1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عشق سے عشق تک

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از بزم خیال, ‏25 نومبر 2011۔

  1. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    اونچی آواز میں دعا مانگوں یا اللہ مجھے محبت عطا کر تو ارد گرد نمازی تجسس بھری نگاہوں سے گھورے گے ضرور ۔ بد بخت مسجد میں بھی نفسانی خواہشیں لپیٹ لایا ہے ۔ گھر میں لبوں پہ یہی دعا گنگنائے تو رات کا کھانا خراب طبیعت کے بہانے میں رہ جائے ۔
    جو رہتا ہے تو رہ جائے جو بگڑے سو بگڑے مگر دل کی بات کہنے سے نہ کوئی روک پائے ۔ ایک محبت کی کمی نے زندگی بے رنگ کر دی ۔ خواہشیں انگڑائی لینا بھول گئیں ۔ گناہ توبہ کی کسوٹی سے پرکھنے لگے ۔ نیکیاں آرزؤں کی سولی پر لٹک کر جھولنے لگیں ۔ ارمان گھٹ گھٹ مرنے لگیں ۔ لطیف سانس اکھڑ اکھڑ کر حلق میں اٹکنے لگے تو قلب رازِ محبت کے بار سے بیٹھنے لگے ۔ خشک ہونٹ نامراد ناکام عاشق کی طرح اجڑنے کا منظر پیش کرنے لگیں ۔ قدم آگےبڑھنے سے پہلے دل سے اجازت مانگیں جو دھڑکنوں کی گنتی خود یاد کرنے میں دھک دھک کر نے میں مصروف عمل ہو تو بے چاری عقل جو مغز کی ماری ہو سوچ کے کونے کھدرے سے نکال نکال کر قصیدے قرینے سے پلکوں پر بٹھا کر آداب بجا لاتی رہے ۔ بن پنکھ کے کہیں اُڑنے کے لئے پر تولتی ہو تو خون آشام کے پروردہ ہاتھوں پہ رنگ حنا لئے بہلانے پھسلانے کو آسمانوں می‫‫ں اُڑا اُڑا چہرے کی رنگت شفق سےفق ہونے لگے ۔ دلاسے ہمت باندھتے کم جکڑمحبت میں مذید گانٹھیں لگانے میں پیش پیش زیادہ ۔
    عشق سے عشق تک پہنچنے کے تمام مراحل خود سے طے ہونے لگیں ۔ جنون محبت کا ، ارادے قربت کے ، چاہت پانے کی ، خوشی لذت کی ، انتظار آنے کا مگر جانے کا غم بچپن کے یاد کئے پہاڑےکےسبق کی طرح دو سے دو چار خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں ۔
    تنہا ایک خود ہے پہاڑے دو سے سولہ تک یاد رکھتا ہے ۔ اکیلے کا مول الگ ہے دو کا تول الگ سے ۔
    محبت بنیاد نہیں سطح آب ہے جہاں جزبات کے بخارات اُٹھتے تو اُداسیوں ، ناکامیوں کے بادل برستے کہیں اور ہیں ۔
    جنہیں محبت کا جنوں ہے انہیں خود کی تلاش ہے ۔ پانے کی چاہت کمزور ہے جیتنے کی لگن زورآور ۔
    انا کا ایک خاموش بت شخصیت کے گرد حلقہ بنائے محبت کے پجاریوں کے جھکنے سے تسکین پانے میں نشہ کے جام چھلکاتا ہے ۔
    محبت کی داستان سچی ہو تب بھی ہیر رانجھا ، شیریں فرہاد ، لیلی مجنوں اور سسی پنوں کے نام سے بیان ایک داستان رہے گی ۔ جنہیں بچھڑنے کے غم نے نڈھال کر دیا ۔ کھونے کا غم کسی کے بدن سے جان لے گیا ۔
    آغاز محبت میں شدت ایمان کی صورت اور انجام سے بے خبری کسی کافر کے گناہوں میں لت پت ہونے جیسی ۔
    عشق مجازی سے عشق حقیقی تک پہنچنے کی راہ ۔
    مگر کیسے ؟
    کسی کو پانے کی شدت ہے یا خود کو منوانے کی ۔ ناکامی و نامرادی کا حزن نہیں تو ملال کا گزر بھی نہیں ۔
    پھر دل تھام تھام ہمدردی کی جھولی پھیلانے سے درد کے افاقہ کی سیل توڑی نہیں جا سکتی ۔
    دل ٹوٹے ٹوٹے گانے میں اچھا ہو سکتا ہے مگر جینے میں بار بار ٹوٹنا سامان رسد باندھ لینا خوشیوں کے روٹھ جانے پر ۔
    محبت میں جیت کا راستہ دیکھیں تو کیسے ؟ محبت کا مفہوم ہی نہیں سمجھ پائےتو محبوب کے جلوہ کا تصور ہی آنکھوں کو چندھیا دے ۔
    عشق میں گداگر کی طرح مانگتے جاؤ ۔کشکول میں ڈالنے والے محبوب ہو جاتے ہیں ۔
    بزم میں شمع جلاؤ تو بند کواڑ سے عاشق لپکتے ہیں ۔ جو جلنے پر بضد ہوتے ہیں ۔
    تنہائیوں کے خوف انہیں موت کے گھاٹ نہیں اتارتے بلکہ جلوہ افروزی پر فریفتہ اپنی جان کے نذرانے پیش کرتے ہیں ۔
    جو پانے کے لئے دکھوں کے روگ پال لیتے ہیں ۔ کھونا جنہیں دل کا روگی بنا دے ۔ ہمدردی سے ایک بار پھر انا کی بازی جیتنے سے توانائی کے طالب ہوتے ہیں ۔
    قابل رحم ہیں جو سچی محبت کا روگ الاپتے مگر پانے اور کھونے کے غیر محسوس ڈر کا شکار رہتے ہیں ۔
    سچی محبت کا حقدار تو صرف وہی ہے جو داتا ہے ۔ غنی ہے ۔ غفور ہے ۔ رحیم ہے ۔ محبتیں اس کی امین ہیں ۔ ہمارے پاس تو امانتیں ہیں ۔ جنہیں لوٹانے میں پس و پیش اور لیت و لعل کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔
    سچ لکھنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے تو کسی تار بابو سے خط لکھوانے کی ضرورت نہیں ۔
    قلب ِقلم کو نعمت ِخداوندی کے شکرسے خوب بھر لو ۔
    محبت کے سفید کاغذ پر عشق کی انمٹ روشنائی سے لکھتے جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔

    تیری عنایات ہیں اتنی کہ سجدہء شکر ختم نہ ہو
    تیرے راستے میں کانٹے ہوں میرا سفر ختم نہ ہو
    پھیلا دوں روشنی کی طرح علم خضر ختم نہ ہو
    توبہ کرتا رہوں اتنی میرا عذر ختم نہ ہو
    سجدے میں سامنے تیرا گھر ہو یہ منظر ختم نہ ہو
    تیری رحمتوں کی ہو بارش میرا فقر ختم نہ ہو
    مجھ ادنیٰ کو تیرے انعام کا فخر ختم نہ ہو
    جہاں جہاں تیرا کلام ہو میرا گزر ختم نہ ہو
    تیری منزل تک ہر راستے کی ٹھوکر ختم نہ ہو
    آزمائشوں کے پہاڑ ہوں میرا صبر ختم نہ ہو
    زندگی بھلے رک جائے میرا جذر ختم نہ ہو
    وجود چاہے مٹ جائے میری نظر ختم نہ ہو
    تیری اطاعت میں کہیں کمی نہ ہو میرا ڈر ختم نہ ہو
    بادباں کو چاہے کھینچ لے مگر لہر ختم نہ ہو
    خواہشیں بھلا مجھے چھوڑ دیں تیرا ثمر ختم نہ ہو
    تیری عبادت میں اتنا جیئوں میری عمر ختم نہ ہو
    بھول جاؤں کہ میں کون ہوں مگر تیرا ذکر ختم نہ ہو
    جاگوں جب غفلتِ شب سے میرا فجر ختم نہ ہو
    تیری محبت کا جرم وار ہوں میرا حشر ختم نہ ہو
    تیری حکمت سے شفایاب ہوں مگر اثر ختم نہ ہو
    میرے عمل مجھ سے شرمندہ ہوں مگر فکر ختم نہ ہو
    منزلیں چاہے سب گزر جائیں مگر امر ختم نہ ہو
    سپیدی و سیاہی رہے نہ رہے مگر نشر ختم نہ ہو
    دن چاہے رات میں چھپ جائے مگر ازہر ختم نہ ہو

    تحریر و اشعار ! محمودالحق​
     
  2. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عشق سے عشق تک

    بہت عمدہ محمود بھائی۔ کیا خوب لکھا ہے آپ نے اور یہ جو دو اقتباس لکھے ہیں میں‌نے ۔۔۔۔ کمال کی تمثیلیں ہیں۔
     
  3. فرح ناز
    آف لائن

    فرح ناز ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2010
    پیغامات:
    236
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: عشق سے عشق تک

    بزم خیال صاحب۔اچھا لکھا ہے۔
     
  4. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عشق سے عشق تک

    سچ لکھنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے تو کسی تار بابو سے خط لکھوانے کی ضرورت نہیں ۔
    قلب ِقلم کو نعمت ِخداوندی کے شکرسے خوب بھر لو ۔
    محبت کے سفید کاغذ پر عشق کی انمٹ روشنائی سے لکھتے جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔

    واہ۔۔۔کیا کہنے ۔۔۔بہت خوب لکھا ہے۔۔۔اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
     
  5. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عشق سے عشق تک

    السلام علیکم
    بزمِ خیال جی !
    واہ واہ ، بُہت خُوب ، کمال، لاجواب
    کافی دیر سوچتا رہا کہ جواب دینے کے لیے کہاں سے اقتباس لوں۔ بار بار پڑہا
    مگر ہر بار انوکھا لُطف۔ حروف تو صدیوں پُرانے ، ہر ایک کی نظر سے گُزرے ہوئے۔
    مگر انداز تحریر نیا !
    استعارے، تشبیحات ، اصلوب، اور پھرحروف کو آپس میں مدغم کرنا اور پھراُن سے بُنے ہوئے
    الفاظ سے اپنے تخیل کو ایک الگ جامہ پہنانا ۔ بُہت عجیب لگا
    بُہت بُہت مہربانی۔۔۔۔۔ والسلام
     
  6. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عشق سے عشق تک

    قابل رحم ہیں جو سچی محبت کا روگ الاپتے مگر پانے اور کھونے کے غیر محسوس ڈر کا شکار رہتے ہیں ۔

    بھول جاؤں کہ میں کون ہوں مگر تیرا ذکر ختم نہ ہو

    بہت اعلیٰ !

    محترمی لفظ لفظ موتیوں جیسا ہے۔
     
  7. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عشق سے عشق تک

    :n_great:
    واہ بہت خوب اور باکمال لکھا ہے ، بہت پُر اثر اور دل کو چھو لنے والی تحریر ہے
     
  8. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عشق سے عشق تک

    واصف حسین صاحب ، فرح ناز صاحبہ،حریم خان صاحبہ ،الکرم صاحب ،ملک بلال صاحب اور تانیہ صاحبہ
    السلام علیکم آپ سب کی پزیرائی اور پسندیدگی کا بہت شکریہ
    آپ نے جو کمنٹس دئے ہیں یہ لکھاری کے لئے ٹانک کا کام کرتے ہیں ۔ پھر سے نئی تحریر کے لئے تیاری پر مجبور کرتے ہیں ۔
    میرے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں جس سے ماپ سکوں کہ میں نے کیسا لکھا ہے ، آپ کی آراء کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے قلم سے کیا سرگوشی ہو چکی ہے ۔
    خوش رہیں ! آباد رہیں !
    امید کرتا ہوں کہ آپ ایک اچھے نقاد کی طرح میری رہنمائی کرتے رہیں گے ۔
    والسلام
     

اس صفحے کو مشتہر کریں