1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق کا قاف ( سرفراز احمد راہی) 10

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏16 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عشق کا قاف
    سرفراز احمد راہی​



    ”ہم دونوں کشمیری ہیں سرمد۔“ حمزہ بتا رہا تھا۔ ”وہاں اس وقت جتنی بھی جماعتیں جہاد کےنام پر سرگرم عمل ہیں ‘ ہم ان میں سےکسی ایک سےبھی تعلق نہیں رکھتے۔ اس لئےکہ کہیں نہ کہیں ان کےسیاسی مفادات اصل مقصد سےٹکراتےہیں۔ کمانڈر کےنام سےہم جسےپکارتےہیں‘ ایک اللہ کا بندہ ہےجس کےدل میں اپنےغلام وطن کا دردٹیس بن کر دھڑکتا ہے۔اس کا کسی جہادی جماعت سےکوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ گوریلا کارروائیوں سےجس طرح کا نقصان پہنچارہا ہے‘ وہ دن بدن بھارتی فوجوں کےلئےناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ ہم نہیں جانتےکہ اس مجاہد کا تعلق کس کس علاقےاور کس کس فرد سےہےلیکن یہ جانتےہیں کہ اس کےگروپ میں شامل ہونےوالےلاوارث مرتےہیں نہ ان کی لاشوں کےسودےکئےجاتےہیں۔ان کی شہادت کےبعد ان کی میتیں ان کےاپنےعلاقوں میں پہنچائی جاتی ہیں۔ کیسے؟ یہ ہم نہیں جانتے۔ کمانڈر کےگروپ کا نام ”عشاق“ ہے۔وہ اللہ کےعاشق ہیں۔ رسول اللہ کےعاشق ہیں اور بس۔ ان کا ایک ہی نعرہ ہے” عزت کی آزاد زندگی یا شہادت۔“ گروپ میں ہر شامل ہونےوالےکےلئےبنیادی شرط یہ ہےکہ وہ عمرہ کرے۔ اللہ کےگھر میں حاضری دینےکےبعد اپنے آقا کےدر پر پہنچے۔ اپنےتن من کو قبولیت کا غسل دے۔اس کےبعد گروپ میں شمولیت کےلئےکمانڈر کےخاص آدمی سےرابطہ کرے۔ایک ماہ کی گوریلاٹریننگ کےبعد معرکوں میں شمولیت کےلئےڈیوٹی لگ جاتی ہے۔ پھر یہ اپنا اپنا نصیب ہےکہ شہادت ملتی ہےیا مجاہدانہ حیات۔“
    ”تو آپ دونوں بھی یہاں۔۔۔“
    ”ہاں۔“ حمزہ نےسرمد کی بات اچک لی۔ ”ہم پہلےکشمیری مجاہدین کی ایک جماعت کےساتھ وابستہ رہ چکےہیں۔ ٹریننگ کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہم عمرہ کی شرط پوری کرنےکےلئےیہاں آئےتھے۔“
    ”اور طلال کون ہے؟“
    ”یہ ہمارا عراقی ساتھی ہے۔ عشاق میں دنیا بھر سےجذبہ شہادت سےسرشارلوگ جوق در جوق شامل ہو رہےہیں۔ہمیں کل تک بہر صورت سرینگر پہنچنا ہے۔طلال نہ آیا تو ہم دونوں اس کےبغیر رخصت ہو جائیں گے۔“
    ”لیکن اب مجھےبھی آپ کےساتھ جانا ہے۔“ سرمد نےجلدی سےکہا۔
    ”تم عمرہ کر چکےہو۔ اور نجانےکیوں مجھےتمہاری باتوں میں سچائی نظر آتی ہے۔ کیوں حسین۔“حمزہ نےگردن گھمائی۔ ” کیا خیال ہے؟“
    ”میں آپ سےمتفق ہوں بھائی۔“ حسین نےان دونوں کی جانب دیکھا۔ ”سرمد ہمارے آقا کےدر پر حاضری دےکر آ رہا ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں اس کی نیت پر شک کرنا چاہئے۔“
    ”لیکن سرمد۔ “ حمزہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔ ” تمہارےگھر والے۔۔۔“
    ”ان کےعلم میں نہیں ہےکہ میں کیا کرنےجا رہا ہوں ۔ میں چاہتا بھی نہیں کہ ان سےبحث و تمحیص کےبعد اس راہ پر قدم رکھوں جو مجھےمیرے آقا کےدر سےتفویض ہوئی ہے۔“
    ”شادی ہو چکی ہےتمہاری؟“ حمزہ نےپوچھا۔
    ”عاشقوں کی شادیاں ان کےمقصد سےہو چکی ہوتی ہیں حمزہ بھائی۔“ سرمد نےگول مول جوا ب دیا۔ایک پل کےلئےایک معصوم سا چہرہ اس کےتصور میں ابھرا ‘ جسےاس نےفوراً ہی تیز ہوتی دھڑکن کےپردےمیں چھپا لیا۔
    ”یہ تو تم نےسچ کہا۔“ حمزہ اس سےمتاثر ہو چکا تھا۔” پھر بھی عشاق کےمنشور میں ہےکہ ساری معلومات سچی اور صاف صاف بہم پہنچائی جائیں۔“
    ”اس کےلئےمیں تیار ہوں ۔ میرا دنیا میں سوائےاپنےوالد کےاور کوئی نہیں ہے۔ انہیں معاشی طور پر میری مدد کی ضرورت بھی نہیں۔ وہ بڑےنامور ڈاکٹر ہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ انہیں میرےاس اقدام کےبارےمیں تب پتہ چلےجب میں کچھ کر کےدکھائوںتاکہ وہ مجھ پر فخر کر سکیں۔ “
    ”ہوں۔ “ حمزہ نےکچھ سوچتےہوئےسر ہلایا۔ ”اپنا پاسپورٹ دو۔ “
    سرمد نےقالین پر پڑا بیگ کھولا۔ پاسپورٹ نکال کر حمزہ کےحوالےکیا‘ جسےوہ کھول کر دیکھنےلگا۔
    ”سرمد۔ آخری بار سوچ لو۔ اس کےبعد تمہیں یہ موقع نہیں ملےگا کہ تم اپنےفیصلےپر نظر ثانی کر سکو۔“
    ”سوچ لیا حمزہ بھائی۔“ ایک عزم سےسرمد نےکہا۔ ” فیصلہ تو میرے آقا نےفرما دیا۔ مجھےتو اس پر صرف عمل کرنا ہے۔“
    ”تو ٹھیک ہے۔“ حمزہ اٹھ گیا۔ ”تم حسین کےساتھ چلےجائو۔ اپنی تمام چیزیں جن سےتمہاری شناخت ہو سکے‘ یا تو ضائع کر دو‘ یا اپنےگھر پاکستان کوریئر کر دو۔ صرف یہ پاسپورٹ اور آئیڈنٹی کارڈ ہےجو تمہاری پہچان رہےگا ‘وہ بھی سرینگر تک۔ اس کےبعد یہ بھی تمہارےلئےبیکار ہو جائےگا۔“
    ”میرےپاس ویزا کارڈ اور کریڈٹ کارڈ کےعلاوہ سعودی کرنسی بھی ہےحمزہ بھائی۔ اس کا کیا کروں؟“ سرمد نےبیگ سےچیزیں نکالتےہوئےپوچھا۔
    ”اگر تم چاہو تو عشاق کو عطیہ کر سکتےہو لیکن یہ تمہاری خوشی پر منحصر ہے۔ اس کےلئےکمانڈر کی طرف سےکوئی ڈیمانڈ نہیں ہے۔“
    ”تو یہ لیجئے۔ یہ میری طرف سےعشاق کو عطیہ کر دیجئے۔“ سرمد نےاپنا کریڈٹ کارڈ‘ ڈاکٹر ہاشمی کا دیا ہوا ویزا کارڈ اورسعودی کرنسی حمزہ کےحوالےکر دی۔ بیگ سےاس نےتمام کاغذات نکال لئے۔ ان کا ایک پیکٹ بنایا۔ اس پر گھر کا پتہ لکھا اور حسین کےحوالےکر دیا۔
    ”حسین بھائی۔ یہ کوریئر کرا دینا۔ میرا جانا ضروری تو نہیں ہےاس کےلئے۔“
    ”ٹھیک ہے۔ “ حمزہ نےحسین کو اشارہ کیا۔ اس نےپیکٹ لےلیا۔ ” تم یہیں رکو۔ حسین کچھ دیر میں لوٹ آئےگا۔ مجھےواپسی میں تین چار گھنٹےلگیں گے۔ “
    ”ٹھیک ہےحمزہ بھائی۔“ سرمد ان کےساتھ دروازےتک آیا۔
    ”کسی بھی انجان شخص کےلئےدروازہ کھولنےکی ضرورت ہےنہ کسی سےبات کرنےکی۔ میں تمہارےلئےکافی اور کچھ کھانےکو بھجوا تا ہوں۔“
    جواب میں سرمد نےمحض سر ہلا دیا۔ وہ دونوں کمرےسےنکلےتو اس نےدروازہ اندر سےلاک کر لیا۔
    اچانک اسےکچھ خیال آیا ۔ کچھ دیروہ سوچ میں ڈوبا رہا پھر موبائل جیب سےنکال کر ایک نمبر ملایا۔
    ”ہیلو۔ ریحا از ہیئر۔“ دوسری جانب سےوہ بیتابی سےچہکی۔ ”اچھےتو ہو سرمد؟ “
    ”ہاں ہاں۔ “ وہ ہولےسےمسکرایا۔ ”میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم سنائو۔“
    ”میں بھی ٹھیک ہوں۔ سنو سرمد۔ کیا تم یقین کرو گے آج صبح سےمیں چاہ رہی تھی کہ تم مجھےفون کرو۔ اور دیکھو ‘ تم نےفون کر دیا۔ “ وہ ہنسےجا رہی تھی۔ کھلی جا رہی تھی۔
    ”دل کو دل سےراہ ہوتی ہےریحا۔“ وہ بےاختیار کہہ گیا۔
    ”اچھا۔“ حیرت سےاس نےکہا۔ ”تمہارےدل کو بھی میرےدل سےراہ ہو گئی سرمد۔“
    ”میں تو محاورتاً کہہ رہا تھا پگلی۔“ سرمد کو اپنےالفاظ کی نزاکت کا احساس ہوا۔
    ”چلو۔ ہم محاورےہی میں سہی‘ تمہارےدل کےقریب تو آئی۔ اچھا یہ کہو ۔ خیریت سےفون کیا ؟“ اس نےخود ہی بات بدل دی۔ شاید اس ڈر سےکہ سرمد کا اگلا فقرہ ‘ حقیقت کا آئینہ دکھا کر اس سےیہ چھوٹی سی خوشی بھی چھین نہ لے۔
    ”ہاں۔“ سرمد نےجھجک کر کہا۔ ”ایک چھوٹا سا کام تھا ریحا۔“
    ”تو کہو ناں۔ جھجک کیوں رہےہو؟ سرمد ۔ یقین کرو اگر مجھےزندگی میں تم سےکوئی کام پڑا ناں۔ تومیں تمہیں حکم دوں گی۔ درخواست نہیں کروں گی۔ ارےہمارا ایک دوسرےپر جو حق ہےاسےکھل کر استعمال کرو یار۔ نفع نقصان‘ لینا دینا‘ تعلق کو ناپ تول کر کیش کرنا ‘ یہ تو ہم ہندو ساہوکاروں کی بدنامیاںہیں۔ تم مسلمان ہو کر اس چکر میں کیسےپڑ گئے؟“ وہ اس کےلتےلےرہی تھی۔
    ”نہیں۔ ایسی بات نہیں ریحا۔“ وہ جھینپ گیا۔
    ”تو پھر جلدی سےکہہ ڈالو۔ کیا کام ہے؟“
    ”ریحا۔“ اس نےسارےتکلفات بالائےطاق رکھنےکی ہمت کر ڈالی۔ ”تمہیں ایک بار لندن جانا پڑےگا۔“
    ”تم آ رہےہو وہاں تو میں ہزار بار لندن جانےکو تیار ہوں سرمد۔“ ریحا ایک دم بےچین ہو گئی۔
    ”نہیں ۔ میں نہیں آ رہا لندن۔“
    ”تو پھر۔“ وہ حیران ہوئی۔
    ”تم وہاں میرےفلیٹ پر چلی جانا۔ دروازےکےسامنےاوپر جاتی سیڑھیاںہیں۔ ساتویں زینےکےکارپٹ کےنیچےفلیٹ کی چابی ہے۔ اندر میری رائٹنگ ٹیبل کےنچلےدراز میں میرےتمام ڈاکومنٹس ‘ رزلٹ کارڈ اور ڈگری ایک لفافےمیں بند پڑےہیں۔ وہ میرےگھر کےپتےپر میرےپاپا کےنام کوریئر کر دینا پلیز۔“
    ”مگر۔۔۔“
    ”دو مہینےکا کرایہ میرےایڈوانس میں ابھی باقی ہے۔ میرےلینڈ لارڈ سےمل کر میرا حساب چکا دینا۔ سامان جسےچاہےدےدینا۔ مجھےکسی چیز سےکچھ لینا دینا نہیں۔“ اس نےریحا کی بات کاٹ کر کہا۔
    ”وہ تو میں سب کر دوں گی۔ مگر تم ہو کہاں؟“
    ”میں۔۔۔“ ایک پل کو سرمد رکا۔ پھر بولا۔ ”میں سعودی عرب میں ہوں ریحا۔ عمرہ کرنے آیا تھا یہاں۔“
    ”تو واپسی کب تک ہےتمہاری؟“
    ”جلد ہی۔“ اس نےبات گول کردی۔
    ”وہاں سےپاکستان جائو گےکیا؟“
    ”شاید۔“ اس کی آواز دھیمی ہو گئی۔ ” ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن لندن نہ جانےکا میں اپنےپاپا سےوعدہ کر چکا ہوں ریحا۔ اس لئےتمہیں تکلیف دےرہا ہوں۔“
    ”وہ تکلیف تو میں اٹھا لوں گی سرمد لیکن مجھ سےوعدہ کرو تم جہاں بھی رہو گےمجھ سےرابطہ رکھو گے۔ “
    ”ہاں۔“ کچھ سوچ کر سرمد نےکہا۔ ” اگر ممکن ہوا تو ۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں۔“
    ”اور جب بھی ہو سکا مجھ سےملو گےبھی۔“اس نےمزید پائوں پھیلائی۔
    ”ہاں۔ ضرور۔“
    ”تو ٹھیک ہی۔ “ وہ ایک دم خوش ہو گئی۔ ”میں ایک دو روز میں لندن چلی جائوں گی۔ پھر تمہیں بتائوں گی کہ تمہارا کام ہو گیا۔“ وہ اس سےرابطےکا بہانہ محفوظ کر رہی تھی۔
    ”میں خود تم سےبات کروں گا ریحا۔ تم فکر نہ کرو۔“
    ”چلو۔ جو پہلےبات کر لی‘ وہی سکندر۔“ ریحا کا موڈ بیحد خوشگوار ہو رہا تھا۔ وہ سرمد کےہنس کر بول لینےہی پر فدا ہوئی جا رہی تھی۔
    ”اچھا ریحا۔ اب اجازت۔“
    ”کس دل سےکہوں کہ ہاں۔“ وہ جذباتی ہو گئی۔”مگر ہووگا تو وہی جو طےہے۔ اس لئےگڈ بائی سرمد۔ آل دی بیسٹ۔“
    ”خوش رہو ریحا۔ سلامت رہو۔“ سرمد نےبٹن دبا دیا۔ وہ مزید اس پگلی کو باتیں کرنےکا موقع دےکر اس کےخواب کا دورانیہ طویل نہ کرنا چاہتا تھا۔ موبائل جیب میں رکھ کر اس نےایک گہرا سانس لیا۔پھر کسی گہری سوچ میں گم بیڈ پر نیم دراز ہو گیا۔
    سوچتےسوچتےریحا کی جگہ موجودہ صورتحال نےلےلی اور بےاختیار اس کےرگ و پےمیں ایک سکون سا بھر گیا تھا۔ یوں لگتا تھا ‘ وہ جس مقصد کےلئےیہاں آیا تھا وہ پورا ہو گیا ہے۔
    ”عشاق۔ “ اچانک اس کےذہن کےپردےپر ایک لفظ ابھرا۔ کمانڈر نےکیسا بامقصد لفظ اپنےگروپ کےلئےچُنا تھا۔اسےاپنےبارےمیں خیال آیا تو لگا ‘ یہ لفظ اس کےلئےہی منتخب کیا گیا ہے۔ وہ جو ایک ناکام عاشق تھا۔ اسےایک کامیاب راستےکی نوید دےکر اس کے آقا نےرخصت کر دیا تھا۔ صفیہ کےعشق نے‘ عشق ِمجازی نےاس کا ہاتھ عشق ِحقیقی کےہاتھ میں دےدیا تھا۔
    ٭
    تقریباً ایک گھنٹےبعد حسین لوٹا ۔ اس نےڈاکٹر ہاشمی کےپتےپر سرمد کا پیکٹ کوریئر کرا دیا تھا۔ رسید سرمد کو دےکر وہ باتھ روم میں گھس گیا۔ سرمد رسید ہاتھ میں لئےکچھ دیر اسےغور سےدیکھتا رہا۔ پھر ایک طویل سانس لےکر اسےٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ حسین نےاسےایسا کرتےہوئےدیکھا اور خاموشی سےصوفےپر آ بیٹھا۔دوپہر کا کھانا ان دونوں نےاکٹھےکھایا۔ حمزہ شام کےقریب لوٹا۔ وہ بہت تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
    ”کام ہو گیا ؟“ حسین نےبیتابی سےپوچھا۔
    ”ہاں۔ بڑی مشکل سےہوا مگر ہو گیا۔“ حمزہ نےتین پاسپورٹ نکال کر اس کی طرف اچھالےاور خود بستر پر گر پڑا۔
    ”ویری گڈ۔“ حسین نےتیسرا پاسپورٹ دیکھ کر حیرت بھرےتحسین آمیز لہجےمیں کہااور پاسپورٹ سرمد کےہاتھ میں دےدیا۔
    سرمد نےاپنا پاسپورٹ کھول کر دیکھا اور اب حیران ہونےکی باری اس کی تھی۔ ”ارے“ کہتےہوئےاس نےحمزہ کی جانب دیکھا۔ ”یہ کیسےہوا حمزہ بھائی؟“
    ”بس ہو گیا۔ اب تم لوگ تیار رہو۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجےہم لوگ چیک آئوٹ کر جائیں گے۔ نو بجےکی فلائٹ ہے۔ میں ٹکٹ کنفرم کرا لایا ہوں۔“
    سرمد نےمزید کوئی سوال کرنا مناسب نہ سمجھا اور پاسپورٹ جیب میں رکھ لیا جس پر حمزہ نےبھارت کا ویزہ لگوا لیا تھا۔
    ٹھیک پونےنو بجےوہ لوگ ایر پورٹ پر تھے۔ ان کےپاس سوائےایک ایک ہینڈ بیگ کےاب کوئی سامان نہ تھا۔ ریوالور اورفالتو سامان ہوٹل کےکمرےہی میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہینڈ بیگز میں ان کا ایک ایک کپڑوں کا جوڑا‘ چند اشیائےضرورت اور پاسپورٹ تھے۔
    پورےنو بجےگلف ایر لائن کےطیارےنےدہلی کےلئےرن وےچھوڑ دیا۔ کھڑکی کےقریب بیٹھےسرمد نےجدہ ایر پورٹ کی جلتی بجھتی روشنیوں پر نظر ڈالی۔ پھر فضا میں جہاز سیدھا ہوا تو ان لوگوں نےسیفٹی بیلٹس کھول دیں۔ بےاختیار سرمد نےکھڑکی سےباہر دیکھا۔ اس کا دل بڑےزور سےپھڑپھڑایا۔ گنبد ِ خضریٰ اس کی نگاہوں میں دمکا اور غیر اختیاری طور پر اس کےلبوں پر درود شریف مہک اٹھا۔ سارا جسم ایک بار تن کر یوں ٹوٹا جیسےساری تھکان ‘ ساری کلفتیں ‘ ساری اداسیاں ہوا ہو گئی ہوں۔ آنکھیں بند کرتےہوئےاس نےسیٹ کی پشت سےٹیک لگا لی۔ حمزہ اس کےساتھ والی سیٹ پر بیٹھا کنکھیوں سےدیکھ رہا تھا کہ سرمد کےلب ہولےہولےہل رہےہیں۔ اس نےکان لگا کر سنا اور عقیدت سےاس کا دل بھر آیا۔ وہ دم بخود رہ گیا۔ سرمد کےہونٹوں پر خالق ِکون و مکاں کا پسندیدہ وظیفہ جاری تھا۔
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔“
    ”عشاق“ کےلئےاس سےبڑا ورد اور کیا ہو سکتا ہے۔ “ اس نےسوچا اور بےساختہ اس کےہونٹ بھی متحرک ہو گئے۔
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔“
    اور وہاں سےہزاروں میل دور ‘ نور پور گائوں کےقریب‘ بابا شاہ مقیم کےمزار کےباہر کھڑےدرویش نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھایا۔ ہوائوں میں کچھ سونگھا اور پکار اٹھا۔
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔“ پھر وہ مزار کی طرف بھاگا۔ ”بابا۔ او بابا شاہ مقیم۔ دیکھ ۔ وہ چل دیا ہے۔ اپنی منزل کی جانب۔ دیکھ۔اسےمیرے آقا نےقبول کر لیا ہے۔ اس کا عشق اسےمہکا رہا ہےبابا شاہ مقیم۔ اسےدہکا رہا ہے۔ اسےصلی اللہ علیہ وسلم کےپر عطا کر دیےگئےہیں۔ وہ اڑ رہا ہے۔ اس کی پرواز شروع ہو گئی بابا۔ دیکھ ۔ اس نےاپنےخالق ‘ اپنےمعبودکی رضا ‘ اپنےمقصود‘اپنی منزل کی جانب سفر شرو ع کر دیا ہے۔ دیکھ۔ دیکھ۔ بابا شاہ مقیم دیکھ۔“
    درویش پاگلوں کی طرح ادھر سےادھر بھاگا پھر رہا تھا۔ آسمان کی جانب ہاتھ اٹھا اٹھا کر اشارےکر رہا تھا۔ مزار والےکو بتا رہا تھا۔ وہ بچوں کی طرح خوش تھا۔ قلقاریاں مار رہا تھا۔ ہوائوں میں اڑنےکو پر کھول رہا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ ایک دم وہ مزار کےباہر ایک جگہ رک گیا۔ بایاں بازو موڑ کر کمر پر رکھا۔دایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا۔ سر جھکا کر آنکھیں بند کر لیں اور دھیرےدھیرےہلکورےلینےلگا۔
    ”صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔“
    وہ جھوم رہا تھا۔گنگنا رہا تھا۔ رقص کر رہا تھا۔ چک پھیریاں لےرہا تھا۔ ہوا اس کےساتھ محو ِ رقص تھی۔ فضا اس کےساتھ بےخود تھی۔ درختوں کےپتےتال دےرہےتھے۔شاخیں سر دُھن رہی تھیں۔ مٹی سوندھی سوندھی خوشبو سےمستی پھیلا رہی تھی۔ آسمان پر فرشتےاپنےرب کےحضور گا رہےتھے۔ تارےچمک چمک کر صدائیں دےرہےتھے۔ کائنات وجد میں تھی۔ جلوت و خلوت کےلبوں پر ایک ہی گیت تھا۔ہر طرف ایک ہی نغمہ سرور بانٹ رہا تھا۔
    صلی اللہ علیہ وسلم۔
    صلی اللہ علیہ وسلم۔
    صلی اللہ علیہ وسلم۔

    ڈاکٹر ہاشمی کےسامنےسعودی عرب اور لندن سے آنےوالےدونوں پیکٹ کھلےپڑےتھی۔ ایک سےسرمد کےضروری کاغذات اور دوسرےسےاس کی ایم بی اےکی ڈگری‘ رزلٹ کارڈ اور یونیورسٹی کےدیگر ڈاکومنٹس بر آمد ہوئےتھے۔دونوں کےساتھ ہی سرمد کےطرف سےکوئی خط یا دوسری تحریر نہ تھی۔
    ان کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ سرمد نےانہیں یہ سب کچھ ارسال کیا تو کیوں؟وہ خود کہاں ہی؟ اپنا ٹھکانہ نہ بتایا تو اس کا سبب کیا ہے؟ان کےحساب سےسرمد کو کئی دن پہلےواپس ان کےپاس لوٹ آنا چاہئےتھا مگر اس کےبجائےاس کےکاغذات آئےتھےاور بس۔ مزید نہ کوئی خیر خبر نہ اطلاع۔
    سوچ سوچ کر ان کاسردرد سےپھٹنےلگا۔ اپنی الجھن دور کرنےکےلئےانہوں نے آخری بار پیکٹ کےریپر کا جائزہ لیا۔ اس پر بھیجنےوالےکا نام سرمد ہاشمی تحریر تھا۔یہ پیکٹ جدہ سےبھیجا گیا تھا۔جبکہ لندن سے آنےوالےپیکٹ پر کسی لڑکی ریحا کا نام اور پتہ سرمد کےفلیٹ کا تحریر تھا۔
    کچھ سوچ کر انہوں نےلندن یونیورسٹی کےانکوائری آفس کا نمبر ملایا۔ تھوڑی دیر بعد رابطہ ہو گیا مگر وہاں سےجو معلومات حاصل ہوئیں وہ اور بھی فکرمند کر دینےوالی تھیں۔ آفس والوں نےبتایا کہ سرمد عمرےکےلئےگیا اور واپس نہیں آیا۔ انہیں جس لڑکی ریحا نےسرمد کےڈاکومنٹس ارسال کئے‘ وہ سرمد کی کلاس فیلو تھی۔ بھارت کی رہنےوالی اور واپس انڈیا جاچکی تھی۔ وہ دوبارہ کب لندن آئی؟ اور کب اس نےسرمد کےڈاکومنٹس ڈاکٹر ہاشمی کو کوریئر کئے‘ اس سےیونیورسٹی والےلاعلم تھے۔
    ڈاکٹر ہاشمی کا دل گھبرا گیا۔ ان کا اکلوتا بیٹا کہاں تھا‘ کیا کر رہا تھا اور کس حال میں تھا؟ انہیں اس بارےمیں ایک فیصد بھی علم نہ ہو پایا تھا۔یہ بےخبری ان کےلئےسوہان ِروح بنتی جا رہی تھی۔ اچانک انہیں کچھ خیال آیا۔ ایک دم انہوں نےسامنےپڑا موبائل اٹھایا اور سرمد کا نمبر ملایا۔ دوسری طرف سےموبائل سرمد نےرسپانڈ نہ کیا۔وہ بار بار ٹرائی کرتےرہے۔ پہلےمسلسل۔ پھر وقفےوقفےسےمگر کوئی رسپانس نہ پا کر ان کی بےچینی آخری حدوں کو چھونےلگی۔ انہوںنےلندن کےپیکٹ سےریحا کا کوئی رابطہ جاننا چاہا مگر اس پر ریحا نےاپنا فون نمبر نہ لکھا تھا اور پتہ وہ دیکھ چکےتھےکہ سرمد کےفلیٹ کا تھا۔
    وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔
    انہیں سرمد کی حالت یاد آئی۔ وہ جس دگرگوں حال میں انہیں جدہ ایر پورٹ پر ملا تھا وہ اس کی ذہنی پریشانی کا منہ بولتا ثبوت تھی مگر انہوں نےاس کےپاکستان آ جانےپر معاملہ چھوڑ کر غلطی کی‘ اس کا احساس انہیں اب ہو رہا تھا۔ انہیں چاہئےتھا کہ وہیں اس سےساری بات جاننےکی کوشش کرتےیا اسےساتھ لےکر لوٹتے۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟
    ان کا دل جیسےکوئی مٹھی میں لےکر مسل رہا تھا۔انہوں نےسرمد کوباپ بن کر کم اور ماں بن کر زیادہ پالا تھا۔ اس کی اچانک گمشدگی اور غیر خبری ان کےلئےناقابل برداشت ہو رہی تھی۔
    آج صبح سےانہوں نےکوئی مریض نہ دیکھا تھا۔ اپنےکمرےمیں آتےہی انہیں دونوں پیکٹ مل گئےاور انہوں نےچپراسی سےکہہ دیا کہ مریضوں کو ڈاکٹر جمشید کےکمرےمیں بھجوا دی۔ ڈاکٹر جمشید کو انٹر کام پر مریض دیکھنےکی ہدایت دےکر انہوں نےپیکٹ کھولےاور اب چکرکھاتےہوئےدماغ پر قابو پانےکی ناکام کوشش کر رہےتھے۔
    ان کا دماغ کسی ایسےہمدرد کو تلاش کرنےمیں ناکام رہا جو اس صورتحال میں انہیں صحیح راستہ دکھا سکےیا ان کی پریشانی کم کرنےکےلئےکچھ کر سکی۔سوچتےسوچتےانہیں طاہر کا خیال آیا۔ وہ ان سےکافی بےتکلف بھی تھا۔ اس کےزندگی بھر کےمعاملات ان کےسامنے‘ اور اکثر انہی کےہاتھوں طےہوئےتھےحتی ٰ کہ اس کی شادی تک ان کی مرہون منت تھی۔ اس کےتعلقات ہر شعبہ حیات میں تھے۔ the proudکےحوالےسےوہ دنیا کےکئی ممالک میں جانا جاتا تھا۔
    انہوں نےٹیلی فون سیٹ اپنی طرف کھسکایا اور تیزی سےطاہر کا نمبر ملایا۔ نمبر ملاتےہوئےان کےہاتھوں کی کپکپاہٹ نمایاں تھی۔
    ”یس۔ انکل ۔ طاہر بول رہا ہوں۔“ دوسری جانب سے آواز ابھری تو ڈاکٹر ہاشمی کا خشک ہوتا ہوا گلا درد سےبھر گیا۔
    ”طاہر ۔۔۔ بیٹے۔“ ان کی آواز بھرا گئی۔
    ”کیا بات ہےانکل؟“ وہ چونک پڑا۔ ” خیریت تو ہے؟“
    ”پتہ نہیں بیٹے۔ “ وہ بےبس سےہو گئے۔
    ” انکل۔ انکل۔“ طاہر بیتابی سےبولا۔ ”خیریت تو ہےناں۔ کیا بات ہے آپ پریشان لگتےہیں۔“
    ”بیٹے۔ وہ سرمد۔۔۔ سرمد۔۔۔“ ان کی آواز ٹوٹ گئی۔
    ”کیا ہوا سرمد کو؟“ طاہر کےذہن کو جھٹکا سا لگا۔ ”انکل۔۔۔“
    ”پتہ نہیں بیٹے۔ ۔۔ “ وہ آنسو پینےکی کوشش کر رہےتھے۔ ”سرمد کا کوئی پتہ نہیں چل رہا۔“
    ”پتہ نہیں چل رہا؟“ حیرت سےطاہر نےکہا۔ ”انکل ۔ وہ لندن میں ہےناں۔۔۔“
    “نہیں۔ وہ وہاں نہیں ہے۔ جب ہم واپس آ رہےتھےتو وہ ہمیں جدہ ایر پورٹ پر ملا تھااور بہت پریشان تھا۔ میں نےاسےعمرہ کر کےسیدھا واپس پاکستان آنےکو کہا تھا مگر۔۔۔“
    ڈاکٹر ہاشمی کہہ رہےتھےاور طاہر بُت بنا ان کی بات سن رہا تھا۔ اس کےکانوں میں سیٹیاں سی گونج رہی تھیں۔اسےڈاکٹر ہاشمی کی آواز سنائی دےرہی تھی۔ سب کچھ سمجھ میں بھی آرہا تھا مگر جواب دینےکےلئےاس کی زبان سےکوئی لفظ نہ نکل رہا تھا۔ حواس جیسےپتھرا گئےتھے۔
    ”اب بتائو میں کیا کروں طاہر بیٹے۔ میرا سرمد کہاں ہے؟ کس حال میں ہی؟ کوئی نہیں بتاتا مجھے۔“ وہ بچوں کی طرح رو پڑے۔
    “انکل۔“ ایک دم اسےہوش آ گیا۔ ” آپ ۔۔۔ آپ گھبرائیےنہیں ۔ میں آ رہا ہوں آپ کےپاس۔فکر کی کوئی بات نہیں انکل۔ ہم مل کر سرمد کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ میں ابھی چند منٹ میں پہنچ رہا ہوں آپ کےپاس۔“
    اس نےریسیور کریڈل پر ڈالا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کےذہن میں صرف ایک بار صفیہ اور سرمد کےواسطےسےخیال آیا‘ جسےسر جھٹک کر اس نےدور پھینک دیا۔ اس بارےمیں درویش نےاس کا من یوں دھو ڈالا تھا کہ کیا کوئی تیزاب سنگ مرمر کو دھوتا ہو گا۔وہ تیز تیز قدموں سے آفس سےنکلا اورچند لمحوں کےبعد اس کی گاڑی ڈاکٹر ہاشمی کےہاسپٹل کی طرف اڑی جا رہی تھی۔
    ٭
    حمزہ‘ حسین اور سرمد دہلی ایر پورٹ پر اترےتو صبح کےسات بج رہےتھی۔ سردیوں کی صبح کا سورج طلوع ہونےکی جدوجہد کر رہا تھا۔
    خاصی سخت چیکنگ کےبعد وہ عمارت سےباہر نکلے۔ حمزہ نےایر پورٹ سےباہر کھڑی ٹیکسیوں میں سےکسی کو لفٹ نہ کرائی اور ان دونوں کو ساتھ لئےہوئےایر پورٹ کی حدود سےباہر نکل آیا۔ جونہی اس نےایر پورٹ بس سٹاپ پر قدم روکے‘ ایک آٹو رکشا ان کےقریب آ رکا۔
    ”خاص گنج چلیں گےصاحب؟“ دبلےپتلےڈرائیور نےگردن باہر نکالی۔
    ”ضرور چلیں گےبھائی۔“ حمزہ نےخوشدلی سےکہا ۔ ”بیٹھو بھئی۔“ اس نےحسین اور سرمد کو اشارہ کیا۔ تینوں پھنس پھنسا کر ہینڈ بیگز گود میں رکھےرکشا میں سوار ہوئےاور ڈرائیور نےرکشا آگےبڑھا دیا۔
    ”ناشتہ ؟“ اچانک ایک موڑ مڑتےہوئےڈرائیور نےپوچھا۔
    ”گھرچل کر کریں گے۔“ حمزہ نےمختصر جواب دیا اور تب سرمد کو پتہ چلا کہ رکشا والا ان کا اپنا آدمی ہے۔
    تقریباً بیس منٹ بعد رکشا خاص گنج کی گنجان آبادی میں داخل ہوا اور ایک دومنزلہ مکان کےسامنےرک گیا۔
    حمزہ نےاتر کر دروازےپر دستک دی۔ حسین اور سرمد اس کےپاس آ کھڑےہوئے۔ سرمد نےایک طائرانہ نگاہ سےارد گردکا جائزہ لیا۔ پاکستان کی کسی اندرون شہر کی آبادی سےملتا جلتا ماحول تھا۔ دکانیں اور مکان بھی ویسےہی تھے۔بھیڑ کا بھی وہی عالم تھا۔ ڈرائیور انہیں اتار کر رکشا وہیں چھوڑ کر کسی طرف نکل گیا۔دوسری دستک پر دروازہ کھل گیااور کسی نےانہیں اندر آنےکا راستہ دےدیا۔
    وہ تینوں اندر داخل ہوئے۔ سرمد نےاندر قدم رکھا تو دروازہ کھولنےوالےباریش نوجوان نےدروازہ بھیڑ دیا۔
    ”قاسم کہاں ہے؟“ اس نےحمزہ سےپوچھا۔
    ”شاید ناشتہ لینےگیا ہے۔“ حمزہ نےبتایا اوروہ ڈیوڑھی سےگزر کر صحن میں آ گئے۔
    ”کب روانگی ہے؟“ بیٹھک نما کمرےکےدروازےپر جوتیاں اتار کر وہ اندر آئےتو فرشی نشست پر بیٹھتےہوئےحمزہ نےپوچھا۔
    ”شام چھ بجی۔“ نوجوان نےکہا ۔ پھر اس کی نظر سرمد سےہٹ کر حمزہ پر ٹھہر گئی۔ ”یہ کون ہیں؟“
    ”اپنےہی ساتھی ہیں۔عمرےکےبعد وہیں مل گئےتھے۔“
    ”دائود کو خبر ہے؟“
    ”نہیں۔ میں خود بتا دوں گا۔“
    ”ٹھیک ہے۔“ نوجوان نےبات ختم کر دی۔ پھر اس نےسرمد کی طرف مصافحےکےلئےہاتھ بڑھایا۔ ”خالد کمال۔“
    ”سرمد۔“ اس نےگرمجوشی سےہاتھ ملاتےہوئےکہا۔
    اسی وقت قاسم ناشتےکا سامان لئےہوئےکمرےکےدروازےپر آ رکا۔ ”خالد۔ یہ سنبھالو۔ میں ذرا دائود کو خبر کر آئوں۔“
    خالد نےدو نوں شاپر اس کےہاتھ سےلےلئےتو وہ وہیں سےلوٹ گیا۔ خالد نےجب تک حلوہ پوڑی‘ چنےاور بالائی کےدونےپلیٹوں میں نکال کر رکھی‘ اتنی دیر میں ان تینوں نےباری باری اٹیچ باتھ روم میں جا کر رفع حاجت کی۔ منہ ہاتھ دھویااور پھر ناشتےکےلئےبیٹھ گئے۔
    ”تم ناشتہ کر چکےکیا؟“حمزہ نےخالد سےپوچھا۔
    ”نہیں۔ تم لوگ کرو۔ میں اتنی دیرمیں چائےبنا لوں۔“وہ باہر نکل گیا۔
    سرمد ‘ ان دونوں کےساتھ ناشتےمیں مشغول ہو گیا۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔بات جتنی بھی تھی اس کی سمجھ میں آ رہی تھی اور جو نہ آ رہی تھی ‘ اس کےبارےمیں وہ سوال کرنا نہ چاہتا تھا۔ناشتےکےبعد چائےکا دور چلا۔ کپ خالی ہوئےہی تھےکہ قاسم لوٹ آیا۔
    ”دائود کو خبر کر دی ہےمیں نے۔ وہ ٹھیک چھ بجےٹاٹا بس سٹینڈ آگرہ روڈ پر ہمارا انتظار کرےگا۔“
    حمزہ نےجواب دینےکےبجائےمحض اثبات میں سر ہلانےپر اکتفا کیا۔
    ”اب تم لوگ آرام کر و۔ سرینگر تک کا سفر بڑا تھکا دینےوالا ہے۔“قاسم ‘ خالد کےساتھ کمرےسےنکل گیا۔
    حمزہ اور حسین نےتکیےسر کےنیچےرکھےاور کمبل اوڑھ لئے۔ سرمد نےتکیہ دیوار کےسہارےکھڑا کیا اور اس کےساتھ ٹیک لگا کر نیم دراز ہو گیا۔کمبل اس نےکمر تک کھینچ لیا۔
    ”سونےکی کوشش کرو سرمد۔ ورنہ سفر میں دشواری ہو گی۔“
    ” آپ فکر نہ کریں حمزہ بھائی۔ “ سرمد مسکرایا۔ ” میں جاگنےکا ایکسپرٹ ہوں۔ نیند آئی تو سو جائوں گا۔“
    حمزہ نےاس سےبحث نہ کی۔ آنکھیں بندکر لیں ۔حسین اتنی ہی دیر میں خراٹےنشر کرنےلگا تھا۔
    اب سرمد انہیں کیا بتاتا کہ سرینگر کا نام سنتےہی اس کی آنکھوںمیں ریحا اتر آئی تھی۔ وہ سرینگر میں جموں کشمیر روڈ پر رہتی تھی۔ انہیں بھی کشمیر جانا تھا۔سوچیں گڈمڈہونےلگیں۔ اس نےپلکیں موند لیں اور ایک دم ریحا کا تصور دھواں ہو گیا۔
    اب گنبد ِ خضریٰ سامنےتھا۔ سکون نےاسےباہوں میں لےلیا۔ ایک دم اسےکوئی خیال آیا اور سارےجسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔اس کا دل بڑےزور سےدھڑکا۔ پھر یقین نےجیسےاس کےخیال پر مہر ثبت کر دی۔ وہ بےحس و حرکت پڑا رہ گیا۔وہ خیال کیا تھا ایک خوشبو تھی جو اس کےرگ و پےمیں سرایت کرتی جا رہی تھی۔ اس نےجان لیا تھا کہ جب سےجدہ ایر پورٹ سےروانہ ہوا تھا‘ وہ جب بھی آنکھیں موندتا ‘ گنبد ِ خضریٰ اس کےتصور کےپردےپر ابھر آتااور زبان پر درود تو ہر وقت جاری رہنےلگاتھا۔ جب وہ زبان سےکوئی بات کرنےلگتا تو دل اس وظیفےکو چومنےلگتا۔اس وقت بھی اس نےپلکیں موندیں تو گنبد ِ خضریٰ سامنے آ گیا اور زبان ‘ وہ تو جیسے”صلی اللہ علیہ وسلم “ کےلئےوقف ہو چکی تھی۔اس کےہولےہولےہلتےہونٹ بے آواز درود پڑھ رہےتھےاور دزدیدہ نگاہوں سےحمزہ اسےدیکھ کر رشک محسوس کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سرمد ہر وقت درود شریف کےورد میں محو رہتا ہے۔ اسےاس حال میں دیکھ دیکھ کر وہ خود بھی درود پڑھنےکا عادی ہوتا جا رہا تھا۔ اس وقت بھی جب اس نےسرمد کےہونٹ ہلتےدیکھےتو بےاختیار خود بھی دل ہی دل میں درود پڑھنےلگا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ سرمد کو پتہ چلےکہ وہ اس کی تقلید کر رہا ہے۔ وہ اس مہک کو اپنےتک محدود رکھنا چاہتا تھا جس نےاس کےاندر عقیدت کا پودا لگا دیا تھا۔ وہ اس پودےکو چپ چاپ‘ خاموشی اور رازداری سےسینچنا چاہتا تھا۔
    ٭
    دائود تیس بتیس سال کا ایک قوی الجثہ کلین شیو آدمی تھا۔ سادہ شلوار قمیض میں بھی وہ بیحد اچھا لگ رہا تھا۔
    خالدکےگھر سےچلےتو ان تینوں نےبھی یہی لباس زیب تن کیا جو استعمال شدہ تھوڑےسےمسلےہوئےشلوار قمیض اور گرم واسکٹوں پر مشتمل تھا۔۔ سروں پر گرم اونی ٹوپیاں پہن لی گئیں اور ہینڈ بیگز وہیں چھوڑ دیےگئے۔
    ٹاٹا بس سٹینڈ پر جب حمزہ نےسرمد کا تعارف دائود سےکرایا تو اس نےچند لمحوں تک بڑی گھورتی ہوئی گہری نظروں سےاس کاجائزہ لیا۔پھر نجانےکیا ہوا کہ ہنس کر اس نےسرمد کو گلےلگا لیا۔ سرمد نےمحسوس کیا کہ جتنی دیر وہ اسےسر سےپائوں تک دیکھتا رہا‘ اس کےجسم میں سوئیاں چبھتی رہیں۔لگتا تھا اس کی نگاہوں سےایکسریز خارج ہو رہی ہیں جو اس کےدل میں چھپا خیال تک جان لینےکی صلاحیت رکھتی ہیں۔
    ٹاٹا کی آرام دہ بس سےجب وہ چاروں سرینگر کےلئےروانہ ہوئےتو شام ہونےمیں ایک گھنٹہ باقی تھا۔حمزہ اور حسین کےبائیں ہاتھ دوسری جانب سرمد اور دائود کی سیٹیں تھیں۔راستےمیں دو جگہ رک کر صبح سات بجےبس نےانہی سرینگر لا اتارا۔سارا سفر بڑی خاموشی سےکٹا ۔ ایک جگہ کھانےاور دوسری جگہ چائےکےدوران چند رسمی سی باتیں ہوئیں اور بس۔
    اڈےسےنکل کر وہ چاروں ایک قہوہ خانےپر آ رکے۔ قہوہ خانےکا مالک ایک کشمیری تھا۔ سردی زوروں پر تھی اور پندرہ بیس لوگ گرم گرم قہوےسےشغل کر رہےتھی۔
    وہ چاروں ایک خالی لمبےبنچ پر بیٹھ گئے‘ جس کے آگےٹوٹی پھوٹی ایک میز نما شےپڑی تھی۔دو تین منٹ گزرےہوں گےکہ ایک بارہ تیرہ سالہ لڑکا ان کےلئےقہوہ کےگلاس لے آیا۔ لمبی قمیض گھٹنوں سےاونچی شلوار اور ہوائی چپل پہنےہوئےناک سےشوں شوں کرتا وہ انہیں دو پھیروں میں قہوہ سرو کر کےجانےلگا تو دائود نےاس کی جانب دیکھا۔
    ” آدھ گھنٹےبعد ٹرک جا رہا ہے۔“ اس نےمیز صاف کرتےہوئےجھک کر یوں کہا کہ شاید ہی کسی تیسرےنےسنا ہو۔” کھائی پار موڑ پر ۔“
    دائود خاموشی سےقہوےکی چسکیاں لیتا رہا۔ اس کےچہرےپرکوئی تاثر نہ ابھرا ۔ قہوہ ختم کرتےہی وہ اٹھ گئے۔دائود نےلڑکےکو چند چھوٹےنوٹ تھمائےاور وہ چاروں جیکٹوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈالےسرخ مٹی سے آلودہ راستےپر چل پڑے۔ تھوڑی دور سیدھا چلنےکےبعد وہ ایک موڑ پر پہنچےاور ایک دم دائود انہیں لےکر نیچےسبزےمیں اتر گیا۔ سڑک اوپر رہ گئی ۔ لمبی لمبی گھاس میں ان کےجسم گم سےہو گئے۔ تقریبا ً دس منٹ تک جھک کر چلتےرہنےکےبعد وہ پھر اوپر چڑھ کر دوسری جانب کی سڑک پر آ گئے۔ موڑ مڑےتو دیکھا سامنےسےایک ٹرک چلا آ رہا تھا‘ جس پر آرمی سپلائی کی تختی دور سےنظر آ رہی تھی۔
    وہ ایک سائڈ پر ہو کر کھڑےہو گئے۔ ٹرک ان کےقریب آ کر رکا۔ ڈرائیور ایک بوڑھا مگر مضبوط بدن کا آدمی تھا۔
    ”جلدی کرو۔ “ اس نےان چاروں پر نظر ڈالی۔
    دائود ان تینوں کےساتھ ٹرک کےپچھلےحصےمیں سوار ہوا اور ترپال گرا دی۔ وہ راشن کی بوریوں پر جگہ بنا کربیٹھ گئے۔
    خاموشی ان کےلئےیوں ضروری ہو گئی تھی جیسےوہ بولیں گےتو سزاملےگی۔ٹرک اپنی رفتار سےچلتا رہا۔ موڑ کاٹتا رہا۔ جھٹکےکھاتا رہا۔ سرمد کو جہاں جگہ ملی‘ وہاں سےکبھی کبھی ترپال ہلتےہوئےہٹ جاتی تھی اور سڑک کا منظر دِکھ جاتا تھا۔وہ ہلتےہونٹو؃ں پر اپنا ورد سجائےباہر دیکھ رہا تھا۔ گیارہ بج رہےتھےجب ڈرائیور نےٹھک ٹھک کی آواز کےساتھ انہیں ہوشیار کیا۔
    ”خاموش بیٹھےرہنا ۔ چیک پوسٹ ہے۔“ دائود نےسرگوشی کی۔ باقیوںکا تو پتہ نہیں‘ سرمد کا سارا خون سمٹ کر اس کی کنپٹیوں میں آ گیا۔دل یکبارگی زور سےدھڑکا ۔ وہ اپنی حالت پر قابو پانےکی کوشش کرنےلگا۔ دائود نےاس کا ہاتھ تھام کر زور سےدبایا اور شانہ تھپکا۔ اس سے آنکھیں ملتےہی اسےحوصلہ سا ہوا۔ خشک لبوں پر زبان پھیر کر اس نےتھوک نگلا۔
    ”کسی کی طرف مت دیکھنا۔ بس سر جھکائےبیٹھےرہو۔ “ دائود نےدھیرےسےکہا۔ جواب میں اس نےاثبات میں سر ہلا دیا۔
    اسی وقت ٹرک رک گیا۔فوجی بوٹوں کی آہٹیں گونجیں اور ٹرک کو چاروں طرف سےسنگین آلود رائفلوں نےگھیر لیا۔ایک جھٹکےسےکسی نےترپال اٹھا دی ۔ ان کےسامنےکتنےہی فوجی رائفلیں تانےکھڑےانہیں گھور رہےتھے۔
    ”او رحیم خان۔“ اچانک سب سےاگلےفوجی نےان چاروں پرخشمناک نگاہ ڈال کرزور سےپکارکر کہا۔
    ”جی جی کیپٹن صاب۔جی جی۔“ بوڑھا ڈرائیور لپک کر اس کےپاس چلا آیا۔
    ”اس بار پھر تم چار مزدور لےکر آ گئےہو۔ تم اپنی بےایمانی سےباز نہیں آتے۔“ وہ کڑک کر بولا۔
    ”بےایمانی کیسی کیپٹن صاب۔“ رحیم خان لجاجت سےبولا۔ ”کام بھی جلدی ہو جاتا ہےاور ان بیچاروں کو دو وقت کی روٹی بھی مل جاتی ہے۔ آپ کا کیا جاتا ہے۔“
    ”اچھا زیادہ بڑ بڑ نہ کر۔“ وہ جھڑک کر بولا۔پھر اس کےہاتھ سےایک بوسیدہ سی کاپی چھین لی۔” میں دستخط کر رہا ہوں ان چاروں کےانٹری پاس اور تمہارےکلیرنس پیپرز پر۔ چلو تم لوگ ۔ سب ٹھیک ہے۔“ اس نےفوجیوں کو اشارہ کیا اوررائفلیں جھک گئیں۔ سپاہی انہیں کینہ توز نظروں سےگھورتےہوئےپلٹ گئے۔
    ”مہربانی صاب جی۔“ رحیم خان نےدانت نکال دیے۔
    ”میری چیزلائےہو؟“ کیپٹن نےبیحد آہستہ آواز میں پوچھا۔
    ”جی جی۔“ آواز دباکر رحیم خان نےکہا اور ادھر ادھر دیکھ کر واسکٹ کی سائڈپاکٹ سےایک نیلالفافہ نکال کر آہستہ سےکیپٹن کی جیب میں سرکا دیا۔
    سرمد نےصاف دیکھا‘ کیپٹن کےچہرےکا رنگ ایک دم بدل گیا۔ اس کا سانولا پن سرخی میں ڈھل گیا۔ نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر اس نےکاپی رحیم خان کو تھمائی اور اس سےنظر ملائےبغیر رخ پھیر لیا۔
    ”رحیم خان۔“ بڑی آہستہ سےاس نےکہا۔ ”میں تمہارا ہمیشہ آبھاری رہوں گا۔“ اور تیز تیز قدموں سے آگےبڑھ گیا۔
    رحیم خان نےان کی جانب ایک نظر دیکھ کر ترپال نیچےگرائی اور ٹرک کےاگلےحصےکی جانب بڑھ گیا۔
    ٹرک چل پڑا۔ سرمد نےہلتی جلتی ترپال کےباہر دیکھا۔ چیک پوسٹ سےبیریئر ہٹا کر ٹرک کو کلیرنس دےدی گئی تھی۔ فوجی دوبارہ اپنی اپنی جگہوں پر جا کر کھڑےہو گئےتھے‘ مگر ان کی نظروں میں چھلکتی نفرت سرمد سےپوشیدہ نہ رہ سکی۔کیسی عجیب بات تھی کہ بھارتی فوج راشن سپلائی کےلئےانہی کشمیریوں کی محتاج تھی جن پر وہ سالوں سےبارود برسا رہی تھی۔
    ”جانتےہو رحیم کاکا نےکیپٹن اجےکو کیا چیز دی ہے؟“ ٹرک کافی دور نکل آیا تو دائود نےسوچ میں ڈوبےسرمد سےپوچھا۔
    جواب میں اس نےدائود کی طرف دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیا۔
    ”بھارتی فوجیوں کو کشمیر میں ڈیوٹی دیتےہوئےاس بات کی اجازت نہیں ہےکہ دو ماہ میں ایک سےزیادہ خط اپنےگھر لکھ سکیں یا وہاں سےانہیں کوئی خط آسکے۔ڈاک پر سنسر بہت سخت ہے۔ کوئی ایسی بات ان تک نہیں پہنچنےدی جاتی جس سےوہ ڈیوٹی کےدوران ڈسٹرب ہو جائیں۔ واپس جانےکےلئےبیتاب ہو جائیں۔یا چھٹی کی ڈیمانڈ شدت سےکرنےلگیں۔ کیپٹن اجےکےگھر سےرحیم کاکا اس کی بیوی کا دستی خط لایا ہے۔ ساتھ اس کی تین سالہ بچی کا فوٹو ہے‘ جسےاس نےدو سال سےنہیں دیکھا۔“
    سرمد سنتا رہا اور اس کا دل کانپتا رہا۔
    ”ہم کشمیریوں پر ان فوجیوں کےمظالم کی‘ ہم سےنفرت کی ایک یہ بھی بہت بڑی وجہ ہےکہ ہم جیسےبھی ہیں‘ جس حال میں بھی ہیں‘ اپنےگھر والوں کےپاس ہیں یا ہمارےان سےملنےپر کوئی پابندی نہیں ہے۔ہم پر ظلم کر کےیہ اپنی اس محرومی کا بدلہ بھی لیتےہیں اور حکومت کی نظر میں قابل فخر بھی بن جاتےہیں۔“
    سرمد نےکچھ کہنا چاہامگر پھر نجانےکیا سوچ کر خاموش ہو رہا۔ کچھ دیر بعد اس نےدائود کی جانب دیکھا جو حمزہ اور حسین سےکوئی بات کر کےسیدھا ہوا تھا۔
    ”ہم اب کہاں جا رہےہیں؟“
    ”کشمیر کےوسطی علاقےمیں بھارتی فوج کی ایک بڑی چھائونی ہےجہاں رحیم کاکا راشن سپلائی کرتا ہے۔وہاں ہم راشن کی یہ بوریاں اتاریں گے۔ واپسی پر ہم ایک جگہ رات گزارنےکےلئےرکیں گے۔ وہاں تم تینوں کو کمانڈر کےحوالےکر کےمیں رحیم کاکا کےساتھ لوٹ آئوں گا۔“
    ”مگر واپسی پر آپ اکیلےہوں گےتو چیک پوسٹ پر۔۔۔“ سرمد نےکہنا چاہا۔
    ”تمہاری جگہ تین ساتھی میرےساتھ وہاں سےواپس آئیں گے‘ جن کےذمےسرینگر اور دہلی میں مختلف کام لگائےگئےہیں۔“
    بات سرمد کی سمجھ میں آ گئی۔ زیادہ جاننےکی خواہش ہی نہیں تھی۔ حمزہ اور حسین ہلکی آواز میں باتیں کر رہےتھی۔ دائود بھی ان کےساتھ شامل ہو گیا۔سرمد خاموش ہو کر اپنےورد میں لگ گیا۔

    طاہر نےڈاکٹر ہاشمی کےدُکھ کو یوں سینےسےلگا یا کہ وہ کسی حد تک سنبھل گئے۔ اس نےفوری طور پر سعودی عرب اپنےدو چار ملنےوالوں سےرابطہ کیا۔ the proudکےحوالےسےاس کا ایک نام تھا۔ اس نےاپنا نام کیش کرنےمیں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ امبر نےاپنےطور پر کوشش کی ۔ اس ساری بھاگ دوڑ کےنتیجےمیں انہیں یہ علم ہو گیا کہ سرمد سعودی عرب سےلندن واپس نہیں گیا بلکہ اس نےانڈیا کا ویزا لگوا یا اور دہلی کےلئےروانہ ہو گیا۔
    ”انڈیا؟“ ڈاکٹر ہاشمی طاہر کی زبان سےسن کر چونکے۔
    ”جی انکل۔“ طاہر نےملازم کو کافی کا مگ ان کے آگےرکھنےکا اشارہ کیا اور اپنا مگ تھام لیا۔”میں بھی وہی سوچ رہا ہوں جو آپ سوچ رہےہیں۔“
    ”کہیں اس لڑکی ریحا کا کوئی تعلق تو نہیں اس سارےقصےسے؟“ وہ بیتاب ہو گئے۔
    ”ہو بھی سکتا ہےانکل۔“ وہ سوچتےہوئےبولا۔ مگر اس کا اندر نہیں مان رہا تھا کہ سرمد کسی لڑکی کےچکر میں پڑ سکتا ہے۔اس کا جو کیریکٹر اس کےسامنے آیا تھا۔ اس نےجو کچھ صفیہ کےحوالےسےاس کی زبان سےسنا تھا۔ اس کےبعد سرمد کےلئےکسی اور طرف دیکھنا سمجھ میں آنےاور یقین کرنےوالی بات نہ تھی۔
    ”اس کا مطلب ہےہمیں انڈین ایمبیسی سےرابطہ کرناپڑےگا۔“
    ”ابھی نہیں انکل۔ہمیں پہلےپورےطور پر ُپریقین ہو جانا چاہئےکہ سرمد اسی لڑکی یعنی ریحا کےچکر میں انڈیا گیا ہی۔“
    ”بچوں جیسی باتیں کر رہےہو طاہر۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےمگ کےکنڈےسےکھیلتےہوئےاس کی جانب دیکھا۔ ” سرمد کےڈاکومنٹس ریحا نےمجھےبھیجےہیں‘ جو انڈین ہے۔ سرمد سعودیہ سےپاکستان آنےکےبجائےانڈیا چلا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ ریحا سےبنتا ہےیا نہیں؟“
    ”بنتا ہےانکل لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہےکہ سرمد نےہی ریحا سےکہا ہو کہ اس کےڈاکومنٹس آپ کو بھیج دےکیونکہ آپ کےبقول آپ نےاسےلندن جانےسےمنع کر دیا تھا اور اس نے آپ سےوعدہ کیا تھا کہ وہ لندن نہیں جائےگا‘ پاکستان آئےگا۔“
    ”تو پھر وہ یہاں آنےکےبجائےانڈیا کیوں چلا گیا؟“ ڈاکٹر ہاشمی کا دماغ اور الجھ گیا۔
    ”یہی تو سوچنےکی بات ہےکہ جو لڑکا آپ سےکئےہوئےوعدےکا اتنا پابند ہےکہ اس نےخود لندن جا کر ڈاکومنٹس لانےسےگریز کیا وہ آپ کےپاس لوٹ آنےکےبجائےانڈیا کیوں چلا گیا؟“
    طاہر نےکہا اور ایک خیال اسےبےچین کر گیا۔ اسےوسیلہ خاتون سےسرمد کی گفتگو یاد آگئی جس میں اس نےکبھی پاکستان نہ آنےکا عزم ظاہر کیا تھا۔کیا وہ اپنی اسی بات کو نبھانےکےلئےغائب ہو گیا ؟ اس کےدل میں ایک کسک سی جاگی۔ بات جتنی سمجھ میں آتی تھی اس سےزیادہ سمجھ سےباہر ہوئی جا رہی تھی۔ کسی بھی حتمی نتیجےپر پہنچنا ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔
    ابھی تک یہ سارا معاملہ انہی دونوں کےبیچ تھا۔ صفیہ اور بیگم صاحبہ کو ان دونوں نےباہمی رضامندی سےاس معاملےسےالگ رکھنےکا فیصلہ کر لیا تھا تاکہ ان کےساتھ وہ بھی پریشان نہ ہو جائیں۔تیسری ہستی جو اس ساری الجھن سےواقف تھی وہ تھی امبر‘ جسےطاہر نےصاف منع کر دیا تھا کہ اس بات کا تذکرہ پروفیسر قمر سےبھی نہ کرے۔ امبر نےاس کےلہجےسےمعاملےکی سنگینی کا اندازہ لگا لیا اور کریدکےبجائےاس کےساتھ صورتحال کو سلجھانےمیں شریک ہو گئے۔
    ”ابھی آپ انڈین ایمبیسی سےکنٹیکٹ کرنےکی بات کر رہےتھے۔“ اچانک طاہر نےکسی خیال کےتحت کہا۔
    ”ہاں۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےاس کی طرف دیکھتےہوئےکافی کا خالی مگ ٹیبل پر رکھ دیا۔
    ”میرا خیا ل ہے‘ اس کےبجائےہم خود انڈیا چلیں گےاگر ضرورت پڑی۔“
    تمہارا مطلب ہےہمیں وہاں نہ جانا پڑے‘ ایسا بھی ممکن ہے؟“ امید بھرےلہجےمیں انہوں نےپوچھا۔
    ”بالکل ممکن ہےانکل۔“ طاہر نےوثوق سےجواب دیا۔”میں اللہ کی رحمت سےکبھی مایوس نہیں ہوا۔ اور اس معاملےمیں تو مجھےبہت زیادہ بہتری کی امید ہےاور اس کی سب سےبڑی وجہ یہ ہےکہ سرمد جیسا بیٹا آپ کو پریشانی سےبچانےکےلئےتو کچھ بھی کر سکتا ہےمگر میں یہ ماننےکےلئےتیار نہیں ہوں کہ وہ آپ کو پریشان کرنےکےلئےکوئی الٹی سیدھی حرکت کرےگا۔ بات کچھ اور ہی ہےجس تک فی الحال ہماری رسائی نہیں ہو رہے۔ میرا مشورہ یہ ہےکہ چند دن حالات کےرخ کا اندازہ کرنےکےلئےانتظار کیا جائے۔ سرمد سےرابطےکی مسلسل کوشش کی جائےاور دعا کی جائےکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مشکل سےنجات دی۔“
    ”طاہر۔۔۔“ ڈاکٹر ہاشمی نےاپنےہاتھ اس کےہاتھوں پر رکھ دیے۔ ” میرا جی چاہتا ہےمیں تمہاری بات پر یقین کر لوں بیٹےمگر یہ دل۔۔۔“ وہ آبدیدہ ہو گئے۔
    ”میں سمجھتا ہوں انکل۔“ طاہر نےان کےہاتھ تھام لئے۔ ”ماں باپ کا دل تو ان کےاپنےاختیار میں نہیں ہوتا‘ یہ کسی اور کی بات کیسےمان سکتا ہے۔ تاہم میں یہی کہوں گا کہ آپ ذرا حوصلےسےکام لیں۔ اک ذرا انتظار کر لیں۔۔۔“
    ”میں کوشش کروں گا بیٹی۔“ انہوں نے آنسو پینےکی کوشش کی۔ ”بہرحال تمہاری باتوں نےمیرا دُکھ بانٹ لیا ہی۔“
    ”میرا بس چلےانکل تو میں آپ کا دُکھ اپنےدامن میں ڈال لوں۔ “ طاہر نےخلوص سےکہا۔ ” آپ نےساری زندگی مجھےجس شفقت اور دوستی سےنوازا ہےمیں اس کا مول چکا ہی نہیں سکتا۔“
    ”شکریہ بیٹے۔“ انہوں نے آہستہ سےکہا اور ہاتھ کھینچ لئے۔ آہستہ آہستہ آنکھیں مسلتےہوئےاٹھےاور کچھ دور صوفےپر جابیٹھے۔طاہر کےدل پر چوٹ سی لگی۔ وہ جان گیا کہ وہ اپنے آنسو چھپا رہےہیں۔اس نےنچلا ہونٹ دانتوں میں داب لیا اور کسی سوچ میں ڈوب گیا۔ وہ مسلسل ذہنی گھوڑےدوڑا رہا تھا کہ کسی طرح بات کا سرا اس کےہاتھ آ جائےتو وہ سرمد کو ڈھونڈ نکالے۔
    ٭

    کئی مربع میل پر پھیلی ہوئی فوجی چھائونی نمبر سینتالیس تک پہنچتےپہنچتےانہیں چار چیک پوسٹوں پر رکنا پڑا لیکن پہلی چیک پوسٹ کےکیپٹن اجےکی کلیرنس نےان کےلئےہر جگہ آسانی پیدا کر دی۔
    ٹرک سےراشن کی بوریاں اَن لوڈ کی گئیں۔ فارغ ہوتےہوتےانہیں رات کے آٹھ بج گئے۔ وصولی کےکاغذات پر چھائونی کےسٹور کیپر کےسائن لےکر رحیم خان نےکام ختم کیا۔ وائوچر بنوا کر جیب میں ڈالا اور باریک بین نگاہوں سےچاروں طرف پھیلےفوجیوں اور ایمونیشن ڈپو کا جائزہ لیتا ہوا ان چاروں کےساتھ ٹرک میں واپس چل پڑا۔
    اب دائود اور سرمد اس کےساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھےتھے۔ حمزہ اور حسین پچھلےحصےمیں ٹانگیں پسارےبیٹھےتھے‘ جو اب بالکل خالی تھا۔ان دونوں کا تو پتہ نہیں مگر سرمد کا جوڑ جوڑ دُکھ رہا تھا۔ اتنا بوجھ اس نےزندگی میں پہلےکب اٹھایا تھا؟
    رات کی تاریکی میں ٹرک چھائونی کی حدود سےباہر نکلا۔ ان کےانٹری پاس چیک کئےگئے۔پھر بیرئیر اٹھا کر جانےکا اشارہ کیا گیا۔ ٹرک کو کچےپر موڑتےہوئےرحیم خان نےدائود کی جانب ایک نظر دیکھا پھر ہیڈ لائٹس کی روشنی میں سامنےدیکھنےلگا۔
    ”عقوبت خانےکا اندازہ ہوا کچھ؟“
    ”میرےکانوں میں ابھی تک وہ چیخیں گونج رہی ہیں رحیم کاکا‘ جودیواریں چیر کر مجھ تک پہنچ رہی تھیں۔“ دائود نےدُکھی لہجےمیں کہا مگر اس کی آواز میں ایک آگ بھڑک رہی تھی جس میں وہ دشمن کو جلا کر خاک کر دینا چاہتا تھا۔سرمد نےچونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کےجسم میں خون کا دوران تیز ہو گیا تھا۔
    ”میرےگائوں کی تین جوان لڑکیوں کو اٹھا کر لائےہیں یہ درندے۔ارد گرد کےعلاقےسےہر روز درجنوں نوجوانوں کو تفتیش کےنام پر یہاں لایا جاتا ہےجنہیں زندہ واپس جانا نصیب نہیں ہوتا۔ کل تک یہاں درندگی کا نشانہ بننےکےبعد خودکشی کر لینےوالی بچیوں کی تعداد ایک سو سترہ ہو چکی ہے“
    ”بس رحیم کاکا بس۔“ دائود نےکانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔
    ”کان بند کر لینےسےکچھ نہیںہو گا بچے۔“ رحیم خان نےدُکھ سےکہا۔ ” یہ چھائونی نہیں ایک عذاب ہےاس علاقےمیں۔ یقین کرو اگراس کا وجود مٹ جائےتو ارد گرد کا ستر اسی میل کا علاقہ ان درندوں کےجبر سےمحفوظ ہو جائےگا۔“
    ”میں آج کمانڈر سےاسی بارےمیں بات کرنےوالا ہوں کاکا۔“ دائود نےگہرےگہرےسانس لیتےہوئےکہا۔
    ”ایسےاور کتنےعقوبت خانےہیںکشمیر میں؟“ سرمد نےاچانک پوچھا۔
    ”گنتی ممکن نہیں سرمد۔ “ دائود نےپیشانی مسلتےہوئےکہا۔ ”سات لاکھ انڈین فوج کی ہزاروں چھائونیاں ہیں یہاں۔اور ہر چھائونی اپنی جگہ ایک عذاب خانہ ہے۔“
    ” آپ لوگوں نےاب تک کیا کیا اس سلسلےمیں؟“
    ”اپنی سی کرتےرہتےہیں ۔ “ پھیکی سی مسکراہٹ کےساتھ دائود نےکہا ۔ ” لیکن ایسی بڑی چھائونی اگر تباہ کر دی جائےتو بہت فرق پڑ سکتا ہے۔ بےشمار لوگوں کی زندگیاں اور عزتیں کتنی ہی مدت تک محفوظ ہو سکتی ہیں۔“
    اسی وقت رحیم خان نےٹرک ایک سائڈ پر روک دیا۔ ”تم لوگ اب نکل جائو۔ صبح ہونےسےپہلےتینوں آدمیوںکو لےکر یہیں پہنچ جانا۔“
    ٹھیک ہےکاکا۔“ سرمد اور دائود کےبعد حمزہ اور حسین بھی پچھلےحصےسےاتر آئے۔رحیم کاکا نےانہیں بڑی گرمجوشی سےگلےلگا کردعائیں دیتےہوئےرخصت کیا۔واپسی کےلئےتیسری چیک پوسٹ یہاں سےتقریباً تین میل دور تھی۔
    دائود آگے آگےاور وہ تینوں اس کےپیچھےپیچھےرات کےاندھیرےمیں سڑک سےڈھلوان پر اترتےہوئےسرسراتی گھاس میں غائب ہو گئے۔ دائود یوں ان کی رہنمائی کرتا ہوا چلا جا رہا تھا جیسےوہ ان راستوں پر پیدائش کےبعد ہی سےسفر کرتا رہا ہو۔ انہیں شروع میں تھوڑی بہت دقت ہوئی‘ پھر سرمد بھی حمزہ اور حسین کی طرح بےجگری سےقدم بڑھانےلگا تو جھجک اور اس کےباعث پیدا ہونےوالی تھکان نےدم توڑ دیا۔ تاہم اس کا ذہن مسلسل دائود اور رحیم خان کی باتوں میں الجھا ہوا تھا۔اخباروں میں پڑھی ہوئی باتوں ‘ ٹی وی پر دیکھی ہوئی فلموں اور اپنےمشاہدےمیں جو فرق تھا ‘ اس نےسرمد کےجسم میں ایک الائو دہکا دیا تھا ‘جس کی تپش وہ اپنےپائوں کےتلووں سےسر کےبالوں تک میں محسوس کر رہا تھا۔
    گھاس کےڈھلوانی میدان کو عبور کر کےوہ ایک ذخیرےمیں داخل ہوئےتو دائود نےقدم روک لئے۔ چند منٹ تک وہ سب بےحس و حرکت کھڑےرہے۔ دائود سُن گن لیتا رہا ۔ پھر جیسےوہ مطمئن ہو گیا۔ انہیں اپنےپیچھے آنےکا اشارہ کر کےوہ ہلکےپیروں سےچلنےلگا۔ ذخیرےسےباہر نکلےتو چاندنی میں انہوں نےخود کو ایک چٹانی سلسلےکےسامنےپایا۔ اونچی نیچی‘ بڑی چھوٹی‘ سرخ اور بھوری چٹانیں انہیں حیرت سےدیکھ رہی تھیں۔
    دائود نےایک بار پھر اپنےچاروں اطراف کا جائزہ لیا ۔ پھر جیب سےموبائل نکالا اور اس پر کسی کا نمبر ملانےلگا۔
    ”عزت۔“ دوسری جانب سےسلسلہ ملتےہی ایک نسوانی مگر دبنگ آواز سنائی دی۔
    ” یا شہادت کی موت۔“ دائود نےفوراً کہا۔
    ”ہیلو دائود۔ پہنچ گئےکیا؟“
    ”ہاں خانم۔ پہنچ گئی۔“ دائود نےادھر ادھر نظریں گھماتےہوئےجواب دیا۔
    ”کہاں ہو اس وقت؟“ پوچھا گیا۔
    ”پڑائو پر۔“
    ”اوکے۔ چلے آئو۔ میں کمانڈر کو خبر کرتی ہوں۔“
    دائود انہیں لئےہوئےچٹانوں پر چڑھا۔ دوسری طرف اترےتو سامنےایک بہت بڑی قدرتی جھیل دکھائی دی۔ جھیل کا پاٹ کسی چھوٹےموٹےدریا سےکم نہ تھا‘ جس میں کافی دور ایک بڑا شکارا تیر رہا تھا۔وہ چاروں اپنا رخ شکارےکی طرف کر کےکھڑےہو گئے۔ شکارےنےدیکھتےہی دیکھتےاپنا رخ پھیرا اور ان کی طرف بڑھنےلگا۔ سرمد کا دل سینےمیں بری طرح دھڑک رہا تھا۔اس کی نظریں شکارےپر جمی تھیں جو لمحہ بہ لمحہ ان کےقریب آتا جا رہا تھا۔ نجانےکیوں اس کا دل کہہ رہا تھا کہ کمانڈر اسی شکارےمیں ہے۔
    ٭
    شکارا کیا تھا‘ ایک بڑی لانچ تھی‘ جس کےدرمیان میں ایک بہت بڑا لکڑی سےتعمیر شدہ کمرہ تھا۔ کشمیریوں کی روایتی صناعی اس میں پوری طرح کارفرما دکھائی دےرہی تھی۔
    شکاراکنارےپر آن لگا۔ پہلےدائود ‘ پھر سرمد‘ حمزہ اور حسین باری باری شکارےپر چلےگئے۔سامنےروایتی کشمیری لباس میں اپنی پوری سج دھج کےساتھ ایک خوبصورت دوشیزہ چہرےپر باریک سا نقاب ڈالےکھڑی انہیں بغور دیکھ رہی تھی۔چاندنی اس کےچہرےپر اپنا پرتو ڈال رہی تھی اور یوں لگتا تھا جیسےوہ چاندنی رات کا ایک حصہ ہو۔ اگر وہ پردےمیں چلی گئی تو رات کا حسن ادھورا پڑ جائےگا۔وہ جس جگہ کھڑی تھی‘ اس کےبائیں پہلو میں سٹیرنگ دکھائی دےرہا تھا۔ یعنی وہ حقیقتاً ایک لانچ تھی‘ جسےشکارا بنا لیا گیا تھا۔
    ”خانم۔“ دائود نےذرا سا سر خم کر کےاسےتعظیم دی۔اس کی پیروی میں حمزہ اور حسین کےبعد سرمد نےبھی ایسا ہی کیا۔ اس نےمعمولی سی سر کی جنبش سےان کےسلام کا جواب دیا۔
    ”کمانڈر تمہا را انتظار کر رہےہیں۔“ اس نےابرو سےکمرےکی جانب اشارہ کیا۔
    دائود خاموشی سےکمرےکےکھلےدروازےکی طرف بڑھ گیا۔وہ تینوں اس کےعقب میں تھے۔
    وہ کم و بیش بارہ ضرب چوبیس کا ہال کمرہ تھا جس میں ایک سجےسجائےبیڈ سےلےکر ریموٹ کنٹرول ٹی وی تک موجود تھا۔کشمیر کےشکارےجن دیومالائی داستانوں کےحوالےسےمشہور ہیں ‘ یہاں ان داستانوں کےسارےلوازمات مہیا تھی۔
    لکڑی کےفرش پر کشمیری نمدہ بچھا تھا۔ فرش پر آلتی پالتی مارےکوئی شخص نمدےپرسر جھکائےبیٹھا تھا۔ فانوس اور قندیلوں کی جھلملاتی روشنی میں وہ قدیم قصےکہانیو ں کا کوئی کردار لگ رہا تھا۔
    دائود نےاس کےسامنےکھڑےہو کر فوجی انداز میں سیلوٹ کیا اور دوزانو بیٹھ گیا۔ حمزہ‘ حسین اور سرمد نےبھی اس کی تقلید کی ۔ جب وہ چاروں اس کےسامنےایک قطار میں بیٹھ گئےتو آہستہ سےکمانڈر نےسر اٹھایا۔
    سرمد کےذہن کو ایک جھٹکا سا لگا۔اس کی سرخ انگارہ آنکھوں سےجیسےبرقی رو کی لہریں نکل رہی تھیں۔اس کی آنکھوں میں دیکھنا یا اس سےنظر ملانا ممکن نہ تھا۔اس نےبھی گھبرا کر باقیوں کی طرح نظر چرا لی۔ ہاں‘ یہ اس نےدیکھ لیا کہ کمانڈر کی عمر بمشکل تیس برس تھی۔ وہ بہت زیادہ حسین نہ تھا مگر یہ طےتھا کہ سرمد نےاس جیسا دلفریب چہرہ پہلےکم کم دیکھا تھا۔ اس میں ایک ایسی کشش تھی‘ جسےکوئی نام دینا مشکل تھا۔ اس کےچہرےپر ہلکی ہلکی سیاہ داڑھی بہت اچھی لگ رہی تھی۔
    ”کیسےہو دائود؟“ کمانڈر بولا تو ایسا لگا کوئی شیر ہولےسےغرایا ہو۔
    ”بالکل ٹھیک ہوں کمانڈر۔ اور آپ؟“ دائود نےادب سےجواب دیا۔
    ”میں۔۔۔؟“ جیسےکوئی درندہ ہنسا ہو۔”میں تو ہمیشہ انتظار میں رہتا ہوں دائود۔ دشمن کی بربادی اور اپنوں کےسُکھ کی خبر کےانتظار میں۔ کہو۔ کوئی اچھی خبر لائےہوکیا؟“
    ”میں آج چھائونی نمبر سینتالیس کےاندر سےہو کر آ رہا ہوں کمانڈر۔“
    ”اوہ۔۔۔“ وہ چوکنا ہو گیا۔ ”پھرکیا رہا؟“ اس کی دہکتی ہوئی نظریں دائود کےچہرےپر متحرک ہو گئیں۔
    ”اب میں اس کا نقشہ بنا سکتا ہوں کمانڈر۔“
    جواب میں کچھ کہےبغیر کمانڈر نےاپنےپہلومیں پڑےکاغذوں کا چھوٹا سا ڈھیر اور قلم اس کی طرف سرکا دیا۔
    دائود نےایک سفید کاغذپر چھائونی کا اندرونی نقشہ بنا نا شروع کیا۔ یہ کام اس نےبمشکل سات آٹھ منٹ میں کر لیا۔اس دوران کمانڈر اس کےمتحرک ہاتھ پر نظر جمائےخاموش بیٹھا رہا۔
    ”یہ ہےایمونیشن ڈپو کمانڈر۔“ دائود نےکہنا شروع کیا اور قلم کی نوک ایک جگہ پر ٹکا دی۔پھر وہ کہتا رہا اور کمانڈر کےساتھ ساتھ وہ تینوں بھی سنتےرہے۔ سرمد بڑی یکسوئی سےدائود کےبیانئےکو سن رہا تھا۔
    ”اور ایمونیشن ڈپو کےعقب میں تقریبا ً بیس گز دور یہ ہےوہ عقوبت خانہ کمانڈر جہاں اس وقت بھی ہماری کم از کم بائیس بہنیں ان درندوں کی ہوس کا نشانہ بن رہی ہیں۔ یہیں وہ مظلوم بھائی بھی ہیں جن کےسامنےان کی بہنوں کی عزتیں تارتارکی جاتی ہیں۔“
    ”بس۔۔۔۔“کمانڈر تڑپ کر کھڑا ہو گیا۔اس کی آواز میں بجلیاں مچل رہی تھیں۔ ”دائود۔ یہ ایک ٹارچر سیل نہیں ہے۔ یہاں قدم قدم پر ایسےتشدد خانےموجود ہیں جن کےبارےمیں سن کر روح کےتار جھنجھنا اٹھتےہیں۔تاہم رحیم خان کی یہ بات درست ہےکہ اگر اس ایک ٹارچر سیل کا خاتمہ ہو جائےتو ہم ان بھارتی درندوں کےمظالم کا دائرہ کافی حد تک محدود کر سکتےہیں۔“
    ”تو پلان فائنل کیجئےکمانڈر۔“کمانڈر کےساتھ ہی دائود اوروہ تینوں بھی اٹھ کھڑےہوئےتھے۔
    ”تھوڑا وقت لگےگا دائود۔ یہ کشمیر کی سب سےبڑی پانچ چھائونیوں میں سےایک ہے۔ ہر وقت یہاں چالیس سےپچاس ہزار فوجی موجود رہتےہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جب ہم یہاں اٹیک کریں تو ایک بھی بھارتی درندہ بچنا نہیں چاہئے۔“
    ”ایسا ہی ہو گا کمانڈر۔“ دائود نےایک عزم سےکہا۔
    ”انشا ءاللہ۔“ کمانڈر کےلہجےمیں بجلی کی سی کڑک تھی۔
    ”انشا ءاللہ۔“ حمزہ‘ حسین اور سرمد کےلبوں سےبھی بےاختیار نکلا۔
    اپنے آپ پر قابو پاتےپاتےکمانڈر کو چند منٹ لگ گئے۔ پھر اس کا لال بھبوکا چہرہ نارمل ہوا تو وہ ان کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ اس کےسامنےادب سےکھڑےتھے۔
    ”ان تینوں کا تعارف نہیں کرایا تم نےابھی تک دائود۔“
    ”یہ دونوں حمزہ اور حسین تو حریت کانفرنس سےٹوٹ کر آئےہیں کمانڈر اور یہ ہےسرمد۔۔۔“
    ” آں ہاں۔۔۔“ کمانڈر نےہاتھ اٹھا کر اسےمزید کچھ کہنےسےروک دیا۔” خانم کو بتایا تھا تم نےاس کےبارےمیں۔“
    ”جی ہاں۔“
    ”ہوں۔۔۔“ کمانڈر نےسرمد کو بغور اور بڑی دلچسپی بھری نظروں سےدیکھا۔ سرمد کو اس کی نگاہیں جسم کے آر پار ہوتی لگیں مگر وہ بڑی ہمت سےاس کےسامنےسر جھکائے‘ ہاتھ سینےپر باندھےکھڑا رہا۔
    ”اسےصرف پندرہ دن کی ٹریننگ کرائو دائود۔ یہ خشک لکڑی ہے۔ اسےصرف چنگاری دکھانےکی ضرورت ہے۔“
    ” جو حکم کمانڈر۔ “ دائود نےسر خم کیا۔ ” اور یہ دونوں۔۔۔“
    ”انہیں فرنٹ پر بھیج دو۔ ایسےپُرخلوص جوانوں کی وہاں بہت ضرورت ہے۔یہ دشمن کو جتنا زیادہ اور جتنی تیزی سےنقصان پہنچا سکیں ‘ اتنا ہی اچھا ہے۔ تاہم چھائونی نمبر سینتالیس کےمشن میں یہ تمہارےساتھ ہوں گے۔“
    ”شکریہ کمانڈر۔“ حمزہ اور حسین کےلبوں سےایک ساتھ جذبات سےبھرائی ہوئی آواز نکلی۔”ہم آپ کا یہ احسا ن زندگی بھر نہیں بھولیں گے۔“
    ”میں جانتا ہوں حمزہ۔ تم اپنی بہن کا بدلہ لینا چاہتےہو اور حسین اپنی منگیتر کا۔ لیکن میرےبیٹو۔ میرےبھائیو۔ یاد رکھو۔ہمارےجذبےمیں ‘ ہماری نیت میں جہاد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ کسی ذاتی سبب کو لےکر ہماری جنگ جاری نہیں رہ سکتی۔ یہ محدود ہو جائےگی۔ اسےاللہ کےنام پر لڑو۔ اسےرسول کی ناموس کی خاطر آفاق گیر کر دو۔ہمارےاتحاد کا نام ”عشاق “ اسی لئےرکھا گیا ہےکہ ہم اللہ ‘ اس کےحبیب اور اس کےدین کےعاشق ہیں۔ کسی اور شےکو ہمارےعشق میں در آنےکی اجازت نہیں ہے۔ ہاں‘ کوئی بھی سبب اس عشق کو مہمیز کر دےتو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ہماری بنیاد وہی ہے۔ عشق ِ الٰہی۔ عشق ِ رسول ۔ اس سےکم پر مانو نہیں اور اس سےزیادہ کچھ ہےنہیں۔“
    ”یس کمانڈر۔“ حمزہ کی آنکھوں میں شمع سی جلی۔
    ”یس کمانڈر۔“ حسین کی آواز میں شعلےکی سی لپک ابھری۔
    ”تو جائو ۔ اپنےعشق کی آگ سےدشمن کا خرمن خاک کر دو۔“ کمانڈر کی آواز میں بجلی کی سی کڑک تھی۔”مجھےتمہاری طرف سےبہت سی خوشخبریاں چاہئیں۔“
    ”ایسا ہی ہو گا کمانڈر۔“ وہ دونوں سیلوٹ کر کےدو قدم پیچھےہٹ گئے۔
    ”اور سرمد۔۔۔“ کمانڈر نےاس کےکندھےپر ہاتھ رکھا۔ ”تمہیں تو یہ سمجھانےکی ضرورت ہی نہیں کہ عشق کیا چاہتا ہے؟ سرمد تو سر دینا جانتا ہے۔ تاریخ ِ عشق گواہ ہےکہ جب جب کوئی سرمد آیا ‘ عشق کےرخ سےایک نیا پرت اترا ہے۔ تمہیں بھی اپنےعشق کی ایک نئی تاریخ لکھنی ہے۔ اپنےلہو میں اپناموئےقلم ڈبو نےکو تیار ہو جائو سرمد۔میں دیکھ رہا ہوں تم سرخرو ہو کر رہو گے۔“
    ”کمانڈر۔“ سرمد نےبےاختیار جھک کر اس کا ہاتھ تھاما اور ہونٹوں سےلگا لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکےاور کمانڈر کےہاتھ کی پشت پر گرے۔
    ”اپنےاشکوں میں دہکتی یہ آگ بجھنےمت دینا سرمد۔ اسی آگ سےتمہیں وضو بھی کرنا ہےاور نماز بھی ادا کرنی ہے۔نماز ِ عشق تمہاری امامت کی منتظر ہے۔“کمانڈر نےاپنا ہاتھ بڑی نرمی سےاس کےہاتھ سےچھڑایا اور رخ پھیر لیا۔
    ”دائود ۔ اسےلےجائو۔ اس کےپاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ اسےجلدی سےجلدی ضروری مراحل طےکرا دو۔“ نجانےکیوں کمانڈرکی آواز بھرا گئی ۔”یہ ہمارا بڑا لاڈلا مہمان ہے۔“
    ”یس کمانڈر۔“ داؤد نےسیلوٹ کیا اوران تینوں کو اپنےپیچھے آنےکا اشارہ کر کےکمرےسےنکل گیا۔
    ”میرے آقا ۔ مہمان بھیجابھی تو اتنی کم مدت کےلئے۔ میں تو اس کےناز بھی نہ اٹھا سکوں گا اتنی دیر میں۔“ کمانڈر ہاتھ باندھےمدینہ کی طرف رخ کئےکھڑا سسک رہا تھا اور آنسو اس کےرخساروں پر موتیوں کی طرح بکھر رہےتھے۔

    * * *​
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کہانی ایک بار پھر دلچسپ موڑ مڑ گئی ہے۔
    مصنف کی قلمی صلاحیت اور مضمون پر بھرپور گرفت کی داد دینا ضروری ہے۔

    عرفان پتوکی بھائی ۔ بہت شکریہ
     
  3. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    یہ ناول پڑھنے کی میری کافی عرصے سے خواہش تھی ۔
    جو کہ ہماری اردو کے توسط سے پوری ہو رہی ہے۔

    عرفان بھائی ۔ بہت شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں