1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کا قاف ( سرفراز احمد راہی) 11

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏18 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عشق کا قاف
    سرفراز احمد راہی​



    طاہر کےکہنےپر ڈاکٹر ہاشمی نےانتظار کرنا گوارا تو کر لیا مگر ان کےدل کا حال کچھ وہی جانتےتھے۔ جوان اور اکلوتےبیٹےکی گمشدگی اور مفقود الخبری نےانہیں ایک دم بوڑھا کر دیا ۔ ان کی قابل رشک صحت کو جیسےنظر لگ گئی۔ ہاسپٹل میں بیٹھنا بالکل ختم کر کےوہ طاہر کے آفس کےہو کر رہ گئی۔ امبر انہیں روزانہ فون کر کےتسلی و تشفی دیتی۔ پروفیسر قمر ان کےغم میں برابر کا شریک تھا۔ رہ گیا طاہر‘ تو اس نےکام کی زیادتی کا بہانہ کر کےزیادہ وقت آفس میں گزارنا شروع کر دیا تھا۔ اپنےطور پرلندن‘ سعودیہ اور انڈیا میں موجود اپنےواقف کار مختلف لوگوں سےرابطہ کر رکھا تھا۔ مگر نتیجہ ابھی تک ڈھاک کےتین پات ہی تھا۔
    اس دن طاہر نےسوچ سوچ کر ایک فیصلہ کیا۔ اپنا پاسپورٹ امبر کو بھجوایا اور فون پر اسےخاص انسٹرکشنز دیں۔ امبر نےاس سےبحث نہیں کی‘ صرف یہ کہا کہ اگر وہ مناسب سمجھےتو اسےساتھ لےجائےمگر طاہر نےاسےنرمی سےٹال دیا۔ رات سونےسےپہلےصفیہ کو مخاطب کرتےہوئےاس نےکہا۔
    ”مجھےچند دنوں کےلئےانڈیا جانا ہے۔ “
    ”کب؟“ صفیہ نےچونک کر پوچھا۔ ”اور کیوں؟“
    ”ایک خاص کام سےجانا ہےاور کیا مجھےوہاں فلم میں کام کرنا ہے؟“ طاہر نےمحبت سےکہا۔
    ”ویسے آپ کسی ہیرو سےکم بھی نہیں ہیں۔“ صفیہ نےشرارت سےاس کی جانب دیکھا۔ ”مگر اس سےپہلے آپ کبھی ایسےٹور پر گئےتو نہیں؟“
    ”یہ بھی اچھی رہی۔“ طاہر نےہنس کر کہا۔ ” ارےبھئی اب تم نےہمیں اپنےپلو سےباندھ لیا ہےتو اور بات ہےورنہ تو میرےمہینےمیں بیس دن ملک سےباہر گزرتےتھے۔“
    ”اچھا۔“ صفیہ مسکرائی۔ ” تو اکیلےجا رہےہیں کیا؟“
    ”ہاں۔“ طاہر نےصاف گوئی سےجواب دیا۔
    ”کتنےدن کےلئےجا رہےہیں؟“ بستر پر لیٹی ہوئی وہ اس کےکالرسےکھیلتےہوئےبولی۔
    ”دو دن بھی لگ سکتےہیں اور دو ہفتےبھی۔ یہ تو کام ختم ہونےپر منحصر ہے۔“
    ”اور جانا کب ہے؟“ وہ اداس ہو رہی تھی۔
    ”کل شام ۔“
    ”مجھےروزانہ فون کرنا ہو گا۔“ صفیہ نےکہا اور اس کےسینےمیں چہرہ چھپا لیا۔
    ”ایک بات کہوں صفو۔ برا نہ ماننا۔’“ طاہر نےاس کا چہرہ سامنےلانا چاہا مگر وہ زور لگا کےاس کےسینےمیں گھسی رہی۔
    ”میں سن رہی ہوں۔“ اس نےوہیں سےجواب دیا۔
    ”میں وہاں جا کر تمہیں ہرگز فون نہیں کروں گا۔“
    ”وہ کیوں؟“ اس نےچہرہ اٹھایا۔
    ”میں جس کام سےجا رہا ہوں ناں صفو۔ اس میں تمہاری یاد ضروری ہیے۔ جو ہر وقت میرےساتھ رہےگی۔ تم سےرابطہ کروں گا تو بےچینی لگ جائےگی۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی بھی پہلو سےاس کام میں مجھےڈسٹربنس ہو اور میں جلدی لوٹ آنےکےچکر میں پڑ جائوں۔ اس لئےمیری جان۔۔۔ فون پر کوئی رابطہ نہیں ہو گا۔ “
    ”ٹھیک ہے۔“ اس نےپھر چہرہ اس کےسینےمیں چھپا لیا۔
    ”اری۔ پاگل ہوئی ہو۔ “ اسےاپنےسینےپر صفیہ کی نم آنکھوں کا احساس ہوتو بےچین ہو گیا۔ ”اگر تم ایسےکرو گی تو میں ہرگز نہیں جائوں گا۔“
    ”یہ میں نےکب کہا؟“ وہ وہیں سےبولی۔”بس آپ جلدی آ جائیےگا۔“
    طاہر نےاسےباہوں کےحلقےمیں کس لیا اور کسی سوچ میں ڈوب گیا۔
    ٭
    اس دن صبح ڈاکٹر ہاشمی طاہر کے آفس پہنچےتو مینجرنےانہیں کافی وغیرہ پلانےکےبعد طاہر کی طرف سےایک لفافہ دیا۔ انہوں نےچشمہ درست کرتےہوئےلفافہ چاک کیا۔ اندر سےخط نکالا ۔ لکھا تھا۔
    ”انکل۔
    میں انڈیا جا رہا ہوں۔ سرمد کےبارےمیں کچھ نہ کچھ ہےجو ہمیں وہیں سےمل سکتا ہے۔میں نےلندن یونیورسٹی سےریحا کا ایڈریس لےلیا ہے۔ اس سےملنا بہت ضروری ہے۔ آپ کا ساتھ نہ جانا اس لئےبہتر ہےکہ جس دُکھ کی حالت اور عمر کےحصےمیں آپ ہیں وہاں بیٹےکا فرض بنتا ہےکہ آپ کو آرام کرنےکو کہےاور خود آپ کےلئےسُکھ کی تلاش میں نکلے۔ میں بھی ایسا ہی کر رہا ہوں۔ سرمد کےساتھ میں بھی آپ کا بیٹا ہی ہوں۔ میں یہی سمجھتا ہوں اور آپ مجھےکیاسمجھتےہیں‘ یہ کہنےکی بات نہیں۔روزانہ آفس آتےرہئےگا۔ کافی ‘ سینڈوچ اور کریم پف آپ کا انتظار کرتےملیں گے آپ کو۔ دعا صرف یہ کیجئےگا کہ میں آپ کےلئےخوشی کی خبر بن کر واپس آئوں۔
    آپ کا: طاہر
    ڈاکٹر ہاشمی نےخط میز پر ڈال دیا اور کسی سوچ میں ڈوبے‘ سیٹ کی پشت سےٹیک لگا کر نیم دراز ہو گئے۔ انہیں نجانےکیوں لگ رہا تھا کہ طاہر نےانہیں ساتھ نہ لےجا کر غلط نہیں کیا۔
    ٭

    پندرہ دن کا وقت پر لگا کر اُڑ گیا۔
    دائود نےسرمد کو ٹریننگ کیمپ میں زین خان کےحوالےکیا۔ اسےکمانڈر کےحکم سے آگاہ کیا اور خود تین ساتھیوں کےساتھ لوٹ گیاتھا۔
    ٹریننگ کیمپ کشمیر کی اترائی میں ایک ایسی جگہ قائم تھا جہاں سے آزاد کشمیر کو جانےوالا ایک محفوظ تر خفیہ راستہ موجود تھا۔ بھارتی افواج کی نگاہوں سےیہ مقام اس لئےبھی پوشیدہ تھا کہ اوپر سےیہ گہری کھائی لگتا تھا‘ جس میں اترنا بظاہر محال مگر بباطن بیحد آسان تھا۔ آسان ان کےلئےجو اس اترائی میں جانےوالی قد ِ آدم گھاس میں چھپی اس پگڈنڈی سےواقف تھےجواپنےمسافروں کےقدموں کےنشان اس طرح اپنی آغوش میں چھپا لیتی تھی جیسےکوئی ماں اپنےبیٹےکےعیب پر پردہ ڈال لیتی ہے۔
    زین خان نےپندرہ دن میں سرمد کو کلاشنکوف‘ ریوالور اور راکٹ لانچر چلانےمیں طاق کر دیا۔ گوریلا ٹریننگ کےباقی مراحل میں اس نےسرمد کو خاص خاص باتوں سےواقف کرایا اور سولھویں دن رات کو وہ پھر شکارےپر کمانڈرکےسامنےموجود تھا۔
    ”بیٹھو سرمد۔“ کمانڈر نےزین خان کو باہر جانےکا اشارہ کیا۔ وہ سیلوٹ کر کےکمرےسےنکل گیا۔سرمد کمانڈر کےسامنےدوزانو بیٹھ گیا۔ آج وہ گوریلا یونیفارم میں تھا۔ سر پر سفید رومال بندھا تھا جو سر پر کفن باندھ کر راہ ِ خدا میں نکل پڑنےکی علامت تھا۔ کمانڈر کچھ دیر فرش کو گھورتےسرمد کی جانب بڑی گہری نظروں سےدیکھتا رہا ۔ پھر اس کےلبوں پر بڑی آسودہ سی مسکراہٹ ابھری۔
    ”کوئی الجھن؟ کوئی پچھتاوا؟ کوئی بےچینی سرمد؟“
    ”نہیں کمانڈر۔“ سرمد نےنفی میں سر ہلایا۔ ”بس یوں لگتا ہےجیسےمیں کہیں جاناچاہتا ہوں۔ کوئی مجھےبلا رہا ہے۔ یہ مرحلہ طےنہیں ہو رہا۔“
    ”ہاں۔“ کمانڈر کےچہرےپر سنجیدگی نےجنم لیا۔ ”یہ ہوتا ہی۔ جب تم جیسےسچےجذبوں والےسر پر کفن باندھ لیتےہیں تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ بلاوا آ جاتا ہےتو انتظار مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک بات ذہن میں بٹھا لو سرمد۔جس مشن کےلئےمیں نےتمہیں چُنا ہے‘ اس کی کامیابی اور ناکامی سےزیادہ یہ بات اہم ہےکہ تم اس میں کیا کردار ادا کرتےہو؟ کشتیاں جلا کر جانا ہو گا تمہیں۔ واپسی کس روپ میں ہو گی‘ کوئی نہیں کہہ سکتا لیکن یہ طےہےکہ تم جس پکار پر جارہےہو ‘ اس کےلئےجان لینا اور جان دینا ‘ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔“
    ”مجھےصرف اس بات کی پروا ہےکمانڈر کہ میں جس تڑپ کےہاتھوں بےحال ہو رہا ہوں اسےقرار کب ملےگا؟کیسےملےگا؟“ سرمد نےنظر اٹھائی۔ اس کی آنکھوں میں تیرتےسرخ ڈوروں سےمستی سی چھلک رہی تھی۔
    ”عشاق میں شامل ہوئےہو سرمد۔ عشق تم پر نازل ہو چکا ہے۔ فصل پک چکی ہے۔ اب تو پھل پانےکا موسم ہے۔اپنی بےقراری کو مہمیز کرتےرہو۔ یہ ضروری ہے۔ تمہارےلبوں پر جو ورد جاری ہوا ہےاس کا کوئی مقصد ہے۔ کوئی اشارہ ہےاس میں ۔کوئی رمز ہےاس کےاندر۔ “
    سرمد نےچونک کر اس کی جانب دیکھا۔ کمانڈر کیسےجانتا ہےکہ وہ ہر وقت درود پڑھتا رہتا ہے؟ اس کےذہن میں سوال ابھرا۔
    ”سوالوں میں نہ الجھو سرمد۔ جواب کی طرف دھیان دو۔ میں نہیں کہہ سکتاکہ تم اس مہم سےزندہ لوٹو گےیا شہادت کا جام تمہارا منتظر ہےلیکن اتنا بتا سکتا ہوں کہ جہاں سےتمہاری ناکامی کو کامیابی میں بدلنےکا حکم جاری ہوا ہے‘ وہاں سےکبھی کوئی خالی ہاتھ نہیں آیا۔ تم بھی لوٹو گےتو کامیاب ہو کر۔ انشا ءاللہ۔“
    ”انشا ءاللہ۔“ بےاختیار سرمد کہہ اٹھا۔
    ”دائود ‘ حمزہ ‘ حسین اور تم سمیت بیس سرفروش اس مہم پر آج رات جا رہےہیں۔ “ کمانڈر نےاپنی جگہ چھوڑ دی تو سرمد بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ ”میں تمہیں کوئی ہدایت نہیں دوں گا۔ تم عشق کا سبق پڑھ چکےہو۔ اب تو اسےسنانےکا وقت ہے۔۔۔ اورسنانےمیں کہیں اٹکنا مت سرمد۔ کہیں زبان کو لڑکھڑانےمت دینا۔ جائو اور سرخرو ہو جائو۔“۔ کمانڈر نےدونوں ہاتھ اس کےسر پر رکھ دیے۔ پھر پیشانی پر بوسہ دیااور کھینچ کر اسےسینےسےلگا لیا ۔”ان سےکہنا۔ میں تمہارا کوئی ناز نہیں اٹھا سکا۔ مجھےمعاف فرمادیں۔“ اس نےسرمد کےکان میں سرگوشی کی۔
    ایک دم جیسےسرمد کا سارا جسم جھنجھنا اٹھا۔ ایک کیف سا رگ و پےمیں دوڑ گیا۔ اسےلگا کہ اس کا جسم ایک بار پھر ہوا سےہلکا‘ بےوزن ہو گیا ہی۔ کمانڈر نےکس کےبارےمیں یہ بات کہی؟ اس نےسوچنا ہی نہ چاہا۔ جیسےاسےسمجھ آ گیا ہو۔ جیسےاس نےسب جان لیا ہو مگر اس کا بولنےکو جی ہی نہ چاہا۔ وہ بےزبان ہو گیا۔ سبق یاد ہو جانےکی بات اس کےدل سےاٹھکیلیاں کر رہی تھی۔کمانڈر کا پیغام اسےلوریاں دےرہا تھا۔
    کمانڈر نےاسےخود سےالگ کیا۔ دونوں ہاتھوں کےپیالےمیں لےکر اس کےچہرےکو اپنی برق لٹاتی نم آنکھوں سےدیکھا اور بےاختیار اس کےدائیں گال پر پیار کر لیا۔ پھر ایک قدم پیچھےہٹا اور سرمد کی مست نگاہی نےدیکھا کہ دونوں پائوں جوڑ کر کمانڈر نےاسےایک زوردار سیلوٹ کیا۔ جواب میں وہ بھی ایک قدم پیچھےہٹا اور کمانڈر کو سیلوٹ کر کےواپسی کےلئےپلٹ گیا۔
    وہ جا چکا تھا مگر کمانڈر اسی طرح اپنی تین انگلیوں سےپیشانی چھوئےہوئےدروازےکو گھور رہا تھا۔ بھیگی ہوئی دھند تھی کہ آنکھوں میں بڑھتی جا رہی تھی۔ لو دیتی شبنم تھی کہ تن من کو بھگو رہی تھی اور جھومتا ہوا دل تھا کہ ایک ہی ورد الاپ رہا تھا۔
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔“

    رات کا آخری پہر شروع ہو چکا تھا۔
    دائود کی کمان میں وہ انیس سرفروش تاروں کی باڑ کاٹ کر زمین پررینگتےہوئےاندر داخل ہوئے۔ چھائونی نمبر سینتالیس کےاندر اپنےاپنےٹارگٹ پر ریموٹ کنٹرول بم نصب کئے۔پھر سانپ کی سی تیزی سےاپنا کام ختم کر کےاپنی اپنی جگہ دم سادھ کر بیٹھ گئے۔ سرچ لائٹ سےبچ بچا کر کام کرنابہت مشکل تھا مگر وہ مشکل کو نہیں ‘ ناممکن کو ممکن کر دکھانے آئےتھے۔
    مشن کا پہلا مرحلہ طےہو گیا تو اپنی اپنی جگہ سےانہوں نےبڑی ترتیب کےساتھ چھائونی کےاندر مختلف جگہوں کو تاک لیا۔ دائود ‘ حسن اور سرمد کےحصےمیں ٹارچر سیل سےقیدیوں کو رہا کرانےکی ذمہ داری آئی۔ حمزہ نےسات ساتھیوں کےساتھ ایمونیشن ڈپو اڑانےکا کام سنبھالا۔ قاسم اور اس کےچار ساتھیوں کو چھائونی کا دایاں اور خالد اور اس کےچار ساتھیوں کو بایاں حصہ تباہ کرنا تھا۔
    سب سےپہلےقاسم نےاللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اپنےساتھیوں سمیت سامنے آ گیا۔ ریموٹ کا بٹن دباتےہی چھائونی کی سرچ لائٹ والا حصہ دھماکوں کی زد میں آ گیا۔ چیخیں‘ شور‘ دھماکے‘ فائرنگ۔ ایک قیامت برپا ہو گئی۔ بیس سیکنڈ بعد ان کی تقلید میں خالد نےبایاں حصہ اڑا دیا اور اب وہ دس کےدس سرفروش ‘ بھارتی فوجیوں کےلئےجہنم کےدہانےکھولےمیدان میں پھیلےہوئےانہیں گولیوں سےبھون رہےتھے۔
    اس افرا تفری کا فائدہ اٹھاتےہوئےدائود ‘ سرمد اور حسن ٹارچر سیل کےقریب پہنچ گئی۔ ہر طرف دھول اڑ رہی تھی۔ اپنےپرائےکی تمیز ختم ہو چکی تھی۔ سرچ لائٹ کی تباہی نےبھارتی فوجیوں کےلئےبڑی مشکل کھڑی کر دی تھی۔ اندھیرےمیں انہیں اچانک شب خون نےدوہری تباہی سےدوچار کر دیاتھا۔ ان کےاکثر فوجی ان کی اپنی ہی فائرنگ کا شکار ہو رہےتھی۔پھر کسی کو عقل آئی اور اس نےچیخ کر جگہ جگہ کھڑی جیپوں اور دوسری فوجی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس آن کرنےکےلئےکاشن دیا۔ مگر انہیں دیر ہو چکی تھی۔ خالد اور قاسم نےاپنےساتھیوں کےساتھ سرعت کےساتھ حرکت کی اور ساری چھائونی میں بھاگتےدوڑتےہوئےگاڑیوں پر راکٹ لانچروں کی برسات کر دی۔ تب وہاں روشنی کا سیلاب آ گیا۔ہاں۔ بھارتی فوجیوں کی اپنی ہی جلتی ہوئی گاڑیوں سےاٹھتےشعلوں نےہر طرف چراغاں کر دیا مگر یہ چراغاں انہیں بہت مہنگا پڑا۔ پٹرول بموں نےانہیں زندہ جلانےکا کام شروع کر دیا اور وہ جوابی حملےکےبجائےچیختےچلاتےاپنی جانیں بچانےکےلئےدوڑنےلگے۔ بھاگنےلگے۔ تب خالد ‘ قاسم اور ان کےساتھیوں کےلئےان کا شکار اور بھی آسان ہو گیا۔
    دائود‘ سرمد کےساتھ فائرنگ کرتا ہوا ٹارچر سیل کی سیڑھیاں اترتا جا رہا تھا اور وہاں موجود بھارتی فوجیوں کو موت کےگھاٹ اتارنےکا کام بڑی تیزی سےمکمل کر رہا تھا۔حسن تہ خانےکےگیٹ کےاندر کھڑا رہ کر دشمنوں کی خبر لینےلگا۔اس کی کلاشنکوف کےبرسٹ بھارتیوں کےلئےموت کا راگ الاپ رہےتھی۔
    بمشکل ڈیڑھ منٹ میں وہاں موجود تمام درندوں کا صفایا ہو گیا۔ تب انہیں اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لینا پڑی۔
    انہوں نےادھر ادھر سےچادریں‘ پتلونیں اور قمیضیں اٹھا اٹھا کر تباہی و بربادی کی ان داستانوں پر ڈالنا شروع کیں جو انہیں ویران ویران نظروں سےگھور رہی تھیں۔ ان کےبرہنہ جسم اَن کہی کہانیاں سنا رہےتھی۔ جسموں پر نشتروں‘ سگریٹوں اور بھنبھوڑنےکےنشانات درندگی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ زنجیروں اور لوہےکےحلقوں میں جکڑےدیواروں کےساتھ بازئووں کےسہارےاور الٹےلٹکائےگئےزخمی نوجوانوں کو آزادکرانےمیں انہیں تین چار منٹ لگ گئی۔ نوجوانوں میں سےجو تھوڑابہت بھی ہوش رکھتےتھے‘ انہوں نےکتوں کی طرح مرےپڑےبھارتی فوجیوں کی کلاشنکوفیں‘ رائفلیں اور دوسرا اسلحہ اٹھایا اور گرتےپڑتےباہر کو بھاگے۔حسن نےانہیں قطعاً نہ روکا۔ ان کےانتقام کی آگ میں بھارتی درندوں کو جل جانےدینا اس وقت بہت ضروری تھا۔
    سات بیحد نازک حالت میں زخمی آدمی تھےجنہیں باری باری حمزہ اور سرمد نےباہر پہنچایا جہاں انہیں ان کےایک ساتھی نےایک بڑی جیپ میں ڈالااور چھائونی کےخارجی راستےکی طرف طوفانی رفتار سےروانہ ہو گیا۔
    تیرہ لڑکیاں اور عورتیں تھیں جو اپنےعریاں جسموں کو چیتھڑوں ‘ فوجی وردیوں اور چادروں میں سمیٹےباہر نکلیں اور دوسری جیپ میں سوار کر کےانہیں بھی پہلی جیپ کےتعاقب میں روانہ کر دیا گیا۔ اس وقت تک بھارتیوں کو سنبھلنےکا کچھ موقع مل گیا۔ انہوں نےدونوں جیپوں کو روکنےکی بہت کوشش کی مگر جیپوں کےعقبی حصےمیں سوار خالد اور قاسم نےان پر وہ دھواں دھار فائرنگ کی کہ انہیں جان بچانےکےلئےبھاگتےہی بنی۔ ہوا یہ تھا کہ اچانک حملےاور اندھیرےکےباعث ایک تو بوکھلاہٹ میں انہوں نےاپنےبےشمار فوجی مار ڈالے۔ دوسرےان کےنقصان کا ایک بڑا سبب یہ بنا کہ ایک دن پہلےوہاں سےتقریباً تیس ہزار فوجیوں کی نفری چھائونی نمبر انتیس میں منتقل کی گئی تھی۔ ان کی جگہ نئےفوجی دستےپہنچنےمیں ابھی بارہ گھنٹےباقی تھےکہ ان پر یہ قیامت ٹوٹ پڑی۔ بیالیس ہزار کی جگہ اس وقت وہاں صرف بارہ ہزار فوجی تھےجن کا صفایا ایسےشبخون میں ذرا سی سمجھداری سےمشکل تو تھا ‘ ناممکن نہیں۔
    ٹارچر سیل سےفارغ ہو کر سرمد‘ دائود اور حسن بھی حمزہ کےساتھ آ ملی۔ دھماکوں ‘ چیخوں اور فائرنگ کا سلسلہ اب بھی جوبن پر تھا۔ وہ لوگ ایک گڑھےنما مورچےمیں چھپےبیٹھےباہر پھیلتی تباہی کا نظارہ کر رہےتھے۔
    ”اپنےکتنےساتھی کام آئے؟“ دائود نے آواز دبا کر حمزہ سےپوچھا۔
    ”سات۔“ اس نےسپاٹ لہجےمیں جواب دیا۔” ان کی لاشیں ابھی ابھی نکلوائی ہیں یہاں سےمیں نے۔“
    ”اب ہم یہاں کل کتنےلوگ ہیں؟“
    ”چار ۔“ حمزہ کےلبوں پر بڑی ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔”باقی سب کو روانہ کر دیا ہےمیں نی‘ جیپوں اور لاشوں کےساتھ۔“
    سرمد بےچینی سےباہر جھانک رہا تھا۔ اس کی نظریں سامنےایمونیشن ڈپو پر پڑیں تو اس نےچونک کر دائود کی توجہ اس طرف دلائی۔تین چار بھارتی فوجی ڈپو کا بڑا سا لوہےکا گیٹ کھول رہےتھے۔
    ”یہ کیا کرنےجا رہےہیں؟“ دائود سرسرایا۔
    ”میرا خیال ہےاسلحےکےساتھ ریزرو گاڑیاں بھی اندر ہوں گی۔باہر موجود تقریباً تمام گاڑیاں تو بیکار ہو چکی ہیں۔“ حمزہ نےجواب دیا۔
    ”ایمونیشن ڈپو کےگرد کتنےبم نصب کئےگئےہیں؟“
    ”ایک بھی نہیں۔“ حمزہ نےجواب دیا تو دائود کےساتھ ساتھ سرمد اور حسن بھی چونک پڑی۔
    ”وہ کیوں؟“ دائود نےتیزی سےپوچھا۔
    ”بم نوید کےپاس تھےاور وہ سب سےپہلےشہید ہوا۔ اس کی لاش روانہ کر دی گئی تو خیال آیا ۔۔۔“
    ”اوہ۔۔۔“ دائود چکرا کر رہ گیا۔ ” اب کیا کریں؟“
    موجود اسلحےکا جائزہ لیا گیا تو ایک اور خوفناک انکشاف ہوا۔ ان کےپاس راکٹ لانچر بھی نہ تھا۔ کل ملا کر چار کلاشنکوفیں‘ دو ریوالور‘ چالیس کےقریب رائونڈ اور ایک دستی بم ان کےپاس بچا تھا۔
    ”دستی بم دھماکہ توکر سکتا ہےمگر ایک فرلانگ میں پھیلےاس ایمونیشن ڈپو کو مکمل طور پر تباہ نہیں کر سکتا۔“ دائود نےکچھ سوچتےہوئےبیتابی سےکہا۔
    ”پھر اب کیا کیا جائی؟ ہم اس ڈپو کو چھوڑ بھی نہیں سکتے۔“ حسن نےزبان کھولی۔
    ”ایسا تو سوچو بھی مت۔“ حمزہ نےفوراً کہا۔ ”ہم مٹ جائیں گےمگرمشن کو ادھورا چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔“
    دائود جواب میں اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔ اس کا دماغ تیزی سےکسی حل کی تلاش کر رہا تھا۔ اسی وقت ڈپو کا گیٹ پوری طرح کھل گیا اور باہر کھڑےکرنل رینک کے آفیسر نےڈپٹ کر اپنےارد گرد جمع فوجیوں سےکہا۔
    ”فوراً گاڑیاں نکالو اور ان کےتعاقب میں نکل جائو۔ یہاں سےبیس میل تک سڑک پر کوئی موڑ نہیں ہے۔ ابھی وہ اتنا فاصلہ طےنہیں کر سکےہوں گے۔ جلدی کرو۔“
    فوجی اپنی گنیں سنبھالتےہوئےاندر کو بھاگے۔دائود کسی زخمی شیر کی طرح غرایا اور پہلو بدل کر رہ گیا۔
    ”دائود بھائی۔ میں کچھ کر سکتا ہوں۔“ اچانک سرمد بولا تو وہ تینوں چونکے۔
    ”کیا؟“ بےاختیار دائود نےپوچھا۔
    ” آپ یہیں میرا انتظار کیجئے۔“ کہتا ہوا سرمد ایک دم اٹھا اور گڑھےسےنکل گیا۔
    ”سرمد۔۔۔“ دائود نےبڑی تیز سرگوشی کی ۔ پھر ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر آواز دبا لی۔ تب تک سرمد نیچا نیچا دوڑتا ہوا ایک مردہ بھارتی فوجی کےپاس رکا۔ اسےپرےدھکا دےکر اس کےنیچےسےراکٹ لانچر نکالا اور آہستہ سےان کی طرف لڑھکا دیا۔ حمزہ نےذرا سا اونچا ہو کر ہاتھ بڑھایا اور اسےگڑھےمیں کھینچ لیا۔ اسی وقت سرمد زمین پر گرا اور سانپ کی طرح رینگتا ہوا پچیس تیس قدم دور ایک دوسرےفوجی کےپاس جا رکا۔ اس کےپاس پڑا ایمونیشن بیگ تھاما اور واپسی کےلئےرخ بدل لیا۔ دو منٹ کےاندر اندر وہ اپنےساتھیوں تک پہنچ گیا۔ اس کےہاتھ میں جو بیگ تھا اس میں پانچ راکٹ موجود تھے۔
    ”شاباش سرمد۔ میرےشیر تم نےتو کمال کر دیا۔“ دائود نےاسےخودسےلپٹا لیا۔ حمزہ اور حسن بھی اسےتحسین آمیز نظروں سےدیکھ رہےتھی۔
    دائود نےراکٹ‘ لانچر میں لائونج کیا ۔تقریباً چھ انچ اوپر اٹھ کر لانچر کو گڑھےکےکنارےپر رکھ دیا اور نشانہ لینےلگا۔ باقی سب لوگ اپنی اپنی جگہ کانوں پر ہاتھ رکھےایمونیشن ڈپو کےگیٹ کو دیکھ رہےتھے۔
    جونہی پہلی جیپ کی ہیڈلائٹس آن ہوئیں اور روشنی کی لکیر نےگیٹ سےباہر قدم رکھا‘ دائود نےراکٹ فائر کر دیا۔
    دوسرےپل ایک کان پھاڑ دھماکہ ہوا اور گیٹ اپنےساتھ وہاں موجود فوجیوں کےپرخچےاڑاتا ہوا تباہی کےگھاٹ اتر گیا۔ پھر جب تک انہیں کسی بات کی سمجھ آتی‘ دائود نےدوسرا راکٹ فائر کر دیا اور اب کےبار اس کا نشانہ ڈپو کا اندرونی حصہ تھا۔ بس اس کےبعد تیسراراکٹ فائر کرنےکی نوبت ہی نہ آئی۔ ایمونیشن نے آگ پکڑ لی اور زمین یوں لرزنےلگی جیسےان کےنیچےکوئی آتش فشاں کروٹیں لےرہا ہو۔ دھماکوں‘ چیخوں اور اندھا دھند چاروں طرف فائرنگ کا ایک سلسلہ جو شروع ہوا تو بھارتیوں کو سمجھ نہ آئی کہ وہ کیسےخود کو اس قیامت ِ صغریٰ سےمحفوظ رکھیں۔
    اس دوران ایک بات ایسی ہوئی جس کی طرف مورچےمیں چھپےان چاروں کا دھیان ہی نہ گیا۔ پہلےراکٹ نےان کی سمت کی نشاندہی کر دی تھی‘ اس کا انہیں احساس ہی نہ ہوا۔جنرل نائر گاڑیوں میں مجاہدین کا پیچھا کرنےکا حکم دےکروہاں سےچل پڑا تھا۔ اسےدوسری جگہوں پر تباہی کا جائزہ لینا تھا۔ اس کےخیال میں تمام مجاہدین تباہی پھیلا کر انہی کی جیپوں پر فرار ہو چکےتھےمگر جونہی پہلا راکٹ فائر ہوا ‘ وہ چونک کر رک گیا۔ اس وقت وہ ایک سلگتی ہوئی جیپ کےپاس تھا اور اس کےدائیں بائیں اور پیچھےپچیس تیس سپاہی گنیں سنبھالےچل رہےتھے۔ ایک دم اس نےان سب کو نیچےبیٹھ جانےکا اشارہ کیا اور خود بھی جھک کر بھویں سکوڑ کر اس طرف دیکھنےلگا جس طرف سےراکٹ فائر کیا گیا تھا۔ دس سیکنڈ کےوقفےسےجب دوسرا راکٹ فائر ہوا تو اسےدائود اور اس کےساتھیوں کی پناہ گاہ کا پتہ چل گیا۔ اسی وقت ایمونیشن ڈپو دھماکوں اور چیخوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ جنرل نائر اس وقت وہاں سےتقریباً ایک سو گز دور تھا۔ زمین اس کےپیروں تلےکانپ رہی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ اسلحےکےنام پر اب ان کےپاس سوائےبربادی کےنشانات کےکچھ نہیں بچا۔
    اس نےدانت اتنےزور سےبھینچےکہ جبڑوں کی ہڈیاں ابھر آئیں۔ بیحد ہلکی آواز میں اس نےاپنےپاس موجود فوجیوں کو ہدایات دیں اور خود ان کی کمان کرتا ہوا اس مورچےکی پچھلی طرف چل پڑا جس میں دائود اور اس کےساتھی چھپےبیٹھےتھی۔چند منٹ بعد مورچےکو عقب اور دائیں بائیں سےاس خاموشی کےساتھ گھیرےمیں لیا گیا کہ ان لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکا کہ دشمن ان کےگرد اپنا جال مضبوط کر چکا ہے۔ پتہ تو اس وقت چلاجب جنرل نائر کی چیختی ہوئی آواز نےفضا کا سینہ چیر ڈالا۔
    ”ہاتھ اٹھا لو۔ تم لوگ گھیر لئےگئےہو۔“
    تڑپ کر وہ چاروں پلٹےاور یہ دیکھ کر ان کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچےکا نیچےرہ گیا کہ نیم دائرےمیں تیرہ چودہ بھارتی فوجی اپنی گنوں کی زد پر لئےانہیں بھون ڈالنےکےلئےتیار کھڑےہیں اور سب سے آگےجنرل نائر ان کی طرف ریوالور تانےموجودہی۔
    ایک سیکنڈ کےوقفےمیں ان سب کی نظروں نےایک دوسرےسےسوال جواب کئےاور فیصلہ ہو گیا۔ سر پر باندھےکفن کا مول چکانےکالمحہ آن پہنچا تھا۔ ان سب کےلبوں پر ایک ہی جیسی بڑی جاندار مسکراہٹ ابھری ۔
    ”اللہ اکبر۔“ ایک فلک شگاف نعرےنےسامنےکھڑےدشمن کا دل دہلا دیا۔اس کےساتھ ہی ان کی گنوں کا رخ بھارتیوں کی جانب ہوا اور باب ِ جہنم کھل گیا۔
    سب سےپہلےحیرت زدہ جنرل نائر کا جسم چھلنی ہوا جس پر دائود کی کلاشنکوف غرا رہی تھی۔ حسین‘ سرمد اور حمزہ نےباقی فوجیوں کو نشانےپر رکھ لیا مگر گرتےگرتےجنرل نائر کےریوالور سےدو فائر ہوئےاور حمزہ کی پیشانی پر مہر شہادت ثبت ہو گئی۔اسی وقت دائود نےدشمنوں کی فائرنگ سےبچانےکےلئےحسین اور سرمد کو پرےدھکیل دیا اور خود اوپر اٹھ کر اللہ اکبر کےگرجدار نعرےکےساتھ آگ برساتی کلاشنکوف کو نیم دائرےمیں گھما دیا۔ سات آٹھ فوجیوں کو کھیت کرتا ہوا دائود مسلسل ”اللہ اکبر اللہ اکبر“کا اعلان کرتا ہوا مورچےسےنکلا اور چھلنی ہوتا چلا گیا۔ پہلےفوجیوں کےعقب میں موجود فوجیوں کی دوسری قطار نےاس وقت تک اس پر فائرنگ جاری رکھی جب تک اس کا جسم زمین پر گر کر بےحس و حرکت نہ ہو گیا۔ اور گرا وہ ایسےزاویےسےکہ اس کا چہرہ مورچےمیں موجود حسین اور سرمد کی جانب ہو گیا۔ اس کےلبوں سےجو آخری الفاظ نکلی‘ وہ تھے۔
    ” لبیک اللھم لبیک۔“
    دائود نےانہیں دشمن کی گولیوں سےبچانےکےلئےجو ایک طرف دھکا دیا تھا اس کےباعث سرمد کا سر مورچےکی سیمنٹڈ دیوار سےبڑےزور سےٹکرایا اور وہ کوشش کےباوجود اپنےذہن میں چھاتی تاریکی سےبچ نہ سکا۔ اس کی بیہوشی سےبےخبرحسین نےاپنےلڑھکتےجسم کو سنبھالا اور کسی زخمی شیر کی طرح اچھل کر گرجتا ہوا دشمن کی طرف لپکا۔ مورچےسےباہر نکلتےنکلتےاس کی کلاشنکوف تقریباً چھ بھارتیوں کو چاٹ گئی مگر شدید زخمی جنرل نائرنےاس وقت بھی فوجی ہمت کا مظاہرہ کیا اور آخری تین گولیاں حسین کا سینہ ادھیڑتی ہوئی نکل گئیں۔
    ”اللہ اکبر۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کی سرگوشی حسین کےلبوں پر ایک ابدی مسکراہٹ بن کر منجمد ہوئی اور وہ اپنےاللہ کےحضور حاضر ہو گیا۔
    ڈرےہوئے‘ بزدل اور موت کےخوف سےلرزہ براندام فوجیوں کےبرسٹ اس کےساکت جسم کو چھلنی کرنےمیں مصروف تھےجب زخموں سےچورجنرل نائر کو دو تین سپاہیوں نےاٹھنےمیں مدد دی۔اس کی نظر دائود‘ حمزہ اورپھر حسین پر سےہوتی ہوئی مورچےمیں بےحس و حرکت پڑےسرمد پر آ ٹھہری ۔ ایک دم اس نےاپنا بایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا۔
    ”بس۔۔۔“ وہ زور سےچیخا۔ ”بےوقوفو۔ وہ مر چکےہیں۔ لاشوں پر گولیاں برسانا تمہاری عادت بنتی جا رہی ہے۔“
    ایک دم فائرنگ کا سلسلہ رک گیا۔ خاموشی کی چادر تن گئی۔ خون میں نہایا ہوا جنرل نائر بڑی مشکل سےاٹھا اور دائیں بائیں دو فوجیوں کےسہارےکھڑا ہو گیا۔
    ”دیکھو۔ یہ زندہ ہےیا۔۔۔“
    اس نےبات ادھوری چھوڑ دی۔کوئی فوجی آگےنہ بڑھا۔سب ایک دوسرےکو کنکھیوں سےدیکھ رہےتھے۔
    ”سنا نہیں تم نے۔“ کرنل ان پر برس پڑا۔ ”نامردو۔ حرامزادو۔ نیچےاتر کر دیکھو اسے۔ “ اس نےایک فوجی کی طرف آتشیں نگاہوں سےدیکھا۔”تم اسےکور کرو۔“ اس نےباقی فوجیوں سےکہا اور ان سب نےگنیں مورچےکی جانب سیدھی کر لیں۔
    فوجی نےتھوک نگلا اور گن بےحس و حرکت سرمد کی جانب تانےکانپتےقدموں سےمورچےمیں اترنےلگا۔ اس کی جھجک سےصاف ظاہر تھا کہ وہ ساکت پڑےسرمد سےبھی خوفزدہ ہی۔ مبادا وہ اس پر جھپٹ نہ پڑی۔
    مورچےمیں اترکر سب سےپہلےاس نےپائوں زمین پر پڑی کلاشنکوف پر جمایا ۔ پھر جلدی سےبیٹھ کر سرمد کےنتھنوںکےنیچےہاتھ رکھا۔
    ”یہ زندہ ہےسر۔“ اس نےتیزی سےکہا اور کھڑےہو کر بیہوش سرمد پر گن تان لی‘ جس کا چہرہ سر کےزخم سےلہو لہان ہو رہا تھا۔
    فوراً ہی جنرل نائر کےاشارےپر تین اور فوجی مورچےمیں اترےاور ہوش و حواس سےبیگانہ سرمد کو قابو کر لیا۔
    ”اسےمیرےسیل میں لےجائو۔“ خون بہت بہہ جانےکےباعث غنودگی کا شکار ہوتےجنرل نائر نےکہا ۔ ” اسےہر حال میں زندہ رہنا چاہئی۔ یہ ہمیں اپنےساتھیوں تک لےجا سکتا ہے۔“
    فوجیوں نےسرمد کو نہتا کیا اور مورچےسےباہر اچھال دیا۔ پھر خود باہر نکلےاور اسکےہاتھ پیچھےباندھ کر گھسیٹتےہوئےلےچلے۔ جبکہ جنرل نائر دو فوجیوں کےسہارےطبی امداد کےلئےچھائونی کےمشرقی حصےکی جانب روانہ ہو گیا۔ آنکھوں میں چھاتی ہوئی بےخبری کےعالم میں اس نے آخری بار ایمونیشن ڈپو سےاٹھتےشعلوں کو دیکھا۔ہلکےہوتےہوئےدھماکوں کی آوازیں سنیں اور اس کا سر سینےپر ڈھلک گیا۔ حواس نےاس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔

    طاہر ‘ ایک ایسی این جی او کی سربراہ کی دعوت پر دہلی پہنچا تھا ‘ جو انٹر نیشنل ایمنسٹی سےربط رکھتی تھی۔اس نےطاہر کی سرمد کےبارےمیں بات سن کر اسےانڈیا آنےکو کہا اور اپنی طرف سےہرممکن تعاون کا یقین دلایا۔انسانی حقوق کی حامی مس مانیا نےطاہر کا بڑی گرمجوشی سےاستقبال کیا۔ طاہر اسےایک بار پہلےایک انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کانفرنس میں مل چکا تھا ۔ وہ تبھی سےاس کی شیدائی تھی۔
    اٹھائیس سالہ مانیا حسن کا شاہکار تھی ۔ابھی تک کنواری تھی اور بائیس تئیس سےزیادہ کی نظر نہ آتی تھی۔اس کی نظروں میں طاہر کےلئےایک خاص قسم کا والہانہ پن تھا ۔
    ہوٹل آگرہ ویو میں مانیا نےطاہرکےقیام کا انتظام و انصرام اپنی این جی او کی طرف سےکیا تھا۔ اپنےسوٹ میں پہنچ کر طاہر نےوقت ضائع کیےبغیرمانیا کےسامنےاپنا مسئلہ دوبارہ دہرایا۔ مانیا نےساری بات سنی۔ چند لمحےغور کیا ۔ پھر اپنی ساڑھی کا پلو درست کرتےہوئےطاہر کی جانب دیکھا۔
    ”مسٹر طاہر۔اس کےبارےمیں مکمل معلومات کےلئےمجھےتھوڑا وقت درکار ہو گا۔“ وہ بولی تو جلترنگ سےبج اٹھے۔
    ”کتنا وقت؟“ طاہر نےسوالیہ انداز میں اسےدیکھا۔
    ”دو سےتین دن۔کام اس سےبہت کم وقت میں بھی ہو سکتا ہےمسٹر طاہر۔ “ اس نےسنجیدگی سےکہا۔”مگر میں کم وقت کےٹارگٹ کا رسک نہیں لینا چاہتی۔“
    ”تو ٹھیک ہے۔ آپ کم سےکم وقت میں ریحا اور سرمد کےبارےمیں ممکنہ معلومات حاصل کر کےمجھےبتائیے۔“طاہر نےنرمی سےکہا۔ ”میں آپ کا احسان مند رہوں گا۔“
    ”میں یہ کام آئوٹ آف دی وےجا کر کروں گی مسٹر طاہر اور صرف اس لئےکہ آپ مجھےاپنےخاص دوستوں کی فہرست میں شامل کر لیں۔“ اس نےعجیب سی نظروں سےاس کی طرف دیکھا۔ ”ورنہ تو یہ کام انڈین ایجنسیوں کےلئےبڑی دلچسپی کا حامل ہےکہ وہ اسےاپنا ٹارگٹ بنا کر معاملےکو سیاسی اور فوجی رنگ دےدیں۔“
    ”میں سمجھتا ہوں۔ “ طاہر نےمسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔ ” اور میں دوستی کےناطےہی آپ سےیہ درخواست کر رہا ہوں۔“
    ”تو پھر احسان مندی کیسی مسٹر طاہر۔“ وہ ہنسی۔ ”دوستی میں صرف حکم دیا اور مانا جاتا ہے۔کیا نہیں؟“ اس نےطاہر کی نظروں میں جذب ہونےکی کوشش کی۔
    ” آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مس مانیا۔ تو اس حکم کو مان کر آپ مجھےاپنی دوستی سےنوازیے۔ یہ تو ٹھیک ہے؟“ وہ مسکرایا۔
    ”بالکل۔ یہ بالکل ٹھیک ہے۔“ وہ کھل کر ہنسی۔” تو اب مجھےاجازت دیجئے۔ میں ابھی سےیہ کام شروع کر رہی ہوں۔ ہاں۔“ وہ کھڑی ہو کر بولی۔ ”مسٹر سرمد کا کوئی فوٹو ہے آپ کےپاس‘ تو مجھےدےدیں۔“
    جواب میں طاہر نےاپنےپرس سےپاسپورٹ سائز کا سرمد کا ایک فوٹو نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
    ”کیا میں امید رکھوں کہ معاملات مکمل رازداری میں رہیں گےمس مانیا؟“طاہر نےمانیا کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔
    ”یہ کہنےکی نہیں‘ آزمانےکی بات ہےمسٹر طاہر۔ اور مجھے آزمایا جانا اچھا لگتا ہے۔“ وہ فوٹو تھام کر مسکرائی ۔ پھرہاتھ ہلاتی ہوئی دروازےکی جانب بڑھ گئی۔”اپنا سیٹ آن رکھئےگا۔ ہمارا رابطہ صرف موبائل پر رہےگا۔“ وہ کہہ باہر نکل گئی۔
    ٭
    کرنل رائےچھائونی نمبر سینتالیس کی تباہی کی رپورٹ پر یوں آگ بگولہ ہو رہا تھا جیسےکسی نےاسےدہکتےکوئلوں کی انگیٹھی پر بٹھا دیا ہو۔
    گٹھےہوئےبدن‘ قابل رشک صحت اور سرخ و سفید رنگت کا مالک ناٹےقد کا کرنل رائےیہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ چھائونی جو ان کےایک مضبوط قلعےکی حیثیت رکھتی تھی‘ یوں بربادی کےگھاٹ اترےگی کہ وہاں موجود بارہ ہزار میں سےصرف نو سو چھپن فوجی زندہ بچیں گے۔ ایمونیشن ڈپو کی تباہی اس پر مستزاد تھی۔ انکوائری کمیشن بٹھا دیا گیا تھا اور وہ جانتا تھا کہ اس کی رپورٹ بھی ٹائیں ٹائیں فش کا راگ الاپتی نظر آئےگی۔
    وہ سگار دانتوں میں دبائےاپنےنجی آفس کا قالین روند رہا تھا۔بار بار اس کی نظر میز پر پڑےٹیلیفون سیٹ سےٹکراتی اور مایوس ہو کر لوٹ آتی۔ اسےانتظار تھا ایک فون کا۔ بےچینی جب انتہائی حدوں کو چھونےلگی تو رک کر بجھےہوئےسگار کو دوبارہ سلگایا ۔ لائٹر جیب میں ڈال کر اس نےدو تین گہرےکش لئےاور پھر ٹہلنےلگا۔
    اچانک فون کی بیل نےاسےچونکا دیا۔ لپک کر وہ میز کےقریب پہنچا اور تیزی سےریسیور اٹھایا۔
    ”ہیلو۔ کرنل رائےاسپیکنگ۔“ کٹکھنےکتےکی طرح وہ غرایا۔
    ”سر۔ میں کیپٹن آدیش بول رہا ہوں۔ جنرل نائر کا بھیجا ہوا آتنک وادی سیل میں پہنچ گیا ہےسر؟“
    ”میں آ رہا ہوں۔“ اس نےکہا اور ریسیور کریڈل پر پٹخ کر اضطراب کےعالم میں کمرےسےنکل گیا۔
    اس نےاپنی ہی کوٹھی کےتہہ خانےمیں تفتیشی سیل بنا رکھا تھا۔ خطرناک مجرموں اور دہشت گردوں کی زبان کھلوانےکےلئےاس کا ٹارچر سیل پوری فوج میں مشہور تھا۔ سب جانتےتھےکہ اس سیل کو فوجی سرپرستی حاصل ہے۔ یہاں ٹارچر کےساتھ ساتھ علاج کےلئےبھی چارکمروں کا مختصر سا جدید ترین منی ہاسپٹل موجود تھا جہاں ان زخمیوں کی بہترین دیکھ ریکھ ہوتی تھی جنہیں مزید کچھ دیر زندہ رکھا جانا مقصود ہوتا تھا۔یہاں قائم کسی ایک شعبےکا دوسرےسےبراہ راست کوئی تعلق تھا ۔ ہر کارکن کرنل رائےکےبعد کیپٹن آدیش کو جواب دہ تھا جو وہاں کا انچارج آفیسر تھا۔
    اس سیل میں حسین ترجسمانی رشوت سےلےکر اذیت دینےکےجدید ترین طریقوں سےکھل کھلا کر کام لیا جاتا تھا اور کہیں نہ کہیں مجرم ضرور اپنا آپ ہار دیتا تھا لیکن یہ تجربہ بھی اسےہو چکا تھا کہ کچھ دیوانےایسےبھی ان کےہاتھ لگتےتھےجو جان دےدیتےتھےمگرزبان کھولتےتھےنہ ہار مانتےتھے۔ایسےلوگوں کو وہ بال آخر ہاتھ پائوں باندھ کر تیزاب کےٹب میں ڈبودینےپر مجبور ہو جاتا تھا مگر تب بھی ان کےلبوں سےاللہ اکبر کےنعروں اور کلمہ طیبہ کےسوا کچھ ادا نہ ہوتا تھا۔ اس وقت اس کا جی چاہتا کہ اپنےسر پر موجود گنےچُنےبال بھی نوچ ڈالے۔ اس کی بےبسی اس کےماتحتوں کو منہ چھپا کر ہنسنےپر مجبور کر دیتی‘ جس کا غصہ وہ گالیاں بک کر نکالتا۔
    اپنےدماغ میں خیالاتی کھچڑی پکاتا وہ کوٹھی کی انیکسی کےساتھ تہہ خانےمیں قائم سنٹرلی سائونڈ پروف ٹارچر سیل کےدروازےپر پہنچا۔ دیوار میں دائیں ہاتھ ایک خانےمیں لگی چمکدار میٹل پلیٹ پر انگوٹھا رکھ کر دبایا۔ اس کےانگوٹھےکی لکیریں شناخت میں آتےہی دروازہ بے آواز کھل گیا۔ وہ تیزی سےسیڑھیاں اترا ۔ اس کےپیچھےخود کار سسٹم کےتحت دروازہ بند ہو گیا۔ تین جگہ کھڑےگن مینوں نےاسےزوردار سیلوٹ کیا جنہیں نظر انداز کرتا ہوا وہ کاریڈور کا موڑ گھوم گیا۔ سامنےشیشےکی دیوار کےپار نیم اندھیرےکمرےکےعین درمیان کرسی کےبازئووں اور پایوں کےساتھ بندھا وہ آتنک وادی خون میں نہایا نظر آ رہا تھا جس کا سینےپر جھکا سر بتاتا تھا کہ وہ بیہوش ہے۔اس کےعین اوپر چھت سےلٹکتا بےپناہ تیز روشنی دیتا مرکری بلب اپنےشیڈ سمیت ہولےہولے آگےپیچھےہل رہا تھا۔
    ”سر۔“ وہ کمرےمیں داخل ہوا تو کیپٹن آدیش کےساتھ موجود تین فوجی سپاہیوں کی ایڑیاں بھی بج اٹھیں۔ ان کےسیلوٹ کا جواب سر کی ہلکی سی جنبش سےدیتا ہوا وہ آتنک وادی کےبالکل سامنےجا کھڑا ہوا۔
    ”اس نےکچھ بتایا؟“ وہ نفرت سےچنچنایا۔
    ”نو سر۔ “ کیپٹن آدیش نےکھٹ سےکہا۔ ”ہم نےاسےاسی حالت میں وصول کیا ہے۔جنرل نائر نےاس پر تشدد کی انتہا کر دی ہےمگر یہ تو جیسےگونگا ہے۔“
    ”یہاں گونگےبھی بول اٹھتےہیں‘ تم جانتےہو۔“ نخوت سےکرنل رائےنےکہا۔ ”اسےہوش میں لائو۔“
    فوراً ہی ایک فوجی نےکونےمیں رکھی میز سےجگ اٹھایا اور پانی آتنک وادی کےسر پر دور ہی سےاچھال دیا۔
    لرز کر سرمد نےحرکت کی اور ورم آلود پپوٹوں کو زور لگا کر کھولنےکی کوشش کی۔ایک کراہ اس کےپھٹےہوئےخون آلود ہونٹوں سےخارج ہوئی اور سر اٹھتےاٹھتےپھر ڈھلک گیا۔تاہم اب وہ ہوش میں تھا۔
    اسی وقت کیپٹن آدیش نے آگےبڑھ کر اس کےسر کےبال مٹھی میں جکڑ کر ایک جھٹکےسےچہرہ اوپر اٹھایا اور بلب کی برمےجیسی تیز روشنی اس کی آنکھوں میں گھستی چلی گئی۔
    ”کیا نام ہےتمہارا؟“ کرنل رائےاس کےسامنے آ گیا۔
    جواب میں سرمد نےکراہتےہوئےسر کےبال چھڑانےکی ناکام کوشش کی مگر کیپٹن آدیش نےاسےسختی سےقابو کئےرکھا۔
    ”جواب دو۔ کیا نام ہےتمہارا؟“ جنرل کی آواز میں غراہٹ ابھری۔ ساتھ ہی اس کا دایاں ہاتھ گھوم گیا۔ تھپڑ اس قدر زوردار تھا کہ سرمد کےخون آلود ہونٹوں کےزخم پوری طرح کھل گئی۔ ”بولو۔“ اب کےجنرل کا بایاں ہاتھ حرکت میں آیا۔ پھر وہ مسلسل اس پر تھپڑ‘ گھونسےاور لاتیں برسانےلگا۔بالکل پاگلوں کےاندازمیں وہ اس پر پل پڑا تھا۔
    ”یہ بیہوش ہو چکا ہےسر۔“ منہ سےکتوں کی طرح کف چھوڑتےاور ہانپتےجنرل کو جب کیپٹن آدیش نےبتایا تو وہ ہوش میں آ گیا۔
    ”جنرل نائر نےکچھ بتا بھیجا ہےاس کےبارےمیں؟“ ایک طرف ہٹ کر اپنےخون آلود ہاتھ ٹشو پیپر سےصاف کرتےہوئےاس نےپوچھا۔
    ”یہ فارم ساتھ آیا ہےسر۔“ کیپٹن آدیش نےجیب سےایک کاغذ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
    جنرل نےاس کاغذ پر نظر دوڑائی۔نام سےلےکر پتےتک کے آگے”نامعلوم“ کا لفظ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔غصےسےاس نےکاغذ کےپرزےاڑا دیے۔پھر کیپٹن کی طرف دیکھا۔
    ”اسےہوش میں لائو۔ خوب پیٹ بھر کر کھلائو اور سونےمت دو۔ سمجھے۔“ کرنل نےسرمد کےبیہوش سراپےپر نفرت آلود نگاہ ڈالی اور واپسی کےلئےمڑ گیا۔”میں اپنے آفس میں موجود ہوں۔ پل پل کی خبر دیتےرہنا۔“
    ”یس سر۔“ کیپٹن آدیش نےفوجی انداز میں کہااور سیلوٹ کےلئےاس کےساتھ باقی تینوں فوجیوں نےبھی ہاتھ اٹھا دیے۔
    ٭
    دوسرےدن شام تک طاہر نےاپنےطور پر فون پر کچھ لوگوں سےرابطہ کر کےمعلومات حاصل کرنا چاہیں مگر کوئی امید افزا بات سامنےنہ آئی۔ وہ ہوٹل کا فون قطعاً استعمال نہ کر رہا تھا۔ اس کی پوزیشن بڑی نازک تھی۔ بار بار سوچتا کہ ایک دم مانیا پر اعتماد کر لینےکا اقدام کہیں اسےکسی مشکل میں نہ ڈال دےمگر طاہر کےپاس رسک لینےکےسوا کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔تاہم اس کی چھٹی حس اسےبتا رہی تھی کہ اس نےمانیا کےبارےمیں جو اندازہ لگا کر اس پر اعتماد کیا ہے‘ وہ غلط نہیں ہے۔
    اس وقت وہ ٹی وی پر ایک نیوز چینل دیکھ رہا تھا کہ دروازےپر دستک ہوئی۔
    ”یس۔“ طاہر نےریموٹ سےٹی وی کی آواز بند کر دی اور دروازےکی جانب دیکھا‘جو اندر سےلاک نہیں تھا۔”کم ان۔“
    دروازہ کھلا اور ہنستی مسکراتی مانیا اندر داخل ہوئی۔
    ”گڈ ایوننگ مسٹر طاہر۔ “
    ”گڈ ایوننگ مس مانیا۔“ طاہر نےخوش اخلاقی سےجواب دیا اور بیڈ سےاٹھ گیا۔ اس نےطاہر کا ہاتھ جو تھاما تو خود طاہر ہی کو واپس کھینچنا پڑا۔”بیٹھئے۔“ طاہر اس کےساتھ صوفےتک چلا آیا۔
    ” آپ نےتو رابطہ نہ کرنےکی قسم کھا لی شاید۔ میں انتظار کرتی رہی کہ آپ کنٹیکٹ کریں گے۔“ وہ مسکرا کر بولی۔
    ”اعتماد کرنا آتا ہےمجھےمس مانیا۔ آپ جب تک رابطہ نہ کرتیں میں اسی اعتبار کےسہارےٹیک لگا کر وقت گزارتا رہتا کہ آپ میرےکام میں مصروف ہیں۔“ طاہر نےمانیا کو مکھن میں غوطہ دیا۔
    ”اوہ نو۔“ وہ حیرت سے آنکھیں پٹ پٹا کر بولی۔ ”اتنی بلندی سےمت نوازیےمسٹر طاہر کہ میں نیچےدیکھنا ہی بھول جائوں۔“
    ”ایسی کوئی بات نہیں مس مانیا۔بہر حال اب میں آپ کی طرف سےکسی اچھی خبر کےلئےبیتاب ہوں۔“اس نےانٹر کام پر لوازمات کا آرڈر دیا اور مانیا کےسامنے آ بیٹھا۔
    ” خبرنہیں ۔ خبریں مسٹر طاہر۔ اب وہ اچھی ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آپ کو خود کرنا ہو گا۔“ مانیا نےاپنےکندھےسےبڑا نازک سا شولڈر بیگ اتارا ۔ کھولا اور اس میں سےایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکال کر اپنےسامنےپڑی میز پر پھیلا لیا۔ ”میں ترتیب سےبتاتی ہوں۔“
    طاہر کےجسم میں خون کی گردش تیز ہوگئی۔وہ اضطراب آلود نگاہوں سےمانیا کو دیکھنےلگا جس نےسسپنس سےپرہیز کرتےہوئےکہنا شروع کیا۔
    ”بیس جنوری کو سرمد سعودی عرب سےدہلی پہنچا۔اس نےاپنےقریبی پولیس سٹیشن میں اپنی آمد کا کوئی اندراج نہیں کرایا ۔ وہ کہاں گیا؟ کہاں ٹھہرا؟ کس سےملا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ہاں۔ اس کےحلئےکا ایک آدمی اکیس جنوری کو ٹاٹا بس سروس سےسرینگر کےلئےروانہ ہوا۔ سرینگر سےوہ کہاں گیا ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔“
    سانس لینےکےلئےمانیا رکی اور اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جو ہمہ تن گوش ہو کر اسےسن رہا تھا۔
    ”ریحالندن سےواپس آئی ۔ واپسی کےتقریباً تین ہفتےبعد وہ ایک دن کےلئےدوبارہ لندن گئی۔سرمد کےفلیٹ سےاس کےڈاکومنٹس لےکر پاکستان پارسل کئےاور اگلےدن انڈیا لوٹ آئی۔اس کی لندن جانےکی ڈیٹ تئیس جنوری اور واپس لوٹنےکی چوبیس جنوری ہے۔ اس کےبعد سےاب تک وہ سرینگر میں اپنےگھر پر موجود ہے۔اس نےباہر آنا جانا بہت کم کر دیا ہے۔ ہر وقت ہنسنےکھیلنےوالی ریحا اب چُپ چُپ رہتی ہے۔ سہیلیوں سےبھی کم کم ملتی ہے۔ ینگسٹرز کلب کی رکن ہےمگر وہاں جانا بھی تقریبا ًچھوڑ چکی ہے۔ اس کےوالدین اس کی اداسی سےپریشان ہیں مگر وہ اس کی کوئی وجہ نہیں بتاتی۔ہاں۔ ایک معمول بنا لیا ہےاس نےکہ ہر شام سیتا مندر جا کر دیا جلاتی ہےجو اس کےگھر سےایک فرلانگ کےفاصلےپر ہی۔“
    ”حیرت انگیز۔“ طاہر نےتحسین آمیز نظروں سےمانیا کی طرف دیکھا تو وہ کھل اٹھی۔ ”اتنےکم وقت میں ایسی امید افزا معلومات حاصل کر لینا آپ ہی کا کام ہےمس مانیا۔“
    ”تھینکس مسٹر طاہر۔“ وہ مسکرا کر بولی۔ اس کی نظروں میں جلتےدیپ طاہر کےچہرےپر لو دےرہےتھے۔
    ”لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان معلومات سےہمارا مسئلہ تو حل نہیں ہوا۔“ طاہر نےاپنا خیال ظاہر کیا۔
    ”بالکل درست۔“ مانیا نےاس کی جانب دیکھا۔” آپ غلط نہیں کہہ رہےمسٹر طاہر۔ تاہم میں ایک راستےکی نشاندہی کر سکتی ہوں جس پر چل کر ہم سرمد کےبارےمیں مزید کچھ معلوم کر سکتےہیں۔“
    ”وہ کون سا راستہ ہےمس مانیا؟“ طاہر نےاس کی جانب بغور دیکھا۔
    ”ہمیں سرینگر جانا پڑےگا۔ ریحا سےملنا ہمارےلئےمفید ہو سکتا ہے۔“
    ”ہاں۔ یہ خیال تو میرےذہن میں بھی آرہا تھا۔“ طاہر نےپُرخیال لہجےمیں کہا۔
    ”بس۔ تو وہاں چلتےہیں۔ اگر میں واقعات اور صورتحال کےڈانڈےملانےبیٹھوں تو نجانےکیوں مجھےسرمد اور ریحا میں ایک انجانا سا تعلق محسوس ہوتا ہی۔شاید ریحا سےمل کر ہمیں کوئی سِرا ہاتھ آ جائے۔“
    ”مجھےبھی ایسا ہی لگتا ہےمس مانیا۔“ طاہر نےاس کی تائید کی۔
    ”تو پھر طےرہا کہ کل صبح ہم سرینگر چل رہےہیں۔“ مانیا نےجیسےفیصلہ سنایا۔ ” آپ اپنا پاسپورٹ مجھےدےدیں۔تاکہ میں ضروری کاغذی کارروائی مکمل کرا لوں۔“
    طاہر نےاپنا پاسپورٹ مانیا کےحوالےکر دیا جسےاس نےاپنےشولڈر بیگ میں ڈال لیا۔اسی وقت دونوں کی نظریں ملیں ۔ طاہر کی نگاہوں میں نجانےکیا تھا کہ مانیا کا دل یکبارگی زور سےدھڑک اٹھا۔طاہر بڑی بےباکی سےاسےگھور رہا تھا اور ایک بار جب اس کی نظریں مانیا کی نرم و نازک گردن سےنیچےاتریں تو وہ خشک ہوتےہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گئی۔
    ”مس مانیا۔‘ ‘طاہر نےجیسےماحول کا تنائو کم کرنا چاہا۔”ہمیں ریحا سےملنےمیں کس قسم کی دشواری ہو سکتی ہے؟ اس پر بھی غور کر لینا چاہئے۔“
    ”کوئی دشواری نہیں ہو گی مسٹر طاہر۔“ وہ بھی سنبھل گئی۔ ”ایک بات جس کا میں نےپہلے آپ سےذکر نہیں کیا‘ یہ ہےکہ جب آپ نےمجھےریحا کا ایڈریس دیا تھا میں تبھی ایک حد تک مطمئن ہو گئی تھی اور مجھےلگا تھا کہ ہمیں سرینگر جانا پڑےگا۔“
    ”وہ کیوں؟“ طاہر چونکا۔
    ”اس لئےکہ میں تھوڑا بہت ریحا کےباپ کو جانتی ہوں۔“
    ”شیام رائےکو؟“ طاہر حیران ہوا۔
    ”شیام رائےنہیں ۔ کرنل شیام رائےکو۔ ریحا کرنل رائےکی اکلوتی بیٹی ہے۔“
    ”کیا؟“طاہر اچھل پڑا۔ پھر اپنی حیرت پر قابو پاتےہوئےاس نےسنبھالا لیا۔ ”میرا مطلب ہے آپ کس طرح اسےجانتی ہیں؟“ اس کےدماغ میں خطرےکی گھنٹی بج اٹھی۔
    ”کرنل شیام رائےکےنجی سیل میں میرا ایک دور کا کزن ملازم ہے۔ اب تک کی معلومات میں اسی سےحاصل کر پائی ہوں۔“مانیا نےبتایا۔
    ”اوہ۔۔۔“ طاہر بظاہر مطمئن سا ہو گیا ۔
    ”اور میں چاہوں گی کہ اس سےملاقات ہم کرنل رائےکی لا علمی میں کریں۔ یہی ہمارےلئےبہتر ہو گا۔ وہ فوجی آدمی ہےاور آپ مسلمان۔ شاید وہ اسےپسند نہ کرے۔بات کوئی اور رنگ اختیار نہ کر جائی‘ اس لئےہمیں محتاط رہنا پڑےگا۔“
    ”مس مانیا۔ آپ میرےلئےخطرہ مول لےرہی ہیں۔“ طاہر نےاسےعجیب سی نظروں سےدیکھا۔
    ”جی نہیں۔“ اس نےطاہر کی جانب نظر اٹھائی۔” میں صرف آپ کی دوستی جیتنےکی کوشش کر رہی ہوں۔“
    ”وہ تو آپ جیت چکیں مس مانیا۔“ طاہر کی نظروں میں ا س کےلئےکوئی پیغام تھا۔
    ”تو میں اس کا ثبوت چاہوں گی مسٹر طاہر۔“اس نےنگاہوں کی کمند طاہر کی جانب اچھالےرکھی۔
    ” ثبوت آپ کو سرینگر سےواپسی پر مل جائےگا مس مانیا۔“
    ”شرط ہےکیا؟“ وہ بڑےدل آویز انداز میں مسکرائی۔
    ”بالکل نہیں۔ “ طاہر نےدھیرےسےکہا۔ ”ذہنی فراغت چاہتا ہوں اور بس۔“
    ”میں انتظار کروں گی اس پل کا مسٹر طاہر جب ۔۔۔“
    اسی وقت ویٹر نےدروازےپر دستک دی اور مانیا کی بات ادھوری رہ گئی۔ مگر نہیں ‘ اس کی ادھوری بات طاہر کی نظروں میں ابھرتی اس چمک نےپوری کر دی تھی جو ایک بار پھر اس کےنیم برہنہ گداز شانوں سےٹکرا کر پیدا ہوئی تھی۔

    اذیتوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا۔
    سرمد کو زبردستی حلق تک مرغن غذا کھلا کر بٹھا دیا جاتا ۔ جونہی اسےغنودگی ہونےلگتی‘ نیند کی زیادتی اس کی پلکوں پر بوجھ ڈالتی تو سر کےبال کھینچ کھینچ کر‘ تھپڑوں اور گھونسوں سےاسےجاگنےپر مجبور کیا جاتا۔ کبھی اسےفاقےکی دلدل میں دھکیل دیاجاتا۔ مسلسل فاقہ اسےضعف کےمارےہلنےجلنےسےمعذور کر دیتا مگر اسےکھانےکےنام پر ایک کھیل اور پینےکےلئےپانی کا ایک قطرہ نہ دیا جاتا۔ کئی بار کرنل رائےنےفضلےسےبھرا ڈبہ اس کی ناک کےعین نیچےلٹکا کر کئی کئی گھنٹےتک غیر انسانی حالت میں رکھا۔اس کےجسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں زخم نہ لگایا گیا ہو۔ ان زخموں میں نمک چھڑکا جاتا۔ مرچیں بھر دی جاتیں۔زخموں پر بھوری چیونٹیاں چھوڑ دی جاتیں جو اس کا گوشت نوچتیں تو اس کی چیخیں ٹارچر سیل میں پورا پورا دن گونجتی رہتیں۔کراہیں رات رات بھر اس کےلبوں سےخارج ہوتی رہتیں۔ سگریٹ سےاس کا سارا جسم داغ دیا گیا ۔ پیروں کےناخن کھینچ دیےگئے۔تپتےلوہےکی پلیٹوں پر پہروں کھڑا رکھا گیا۔ برف کی سلوں پر گھنٹوں لٹایا گیا۔جسم کےنازک حصوں پر الیکٹرک شاک دیا گیا۔ اور ان سب اذیتوں سےچھٹکارےکا لالچ دےکر اس سےپوچھا جاتا۔
    ”تمہارا نام کیا ہے؟“
    ”تمہارا ٹھکانہ کہاں ہے؟“
    ”اپنےساتھیوں کےنام اور پتےبتائو۔“
    ”اپنےگروپ کا نام بتائو۔“
    کرنل رائےکےہر سوال کےجواب میں سرمد کےلبوں پر ایک مسکراہٹ ابھرتی اور وہ اپنےورم آلود ہونٹوں کو بمشکل حرکت دیتےہوئےکہتا۔
    ”میرا نام غلام ہے۔ میں اپنے آقا کا غلام ہوں۔میرا ٹھکانہ میرےاللہ کی رضا اور محبت ہے۔ میرےساتھی اللہ اور اس کا رسول ہیں۔ میرےگروپ کا نام عشق ِ رسول ہے۔“
    یہ جواب کرنل رائےکےتن بدن میں آگ لگا دیتی۔اب تک اس کا واسطہ بڑےبڑےسخت جان مجاہدین سےپڑا تھا مگر جس قسم کی باتیں سرمد کرتا تھا وہ اسےسر تا پا شعلہ بنا دیتیں۔ پھر وہ جتنا بھی ضبط کرنا چاہتا ‘ سب بیسود ثابت ہوتا ۔نتیجہ یہ کہ سرمد پر دن بدن اس کےستم بڑھتےہی جارہےتھے۔اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ اس سخت جان آتنک وادی کا کیا حال کرےکہ اس کی زبان مطلوبہ معلومات کےلئےکھل جائے۔
    کوئی اور ہوتا تو اب تک جان سےگزر گیا ہوتا مگر سرمد تھا کہ جیسےاس کےجسم میں ہر روز ایک نئی طاقت عود کر آتی تھی۔ کیپٹن آدیش نےاکثر محسوس کیا تھا کہ ہوش میں ہو یا نہ ہو‘ سرمد کےنیم متحرک ہونٹوں سےکچھ پڑھنےکا احساس ہوتا ہے۔ ایک روز اس نےکان لگا کر سنا اور جو الفاظ اس کےکانوں میں اترےان کےاثر سےاس کےجسم میں جیسےکرنٹ دوڑ گیا۔اس کا رنگ فق ہو گیا۔ دل کی دھڑکن بےقابو ہو گئی ۔ اسےلگا جیسےوہ اپنےپیروں پر کھڑا نہ رہ سکےگا۔اس کےسارےجسم پر جو لرزا طاری ہوا تو حالت سنبھلتےسنبھلتےکئی منٹ لگ گئے۔ وہ لڑکھڑا کر پرےپڑی کرسی پر گر سا پڑا اور گہرےگہرےسانس لینےلگا۔ اب بھی اس کےکانوں میںسرمد کی مستی میں ڈوبی ہلکی ہلکی آواز خوشبو انڈیل رہی تھی۔
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔“
    سرمد کےہونٹ یہی دہرا رہےتھی۔
    یہ کیسےالفاظ تھے؟ کیا یہ اس مسلمان کا کوئی مذہبی اشلوک تھا؟ کوئی منتر تھا؟ وہ کچھ بھی سمجھ نہ پایا مگر اس دن سےاس میں ایک تبدیلی آ گئی۔ اس دن کےبعد اس کا ہاتھ سرمد پر نہ اٹھا۔ اس کا جی ہی نہ چاہتا تھا کہ اسےاذیت دی۔ اسےتکلیف پہنچانےکا خیال ہی کیپٹن آدیش کو لرزہ براندام کر دیتا۔ اب اس کی کوشش ہوتی کہ سرمد پر دوسرےفوجیوں کےبجائےاسی کی ڈیوٹی لگی رہےتاکہ وہ اسےعقوبت سےبچائےرکھی۔ دن میں کئی بار اس کا جی چاہتا کہ وہ سرمد کےلبوں سےوہی طلسمی الفاظ پھر سنےجنہوں نےاس کی کایا کلپ کر دی تھی۔ ایسا وہ اس وقت کرتا جب سرمد بیہوش ہوتا اور اس کے آس پاس دوسرا کوئی نہ ہوتا۔ تب وہ چوری چوری اس کےلبوں سےکان لگا دیتا اور ان الفاظ کی مہک اپنی سماعت میں اتارنےلگتا۔ اس کا جی نہ بھرتا مگر اسےاپنےارد گرد والوں کا خوف زیادہ دیر یہ مزہ لینےنہ دیتا۔ کئی بار اسےخیال آیا کہ یہ کوئی جادوئی الفاظ ہیں جنہوں نےاس کا دل سرمد کی طرف سےموم کر دیا ہے۔مگر پھر اسےاپنی سوچ پر خود ہی یقین نہ آیا۔ اس نےسر جھٹک کر اس خیال کو دور پھینک دیا۔ اگر یہ جادو ہوتا تو اب تک یہ آتنک وادی وہاں سےاڑنچھو ہو چکا ہوتا۔اس کےذہن میں اپنےدھرم کےحوالےسےجادو کا ایسا ہی تصور تھا۔
    اس دن ٹارچر سیل کا فوٹو گرافر سرمد کی تصویریں ڈیویلپ کر کےلایا اور ایک لفافےمیں بند کر کےکیپٹن آدیش کےحوالےکر گیا۔ یہ تصویریں کرنل رائےکو پاس کرنا تھیں ۔ پھر انہیں آرمی ہیڈ کوارٹر دہلی بھجوایا جاتا ۔ تاکہ ان تصویروں کی خاص خاص مقامات پر تشہیر و ترسیل کےذریعےسرمد کےبارےمیں معلومات حاصل کی جا سکتیں۔
    کیپٹن آدیش نےلفافہ کھول کر دیکھا۔ اس میں کل آٹھ تصاویر تھیں۔چار میں تو اس ٹارچر سیل کی درندگی اور بربریت عروج پر تھی اور چار تصویریں ایسےاینگل سےلی گئی تھیں کہ سرمد کا چہرہ بڑھےہوئےشیو کےباوجود پہچانا جاتا تھا۔ تشدد کے آثار ان میں کم سےکم نمایاں تھی۔
    اس نےتصویریں لفافےمیں ڈالیں اور فرش پر بیڑیوں میں جکڑےپڑےبیہوش سرمد کی جانب دیکھا۔ وہ دنیا و مافیہا سےبےخبر نجانےکس عالم میں سانس لےرہا تھا۔ ہونٹ اب بھی ہل رہےتھےاور کیپٹن آدیش جانتا تھا کہ سرمد اب بھی انہی کیف آور الفاظ کا ورد کر رہا ہےجو اسےتبدیلی کی جانب کھینچےلئےجا رہےتھے۔
    ”پرسو رام۔“ اس نےدروازےکےباہر کھڑےسگریٹ پیتےفوجی کو آواز دی۔
    ”یس سر۔“ وہ سگریٹ مسل کر باسکٹ میں پھینکتا ہوا اندا چلا آیا۔
    ”میں یہ تصویریں جنرل صاحب کو دینےجا رہا ہوں۔ ڈیوٹی آنکھیں کھول کر دینا۔“ کہہ کر وہ لفافہ ہاتھ میں لئےباہر چلا آیا۔
    کرنل رائےکی کوٹھی کےرہائشی حصےکی جانب جاتےہوئےاس کےمن میں سرور لہریں لےرہا تھا۔ ریحا کو دیکھنےکا خیال ہی اس کےلئےمستی بھراتھا۔ وہ جب سےٹارچر سیل میں ڈیوٹی پر آیا تھا‘ تب سےریحا کےعشق میں مبتلا تھا۔ چونکہ جانتا تھا کہ یہ انگور کھٹےہیں اس لئےدل ہی دل میں ریحا کی پوجا کیا کرتا۔اسےکسی کسی دن ایک نظر دیکھ لینا ہی اس کےلئےکافی تھا۔
    اس وقت بھی جب وہ کرنل رائےکے آفس کی طرف جا رہا تھا‘ اس کی نظریں ریحا کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔ پھر وہ اسےدیکھ لینےمیں کامیاب ہو گیا۔ریحا باغیچےمیں ایک درخت کےنیچےکرسی ڈالےبیٹھی تھی۔سرخ میکسی پر نیلی شال اوڑھےوہ نجانےکیا سوچ رہی تھی کہ روش سےگزرتےکیپٹن آدیش کےبھاری فوجی بوٹوںکی آہٹ سےبھی بےخبر رہی۔ وہ باغیچےکےباہر رک گیا۔ چند لمحےنظروں کی پیاس بجھاتا رہا۔ پھر بھی جب ریحا اس کی طرف متوجہ نہ ہوئی تو مایوس ہو کر چل پڑا۔ اس کا ریحا کی طرف یوں مائل ہونا اگر کسی کےعلم میں آ جاتا تو اس کےلئےمصیبت ہو جاتی۔ کنکھیوں سےاپنےخیالوں میں گم ریحا کو دیکھتا اور یہ سوچتا ہوا وہ چلتا گیا کہ ریحا کس الجھن میں ہےجو اس کی مسکراہٹیں اور قہقہےکہیں گم ہو گئی۔ اس کےعلم میں تھا کہ کچھ ہفتوں سےوہ ہر شام قریبی سیتا مندر دیا جلانےجاتی ہےاور باقی دلچسپیوں سےدور ہوتی جا رہی ہے۔خیالی گھوڑےدوڑاتا وہ کرنل رائےکے آفس تک پہنچ گیاجہاں دروازےپر دائیں بائیں دو گن مین مستعد کھڑےتھے۔ اسےسیلوٹ کر کےانہوں نےدروازہ کھول دیا۔
    ”کرنل صاحب آپ کےمنتظر ہیں سر۔“ ایک گن مین نےکڑک دار آواز میں کہا‘جبکہ دوسرا بُت بنا کھڑا رہا۔وہ سر ہلاتا ہوا اندر داخل ہوا۔
    کرنل رائےنےتصویروں کا لفافہ لےکر اسےواپسی کی اجازت دےدی اور خود تصویریں نکال کر شیشےکی ٹاپ والی میز پر پھیلا کر انہیں غور سےدیکھنےلگا۔ سگار اس وقت بھی اس کےہونٹوں میں دبا ہوا تھا۔تصویریں چھ ضرب آٹھ کےسائز میں تھیں اور خاصی واضح تھیں۔وہ اپنی نشست پر بیٹھ کر انہیں دیکھتا ہوا کچھ سوچ رہا تھا کہ کمرےکا وہ دروازہ کھلا جو اندرونی رہائشی حصےمیں کھلتا تھا۔
    ”ارےریحا بیٹی۔ آئو آئو۔“ ریحا کو اندر آتےدیکھ کر وہ مسکرا پڑا۔
    ”پاپا۔ میں مندر جا رہی ہوں۔“ ریحا نےکمرےمیں قدم رکھا ۔
    ”جلدی لوٹ آنا بیٹی۔ شام ہونےکو ہی۔ویر سنگھ کو ساتھ لےجائو۔“ وہ سگار منہ سےنکال کر بولا۔
    ”نہیں پاپا۔میں گاڑی میں جا رہی ہوں۔ کسی کو ساتھ لےجانا مجھےاچھا نہیں لگتا۔“ ریحا نےکہا۔ اس کی جانب دیکھا پھر مڑتےمڑتےاچانک اس کی نظر میز پر بکھری تصویروں پر پڑگئی۔ ایک دم اس کےقدم تھم گئی۔ آہستہ سےگردن گھما کر اس نےدوبارہ تصویروں کی جانب دیکھا اور اس کےچہرےکا رنگ بدل گیا۔ آنکھوں میں خوف سا اترا اور دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ وہ لپک کر میز کےقریب آ گئی۔
    ”کیا بات ہےبیٹی؟“ کرنل رائےنےچونک کر اس کی جانب دیکھاجو سرمد کی تصویروں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔
    ”پاپا۔ ۔۔ یہ ۔۔۔ یہ کون ہےپاپا؟“ وہ بیتابی سےبولی ۔
    ”ایک آتنک وادی ہےبیٹی۔“ کرنل رائےنےاس کےچہرےکا بغور جائزہ لیتےہوئےکہا اور اپنی سیٹ سےاٹھ گیا۔
    ”یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔ آتنک وادی۔۔۔ نہیں پاپا۔ آپ کو کچھ دھوکا ہوا ہے۔“ ریحا کےلہجےمیں چھپی بےقراری نےکرنل رائےکےکان کھڑےکر دیے۔
    ”تم کہنا کیا چاہتی ہو ریحا۔“ جنرل اس کےسامنے آن کھڑا ہوا۔ ”کیا تم اسےجانتی ہو؟“
    ”میں۔۔۔ میں۔۔۔“ ریحا ہکلا کر رہ گئی۔ پھر جیسےاس نےزبان کو گانٹھ دےلی۔ ”نہیں پاپا۔ میں اسےنہیں جانتی مگر اس کا چہرہ مہرہ آتنک وادیوں جیسا نہیں لگتا۔“
    ”نظریں نہ چرائو ریحا۔“ کرنل نےاس کےشانےپر ہاتھ رکھ دیا۔ ” آتنک وادیوں کےچہرےہم تم جیسےہی ہوتےہیں‘ جن سےہم فریب کھا جاتےہیں مگر مجھےلگتا ہےتم مجھ سےکچھ چھپا رہی ہو۔“
    ”میں ۔۔۔ میں آپ سےکیا چھپائوں گی پاپا۔“ ریحا نےنظریں جھکائےجھکائےجواب دیا ‘ جن کا ہدف اب بھی سرمد کی ایک تصویر تھا۔ کرنل کاہاتھ شانےسےہٹانا چاہا۔ اس کا کانپتا ہوا لہجہ اس کےجھوٹ کی چغلی کھا رہا تھا اور کرنل نےبال دھوپ میں تو سفید نہیں کئےتھےجو اس کی بات پر یقین کر لیتا۔
    ”ریحا۔۔۔“ کرنل نےاس کی ٹھوڑی کےنیچےہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر اٹھایا اور جب اس نےکرنل سےنظرملانےسےگریز کیا تو اسےاپنےشک پر یقین کےسائےلہراتےنظر آنےلگی۔ ”مجھ سےنظر ملا کر بات کرو ریحا۔“ کرنل کا لہجہ سخت ہو گیا۔
    ”کیا بات کروں پاپا؟“ ایک دم وہ سسک پڑی۔
    ”ریحا۔“ بھک سےکرنل کےدماغ کا فیوز اڑ گیا۔ آواز میں حیرت اور کپکپاہٹ ایک ساتھ ابھرے۔ پھر اس نےروتی ہوئی ریحا کو سینےسےلگا لیا۔ ”کیا بات ہےمیری جان۔ صاف صاف کہو۔ رئوو مت۔ تم جانتی ہو تمہارے آنسو مجھ سےبرداشت نہیں ہوں گے۔“
    ”پاپا۔۔۔ پاپا۔۔۔“ ریحا بلک رہی تھی۔”یہ وہی تو ہےجس کا میں نے آپ سےذکر کیا تھا۔اسی کےلئےتو میں روز سیتا مندر میں دیاجلانےجاتی ہوں۔ پاپا۔ یہ آتنک وادی کیسےہو سکتا ہے؟ یہ تو کسی بچےکی طرح معصوم ہےپاپا۔ “
    ریحا کہتی رہی اور حیرت زدہ کرنل اس کی کمر پر ہاتھ رکھےسنتا رہا۔ اس کےدل و دماغ میں بھونچال سا آیا ہوا تھا۔ اسےریحا نےیہ تو بتایاتھا کہ وہ لندن یونیورسٹی میں ایم بی اےکےکورس کےدوران کسی لڑکےمیں انٹرسٹڈ ہو گئی تھی اور جب تک اس کی طرف سے”ہاں نہ “ کا صاف صاف اظہار نہ ہو جائے‘ اسےشادی کےفیصلےکےلئےوقت دیا جائے۔ تب کرنل اور اس کی پتنی سوجل نےاس معاملےکو مسئلہ نہ بنایا ۔ بلکہ ریحا کو کچھ عرصےکےلئےاس کی مرضی پر چھوڑ دیا۔وہ لڑکا کون ہے؟یہ ریحانےنہ بتایا۔ اور وہ کس مذہب سےہے؟ اس بارےمیں ان کےذہن میں کوئی سوال پیدا ہی نہ ہوا ۔ ان کےوہم میں بھی نہ تھا کہ وہ لڑکا مسلمان ہو گا۔
    کرنل کےسینےسےلگ کر ریحا نےکھل کر آنسو بہا لئےتو اس کا من ہلکا ہو گیا جبکہ کرنل رائےکےلئےسوچ اور الجھن کی کتنی ہی نئی راہیں کھل گئیں۔ بیٹی کے آنسو پونچھ کر اس نےاسےکرسی پر بٹھایا اور خود اس کےسامنےمیز کےکونےپر ٹک گیا۔ پھر اسےسرمد کےبارےمیں اب تک کی ساری معلومہ باتیں بتائیں۔ مگر ریحا کےچہرےپر اول تا آخر بےاعتباری کےرنگ چھائےرہی۔
    ”اب تم بتائو بیٹی۔ میں تمہاری بات پر یقین کروں یا اس ساری صورتحال پر جس میں یہ لڑکا ہمارےہاتھ لگا۔ ہاں۔۔۔ کیا نام بتایا تم نےاس کا؟“ اچانک کرنل رائےنےریحا کی جانب انگلی اٹھائی۔
    ”ابھی تک تو میں نےاس کا نام نہیں بتایا ۔“ ریحا جیسےباپ کی چال سمجھ گئی۔ ”اور معاف کیجئےگا پاپا۔ فی الحال میں آپ کو اس کا نام بتائوں گی بھی نہیں۔“
    ”یہ کوئی مشکل نہیں ہےریحا۔“ اچانک کرنل رائےکےاندر کا ہندو فوجی باہر آ گیا۔ ”میں چاہوں تو دس منٹ کےاندر اندر لندن یونیورسٹی سےاس لڑکےکےبارےمیں مکمل معلومات منگوا سکتا ہوں مگر۔۔۔“ وہ رک گیا۔ ”میں چاہتا ہوں مجھےایسا نہ کرنا پڑے۔“
    ریحا کو ایک دم اپنی حماقت کا اب احساس ہوا کہ اس نےسرمد کےحوالےسےاپنےہاتھ کاٹ کر باپ کےہاتھ میں دےدیےہیں۔
    ”تم نےمیری پوزیشن بڑی نازک کر دی ہےریحا۔“ جنرل اٹھا اور ہاتھ پشت پر باندھےکمرےمیں ٹہلنےلگا۔”میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس صورت حال میں مجھےکیا کرنا چاہئے؟“
    ”پاپا۔“ ریحا نےباپ کی طرف دیکھتےہوئےکہا۔”کچھ بھی ہو ۔ اسےکچھ نہیں ہونا چاہئی۔ آپ نےاپنےسیل میں اس کا جو حشر کیا ہی‘ میں اسےسہہ نہیں پا رہی ہوں۔“
    ”وہ اپنی جگہ ضروری تھا ریحا۔“ کرنل نےخشک لہجےمیں کہا۔ ”میں بتا چکا ہوں کہ وہ ہمیں چھائونی نمبر سینتالیس پر اٹیک کےدوران ملا۔“
    ”ہو سکتا ہے آپ کی معلومات درست ہوں پاپا لیکن مجھےوہ چاہئے۔ زندہ سلامت اور بس۔۔۔“ ریحا کھڑی ہو گئی۔
    ”پاگل ہو گئی ہو تم۔“ کرنل رائےکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچےکا نیچےرہ گیا۔”یہ کیسےہو سکتا ہی۔ وہ بھارت ماتا کا دشمن ہےاور۔۔۔“
    ”سب کچھ ہو سکتا ہےپاپا۔“ ریحا کےلبوں پر بڑی جاندار مسکراہٹ ابھری۔ ”کیا میں نہیں جانتی کہ آپ کےٹارچر سیل میں کیا کچھ ہوتا ہے؟ اگر کاکا ابراہیم کو پچیس لاکھ کےعوض جہادی تنظیم کےحوالےکیا جا سکتا ہےتو آپ کی بیٹی کی پسند اسےکیوں نہیں مل سکتی؟“
    ” آہستہ بولو ۔۔۔ آہستہ۔“ کرنل رائےنے آگےبڑھ کر اس کےہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔اس کی آواز میں خوف سمٹا ہوا تھا۔”تم یہ سب جانتی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم شور مچا دینےکی دھمکی دےکر مجھےبلیک میل کرو۔“
    ”دھمکی۔۔۔“ ریحا نےباپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ ”یہ دھمکی نہیں ہےپاپا۔ سودا ہے۔ میرےاور آپ کےبیچ۔ میں اپنی پسند حاصل کرنےکےلئےکچھ بھی کر سکتی ہوں۔ کسی حد تک بھی جا سکتی ہوں۔اگر آپ ایک اچھےپاپا بنےرہےتو میں دنیا کی سب سےلاڈلی بیٹی ہوں اور اگر آپ کا سوتیلا پن جاگا تو میں اپنی ماما کی بیٹی بننےپر مجبور ہو جائوں گی۔“
    کرنل رائےکا منہ حیرت سےکھلےکا کھلا رہ گیا۔وہ بات جسےوہ وقت کی تہہ میں دفن کر چکا تھا‘ ریحانےایک ہی ٹھوکر سےاسےماضی کی قبر سےباہر نکال لیا تھا۔ ریحا اس کی پتنی سوجل کےپہلےپتی راکیش سےتھی جس کےمرنےکےبعد کرنل رائےنےسوجل سےشادی کر لی تھی۔ سوجل کو آج بھی شبہ تھا کہ اس کےپتی راکیش کو کرنل رائےنےقتل کروایا تھا مگر ثبوت نہ ہونےکےباعث وہ خاموشی سےدن گزار رہی تھی۔ اگر اس سکینڈل کو اچھال دیا جاتا تو کرنل رائےکہاں ہوتا‘ اسی کی طرف اشارہ کر کےریحا نےاسےخوف کی دلدل میں پھینک دیا تھا۔
    کتنی ہی دیر وہ خالی خالی نظروں سےاس دروازےکو تکتا رہا جس سےنکل کر ریحا جا چکی تھی۔ پھر اس کی نظریں میز پر بکھری سرمد کی تصویروں پر جا پڑیں۔ اسےہوش سا آ گیا۔ تھکےتھکےقدموں سے آگےبڑھ کر اس نےتصویریں سمیٹیں۔ لفافےمیںڈالیں اور لفافہ میز کےخفیہ خانےمیں سرکا دیا۔

    * * *​
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اب تو لگتا ہے ابن صفی کے کسی جاسوسی ناول کا مطالعہ شروع کردیا ہے میں نے جو کہ میری پسند نہیں ہے۔ مجھے عشق کے ع ش ق سے دلچسپی ہے۔

    لیکن اب دریا میں سے گذرنا تو ہے ۔ سو گذر رہا ہوں ۔
     
  3. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم بھائی آپ عشق کے قاف کے دروازے کے پاس پہنچ چکے ہیں بس تھوڑے سے صبر سے کام لیں پھر آپ خود کہیں گے کہ مصنف نے کیا کمال کیا ہے
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    لیکن عرفان بھائی ۔ جس طرح آپ ناغے کر رہے ہیں ۔ اس طرح‌تو عشق کے ق تک پہنچنا مشکل نظر آتا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں