1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عدنان میندریس ،۔۔۔۔۔ عبدالحفیظ ظفر

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عدنان میندریس ،۔۔۔۔۔ عبدالحفیظ ظفر
    ترکی کے سابق وزیراعظم کو 1961میں پھانسی دی گئی

    ترکی میں سلطنت عثمانیہ 600برس تک قائم رہی۔ ان 6 صدیوںمیں 36 حکمران آئے۔ سلطنت عثمانیہ کے پہلے سلطان عثمان بن غازی تھے ان کے نام پر ہی اس سلطنت کو سلطنت عثمانیہ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ سلطنت 1299میں قائم ہوئی اور ترکوں کے قبائلی رہنما عثمان 1نے اس کی بنیاد رکھی۔ یکم نومبر 1922کو یہ سلطنت اختتام پذیر ہوگئی۔ ترک قوم پرستوں نے ملک کا انتظام سنبھال لیا۔ 1923 میں مصطفی کمال پاشا (کمال اتاترک) ترکی کے فیلڈ مارشل اور جمہوریہ ترکی کے بانی تھے ملک کے پہلے صدر بن گئے۔ وہ 1938 تک صدر رہے اور اسی سال ان کا انتقال ہو گیا۔ کمال اتاترک سیکولر ذہنیت کے مالک تھے اور کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں دینی مدرسوں کو بند کر دیا گیا تھا۔
    عدنان مندریس ترکی کے ایک قابل سیاستدان تھے۔ وہ 1699 میں کوکرلی (صوبہ ایادین) میں پیدا ہوئے،پرائمری سکول کے بعد امریکن کالج ازمیر سے تعلیم حاصل کی۔ ترکی کی جنگ آزادی کے دوران یونان کی حملہ آور فوج کے خلاف پامردی سے لڑے اور انہیں میڈل دیا گیا۔ 1930میں انہوں نے انقرہ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔
    میندریس نے لبرل ری پبلکن پارٹی قائم کی جو تھوڑے عرصے بعد ہی ختم ہو گئی۔ اس کے بعد کمال اتاترک نے انہیں خود حکمران ری پبلکن پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ 1931میں میندریس کو آئے دین کا ڈپٹی بنا دیا گیا۔ 1945 میں انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ اس کی وجہ پارٹی کے اندر عصمت انونو کی ان پالیسیوں کی مخالفت تھی جن کے تحت وہ سب کچھ قومی تحویل میں لینا چاہتے تھے۔ 1946 میں عدنان میندریس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ڈیموکریٹک پارٹی (DP) بنا لی۔ 1946 کے پارٹی انتخابات میں میندریس کو ڈیمو کریٹک پارٹی کا ڈپٹی منتخب کر لیا گیا۔ انہیں پارٹی کے اس حصے کا ڈپٹی بنایا گیا جو کٹاہیا کی نمائندگی کر رہا تھا۔ 14مئی1955 کو ترکی میں پہلی دفعہ آزادانہ انتخابات ہوئے جس میں ڈیمو کریٹک پارٹی نے 52فیصد ووٹ حاصل کیے۔ یہ وہ انتخابات تھے جن میں ووٹ خفیہ طریقے سے ڈالے گئے لیکن ووٹوں کی گنتی سب کے سامنے ہوئی۔ عدنان میندریس ترکی کے وزیراعظم بن گئے اور 1950میں انہوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان بھی سنبھال لیا۔ انہوں نے 2 مزید آزادانہ انتخابات (1954 اور 1957)میں بھی فتح حاصل کی۔ انکے10 سالہ دور حکومت میں ترکی کی معیشت 9فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کر رہی تھی۔ ان کے دور میں ترکی نیٹو (NATO) کا رکن بن گیا اور امریکہ کی معاشی امداد کی بدولت ملک کا ہر شعبہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھا۔ یہ سب کچھ ''مارشل پلان‘‘ کے ذریعے ہو رہا تھا۔
    ڈیمو کریٹک پارٹی نے شہری اور دیہی علاقوں میں قربت بڑھائی جس سے دیہی علاقوں کو شہری علاقوں کی طرز زندگی کے بارے میں بہت کچھ علم ہوا۔1955 میں ترکی اور یونان کے درمیان قبرص کے مسئلے پر شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔عدنان میندریس نے دعویٰ کیا کہ یونان سے تعلق رکھنے والے قبرص کے لوگ ترکی نژاد قبرص کے لوگوں کا قتل عام کرنا چاہتے ہیں۔ قبرص کی طرف توجہ دلانا میندریس حکومت کے لیے سیاسی طور پر آسان تھا۔ عدنان میندریس روایتی طرز زندگی کو پسند کرتے تھے۔ وہ اسلامی طرز حیات اور اصولوں کے بھی حامی تھے۔ انہوں نے 1950کے انتخابات میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اذان کی اجازت دیدیں گے بلکہ اسے قانونی شکل دیں گے جبکہ اتاترک کے زمانے میں ایسا نہیں تھا۔ انہوں نے ملک کے اندر ان ہزاروں مسجدوں کو کھول دیا جنہیں بند کر دیا گیا تھا۔ اس پر ان کے مخالفین نے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ عدنان میندریس نے عصمت انونو کی تصویر کو ترکی کے بینکوں کے نوٹوں سے ہٹا دیا۔ اس کے علاوہ ان کی تصاویر کو ڈاک کی ٹکٹوں سے بھی ہٹا دیا گیا۔ اس کی جگہ اتاترک کی تصاویر دوبارہ لگا دی گئیں۔ اس کی وجہ عوام کا دبائو تھا۔ اپنی ایک تقریر میں عدنان میندریس نے یہ بھی کہہ دیا کہ پارلیمینٹ کے ارکان اگر چاہیں تو وہ خلافت دوبارہ لا سکتے ہیں۔ اپنے پیش روئوں کی طرح وہ بھی مغرب نواز تھے لیکن وہ مسلمان ریاستوں کے ساتھ بھی بہتر تعلقات کے خواہش مند تھے۔ ان کی معاشی پالیسیوں سے ترکی کے کسان بڑے خوش تھے۔
    لیکن ان سب کے باوجود ان میں یہ خامی تھی کہ وہ تنقیدبرداشت نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے پریس پر سنسرشپ لگائی اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔ اس کے علاوہ مخالف سیاسی جماعتوں کو دبانے کی بھی کوشش کی گئی۔ انہوں نے یونیورسٹیوں کو بھی اپنے کنٹرول میں لینے کی سعی کی۔ میندریس کو لوگ پسند کرتے تھے اور انہیں اس وقت کے آرمی چیف جمال گرسل کی حمایت بھی حاصل تھی۔ جمال گرسل کا مؤقف یہ تھا کہ عدنان میندریس کو قومی اتحاد کیلئے صدر بننا چاہیے۔ ان کے اس مؤقف کی دانشوروں‘ یونیورسٹی کے طلبا ء اور فوج کے نوجوان انقلابی افسروں نے مخالفت کی اور کہا کہ اتاترک کے نظریات کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
    عدنان میندریس نے انکوائری کمیشن بنائے، کمیشن میں صرف ڈیمو کریٹک پارٹی کے ارکان شامل تھے اور ان ارکان کو مقدمات چلانے اور فیصلہ سنانے کے اختیارات بھی دیدئیے گئے۔یہ اختیارات کی علیٰحدگی کے اصول کے خلاف تھا۔ ارکان پارلیمینٹ کو مقدمہ چلانے اور جج بننے کے اختیارات مل گئے۔ علاوہ ازیں کمیشن کے فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں کی جا سکتی تھی۔ 27مئی 1960 کو ترکی میں فوجی بغاوت ہو گئی، اس بغاوت کے پیچھے ترک فوج کے 37فوجی افسر تھے حکومت کو معزول کر دیا گیا۔ میندریس اور صدر بیار کو گرفتار کر لیا گیا اس کے علاوہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے تمام اہم ارکان بھی گرفتار کر لیے گئے، ان پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا۔ اس کے علاوہ یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے ''استنبول پوگروم‘‘ کا حکم دیا جس میں 57 یونانیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ ایک الزام یہ بھی عائد کیا گیا کہ ریاستی فنڈز کا بہت زیادہ پیسہ غبن کر لیا گیا ہے۔
    لیبادیا کے جزیرے میں عدنان میندریس اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے اہم ارکان پر فوجی عدالت نے مقدمہ چلایا۔ میندریس‘ بیار اور کابینہ کے2 سابق وزراء کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ میندریس نے نیند کی گولیاں زیادہ مقدار میں کھا کر خودکشی کی کوشش کی۔ دراصل میندریس نے اپنی پھانسی میں تاخیر کیلئے یہ حربہ استعمال کیا۔ عدنان میندریس کی سزا معاف کرنے کیلئے دنیا کے بڑے بڑے رہنمائوں نے اپیلیں کیں۔ ان میں امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی اور ملکہ الزبتھ دوم بھی شامل تھیں۔ سب غیرملکی رہنمائوں کی اپیلیں مسترد کردی گئیں اور عدنان میندریس کو 17ستمبر 1961 کو امرالی میں پھانسی دیدی گئی۔ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ پھانسی سے پہلے عدنان میندریس کے الفاظ تھے ''یااللہ میرے ملک پر رحمت کر‘‘۔ آج ترکی میں 27مئی 1960 ''یوم سیاہ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کمال اتاترک کی طرح عدنان میندریس کا بھی مقبرہ تعمیر کیا گیا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں