر متاثر ہوئیں تہنیت کے جن خوبصورت الفاظ سے عطیہ بیگم نے ان کی تعریف کی ہے کالم میں جگہ نہ ہونے کے سبب بیان کرنے سے قاصر رہا لیکن تشنگی باقی ہے جسے کسی دوسری نشست میں پیش کی جاسکتی ہے۔ علامہ اقبال خود بھی عطیہ بیگم کے علم وفضل سے متاثر تھے علمی ادبی مباحث میں جو وقت انہوں نے ساتھ گزارا تھا یا ہائیڈل برگ کے سرسبز پہاڑی علاقوں کی سیر پکنک پارٹی سے لطف اندوز ہوئے تھے عطیہ بیگم کی ذات میں اقبال کی دلچسپی ایک فطری عمل تھا لیکن اقبال کے خطوط میں مطالعہ کی گہرائی اور فکر کے فیض کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ سمویا گیا ہے تحریر کے فن میں بینظیر کمال نظر آتا ہے جس کے ذریعے اپنی فکر کی اشاعت بہت موثر اور شگفتہ اندازمیں کی گئی ہے‘ ایک ایک لفظ سے وقار اورعفت نگاہ بلند سخن دلنواز اور جان پر سوز آشکارہ ہے جن کے نازک اخلاق وگفتار نے کسی کی جان بخشی نہ کی تھی جیسے شاعر نے انہی کیلئے کہا تھا

    نہ ماند کس کہ بہ تیغ نگاہ نازکشی
    مگر کہ زندہ کنی ہر یکے و باز کشی​

    عطیہ بیگم سے اس عاجز کی ملاقات1950ء کے اوائل میں ممتاز حسن کی وساطت سے ہوئی جب وہ فنانس سیکرٹری تھے اور دفتر کراچی چیف کورٹ بلڈنگ منتقل ہوا کرتا تھا ہوٹل میٹروپول قیام کے دوران بھی کئی مرتبہ علم وفضل کی نابغہ روزگار اس خاتون سے شرف ملاقات کا موقع ملا۔ اقبال کے ہمعصر لوگوں میں کس قدر عظیم شخصیات شامل تھیں مولانا شبلی نعمانی اور مولاناسید سلیمان ندوی مدظلہ عالی کے حلقہ ارادت میں اقبال شامل تھے۔ علامہ اقبال کی ہمہ جہت شخصیت کے کتنے گوشے ہیں مکتوبات اقبال اس پر عطیہ بیگم کا انداز بیان غالب کا شعر صادق آتا ہے

    میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
    بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں​


    بشکریہ : روزنامہ جنگ ۔
     
  2. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    شکریہ شیئر کرنے کے لیئے۔۔۔بہت خوب۔۔۔۔۔ :dilphool:

    علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ اپنے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں۔۔۔۔

    مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی
    برہمن زادہء رمز آشنائے روم و تبریز است


    جیتے رہیں خوش رہیں نعیم بھائی۔۔۔۔ :dilphool:

    مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام
    گر چہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    اتنا پیارا مضمون پڑہانے پر آپکا بہت بہت شکریہ :flor:
     
  4. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    کمالِ بے عجبی در مسلئہ بے خودی

    :titli: :titli: :titli: :titli: :titli:
     
  5. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli: خود آشکاری تمھاری ذرا دیکھیے----------؟
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آپ سب کا بہت شکریہ ۔
    اللہ تعالی ہم سب کو حضرتِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خوابوں کے مطابق وطنِ عزیز پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ پورا کرنے کی توفیق دے۔ امین

    دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔

    والسلام
     
  7. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    ماشاءاللہ ۔
    بہت عمدہ مضمون ہے۔
    پاکستان کو مصورِ پاکستان کے خوابوں کے مطابق بنانے کے لیے ہمیں جدوجہد کرنا ہوگی ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں