1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کی معراج ۔۔۔۔۔ رضا علی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عشق کی معراج ۔۔۔۔۔ رضا علی

    موت کو موت دینے کا جگر رکھتے ہیں
    کیا صورت ایمانی کیا انداز فکر رکھتے ہیں

    یوں تو ذات کبریا کی آشنائی پیمانہ عقول سے بھی بہت دور ہے مگر کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کے ہونے کا اشارہ دیتا ہے۔ دراصل اس کا اندازہ وہ لوگ بفضل خدا لگا لیتے ہیں جو درویشی میں دل لگائے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ موت کو بھی موت بخشنے کا ظرف رکھتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کی محبت کا آب حیات پی رکھا ہوتا ہے۔ یہ لوگ غم کا دریا پار کر کے عشق کے سمندر میں جا گرتے ہیں، پھر وہاں تزکیہ نفس کرنے کے بعد لفظ عشق میں گم ہو جاتے ہیں اور یوں عالم لا شعور کا ایک لامنزل سفر شروع ہو جاتا ہے۔

    زہد کی ابتدا ذات کی نفی اور زہد کی انتہا ہر قسم کے گناہ سے پرہیز ہے۔ پھر جو لوگ “انا الحق” کی صدائیں دیتے ہیں پھر یہ شرف الدین سے “بو علی قلندر” ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ سقراط کے زہر کا پیالہ پی لیتے ہیں۔ جب یہ عشق بڑھتا ہے تو کربلا درس گا ہ بنتی ہے جس کا نصاب ہی عشقِ الہٰی ہے۔

    اللہ والے تو آتش عشق میں جل کر اپنا وجود ختم کر دیتے ہیں، پھر فانی باقی میں ضم ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ جل جلالہ، غم دے کر یوسفؑ لیتا ہے، اس وقت وہ دراصل ہم سے صبر یعقوبؑ چاہتا ہے مگر جب شکوے کر کے ایمان کی رسی نذر آتش کر دیتے ہیں۔ جنت انسان کے نفس کی قیمت ہےمگر اللہ تعالی کی ہی مخلوق ہے اور انسان اشرف المخلوقات ہے تو پھر جنگ کی طلب کیسی۔

    روح کے رقص میں معرفت الہٰی ہے، معرفت کی شاخ ہی محبت کے شجر تک پہنچاتی ہے۔

    کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
    جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

    آج کا مسلمان اگر اپنے اندر کے فرعون کو مار کر اپنے اندر کے مومن کو باہر نکالے تو اپنی نگاہوں سے زمانے بدل سکتا ہے، کیوں کہ ان نگاہوں سے سجدے ہوتے ہیں۔ ان سجدہ ریز نشانیوں میں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ موت تو مومن کی طلب ہے جبکہ وہ تو موت سے پہلے اس کا مزہ چکھ چکا ہوتا ہے۔ جب انسان مرتا ہے تو بھوک ہوتی ہے نہ پیاس، اسی طرح مومن اپنی نفسانی خواہشات کو مار دیتا ہے اور اللہ تعالی کے سوا کسی شے کا خیال نہیں رہتا۔

    رضا تیرے رب کی رضا چاہیے
    کہ اب موت سے پہلے قضا چاہیے

    مدینے کی تہذیب کا آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا جس نے وحشی کو انساں بنایا اور پھر عالمِ ھُو (اللہ تعالی کی قربت کا بلند درجہ) تک پہنچا دیا۔ خیر عقل اور عشق کی جنگ جاری ہے۔ عقل تو محض بقائے نفس کا نام ہے جبکہ عشق سب کچھ راہ خدا میں قربان کرنے کا نام ہے۔ اس عشق کی تعریف تو آج تک کوئی نہیں کر سکا۔ اس بات پر تو عارف کا قلم بھی کچھ زیادہ نہیں چل سکا اور نہ کچھ زیادہ بیان کر سکا۔ خیر کچھ تو بات ہے حق کہ سفر میں کہ ہر حق مر کے بھی مطمئن ہے اور باطل مار کر بھی مضطرب ہے۔

    چل اٹھا دے پردہ اب حقیقت کبریا سے
    کہ ہے آنکھوں کا نور تیرا دیدار کرنے میں​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں