1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کا قاف ( سرفراز احمد راہی) 2

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏9 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عشق کا قاف
    سرفراز احمد راہی ​


    ”اب میں چلوں گا۔گھبرائیےگا نہیں۔ اور یہاں سےجانےکا ابھی مت سوچئےگا۔ کیونکہ میری غیرموجودگی میں کوئی آپ کو یہاں سےجانےنہیں دےگا۔ شام کو لوٹوں گا تو باقی باتیں ہوں گی۔ پھر طےکریں گےکہ آپ کو آگےکیا کرنا ہی؟“ وہ مسکراتا ہوا کپڑوں والی الماری کی طرف بڑھ گیا۔”ارےہاں۔ مجھےاپنا وعدہ توبھول ہی گیا۔ “ اچانک واپس آ کر وہ پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔وہ اسےکچھ نہ سمجھنےوالےانداز میںدیکھنےلگی۔
    ”دیکھئےصاحب۔ ابو تو ہمارےبھی اللہ کےپیاروں کی فہرست میں شامل ہوچکےہیں۔بس ایک امی ہیں۔ اور ان کا یہ اکلوتا‘ کلم کلا‘ فرزندِ ارجمند۔ آج کل وہ زمینوں پر گئی ہوئی ہیں۔ بڑی سخت گیر ہیں۔ ملازموں کو سر نہیں چڑھاتیں۔ان کی خبر لیتی رہتی ہیں۔ اور میں یعنی مسٹر طاہر۔ امپورٹ ایکسپورٹ کی فرم کا واحد اور بلا شرکت غیرےمالک۔تاکہ وقت گذرتا رہی۔ بیکار بیٹھنےسےبچنےکا اک بہانہ ہی۔ بس یہ تھی ہماری مختصر سی زندگی ‘ جس کےبارےمیں مَیں نے آپ کو بتانےکا وعدہ کیا تھا۔“وہ اٹھ کھڑا ہوا۔وہ لاکھ کوشش کےباوجود اپنی مسکراہٹ کو دبا نہ سکی۔
    طاہر الماری سےکپڑےنکال کر باتھ روم میں گھس گیا۔چند منٹ بعد جب وہ باہر نکلاتوکچھ دیر کووہ بھی مبہوت رہ گئی۔کچھ اتنا ہی سمارٹ لگ رہا تھا وہ۔
    وہ ہاتھ ہلا کر مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔زاہدہ پھر کسی گہری سوچ میں گم ہوگئی۔
    ٭
    پندرہ دن ایک آنکھ مچولی کی سی کیفیت میں گزر گئی۔اس شام وہ ڈاکٹر ہاشمی کےہاسپٹل میں ان کےپاس موجود تھا۔
    ”طاہر بیٹے۔“ڈاکٹر ہاشمی کرسی سےاٹھ کر کھڑکی کےقریب چلےگئی۔”تم میں جلد بازی کا مادہ بہت زیادہ ہی۔ تم ہر اس شےکوحاصل کرلینا چاہتےہو‘جو تمہاری نگاہوں کو تسکین دےدی۔ تمہارےدل کوپسند آجائےلیکن۔۔۔“ وہ رک گئی۔ طاہر بےچینی سےپہلو بدل کر رہ گیا۔ ”دوسرےکےجذبات‘رستےمیں آنےوالی رکاوٹوں‘ حقیقت اور ہر تغیر سےتم بالکل بےبہرہ ہو جاتےہو۔“
    ”میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا انکل۔ “وہ مضطرب سا ہوگیا۔
    ”جوانی دیوانی ہوتی ہےبیٹےلیکن اگر اسےسنبھل کر خرچ کیا جائےتو یہ کبھی ختم نہ ہونےوالا سکون بھی بن جایا سکتی ہی۔“
    اس نےپھر کچھ کہنا چاہامگرڈاکٹر ہاشمی نےہاتھ اٹھا کر اسےروک دیا۔اس کےادھ کھلےہونٹ پھر بند ہوگئی۔
    ”ابھی اس اجنبی لڑکی کو یہاں آئےہوئےصرف تین دن ہوئےہیں اور تم اسےجنم جنم کا ساتھی جان کر‘ شریک حیات بنانےکا بےوقوفانہ فیصلہ کربیٹھےہو۔“
    ”مگر اس کا اب دنیا میں ہےبھی کون انکل؟ اسےیہ بات بخوشی قبول ہوگی۔“
    ”غلط کہتےہو ۔ تم اس کےدل میں جھانک کر نہیں دیکھ سکتی۔تمہارا کیا خیال ہےکہ اختر کی محبت اتنی جلدی اس کےدل سےحرفِ غلط کی طرح مٹ گئی ہو گی۔“
    ”اس نےخود۔۔۔“
    ”کہنےسےکیا ہوتا ہی۔کہنےکو تو اس نےان سب کو مردہ کہہ دیا ہےجن میں اس کا چچا ‘ چچی اور اختر سب شامل ہیں لیکن کیا وہ حقیقتاً مرگئےہیں۔ نہیں۔۔۔وہ زندہ ہیں۔جیسےمیں‘ تم اور وہ خود۔۔۔“
    ”لیکن۔۔۔“
    ”ابھی بیگم صاحبہ یہاں نہیں ہیں۔ چندروز میں وہ بھی لوٹ آئیں گی اور اس وقت۔ ۔۔ اس وقت تم ایک عجیب مصیبت میں گرفتار ہو جاؤگےطاہر۔ تم ان کی طبیعت سےاچھی طرح واقف ہو۔“
    ”لیکن میں فیصلہ کرچکا ہوں۔۔۔“
    ”وہ فیصلےبدل دینےکی عادی ہیں۔“
    ”میں بھی انہی کی اولاد ہوں انکل۔“
    ”اور اگر۔۔۔اس لڑکی ہی نےتمہارا فیصلہ ماننےسےانکار کردیا تو؟“
    وہ سچ مچ پریشان ہوگیا۔ڈاکٹر ہاشمی کی ہر بات اپنی جگہ اٹل تھی۔
    ”بات کو سمجھنےکی کوشش کرو بیٹی۔“ وہ نرمی سےاس کا شانہ تھپکتےہوئےبولی۔ ”ابھی اس کےزخم تازہ ہیں۔ ان پر ہمدردی اور پیار کا مرہم رکھو۔اسےحوصلہ دو۔جلد بازی کوکچھ عرصےکےلئےخیر باد کہہ دو۔ اگر تم اس کےدل کا زخم بھرنےمیں کامیاب ہو گئےتو شاید وہ سب کچھ ہو سکےجو تم سوچ رہےہو مگر فی الحال ایسا کوئی چانس نہیں ہی۔ شیخ چلی کا خیالی پلائو تم جیسا انسان نہ پکائےتو اچھا ہےورنہ حقیقت کی بھوک تمہیں ایسےفاقےپر مجبور کر دےگی جو جان لیوا بھی ہو سکتا ہی۔“
    طاہر نےان کی آنکھوں میں جھانکا۔ وہ مسکرادیے۔ دھیرےسےپھر اس کا شانہ تھپکا۔ اس نےسر جھکا لیا۔
    ”وقت آنےپر میں تمہارےساتھ کھڑاہوں گا۔“وہ آہستہ سےبولی۔
    اور اسےجیسےبہت بڑا سہارا مل گیا۔
    ”اللہ حافظ۔ “وہ مسکرا کر دروازےکی طرف بڑھ گئی۔
    ”اللہ حافظ۔“ وہ ہولےسےبولا اور کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
    شوخیوں پر نکھار آتا چلا گیا۔شرارتیں بڑھتی چلی گئیں۔تکلف کی دیواریں گرنےلگیں۔ دبی دبی‘ پھیکی پھیکی مسکراہٹیں ‘بلند بانگ اور زندگی سےبھرپور قہقہوں میں ڈھل گئیں۔
    یک طرفہ محبت کی آگ کےشعلےبلندسےبلند تر ہونےلگی۔اس کی نیندیں اڑنےلگیں۔قرار چھن گیا۔ سکون رخصت ہوگیا۔ دفتر کا عملہ اس کی یکدم بڑھ جانےوالی زندہ دلی‘ ظرافت اور پیار کو ”کسی کےمل جانے“سےتشبیہ دینےلگا۔اس کی سٹینوامبر نےتو کئی بار اسےہنسی ہنسی میںیہ بات کہہ بھی دی تھی۔
    دوسری طرف زاہدہ اس محبت سےبےخبر تھی۔بالکل بےخبر۔لگتا یہی تھا کہ وہ اپنےماضی کوفراموش کرچکی ہےلیکن اس کےدل میں کیا تھا یہ کوئی نہ جانتا تھا۔ہاں‘ کبھی کبھی اختر کی یاد اسےبےچین کردیتی تو وہ کچھ دیر کےلئےاداس ہو جاتی لیکن جب اسےاخترکی زیادتی کا خیال آتا تو وہ اس اداسی کو ذہن سےجھٹک دیتی۔اس کےخیال کو دل سےنکال پھینکنےکی کوشش کرنےلگتی۔ ایسےموقع پر طاہر اس کےبہت کام آتا۔ وہ منٹوں میں اس کی اداسی کو شوخی میں بدل کر رکھ دیتا۔ اسےقہقہوں میں گم کردیتا ۔ ماضی کو فراموش کرکےوہ مستقبل سےبالکل لاپرواہ ہوئی جارہی تھی تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ چٹان کی طرح موجود تھی کہ لاکھ کوشش کےباوجود وہ اختر کو مکمل طور پر اپنی یادوں سےکھرچ دینےمیں ناکام رہی تھی۔
    آج اسےطاہر کےہاں آئےدو ماہ ہو رہےتھی۔بیگم صاحبہ ابھی تک گاؤں سےنہیں لوٹی تھیں۔سردیاں ختم ہونےکوتھیں۔طاہر نےاسےکیا کچھ نہ دیا تھا۔ مسکراہٹیں‘ خوشیاں‘ بےفکری‘ آرام‘ آزادی۔۔۔ لیکن یہ اس کا مستقل ٹھکانہ تو نہیں تھا۔
    ”اےمس اداس۔۔۔“ طاہر کی شوخی سےبھرپور آواز نےاس کےخیالات کا شیرازہ بکھیر دیا۔اس نےنگاہیں اٹھا کر دیکھا۔وہ اسےمسکراتی ہوئی بڑی گہری نظروں سےدیکھتا ہوا‘اس کےسامنےہی آلتی پالتی مار کرلان کی نرم نرم گھاس پر بیٹھ گیا۔
    ”فرمائیی۔“ وہ بےساختہ مسکرادی۔
    ”فرمانا کیا ہےہم فقیروں نے۔ بس یہ ایک عدد خط آیا ہےامی جان کا۔ “ وہ کاغذ کھول کر اسےگھاس پر بچھاتا ہوا جیسےمشاعرےمیں غزل پڑھنےلگا۔ وہ نجانےکیوں بےچین سی ہوگئی۔
    ” آرہی ہیںوہ ؟“
    ”ہاں۔۔۔مگر تم کیوں پریشان ہوگئیں؟“ وہ خط پڑھےبغیر تہہ کرکےجیب میں رکھتےہوئےبولا۔
    ”پریشان ۔۔۔ نہیں تو۔ وہ ۔۔۔“
    ”اچھا چھوڑو۔ ایک بات بتاؤ۔“
    ”جی پوچھئی۔“
    ”اب تمہارا ارادہ کیا ہی؟ میرا مطلب ہے۔۔۔“
    ”میں بھی یہی سوچ رہی تھی طاہر صاحب کہ آپ نےمجھ پر کتنےاحسانات۔۔۔“
    ”میں نےاحسانات گننےکو نہیں کہا۔ یہ پوچھا ہےکہ اب آئندہ کا پروگرام کیا ہی؟“ اس نےزاہدہ کی بات کاٹ دی۔
    ”پروگرام کیا ہونا ہےطاہر صاحب۔ایک نہ ایک روز تو مجھےیہاں سےجانا ہی ہی۔کئی بار جانا چاہا۔ کبھی آپ نےیہ کہہ کر روک لیا کہ کہاں جاؤ گی؟ اور کبھی یہ سوچ کر رک گئی کہ واقعی کہاں جاؤں گی میں؟ لیکن آج آپ نےپوچھ ہی لیا ہےتو۔۔۔“ وہ رک گئی ۔پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ سوالیہ انداز میں اسےدیکھتا رہا۔” آپ ہی بتائیی۔ میں کہاں جاؤں؟“
    ”ارےتو کون اُلو کا پٹھا تمہیں جانےکو کہہ رہا ہی؟ “وہ مصنوعی جھلاہٹ سےبولا اور اٹھ کر اس کےقریب چلا آیا۔
    ”مذاق نہیں طاہر صاحب۔ میں۔۔۔میں آج ہی یہاں سےچلی جاؤں گی۔ “وہ اداسی سےبولی۔
    ”کہاں؟“
    ”کہیں بھی؟“ وہ نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر رہ گئی۔
    ”پھر بھی ؟“
    ”جہاں۔۔۔“
    ”قسمت لےجائی۔ بس اس فلمی ڈائیلاگ سےمجھےبڑی چڑ ہی۔ “وہ اس کی بات اچک کر بولا۔ وہ نہ چاہتےہوئےبھی مسکرا دی۔
    ”سنو۔۔۔“وہ اس کےبالکل سامنی‘ بالکل قریب چلا آیا۔
    اس نےطاہر کی طرف دیکھا۔
    ”تم کہیں مت جاؤ۔یہیں رہو۔ “وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اس کےشانوں پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
    ”نوکرانی بن کر۔ ۔۔؟“وہ دھیرےسےمسکرائی۔
    ”رانی بن کر۔“ وہ اسےہلکا سا جھٹکا دےکر بولا۔
    ”کیا مطلب؟“ وہ حیران سی ہوگئی۔
    ”رانی کا مطلب نہیںسمجھتیں کیا۔ ارےوہی۔۔۔جو ایک راجہ کی۔۔۔“وہ شرارت سےمسکرا کر خاموش ہوگیا۔
    ”طاہر صاحب۔“ وہ حیرت سےلڑکھڑا کرپیچھےہٹ گئی۔
    ”کیوں۔۔ ۔ کیا ہوا ؟“ وہ بےچینی سےبولا۔ دل بڑےزور سےدھڑکا تھا۔
    ”ایسا مت کہئےطاہر صاحب۔ میں اتنا بھیانک مذاق سہہ نہ سکوں گی۔“
    ”ارےواہ۔ تم زندگی بھر کےبندھن کومذاق۔۔۔“
    ”خاموش ہو جائیےطاہر صاحب۔ خدا کےلئی۔ “وہ کانوں پر ہاتھ رکھ کر سسک پڑی۔
    ”زاہدہ۔۔۔“ اس کو شانوں سےتھام کر طاہر نےاس کا رخ اپنی جانب پھیرا۔”میں اختر نہیں ہوں زاہدہ۔“
    ”اسی لئےتو یقین نہیں آتا۔“اس نےرخ پھیر لیا۔
    ”زاہدہ ۔تم۔۔۔تم سمجھتی کیوں نہیں؟ میں ۔۔۔میں تم سےشادی کرنا چاہتا ہوں۔“وہ رک رک کر کہہ گیا۔
    ”بس کیجئےطاہر صاحب۔ بس کیجئی۔ یہ زہر میں بجھےہوئےتیر بہت پہلےمیرےدل میں اتر چکےہیں۔“
    ”زاہدہ ۔“وہ تڑپ اٹھا۔ ”میرےخلوص کی یوں دھجیاں نہ بکھیرو۔“
    ”مجھےجانےدیجئےطاہر صاحب۔مجھےجانےدیجئی۔ مجھ میں اب یہ فریب ‘ یہ ستم سہنےکی تاب نہیں ۔“وہ چل دی۔
    طاہر آگےبڑھا اور اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔”جاسکوگی؟“ اس کی نم آنکھوں میں جھانک کر وہ بڑےمان سےبولا۔
    وہ لرز گئی۔ایک چٹان کھڑی تھی اس کےراستےمیں!
    ”میں نےزندگی میں پہلی مرتبہ کسی کےلئےبےقراری محسوس کی ہےزاہدہ۔ پہلی مرتبہ میرا دل کسی کےلئےدھڑکا ہی۔تمہارےلئی۔زاہدہ‘ صرف تمہارےلئی۔اگر اسی کو محبت کہتےہیں تو۔۔۔ “
    ”طاہر صاحب۔“وہ پھر سسکی۔
    ”ہاںزاہدہ۔ میں نےجب تمہیں پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو نجانےکیوں تمہیں دل میں سمولینی‘دھڑکنوں میں چھپا لینےکوجی چاہا ۔میں نےاپنا کوئی آئیڈیل نہیں بنایا زاہدہ مگر اب لگتا ہےتم ہی میری نامحسوس اور اور ان دیکھی آرزوؤں کی تصویر ہو۔ میں نےاس کٹی پھٹی تصویر میں اپنی چاہت کےرنگ بھر دیےلیکن نہیں جانتا تھا کہ یہ تصویرمیری بولی سےبہت زیادہ قیمت کی ہی۔ میرےپاس تو صرف خلوص کی دولت ہےزاہدہ ۔ اس ظاہری شان و شوکت‘ اس آن بان پر تو میں کبھی تن کر کھڑا نہیں ہوا۔“
    وہ بت بنی اس کی صورت تکتی رہی۔وہ پھیکےسےانداز میں مسکرا دیا۔
    ”جانا چاہتی ہو؟ مجھےچھوڑ کر؟“وہ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں جھانک کر آہستہ سےبولا۔”میں تمہیں نہیں روکوں گا۔ جاؤ۔ “ وہ بڑی درد بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر لئےایک طرف ہٹ گیا۔
    زاہدہ نےاسےعجیب سی نظروں سےدیکھ کر دھیرے سےحرکت کی اور چل دی۔ آہستہ آہستہ‘ چھوٹےچھوٹےچند قدم اٹھائی۔
    طاہر کی آنکھوں کےسامنےدھند سی لہرا گئی۔پانی کی پتلی سی چادر تن گئی۔
    وہ رک گئی۔
    طاہر کی پلکیں بھیگ گئیں۔
    وہ پلٹی۔ دھیرےسی۔
    طاہر کےہونٹوں کےگوشےلرز گئی۔
    وہ رخ پھیر کر بھاگی۔
    طاہر کےبازووَا ہو گئی۔
    وہ اس کےبازوؤں میں سماتی چلی گئی۔شبنم‘ پھول کی پتیوں پر پھسل پڑی۔
    دور بر آمدےمیں کھڑےڈاکٹرہاشمی کےلبوں پر بڑی خوبصورت مسکراہٹ ابھری۔ شاید وہ سب کچھ جان گئےتھے۔
    ”تو ہماری اک ذرا سی عدم موجودگی نےیہ گل کھلائےہیں۔“ بیگم صاحبہ نےسرجھکائےکھڑےطاہر‘زاہدہ اور ڈاکٹر ہاشمی کی جانب کڑی نظروں سےدیکھا۔
    ”میں نی۔۔۔“ طاہر نےکہنا چاہا۔
    ”کوئی جرم نہیں کیا۔کوئی گناہ نہیں کیا۔ محبت کی ہی۔شادی کرنا چاہتےہیں۔ یہی فلمی ڈائیلاگ بولو گےنا تم۔“ اس کی بات تیز لہجےمیں کاٹ دی گئی۔ وہ ان کےپُررعب‘باوقار چہرےپر پھیلتی سختی کی تاب نہ لا کر سر جھکا کر رہ گیا۔
    ”ڈاکٹر ہاشمی۔“
    ”جی بیگم صاحبہ“۔ وہ ایک قدم آگےبڑھ آئی۔
    ” آپ بھی اس سازش میں برابر کےشریک ہیں ۔“ وہ سرد مہری سےبولیں۔
    ”جی ۔ ۔۔جی۔۔۔ میں ۔۔۔۔“ وہ گڑ بڑا گئی۔
    ”گھبرائیےنہیں ڈاکٹر ہاشمی۔ آپ ہمارےخاندانی ڈاکٹر ہیں۔ آپ میں تو اتنی ہمت‘ اتنی جرات ہونی چاہیےکہ آپ ہم سےبلاخوف بات کرسکیں‘ یا ہمارےنمک میں یہ اثر بھی نہیں رہا۔“
    ”ایسی کوئی بات نہیں بیگم صاحبہ۔ “وہ سنبھل گئی۔
    ”تو پھر ؟ یہ سب کیا ہوا ؟ کیوں ہوا؟ہمیں اطلاع کیوں نہ دی گئی؟“ وہ ان کی جانب دیکھتی ہوئی بولیں۔
    ”میں نے۔۔۔“
    ” آپ نےکچھ بھی سوچا ہو ڈاکٹر ہاشمی مگر ہمارےلئےنہیں۔اس سر پھرےلڑکےلئےسوچا ہوگا‘جسے آپ نےگودوں کھلایا ہی۔ ہےناں؟“
    ”جی ۔۔۔ جی ہاں۔“ وہ اقرار کرگئی۔
    زاہدہ سہم سی گئی مگر طاہر نےاسےنظروں ہی نظروں میں دلاسا دیا۔تب وہ اپنےخوف کو کافی حد تک کم محسوس کرنےلگی ۔
    ”طاہر ۔“وہ اس کی طرف پلٹیں۔
    ”جی امی جان۔ “وہ ادب سےبولا۔
    ”تمہیں ہمارا فیصلہ معلوم تھا ناں؟“
    ”جی۔“ اس کا سر جھک گیا۔
    ”پھرتم نےاسےبدلنےکےبارےمیں سوچا کیسی؟“
    ”گستاخی معاف امی جان۔ میں نےتمام زندگی آپ کےہر حکم پر سرجھکایا ہی۔“
    ”مگراب اس لڑکی کی خاطر‘ اپنی پسند کی خاطر‘ تم ہمارےہر اس فیصلےکو تسلیم کرنےسےصاف انکار کردو گی‘ جو ہم تم پر حکم کہہ کر لاگو کریں گی۔ “انہوں نےاس کی بات پوری کر دی۔
    ”جی نہیں۔ امی جان میں نےایسا۔۔۔“
    ”تو تمہیں ہمارےہر فیصلےسےاتفاق ہوگا؟ “وہ حاکمانہ انداز میں گویا ہوئیں۔وہ جواب میں خاموش رہا۔ایک بوجھ سا ان سب کےدلوں پر بیٹھتا چلا گیا۔
    ڈاکٹرہاشمی نےپُردرد نظروں سےان دوپیار بھرےدلوں کو دیکھا‘ جو سہمےسہمےانداز میں دھڑکنےکی کوشش کررہےتھی۔
    ”اس خاموشی سےہم کیا مطلب لیں طاہر؟“
    اور اس نے آہستہ سےزاہدہ کی جانب دیکھ کر سر اٹھایا۔”میں آپ کےفیصلےکا منتظر ہوں امی جان۔“
    ”تو۔۔۔“ وہ ان کی جانب گہری نظروں سےدیکھتی ہوئی بولیں۔”ابھی۔۔۔اسی وقت۔ اس لڑکی کو۔۔۔“وہ رکیں۔ان سب کو تنقیدی اور جانچنےوالی نظروں سےدیکھا۔”یہاں سےرخصت کردو۔“ کہہ کرانہوں نےرخ پھیر لیا۔
    ایک بم پھٹا۔ ایک زلزلہ آیا۔ ایک طوفان اٹھا۔یہ سب ان کی توقع کےمطابق ہی ہوا تھامگر وہ پھر بھی سہہ نہ سکے۔
    ”میں وجہ پوچھنا چاہوں گا امی جان۔“ ایک اور دھماکہ ہوا۔
    ”طاہر ۔“ وہ آپےسےباہر ہوگئیں۔ تیزی سےاس کی طرف پلٹیں۔” وجہ تم اچھی طرح جانتےہو۔“وہ غیظ و غضب سےان دونوں کو گھورتےہوئےپھنکاریں۔
    ”میں آپ کی زبان سےسننا چاہتا ہوں۔“وہ جیسےہر خوف‘ ہر ڈر سےبےبہرہ ہوگیا۔
    وہ ایک لمحےکو سن ہو گئیں۔طاہر‘ان سےوجہ پوچھ رہا تھا۔ان کےحکم کی تعمیل سےانکار کررہا تھا۔ ان کی انا پر براہ راست حملہ آور ہورہا تھا۔
    مگردوسرےہی لمحےوہ سنبھل گئیں۔جوانی جوش میں تھی‘انہیںہوش کی ضرورت تھی۔ طوفان چڑھ رہا تھا۔بند باندھنا مشکل تھا‘ ناممکن نہیں ۔
    ان کےچہرےکی سرخی‘ اعتدال کی سفیدی میں ڈھلتی چلی گئی۔ آنکھوں میں دہکتی ہوئی آگ‘ ہلکی سی چمک میں بدل گئی۔بڑھاپا سنبھل گیا۔ جوانی کو دائو میں لینےکا لمحہ آن پہنچا تھا۔
    ”یہ لڑکی کون ہے۔جانتےہو؟“وہ زاہدہ کی جانب اشارہ کرتےہوئےبولیں۔
    ”انسان ہےامی جان۔ “وہ ادب سےبولا۔
    ”اس کا خاندان‘گھر بار ‘ ٹھکانہ‘ ماں باپ۔ “وہ بل کھا کر ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ گئیں۔
    ” یہ بےسہارا ہےامی جان۔“
    ” آوارہ بھی تو ہوسکتی ہی۔“ انہوں نےاس کی بات کاٹ دی۔
    ”امی جان۔“وہ احتجاجا ًبولا۔
    ”جنگ میں زخموں کی پرواہ کرنےوالےبزدل ہوتےہیں طاہر بیٹی۔ اور تم ہمارےبیٹےہو۔ ہمارےسامنےتن کر کھڑےہوئےہو تو وار سہنا بھی سیکھو۔“ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولیں۔
    ”امی جان۔“ وہ ایک قدم آگےبڑھ آیا۔”یہ غریب ‘بےسہارا ‘بےٹھکانہ ہی۔“
    ”تو آج تک دارالامان میں رہی ہی۔ “وہ طنز سےبولیں۔
    ”اپنوں کےستم سہتی رہی ہی۔ “وہ تیزی سےبولا۔
    ”پھر یہ بےگھر کیسےہوئی؟ کیوں ہوئی؟“ وہ جلال میں آگئیں۔
    ”تقدیر جب سر سے آنچل کھینچ لینےکےدرپےہوگئی تو۔ ۔۔“
    ”تو۔۔ ۔یہ تمہارےپاس چلی آئی۔ “انہوں نےاس کا فقرہ بڑےخوبصورت طنز سےپورا کردیا۔
    ”میں سب بتا چکا ہوں امی جان۔ “وہ ادب ہی سےبولا۔
    ”مگر ہم یہ برداشت نہیں کرسکتےکہ کوئی ایسی لڑکی ہمارےبیٹےکی بیوی اور ہماری بہو کہلائی۔۔۔“
    ”جس کےپاس دولت نہیں۔ جہیز نہیں۔معاشرےمیں اونچا مقام نہیں۔ “وہ پھٹ پڑا۔
    ”ٹھیک سمجھےہو۔ “وہ نرمی سےبولیں۔
    ”میں ایک سوال اور کروں گا امی جان۔“
    ”ہم جواب ضرور دیں گی۔“
    ”اگر یہ لڑکی۔۔۔ فرض کیجئےیہ لڑکی ڈاکٹر ہاشمی کی بیٹی ہوتی تو؟“
    ”تو ہم بخوشی اسےاپنی بہو بنالیتےلیکن ہم جانتےہیں کہ یہ ڈاکٹر ہاشمی کی بیٹی نہیں ہے۔ اس لئےہم اسےتمہاری بیوی نہیں بنا سکتی۔ “وہ وقار سےبولیں۔
    ”اگر شرط یہی ہےتو سمجھ لیجئےبیگم صاحبہ۔ یہ لڑکی آج سےمیری بیٹی ہی۔ “ڈاکٹر ہاشمی نے آگےبڑھ کر زاہدہ کےسرپر ہاتھ رکھ دیا۔
    ”ڈاکٹرہاشمی ۔“ امارت تلملا اٹھی۔
    ” آپ زبان دےچکی ہیں بیگم صاحبہ“۔ وہ ادب اور آہستگی سےبولی۔
    ”مگر یہ آپ کی سگی بیٹی نہیں ہی۔“
    ” آپ نےیہ شرط نہیں لگائی تھی امی جان۔ “وہ ان کےبالکل قریب چلا آیا۔
    اوروہ اپنی بوڑھی‘ تجربہ کارمگر ممتا بھری نظروں سےاسےگھورتی رہ گئیں۔
    ”مان جائیےناں امی جان۔ تمام زندگی مجھےحکم دیتی آئی ہیں۔میری ضدیںپوری کرتی آئی ہیں ۔ آج یہ ضد بھی مان لیجئی۔“
    وہ پھر بھی اسےگھورتی رہیں۔تاہم طوفان اترنےلگا تھا۔
    ”امی جان۔ “اس نےان کےشانےتھام لئی۔”بولئےناں۔“اس نےان کی آنکھوں میں جھانکا۔ ممتا لرز گئی اور بال آخر بےبس ہوگئی۔
    کتنی ہی دیر گزرگئی۔ پھر انہوں نےسرجھکا لیا۔ آہستہ سےبیٹےکو ایک طرف ہٹا دیا۔دو قدم چلیںاور زاہدہ کو گھورنےلگیں۔
    ”ہمارے۔۔۔ قریب آؤ۔ “وہ رک رک کر کتنی ہی دیر بعد بولیں۔وہ پلکوں پر ستارےلئی‘ دھیرےدھیرے‘ان کےقریب چلی آئی۔
    وہ چند لمحوں تک اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑےجانےکیا دیکھتی رہیں۔ جانچتی رہیں۔تب اس کی پلکوں سےستارےٹوٹےاور بیگم صاحبہ کےقدموں پر نچھاور ہو گئی۔ پھر اس سےپہلےکہ وہ ان کےقدم چوم لیتی‘انہوں نےاس کی پیشانی پر مہر محبت ثبت کردی۔
    فیصلہ ہوگیا۔
    ”ہم ہارگئےطاہر۔“وہ زاہدہ کو سینےسےالگ کرکے آہستہ سےپلٹیں۔”لیکن صرف اپنےاصولوں‘ اپنی زبان کی خاطر۔“
    ”امی جان۔ “وہ بھاگ کر ان سےلپٹ گیا۔
    ”پگلی۔ ابھی تو بڑا فلسفی بنا ہوا تھا۔ “وہ اس کےسر پر بوسہ دیتی ہوئی مسکرائیں۔
    ”امی جان۔“ وہ جھینپ کر بولا۔ زاہدہ نےشرما کر سرجھکا لیا۔ڈاکٹر ہاشمی مسکرا رہےتھی۔
    ”ڈاکٹر ہاشمی۔“ کچھ دیر بعد وہ ان کی طرف متوجہ ہوئیں۔
    ”جی بیگم صاحبہ۔ “وہ ادب سےبولی۔
    ”ہماری بہو کو گھر لےجائیی۔ ہم اگلےماہ کی تین تاریخ کو یہ ستارہ ‘ اپنےچاند کےپہلو میں دیکھنا چاہتےہیں۔ “ وہ پیار سےان دونوں کو گھور کر بولیں۔
    ”جو حکم بیگم صاحبہ۔“وہ بھی مسکرا دیئی۔
    شرما کر زاہدہ نےدونوں ہاتھوں میں منہ چھپاتےہوئےرخ پھیر لیا۔ طاہر اس کےلرزتےہوئےوجود کو دیکھ کرنشےمیں جھومتا ہوا آگےبڑھا۔
    ”مبارک ہو۔“ زاہدہ کےقریب سےگزرتےہوئےاس نے آہستہ سےکہا ۔
    ”ہماری طرف سےبھی۔ “بیگم صاحبہ کی آواز نےاسےبھاگنےپر مجبور کردیا ۔وہ شرم سےگڑی جارہی تھی۔
    ”ہمیں اب اجازت دیجئےبیگم صاحبہ۔ آپ نےوقت بہت کم دیا ہے۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےکہا۔
    ”کاش ! آپ جانتےڈاکٹر ہاشمی کہ انتظار کس قدر تلخ شےکا نام ہی۔ “وہ ہولےسےقہقہہ لگا کربولیں۔ ڈاکٹر ہاشمی جھینپ کر رہ گئی۔”اچھا ۔تو جایئی۔“ وہ ہنستےہوئےبولیں۔”لےجائیےہماری امانت کو اپنےگھرچند دنوں کےلئی۔“وہ شرمائی لجائی سی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ڈاکٹر ہاشمی کےہمراہ خارجی دروازےکی طرف بڑھ گئی۔
    بیگم صاحبہ کےچہرےپر ایک سکون تھا۔تمکنت تھی۔وقار تھا مگر دل میں ایک پھانس سی تھی۔ انہیں نجانےکیوں لگ رہا تھا کہ یہ ایک خواب ہےجو طاہر نےدیکھا ہے‘ اور جب اس کی آنکھ کھلےگی تو تعبیر اچھی نہیں ہوگی۔ پھر انہوں نےسر جھٹک کر اپنےواہموں سےنجات حاصل کرنےکی کوشش کی تاہم دل کی بےسکونی ان کی پیشانی پر تفکر کی لکیر بن کر چھلک آئی تھی۔ شایدبڑھاپا خود کو فریب دینا چاہ رہا تھا مگر تجربےکی تیسری آنکھ وا ہو چکی تھی جو آنےوالےوقت کےاندیشےکی پرچھائیاں محسوس کر کےپتھرائےجا رہی تھی۔
    ”لوبیٹی ۔ یہ ہےتمہارا نیا مگر مختصر سےوقت کےلئےچھوٹا سا گھر۔ “ڈاکٹر ہاشمی نےاسےساری کوٹھی کی سیر کرانےکےبعدواپس ڈرائنگ روم میں آ کر صوفےپر بیٹھتےہوئےکہا۔وہ خاموشی سےان کےسامنےبیٹھ گئی۔
    زندگی کی خوشیاں‘ ہر نعمت‘ ہرمسرت پا کر بھی‘ اس پر نجانےکیوں ایک بےنام سی اداسی‘ نامحسوس سی یاسیت طاری تھی‘ جسےوہ چھپانےکی حتی الامکان کوشش کررہی تھی۔
    ”دینو۔ او دینو۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےاپنےملازم کو آواز دی۔
    ”جی مالک۔ “نوکر کمرےمیں داخل ہوا۔
    ”دیکھو۔ دو کپ چائےلے آؤ مگر ذرا جلدی ۔مجھےہاسپٹل پہنچنا ہی۔ “وہ چٹکی بجا کر بولی۔ دینو سر ہلاتا ہوا باہر نکل گیا۔
    ڈاکٹر ہاشمی نےمختصرا ًدینو کو اتنا ہی بتایا تھا کہ زاہدہ ان کی منہ بولی بیٹی ہےاور اگلےماہ اس کی شادی طاہر میاں سےہورہی ہی۔دینوان کا اکلوتا اور وفادار ملازم تھا۔
    ڈاکٹر دلاور ہاشمی نےبیوی کےمرنےکےبعد دوسری شادی نہیں کی تھی۔ایک ہی بیٹا تھا۔ سرمد۔ جسےوہ جی بھر کر پڑھانا چاہتےتھی۔ آج کل وہ لندن یونیورسٹی میں ایم بی اےکر رہا تھا۔دونوں باپ بیٹا‘ دو ہی افراد اس خوبصورت آشیانےکےباسی تھی۔ایک دوسرےکےدکھ درد‘ غم اور خوشی کےشریک۔راز دار‘ دوست‘ سبھی کچھ تو تھےوہ۔
    ثروت خانم کےدلہن بن کر آنےسےبھی پہلےسےوہ سر سلطان وجاہت کےفیملی ڈاکٹر تھی۔ معالج اور مریض کا یہ رشتہ وقت نےرفتہ رفتہ دوستی میں بدل دیا اور سر وجاہت سلطان کی وفات کےبعد بیگم صاحبہ اور طاہر سےان کا یہ تعلق سرپرستانہ ہو گیا۔ انہیں سلطان ولا میں گھر کےایک اہم فرد ہی کی سی عزت دی جاتی تھی۔اس تعلق کی بنیادوں میں یہ بات اولیں اہمیت کی حامل تھی کہ انہوں نےطاہر کو واقعی کسی چچا کی طرح گود میں کھلایا تھا۔
    چائےختم ہو گئی تو وہ اٹھ گئی۔
    ”اچھا بیٹی۔ میں ذرا ہاسپٹل ہو آؤں۔ شام تک لوٹ آؤں گا۔ تم گھبرانا نہیں۔دینو سےبےتکلف ہو کر جس شےکی ضرورت ہو کہہ دینا۔ شام کو شاپنگ کےلئےچلیں گی۔“
    وہ خاموش رہی۔ ڈاکٹر ہاشمی ہنستےہوئےاٹھےاور پیار سےاس کےسر پر ہاتھ پھیر کر دروازےکی جانب بڑ ھ گئی۔
    وہ کتنی ہی دیر جانی پہچانی سوچوں میں گم صوفےپر بیٹھی رہی۔ آنسو اس کی پلکوں سےشبنم کےموتیوں کی طرح ڈھلک ڈھلک کر رخساروں پر پھسلتےرہی۔ذہن الجھا رہا۔ دل مچلتا رہا اور لب کپکپا کر ایک ہی نام ‘ ایک ہی خیال کو دہراتےرہی۔
    ”اختر۔کاش اختر۔ وہ سب کچھ نہ ہوتا۔جس نےمجھےاس مقام تک پہنچا دیا۔مجھےسب کچھ ملا اختر مگر تم نہ ملی۔ کیوں اختر؟ تم نےایسا کیوں کیا؟ تمام زندگی کےلئےمجھےیادوں کی چتا میں جلنےکو کیوں چھوڑ دیا؟ بولو ناں اختر۔تم سنتےکیوں نہیں؟کہاںہو تم اختر ۔ کہاں ہو تم؟“
    وہ کتنی ہی دیر روتی رہی ۔ اشک بہتےرہی۔ دل سلگتا رہا۔یادیں آتی رہیں۔ جانےکب تک۔ پھر وہیں صوفےپر بیٹھےبیٹھےوہ نیندکی بانہوں میں سمٹ گئی۔کسی معصوم بچی کی طرح۔
    شادی میں صرف دو دن باقی تھی۔دونوں جانب تیاریاں مکمل ہو گئیں۔
    ڈاکٹر ہاشمی نےاپنی چیک بک کو جی کھول کر استعمال کیا تھا ۔اب ان کی سونی سونی کوٹھی واقعی کسی ایسی لڑکی کا گھر معلوم ہونےلگی تھی‘جس کی رخصتی عنقریب ہونےوالی ہو۔
    وہ بےحد خوش تھی۔بھری دنیا میں ایک بیٹےاور اب اس منہ بولی ‘ چند روزہ مہمان بیٹی کےسوا ان کا تھا بھی کون؟وہ اسےباپ بن کر ہی بیاہنا چاہتےتھی!
    بیگم صاحبہ بھی وقتاً فوقتاًان کےہاں چلی آتیں۔ انہیںاپنےہاں بلا بھیجتیں۔ صلاح مشورےہوتی۔ پھر آنےوالےسہانےدنوں کےخواب حقیقت بن بن کر ان کی ترستی ہوئی پیاسی آنکھوں میں ابھرنےلگتی۔
    رہ گیا طاہر۔تواس کا ایک ہی کام تھا۔دن بھر ٹیلی فون کرکرکےاسےتنگ کرنا۔ آنےوالےخوبصورت دنوں کی باتیں کرنا۔ ٹھنڈی آہیں بھر کر وقت کےجلدی نہ گزرنےکی شکائتیں کرنا۔بےقرار دل کا حالِ زار سنانااور محبت جتانا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا ۔اگر ڈاکٹر ہاشمی اور بیگم صاحبہ کا نادر شاہی حکم نہ ہوتا تو وہ شاید ہر پل زاہدہ کی قربت میں گزار دیتامگر مجبور تھا۔ہاں ‘تھوڑا سا بےشرم ہو کر وہ زاہدہ کےلئےہر روز کوئی نہ کوئی چیز ضرور خریدلاتا۔کبھی ساڑھی۔ کبھی نیکلس۔ کبھی کچھ ۔کبھی کچھ۔
    بیگم صاحبہ سب کچھ دیکھ کر‘سب کچھ جان کر بھی ‘ہولےسےمسکرا کر خاموش ہورہتیں۔اور بس۔ عجیب بات تھی کہ انہیں اب بھی اس بات پر یقین نہ آتا تھا کہ ان کےبیٹےکی شادی ہو رہی ہی۔ اب بھی ان کا وہم انہیں اندر سےڈرائےرکھتا تھا۔
    طاہر دفتر میں سارا سارا دن بچوںکی طرح ہر ایک کو چھیڑتا رہتا۔ہر ایک کو تنگ کرتا رہتا۔سب اس کی خوبصورت شرارتوں کو مالک کےپیار سےزیادہ ایک سچی‘مخلص اور پیارےدوست کا حق سمجھ کر برداشت بھی کرتےاور موقع ملنےپر بدلہ بھی چکا دیتی۔
    ”امبر۔۔۔تم بھی جلدی سےشادی کرلو۔ایمان سے آدمی مرنےسےپہلےہی جنت میں داخل ہو جاتا ہی۔“طاہر کہتا اور وہ بیر بہوٹی بن کر رہ جاتی۔
    اب تو چند دنوں کی بات تھی ۔ پھر۔۔۔ اور اس” پھر “سے آگی‘ وہ بڑےحسین تصورات میں گم ہو جاتا۔کھوکر رہ جاتا۔ ”زاہدہ ۔ “ایک نام اس کےلبوں پر آتا اور وہ مدہوش سا ہو جاتا ۔
    دوسری طرف زاہدہ کسی اور ہی دنیا میں تھی۔ سب کچھ ‘ اس کی آنکھوں ‘ جاگتی آنکھوں کےسامنےہورہا تھا۔وہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔محسوس کررہی تھی لیکن اسےیہ سب خواب معلوم ہورہا تھا۔ایک ایسا خواب جس میں بےچینی تھی ‘بےسکونی تھی‘بےاطمینانی تھی۔وہ راتوں کو بےقراری سےکروٹیں بدلتی رہتی ۔اضطراب اس پر حاوی رہتا۔ذہن منتشر منتشر سا۔دل مسلا مسلا سا ۔ سوچیں ادھوری ادھوری سی ۔خیالات بکھرےبکھرےسی۔وہ خود کو نامکمل سی محسوس کرتی۔قطعی نامکمل ‘ تشنہ اور ادھورا۔
    یہ ادھورا پن‘یہ تشنگی‘ یہ اضطراب‘صرف اور صرف ماضی کی ان بےقرار یادوں کےباعث تھاجو اسےایک پل کو چین نہ لینےدیتی تھیں۔ اس کےہر تصورپر اختر‘ہر پل‘ ہرلمحہ‘ چھایا رہتا۔اس نےجتنا ماضی سےدامن چھڑانا چاہا‘ مستقبل اتنا ہی اس سےدور ہوتا چلا گیا۔ وہ یادوں کےگھور اندھیروں میں ڈوبی‘ اشکوں کےچراغ جلاتی رہتی مگرکوئی راستہ ‘ کوئی منزل‘ کوئی راہگزر نگاہوں کےہالےمیں تیرتی نظر نہ آتی۔
    محبت کھیل نہیںکہ بغیر چوٹ دیےختم ہو جائے۔۔۔یہ احساس اسےشدت سےہورہا تھا۔ پوری تندی و تیزی سےیہ طوفان اسےاپنی لپیٹ میں لےرہا تھا اوروہ بےبسی سےاپنی نم آنکھوں میںچبھتےنوکیلےکانٹوں کی چبھن اپنی روح پر محسوس کرتےہوئے آنسو آنسو ہو کر چیخ پڑتی۔چلا اٹھتی۔
    ”اختر کہاںہو تم۔ ظالم! یہ کس جہنم میں دھکیل دیا ہےتم نےمجھی۔ ایک بار۔ صرف ایک بار سامنےتو آؤ۔مجھےیقین تو ہوجائےکہ تم وہ نہیں ہو‘جو صرف ایک رات کےلئی‘ایک مختصر سےوقفےکےلئےنظر آئےتھی۔ اور اگر وہی ہو‘ جسےمیں نےصدیوں اپنےدل کےنہاں خانےمیںچھپائےرکھا تو میں وہی بن جاؤں‘ جو تمہارےلئےدیوی تھی۔تمہاری داسی تھی۔ تمہاری تھی اختر۔صرف تمہاری!“۔۔۔مگراس کےدل کی یہ پکار‘جذبات کی صدا کوئی بھی تو نہ سن سکتا تھا۔کوئی بھی تو نہیں۔ اختر بھی نہیں!
    جوں جوں وہ یادگار دن قریب آرہا تھا جس کی خاطرطاہر نےاسےفرش سےعرش پر لا بٹھایا تھا۔جس کےانتظار میں اس نےہر پل سپنےدیکھےتھی۔خواب سجائےتھے‘ توں توں وہ اداسی‘ یاسیت اور خاموشی کی گھمبیر وادیوں میں اترتی چلی جارہی تھی۔ اس لئےکہ خوابوں کا شہزادہ وہ نہیں تھا جسےاس نےدھڑکن کی طرح دل میں چھپا رکھا تھا۔ تعبیر وہ نہیں تھی جو اس نےاپنےتصورات کےسہارےسوچ رکھتی تھی۔ پھراسےاپنی اس جذباتی غلطی‘ حالات سےگھبرا کر مایوسی کی باہوں میں پناہ لےلینےکےخوفناک گناہ پر پچھتاوا ہونےلگتا۔ کتنا بھیانک تھا اس ایک لمحےکی لرزش کا انجام‘ جو اس نےطاہر کی محبت کےسامنےسر جھکا کر کی تھی۔ وہ آج بھی اپنےخیالات میں اخترکو بسائےہوئےتھی۔ اختر کو بھلا دینا اس کےبس میں نہیں تھا۔
    اس کی زندگی ‘ جیسےبہارو ں بھرےگلشن میں تمام عمر کےلئے آگ میں جلنےجارہی تھی۔اور اسےیہ سب کچھ بہرحال سہنا تھا۔رو کر یا ہنس کر۔
    ” زاہدہ بیٹی۔تم چھ بجےکےقریب ہاسپٹل چلی آنا۔ میں کار بھیج دوں گا۔“
    ”جی مگر۔۔۔“وہ شاید وجہ پوچھنا چاہتی تھی ۔
    ”بیٹی۔ بیگم صاحبہ کا فون آیا تھا۔ وہ بھی آرہی ہیں شام کو ۔وہ تمہیں اپنےساتھ شاپنگ پر لےجانا چاہتی ہیں۔ تمہاری پسند کی کچھ چیزیں خریدیں گی۔“ ڈاکٹر ہاشمی کا لہجہ معنی خیز ہو گیا۔
    وہ نہ چاہتےہوئےبھی پھیکےسےانداز میں مسکرادی۔”جی بہتر۔“
    ”اللہ حافظ۔“انہوں نےرابطہ ختم کر دیا۔وہ کتنی ہی دیر تک بےجان‘ ٹوں ٹوں کرتےریسور کو تھامےکھڑی جانےکیا سوچتی رہی۔
    کلاک نےپانچ بجا ئےتو وہ چونک پڑی۔ آہستہ سی‘ ایک طویل ‘تھکی تھکی سانس لےکر پلٹی ۔اس کی بےچین نظریں بےاختیار اپنی کلائی پر بندھی خوبصورت سی رسٹ واچ پر جم گئیںجو اسےڈاکٹر ہاشمی نےخرید کر دی تھی۔
    پھر وہ نچلےہونٹ کو دانتوں میں داب کر آنکھوں میں تیرجانےوالے آبدار موتیوں کو روکنےکی ناکام کوشش کرتی ہوئی صوفےپر اوندھی گر پڑی۔ سسکیاں کمرےکی خاموش اور اداس فضا کےبےجان بُت پر آہوں ¾دبی دبی ہچکیوں اور بےقرار جذبات کےپھول نچھاور کرنےلگیں۔ وہ کتنی ہی دیر تک بلکتی رہی۔ پھر ” ٹن“ کی مخصوص آواز کےساتھ کلاک نےوقت کےبوڑھے‘ متحرک‘رعشہ زدہ سر پر پہلا ہتھوڑا کھینچ مارا تواسےیوں محسوس ہواجیسےیہ ضرب ‘ یہ چوٹ اس کےدل پر لگی ہو۔ چھ بج چکےتھی۔
    وہ اٹھی اور باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔منہ ہاتھ دھو کر باہر آئی اور صوفےپر بیٹھ کر پھر کسی سوچ میں گم ہوگئی۔اس کی خوبصورت‘ مدھ بھری آنکھیںسوجی سوجی نظر آرہی تھیں۔
    ”سلام بی بی جی۔“ کچھ دیر بعد ایک آواز سن کر وہ چونکی۔ڈرائیوردروازےمیںکھڑ تھا۔ وہ خاموشی سےاٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باہر نکل آئی۔ڈرائیور بھی اس کےپیچھےہی باہر چلا آیا۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعدوہ ڈاکٹر ہاشمی کےچھوٹےسےہاسپٹل کےکار پارک میں اتری۔ ڈرائیور کار کو آگےبڑھالےگیااور وہ سر جھکائےاندر کو چل دی۔
    ” تم آگئیںبیٹی۔ آؤ۔ بیٹھو۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےاسےاندر داخل ہوتےدیکھ کر کہا اور ہاتھ میں موجود ایکسرےکو روشنی کےہالےمیں لا کر غور سےدیکھنےلگی۔قریب کھڑی نرس ان کی جانب منتظر نظروں سےدیکھ رہی تھی۔
    ”اس میں تو کوئی گڑ بڑ نہیں ہی؟“ وہ ایکسرےکو میز پر رکھتےہوئےپرسوچ انداز میں بولی۔”تم اس مریض کےکمرےمیں چلو۔میں آرہا ہوں۔“
    ”یس سر۔“نرس تیزی سےباہر نکل گئی۔
    زاہدہ سر جھکائےناخن سےمیز کی سطح کریدرہی تھی۔
    ”کیا بات ہےبیٹی۔ تم کچھ اداس ہو؟“ انہوں نےپوچھا۔
    ”جی ۔ ۔۔جی نہیں تو۔ “وہ پھیکےسےانداز میں بادل نخواستہ مسکرا دی۔
    ”ہوں۔بیگم صاحبہ کے آنےمیںتوابھی کچھ دیر ہی۔ آؤ۔تمہیں دکھائیں کہ ہم مریض کےساتھ کیا سلوک کرتےہیں۔“وہ رسٹ واچ سےنگاہ ہٹا کراٹھتےہوئےمسکرائی۔زاہدہ بےاختیار کھڑی ہوگئی۔تنہائی میں اگر وہ پھر بےقابو ہوجاتی اور بیگم صاحبہ آجاتیں تو؟یہی سوچ کر اس نےانکار مناسب نہ سمجھا اور ان کےپیچھےچلتی ہوئی کاریڈور میں نکل آئی۔ بایاں موڑ مڑتےہی پہلا کمرہ ان کی منزل تھا۔ وہ ان کےپیچھےکمرےمیں داخل ہوئی۔ ٹھیک اسی وقت مریض کےبستر کےقریب کھڑی نرس ڈاکٹر ہاشمی کی جانب پلٹی۔
    ”سر۔ اسےہوش آرہا ہی۔ “پرےہٹتےہوئےاس نےان راستہ دیا۔
    ڈاکٹر ہاشمی تیزی سےبستر کےقریب چلےگئےاور جھک کر اس کا معائنہ کرنےلگی۔ زاہدہ بےمقصد ہی ادھر ادھر دیکھنےلگی۔
    ”اس کی والدہ کہاں گئیں؟“
    ”جی۔ وہ اپنےہسبینڈ کو فون کرنےگئی ہیں۔“
    ”ہوں۔“وہ سیدھےکھڑےہوگئی۔
    تب۔۔۔پےدرپےکئی دھماکےہوئی۔روشنی اور اندھیرےکےملےجلےجھماکے‘ جو اس کی آنکھوں کو چکا چوند کرگئی۔ہر شےجیسےاس کی نظروں سےاوجھل ہوگئی۔ زمین لرزی۔ آسمان کانپااور وہ لڑکھڑا گئی۔اس کی حیرت زدہ‘ پھٹی پھٹی آنکھیں‘بستر پر پڑےاختر پر جمی تھیں۔اس کےہونٹوں سےچیخ نکلتےنکلتےرہ گئی۔
    ڈاکٹر ہاشمی اس کی دگرگوں ہوتی حالت کو دیکھ کر بری طرح گھبرا گئی۔
    ”بیٹی۔ کیا بات ہی؟“وہ تیزی سےگرتی ہوئی زاہدہ کی جانب لپکےاور اسےباہوں میں سنبھال لیا۔ پھران کی بےچین آنکھوں نےزاہدہ کی حلقوں سےابلتی‘ برستی آنکھوں کا محور پالیا۔وہ سن سےہو گئی۔
    ”زا ۔۔۔ ہدہ ۔۔۔“ہڈیوں کےاس پنجر کےسوکھےہوئےخشک لب ہلی۔
    ”اختر۔“جیسےکسی زخمی روح نےتڑپ کر سرگوشی کی۔
    ”زاہدہ۔ ۔۔کہاں ۔۔۔ہو ۔۔۔تم ؟“ایک درد بھری صدا نےاس کا صبر و قرار چھین لیا۔
    ”اخ۔۔۔“ آواز اس کےگلےمیں گھٹ کر رہ گئی۔
    ”بیٹی۔ “ڈاکٹر ہاشمی جیسےہوش میں آگئی۔ ان کی تحیر زدہ نظروں میں اب دردسا امنڈ آیاتھا۔
    زاہدہ بت بنی کھڑی‘ روتی ہوئی آنکھوں سےسرسوں کےاس پھول کو دیکھےجارہی تھی‘جو شایدمرجھانےجارہا تھا۔اس کےچہرےکےنقوش درد‘اضطراب ‘ کسک اور تڑپ کےرنگوں میں نئےنئےروپ دھار رہےتھی۔نرس حیرت بھری نظروں سےیہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ تب۔۔۔ آہستہ سےدروازہ کھلااور کوئی اندر داخل ہوا۔کوئی سامنےچلا آیا۔
    ”زاہدہ۔“ حیرت اور یاس میں ڈوبی ایک آواز گونجی۔چندلمحےحیرت ‘بےچینی اور آنکھوں کی دھندلاہٹ کی نظر ہوگئی۔پھرکوئی تیزی سے آگےبڑھااوراس سےایک قدم کےفاصلےپر رک گیا۔
    ”تم۔۔ ۔تم کہاں تھیں بیٹی؟“
    وہ چونک سےپڑی۔حواس میں آگئی۔سنبھل گئی۔
    ” آپ؟“ اس کےلبوں سےمری مری آواز نکلی اور ”بیٹی“ کےلفظ نےاسےپھر حیرت سےگنگ کردیا۔
    ”ہاں بیٹی۔“ چچی آنکھوں سےامنڈنےوالے آنسوؤں کو رخساروں پر بہنےسےنہ روک سکیں۔”میں ۔تمہاری مجرم۔ تمہاری گناہ گار۔“
    وہ اس کانپتی ہوئی آواز سےڈر سی گئی۔ لڑکھڑا گئی۔تب کسی نےاسےسہار لیا۔ڈاکٹر ہاشمی نےرخ پھیر لیا۔
    ”میرا بیٹا۔۔۔ مررہا ہےبیٹی!“ایک کراہ ابھری۔
    وہ انہیں گھورتی رہی۔اپنی بےرحم چچی کو۔
    ”اختر تمہارےلئےمر رہا ہےبیٹی۔“ وہ بمشکل بولیں۔
    وہ خاموش کھڑی رہی۔
    ”میں ہاتھ جوڑتی ہوں بیٹی۔“انہوںنے بوڑھےمگر سنگلاخ ہاتھ جوڑ دیی۔
    وہ پتھرائی ہوئی بےنور سی آنکھوں سےانہیں دیکھتی رہی۔
    ” زاہدہ۔“ایک ماں کی کانپتی ہوئی آواز نےاسےچونکا دیا۔ مرجھاتےہوئےگلاب کو خزاں کےجھونکےنےہلکورا دیا۔”تمہارا اختر مر۔۔۔“ہچکیاں نامکمل رہ گئیں۔
    ”زاہدہ۔۔۔ کہاں ہو تم ؟“اختر کےہونٹ کپکپائی۔
    ”اختر۔“وہ مزید نہ سہہ سکی۔ بھاگی۔ لڑکھڑائی اور جا کر اس کےسینےسےلپٹ گئی۔
    ”زاہدہ۔“ آواز میں زندگی عود کر آئی۔
    ”اختر۔“وہ بیقراری سےبولی۔
    ”تم۔۔۔“ آواز میں درد کم ہوا۔
    ”میں یہاں ہوں اختر۔تمہارےپاس۔“ وہ سسک اٹھی۔
    ”زاہدہ۔“ایک ‘ہچکی ابھری اور۔۔۔ گردن ڈھلک گئی۔
    ”اختر۔ ۔۔“ایک چیخ لہرائی۔
    ”یہ بےہوش ہوچکا ہےبیٹی۔“ایک اداس سی آواز نےاسےزندگی کی نوید دی۔ ”اس کا کمزور دماغ اس ناممکن حقیقت کو سہہ نہیں سکا۔“ڈاکٹر ہاشمی کی افسردہ سی آواز ابھری۔
    ”اسی۔۔۔“
    ”زندگی دینےوالا خداہےبیٹی۔“انہوں نےزاہدہ کی بات کاٹ کر اسےبستر سےاٹھایا اور کمرےسےباہر جانےکا اشارہ کیا ۔ پھر سفید لباس میں ملبوس نرسوں کےہمراہ ڈاکٹر ہاشمی نےاختر کےبستر کو گھیرےمیں لےلیا۔
    ”تم نےمجھےمعاف کردیا بیٹی۔“ خودغرضی نےنیا روپ دھار لیا تھا۔
    ”چچی جان۔“ وہ ان سےلپٹ گئی۔
    پچیس منٹ پچیس صدیاں بن کر گزری۔ پھرڈاکٹر ہاشمی باہر چلے آئی۔وہ تیزی سےان کی طرف بڑھی۔ نرسوں کا ٹولہ بھی کمرےسےنکل گیا۔
    اب چچا بھی ان دونوں کےساتھ تھی۔ نادم نادم سی۔کھوئےکھوئےسی۔ ڈاکٹر ہاشمی نےبڑی یاس بھری نظروں سےاسےدیکھا اور دھیرےسےاثبات میں سر ہلا کر آگےبڑھ گئی۔ وہ بھاگتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔چچی بھی اس کےپیچھےلپکی۔
    ”نہیں۔ “چچا نےچچی کو روک لیا اور وہ نجانےکیوں مسکرا دیں۔مطمئن سی ہو کر۔
    ”اختر۔۔۔“اندر وہ اس کےسینےپر سر رکھےروئےجارہی تھی۔
    ”زاہدہ۔“وہ اسےاپنےسینےمیں سمونےکی کوشش کررہا تھا۔ اس کی آنکھیں بھی جی بھر کر ارمان نکال رہی تھیں۔

    * * *​
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کمال ہے ساری کہانی کو گھما کے رکھ دیا۔
    اور بے چاری زاہدہ رانی کو چکرا کے رکھ دیا

    شعر بھی ہوگیا۔ اور تبصرہ بھی ۔
    ویسے ۔۔ اکثر جملوں کے آخر میں " ے "‌کی بجائے " ی " کیوں آجاتا ہے ؟

    جیسے طاہر آ گئی ، ڈاکٹر ہاشمی بولی ۔۔ وغیرہ وغیرہ ؟
     
  3. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اسلام علیکم نعیم بھائی
    یہ مجھے بھی سمجھ نہیں لگی کہ ے کی بجائے ی کیوں‌بن گیا
    بہر حال میں نے پوری کوشش کی ہے کہ آئیندہ ایسا نہ ہو جہاں مجھے محسوس ہوا میں نے اس کو مٹا کے دوبارہ لکھ دیا
    شائد کسی دوسری فارمٹ میں ہونے کی وجہ سے بھی ایسا ہو
    ایک بات پوچھنی تھی آپ سے کہ تدوین کرنے کے لیے مجھے اردو فونٹس کیسے سلیکٹ کرنے ہوں گے ؟
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    آپ ایڈ کو کلک کریں اس کے بعد آپ لکھیں گے تو انگلش میں لکھا جائے گا اس لئے دوبارہ ایڈوانسڈ پہ کلک کریں پھر اردو لکھی جائے گی یہی وجہ ھے یا کچھ اور
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عرفان پتوکی بھائی ۔
    جیسا کہ خوشی صاحبہ نے بتایا ہے ۔۔۔ ہماری اردو میں، تدوین کے مرحلہ اول میں اردو فونٹ انسٹال نہیں ہیں۔ اسکے لیے آپکو تدوین کے بعد مرحلہ ثانی میں داخل ہونے کے لیے تدوین بکس کے نیچے " ایڈوانسڈ" پر کلک کرنا پڑتا ہے وہاں آپکو اردو فونٹ دستیاب ہوں گے۔

    والسلام
     
  6. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جی شکریہ خوشی جی اور نعیم بھائی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں