1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عدیم ہاشمی کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از خرم مراد, ‏14 جنوری 2015۔

  1. خرم مراد
    آف لائن

    خرم مراد ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2015
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم !
    اس موضوع میں عدیم ہاشمی صاحب کی شاعری پوسٹ کی جائے گی۔ تمام چاہنے والوں کو خوش آمدید۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. خرم مراد
    آف لائن

    خرم مراد ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2015
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    ملک کا جھنڈا:
    میں اپنی اس پسندیدہ نظم سے اس موضوع کا آغاز کر رہا ہوں امید ہے آپ کو بھی پسند آئے گی۔

    کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یوں ہوا کہ مر گئے
    تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے

    تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
    تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے

    وقت ہی کچھ جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
    دل میں تیرے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے

    ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
    صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے

    وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
    وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے

    کوئی کنارِ آب جو بیٹھا ہوا ہے سر نگوں
    کشتی کد ھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے

    آج بھی انتظار کا و قت حنوط ہو گیا
    ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے

    بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
    وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے

    آبِ محیطِ عشق کا بحر عجیب بحر ہے
    تَیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے

    اتنے قریب ہو گئے اتنے رقیب ہو گئے
    وہ بھی عدیم ڈر گیا ہم بھی عدیم ڈر گئے

    اس کے سلوک پر عدیم اپنی حیات و موت ہے
    وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے
     
    Last edited: ‏16 جنوری 2015
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
    وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے

    واہ
    کیا خوبصورت کلام ہے۔
    شیئرنگ کا شکریہ خرم مراد جی
    مزید کا انتظار رہے گا۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. خرم مراد
    آف لائن

    خرم مراد ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2015
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    ملک کا جھنڈا:
    مشکور ہوں جناب :)
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. خرم مراد
    آف لائن

    خرم مراد ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2015
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    ملک کا جھنڈا:
    یہ لفاظی مجھے عدیم ہاشمی صاحب کا فین بنا گئی تھی۔
    اتنے قریب ہو گئے اتنے رقیب ہو گئے
    وہ بھی عدیم ڈر گیا ہم بھی عدیم ڈر گئے
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. خرم مراد
    آف لائن

    خرم مراد ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2015
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    ملک کا جھنڈا:
    محترم ملک بلال صاحب!
    ہمیں کوئی شعر تبھی اچھا لگتا ہے جب اس میں ہمیں اپنا عکس نظر آئے ۔ عدیم ہاشمی صاحب کی یہ غزل بھی مجھے میری داستان لگتی ہے سویہ میری پسندیدہ غزل ہے ۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    عدیم ہاشمی کے بارے میں کچھ معلومات بھی شیئر فرمائیے۔
     
    خرم مراد اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. خرم مراد
    آف لائن

    خرم مراد ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2015
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    اسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ !
    عدیم ہاشمی صاحب کے بارے میں مجھے انٹر نیٹ سے کچھ معلومات ملی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔

    عدیم ہاشمی صاحب کو عدیم فصیح الدین ہاشمی (اصل نام فصیح الدین) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عدیم ہاشمی صاحب یکم اگست 1946 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ انکی زندگی فیصل آباد اور امریکہ میں گزری۔ اور انکی وفات بھی امریکہ میں 5 نومبرمیں ہوئی۔
    وہ اپنی بے باک شاعری کی وجہ سے 70 اوہ 90 کی دہائی میں ایک متناز عہ شاعر رہے جیسا کہ ہر انقلابی شاعر کے ساتھ ہوتا ہے۔ 60 کی دہائی کے آخر میں انکو انکی شہرہ افاق نظموں "کٹ ہی گئی جدائی بھی" اور "فاصلے ایسے بھی ہوں گے"سے شہرت ملی۔ انہوں نے روائیت سے ہٹ کر شاعری کی اور وہی کچھ لکھا جسکو انہوں نے محسوس کیا۔ جب اس زمانے کے شعرا کرم رومانس اور فطرت کے گرد گھوم رہے تھےعدیم ہاشمی صاحب نے باغیانہ اقدار کو اپنایا اور حقیقت سے قریب تر رہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لئے بہت سے مشہور ڈرامے بھی لکھے جن میں سے ایک ڈرامہ "گیسٹ ہاؤس"اسلام آباد سنٹر سے نشر ہوا ۔ہم میں سے ہر ایک اس ڈرامے کو جانتا ہے ۔ اس ڈرامے کو پی ٹی وی پر سب سے زیادہ دیر تک نشر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انکا لکھا ایک گیت "دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں" بھی عالمگیر کی آواز میں زبان زد عام ہو ا۔ یہ گیت غالباً پاکستان کی تاریخ کے مشہور ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔
    عدیم ہاشمی صاحب نے اپنی آخری کتاب " بہت نزدیک آتے جا رہے ہو" علالت کے دوران لکھی۔ عدیم ہاشمی صاحب کا انتقال 5 نومبر م2001 کوشکاگو امریکہ میں ہوا۔
     
    Last edited: ‏26 جنوری 2015
    عمر خیام اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ خرم مراد جی ۔ دونوں غزلیں بہت مشہور ہیں ان کے بارے میں تو پتا تھا کہ عدیم کی ہیں۔ لیکن گیسٹ ہاؤس کا ذہن میں نہیں تھا اور عالمگیر کا گانا تو ٹرینڈ سیٹر بنا تھا ۔
    عدیم ہاشمی جی کی کوئی تصویر اور مزید شاعری کا انتظار رہے گا۔
    آپ کا شکریہ
    خوش رہیں
    بہت جئیں :)
     
    خرم مراد اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. خرم مراد
    آف لائن

    خرم مراد ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2015
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    ملک کا جھنڈا:
    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا


    وہ کہ خُوشبو کی طرح‌پھیلا تھا میرے چار سُو
    میں اُسے محسوس کر سکتا تھا، چُھو سکتا نہ تھا

    رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
    جھانک کر دیکھا گلی میں، کوئی بھی آیا نہ تھا

    یہ سبھی ویرانیاں اُس کے جُدا ہونے سے تھیں
    آنکھ دُھندلائی ہوئی تھی، شہر دُھندلایا نہ تھا

    عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
    آئینہ تو تھا مگر اُس میں تیرا چہرا نہ تھا

    میں تیری صورت لئے سارے زمانے میں پِھرا
    ساری دُنیا میں مگر کوئی تیرے جیسا نہ تھا

    خُود چڑھا رکھے تھے تن پر اَجنبیت کے غُلاف
    ورنہ کب اِک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا

    سینکڑوں طوفان لفظوں کے دبے تھے زیرِ لب
    ایک پتھر خامشی کا تھا ، جو ہٹتا نہ تھا

    محفلِ اہلِ وفا میں‌ہر طرح کے لوگ تھے
    یا ترے جیسا نہیں تھا یا مرے جیسا نہ تھا

    آج اُس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
    آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا

    یاد کرکے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
    بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا

    مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیم
    ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
     
    پاکستانی55، ملک بلال اور عمر خیام نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    واہ
    خوب غزل ہے اور غلام علی نے اسے گایا بھی خوب ہے
    شکریہ خرم مراد جی
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. خرم مراد
    آف لائن

    خرم مراد ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2015
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ قبول فرمایں ۔۔۔
     
  13. خرم مراد
    آف لائن

    خرم مراد ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2015
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    ملک کا جھنڈا:
    سرِ صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
    میں چلتا ہوں مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے

    تمہارا ظرف ہے تم کو محبت بھول جا تی ہے
    ہمیں تو جس نے ہنس کر بھی پکارا یاد رہتا ہے

    محبت اور نفرت اور تلخی اور شیرینی
    کسی نے کس طرح کا پھول مارا یاد رہتا ہے

    محبت میں جو ڈوبا ہوا سے ساحل سے کیا لینا
    کسے اس بحر میں جا کر کنارہ یاد رہتا ہے

    بہت لہروں کو پکڑ ا ڈوبنے والے کے ہاتھوں نے
    یہی بس ایک دریا کا نظارہ یاد رہتا ہے

    صدائیں ایک سی، یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
    ذرا سا مختلف جس نے پکارا یا د رہتا ہے

    میں کس تیزی سے زندہ ہوں ،میں یہ تو بھول جاتا ہوں
    نہیں آنا ہے دنیا میں دوبارہ یاد رہتا ہے

    عدیم ہاشمی
     
    Last edited: ‏18 جنوری 2015
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. خرم مراد
    آف لائن

    خرم مراد ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2015
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    ملک کا جھنڈا:
    ایسے تری لکھی ہوئی تحریر کھو گئی
    جیسے جبیں کی لوح سے تقدیر کھو گئی

    پلکوں پہ آنسوؤں کے دئیے ڈھونڈتے رہے
    آنکھوں سے پھر بھی خواب کی تعبیر کھو گئی

    کیا تھا شکوۂ قصر پتہ ہی نہ چل سکا
    ملبے کے ڈھیر میں کہیں تعمیر کھو گئی

    دن رات کی تہوں میں خد و خال دب گئے
    اوراق وقت میں تیری تصویر کھو گئی

    زندان تعلقات کا قائم نہ رہ سکا
    قیدی ملا تو پاؤں کی زنجیر کھو گئی

    یہ غم نہیں جبین شکن در شکن ہے کیوں
    شکنوں کے بیچ میں میری تقدیر کھو گئی

    حالانکہ یہ دعا تھی مگر مانگتے ہوئے
    ایسے لگا کے ہاتھ کی توقیر کھو گئی

    بندھن بندھے ہوئے تھے سبھی کھل گئے عدیمؔ
    مجھ سے تعلقات کی زنجیر کھو گئی
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. خرم مراد
    آف لائن

    خرم مراد ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2015
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    ملک کا جھنڈا:
    ہم بہرحال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
    تم بھی اک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے

    عکس پانی میں محبت کے اتارے ہوتے
    ہم جو بیٹھے ہوئے دریا کے کنارے ہوتے

    جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے
    وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے

    کیا ابھی بیچ میں دیوار کوئی باقی ہے
    کونسا غم ہے بھلا تم کو ہمارے ہوتے

    آپ تو آپ ہیں، خالق بھی ہمارا ہوتا
    ہم ضرورت میں کسی کو نہ پکارے ہوتے

    ساتھ احباب کے حاسد بھی ضروری ہیں عدیم
    ہم سخن اپنا سناتے جہاں سارے ہوتے
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں