1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علاؤ الدین خلجی،۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    علاؤ الدین خلجی،۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب

    انڈیا کو متحد کرنے والا حکمران

    خلجی کوئی بیرونی حملہ آور نہیں تھا،اسی انڈیا کا شہری تھا،وہ 1266ء میں دہلی میں پیدا ہوا، زندگی کا بڑا حصہ برصغیر پاک وہند میں گزرا، اسے ہر حوالے سے انڈین کہا جاسکتا ہے۔اسے اپنے دور کا عظیم ترین حکمران قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس نے تمام فیصلوں سے خود کو عظیم ترین بادشاہ اور جرنیل ثابت کیا۔وہ خلجی خاندان کا دوسرا بادشاہ تھا،اس نے 1296ء سے 1316ء تک بھارت کے بڑے حصے پر حکمرانی کی۔چپے چپے کی حفاظت کے لئے اس نے جان لڑا دی ورنہ منگولوں کے چھ حملوں نے انڈیاکو کھنڈر بنا دیا ہوتا ۔انڈیا کی خاطر اس نے 84 جنگیں لڑیں۔ہر جنگ میں مسکراتا ہوا فتحیاب ہوا۔ جنگوں کے بعد کشت و خون اس کی سرشت میں شامل نہ تھا،اس نے بلا وجہ خون کبھی نہیں بہایا بلکہ جنگ کے بعد پورا خطہ امن کا گہوارہ بن جاتا ۔
    شمال میں غزنی ، جنوب میں رامیشوام ، مغرب میں گجرات، کاٹھیاواڑ سے مشرق میں بنگال تک اس کی حکومت تھی۔ برصغیر پاک و ہند میں اتنے وسیع رقبے پر حکومت کرنے والا وہ پہلا حکمران تھا۔ دریائے نبادہ کے پار اپنی حکومت کا حصہ بنانے والا وہ واحد حکمران تھا۔سینکڑوں ہندو شہزادوں نے اس کی قیادت قبول کی ۔ ان سب کو خلجی کی انسان دوستی اور انصاف پر یقین تھا۔ علاو الدین خلجی نے انہیں عزت دی اور احترام کیا۔ ہندو شہزادوں نے بھی اسے خراج تحسین پیش کیا۔ فوج اتنی طاقت ور تھی کہ حکم عدولی کی جرأت کسی میں نہ تھی۔ خلجی کا حکم چلتا تھا،اسے ددھوکہ دینے کی طاقت کسی میں نہ تھی۔
    ملک بھر میں یکساں نظام حکومت نافذ تھا۔سلطنت میں عوام مطمئن اور پر سکون تھے۔ مسلمان ہو یا ہندو ،امیر ہو یا غریب، ہندو زمیندار ہو یا مسلمان کاشت کار،سب ہی حکومت کے ساتھ تھے ۔ سڑکیں چوروں اور ڈاکوئوں سے پاک تھیں ۔ پولیس ٹھگوں ، ڈاکوئوں اور لٹیروں کا صفایا کرچکی تھی۔ تجارت فروغ پارہی تھی ، مارکیٹ میں ضروریات زندگی کی فراوانی تھی ،وہ بھی انتہائی سستے داموں میں۔ عوام کی قوت خرید بہتر ہونے کا فائدہ سب کو پہنچا ،ٹیکس وصول کرنے کی ڈیوٹی خوف خدا رکھنے والے ایماندار لوگوں کو سونپی گئی۔
    طرز حکومت اسلامی تھا ،یہ تبدیلی نیک شخصیت کے بغیر ناممکن ہے، دراصل ماضی میں التمش اور ظہیر الدین بابر کے اچھے کاموں پر بعد میں آنے والے حکمرانوں نے مٹی پھیر دی ، مگر خلجی اپنے احکامات پر عملدرآمد کرواتا رہا۔ اس کے دور میں دہلی میں علماء کرام اور دانشوروں کی ایک کہکشاں جمع تھی۔ اس نے حکومت سازی میں دانشوروں اور علماء سے کام لیا۔ صحیح آدمی کو صحیح وقت پر صحیح کام سونپا۔ وہ خود متحرک اور فعال تھا ، اس نے اپنے ارد گرد متحرک لوگ جمع کیے۔ اپنے ارد گرد عظیم لوگوں میں وہ ایک عظیم تر لیڈر تھا۔ان میں سے کچھ کا ذکر غلام سرور خان نے اپنی کتاب Life and Works of Khiljiمیں کیا ہے۔
    خلجی ، غلامی کا سخت مخالف تھا، اس کی سلطنت میں غلامی مٹ چکی تھی، وہ دوسری ریاستوں سے غلام خرید کر انہیں آزادی کی نعمت سے نوازتا رہا۔ غلاموں سے حسن سلوک کو دیکھتے ہوئے ہزاروں ہندو فوجی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔یہ ''نومسلم‘‘ کہلائے ۔ خلجی فوج کا مایہ ناز جرنیل ملک کافور سابق غلام تھا، آقا نے ملک کافور کے 1 ہزار دینا ر مانگے ،خلجی نے ادا کرنے کے بعد غلام کو آزاد کر دیا، رہائی پانے کے بعد یہ غلام خلجی کی ذہنی غلامی میں آ گیا۔
    وہ کافور میں چھپی ہوئی جرنیلی صلاحیتوں کو پہچان گیاتھا۔ غلام ملک کافور 1308ء میں ورانگل کوفتح کرنے کے بعد دریائے کرشنا کے جنوبی علاقے ''ہوئے سالا‘‘ اور مادھورا کو ''سلطنت دہلی‘‘کاحصہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ 1311ء میں دہلی واپسی پر تین سالہ جنگ سے تھک چکا تھا۔
    پرکشش شخصیت کا مالک جلال الدین خلجی اپنے خاندان میں ہمیشہ سے سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔ رانتھن بور میں چچا سسر جلال الدین خلجی حکمران تھے ، محمد شاہ، خلجی خاندان کاوفادار تھا۔ خلجی کی تخت نشینی میں ا سکا بھی ہاتھ تھا،، بعدازاں اسکی نیت بدل گئی ۔ اقتدار کی ہوس میں اندھامحمد شاہ اپنے ہی محسن خلجی کو راستے سے ہٹانے اور خود حکمران بننے کے خواب دیکھنے لگا۔ بادشاہ کے دربار میں ہی سازشوں کے تانے بانے بننے لگا۔ علائو الدین خلجی لوہے کا چنا تھا،اسے غداری کی اطلاع مل گئی تو محمد شاہ فرار ہو کر راجپوت حکمران رانتھن بورکے قلعے میں پناہ گزیں ہو گیا۔ غدار کی سزا آج بھی موت ہے اور کل بھی موت تھی۔خلجی نے شاہ رانتھن بور سے اپنے غدار کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ حاکم دیوابھی راجپوت تھا،زبان دے چکا تھا، اس نے صاف انکارکیا۔علائو الدین کی راجہ رانتھن بور سے ٹھن گئی، اب غدار ایک نہیں ،دو تھے۔دونوں غداروں کو سبق سکھانے خلجی فوج کے ساتھ را نتھن بورروانہ ہوا۔
    راجہ کے جاسوس ہر جانب پھیلے ہوئے تھے،اسے خلجی کی آمد کی سن گن ہو گئی ، خلجی کے قریب آنے سے پہلے ہی راجہ نے دریائے بناس کے کنارے اسے روک لیا۔ خلجی جنگ نہیں چاہتا تھا، دوبارہ پرامن طریقے سے محمد شاہ کی حوالگی کے لئے ملتمس ہوا۔رانا آف رانتھن بور راجپوت تھا، زبان کا پکا تھا،محمد شاہ سے کئے گئے وعدہ سے مکرنے کی گنجائش نہ تھی،ناں کر دی۔خلجی دوسری ناں سنتے ہی آگ بگولہ ہو گیا۔ محاصرہ کئی روزجاری رہا۔بالآخر منظم فوجی حکمت عملی سے رانا کو اسی کے علاقے میں شکست دینے والا خلجی غدار کوساتھ لے کر ہی واپس آیا ۔
    اس کی تاریخی کامیابیاں '' فرشتہ‘‘ ، ''سلطان آف بیچا پور‘‘ ، ''ابراہیم عادل شاہ دوئم‘‘، ''ضیاء الدین برانی‘‘، ''محمد بن تغلق‘‘ اور ''فیروز شاہ تغلق‘‘ نامی کتابوں میں بھی درج ہیں ۔ایس لال ، ستیش چندرا اور پیٹر جیکسن جیسے مصنفین اپنی کتب میں اس کاتذکرہ کئے بغیر رہ نہ سکے ۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں