1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کا قاف (سرفراز احمد راہی) 7

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏14 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عشق کا قاف
    سرفراز احمد راہی



    حافظ عبداللہ پوری طرح محو ہو کر منزل کر رہا تھا۔
    قر آن پاک اس کےسامنےرحل پر کھلا پڑا تھا ۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ ہولےہولےجھومتا ہوا بڑی نرمی‘ آہستگی اور جذب کےساتھ تلاوت کر رہا تھا۔ چودہ سطری قر آن پاک کا ایک ایک صفحہ سطر بہ سطر اپنے آغاز و اختتام کےالفاظ کےساتھ اس کےذہن پر نقش اور دل میں محفوظ تھا۔ جونہی صفحےکا آخری لفظ اس کی زبان سےادا ہوتا‘ غیرارادی طور پر اس کا دایاں ہاتھ حرکت میں آتا ‘ ورق الٹ جاتا اور زبان اگلےصفحےکی عبارت کو چومنےلگتی ۔
    دوسرا پارہ اختتام کو پہنچا تو اس نے آنکھیں وا کیں۔سر جھکا کر قر آن پاک کو بوسہ دیا۔ چند لمحےکچھ سوچتا رہا پھر قر آن پاک بند کر کےاٹھ گیا۔ کھیس اتار کر وہیں رکھا۔ دروازےمیں پڑی چپل پہنی۔ باہر نکلا ۔ چار قدم چلا اور ساتھ والےکمرےپر آ رکا۔ آہستہ سےہاتھ دروازےپر رکھ کر دبایا۔ دروازہ ہلکی سی چرر کی آواز کےساتھ کھلتا چلا گیا۔اس نےقدم اندر رکھا۔ چراغ کی لو تھرتھرائی۔ اس نےوہیں رک کر چارپائی کی طرف دیکھا۔ لڑکی کمبل میں سمٹی پڑی تھی۔ اس کا چہرہ دروازےہی کی جانب تھا اور وہ سو رہی تھی۔
    وہ چند لمحوں تک اس کےصبیح چہرےکو تکتا رہا۔ سوچوں کی پرچھائیاں اس کی آنکھوں میں تیر رہی تھیں۔ بال آخر آہستہ سےپلٹ کر وہ باہر نکل گیا۔دروازہ بند ہوااور اس کےقدموں کی آواز دور ہوتی چلی گئی۔
    آواز ختم ہوتےہی ایک دم لڑکی اٹھ بیٹھی۔ اس کےچہرےکا رنگ سرخ ہو چکا تھا۔ ایک طویل سانس سینےسےخارج کرتےہوئےوہ چارپائی سےاتر آئی۔ اب اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ اس نےاسی وقت سانس روک لیا تھا جب حافظ عبداللہ نےدروازہ کھولا تھا۔ پلکوں کی درز سےوہ اسےاس وقت تک بےحس و حرکت پڑی دیکھتی رہی‘ جب تک وہ واپس نہ لوٹ گیا۔ حافظ عبداللہ کا اس وقت کمرےمیں آنا‘ اسےخاموش کھڑےہو کر دیکھتےرہنا‘ آگےبڑھتےقدم کو روک لینا اور پھر جیسےمجبوراً لوٹ جانا۔ پھر حافظ عبداللہ کا باہر سےدروازےکی کنڈی لگا دینا۔ان سب باتوں نےاس کےکانوں میں خطرےکی گھنٹی بجا دی تھی۔
    بے آواز قدموں سےچلتی ہوئی وہ دروازےتک آئی۔ کان لگا کر سننےکی کوشش کی۔ باہر مکمل خاموشی تھی۔ کمبل میں لپٹی وہ کھڑکی کےپاس آئی اور اس کےپٹ سےکان لگا دیے۔ دوسری طرف سےکتنی ہی دیر تک جب کوئی آواز نہ سنائی دی تو اس کا حلق خشک ہو گیا۔ لبوں پر زبان پھیرتےہوئےاس نےکمرےمیں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ وہاں کوئی ایسی شےموجود نہ تھی جسےوہ کسی بھی خطرےکےوقت اپنی حفاظت اور مدافعت کےکئےاستعمال کر سکتی۔
    اضطراب کےعالم میں اس نےلکڑی کی کھڑکی کی ایک درز سے آنکھ لگا دی۔ دوسرےکمرےکا منظر اس کی آنکھ میں اترا اور وہ سُن ہو کر رہ گئی۔ حافظ عبداللہ کمرےمیں شمالاً جنوباً بیتابی سےاس طرح چٹائی پر ٹہل رہا تھا کہ اس کےقدموں کی آواز نہ ابھر رہی تھی۔ کھڑکی سےدو فٹ دور سےوہ واپس لوٹ جاتا۔ اس کےماتھےپر شکنوں کا جال تنا ہوا تھا۔ لگتا تھا وہ کسی گہری سوچ میں ہےاور کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ اس نے آنکھ درز سےہٹا لی اور گہرےگہرےسانس لینےلگی۔
    ”وہ کیا سوچ رہا ہی؟ “اس نےاپنےدل سےپوچھا۔ فوراً ہی جواب اس کےذہن میں اتر آیا۔ظاہر ہےوہ بد نیتی سےاور اسی کےبارےمیں سوچ رہا تھا۔ اگر اس کی نیت ٹھیک ہوتی تو وہ چوروں کی طرح اس کےکمرےمیں نہ آتا۔ اس کا خاموشی سےواپس لوٹ جانا اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا مگر اسےاس طرح بےچینی سےٹہلتےدیکھ کر اسےیقین ہو گیا کہ وہ اسی کےبارےمیں کوئی فیصلہ کرنےکی حالت سےدوچار ہے۔ شاید وہ کوئی ایسی ترکیب سوچ رہا تھا جس پر عمل کر کےوہ اس پر قابو پا لےاور ۔۔۔۔
    اس سے آگےکی بات کا خیال آتےہی دونوں ہاتھ جوڑ کر اس نےُپر نم آنکھوں سےکمرےکی چھت کی جانب دیکھا۔ ”یااللہ۔“ بےاختیار اس کےلبوں سےنکلا اور ماتھا جڑےہوئےہاتھوں پر ٹکا کر وہ سسک پڑی۔ اس وقت وہ بھاگ کر جاتی بھی کیسےاور کہاں؟
    حافظ عبداللہ بیتابی سےچٹائی پر ٹہل رہا تھا۔ وہ ساتھ والےکمرےمیں یہ دیکھنےگیا تھا کہ لڑکی کا حال کیا ہے؟ دوبارہ بخار نےتو اسےنہیں آ لیا؟ اسےپیاس نہ لگی ہو۔ لڑکی کا خیال رکھنا لازم تھا۔ وہ اسےاپنی ذمےداری لگنےلگی تھی مگرجس طرح وہ بےسدھ سو رہی تھی‘ اس کےپُرکشش چہرےکو دیکھ کر اس کےجذبات میں آگ سی لگ گئی۔ اکیلی لڑکی ‘ رات کی تنہائی‘ کسی تیسرےکا وہاں نہ ہونا۔ ان سب نےمل کر اس کےدل و دماغ پر یلغار کر دی۔ جتنی دیر وہ وہاں کھڑا رہا‘ بڑےضبط سےکھڑا رہا تھا۔ پھرخدا کےخوف سےدل کو تھپکتا ہوا وہ بڑی مشکل سےباہر نکلا۔ دروازےکی کنڈی لگائی تو اس خیال سےکہ اس کےکھٹکےسےلڑکی جاگ جائےاور وہ اپنےشہوانی خیالات کو لڑکی کےجاگ جانےکی لگام دےسکی۔
    اپنےکمرےمیں آ کر اس نےمنزل کرنےکی بڑی سعی کی مگر دل تو کسی اور ادھیڑ بُن میں لگ گیا تھا۔ اسےسمجھ نہ آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے؟ حیوانی جبلت اسےشیطان کےہاتھوں بِک جانےپر اکسا رہی تھی مگر اس کےاندر چھپا بیٹھا حافظ ِ قر آن خود کو مسلسل کمزور پڑتا دیکھ کر باقاعدہ ہاتھ پائوں مارنےلگا تھا۔کشمکش تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ الائو تھا کہ اس کی تپش اسےجھلسائےدےرہی تھی۔
    ٹہلتےٹہلتےایک دم وہ رک گیا۔ قدم قدم چلتا ہوا ننگےپائوں باہر نکلا۔ گھور اندھیرےمیں اسےسوائےمزار ‘ دور دور تک پھیلی خاموشی‘ اکیلےپن اور سناٹےکےکچھ بھی نہ ملا۔ و ہ چند لمحےکھڑا سرد ہوا کو گھونٹ گھونٹ جذبات کےحلق سےنیچےاتارتا رہا۔ تپتا ہوا جسم باہر سےسرد ہونےلگا تو اسےاپنی کنپٹیوں میں سنسناہٹ سی دوڑتی محسوس ہوئی۔ ایسی سنسناہٹ‘ جس میں بےچینی کےبگولےریت اڑا رہےتھے۔ بیتابی کا غبار سانسوں کو بوجھل کررہا تھا۔حلق میں کانٹےسےپڑ گئےتو اس نےتھوک نگلنےکی ناکام کوشش کی۔ درد بھری ایک ٹیس ابھری اوراس کےجبڑےاکڑ سےگئی۔ منہ کھول کر اس نےفضا میں رچی ٹھنڈک کو پی لینا چاہا۔ ایک دم اسےجھرجھری سی آ گئی۔ ایک نظر مزار پر ڈال کر وہ واپس جانےکےلئےپلٹا۔ اسی وقت پھر کسی نےاسےپکارا۔ اس نے آواز کی سمت کا اندازہ لگاناچاہا مگر کامیاب نہ ہوا۔ سر جھٹک کر اس نےخود کو قائل کرنا چاہا کہ یہ اس کا وہم تھا۔ پھر وہ کمرےکی جانب چل دیا۔
    ”حافظ۔“ ایک دم اس کےقدم زمین میں گڑ گئی۔ اس نےپلٹ کر دیکھنا چاہا مگر گردن اکڑ گئی تھی۔ آواز کس کی تھی‘ اسےصاف پتہ چل گیا۔ اس کی آنکھیں یوں مند گئیں جیسےکسی نےزبردستی انہیں بند کر دیا ہو۔ ان پر کس کر پٹی باندھ دی ہو۔
    ”حافظ۔“ درویش نےاس کےکان کےقریب سرگوشی کی تو اس کےرونگٹےکھڑےہو گئے۔ ” بُوٹی لینےباہر آیا ہے۔ نقل مارنا چاہتا ہے۔ فیل ہو جائےگا ۔ یہ امتحان تجھےبغیر کسی کی معاونت کےدینا ہے۔ میں تجھےایک موقع لےکر دینےمیں بڑی مشکل سےکامیاب ہوا ہوں۔ دوبارہ اس کی امید نہ رکھنا۔ اندر جا اور پرچہ حل کر۔ جا۔ تھوڑا سا وقت رہ گیا ہی۔ ہمت سےگزار لے۔ جا۔“
    اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ سارا بوجھ‘ سارا وزن ختم ہو گیا۔ اس نےچاروں طرف دیکھا۔ وہ اکیلا کمرےکےباہر کھڑا تھا۔درویش وہاں کہاں تھا؟ اس نےمحسوس کیا کہ اس کا جسم ہوا کی طرح ہلکا ہو گیاہے۔ کوئی تپش اب اسےجھلسا رہی تھی نہ کوئی الائو اس کےاندر دہک رہا تھا۔ ایک بار پھر اس نےدرویش کی تلاش میں چاروں طرف دیکھا۔ پھر مزار کی جانب نگاہ کی۔ دل میں تشکر دھڑکا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا دوسرےکمرےکےدروازےپر پہنچا۔ آہستگی سےکنڈی کھولی اور لوٹ کر اپنےکمرےمیں داخل ہو گیا۔ دروازہ اپنےپیچھےبھیڑ کر وہ سر جھکائےچٹائی پر آ بیٹھا۔ کھیس کی بُکل ماری اور چراغ کی جانب دیکھا۔ اس کی ہلکی ہلکی زرد روشنی اسےبڑی بھلی لگی۔ چند لمحےوہ اسےعجیب سی نظروں سےدیکھتا رہا۔ پھر ایک طویل سانس لےکر اس نےقر آن پاک کو بوسہ دےکر کھولا ۔ تیسرےپارےکی پہلی سطر پر نگاہ ڈالی اور آنکھیں موند لیں۔
    ”اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔“ اس کےلبوں سےنکلااور آواز بھرا گئی۔
    ”بسم اللہ الرحمن الرحیم۔“ زبان پر خوشبو پھیلی اور آنسو رخساروں پر آ گئی۔
    ”تلک الرسل۔۔۔“ ایک ہچکی تھی جو اس کےحلق سے آزاد ہوئی اور وہ اپنے آپ سےجدا ہو گیا۔
    آنسو وضو کراتےرہے۔زبان ‘ آیتوں کو بوسےدیتی رہی۔ حواس میں پاکیزگی اترتی چلی گئی اور وہ اس بات سےبےخبر ہلکورےلیتا اپنےمعبود کی ثنا کرتا رہا کہ کوئی اسےکھڑکی کی درز سےمسلسل دیکھ رہا ہے۔ اس کی کیفیت پر انگشت بدنداں ہے۔ اس کی کیفیت کو سمجھنےکی ناکام سعی کر رہا ہےاور روح کو سیراب کرتی ہوئی نمی ۔۔۔ وہ تو اس جھانکنےوالےکی آنکھوں میں بھی ہے۔
    ”لن تنالو البر“ کےالفاظ اس کی زبان پر تھےکہ اسےلگاجیسےدونوں کمروں کی درمیانی کھڑکی پر ”ٹھک“ کی آواز ابھری ہو۔ ایک لمحےکو وہ رکا۔ پھرتلاوت کرتی اس کی آواز بلند ہو گئی۔ ”ٹھک“ کی آواز پھر ابھری۔ اس نےکان بند کرنےکےلئےان پر ہاتھ رکھ لئے۔تیسری بار آواز ابھری تو اس نے آنکھوں کو اور زور سےبند کر لیا۔ آنکھوں پر زور پڑنےکی دیر تھی کہ چارپائی پر بےسدھ پڑا وہ جوان سراپا اس کےسامنےنمایاں ہو گیا جو تنہائی اور موقع سےمزین تھا۔گھبرا کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ قر آن پاک کےالفاظ پر دھیان جماتےہوئےاس نےصفحہ پلٹا تو لگا جیسےالفاظ اس کی نگاہوں سےاوجھل ہو گئےہوں۔ صفحہ اسےبالکل کورا دکھائی دیا۔ کانوں میں سائیں سائیں ہونےلگی۔ نظروں میں دھند سی پھیلی اور زبان مروڑا کھا گئی۔ دماغ ایک دم سکرین بن گیا جس پر ایک جوان بدن پڑا اسےصدائیں دےرہا تھا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا چاہا مگر اس کےسامنےکھلےپڑےقر آن پاک کا سامنےکا صفحہ بالکل کورا بالکل صاف تھا۔ اس پر کچھ لکھاہوا نہ تھا۔اس نےحافظےپر زور دےکر یاد کرناچاہا مگر کچھ یاد نہ آیا کہ وہ کیا اور کہاں سےتلاوت کر رہا تھا ؟
    خوف کی ایک لہر اس کےسارےجسم میں دوڑ گئی۔ یہ کیا ہوا؟ مجھےیاد کیوں نہیں آ رہا کہ میں قر آن پاک کہاں سےدہرا رہا تھا؟ یہ ۔۔۔ یہ صفحات کورےکیوں ہو گئے؟ قر آن پاک کےالفاظ کہاں غائب ہو گئے؟ سنا اور پڑھا تھا کہ قیامت کےقریب قر آن پاک کےالفاظ خود بخود صفحات سےاڑ جائیں گے۔غائب ہو جائیں گے۔ تو کیا قیامت آ گئی؟ کیا۔۔۔؟
    اور اس ”کیا “ کے آگےسوچنا اس کےلئےمحال تھا۔ سوچ پر تو وہ جوان جسم قابض تھا جو چارپائی پر پڑا اسےپکار رہا تھا۔
    ”میرےمالک۔“ اس کےپھڑکتےلبوں سےایک سرگوشی آزاد ہوئی۔ ”میرےمعبود۔ میری مدد فرما۔ اپنےحبیب کریم کےصدقےمیں میری آزمائش نہ لی۔ میں تیری کسی آزمائش ‘ کسی امتحان کےقابل نہیں ہوں۔ مجھےمعاف فرما د۔ مجھےمعاف فرما دے۔ مجھےمعاف فرما دے۔“ اس نےدونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھا ان پر رکھ دیا ۔ سرگوشی مدھم ہوتےہوتےناپید ہو گئی۔
    کتنی ہی دیر گزر گئی۔اس نےسراٹھایا۔ لڑکی کا سراپا ابھی تک اس کےذہن میں رقصاں تھا۔ اس کی بھویں تن گئیں۔ دانت بھینچ کر اس نےایک پل کو کچھ سوچا۔ پھر نجانےکیا ہوا۔ آہستہ سےاس نےگردن کو حرکت دی اور دایاں ہاتھ چراغ کی لو پر سائبان کر دیا۔ لو بھڑکی اور اس کی ہتھیلی چاٹنےلگی۔ اس کی آنسوئوں سےلبریز آنکھیں اپنےہاتھ پر جم گئیں جو چراغ کی لو پر ساکت ہو چکا تھا۔
    گوشت جلنےکی چراند کمرےمیں پھیلی۔ درد کی ایک لہر اس کےسارےبدن میں دوڑ گئی مگر اس درد میں کیا لذت چھپی تھی کہ اسےنشہ سا ہونےلگا۔ اسےلگا جیسےایک دم آنکھوں کےسامنےسےساری دھند چھٹ گئی ہو۔ نظر جھکائی تو کورےکاغذ کا دامن گلاب رنگوں سےپُر دکھائی دیا۔ قر آن پاک کےالفاظ اس کی جانب سر اٹھائےمسکرا رہےتھے۔ قیامت ٹل گئی تھی۔ اسےتوبہ کا وقت مل گیا تھا۔ زبان کی اینٹھن روانی میں بدل گئی۔حافظ اسی مقام پر جا کھڑا ہوا جہاں پر وہ آیت سےجدا ہوا تھا۔
    ہاتھ لو پر جلتا رہا۔ مگر اس جلن میں درد نہ تھا ‘ ایک سرور تھا جو اسےلوریاں دےرہا تھا۔ زخم نہ تھا‘ گلاب تھا جو کھلتا ہی جا رہا تھا۔ منزل ہو رہی تھی یا منزل اس کی جانب خود چل پڑی تھی؟ کون جانے۔ جانےتو بس وہ جانےجو اوپر بیٹھا اپنے آدم کی آزمائش لےرہا تھا۔ فرشتوں کو دکھا رہا تھا اورکہہ رہا تھا:
    ”کیا میں نےکہانہ تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ وہ دیکھو۔ میرا آدم میری طرف چل کر آ رہا ہےاور مجھےدوڑ کر اس کی طرف جانا ہے۔ اسےگرنےسےپہلےتھام لینا ہے۔ جائو۔ اس کےہاتھ کا ‘ اس کےجسم کا سارا درد سمیٹ کر اس میں وہ مستی بھر دو جس میں صرف میرا ذکر ‘ میرا شکر اور میراامر لو دےرہا ہو۔“
    کھڑکی کےدوسری جانب دم بخود کھڑی لڑکی کےحواس مختل ہو چکےتھے۔ اس کی آنکھوں میں وہ منظر سما ہی نہ رہا تھا۔ حافظ عبداللہ کا ہاتھ جل رہا تھا۔ گوشت پگھل کر قطرہ قطرہ گر رہا تھامگر اسےجیسےاپنا ہوش ہی نہ تھا۔ وہ جھوم جھوم کر تلاوت کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بندتھیں۔ چہرہ اور اب جسم بھی پسینےمیں یوں بھیگا جا رہا تھا جیسےکسی نےاس پر جگ بھر پانی انڈیل دیا ہو مگر وہ ہر احساس سےبےنیازمنزل کر رہا تھا۔ منزل اس کی جانب بھاگی چلی آ رہی تھی۔
    اسی وقت باہر سے” اللہ اکبر“ کی صدا ابھری۔
    درویش لوٹ آیا تھا۔ وہ فجر کی اذان دےرہا تھا۔
    امتحان کا وقت ختم ہو گیا تھا اور شاید امتحان بھی۔
    یہ صدا اعلان تھی اس بات کا کہ حافظ عبداللہ کامیاب ہو گیا۔
    لڑکی کےکانوں میں اللہ اکبر کی صدا پڑی تو وہ چونکی۔ گھبرا کر درز سےپیچھےہٹی اور دروازےکی طرف لپکی۔ ایک پُرشور آواز کےساتھ دروازہ کھول کر وہ باہر نکلی۔ کمبل اس کےشانےپر لٹکا ہوا ساتھ ساتھ گھسٹتا آ رہا تھا۔ تقریباً بھاگتی ہوئی وہ دوسرےکمرےمیں داخل ہوئی ۔ دیوانہ وار آگےبڑھی اور نیم بیہوش مگر تلاوت میں محو حافظ عبداللہ کےپاس جا رکی۔
    ”حافظ صاحب۔“ ایک چیخ اس کےلبوں سےنکلی اور اس نےاس کا جلتا ہوا ہاتھ کھینچ کر چراغ کی لو سےپرےہٹادیا۔
    ایک دم حافظ عبداللہ نے آنکھیں کھول دیں اور جیسےہوش میں آ گیا۔ اس کی سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر لڑکی ایک پل کو دہشت زدہ ہوئی پھر اس کی طرف سےنگاہ ہٹا کر اس نےکمبل کےپلو میں حافظ عبداللہ کا چرر مرر ہاتھ لپیٹ لیا۔
    ”یہ آپ نےکیا کیا ؟“ اس کی آواز میں درد ہی درد تھا۔
    ”کیا کیا؟“ حافظ عبداللہ نےمسکرانےکی کوشش کی۔ حواس میں آتےہی درد اس پر پوری شدت سےحملہ آور ہو گیا۔
    ”حی علی الفلاح۔“
    اچانک وہ باہر سے آتی ہوئی درویش کی آواز پر چونکا۔”بابا۔“ اس نےسرسراتےلہجےمیں کہا۔” بابا لوٹ آئے۔“
    ”کون بابا؟“ لڑکی کی آواز اب بھی بھرائی ہوئی تھی۔ وہ کمبل میں لپٹا اس کا ہاتھ تھامےبیٹھی آنسو ضبط کرنےکی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
    مگر حافظ عبداللہ اس کےسوال کا جواب دینےسےپہلےہی غش کھا گیا۔ اب درد کی اذیت اس کی برداشت سےباہر ہو چکی تھی۔
    ”حافظ صاحب۔ ۔۔حافظ صاحب۔“ لڑکی اسےباہوں میں سنبھالتی ہوئی بےاختیار پکارےجا رہی تھی۔
    ”بس۔ “ اچانک ایک آواز سن کر وہ چونکی۔ ایک جھٹکےسےگردن گھما کر اس نےاندر آتےہوئےدرویش کو دیکھا جو تین چار لمبےلمبےڈگ بھر کر اس کےپاس پہنچا اور حافظ عبداللہ کا سر گود میں لےکر بیٹھ گیا۔
    ” آرام کرنےدےاسے۔“ وہ والہانہ حافظ عبداللہ کےچہرےکو دیکھےجا رہا تھا۔ اس کےگالوں پر محبت سےہاتھ پھیر رہا تھا۔ ” سونےدےاسے۔ ساری رات امتحان دیتا رہا ہےپگلا۔ تھک گیا ہے۔ سونےدےاسے۔“
    ”بابا۔ “ لڑکی نےاس سےپوچھنےکی کوشش ہی نہ کی کہ وہ کون ہی۔ وہ اسےاجنبی لگا ہی نہ تھا۔ بالکل ایسا لگا جیسےوہ برسوں سےاسےجانتی ہو۔ ”بابا۔ ان کا ہاتھ۔۔۔“
    ”کیا ہوا اس کےہاتھ کو؟“ درویش نےاس کا ہاتھ کمبل کےپلو سےباہر نکالا۔ پھر جلےہوئےہاتھ کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
    ”بابا۔ انہوں نےدیےکی لو پر اپنا ہاتھ رکھ چھوڑا تھا۔ ہاتھ جلتا رہا مگر انہیں خبر ہی نہ ہوئی۔ وہ تو میں نہ آ کر ہٹاتی تونجانےکیا ہو جاتا۔“ وہ مزید سہہ نہ سکی اور سسک کر رو پڑی۔
    ”پگلی ہےتو بھی۔“ درویش نےاس کےسر پر تھپکی دی۔” کچھ نہیں ہو گا اسے۔ میرا اللہ چاہےتو ابھی اس کا ہاتھ یوں ہو جائےجیسےاس پر کبھی کوئی خراش تک نہیں آئی مگر۔۔۔“
    ”مگر کیا بابا؟“ لڑکی نےبیتابی سےپوچھا۔
    ”مگر میرا اللہ چاہتا ہےکہ حافظ عبداللہ کا ہاتھ دوا سےٹھیک ہو۔ اس کا نقص باقی رہے۔ یہ عیب والا ہو جائے۔“
    ”وہ کیوں بابا؟“ وہ سوال پر سوال کئےجا رہی تھی اور درویش اس کےہر سوال کا جواب یوں دےرہا تھا جیسےکوئی باپ اپنی بیٹی سےلاڈ کررہا ہو۔
    ”اس لئےپگلی کہ اپنےاللہ سےمحبت کا یہ نشان اس کےہاتھ پر باقی رہے۔ اسےاور تجھےیاد رہےکہ یہ ہاتھ کیوں اور کیسےجلا تھا؟“
    ”میں سمجھی نہیں بابا؟“ ایک دم لڑکی کا ذہن جیسےسلیٹ کی طرح صاف ہو گیا۔
    ”کیا تو نہیں جانتی کہ حافظ نےاپنا ہاتھ جلتےچراغ کی لو پر کیوں رکھ دیا تھا؟“ اچانک درویش کا لہجہ عجیب سا ہو گیا۔ ”شیطان آ گیا تھا اس کےپاس۔ شیطان جو آگ سےبنا ہے۔ نفس کی آگ کو حافظ عبداللہ نےاپنےاللہ کےحکم پر نور کےالائو میں دھکیل دیا۔ نفس جل گیا ۔ شیطان خاک ہو گیا۔ نور باقی رہا۔ اب اس نور کا نشان تاعمر میرےحافظ کےہاتھ پر باقی رہے‘ اس کےاللہ کی نشانی اس کےپاس رہے‘ یہی اس کےمعبود کی رضا ہے۔ سمجھیں پگلی۔“ درویش نےاس کی جانب پیار سےدیکھا۔
    ”ہاں بابا۔“ لڑکی کی آواز جیسےکسی گہرےکنویں سے آئی۔’ ’سب سمجھ گئی۔ “ اس کی نگاہیں جھک گئیں۔رات بھر کی ساری کیفیات ایک پل میں اس کی نظروں میں پھر گئیں۔ اس کی ساری بدگمانیاں شرمندگی کا پسینہ بن کر اس کی پیشانی سےبہہ نکلیں۔ وہ حافظ عبداللہ کی حرکات سےکیا اخذ کرتی رہی اور حقیقت کیا تھی؟ یہ جان کر اسےخود پر شرم آ گئی۔
    ”کمبل سےاپنا جسم ڈھانک لےپگلی۔ سردی لگ جائےگی۔“ درویش نےحافظ عبداللہ کو بازئووں میں اٹھا تےہوئےکہا تو وہ چونکی۔ کمبل کو جسم پر ٹھیک سےلپیٹا ۔پھر اس کےپیچھےپیچھےوہ بھی دوسرےکمرےمیں آ گئی۔
    درویش نےحافظ عبداللہ کو چارپائی پر لٹایا۔ جلتا ہوا چراغ اٹھا کر لایا اور چارپائی کےپاس نیچےکچےفرش پر رکھ دیا۔
    ”میں نماز پڑھ لوں ۔ تم اتنی دیر اس کےزخم پر چراغ کا تیل چپڑتی رہو۔باقی کا علاج صبح گائوں جا کر ہو جائےگا۔“
    درویش کمرےسےنکل گیا۔
    لڑکی نےایک پل کو کچھ سوچا۔ پھر چارپائی کی پٹی سےلگ کر زمین پر بیٹھ گئی۔ حافظ عبداللہ کا جلا ہوا ہاتھ تھام کر اس نےدوسرےہاتھ کی انگلیوں سےچراغ سےتیل لیا اور زخم پر چپڑنےلگی۔ وقفےوقفےسےوہ اس کےچہرےپر بھی نظر ڈال لیتی ‘جہاںسکون کا ایک عالم آباد تھا۔ ایساملکوتی سکون اسےپہلےکہاں دیکھنا نصیب ہوا تھا؟
    ٭
    ”میرا نام سکینہ ہےجی۔“ لڑکی نےکہا ۔”میں سائیاں والا کےمیاں اشرف کی بیٹی اور میاں نذرو کی بھتیجی ہوں۔“
    ”اری۔“ چوہدری حسن دین چونکا۔ ”پھر تو تُو میری بیٹی اور بھتیجی ہوئی۔میاں نذرو تو میرےبڑا یارہے۔ “
    ”چلئی۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ یہ آپ کےجاننےوالوں کی کچھ لگتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہےکہ میری ذمہ داری ختم ہوئی۔ اب آپ انہیں ان کےگھر بھجوانےکا انتظام کر دیں چوہدری صاحب۔“ حافظ عبداللہ نےمفلر کےساتھ گلےمیں لٹکےہاتھ کو دوسرےہاتھ سےچھوتےہوئےکہا جس پر کچھ دیر پہلےگائوں کےاکلوتےڈاکٹر جمع حکیم‘ مرزا امیر حسین نےڈریسنگ کی تھی۔
    پو پھٹتےہی درویش نےان دونوں کو گائوں کےراستےپر خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ سورج نکل رہا تھا جب وہ دونوں چوہدری حسن دین کی حویلی جا پہنچے۔ اندر خبر کی گئی تو فوراً ان دونوںکو بیٹھک میں بٹھایا گیا۔ رفاقت اور چوہدری حسن دین آئےتو حافظ عبداللہ نےمختصر لفظوں میں انہیں ساری بات بتائی۔ مسجد سےغیر حاضری کی وجہ بھی سامنے آ گئی۔اب آخر میں جب سکینہ نےاپنا نام اور پتہ بتایا تو سارا مسئلہ ہی حل ہو گیا۔
    ”سکینہ بیٹی۔تم اندر جائو۔ نہا دھو کر کپڑےبدلو۔ میں اتنی دیر میں تمہارےچچا کو خبر کرتا ہوں۔ ہاں‘ یہ تو بتائو کہ تم کب سیلاب کےپانی میں گریں؟“
    ”کل صبح چوہدری صاحب۔ “ سکینہ نےجواب دیا اور جھرجھری لےکر رہ گئی۔ ”میں اپنی دو سہیلیوں کےساتھ پُل پر کھڑی سیلاب کےپانی کا تماشہ دیکھ رہی تھی کہ پائوں پھسل گیا۔ وہ دونوں شور مچاتی کسی کو مدد کےلئےبلانےبھاگیں ۔ میں ڈوبتےڈوبتےایک درخت کےتنےسےجا چمٹی جو نجانےکہاں سےبہتا چلا آ ر ہا تھا۔ پانی نےمیرےحواس چھین لئےاور میں بےسدھ ہو گئی۔ ہوش آیا تو بابا شاہ مقیم کےمزار پر تھی۔“
    ”بس بیٹی۔ یہ اللہ والوں کی کرامتیں ہیں۔ایک تو تیری جان بچ گئی اوپر سےحافظ عبداللہ جیسےنیک بندےکےہاتھ لگ گئیں۔ اگر کہیں غلط ہاتھوں میں پڑ جاتیں تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔“چوہدری حسن دین نےکانوں کو ہاتھ لگاتےہوئےکہا۔” اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائےکم ہے۔“
    ”جی۔“ سکینہ نےکرسی پر سر جھکائےبیٹھےحافظ عبداللہ کی طرف عجیب سی نظروں سےدیکھا ۔
    ”نادرہ کو بلائو۔“ چوہدری حسن دین نےرفاقت سےکہا۔
    ”جی ابا جان۔“ رفاقت اٹھا اور کمرےسےنکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنےساتھ چودہ پندرہ سالہ صحتمند اور ہنستی کھیلتی نادرہ کو لئےواپس آیا۔
    ”سلام حافظ صاحب۔“ اس نےاندر داخل ہو کر حافظ عبداللہ کو سلام کیا۔ حافظ عبداللہ نےجواب دیتےہوئےاس کےسر پر پیار سےہاتھ پھیرا۔
    ”نادرہ پتر۔ سکینہ بہن کو اندر لےجا۔ اسےنہلا دھلا کر اس کےکپڑےبدلوا۔ ناشتہ واشتہ کرا اور آرام کرنےکےلئےبستر میں گھسا دے۔ یہ بہت تھکی ہوئی ہے۔“
    ”جی ابا۔“ نادرہ نےاپنی چمکتی ہوئی آنکھیں مٹکائیں۔ ”مگر یہ ہیں کون؟“
    ”میرےایک مرحوم دوست کی بیٹی ہے۔ یہ کل سیلاب کےپانی میں بہہ گئی تھی۔ تیرےاستاد صاحب نےاسےبچا لیا ۔“
    ”بچانےوالی تو اللہ کی ذات ہےچوہدری صاحب۔“ حافظ عبداللہ نےجلدی سےکہا۔
    ”ہاں جی۔ مگر کوئی حیلہ وسیلہ بھی تو ہوتا ہےناں۔ “ چوہدری حسن دین نےزور دےکر کہا۔” اب وہ خود تو نیچےاتر کر اسےپانی سےنکالنےسےرہا۔ آپ کو بھیج دیا کہ جا بھئی۔ اپنا فرض ادا کر۔“
    حافظ عبداللہ مسکرا کر خاموش ہو رہا۔نادرہ ‘ سکینہ کو اندر لےگئی۔
    ”رفاقت۔ یار سائیاں والا تک کا راستہ تو سارا سیلاب کےپانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہاں فون کی سہولت بھی موجود نہیں۔ اب نذرو کو خبر کیسےکی جائے؟“
    ”اباجان۔“ رفاقت نےکمرےمیں داخل ہوتےملازم کےہاتھ سےناشتےکی ٹرےتھام کر حافظ عبداللہ کے آگےتپائی پر رکھی اورچوہدری حسن دین سےمخاطب ہوا۔ ”وجاہت آباد کےراستےسائیاں والاپہنچا جا سکتا ہے۔“
    ”یار۔ بڑا لمبا ہو جائےگا راستہ۔“ چوہدری حسن دین نےسوچ میں ڈوبےلہجےمیں کہا۔
    ”اب کا م تو یہ کرنا ہےابا جان۔ راستہ لمبا ہو یا چھوٹا۔ جانا تو پڑےگا۔“رفاقت کہہ کر حافظ عبداللہ سےمخاطب ہوا۔” حافظ صاحب۔ آپ ناشتہ شروع کیجئے۔ سوچ کیا رہےہیں؟“
    ”کچھ نہیں یار۔ سوچنا کیا ہے؟“ حافظ عبداللہ نےبایاں ہاتھ آگےبڑھایا۔ پھر واپس کھینچ لیا۔”یہ بائیں ہاتھ سےکھانا کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔“
    ”اب یہ تو مجبوری ہےحافظ صاحب۔“ چوہدری حسن دین نےہمدردی سےاس کی جانب دیکھا۔ ” ہاں۔ اگر آپ کی شادی ہو گئی ہوتی تواور بات تھی۔ پھر آپ کی بیگم لقمےبنا بنا کر آپ کو کھلاتیں اور آپ دعا کرتےکہ آپ کا ہاتھ ذرا دیر سےٹھیک ہو۔“ مزاح کی عادت سےمجبورچوہدری حسن دین رہ نہ سکا اور گوہر افشانی کرنےلگا۔ بات ختم کر کےوہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ حافظ عبداللہ جھینپ کر رہ گیا۔ رفاقت نےاستاد کو شرمندہ ہوتےدیکھا تو مسکرا کر منہ پھیر ا اور ذرا پرےجا بیٹھا۔ ”مگر آپ نےکیسی لاپروائی دکھائی کہ سوتےمیں ہاتھ جلتےچراغ پر دےمارا۔ اگر کہیں چراغ کپڑوں پر آگر تا تو۔۔۔“
    ”بس چوہدری صاحب۔ سوتےمیں کیا پتہ چلتا ہے۔“ حافظ عبداللہ نےکہا اور بائیں ہاتھ سےبہ امر مجبوری پراٹھا توڑنےلگا۔اس نےہاتھ جلنےکےبارےمیں یہی بتایا تھا کہ سوتےمیں پتہ نہ چلا اور ہاتھ جلتےچراغ پر جا پڑا۔ پھر جب تک وہ سنبھلتا آگ نےہاتھ جلا ڈالا۔ مرزا امیر حسین نےزخم دیکھ کر کہنا چاہا تھا کہ لگتا ہےبہت دیر تک ہاتھ آگ پر پڑا رہا ہے۔ تاہم حافظ عبداللہ نےبات کو ہوں ہاں میں ٹال دیا۔
    ناشتہ کر کےحافظ عبداللہ نےاجازت لی اور مسجد کو چل دیا۔ کچھ دیر بعدچوہدری حسن دین نےاپنےایک ملازم شفیق مصلی کو میاں نذرو کی طرف روانہ کرتےہوئےکہا۔
    ”وجاہت آباد کےملک بلال کو تم خوب جانتےہو ۔میں دیر سےاس کا فون ٹرائی کر رہا ہوں مگر رابطہ نہیں ہو رہا۔ شاید بارش کی وجہ سےلائنیں ڈسٹرب ہو گئی ہیں۔ تم اس سےجا کر ملنا۔ اگر آگےراستہ صاف نہ ہوا تو وہ تمہاری ہر ممکن مدد کرےگا۔ اور اگر صاف ہوا تو وہاں زیادہ ٹھہرنےکی ضرورت نہیں۔ جتنی جلدی ہوسکی‘ میاں نذرو سےجا کر ملو اور اسےبتائو کہ اس کی بھتیجی یہاں ہمارےپاس ہےاور بالکل خیر خیریت سےہے۔ جب چاہیں آ کر لےجائیں ۔ وہاں فون کی لائن ابھی تک بچھی نہیں ‘ ورنہ میں جناب کو تکلیف نہ دیتا۔راستہ رکا ہوا نہ ہوتا تو میں خود ہی سکینہ بیٹی کو چھوڑ آتا ۔سمجھ گیا یا سب کچھ لکھ کر دوں دُن وٹے؟“ چوہدری حسن دین نےاس کےچہرےپر بکھری حماقت سےبیزار ہو کر کہا۔
    ”سمجھ گیا ہوں جی۔“ شفیق مصلی بولا تو ساری حماقت اس کےچہرےسےچھٹ گئی۔ معلوم ہوا کہ جب تک چپ رہتا احمق لگتا تھا مگر زبان کھلتےہی وہ سمجھدارلگنےلگتا تھا۔” آپ فکر نہ کریں۔ جیسا آپ نےکہا ہی‘ ویسا ہی ہو گا۔“
    ”تو بس۔ اب چل دےمیرےٹٹو۔تجھےسائیکل پر جانا ہےاور راستہ کافی طویل ہے۔“ چوہدری حسن دین کرسی سےاٹھ کھڑا ہوا۔ ” ویسےتو وجاہت آباد کب تک پہنچےگا‘ اس وقت بارہ بجےہیں دن کی۔“
    ”ڈیڑھ دو گھنٹےکا راستہ تو ہےجی۔ بس زیادجہ سےزیادہ دو بجےتک پہنچ جائوں گا۔“
    ”ٹھیک ہے۔ اگر کوئی خاص بات ہوئی تومجھےفون پر آگاہ کرنا۔ بس اب روانہ ہو جا اللہ کا نام لےکر۔“
    ”جی چوہدری صاحب۔“ شفیق مصلی نےسلام کیا اور باہر نکل گیا۔

    دوپہر کےکھانےکےبعد طاہر حویلی سےکچھ دور ڈیرےمیں بیٹھا بلال ملک اور چند دوسرےلوگوں کےساتھ بیٹھا گپ شپ کر رہا تھا۔ موضوع بحث عادل اور زبیدہ تھےجن کی شادی کا معاملہ ایسےاحسن انداز میں طےہو ا تھا کہ سب لوگوں پر طاہر کی معاملہ فہمی اور فراخ ذہنی کی دھاک بیٹھ گئی ۔
    ”ملک صاحب۔ نور پور سےچوہدری حسن دین کا آدمی آیا ہےاور آپ سےملنا چاہتا ہے۔“ دروازےسےاندر داخل ہوتےایک ملازم نےکہا۔
    ”اوہو۔“ ملک سیدھا ہو بیٹھا۔ ” خیر تو ہے۔“
    ”پتہ نہیں جی۔ بس آپ سےملنےکو کہتا ہے۔“
    ”تو بھیجو اسےاندر۔ سوچ کیا رہےہو؟“ ملک نےڈپٹ کر کہا۔
    ”جی ملک صاحب۔“ ملازم لوٹ گیا۔
    کچھ دیر بعد شفیق مصلی نےاندر داخل ہوکر بلند آواز میں سب کو سلام کیا۔ جواب میں سب نےوعلیکم السلام کہا۔طاہر خاموشی سےصوفےپر نیم دراز سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا۔
    ” آئو بھئی شفیقے۔ خیریت تو ہے؟“ ملک نےاسےپہچان لیا۔ملک نےاسےبیٹھنےکا اشارہ کیا۔
    ”جی ملک صاحب۔ سب خیر ہےاور چوہدری صاحب بھی خیریت سےہیں۔ ایک ضروری کام سے آیا ہوں جی۔“ وہ ایک موڑھےپر ٹک گیا۔
    ”ہاں ہاں۔ کہو۔ کیا بات ہے؟“
    جواب میں شفیق مصلی نےاسےچوہدری حسن دین کےپیغام سے آگاہ کیا۔ طاہر اس کی بات سنتا رہا اور غور کرتا رہا۔
    ”راستہ تو آگےکا صاف ہی ہےشفیقے۔پھر بھی کسی قسم کی مدد درکار ہو تو بتائو۔“
    ”نہیں جی۔ آپ کو چوہدری صاحب کا سلام دینا تھابس۔ اگر راستہ صاف ہےتو پھر مجھےچلنا چاہئے۔“
    ”او نہ بھئی۔ یہ کیسےہو سکتا ہی۔ تو ہمارےبابا جی کےگائوں سے آیا ہے۔“ عقیدت سےملک نےسر خم کر کےکہا۔ ”لسی پانی کےبغیر کیسےجائےگا تو۔ اوئےکرامت۔“ ملک نےدور بیٹھےایک آدمی کو پکارا۔
    ”جی ملک صیب۔“ وہ اٹھ کر قریب چلا آیا۔
    ”شفیقےکو ساتھ لےجا۔ اس کی خوب ٹہل سیوا کرکےجانےدینا اسے۔کوئی کسر رہ گئی تو بابا شاہ مقیم کو جانتا ہےناں؟“ ملک نےاسےخوف دلایا۔
    ”فکر نہ کریں ۔ آپ کو کوئی شکایت نہیں ملےگی ملک صیب۔“ کرامت نےڈرےڈرےلہجےمیں کہا اور شفیق سب کو سانجھا سلام کر کےاس کےساتھ رخصت ہو گیا۔
    ”ملک۔ بابا شاہ مقیم کےمزار پر اپنا کوئی بندہ ہی جڑ دینا تھا ۔ وہاں کی دیکھ بھال سےہمارا بھی اندر دھلتا رہتا۔“ طاہرنےسیدھا ہو کر بیٹھتےہوئےکہا۔
    ”اب اس کی ضرورت نہیں رہی چھوٹےمالک۔ ایک اللہ والےنےوہاں کا چارج سنبھال لیا ہے۔“
    ” یہ کب کی بات ہے؟“طاہر نےحیرت سےپوچھا۔
    ”کافی عرصہ ہو گیا جی۔ بس وہاں کا ذکر نہیں آیا تو آپ کو خبر نہ ہوئی۔“
    ”اچھا۔ کیسا اللہ والاہےوہ‘ جس نےبابا کےدل میں گھر کر لیا۔ وہ تو کسی کو اپنےمزار پر ٹکنےہی نہیں دیتے۔“
    ”بس جی۔ یہ کوئی ان کا دُلارا لگتا ہےجو دھونی رمائےبیٹھا ہےوہاں۔“
    ”اچھا۔ پھر تو ملنا چاہئےاسے۔“ طاہر کےلہجےمیں دلچسپی عود کر آئی۔
    ”جب حکم کریں ‘ چلےچلیں گےجی۔ “
    ”کل صبح چلیں؟“ طاہر نےفراغت کےوقت کا بہترین استعمال سوچ لیا۔ وہ پچھتا رہا تھا کہ جب سے آیا ہےاسےبابا شاہ مقیم کےمزار پر جانےکا خیال کیوں نہ آیا۔ پچھلےتین چار سال سےمصروفیت کےباعث وہاں نہ جانےکی کوتاہی تو ہو رہی تھی اس سی‘ مگر اس بار تو وہ بالکل فارغ تھا۔ اسے آتےہی وہاں جانا چاہئےتھا۔
    ”ٹھیک ہےجی۔ میں انتظام کرا لیتا ہوں۔“ ملک نےسر ہلاتےہوئےکہا۔ ”صبح سات آٹھ بجےنکل چلیں گے۔ سہ پہر تک لوٹ آئیں گے۔“
    ”ٹھیک ہے۔ تم تیاری کر لو۔ اور ہاں۔ سالانہ عرس پر تو ہمارا حصہ جا رہا ہےناں وہاں؟“
    ”یہ بھی کوئی پوچھنےکی بات ہےچھوٹےمالک۔“ ملک مسکرایا۔ ” بڑےصاحب کےزمانےسےجو معمول بندھا تھا‘ برابر جاری ہے۔ بیگم صاحبہ نےکبھی اس میں کوتاہی آنےدی ہےنہ کمی۔“
    ”ایسا ہی ہونا چاہئے۔ “ اس نےسر ہلایا۔” بہت بڑی ہستی ہیں بابا شاہ مقیم۔“
    ”ہاں جی۔ اس میں کیا شک ہے؟“ ملک نےتائید کی۔
    پھر بابا شاہ مقیم کی باتیں چھڑیں تو وقت گزرنےکا احساس اس وقت ہوا جب حویلی سےسہ پہر کی چائےکا پیغام آ گیا۔
    طاہر حویلی چلا گیا اور ملک چند ملازموں کےساتھ اپنے آفس نما کمرےمیں‘ جو ڈیرےکی حدود میں ہی واقع تھا۔ اسےصبح کےسفر کی تیاری کرنا تھی۔
    ٭




    میاں نذرو اپنےبیٹےسلیم اور سکینہ کی ماں تاج بی بی کےساتھ اگلےدن چوہدری حسن دین کےہاں پہنچ گیا۔ شفیق مصلی انہیں حویلی چھوڑ کر رخصت ہو گیا۔ وہ لوگ اپنےشاہی تانگےپر آئےتھی۔ شفیق مصلی سائیکل پر ان کےساتھ ساتھ چلتا رہا تھا۔
    تاج بی بی کی بےچینی کےپیش نظر وہ تو رات ہی کو پہنچ جاتےمگر شفیق مصلی نےانہیں خوب تسلی دےکر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ صبح نور کےتڑکےنکلنا چاہئے۔ رات کا سفر خراب راستےکےباعث مناسب نہیں ہے۔ رات جیسےتیسےگزار کر وہ فجر کی نماز کےفوراً بعد ناشتہ کر کےچل پڑےاور آٹھ بجےکےقریب یہاں آن پہنچے۔
    ان کےملنےکا منظر بڑا دلگداز تھا۔ سکینہ‘ ماں اور چچا کےگلےلگ کر بچوں کی طرح روئی۔ تاج بی بی اسےپیار کرتےنہ تھکتی تھی۔ سلیم نےبھی سر پر پیار دیا اور اسےسینےسےلگا کر آبدیدہ ہو گیا۔
    ”مر جانئی۔ اگر تجھےکچھ ہو جاتا تو تیرا یہ بھائی کس کی ماں کو ماسی کہتا۔“ اس نےبھرائی ہوئی آواز میں کہا اور روتےہوئےچہروں پر مسکراہٹیں کھیل گئیں۔
    ”واہ بھئی واہ۔“ چوہدری حسن دین نےسلیم کی جانب دیکھ کر قلقاری ماری۔ ” تم تو اپنی برادری کےلگتےہو۔ روتےبھی ہو تو سُر میں۔“
    ”بس چاچا۔ یہ رونق ہےہمارےگھر کی۔“ اس نےسکینہ کے آنسو پونچھتےہوئےکہا۔ ”اسےکیا پتہ ‘ ہم نےکل رات تک کا وقت کیسےگزارا ہی؟ اس کی تلاش میں دریا کی تہہ کہاں کہاں تک نہیں کھنگالی ہم نے۔ وہ تو آپ کا بندہ پہنچا تو جان میں جان آئی۔“
    ”شکر کرو بھائی رب سوہنےکا کہ اللہ نےحافظ عبداللہ کو رحمت کا فرشتہ بنا کر وہاں بھیج رکھا تھا۔ ورنہ یہ پتہ نہیں کہاں جا کر رکتی۔ درخت تو اس نےکرائےپر لےہی لیا تھا۔“
    ”چاچا۔“ سب کےقہقہےپر سکینہ نےشرما کر چوہدری حسن دین کی طرف شکایتی نظروں سےدیکھا۔
    ”ارےبیٹی۔ انہیں ہنس لینےدے۔ پتہ نہیں تیرےلئےکتنا روئےہیں؟“ چوہدری حسن دین نےنرمی سےاسےسمجھایا تو وہ ایک بار پھر ماں سےلپٹ گئی۔
    ”اور سنا بھئی چوہدری۔ کیسی گزر رہی ہے؟“ میاں نذرو اس کی طرف سیدھا ہوا۔
    ”بتاتا ہوں ۔ پہلےتم لوگ کچھ اَن پانی چھک لو۔“ چوہدری حسن دین نےرفاقت اور نادرہ کےساتھ ملازم کو کھانےپینےکی اشیا لےکر اندر آتےدیکھ کر کہا۔
    ”بھابی کہاں ہے؟ “ میاں نذرو نےذرا دیر بعد پوچھا۔
    ” میکےگئی ہے۔“ چوہدری حسن دین نےمنہ بنا کر کہا۔ ” بوڑھی ہو گئی پر اس کا میکےکا چسکا نہ گیا۔ ایک دو دن کا کہہ کر جاتی ہےاور سات دن بعد لوٹتی ہے۔“
    ”ناراض نہ ہوا کر یار۔“ میاں نذرو نےمٹھائی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔” اب تک تو تجھےاس کا عادی ہو جانا چاہئےتھا۔“
    ”عادی تو ہو گیا ہوں یار مگر اکثر یہ ہوتا ہےکہ بڑےاہم موقع پر وہ گھر میں موجود نہیں ہوتی۔ اب یہی دیکھ لو کہ تم لوگ آئےہو اور وہ ۔۔۔“
    ”اچھا چھوڑ۔ یہ بتا ‘رفاقت کی شادی کب کر رہا ہی؟اب تو یہ ماشا ءاللہ جوان ہو گیا ہی۔“ میاں نذرو نےبات کارخ بدلنا چاہا۔
    ”میں اس کےلئےایسی لڑکی ڈھونڈ رہا ہوں جس کےمیکےوالےسب کےسب اللہ تعالیٰ کےمہمان ہو چکےہوں۔ تاکہ یہ میری طرح بیوی کی راہ نہ تکتا رہے۔“ اس نےبیزاری سےکہا۔
    ”خیر کی بات نکال منہ سے۔“ میاں نذرو نےاسےسرزنش کےانداز میں کہا۔ ”ہنستےبستےگھروں میں جانا آنا لگا ہی رہتا ہے۔ تو تو بالکل ہی ۔۔۔“
    ”اچھا اچھا۔ “ چوہدری حسن دین نےاس کی بات کاٹ دی۔ ” اب بس۔ تم لوگ آئےکس کام سےہو اور لگ کس کام میں گئےہو۔ چلو ۔ کھانا پینا ہو جائےتو ذرا تم لوگوں کو گائوں کی سیر کرائوں۔“
    ”گائوں کی سیر؟“ میاں نذرو حیرت سےبولا اور چائےکا کپ ہاتھ سےرکھ دیا۔ ”بھائی۔ ہم کیا کراچی سے آئےہیں جو ہمیں گائوں کی سیر کرائےگا؟ جیسا ہمارا گائوں ہےویسا ہی یہ گائوں ہی۔ پھر کون سی خاص چیز ہےیہاں ‘ جسےدیکھنےکےلئے۔۔۔“
    ”ایک خاص چیز تو حافظ عبداللہ ہےابا جی۔ ہمیں سب سےپہلےاس کا شکریہ ادا کرنےکےلئےاس کےپاس جانا چاہئے۔“ اچانک سلیم نےکہا تو وہ سب اپنے آپ کو مجرم سا محسوس کرنےلگے۔ یہ کام تو انہیں آتےہی کر لینا چاہئےتھا۔
    ”خوش کیتا ای پُتر۔“ چوہدری حسن دین نےاسےتحسین آمیز نظروں سےدیکھتےہوئےکہا۔ ” واقعی۔ یہ بات تو میرےبھی ذہن سےنکل گئی۔ میں تو تم لوگوں کو بابا شاہ مقیم کےمزار پر لےجاناچاہتا تھا‘ جن کی دعا برکت سےسکینہ بیٹی کی جان بچی۔ یہ میرا اپنا خیال ہے۔ آپ لوگوں کا میرےمراسلےسےمتفق ہونا ضروری نہیں۔“
    ”ہم اس سےبالکل اتفاق کرتےہیں بھائی جی۔ “ تاج بی بی نےپہلی بار زبان کھولی۔ ”ایسےاللہ والوں ہی کی وجہ سےتو دنیا آباد ہے۔ ہمیں وہاں ضرور جانا چاہئے۔“
    ”مگر پہلےحافظ عبداللہ۔۔۔“ سلیم نےاشتیاق سےکہا۔وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کون ہےجس نےاس کی بہن کی جان بچائی۔ وہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔
    ”تو ٹھیک ہے۔ “ چوہدری حسن دین اٹھ گیا۔ ”چلو ۔ اس کی مسجدمیں چلتےہیں۔“
    ”کس کی مسجد میں جا رہےہیں ابا جان؟“ رفاقت نےاندر داخل ہوتےہوئےپوچھا۔
    ”حافظ عبداللہ کی مسجد میں بیٹی۔“
    ”مگر وہ تو مسجدمیں نہیں ہیں۔“ رفاقت نےبتایا۔
    ”تو پھر کہاں ہیں؟“
    ”بابا شاہ مقیم کےمزار پر۔ میں فجر پڑھنےگیا توانہوں نےمجھ سےکہا کہ ظہر کےوقت تک لوٹ آئیں گے۔“
    ”چلو۔ یہ بھی ٹھیک ہی۔ وہاں تو ہمیں جانا ہی تھا۔ وہیں مل لیں گے۔ کیوں میاں گھگو؟“ اس نےمیاں نذرو کا پھلکا اڑایا۔
    ”ہاں ہاں۔ وہیں چلےچلتےہیں۔“ میاں نذرو نےاس کی بات اَن سنی کر دی تاکہ اور زیادہ مذاق کا نشانہ نہ بننا پڑی۔تاج بی بی بھی کھڑی ہو گئی۔
    ”سکینہ۔“ اس نےکسی سوچ میں ڈوبی بیٹی کا شانہ ہلایا۔ ”تو بھی چل۔“
    ” آں ۔۔۔ہاں۔“ وہ جیسےکسی خواب سےچونکی۔”کہاں اماں؟“
    ”کہاں کھوئی ہوئی ہےدھی رانی؟ “ میاں نذرو نےپیار سےاسےمخاطب کیا۔ ”ہم بابا شاہ مقیم کےمزار پر جا رےہیں۔ حافظ عبداللہ سےبھی وہیں مل لیں گے۔“
    ”ٹھیک ہےچاچا۔ میں بھی چلتی ہوں۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ تاج بی بی نےصاف محسوس کیا کہ وہ اب بھی کسی سوچ میں ہے۔مگر کس سوچ میں؟ یہ تو شاید سکینہ کو خود بھی معلوم نہ تھا۔
    تھوڑی دیر بعد تاج بی بی‘ سکینہ‘ سلیم اور چوہدری حسن دین میاں نذرو کےشاہی تانگےمیں سوار بابا شاہ مقیم کےمزار کی طرف جا رہےتھے۔
    ٭
    دن تو جیسےتیسےگزر گیا مگر رات کا اکثر حصہ حافظ عبداللہ نےجاگ کر گزارا۔
    پچھلی رات جو کچھ اس کےساتھ پیش آیا تھا‘ وہ ایسا انہونا تھا کہ وہ اب تک خود کو خواب کی کیفیت میں محسوس کر رہا تھا۔ درویش تو ایسا اس کےخیالوں پر سوار ہوا کہ ایک پل کو وہ اس کی طرف سےدھیان ہٹاتا ‘ دوسرےپل وہ پھر آ دھمکتا۔ رہ گئی سکینہ‘ تو اس کےتصور میں آتےہی اس کےہاتھ کا زخم دل میں ٹیس سی دوڑا دیتا۔ اس کا جی چاہتا وہ آنکھیں بند کئےپڑا ”سکینہ سکینہ “ کا ورد کرتا رہے۔
    فجر کی اذان کا وقت ہو ا تو وہ آدھا جاگا آدھا سویاایک دم اٹھ بیٹھا۔ لاحول پڑھ کر جسم پر پھونک ماری اور رفع حاجت کےبعد وضو کےلئےمسجد کےچھوٹےسےوضو خانےمیں آگیا۔ مرزا امیر حسین نےاسےزخم پر پانی ڈالنےسےمنع کیا تھا۔ ویسےبھی ہاتھ میں حرکت دینےسےدرد جاگ اٹھتا تھا۔ اس نےدائیں ہاتھ کا مسح کیا اور باقی وضومکمل کر کےاذان کےلئےمسجد کی چھت پر چلا گیا۔
    اذان کےبعد دعا مانگ کر وہ نیچے آنےکےلئےسیڑھیوں کی طرف چلا تو ٹھٹک کر رک گیا۔ دور ‘ نور پور سےباہر بابا شاہ مقیم کا مزار جیسےاسےصدا دےرہا تھا۔ اس نےسوچا کہ درویش نےبھی وہاں اذان دی ہو گی۔درویش کا خیال آتےہی اس کا جی چاہاکہ وہ سب کام چھوڑ کر اس کےپاس چلا جائے۔ اس کی انوکھی‘ اسرار سےلبالب باتیں جسم میں سنسنی سی پیدا کر دیتی تھیں۔ ایک بار پھر تصور ہی تصور میں وہ کمرہ امتحان میں پہنچ گیا۔ جہاں چارپائی پر سکینہ پڑی تھی‘ دروازےمیں درویش کھڑا تھا اور وہ خود سراپا حیرت بنا درویش کی باتیں سن رہا تھا۔
    اسی وقت بڑی مدھم سی ”اللہ اکبر“ کی ندا اس کےکانوں سےٹکرائی۔ اس کا سارا جسم لرز گیا۔ درویش اذان دےرہا تھا۔ حافظ عبداللہ کا دل سینےمیں کسی پنچھی کی طرح پھڑپھڑایا اور سانس لینا دوبھر ہو گیا۔اذان ختم ہونےتک وہ آنکھیں بند کئےکھڑا کانپتا رہا۔ پھر جونہی درویش نے آخرمیں ”لا الہٰ الا اللہ“ کہا ‘ حافظ عبداللہ بید ِ مجنوں کی طرح لرزتا کانپتا چھت سےنیچےاتر آیا۔
    فجر کی نماز میں بمشکل سات آٹھ نمازی تھی‘ جن میں رفاقت بھی شامل تھا۔ نماز کےبعد وہ لوگ اس کی خیریت دریافت کرتےہوئےرخصت ہو گئی۔ اس نےکسی کو نہ بتایا کہ کل رات وہ کہاں تھا۔ بس ایک ضروری کام کا کہہ کر ٹال دیا۔ ہاتھ جلنےکےبارےمیں اس کی جگہ رفاقت نےسب کو یہ کہہ کر مطمئن کر دیا کہ جلتےچراغ پر ہاتھ جا پڑا تھا۔
    پو پھٹ رہی تھی جب رفاقت نےاس سےاجازت چاہی۔
    ”رفاقت۔ میں بابا شاہ مقیم کےمزار پر جا رہا ہوں۔ ظہر تک لوٹ آئوں گا۔ اگر مجھےدیر ہو گئی تو اذان دےدینا‘ جماعت میں خود آکےکرائوں گا۔“
    ”ٹھیک ہےحافظ صاحب لیکن آپ اتنی صبح صبح۔۔۔ ذرا دن چڑھےچلےجائیےگا۔“ رفاقت نےرواروی میں کہا۔
    ”نہیں یار۔“ حافظ عبداللہ نےسر پر ٹوپی درست کرتےہوئےجواب دیا۔ ” بس ۔ دل اکھڑ سا گیا ہی۔ وہاں جائوں گا تو سکون ملےگا۔ “
    ”جیسے آپ کی مرضی جی۔ اور ناشتہ؟“ اچانک رفاقت کو یاد آ گیا۔
    ”وہ میں کر لوں گا۔رات کا کھانا بچا پڑا ہے۔“ حافظ عبداللہ نےجلدی سےکہا۔
    ”میں ابھی دس منٹ میں لے آتا ہوں جی۔“
    ”نہیں بھئی۔ “ حافظ نےہاتھ اٹھا کر اسےحتمی طور پر روک دیا۔”میں کر لوں گا۔تم جائو۔ ابا جی کو میرا سلام دینا۔ اور ہاں۔۔۔“ وہ کہتےکہتےرک گیا۔
    ”جی حافظ صاحب۔ کچھ کہہ رہےتھے آپ؟“ جب وہ خاموش ہی رہا تو رفاقت نےجیسےاسےیاد دلایا۔
    ”کچھ نہیں۔“ حافظ عبداللہ نے آہستہ سےکہا۔”تم جائو۔“
    رفاقت اس سےمصافحہ کر کےرخصت ہو گیا۔ اب وہ اسےکیسےبتاتا کہ وہ اس سےسکینہ کا حال پوچھنا چاہتا تھا۔الفاظ اس کی زبان تک آ کر رک گئی۔ اس نےخدا کا شکر اد ا کیا کہ کوئی ایسی بات اس کی زبان سےنہ نکل گئی جس سےا س کےدل کا چور پکڑاجاتا۔ اور یہ تو شاید اسی کےدل کا چور تھا‘ سکینہ کو اس کی خبر ہو گی ‘ اسےاس بات کا قطعاً یقین نہ تھا۔
    سورج نکل آیا تھا جب وہ بابا شاہ مقیم کےمزار پر پہنچا۔ حسب معمول درویش اسےباہر کہیں دکھائی نہ دیا۔وہ مزار کےاندر چلا گیا۔ سلام کر کےبابا کےسرہانے‘ ان کےچہرےکےعین سامنےدوزانو بیٹھ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں ا ور درود شریف کےبعد ذرا بلند آواز میں سورہ محمد کی تلاوت شروع کر دی۔ سرور کی ایک نئی دنیا میں قدم رکھنےکےبعد جب اسےہوش آیا تو وہ پھر درود شریف ہی کا ورد کر رہا تھا۔ سورہ محمد کی تلاوت کےبعد اس نےدرود شریف کا ورد کب شروع کیا ‘ اسےکچھ خبر نہ تھی۔ بس یہ احساس ہو رہا تھا کہ اس کا اندر شفاف ہو گیا ہے۔ دُھل گیا ہی۔ بےتابی کا کہیں نام و نشان نہیں ہےاور سکون ہےکہ اس پر سایہ فگن ہے۔
    اس نےدعا مانگی اور آمین کہتےہوئےجب چہرےپر ہاتھ پھیرےتو پتہ چلا ‘ اس کا چہرہ اور داڑھی آنسوئوں میں تر تھی۔ سر جھکائےچند لمحےبیٹھا رہا پھر ایک طویل سانس لےکر اٹھ کھڑا ہوا۔ جھک کر مزار کا ماتھا چوما۔ سلام کیا اور الٹےپائوں باہر نکل آیا۔
    باہر قدم رکھا تو بائیں ہاتھ کھڑےدرویش نے آنکھیں کھول دیں۔
    ” آ گیا حافظ۔“ وہ اس کی طرف بڑھا۔ ” میں کب سےکھڑا تیرا انتظار کر رہا ہوں۔ “ اس نےمحبت سےاس کا ہاتھ تھام لیا۔
    ”بابا ۔۔۔ آپ۔“ حافظ نےجلدی جلدی چپل پائوں میں ڈالی اوراس کا ہاتھ دونوںہاتھوں میں لےکر چوم لیا۔
    ”اوں ہوں۔۔۔“ درویش نےسرزنش کی۔” آج کیا ہے۔ آئندہ ایسا نہیں کرنا۔ کیوں مجھےابلیس کےحوالےکرنےپر تُلاہےتو۔ “ وہ حافظ عبداللہ کو سینےسےلگاتےہوئےبولا۔ ”اسےبھی فخر اور تکبر لےڈوبا تھا۔ جس کےہاتھ پائوں چومےجائیں اسےوہ بڑی جلدی آن لیتا ہی۔ اسےسمجھاتا ہےکہ وہ دوسروں سےافضل ہی۔ اور یہ سوچ ہی وہ تازیانہ ہےجو انسان کےاندر سےعاجزی کو مار مار کر بھگا دیتی ہی۔ “
    ”بابا۔“ حافظ عبداللہ نےاسےعجیب سی نظروں سےدیکھا۔ ” میں یہیں آپ کےپاس نہ آ جائوں؟“
    ”سیانا ہےتو۔“ درویش مسکرایا۔ اس کےکندھےپر ہاتھ رکھا اور ٹبےکی طرف چل پڑا۔ ”میرےپاس کیا رکھا ہے۔ سوائےتنہائی‘ اداسی اور جلی بھنی باتوں کی۔تجھےبھری پُری جگہ پر رہنا ہے۔ پھلنا پھولنا ہے۔ یہاں آ کر کیا کرےگا ؟“
    ”بس میرا جی چاہتا ہےبابا۔ میں ہر وقت آپ کےپاس رہوں۔“ حافظ عبداللہ کےلبوں سےنکلا۔
    ”جی تو بہت سی باتوں کو چاہتا ہےحافظ۔ سبھی پوری تو نہیں ہو جاتیں۔“ درویش اس کےساتھ ٹبےپر چڑھا اور دونوں پیپل تلےبیٹھ گئے۔” تو یہ بتا ۔ اس پگلی کا کیا حال ہے؟“
    ”کس کا بابا؟“ حافظ عبداللہ کا دل زور سےدھڑکا اور نظر جھک گئی۔
    درویش نےسر نیچا کئے‘ گھاس کےتنکےتوڑتےحافظ عبداللہ کی طرف چند لمحوں تک دیکھا۔ پھر ہنس دیا۔
    ”اچھا ہے۔“ اس نےسر ہلایا۔ ” اچھا ہی‘ جو تو اسےبھول جانا چاہتا ہے۔ نیکی کو نسیان کےدریا میں ڈال دینا ہی اچھا ہی۔“
    حافظ عبداللہ نےسر اٹھایانہ درویش کی بات پر کوئی تاثر ظاہر کیا۔وہ اب ایک تنکا دانتوں میں دبا ئےخاموش بیٹھا تھا۔
    ”چل ۔اشراق پڑھ لیں۔وقت نہ نکل جائی۔“ اچانک درویش نےکہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نےحافظ کےکندھےسےچادر کھینچی اور ٹبےپر بچھا دی۔ دونوں قبلہ رخ کھڑےہوئےاور اپنےاللہ کےدربار میں حاضر ہونےکےلئےعبادت کےدروازےپر اس کی دی ہوئی توفیق سےدستک دینےلگے۔
    دن کےساڑھےنو بجےتھےجب میاں نذرو کا شاہی تانگہ بابا شاہ مقیم کےمزار کےباہر آن رکا۔ وہ سب لوگ نیچےاترےاور مزار کےاندر سلام کےلئےچلےگئے۔
    سکینہ نےاندر جاتےہوئےادھر ادھر دیکھا۔ درویش اور حافظ عبداللہ میں سےکوئی نظر نہ آیا۔ ”شاید کمرےمیں ہوں گی۔“ اس نےسوچا اور گھر والوں کےساتھ مزار کےاندر چلی گئی۔
    پھولوں کی چادر چڑھائی گئی جو میاں نذرو نےرستےمیں گائوں کےپھلیرےسےلےلی تھی۔دعا مانگی گئی۔ اللہ کا شکر ادا کیا گیا جس نےانہیں سکینہ صحیح سلامت لوٹا دی تھی۔
    سکینہ نےسر جھکایا تو اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اسےخود پر قابونہ رہا۔ نہ زبان سےکوئی لفظ نکل رہا تھا نہ دل سےکوئی دعا۔ بس اشک تھےکہ بہتےچلےجا رہےتھی۔ سسکی تک اس کےلبوں تک نہ آئی۔ چہرےکو ڈھانپتا دوپٹہ بہت بڑی ڈھال بن گیا ۔ کسی کو معلوم نہ ہوا کہ وہ اشک اشک کیوں ہو رہی ہے؟
    دعا کےبعد وہ نذرانہ مزار کےاندر دروازےکےپاس رکھےبکس میں ڈال کر باہر نکلےتو حیران ہوئے۔ سامنےبرگد کےدرخت تلےدھاری دار دو تین دریاں بچھی تھیںاور درویش ان سےکچھ دور ایک بڑےسےمسطح پتھر پر کھڑےگھٹنےبازوئوں کےکلاوےمیں لئےبیٹھاتھا۔ جبکہ میاں نذرو کا کوچوان دری کےکونےپر سر جھکائےحافظ عبداللہ کےپاس بیٹھا تھا۔ انہیں حیرت یہ تھی کہ جب وہ پہنچےتھےتو وہاں ایسی کسی چیز کا نام و نشان نہ تھا مگر اب یوں لگتا تھا کہ یہ سارا اہتمام ہی ان کےلئےکیا گیا ہے۔
    انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر درویش اپنی جگہ سےاٹھ کھڑا ہوا۔ سکینہ نےاسےدیکھا اور جیسےبھاگ کر اس کےقریب چلی گئی۔
    ” آ گئی تو۔“درویش نےاس کےسر پر ہاتھ پھیرا۔ ”جیوُن جوگئی۔ رو کیوں رہی ہے؟“ اس نے آہستہ سےکہا اور اسےساتھ لگا لیا۔ ”کیااپنا بھید سب کو بتائےگی ۔ چُپ ہو جا۔ روک لےاس نمکین پانی کو ۔ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔“
    سکینہ نےاس کےکندھےسےلگےلگےبڑےغیر محسوس انداز میں پلو سے آنکھیں خشک کر لیں اور الگ ہو گئی۔
    ” آئو جی بھاگاں والیو۔“ درویش نےان سب کو دونوں ہاتھ اٹھا کر دور سےکہا اور ساتھ ہی اپنےگھٹنےچھونےسےصاف منع کر دیا۔ اس طرح اس نےان سےمصافحہ کرنےسےبھی جان بچا لی۔
    ”بابا۔ “ چوہدری حسن دین نےاس سےدو قدم دور رک کر ہاتھ جوڑ دیے۔”ہم آپ کا اور حافظ عبداللہ کا شکریہ ادا کرنے آئےہیں۔“
    ”شکر ادا کراس کا چوہدری۔جس نےیہ سارا کھیل رچایا ہے۔“ درویش نے آسمان کی جانب انگلی اٹھا دی۔” میں نےکیا ہی کچھ نہیں تو شکریہ کس بات کا قبول کروں۔ باقی رہا حافظ‘ تو وہ بیٹھا ہے۔ وہ جانےاور تم جانو۔ تم جتنا چاہو اسےشرمندہ کر لو۔“
    ”نہیں بابا۔ شرمندہ کیوں کریں گےہم اسی؟ ہم تو اس کےاحسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے۔ ہماری بیٹی کی جان بچا کر اس نےہمیں خرید لیا ہے۔“ میاں نذرو نےممنونیت سےکہا۔
    ”تو کیا کہتا ہےمیاں؟“ درویش نےسلیم کا رخ کیاجو کبھی اسےاور کبھی حافظ عبداللہ کو دیکھ رہا تھا۔
    ”میں ۔۔۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں جی۔ میرےلئےتو وہ دنیا کا سب سےعظیم انسان ہےجس نےمیری بہن کو مرنےسےبچا لیا۔“
    ”بس۔“ اچانک درویش بھڑک اٹھا۔ ”مرنےسےتیری بہن کو میرےاللہ نےبچایا ہے‘ حافظ عبداللہ کون ہوتا ہےاسےبچانےوالا۔ تم لوگ شرکیہ الفاظ زبان سےنکالتےہوئےذرا نہیں سوچتے۔“
    ”معافی چاہتا ہوں بابا۔“ سلیم سہم سا گیا۔ ”میرا یہ مطلب نہیں تھا۔“
    ”پتہ ہے۔ پتہ ہے۔“ درویش ایک دم ٹھنڈا ہو گیا اور بیزاری سےبولا۔ ”شرک کی نیت نہیں ہوتی‘ اسی لئےبچ جاتےہو تم لوگ۔پھر بھی بولنےسےپہلےسوچا کرو۔ سوچا کرو کہ تم کیا کہہ رہےہو ۔“
    ”جی بابا۔“ سلیم کےساتھ ساتھ دوسرےلوگ بھی متاثر نظر آ رہےتھے۔
    ”لےبھئی حافظ۔ بابا شاہ مقیم نےتیرےمہمان بھیجےہیں۔ ان سےباتیں کر۔ میں ان کےلئےتبرک لے آوں۔“ درویش نےوہیں سےکہا اور سکینہ کےسر پر پیار دےکر پلٹ گیا۔
    وہ سب لوگ حافظ عبداللہ کی طرف چل پڑےجو اپنی جگہ سےکھڑا ہو گیا تھا۔میاں نذرو‘ سلیم اور چوہدری حسن دین نےاس سےبڑی گرمجوشی سےمصافحہ کیا۔ اس کا حال چال پوچھا۔ تاج بی بی نےاس کےسر پر پیار سےہاتھ پھیرا اور ڈھیروں دعائیں دےڈالیں۔سکینہ ‘ ماں کےعقب میں سر جھکائےکھڑی کنکھیوں سےبار بار حافظ عبداللہ کےپٹی میں ملفوف ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ سب اس کےپاس ہی دری پر بیٹھ گئے۔
    ”حافظ صاحب۔ ہم آپ کا شکریہ ادا کر کےاس نیکی کا درجہ نہیں گھٹانا چاہتےجو آپ نےسکینہ ہمیں زندہ سلامت لوٹا کر ہمارےساتھ کی ہی۔“ سلیم نےحافظ عبداللہ کا بایاں ہاتھ بڑی محبت سےتھام کر کہا۔”میں سکینہ کا بھائی ہوں جی۔ زندگی میں کبھی میری جان کی ضرورت بھی پڑ جائےتو مانگ لینا ۔ رب کی قسم۔ انکار کروں تو کافر ہو کر مروں جی۔“
    ”کیسی باتیں کر رہےہیں آپ۔“ حافظ عبداللہ نےگھبرا کر ہاتھ کھینچ لیا۔ ”میں نےکیا کیا ہے۔ یہ تو میرےسوہنےاللہ کا کرم ہےکہ سکینہ بی بی کی جان بچ گئی۔ میں تو ایک حیلہ بن گیا اور بس۔ میں نہ ہوتا تو کوئی اور ہوتا میری جگہ۔ سکینہ بی بی پھر بھی بچ جاتیں۔“
    ”سچ ہےبیٹا۔ “ میاں نذرو نےسر ہلا کر کہا۔ ” مگر اب تو تم ہی ہمارےلتےاس نیکی کا سبب بنےہو ناں۔ زبان سےتمہارےشکریےکےالفاظ ادا کر نےسےدل کو ذرا تسلی ہو جائےگی۔ باقی اس نیکی کا نہ کوئی بدل ہےنہ انعام۔“
    ”بس کرو یار اَب۔“ ایک دم چوہدری حسن دین بول پڑا۔ ”تم تو اپنےشکریےکےبوجھ تلےمیرےحافظ صاحب کاسانس روک دو گے۔ بس اب مزید کچھ کہنےکی ضرورت نہیں۔“ اس نےحافظ عبداللہ کو مزید مشکل میں پڑنےسےبچا لیا۔
    ”پھر بھی ابا جی۔ ہمیں حافظ صاحب کےلئےکچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ زبانی جمع خرچ سےکیا فائدہ۔“ سلیم نےباپ کی طرف دیکھا۔
    ”کیا کریں پتر۔ تو بتا ؟“ میاں نذرو بیٹےکی طرف متوجہ ہوا۔
    ”دیکھئے۔ آپ لوگوں نےمیرا شکریہ ادا کر لیا۔ اس سےزیادہ کچھ کرنےکےبارےمیں آپ لوگ سوچیں بھی مت۔ اس سےمجھےتکلیف ہو گی۔“ حافظ عبداللہ نےان کی نیت بھانپ کر جلدی سےکہا۔اسی وقت اس کی نگاہ سکینہ پر پڑی جو اسےبڑی عجیب سی نظروں سےدیکھ رہی تھی۔ اس نےفوراً ہی چہرہ دوسری جانب پھیر لیا۔
    ”اماں۔ میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔“ اچانک سکینہ نےزبان کھولی تو سب لوگ چونک پڑی۔ اس کےوجود سےتو وہ جیسےبےخبر ہی ہو گئےتھے۔
    ”ہاں ہاں بیٹی۔ تو کہہ۔“ تاج بی بی کےساتھ میاں نذرو بھی بول اٹھا۔” شاید تیری ہی بات کچھ ایسی ہو کہ ہمارےدل اطمینان پا سکیں۔“
    ”رک جا ئوبیٹی۔“ چوہدری حسن دین نےہاتھ اٹھا کر اسےروک دیا۔ ”ادھر آ۔ پہلےچاچا بھتیجی صلاح کر لیتےہیں ۔ پھر انہیں بتائیں گے۔ آ جا۔“ وہ دری سےاٹھا اور جوتےپہننےلگا۔
    سکینہ نےایک پل کو کچھ سوچا۔ ایک نگاہ بھر حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا ۔لگتا تھا وہ اسےکچھ بھی کہنےسےروکنا چاہتا ہےمگر پھر نجانےکیوں اس نےسکینہ سےنظر ملتےہی نچلا ہونٹ دانتوں میں داب کر سر جھکا لیا۔سکینہ ‘ چوہدری حسن دین کےساتھ ان لوگوں سےتیس پینتیس قدم دور کھیتوں کےکنارےچلی آئی۔
    ”اب بتا بیٹی۔ کیا کہنا چاہتی ہےتو؟“ چوہدری حسن دین یوں کھڑا ہو گیا کہ اس کا رخ باقی لوگوں کی طرف تھا اور سکینہ کی پشت۔
    ”چاچا۔“ سکینہ نےزبان پھیر کر اپنےہونٹوں کو تر کیا۔” میں ۔۔۔میں۔۔۔“ اس نےنظر جھکا لی۔
    ”دیکھ بیٹی۔ بات تو حافظ عبداللہ کا شکریہ ادا کرنےکی ہی۔ وہ اسےروپیہ پیسہ‘ مکان وغیرہ دےکر ادا کیا جاسکتا ہے۔ اب تیرےذہن میں کیا ہی‘ تو وہ بتا دی۔“
    ”کسی کی جان بچانےکی قیمت کیا یہی کچھ ہےچاچا؟“ سکینہ نےاس کی جانب دیکھا۔
    ”نہیں۔“ خلاف معمول چوہدری حسن دین اس وقت بالکل سنجیدہ تھا۔”مگر ہم اس کےسوا اور کر بھی کیا سکتےہیں بیٹی؟“
    ”جان میری بچائی ہےاس نےچاچا۔ تو کیا اس کا شکریہ ادا کرنےکا موقع مجھےنہیں ملنا چاہئے؟“ اچانک سکینہ نےجیسےحوصلہ پکڑ لیا۔
    ”بالکل ملنا چاہئےبیٹی۔ “ چوہدری حسن دین نےاس کی آنکھوں میں بڑےغور سےدیکھ کر کہا اور اس بار سکینہ نےنظر نہ جھکائی بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی رہی۔”تو بتا۔ کیا کرنا چاہتی ہےتو؟“
    اور جواب میں اس نےجو کہااسےسن کر چوہدری حسن دین کےپائوں تلےسےزمین سرک گئی۔اس نےجیسےلڑکھڑانےسےبچنےکےلئےدونوں ہاتھ سکینہ کےشانوں پر رکھ لئے۔ اس کا رنگ فق ہو گیا اور دل سینےمیں دھڑکنا بھول گیا ۔
    ”ہاں چاچا۔“ سکینہ نےپُرسکون لہجےمیں کہا۔”یہی میرا شکریہ ہےحافظ عبداللہ کےحضور۔“
    ”مگر کیوں بیٹی؟ اتنا بڑا فیصلہ۔۔۔“
    ”میں نےیہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کیا ہےچاچا۔ نہ یہ اچانک ہےاور نہ کسی دبائو کےتحت۔ یہ حتمی ہے۔ اس میں کوئی لچک ممکن نہیں۔“ اس نےچوہدری حسن دین کی بات کاٹ دی۔
    اس کی آواز میں نجانےکیا تھا کہ چوہدری حسن دین کا سانس سینےمیں رک سا گیا۔ اس نےپلکیں زور سےجھپک کر نظر میں اڑتی دھول صاف کرنےکی کوشش کی ۔ پھر آہستہ سےسکینہ کےکندھوں سےہاتھ ہٹا لئے۔
    ”سکینہ بیٹی۔ میں تجھےوہاں ‘ ان لوگوں کےپاس سےیونہی اٹھا کر نہیں لے آیا تھا۔ جب سےہم یہاں آئےہیں‘ میں محسوس کر رہا تھا کہ تو حافظ عبداللہ کو بار بار کنکھیوں سےدیکھ رہی ہے۔میری بات کا برا نہ منانا۔ میں نےاس بات کو اچھا نہ سمجھا اور دل میں بدگمانی کا شکار بھی ہوا‘ کیونکہ حافظ عبداللہ کی میرےدل میں بڑی عزت ہے۔ وہ میرےبچوں کا استاد ہے۔ اس کی شرم مارتی ہےمجھی۔جب تو نےکہا کہ تو حافظ عبداللہ کےلئےکچھ کہنا چاہتی ہےتو میں یہ سوچ کر تجھےوہاں سےاٹھا لایا کہ تو نادانی میں کوئی ایسی بات زبان سےنہ نکال دےجسےبھگتنا ہمارےلئےمشکل ہو جائےمگر مجھےیہ اندازہ قطعی نہیں تھا کہ تو اتنی بڑی بولی لگا دےگی اپنی جان بچانےکی۔ ابھی تک میں یہ بھی نہیں جان پایا کہ تو نےیہ فیصلہ کیوں کیا؟“
    ”وہ میں سب کےسامنےبتائوں گی چاچا۔“ سکینہ نےپُرسکون لہجےمیں کہا۔
    ”سب کےسامنے؟“ چوہدری حسن دین چونکا۔ ”مگر کیوں؟ دیکھ بیٹی۔ مجھےیہیں بتا دےتاکہ میں وہاں بات کو سنبھال سکوں۔“
    ”ایسی کوئی بات نہیں ہےچاچا‘ جس کےلئےمجھےکسی کی سفارش کی ضرورت پڑی۔ بات بالکل صاف‘ سیدھی اور سچی ہےجو میں سب کو ایک ساتھ بتاناچاہتی ہوں۔“
    ”بیٹی۔۔۔“ چوہدری حسن دین نےکہنا چاہا۔
    ”بس چاچا۔ اور کچھ نہیں۔“ سکینہ نےجیسےبات ختم کر دی۔ ” آئیےچلیں۔ سب لوگ نجانےکیا کیا سوچ رہےہوں گے۔“ وہ سر جھکائے آہستہ سےپلٹی۔ چوہدری حسن دین نےاسےروکنا چاہا‘ مگر وہ قدم اٹھا چکی تھی۔ بیچارگی سےہونٹ کاٹتےاور دماغ میں اٹھتےبگولوں سےدامن بچانےکی کوشش کرتےہوئےوہ بھی اس کےپیچھےچل پڑا۔ آنےوالےلمحات میں کیا طوفان جنم لینےوالا تھا‘ اس کا احساس اسےبخوبی ہو رہا تھا۔
    سکینہ لوٹی اور سر جھکائےاس طرح آ کر دری پر بیٹھ گئی کہ اب اس کےسب لوگ اس کےسامنےاور حافظ عبداللہ کچھ فاصلےپر بائیں ہاتھ پر تھا۔ چوہدری حسن دین لمبےلمبےڈگ بھرتا آیا اور سکینہ کےساتھ بیٹھ گیا۔ سب حیران تھےکہ سکینہ ان کےپاس بیٹھنےکےبجائےان کےسامنےکیوں آ بیٹھی ہے؟ درویش ابھی تک نہ لوٹا تھا۔
    التحیات پر جیسےعورتیں بیٹھتی ہیں‘ اس انداز میں بیٹھ کر سکینہ نےبائیں ہتھیلی زمین پر بچھا کر جسم کا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا اور دوپٹہ سر پر ٹھیک کر لیا۔
    ”چاچا۔ آپ بات کریں گےیا میں بولوں؟“ اس نےاپنےساتھ بیٹھےچوہدری حسن دین سے آہستہ آواز میں پوچھا‘ جس کی ساری شگفتگی ہوا ہو چکی تھی۔
    ”نہیں۔ تم ابھی خاموش رہو۔“ چوہدری حسن دین نےبھی آہستہ سےجواب دیا اور کھنکار کر گلا صاف کیا۔
    سب لوگ انہیں اشتیاق بھری نظروں سےدیکھ رہےتھی۔ آخر میاں نذرو رہ نہ سکا اور بول پڑا۔”کیا بات ہوئی بھئی تم چاچےبھتیجی میں۔ اب بتا بھی دو ۔ کیوں ہمارا ضبط آزما رہےہو۔“
    ”میاں ۔ “ چوہدری حسن دین نےبجھی بجھی نظروں سےاس کی جانب دیکھا۔ ”سکینہ بیٹی۔۔۔“ وہ رک گیا۔ اس کا حوصلہ نہ پڑ رہا تھا کہ بات ایک دم سےزبان سےنکال دی۔
    ”سکینہ بیٹی۔“ اس نےخشک لبوں پر زبان پھیری۔ ” وہ چاہتی ہےکہ ۔۔۔“
    ”ارےبابا۔ کیوں تیرا پیشاب خطا ہو رہا ہی۔ کہہ دےجلدی سے۔ میرا دل تو ہول کھانےلگا ہےکہ نجانےکیا بات کہنےوالا ہےتو؟“ میاں نذرو کی بیتابی شدید ہو گئی۔
    ” تو سن میاں۔ “ چوہدری حسن دین نےسر جھٹک کر کہا۔ اس نےسوچ لیا کہ اب جو ہو سو ہو‘ اسےبات کر دینی چاہئے۔ ” مگر میری بات سننےسےپہلےیہ جان لےکہ اگر بات تم لوگوں کی عقل اور سمجھ سےاوپر کی ہوئی تو فوری طور پر کوئی جوابی اقدام کرنےسےگریز کرنا۔ بات اتنی ہی نازک ہےکہ میں بھی بڑی مشکل سےسمجھ پایا ہوں۔“
    سب لوگوں کےکان کھڑےہو گئی۔ حافظ عبداللہ نےگھبرا کر سکینہ اور چوہدری حسن دین کی جانب دیکھا۔ سکینہ تو سر جھکائےبیٹھی تھی اور چوہدری حسن دین نےاس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ضرور مگر وہاں اس کےلئےکوئی پیغام تھا نہ تسلی۔
    ”سکینہ بیٹی چاہتی ہےکہ اس کی شادی حافظ عبداللہ سےکر دی جائے۔“
    چوہدری حسن دین کےالفاظ تھےیا بجلی کا کڑاکا۔ انہیں یوں لگا جیسےان کی سماعتیں انہیں دھوکا دےرہی ہوں۔ وہ کچھ اور سننا چاہتےتھےمگر سنائی کچھ اور دےرہا تھا۔
    ”کیا کہہ رہےہو چوہدری؟“ میاں نذرو ایک دم ہتھےسےاکھڑ گیا۔ اس نےگھور کر حافظ عبداللہ کی جانب دیکھا جو اپنی جگہ پر دم بخود بیٹھا تھا۔ اسےخود سمجھ نہ آ رہی تھی کہ اس نےجو سنا وہ غلط تھا ‘ یا جو سکینہ کی نظریں کہہ رہی تھیں ‘ وہ سچ تھا۔ سکینہ نےاسےایک بار بھرپور نگاہوں سےدیکھا ‘ پھر سر جھکا لیا۔
    ”میں درست کہہ رہا ہوں۔ مجھ سےسکینہ بیٹی نےیہی کہا ہے۔“ چوہدری حسن دین نےسنبھالا لیا۔ ” اور میاں۔ میں پہلےبھی کہہ چکا ہوں کہ تمہیں بات کی باریکی کو سمجھنےسےپہلےکوئی بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔“
    ”اور بات کی باریکی کو سمجھا کیسےجائےگا چاچا؟“ اچانک سلیم کی زہریلی آواز ابھری۔ وہ اپنےغصےکو ضبط کی لگام دینےکی کوشش کر رہا تھا۔
    ”سکینہ بیٹی کی بات سن کر۔ اس نےیہ فیصلہ کیوں کیا؟ یہ جاننےکےبعد ہی ہم کسی نتیجےپر پہنچ سکتےہیں کہ ہمیں اس کی بات ماننا چاہئےیا نہیں؟“
    ”مگر بھائی صاحب۔ یہ کیسےممکن ہے؟“ تاج بی بی کی کمزور سی آواز ابھری۔ اسےسکینہ سےایسےاقدام کی امید ہی نہ تھی۔ ویسےبھی وہ اپنےدیور کےرحم و کرم پر تھی۔ اسےزندگی کی ہرسہولت ضرور میسرتھی مگر ہر فیصلےکا اختیار صرف میاں نذرو کےپاس تھا۔ اب اسےیہ خوف ستا رہا تھا کہ سکینہ کی اس بات کےرد عمل کےطور پر ان ماں بیٹیوں کےساتھ جوسلوک ہو گا‘ اس کی ابتدا کس ستم سےہو گی۔
    ”ممکن اور ناممکن کا فیصلہ کرنےسےپہلےاگر آپ لوگ مجھےکچھ کہنےکا موقع دیں تو شاید میں آپ کو سمجھا سکوں۔“ سکینہ نےبڑی مشکل سےبوجھل پلکیں اٹھائیں اور حافظ عبداللہ کی جانب دیکھاجس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔نہ پائےماندن نہ جائےرفتن کےمصداق وہ اپنی جگہ جیسےگڑ کر رہ گیا تھا۔
    ” پہلی بات یہ ہےکہ میں نےیہ فیصلہ اپنی ذات میں رہ کر‘ اپنےطور پر کیا ہے۔ اس میں حافظ صاحب کا کوئی دخل نہیں ہے‘ اس لئےانہیں کسی بھی طرح قصوروار نہ سمجھا جائے۔“
    ”اور دوسری بات؟“ شعلہ بار انداز میں سلیم نےاسےگھورتےہوئےپوچھا۔
    ”دوسری بات یہ کہ میرےاس فیصلےکی‘ ایک عورت ہونےکےناطے‘ میرےپاس بڑی معقول وجہ موجود ہے۔“
    ”وہ بھی کہہ ڈالو۔“ سلیم کا لہجہ اب بھی بڑا تلخ تھا۔
    ”ایک عورت کےلئےسب سےمحترم وہ مرد ہوتا ہےجو سب سےپہلےاس کےجسم کو چھوتا ہے۔“
    ”کیا مطلب؟“ ایک دم سلیم اور میاں نذرو کےہونٹوں سےنکلا اور وہ آگ بگولہ ہو گئی۔ ان کےنظروں کا ہدف حافظ عبداللہ بنا مگر اس سےپہلےکہ وہ کچھ اور کہتے‘ سکینہ کی آواز نےانہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
    ”میری بات کا غلط مطلب نہ لو سلیم بھائی۔ مجھےاپنی بات پوری کرنےدو۔“
    ”یہ ٹھیک کہہ رہی ہےسلیم۔“ چوہدری حسن دین نےدونوں باپ بیٹےکو تنبیہ کرنےکےانداز میں کہا۔”اس کی بات پوری سن تو لو۔“
    ”سننےکےلئےرہا کیا ہےاب چاچا۔ سب کچھ تو صاف ہو گیا ہے۔“ سلیم بھڑکا۔
    ”کچھ صاف نہیں ہوا ۔ کچھ نہیں سنا ابھی تم نے۔“ سکینہ کی آواز بلند ہو گئی۔ ” مجھےبات پوری کر نےدو۔غصہ نکالنےکےلئےتمہیں بہت وقت مل جائےگا۔ “
    سلیم اور میاں نذرو نےاسےبڑی کڑی نظروں سےدیکھتےہوئےبادل نخواستہ خاموشی اختیار کر لی اور حافظ عبداللہ نےایک بار پھر امید بھری نظروں سےبابا شاہ مقیم کےمزار کی جانب دیکھا۔ ابھی تک درویش باہر نہیں آیا تھا۔ اس کےہوتےشاید حالات وہ خراب رخ اختیار نہ کرتے‘ جس کی طرف وہ اب جا رہےتھے۔
    ”مجھےجب سیلاب سےحافظ صاحب نےنکالا تویہ شام کےقریب کا وقت تھا اور میں اس وقت بیہوش تھی۔ میرےکپڑےجگہ جگہ سےپھٹ چکےتھی۔ وہ مجھےچادر میں لپیٹ کر اپنےکندھےپر اٹھا کر اس کمرےمیں لےگئےاور چارپائی پر ڈال دیا۔“ سکینہ نےاس کمرےکی طرف ہاتھ سےاشارہ کیا جس میں اس نےرات گزاری تھی۔ سب نےپلٹ کر اس جانب دیکھا اور پھر اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ وہ کہہ رہی تھی۔
    ”میں جب ہوش میں آئی تو وہ نماز پڑھ رہےتھے۔ مجھےبتایا کہ میں بابا شاہ مقیم کےمزار پر ہوں۔ مجھےکھانےکو روٹی دےکر وہ دوسرےکمرےمیں چلےگئےاور قر آن پاک کی تلاوت میں محو ہو گئے۔”میرےساتھ میرا اللہ موجود ہے۔‘ ‘یہ بات مجھےبےخوف کرنےکےلئےحافظ صاحب نےکہی تھی‘ مگر ایک اجنبی جوان مرد کےساتھ انجان جگہ پر موجود ہونےکا احساس مجھےپلک نہ جھپکنےدیتا تھا۔ میرا جسم پانی کےتھپیڑےکھا کھا کر چور ہو چکا تھا ۔ میں تھکن سےبےحال تھی۔ سو جانا چاہتی تھی۔ جاگ جاگ کر جب حواس میرا ساتھ چھوڑنےلگےتو میں نےکمرہ اندر سےبند کیا اور لیٹ گئی۔ تب ‘ حافظ صاحب چپکےسے آئے۔ مجھےسوتا دیکھ کر چند لمحےکھڑےرہےپھر لوٹ گئے۔ میں نےان کےجانےکےبعد اٹھ کر کھڑکی کی درز سےدیکھا۔ وہ بےتابی سےکمرےمیں ٹہل رہےتھے۔ شاید وہ بھی اسی کیفیت کا شکار تھےجو مجھےنہ سونےدےرہی تھی۔ میں گھبرا گئی اور اپنےاللہ سےرو رو کر مدد مانگنےلگی۔“
    سکینہ رکی۔ اس نےسر جھکائےبیٹھےحافظ عبداللہ پر ڈالی۔ پھر میاں نذرو‘ سلیم اور اپنی ماں کی جانب دیکھا‘ جو خاموشی سےاس کی بات سن رہےتھی۔ ان کی حالت میں ایک ٹھہرائو تو آیا تھا مگر ماتھےاب بھی شکن آلود تھی۔
    ”کافی دیر بعد میں نےدوبارہ ڈرتےڈرتےکھڑکی کی درز سےجھانک کر دیکھا اور میرا سانس رک گیا۔ میرےحواس میرا ساتھ چھوڑ گئے۔ جب صورحال میری سمجھ میں آئی تو مجھےلگا ‘ میں کسی اور ہی دنیا میں ہوں۔ حافظ صاحب مجھےاس دنیا کےفرد نہ لگے۔ میں ان کےسامنےخود کو حقیر ترین محسوس ہوئی۔ آپ جانتےہیں ‘ میں نےکیا دیکھا؟“
    سکینہ نےبات روک کر دھندلائی ہوئی نظروں سےان سب کو باری باری دیکھا۔ وہ سب اس کی بات مکمل ہونےکےانتظار میں اسی کی طرف دیکھ رہےتھی۔کوئی جواب دیتا بھی تو کیا‘ خود چوہدری حسن دین تک تو حیرت میں گم یہ قصہ عجب شب سن رہا تھا۔
    ”میں نےدیکھا۔“ سکینہ کی آواز بھیگتی چلی گئی۔ ” حافظ صاحب تلاوت میں اس طرح منہمک ہیں کہ انہیں یہ تک ہوش نہیں کہ شیطان کو اپنےخیالوں سے‘ اپنی سوچوں سےنکال پھینکنےکےلئےانہوں نےاپنا جو ہاتھ جلتےچراغ کی لو پر رکھا تھا‘ وہ خشک لکڑی کی طرح آگ پکڑ چکا ہی۔جل رہا ہے۔ پگھل رہا ہے۔ میں بھاگی۔ ان کےکمرےمیں پہنچی۔ ان کےقریب پہنچی تو درویش بابا نےمزار کےباہر اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔ میں نےحافظ صاحب کا ہاتھ جلتےچراغ سےہٹایا۔ وہ سر سےپائوں تک پسینےمیں ڈوبےہوئےتھے۔درد اور تکلیف کا احساس انہیں تب ہوا جب میں نےان کا ہاتھ کمبل کےپلو میں لپیٹا اور انہوں نےمجھےدیکھا۔ ایک کراہ کےساتھ وہ غش کھا گئے۔ اسی وقت درویش بابا اذان ختم کر کےاندر آئےاور انہوں نےحافظ صاحب کو لےجا کر اسی چارپائی پر ڈال دیا جس پر ساری رات میں کروٹیں بدلتی رہی تھی۔ یہ ہاتھ۔۔۔“ سکینہ نےسسکی لی اور حافظ عبداللہ کےجلےہوئےہاتھ کی جانب اشارہ کیا۔” خود بخود جلتےہوئےچراغ پر نہیں جا پڑا تھا۔ حافظ صاحب نےاسےخود آگ کےحوالےکر دیا تھا‘ تاکہ ان کےخیالوں میں بار بار نقب لگاتا شیطان جل کر خاک ہو جائے۔ درد اور اذیت کی جس منزل سےوہ گزرےہیں ‘ میں اور آپ اس کےبارےمیں سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔اور یہ سب انہوں نےصرف اس لئےکیا کہ ان کا دھیان میری طرف سےہٹا رہے۔ میں ان کی نفسانی گمراہی سےمحفوظ رہوں ۔ سکینہ کی عزت بچی رہے۔ سکینہ اپنےپچھلوں تک پہنچےتو اس کا دامن پاک ہو۔ “وہ ہونٹ کاٹتےہوئےاپنی لرزتی آواز پر قابو پانےکی کوشش کرنےلگی۔ آنسو بہنےکا اسےکوئی ہوش نہ تھا۔
    چوہدری حسن دین بُت بنا سب کچھ سن رہا تھا تو باقی لوگوں کا حال بھی اس سےمختلف نہ تھا۔ان کےاذہان میں آندھیاں چل رہی تھیں۔وہ سب کچھ سن رہےتھےاور تصور میں فلم سی چلتی دیکھ رہےتھے۔
    ”ایک جوان لڑکی کو اپنےنفس کی بھینٹ چڑھنےسےبچانےکےلئےحافظ صاحب نےخود کو جس امتحا ن میں ڈالا‘ کیا وہ کسی عام انسان کےبس کی بات ہے؟“ سکینہ نےچند لمحوں کےبعد آنکھیں خشک کرتےہوئےان سب سےسوال کیا۔ ” ان کا ہاتھ زندگی بھر کےلئےناکارہ ہو گیا۔ ایک دن میری شادی ہونا ہی ہے۔ جس طرح ہر لڑکی چاہتی ہےکہ اس کا ہونےوالا شوہر خوبصورت ہو۔ خوبیوں میں ایسا ہو کہ دوسری لڑکیاں اس پر رشک کریں۔اسی طرح میں بھی اپنےلئےایسا ہی شوہر چاہتی ہوں۔ ۔۔لیکن کیا مجھےحافظ صاحب جیسا مرد ملےگا؟ ایسا مرد جس نےاپنےنفس کو پچھاڑ کر ثابت کر دیا کہ مردانگی عزت لوٹنےکا نام نہیں‘ عزت کی حفاظت کرنےکا نام ہے۔میرےجسم کو صرف ایک غیر مرد نےاب تک چھوا اور وہ حافظ صاحب ہیں۔ انہوںنےجن حالات میں مجھےمس کیا‘ وہ ان کی مجبوری تھی لیکن انہوں نےمیری مجبوری سےکوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ میرا جسم میرےشوہر کی امانت ہے۔ میں چاہتی ہوں ‘ چار کلمےپڑھ کر جس انسان کو میرےجسم کا مالک بننا ہے‘ وہ وہی ہو جس نےپہلی اور آخری بار میرےجسم کو چُھوا اور اس میں اس کی بدنیتی کو کوئی دخل نہ تھا۔۔۔ہاں مگر اس کےلئےمیں حافظ صاحب کی رضا کی مکمل پابند ہوں۔ اگر وہ نہیں چاہتےتو میں انہیں اس کےلئےمجبور نہیں کروں گی کہ وہ مجھ سےشادی کےلئےہاں کریں۔“
    سکینہ خاموش ہو گئی۔
    چوہدری حسن دین نےہاتھ بڑھایااور اسےبازو کےکلاوےمیں لےکر اس کا ماتھا چوم لیا۔ وہ سسکتی ہوئی اس کےسینےسےلگ گئی۔
    سب لوگ سر جھکائےبیٹھےتھی۔ انہیں فیصلہ کرنےمیں دقت ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ یہ کوئی گڈےگڑیا کا بیاہ نہیں تھا جس کےلئےبغیر سوچےسمجھےہاں کر دی جاتی۔ حافظ عبداللہ نےایک بار پھر مزار کی طرف نظر اٹھائی اور یہ دیکھ کر چونکا کہ مزار کےبجائےدرویش گاؤں کی طرف سے آنےوالےرستےپر چلا آ رہا تھا۔ اس کےسر پر مٹھائی کی ٹوکری تھی جسےوہ ایک ہاتھ سےسنبھالےہوئےتھا۔
    اسے آتا دیکھ کر حافظ عبداللہ نےبڑا حوصلہ محسوس کیا۔ درویش نےچوہدری حسن دین کےقریب پہنچ کر مٹھائی کی ٹوکری اسےتھما دی۔
    ”بابا۔ یہ کیا ہے؟“ وہ حیرت سےبولا۔
    ”بابےشاہ مقیم کی طرف سےتبرک بھی ہےاور منہ میٹھا کرنےکےلئےمبارک بھی۔“ درویش نےدھیرےسےکہا۔پھر باقی لوگوں کی طرف متوجہ ہوا جو اس کےاحترام میں کھڑےہو گئےتھے۔
    ”بیٹھو بیٹھو اللہ والیو۔ کھڑےکیوں ہو گئے۔ بیٹھ جاؤ۔ لگتا ہےابھی بات تم لوگوں کےحلق سےنہیں اتری۔میرےحافظ کو تول رہےہو ابھی۔ “ وہ رکا تو حافظ عبداللہ اٹھا اور تیزی سےچلتا ہوا اس کےپاس آ کھڑا ہوا۔ سکینہ اب درویش کےدائیں اور حافظ عبداللہ بائیں طرف تھا۔ باقی سب لوگ اس کےسامنےتھے۔حافظ عبداللہ نےکچھ کہنا چاہا مگر درویش نےاسےہاتھ اٹھا کر خاموش کرا دیا۔ اس کےبیٹھنےپر سب لوگ پھر اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے
    ”ہاں۔ تو ابھی تک حافظ کا تول پورا نہیں ہوا۔ یہی بات ہےناں؟“ درویش نےمیاں نذرو اور سلیم کی طرف دیکھا۔
    ”بات یہ ہےبابا۔۔۔ “ میاں نذرو نےزبان کھولی۔
    ”حافظ عبداللہ کا رنگ سانولا ہے۔ چہرہ مہرہ بھی واجبی سا ہے۔ مال دولت پلےہےنہیں۔ مسجد کےحجرےمیں رہتا ہے۔ آگےپیچھےرونےوالا بھی کوئی نہیں۔سکینہ جیسی پڑھی لکھی‘ خوبصورت‘ اچھےاور اونچےگھرانےکی لڑکی کےقابل نہیں ہےوہ۔ یہی بات ہےناں میاں ؟“ درویش نےمیاں نذرو کی بولتی بند کر دے۔”مگر اس سےشادی کا فیصلہ تو سکینہ نےکیا ہے۔ وہ بالغ ہے۔ اپنی پسند کا نکاح کر سکتی ہے۔ پھر تم لوگوں کو کیا اعتراض ہےاس پر؟“
    ”اعتراض ہےبھی اور نہیں بھی بابا۔“ اس بار سلیم نےکہا۔
    ”جو میں نےگِنوائےہیں‘ ان کےعلاوہ کوئی اور اعتراض ہو تو کہو۔“ درویش نےاسےمسکراتی ہوئی نظروں سےدیکھا۔
    ”لڑکی کی ماں سےبھی تو پوچھ لینا چاہئے۔“
    ”ہاں۔ یہ جائز بات ہے۔“ درویش نےتاج بی بی کا رخ کیا۔ ”تو بول۔ توکیا کہتی ہےبی بی۔ تجھےکیا اعتراض ہےاس انہونی پر؟“
    ”مجھے؟“ تاج بی بی نےگھبرا کر میاں نذرو اور پھر سلیم کی طرف دیکھا جو اسےسرد سی نظروں سےتک رہےتھے۔”مجھےکیا اعتراض ہو گا باباجی۔ جو فیصلہ کرنا ہےسکینہ کےچا چا اور سلیم پتر نےکرنا ہے۔“
    ”مطلب یہ ہےکہ تجھےاس نکاح پر کوئی اعتراض تو نہیں ناں؟“
    ”میں کیا کہہ سکتی ہوں جی؟“ تاج بی بی نےبیچارگی سےکہا اور سر جھکا لیا۔
    ”ہاں۔ تو کیا کہےگی بیچاریی۔ تیری زبان پر تو بیوگی نےتالا ڈال رکھا ہے۔ بولےگی تو بےگھر ہو جائےگی اس عمر میں۔ اپنا کیا ہےتیرےپاس‘ سوائےسکینہ کے۔۔“ درویش نےطنز بھری نگاہوں سےمیاں نذرو اور سلیم کی جانب دیکھا جنہوں نےسر جھکا لئےتھے۔
    ” آپ ہماری مجبوری کو سمجھنےکی کوشش کریں بابا۔“ سلیم نے آہستہ سےکہا۔ ”لوگ کیا کہیں گے۔ برادری کیا کیا باتیں نہ بنائےگی؟ہم کس کس کا منہ بند کرتےپھریں گے۔“
    ”باقی سب کی فکر چھوڑ۔صرف اپنا منہ بند کر لے۔ “ درویش نےاس کی جانب انگلی اٹھائی۔ ”تو نہ چاہےگا تب بھی یہ نکاح تو ہو گا۔“
    ”کوئی زبردستی ہے؟“ سلیم ہتھےسےاکھڑ گیا۔
    ”نہیں۔“ درویش مسکرایا۔ ”زبردستی نہیں۔ فیصلہ ہےاس کا۔“ اس نے آسمان کی جانب دیکھا۔ ” اور اس کےفیصلےتیرےمیرےچاہنےسےنہیں بدلتے۔ تو زور لگا کر دیکھ لے۔ ہو گا وہی جو اس کی مرضی ہے۔“
    ”ابا۔ اٹھ جا۔ چلیں اب۔ بہت ہو گئی۔چل تائی۔ سکینہ کو ساتھ لےاور گھر چل۔“ سلیم نےاچانک اپنی جگہ چھوڑ دی۔
    میاں نذرو نےاس کی جانب دیکھا ۔ پھردوپٹےمیں منہ چھپائےبیٹھی آنسو بہاتی تاج بی بی پر نگاہ ڈالی۔ آخر میں اس کی نظر سر جھکائےبیٹھی سکینہ پر جم گئی۔ چند لمحےوہ انگلیاں مروڑتی سکینہ کو دیکھتا رہا۔ پھر حافظ عبداللہ کی طرف نگاہ اٹھائی‘ جو اپنےجلےہوئےہاتھ کو گھور رہا تھا۔
    ”ابا۔۔۔“ سلیم نےاس کا شانہ ہلایا۔
    میاں نذرو نے آہستہ سےاس کا ہاتھ شانےسےہٹا دیا اور درویش کی طرف متوجہ ہوا۔ ”بابا۔ آپ نےفیصلہ تو سنا دیامگر اب تک حافظ عبداللہ سےنہیں پوچھا کہ اس کی کیا مرضی ہے؟“
    ”تواب پوچھ لیتےہیں اللہ والیا۔ “ درویش نےحافظ عبداللہ کی طرف دیکھا۔ ”کیوں حافظ ۔ تجھےسکینہ سےنکاح منظور ہےیا نہیں؟ دل سےجواب دینا ۔ کوئی زبردستی ہےنہ دباؤ۔ تو اپنےفیصلےمیں آزاد ہے۔“
    ”بابا۔“ حافظ عبداللہ نےایک نظر سکینہ پر ڈالی جو اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نجانےکیا تھا کہ حافظ عبداللہ ان میں کھو کر رہ گیا۔ پھر چند لمحوں کےبعد اس نےسر جھکا لیا۔ ” میں خود کو اس قابل نہیں پاتا ۔“
    ”سیانا نہ بن۔“ درویش نےاسےجھڑکی سی دی۔ ”جو نعمت اللہ تجھےدےرہا ہےاس کا کفران کر رہا ہی۔ شرم کر شرم۔“
    “بابا۔۔۔میں۔۔۔“ حافظ ہکلا کر رہ گیا۔
    ”سکینہ۔پگلئی‘ یہ تو بڑا بزدل نکلا۔ ڈرتا ہے۔ امتحا ن سےنہیں ڈرا ۔ نتیجےسےڈر گیا۔“ درویش نےسکینہ کی جانب گردن جھکائی۔ ” اب بول۔ کیا کرےگی تو؟“
    ”کچھ نہیں بابا۔ “ سکینہ نےبڑےسکون سےکہا۔ ” میں نےکہا ناں۔ مجھےجس نےایک بار چھو لیا ‘ وہی میرا صاحب ہے۔ یہ میرےقابل نہیں ‘ بات یہ نہیں ۔ اصل میں‘ مَیں ان کےقابل نہیں ہوں۔ یہ مجھےنہ اپنائیں۔ ان کی مرضی۔ میں ساری زندگی ان کےنام پربیٹھ کر گزار دوں گی۔ لوگوں کےسائیں پردیس بھی تو چلےجاتےہیں بابا۔“
    ”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟“ حافظ عبداللہ نےگھبرا کر اس کی طرف دیکھا۔
    ”ٹھیک کہہ رہی ہوں حافظ صاحب۔ “ اس کےلبوں پر بڑی خوبصورت مسکراہٹ ابھری۔ ”میں نے آپ کا رنگ ڈھنگ‘ آپ کا نام نسب‘ آپ کا خاندان اور مال و دولت نہیں دیکھی۔ آپ نےیہ سب کچھ دیکھا۔فیصلہ آپ کا رہا۔ آپ نےمجھےٹھکرا دیا مگر میں نے آپ کو اپنا لیا ہے۔ اپنا مان لیا ہے۔“
    ” آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔“ حافظ کا لہجہ بھرا گیا۔” میں اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کو کوئی سُکھ دےسکوں۔ لوگوں کےدیےہوئےپر دو وقت کی روٹی چلتی ہے۔ مسجد کےحجرےمیں رہتا ہوں۔ آپ نازوں کی پلی میرےساتھ رُل جائیں گی۔“
    ”رُل جانےدیجئےمجھے۔ میں مرضی سےرُل جانےکو تیار ہوں۔ آپ مجھےنہ رُلنےپر مجبور کرنےوالےکون ہوتےہیں؟“ سکینہ کی آواز ڈوب گئی۔
    ”بابا۔“ اچانک چوہدری حسن دین نےدرویش کی جانب دیکھا۔ ”مجھےکچھ کہنےکی اجازت ہے۔“
    ”ہاں ہاں۔ سب اپنی اپنی بولیاں بول رہےہیں۔ تو بھی بول۔ مجھےپتہ ہےتو اچھا ہی بولےگا۔ بول۔“
    ”اگر بات اتنی ہی سی ہےتو ۔۔۔“ اس نےجیب سےچابیوں کا گچھا نکالا۔ اس میں سےایک چابی نکالی اور دری پر رکھ دی۔”یہ میرے آبائی مکان کی چابی ہے۔ میں ابھی اسی وقت یہ مکان اور اپنےچار کھیت جو اس مکان کےساتھ جڑےہیں‘ حافظ عبداللہ کےنام کرتا ہوں۔ میرا خیال ہےاب انہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔“
    سب لوگوں کےمنہ کھلےکےکھلےرہ گئے۔ سلیم کا حال سب سےبرا تھا۔ اسےیقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ حقیقت میں ہو رہا ہے۔
    ”یہ کی ناں پگلوں والی بات۔“ درویش قلقاری مار کر ہنسا۔” اب بول حافظ۔ اب کیا کہتا ہے۔ اب تو تو بھی ساہوکار ہو گیا۔اب کیسےہچر مچر کرےگا؟“
    ”بابا۔“ حافظ عبداللہ کی آواز حلق میں پھنس گئی۔ درد کی ایک لہر آنسوئوں میں بھیگ کر پلکوں سےاتری اور رخساروں پر پھیل گئی۔وہ بایاں ہاتھ چہرےپر رکھ کر سسک پڑا۔
    ”مبارک ہو سکینہ۔ تیرا پگلا پن کام آ گیا۔“ درویش نےمسکراتےہوئےسکینہ کی جانب دیکھا۔ وہ سرخ سرخ آنکھوں سےاسےدیکھ کر ہولےسےہنس دی۔
    ”پگلی۔ اٹھا لےیہ رسید۔ اس پر قبولیت کےدستخط ہو گئےہیں۔“ درویش نےچابی کی طرف اشارہ کیا تو چوہدری حسن دین نےنفی میں سر ہلایا۔
    ”نہیں بابا۔ میں نےخالی خولی صلح نہیں ماری تھی۔ یہ سب اب حافظ۔۔۔“
    ”پتہ ہے۔ پتہ ہے۔ “ درویش نےچابی اٹھا کر اس کی جیب میں ڈال دی۔ ” تو نےجس نیت سےکہا تھا ‘ وہی تو قبول ہوئی ہےپگلی۔ رہےیہ دونوں۔ تو ان کےلئےمیرا اللہ اور اس کا پیارا حبیب کافی ہیں۔“
    چوہدری حسن دین خاموش ہو گیا۔
    ” ہاں بھئی چھوٹےمیاں۔ اب کیا خیال ہےتیرا؟“ درویش نےسلیم کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ جواب میں وہ خاموشی سےاٹھا اور ایک طرف سر جھکا کر جابیٹھا۔
    ”بابا۔ “ چوہدری حسن دین کی آواز پر وہ سب ایک دم چونکے۔”اگر اجازت ہو تو میں حافظ عبداللہ کےلئےمیاں نذرو سےسکینہ بیٹی کا ہاتھ باقاعدہ مانگ لوں۔“
    ”تو بھی مانگنا چاہتا ہےچوہدری۔“ درویش بڑےاچھےموڈ میں تھا۔” مانگ لے۔ مانگ لے۔ تو بھی نام لکھوا لے۔ جلدی کر ۔“
    اور چوہدری حسن دین نے آگےسرک کر اپنی اچکن کا پلہ میاں نذرو کےسامنےپھیلا دیا۔”میاں۔ اپنی بیٹی میرےحافظ صاحب کےلئےمیری جھولی میں ڈال دےیار۔“
    ”اس کا اختیار میری بھرجائی کو ہےچوہدری۔“ میاں نذرو نےتاج بی بی کی طرف اشارہ کر دیا۔
    چوہدری نےاس کی طرف رخ کیا تو تاج بی بی نےگردن گھما کر نم آنکھوں سےسلیم کی طرف دیکھا۔ ”سلیم پتر۔ تیری بہن کا ہاتھ مانگ رہےہیں چوہدری صاحب۔ کیا ہاں کر دوں بیٹا؟“
    ”تائی۔“ سلیم اٹھ کر آیا اور تاج بی بی سےلپٹ گیا۔وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
    ”واہ بھئی واہ۔ آج تو یہاں سب ہی اللہ والےاکٹھےہو گئے۔ “ درویش جھومتےہوئےبولا۔” آج تو سب کےاندر دھوئےجا رہےہیں۔ سب کا میل نکالا جا رہا ہے۔واہ میرےمالک۔ آج تو کیا دکھانا چاہتا ہے؟“ وہ آسمان کی طرف دیکھتےہوئےبولا۔
    ”میری ایک درخواست ہےچوہدری صاحب۔“ حافظ عبداللہ نےجھجکتےہوئےچوہدری حسن دین سےکہا۔
    ” آپ حکم دیں حافظ صاحب۔ درخواست کیوں کرتےہیں آپ۔“ وہ بڑےخلوص سےبولا۔
    ”اگر یہ بات طےہو ہی گئی ہےتو میں چاہوں گا کہ نکاح بڑی سادگی اور خاموشی سےہو۔ کوئی ہلا گلا نہ کیا جائے۔“
    ”مگر۔۔۔“ سلیم نےکہنا چاہا۔
    ”حافظ صاحب ہمارےسر کےصاحب ہیں سلیم پتر۔ یہ جیسا چاہتےہیں ویسا ہی کرو۔“ میاں نذرو نےسلیم کی جانب دیکھ کر کہا۔” اگر ہم اسےروایتی شادی کےطور پر کریں گےتو شرعی پابندیوں کا تماشا ضرور بنےگا اور میرا خیال ہے‘ حافظ صاحب چاہتےہیں کہ ایسا نہ ہو۔“
    ”جی ہاں۔“ حافظ عبداللہ نےنظر اٹھائی۔ ”میرا یہی مطلب تھا۔“
    ”تو ٹھیک ہی۔ “ چوہدری حسن دین نےدخل دیا۔ ”اگر معاملہ اسی طرح توڑ چڑھنا ہےتو دیر کس بات کی۔ ابھی نکاح پڑھاو اور دھی رانی کو وداع کر دو۔“
    ”اتنی جلدی اور اس حالت میں؟“ اب کےتاج بی بی بولی۔
    ”ارےبہن میری۔ نیک کام میں دیر کی جائےتو شیطان سو سو حیلےرکاوٹیں پیدا کر دیتا ہے۔یہاں داج وری کا جھگڑا تو ہےکوئی نہیں۔ اللہ کا دیا میرےپاس حافظ صاحب کےلئےسب کچھ موجود ہے۔ میں تو کہتا ہوں بابا شاہ مقیم کی دعاؤں کی چھاوں میں یہ کام آج ابھی کر کےسرخرو ہو جاؤ۔“
    بابا شاہ مقیم کا نام آیا تو سب کےمنہ بند ہو گئے۔ حافظ عبداللہ کےسر پر چوہدری حسن دین نےاپنا پٹکا ڈالا اور سکینہ کا گھونگھٹ نکال کر اس کی ماں کےپاس بٹھا دیا گیا۔ حافظ عبداللہ نےاپنا نکاح خود پڑھایا۔ حق مہر کی ادائیگی اسی وقت چوہدری حسن دین نےاپنی انگلی سےسونےکی انگوٹھی اتار کےکردی۔ حافظ عبداللہ نےخود سکینہ کو انگوٹھی پہنائی۔
    نکاح ہو گیا تو درویش نےمبارک مبارک کا شور مچا دیا۔
    ”لاؤ بھئی لاؤ۔ مٹھائی لاؤ۔ بابا شاہ مقیم انتظار میں ہوگا۔ چلو چوہدری ۔ سب کا منہ میٹھا کراؤبھئی۔“ وہ بچوں کی طرح خوش تھا۔ سب سےپہلےاس نےمٹھائی کا ٹکڑا اٹھا کر سکینہ کےمنہ سےلگایا۔ پھر حافظ عبداللہ کو برفی کھلائی۔اس کےبعد ہاتھ چوہدری حسن دین کے آگےپھیلا دیا۔
    ”لاؤ چوہدری۔ میرا حصہ؟“
    ”بابا۔“ چوہدری حسن دین حیرت سےبولا۔” آپ کا حصہ کیسا؟ یہ سب آپ ہی کا تو ہے۔“ اس نےمٹھائی کا ٹوکرا درویش کے آگےکر دیا۔
    ”نہیں بھائی۔ میرا حصہ دیتا ہےتو دے۔ ورنہ میں چلا۔“ وہ جیسےناراض ہو گیا۔
    چوہدری حسن دین نےجلدی سےایک بڑا گلاب جامن اٹھا کر درویش کےہاتھ پر رکھ دیا۔
    ”میرےپگلےکا حصہ بھی دے۔“ اس نےدوسرا ہاتھ آگےکر دیا۔
    ”پگلا؟“ چوہدری حسن دین کےساتھ باقی سب بھی حیران ہوئے۔ ” وہ کون ہےبابا؟“
    ”تجھےاس سےکیا کہ وہ کون ہے؟ تو اس کا حصہ دےدے۔ لا جلدی کر۔“
    چوہدری حسن دین نےاس کی ناراضگی کےڈر سےفوراً ہی دوسرا گلاب جامن اس کےہاتھ پر رکھ دیا۔
    درویش ایک دم پلٹا اور یوں تیز تیز قدموں سےمزار کی جانب چل دیا‘ جیسےوہ ان میں سےکسی کا واقف ہی نہ ہو۔ پھر مزار کےاندر جا کر اس نےدروازہ بند کر لیا۔
    سکینہ اور حافظ عبداللہ نےایک دوسرےکی جانب دیکھااور ان کےسر جھک گئے۔ خاموشی ۔ سناٹا۔ چُپ ۔ ہر طرف ہُو کا عالم طاری تھا۔ انہیں صرف اپنےاپنےدل دھڑکنےکی صدا سنائی دےرہی تھی اور بس۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کہانی کا طول دیکھ کر اسے پورا پڑھنے کا ارادہ نہ تھا
    لیکن مصنف کے الفاظ کے سحر میں کچھ اس طرح جکڑا گیا کہ پوری کہانی پڑھ کر ہی دم لیا۔
    شاید اس لیے بھی کہ تصوف میری دلچسپی کا خاص موضوع ہے اور مصنف نے صوفیا و درویش منش انسانوں کی سچائی کو بہت احسن انداز میں بیان کیا ہے۔

    بہت شکریہ عرفان بھائی ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں