1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عصبیت ۔۔ فتنوں کی ماں

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏5 مارچ 2014۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عصبیت ....فتنوں کی ماں



    انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے مثبت اور منفی جذبات اور احساسات سے نواز رکھا ہے۔ یہی جذبات و احساسات اس کی انفرادیت بھی ہیں اور انہی میں سے بعض کے ہاتھوں اس کی ہلاکت بھی ہوتی ہے۔ انسان چونکہ محبت کے خمیر سے پیدا کیا گیا اس لئے اس میں محبت اور چاہت کا جذبہ تمام شخصی اور طبعی جذبوں پر حاوی ہوتا ہے۔ محبت کے غلبے کا کمال یہ ہے کہ انسان اپنی تمام چاہتوں کو اپنے خالق و مالک کے لئے مختص کردے۔ چونکہ یہ بندگی اور عبادت کا سب سے اونچا درجہ ہے اس لئے عام طور پر اس معراج انسانیت پر اللہ تعالیٰ کی بہت عظیم و جلیل شخصیات ہی پہنچتی رہی ہیں۔
    جذبہ¿ محبت کی طرح انسانی شخصیت کے اندر نفرت اور تعصب کا جذبہ بھی بہت گہرا ہوتا ہے۔ یہ دراصل انسانی کمزوریوں کے شخصی عیوب و نقائص کے اظہار کی علامت ہوتا ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ محبت انسان کے اندر رحمانی صفات پیدا کرتی ہے اور نفرت و عداوت انسان کو شیطانی دائروں میں مقید رکھ کر معاشرے میں بدامنی اور بے چینی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ماہرین نفسیات نے اگرچہ ”عصبیت“ کو بھی ایک بڑی قوت قرار دیا ہے کیونکہ انسان عام حالت میں بعض کام نہیں کرسکتا لیکن غیرت اور عصبیت کے زیر اثر اس کی رفتار کار تیز ہوجاتی ہے۔ لیکن اسلام نے منفی عصبیت کی کسی بھی شکل کو نہیں سراہا۔ چونکہ اس سے انسان کے اندر دوسروں کے خلاف حسد، بغض اور عداوت جنم لیتی ہے اس لئے اسے روحانی بیماری قرار دیتے ہوئے اس سے نجات پانے کی تلقین کی ہے۔ تاریخ انسانی کا سب سے پہلا قتل بھی اسی عصبیت اور عداوت کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب سیدنا آدم کے دو بیٹوں قابیل اور ہابیل دونوں نے قربانی کی ہابیل کی قربانی کو شرف قبولیت مل گیا اور قابیل کی قربانی رد ہوگئی تو اس نے ہابیل کو قتل کردیا۔ شیطان نے وہیں سے انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے قتل کا سلسلہ شروع کردیا اور اس قتل کا سبب بھی عصبیت اور حسد ہی تھا۔
    یہ عصبیت تاریخ میں مختلف رنگ بدلتی رہی ہے۔ اسی نے اقوام کو ترقی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں مدد فراہم کی اور اسی کے ہاتھوں جنگ عظیم اول اور دوم جیسے قتل و غارت گری کے جنگی معرکے برپا ہوئے۔ انسانی رویوں میں شدت اور انتہا پسندی کے محرکات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اعتقادی اور مذہبی تعصبات کے رویے سب سے زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ اس شدت کی ویسے تو بے شمار وجوہات ہیں مگر سب سے زیادہ خطرناک سبب جہالت اور ہٹ دھرمی ہے۔ چونکہ جہالت اسے اندھا بنائے رکھتی ہے اس لئے وہ کسی مکالمے اور مباحثے پر یقین نہیں رکھتا اور اگر بدقسمتی سے مذہبی عصبیت کے ساتھ اسلحہ بھی جمع ہوجائے توانسانی خون سب سے ارزاں ہوجاتا ہے۔ تاریخ ایسے خونیں واقعات سے بھری پڑی ہے۔
    اس عمومی جائزے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارے ہاں جو صورت حال پیدا ہوچکی ہے وہ اسی مذہبی عصبیت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس عصبیت کو ہتھیار جہاں ہمارے دشمن فراہم کررہے ہیں وہاں ان کو فکری قوت ہمارے بعض دینی مدارس اور مذہبی رہنما مہیا کررہے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں یہ قتل و غارت گری رک جائے گی تو وہ اس عصبیت کی نفسیات سے واقف نہیں۔ مذاکرات ضرور کریں دلائل دیں، منطق لڑائیں مگر یہ سب ان لوگوں کے لئے کارگر ہوگا جو اس طرح کی زبان سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں ۔ دلیل کی زبان تعصب سے پاک اہل فکرو تدبر اور صاحب علم و شعور سمجھتے ہیں۔ مکالمہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک دونوں فریق ملک و ملت اور امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد کو اپنے انفرادی اور گروہی مفادات پر ترجیح نہ دیں۔ طالبان کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ پہلے دن سے اپنے خاص نظریات کو اکثریت پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہیں۔ خوارج کی طرح ان کے مطالبات بھی غیر لچکدار ہیں اور ان کے اعتقادات میں بھی توازن اور اعتدال کا عنصر نہیں۔ اگر توازن ہوتا اور ان کی نظر قرآن و سنت پر گہری ہوتی تو وہ کبھی بھی قبروں سے مردوں کو نکال کر درختوں سے نہ لٹکاتے اپنے مخالفوں کی مساجد اور عبادت گاہوں پر حملے کرکے عبادت کرنیوالوںکو شہید نہ کرتے۔ وہ کبھی اپنے وطن کی سرحدوں کے محافظوں اور سیکورٹی اہلکاروں کی گردنیں اڑا کر ان کی کھوپڑیوں سے فٹ بال نہ کھیلتے، وہ کبھی بھی معصوم بچوں کو آلہ کار بناکر خودکش بمباروں کے ذریعے بے گناہ لوگوں کا قتل عام نہ کرتے۔ اگر انہیں حضور سے کوئی اعتقادی نسبت اور حبی تعلق ہوتا تو وہ ضرور سوچتے کہ جس نبی نے کافر جنگی قیدیوں کے ذریعے مدینہ منورہ کے بچوں کو پڑھانے کا اہتمام کیا اس کی امت فروغ علم کے ادارے قائم کرتی ہے ان کو بارود اور بموں سے مسمار نہیں کرتی۔
    اصل مسئلہ ان طالبان کا نہیں جو جہالت اور تعصب کا شکار ہیں بلکہ اصل مسئلہ ان دینی مدارس کا ہے جو ان کی فکری آبیاری کرتے ہیں۔ مذہبی راہنماﺅں اور قائدین کا ہے جو انہیں تحفظ دیتے ہیں، ان کی وکالت کرتے ہیں اور بہر صورت ان کے اس ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لئے بے تاب رہتے ہیں جس سے انہیں اپنے افکار اور مذہبی عصبیت کے غلبے کی راہ ہموار ہوتی نظر آتی ہے۔ وہ لوگ ان ظالم قاتلوں کے سرغنوں کو شہید قرار دیتے ہیں۔ ان کی فکری اصلاح کی ضرورت ہے۔ قرآنی نص میں اگر ناحق قتل کبیرہ گناہ ہے اور اللہ پاک اسے پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے تو ان قاتلوں کے فکری راہنماﺅں سے بھی اس انسانیت کے قتل عام پر پوچھ گچھ ہوگی۔ اس لئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیںکہ ان تمام فتنوں کی ماں تعصب ہے۔ اسی تعصب کو پھیلانے میں ملک و دین دشمن قوتیں اپنے سرمائے جھونک رہی ہیں۔ جب تک تعصبات کا زہر پھیلتا رہے گا اس فتنہ و فساد کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوگی۔ جنرل معین الدین حیدر نے ہمارے بعض سرکردہ مذہبی راہنماﺅں کی اسی عصبیت پر مبنی ایک واقعہ کا انکشاف کرکے دنیا کو حیران کردیا کہ ایرانی سفارت کار صادق گنجی کے قاتل (جس کا تعلق لشکر جھنگوی سے تھا) کو سزائے موت سے بچانے کے لئے قاضی حسین احمد اور مولانا سمیع الحق جیسے لوگ متحرک ہوگئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایک سفارت کار کے قاتل کا ان مذہبی رہنماﺅں سے کیا رشتہ داری تھی جس کی دیت ادا کرنے کے لئے یہ دونوں ایران جانے کے لئے بھی تیار تھے۔ کیا اسے مسلکی عصبیت کے علاوہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ درحقیقت بدامنی اور دہشت گردی کی موجودہ صورت حال کی تخلیق میں یہی رویے کارفرما ہیں۔ انہیں رویوں کی بنا پر دہشت گردوں سے ہمدردی اور ان کے تحفظ کی فکر ان لوگوں کو کھائے جارہی ہے۔ اب یہ مذہبی طبقہ ملک و ملت کے اجتماعی مفاد کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اس خاص گروہ کے تحفظ اور غلبے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ تعصب کا معنی پٹی باندھنا ہے یعنی ملک و ملت اور امت کے اجتماعی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے آنکھوں پر اپنے گروہی اور جماعتی مفادات کی پٹی باندھ لینا جبکہ عصبیت اپنی جماعت اور گروہ کی بے جا طرف داری اور غلط حمایت کو کہتے ہیں جس کی قرآن مجید اور پیغمبر اسلام رحمتِ دو عالم نے شدید مذمت فرمائی ہے۔
    حقیقت یہ ہے کہ اگر ہماری مذہبی قیادتیں اور ان کے زیر اثر چلنے والے مدارس تعصب اور عصبیت کے ان مہلک رویوں سے پاک ہوجائیں تو ملک امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ بصورت دیگر جب تک تعصب پھیلانے والی یہ فیکٹریاں (ادارے شخصیات) موجود ہیں تب تک پرامن بقائے باہمی، خیر سگالی، برداشت، تحمل اور محبت و مودت جیسی اعلیٰ انسانی خوبیاں معاشرے میں برگ و بار نہیں لاسکتیں۔

    بشکریہ نوائے وقت کالم
     
    ملک بلال، پاکستانی55 اور محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں