1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عقل، سائنس و مذہب

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از سید جہانزیب عابدی, ‏31 اگست 2019۔

  1. سید جہانزیب عابدی
    آف لائن

    سید جہانزیب عابدی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    20
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    ملک کا جھنڈا:
    وہ شخص جو اپنے مذہب کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے، اسے محض آباء واجداد کے تقلیدی ایمان پر مطمئن نہیں رہنا چاہیے۔ اس کے ایمان کا یہ تقاضا ہونا چاہیے کہ وہ اپنے عقائد کی جانچ پڑتال استدلال و دلیلوں,، تجربات، مشاہدات و مطالعات کی بنیادوں پر کرے اور ان کے حق میں ایسے ہی دلائل مہیا کرے کہ وہ لوگ جو ایمان سے سرفراز نہیں اور جو صرف عقل کو معیارِ حق و باطل جانتے ہیں، انہیں سمجھ کر ان عقائد کو حق سمجھنے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ ایک غیر فطری امر ہے کہ لوگ ایسے عقائد پر ایمان لائیں جن کو وہ سمجھ نہ سکیں اور جو اُن کی عقلِ سلیم کے معیار کے مطابق نہ ہو۔ عقائد کے معاملے میں کسی قسم کا جبر وزبردستی کرنا ایک انتہائی ظلم ہے، حق و صداقت تک پہنچنے کیلئے شک کرنا ایک ضروری اور ناگزیر مرحلہ ہے اس منزل سےگزرے بغیر ایمان کی روشنی حاصل ہونا محال ہے، عقل ہی کی مدد سے عقائد ِ دینی کی حقانیت سمجھی اور سمجھائی جاسکتی ہے۔

    مسئلہ یہ ہے کہ اسلاف کی جن کتابوں کو ہم نے مستند تسلیم کیا ہے ان میں عقائد کے چند اہم معاملات میں کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اب چونکہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے اور خدا کی طرف سے فیصلہ کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس موجود نہیں، اس لئے لازمی طور پر ہمارے سامنے یہی طریق کار ہے کہ ہم اپنی فطری عقل و دانش سے ان کا مطالعہ کریں، تجربی ومشاہداتی حقائق کی روشنی میں ان پر تنقید کریں اور ان کے تضادات اور اختلافات کو رفع کرنے کی کوشش کریں۔اس چیز کے احساس سے منطقی طور پر قوانین کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ترغیب ملتی ہے کیوں کہ اختلافات کو رفع کرنے اور سب کو یا اکثریت کو کسی ایک موقف پر متفق کرنے کیلئے منطقی دلائل سے بہتر اور کوئی ذریعہ ممکن نہیں ہے۔متنوع خیالات و اعتقادات میں یہ حقیقت عیاں ہے کہ اسلاف کی سند یا قرآن و حدیث، بائبل، توریت، زبور یا گیتا وغیرہ کا حوالہ کسی دعوے کے ثبوت میں پیش کرنا بے معنیٰ ہے کیوں کہ غیروں کیلئے یہ چیزیں مستند نہیں ہیں اور قابل قبول نہیں ہوسکتی ہیں، اسلئے لازمی طور پر اپنے عقائد کے دفاع میں عقلی استدلال و دلیلوں کو سہارا لینا پڑےگا کیوں کہ یہی ایک چیز ہے جو سب انسانوں کے نزدیک قابل احترام اور قابل قبول ہے۔ اگر ایمان اور عقائد کو استدلال سے صحیح ثابت کیا جاسکتا ہے تو پھر کسی اور دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔اساسی اور اہم عقائد کو استدلال سےاس طرح ثابت کیا جائے کہ انہی دلائل سے وحی کی ضرورت کا بھی احساس پیدا ہو۔ اسی طرح مختلف مذاہب کے آسمانی صحیفوں کے متعلق فیصلہ کرنا کہ کون سا واقعی صحیح طور پر الہامی ہے، عقل ہی کے ذریعے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الٰہیات کے اہم ترین موضوع، مثلاََ اثبات باری تعالیٰ، روح کی ماہیت، بقائے شخصی یا شخصی نفسیات، سماجی ضروریات، اُخروی زندگی، عالم برزخ وغیرہ بھی عقلی استدلال و تجربات سے ثابت کیے جاسکتے ہیں۔ اس طریق کار کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ وحی اور ایمانیات کے دائرے کو واضح طور پر تقدسی مباحث سے الگ کردیا جائے کیوں کہ اگر کسی ایسے معاملے میں کوئی قاطع عقیدہ پیش کیا جائے جس کے متعلق انسانی عقل غلط ہونے کا فیصلہ صادر کردے تو پھر مذہب کیلئے ایک سخت دشواری پیش آئے گی کیونکہ ہم کسی ایسی بات کی تصدیق نہیں کرسکتے جو وحی اور ایمان کے خلاف ہے۔ لیکن اس چیز کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ ہم اپنے ہر عقیدے کو صحیح سمجھنا شروع کردیں اور اسے ایمانیات اور اپنی ثقافت و تہذیب کا ایک لازمی حصہ قرار دیں۔ اگر ہم کسی ایسی بات کو سمجھداروں یا پڑھے لکھوں کے سامنے بطور عقیدہ پیش کریں جو سائنسی تحقیقات یا سائنٹفک انداز ِ فکر کے خلاف ہو تو ہم اپنے مذہب کی تذلیل کا باعث بنتے ہیں۔ صحیح راستہ یہ ہے کہ ہم مذاہب کی تحقیق کیلئے وہ طریقہ اختیار کریں جو عقل و منطق کے عین مطابق ہو اور جس میں مذاہب کا اختلاف کسی طرح اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ یہ معیار وہ ہے جو عیسائی ، ہندو، یہودی، اہلسنت، اہل تشیع یا فرقہ در فرقہ وغیرہ سب کیلئے برابر قابل قبول ہے۔اب تک کی سائنسی تحقیقات خواہ علم طبعیات میں ہوں، حیوانیات، کیمیا، سماجی سائنسز جیسے نفسیات، عمرانیات ، سیاسیات یا معاشی علوم مذہب و دین کی حقانیت کو ہی واضح کرتی ہیں لہذا ایسا کارنامہ ہونا چاہیے کہ مذہب و دین سائنس بن جائے اور سائنس مذہب۔ اس کام کیلئے نہایت دقتِ نظر اور عقلی سلیقے کی ضرورت ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں