1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عدم اعتماد سے منتخب حکومت کا خاتمہ .... عبدالکریم

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    عدم اعتماد سے منتخب حکومت کا خاتمہ .... عبدالکریم

    کیا اپوزیشن تحریک عدم اعتماد سے ایک منتخب وزیراعظم کا خاتمہ کر سکتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر یہی کہا جا سکتا ہےکہ اپوزیشن دن میں خواب دیکھ رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے خیال میں اب وزیراعظم کو عدم اعتماد سے ہٹایا جا سکتا ہے، وہ ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں ہیں، چاہتے ہیں حکومت رہے لیکن نااہل وزیراعظم کو نہیں رہنا چاہیے۔ پتہ نہیں بلاول بھٹو کو کیسے لگتا ہے کہ یہ وزیراعظم کو عدم اعتماد سے ہٹا سکتے ہیں حالانکہ حال ہی میں اپوزیشن نے سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے کے لیے عدم اعتماد کیا لیکن اپوزیشن کو منہ کی کھانی پڑی۔پھر بلاول بھٹو صاحب بھی یہی کہتے پھرتے تھے کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔

    آپ کو بتاتے چلیں کہ سینیٹرزپر پارٹی کا سب سے زیادہ اعتماد ہوتا ہے کہ وہ خالص پارٹی قیادت کے خواص چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں جن کو پارٹی سینیٹر شپ سےنوازتی ہے یہ لوگ پارٹی قیادت کے پسندیدہ ترین لوگ ہوتے ہیں ۔ اس میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جو قیادت یا پارٹی کے خالص ورکر ہوتے ہیں جنہوں نے پارٹی اور قیادت کے لیے بہت قربایناں دی ہوتی ہیں جن کو قیادت انعام کے طور پر سینیٹ میں لاتی ہے۔ ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے اوردوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو بہت پیسے والے لوگ ہوتے ہیں جو پارٹی اور قیادت پر بہت پیسہ لگاتے ہیں۔ پارٹی اور قیادت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کی قیادت ان کو سینیٹ میں لاتی ہے اور ہماری سینیٹ ان پیسے والے لوگوں کی وجہ سے زیادہ بدنام ہے۔ آپ حیران ہونگے یہ لوگ جو پارٹی اور قیادت کے منظور نظر ہوتے ہیں، یہ بھی اپوزیشن کے عدم اعتماد میں ان کے ساتھ نہیں تھے۔جب اپوزیشن سینٹ میں بری طرح ناکام ہوئی تو ساری اپوزیشن اداروں پر الزامات لگانا شروع ہو گئی کہ ہمارے سینیٹرز کو ڈرایا دھمکایا گیاہے۔ ہمارے لوگوں کو خریدا گیاہے اس لیے ہمارے لوگ ہمارے خلاف ہوئے ہیں اور ساتھ میں حکومت اپوزیشن کو کہتی رہی کہ لوگ حق کے ساتھ تھے یہ سب ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں ۔

    آپ کو یہ بھی بتائیں کہ سینیٹرز گنتی کے لوگ ہوتے ہیں پھر بھی یہ لوگ اپوزیشن کے کنٹرول میں نہیں تھے اور جبکہ بلاول صاحب پارلیمنٹ کی بات کرتے ہیں ،وہاں پر لوگوں کی تعداد سینیٹرز سے کہیں زیادہ ہے۔ پارلیمنٹیرین تو پارٹی یا قیادت کی مہربانی سے نہیں، جیت کر آتے ہیں۔ ان کی جیت میں اپنی ذاتی کوشش پارٹی قیادت سے کہیں زیادہ ہوتی ہےکیونکہ یہ لوگ ڈائریکٹ عوام کے ووٹ سے آئے ہوتے ہیں اور یہ عوامی نمائندے ہوتے ہیں ۔پارلیمنٹ میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں ہم الیکٹیبل کہتے ہیں۔ الیکٹیبل کی جیت میں تو پارٹی اور قیادت کا رول ہی نہیں ہوتا یہ لوگ اپنی طاقت سے جیتتے ہیں ۔یہ لوگ زیادہ تر جاگیردار ہوتے ہیں، ان کا اپنے علاقوں میں بڑاکنٹرول ہوتا ہے۔ یہ با اثر لوگ ہوتے ہیں اور ہر دور میں حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔ آپ ان کو مفاد پرست ٹولہ بھی کہ سکتے ہیں یہ سیاست میں بھی بہت چالاک ہوتے ہیں اوریہ کسی پارٹی کے رحم وکرم پر نہیں ہوتے۔ یہ پیسے والے لوگ ہوتے ہیں ، جس پارٹی میں جاتے ہیں اس کو پارٹی فنڈ دیتے ہیں۔ پارٹیاں اور قیادت دونوں ان لوگوں کے رحم وکرم پر چل رہی ہوتی ہیں۔ اس طرح جب ان کا دل چاہتا ہے یہ لوگ اپنی پارٹیاں تبدیل کر جاتے ہیں ۔ان الیکٹیبلز کا حکومت گرانے اور بنانے میں اہم رول ہوتا ہے، یہ پاکستانی سیاست میں ایک مافیا بن چکا ہے ۔پاکستان میں ہر حکومت اس مافیا کا شکار بنتی ہے، یہ مافیا ہر حکومت کو اپنے مالی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔موجودہ حکومت بھی اگر طرح طرح کے بحرانوں میں گھری ہوئی ہے اس کی اصل وجہ یہی مافیا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان الیکٹیبل کے مافیا کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، یہ ہر سیاسی پارٹی کے بس کی بات نہیں ہے ،عدم اعتماد کے لیے بلاول بھٹو اور اپوزیشن کو ان کو کنٹرول کرنا بہت مشکل مرحلہ ہو گا۔

    اب جبکہ بلاول بھٹو صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ اس حکومت کو یعنی وزیراعظم کو عدم اعتماد کی تحریک لا کے گھر بھیجیں گے ،شائد بلاول بھٹو صاحب ہوا میں تیر چلارہے ہیں۔غالبا اپوزیشن جس دن پارلیمنٹ میں عدم اعتماد لائے گی ،اس دن حکومت کو تو کوئی فکر نہیں ہو گی، اپوزیشن بہت پریشان ہوگی۔ ان کو اپنے بندے پورے کرنے میں بہت مشکلات ہو گی۔کیونکہ اپوزیشن سینیٹ والی ناکامی کو دوبارہ دہرائے گی ۔پھر یہی بلاول بھٹو پارلیمنٹ میں چیخ رہے ہونگے کہ ہمارے ساتھ ایک دفعہ پھر ہاتھ ہوگیا ہے ، پھر اپوزیشن اداروں پر انگلیاں اٹھائے گی، اداروں پر الزام تراشیوں کی ایک نئی سیاست شروع ہو جائے گی ۔
    پی ڈی ایم کی سیاست اب کنفیوژن کا شکار ہے، پی ڈی ایم جلسے جلوسوں اور روڈ کی سیاست سے ناکامی کے بعد کافی تقسیم نظر آتی ہے۔ ہر پارٹی اپنا مفاد دیکھ رہی ہے ۔پیپلز پارٹی اب آہستہ آہستہ اپنے آپ کو پی ڈی ایم سے دور کرتی نظر آرہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نواز شریف کا ادارے مخالف بیانیہ ہے۔ پیپلز پارٹی اس بیانیے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ،پیپلز پارٹی کہتی ہے نواز شریف کے بیانیے نے پی ڈی ایم کو بند گلی میں کھڑا کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم میں مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف باقی پارٹیاں ایک طرف ہیں ،بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی دوسری طرف ہیں۔

    زرداری صاحب نہیں چاہتے کہ بلاول بھٹو نواز شریف کے بیانیے پر سیاست کرے ۔ کہا جا سکتاہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں دو مخلتف نظریات کی جنگ ہے ۔نواز شریف چاہتے ہیں اس حکومت کو جیسےتیسے گھر جانا چاہیے۔ زرداری صاحب چاہتے ہیں یہ حکومت ضرور گھر جائے لیکن جمہوری طریقے سے اس حکومت کا خاتمہ ہو ۔اس میں بلاول بھٹوچاہتے ہیں جمہوری فیصلے پارلیمان میں ہونے چاہییں ،پارلیمنٹ کو فیصلہ کرانا چاہیے کہ اس وزیراعظم کو رہنا چاہیے یا نہیں ،یہ فیصلے سڑکوں اور دھرنوں ٖغیر پارلیمانی طریقے سے نہیں ہونے چاہییں۔ن لیگ اور مولانا فضل الرحمان چاہتے ہیں کہ اس حکومت کا مکمل خاتمہ ہو نا چاہیے، یہ حکومت صرف اورصرف سڑکوں اور دھرنوں، لانگ مارچ سے گرائی جاسکتی ہے۔ جب یہ وزیراعظم اور حکومت ہی ہمیں منظور نہیں ہے تو ہم پارلیمنٹ کیوں جائیں ،پارلیمنٹ میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو ہمارے ساتھ سینیٹ میں ہاتھ ہوچکا ہے ۔ ہم اس سیٹ اپ کے خلاف ہیں، چاہتے ہیں کہ اس حکومت کا دھڑن تختہ ہو اور نئے الیکشن ہوں۔ آنے والی حکومت عوام کی طاقت سے آئے ۔عوامی حکومت ہی عوام کا سوچتی ہے۔ موجودہ حکومت ووٹ چوری کر کے آئی ہے، اس لیے عوام کے لیے نہیں سوچ رہی۔ مہنگائی اور ہر ڈیپارٹمنٹ میں نااہلی عروج پر ہے، اس میں ملک کا نقصان ہے ۔لیکن بلاول بھٹو ساری اپوزیشن سے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ وہ کہتےہیں ہمارا مقصد صرف اس نااہل وزیراعظم کو ہٹانا ہے اور حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے ۔ان کامقصد حکومت کو گرانا ہر گز نہیں، اس لیے بلاول بھٹو نے ساری اپوزیشن کو یہ تجویز دی ہے کہ وزیراعظم کو عدم اعتماد سے ہٹایا جاسکتا ہے اس سے جمہوریت کو بھی نقصان نہیں ہوگا پارلیمنٹ کی اب جو بے توقیری ہوئی ہے، اس سے بھی پارلیمنٹ کی عزت بحال ہو گی اور پارلیمنٹ کے فیصلے پارلیمنٹ کے اندر ہوں تو بہتر ہے، باقی اس کا انجام جو بھی ہو لیکن یہ بات بلاول بھٹو کی مناسب ہے ملک انتشار اور افراتفری سے بچ جائے گا ۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں