1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عالمی نظام عدل و انصاف ایک حقیقت یا خواب

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از بےلگام, ‏24 مارچ 2009۔

  1. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    عالمی نظام عدل و انصاف ایک حقیقت یا خواب

    ایک عالمگیر عقیدہ اور خواہش ر انسان دوست کی خواہش
    دنیا کے بگڑتے ہوئے حالات سے ہر درد دل رکھنے والا انسان پریشان ہے اور اپنے دل میں یہ خواہش رکھتا ہے کہ کاش دنیا میں امن و امان ہو، خوشحالی و شادمانی ہو۔ لوگوں کے درمیان محبت و اخوت اور مساوات کے عظیم اور مقدس ترین رشتے قائم ہوں۔ لیکن یہ تمام باتیں ایک خواب ہی نظر آتی ہیں کیونکہ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں مسائل و آفات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے چاہے امن و امان کی صورت حال ہو یا معاشی و معاشرتی مسائل ہوں انسانیت کے گردظلم و بربریت کے گھیرے روز بروز تنگ ہوتے جا رہے ہیں۔ کہیں مصیبتوں کی سیاہ رات نظر آتی ہے اور کہیں خوشیوں کی بارات۔ کہیں مجبور و بے کس انسانوں کی آہیں و سسکیاں سنائی دیتی ہیں اور کہیں دولت و طاقت کے نشے میں چور انسانوں کے قہقہے فضاوٴں میں گونجتے سنائی دیتے ہیں۔

    کون سا ایسا ظلم ہے جس کا مظاہرہ اس دنیا میں نہیں ہو رہا یا ہوتا رہا ہے۔ اس مایوس کن اور کرب ناک صورتحال میں درد مند اور مظلوم افراد کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانیت ہمیشہ اسی طرح سسکتی رہے گی؟ یا کبھی عدل و انصاف کا سورج بھی طلوع ہو گا؟ دنیا کے صاحب دل اور مظلوم افراد کے ذہنوں میں انتہائی شدت سے اٹھتے ہوئے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہم قرآن مجید،احادیث مبارکہ اور عقلی دلائل سے رہنمائی حاصل کریں گے۔

    قرآن مجید جو کہ پیغام الٰہی ہے اور سو فیصد بغیر کسی کمی بیشی کے مسلمانوں کے پاس موجود ہے اس کی آیات مبارکہ میں اس بات کی پیش گوئیاں موجود ہیں کہ ایک دن ضرور دنیا میں الله کے نیک بندوں کی حکومت ہو گی۔
     
  2. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    سورہ انبیاء آیت نمبر ۱۰۵میں ارشاد قدرت ہے۔

    ﴿وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ م بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰالِحُوْنَ﴾

    ترجمہ: ”اور ہم نے نصیحت (توریت) کے بعد یقینا زبور میں لکھ دیا تھا کہ روئے زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔“

    اس کے علاوہ بہت سی احادیث مبارکہ بھی ہیں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا سے ایک نہ ایک دن ظلم و جور کا خاتمہ ہو گا اور زمین عدل و انصاف سے پر ہو جائے گی۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ایسا اس وقت ہو گا جب حضرت امام مہدیں ظہو ر فرمائیں گے۔

    کتاب: سنن ابو داوٴد شریف

    ترجمہ و فوائد: حضرت علامہ وحید الزمان

    ناشران: محمد سعید اینڈ سنز۔ تاجران کتب قرآن، بالمقابل مولوی مسافر خانہ کراچی

    کتاب: مہدی

    صفحہ نمبر ۳۲۴، حدیث نمبر ۸۷۹

    ﴿عن عبد اللّٰہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال لو لم یبق من الدنیا الا یوم لطوّل اللّٰہ ذلک الیوم حتٰی یبعث رجلا منی او من اہل بیتی یواطی اسمہ اسمی و اسم ابیہ اسم ابی یملأ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا﴾۔

    ترجمہ: آپ نے فرمایا کہ اگر دنیا کا ایک دن بھی رہ جائے گا تو الله تعالیٰ اسی دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ اس میں ایک شخص مجھ سے یا میرے اہل بیت میں سے اس طرح اٹھا دے گا کہ اس کا نام میرا نام ہو گا اور میرے باپ کا نام اس کے باپ کا نام ہو گا وہ عدل اور انصاف سے زمین کو اس طرح سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔

    کیا ظہورِ امام مہدی کا عقیدہ تمام مسلمانوں کے مسلمہ عقائد میں شامل ہے؟

    اہل سنت کی صحاح ستہ اور اہل تشیع کی کتب اربعہ سے اس کے علاوہ دونوں فرقوں کی دوسری بہت سی کتابوں سے امام مہدیں کے متعلق احادیث مبارکہ پیش کی جا سکتی ہیں لیکن احادیث پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ہم یہ زیادہ مناسب خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے جید علماء کرام کے ظہور امام مہدی کے متعلق عقائد بھی جو کہ انہوں نے اپنی مختلف تصانیف میں بیان کئیے ہیں وہ ان کتابوں کے حوالہ جات کے ساتھ پیش کئیے جائیں کیونکہ صرف احادیث پیش کرنے سے ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ شکوک و شبہات جنم لیں کہ شاید یہ احادیث مستند نہ ہوں ضعیف ہوں لیکن جید علمائے کرام امام مہدیں کے متعلق جو عقائد رکھتے ہیں وہ انہوں نے امام مہدیں کے متعلق احادیث کی صحت کو پرکھنے اور جانچنے کے بعد پیش کئے ہیں:

    ۱۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی

    کتاب: تجدید و احیائے دین

    ناشر: اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ

    ۱۳ ای۔ شاہ عالم مارکیٹ، لاہور
     
  3. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    سید ابو الاعلی مودودی اپنی اس مشہور و معروف کتاب تجدید و احیائے دین، صفحہ ۴۹ پر مجددین وغیرہ کی تعریف کے بعد مجدد کامل کا مقام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ”تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک کوئی مجدد کامل پیدا نہیں ہوا ہے۔ قریب تھا کہ عمر بن عبد العزیز منصب پر فائز ہو جاتے مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کے بعد جتنے مجدد پیدا ہوئے ان میں سے ہر ایک نے کسی خاص شعبے یا چند شعبوں ہی میں کام کیا۔ مجدد کامل کا مقام ابھی تک خالی ہے مگر عقل چاہتی ہے، فطرت مطالبہ کرتی ہے اور دنیا کے حالات کی رفتار متقاضی ہے کہ ایسا لیڈر پیدا ہو۔ خواہ اس دور میں پیدا ہو یا زمانے کی ہزاروں گردشوں کے بعد پیدا ہو۔ اس کا نام الامام المہدی ہوگا جس کے بارے میں صاف پیش گوئیاں نبی علیہ الصلوٰة و السلام کے کلام میں موجود ہیں۔

    آج کل لوگ نادانی کی وجہ سے اس نام کو سن کر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ ان کو شکایت ہے کہ کسی آنے والے مرد کامل کے انتظار میں جاہل مسلمانوں کے قوائے عمل کو سرد کر دیا ہے۔

    اس لئے ان کی رائے یہ ہے کہ جس حقیقت کا غلط مفہوم کر کے جاہل لوگ بے عمل ہو جائیں وہ سرے سے حقیقت ہی نہ ہونا چاہیے نیز وہ کہتے ہیں کہ تمام مذہبی قوموں میں کسی ”مرد از غیب“ کی آمد کا عقیدہ پایا جاتا ہے لہٰذا یہ محض ایک وہم ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ خاتم النبین صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی طرح پچھلے انبیا نے بھی اگر اپنی اپنی قوموں کو یہ خوش خبری دی ہو کہ بنی نوع انسان کی دنیاوی زندگی ختم ہونے سے پہلے ایک دفعہ اسلام ساری دنیا کا دین بنے گا اور انسان کے بنائے ہوئے سارے ازموں کی ناکامی کے بعد آخرکار تباہیوں کا مارا ہوا انسان اس ”ازم“ کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہو گا جسے خدا نے بنایا ہے اور یہ نعمت انسان کو ایک ایسے عظیم الشان لیڈر کی بدولت نصیب ہو گی جو انبیاء کے طریقہ پر کام کر کے اسلام کو اس کی صحیح صورت میں پوری طرح نافذ کر دے گا۔ تو آخر اس میں وہم کی کون سی بات ہے بہت ممکن ہے کہ انبیاء کے کلام سے نکل کر یہ چیز دنیا کی دوسری قوموں میں بھی پھیلی ہو اور جہالت نے اس کی روح نکال کر اوہام کے لبادے اس کے گرد لپیٹ دئیے ہوں۔“

    ۲۔ مولانا محمد اشرف علی تھانوی

    کتاب: بہشتی زیور (جلد اول)

    ناشر: تاج کمپنی لمیٹڈ۔ کراچی۔ لاہور۔ راولپنڈی
     
  4. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    اس کتاب کے صفحہ نمبر ۳۳ پر مضمون”عقیدوں کا بیان“ میں مولانا محمد اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں کہ:۔

    ”الله، رسول نے جتنی نشانیاں قیامت کی بتائی ہیں سب ضرور ہونے والی ہیں۔ امام مہدی ظاہر ہوں گے اور خوب انصاف سے بادشاہی کریں گے۔ کانا دجال نکلے گا اور دنیا میں بہت فساد مچائے گا اس کے مار ڈالنے کے لئے حضرت عیسیٰں آسمان پر سے اتریں گے اور اس کو مار ڈالیں گے“

    ۳۔ مولوی محمد نجم الغنی خان رامپوری

    کتاب: مذاہب اسلام

    ناشر: رضا پبلی کیشنز لاہور

    مین بازار، داتا گنج بخش، لاہور

    مولوی محمد نجم الغنی خان صفحہ نمبر ۶۹۱ پر مہدویت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے افراد کے ناموں اور تفصیلی ذکر کے آخر میں لکھتے ہیں کہ:

    ”کافہ اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آخر زمانے میں ضرور ایک شخص اہل بیت نبوت سے ظاہر ہو گا جو دین کی تائید کرے گا۔ عدل ظاہر فرمائے گا۔ مسلمان اس کے تابع ہو جائیں گے اس کو ممالک اسلامیہ پر غلبہ حاصل ہو گا۔ اس کو مہدیں کہیں گے۔ حضرت عیسیٰں آپ کے سامنے نزول فرمائیں گے۔ دجال وغیرہ علامات قیامت کا ظہور اسی زمانے میں ہو گا اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ یہ مہدی ابھی تک پیدا نہیں ہوئے مکہ میں ظہور فرمائیں گے۔“

    ۴۔ آیت الله سید محمد باقر شہید

    کتاب: انتظارِ امامں

    ناشر: جامعہ تعلیمات اسلامی پاکستان

    پوسٹ بکس نمبر ۵۴۲۵ کراچی نمبر ۲

    آیت الله محمد باقر الصدر صفحہ نمبر ۱۰ پر لکھتے ہیں:

    ایک متوقع مصلح اور انسانیت کے نجات دہندہ کا عقیدہ فقظ اہل تشیع سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے تمام فرقوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام بڑے مذاہب مثلاََ عیسائیت، یہودیت، بدھ مت اور زرتشی مذہب بھی اس عقیدے کے حامل ہیں۔

    امام مہدی کے متعلق حقیقت کی تلاش کے بارے میں مختلف فرقوں، قوموں اور ملکوں میں کوئی فرق نہیں۔ جس طرح امام مہدی خود آفاقی ہیں اس طرح ان کے بارے میں تلاش بھی آفاقی ہے۔ وہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ ان تنگناوٴں سے بلند تر کھڑے ہیں۔ جن میں انسانیت بٹی ہوئی ہے۔ وہ ہر ایک کے ہیں۔ آپ کے ظہور سے فقط ایک اسلامی آرزو ہی پوری نہیں ہو گی بلکہ تمام عالم انسانیت کی امید بھی بر آئے گی۔

    ۵۔ مجدد الف ثانی شیخ احمد سر ہندی

    کتاب: مکتوبات امام ربانی

    جلد چہارم، پنجم،

    ناشر:۱۷۴ انار کلی لاہور پاکستان

    یہ کتاب مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات (خطوط) پر مشتمل ہے اور فارسی زبان میں ہے ان مکتوبات پر حاشیہ مولانا نور احمد صاحب امرتسری نے فارسی میں لکھا ہے۔ اس میں مکتوب نمبر ۲۵۵ جو کہ صفحہ نمبر ۷۶ پر ہے اور محمد طاہر لاہوری کو سنت رسول کی تجدید و احیائے سنت اور بدعتوں کو ختم کرنے کے حوالے سے لکھا گیاہے اس میں لکھتے ہیں:

    ”کہ جب بارہویں امام حضرت مہدی ں کا دور حکومت ہو گا تو وہ دین کی ترویج اور احیائے سنت فرمائیں گے تو مدینہ کا عالم جو کہ بدعتوں میں گرفتار ہو گا ان بدعتوں کو اچھا اور دین کا حصہ قرار دیتا ہو گا وہ امام مہدی کے بارے میں کہے گا یہ کون مرد ہے۔ہمارے دین و ملت کو ختم کر رہا ہے اس وقت امام مہدی اس کے قتل کا حکم دیں گے۔“

    ۶۔ مولانا انور شاہ محدث کشمیری

    (سابق صدر مدرس دار العلوم دیو بند)

    کتاب: علامات قیامت اور نزول مسیح

    انتخاب حدیث: حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری

    (سابق صدر مدرس دار العلوم دیو بند)

    ترتیب و ترجمہ و تشریح: مولانا محمد رفیع صاحب عثمانی

    (استاد دار العلوم کراچی نمبر ۱۴)

    ملنے کے پتے: (۱) مکتبہ دار العلوم کراچی نمبر ۱۴

    (۲) ادارہ اسلامیات نمبر ۱۹۰ انار کلی لاہور
     
  5. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ویسے تو صحاح ستہ اور دوسری بہت سی کتابوں میں نزول مسیح اور ظہور مہدی کے متعلق احادیث موجود ہیں لیکن ہم مندرجہ بالا کتاب میں بیان کی گئی صرف وہ احادیث پیش کریں گے جو کہ اہل سنت کے علمائے حدیث کے نزدیک صحیح، متواتر اور مستند ہیں۔

    مندرجہ بالا کتاب جو کہ ۱۱۶ احادیث پرمشتمل ہے جن میں سے ایک سو نو (۱۰۹) احادیث شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی تحقیق کے مطابق صحیح اور متواتر ہیں۔ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کے بارے میں مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع اسی کتاب میں صفحہ نمبر ۶ سطر نمبر ۴ پر لکھتے ہیں:

    ”ملک شام حلب کے عالم شیخ عبد الفتاح ابو غدہ جو علامہ زاہد کو ثری مصری کے خاص شاگرد ہیں اور علوم قرآن و حدیث میں حق تعالیٰ نے ان کو خاص مہارت عطا فرمائی ہے۔“

    اس کتاب میں علامات قیامت کی فہرست کچھ اس طرح سے دی گئی ہے کہ علامات قیامت کی احادیث بیان کر کے اس کے سامنے احادیث کی ان کتابوں کے نام دئیے گئے ہیں کہ جن کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے۔ جیسے صفحہ نمبر ۱۴۲ اور حدیث نمبر۳

    صفحہ نمبر ۱۴۲

    حدیث

    کتابوں کاحوالہ

    ۱: (نزول عیسیٰ تک) اس امت میں ایک جماعت حق کے لئے برسر پیکار رہے گی۔

    مسلم۔ کنز العمال۔ ابن عساکر۰ سیرت مصطفائی۔ سیوطی۔ سنن ابی عمرو الدانی۔ ابو یعلی موصلی وغیرہ

    ۲: جو اپنے مخالفین کی پرواہ نہ کریں گی۔

    کنز العمال ابن عساکر وغیرہ

    ۳: اس جماعت کے آخری امیر امام مہدی ہوں گے۔

    مسلم۔ الحاوی ابو عمرو الدانی۔ ابو یعلی۔ ابو نعیم وغیرہ

    ۴: جو نیک سیرت ہوں گے۔

    ابن ماجہ، الحاوی، ابو نعیم وغیرہ

    ۵: اور آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہوں گے۔

    ابو نعیم۔ کنز العمال۔ الحاوی۔ ابو عمرو الدانی۔

    ۶: اور انہی کے زمانے میں حضرت عیسیٰں کا نزول ہو گا۔

    بخاری و مسلم مع حاشیہ۔ ابن ماجہ۔ احمد۔ کنز العمال۔ ابو نعیم۔ ابن حیان۔صفحہ نمبر ۱۷۵

    مقام نزول وقت اور امام مہدی

    ۷: حضرت عیسیٰ کا نزول دمشق کی مشرقی سمت میں سفید منارے کے پاس یا بیت المقدس میں امام مہدی کے پاس ہو گا۔

    ابن عساکر ابو عمرو الدافی۔ الحاوی۔ نعیم بن حماد وغیرہ

    ۸: اس وقت امام مہدی نماز فجر پڑھانے کے لئے آگے بڑھ چکے ہوں گے۔

    ابن ماجہ۔ الحاوی :۔ ابو عمرو الدافی۔ ابو نعیم وغیرہ

    ۹: اور نماز کی اقامت ہو چکی ہو گی۔

    مسلم۔ ابن ماجہ۔ الحاوی۔ ابو نعیم وغیرہ۔
     
  6. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    10: امام (مہدی) حضرت عیسیٰ کو امامت کے لئے بلائیں گے مگر وہ انکار کریں گے۔

    مسلم۔ احمد۔ ابن ماجہ۔ الحاوی۔ اخبار المہدی۔ سنن ابی عمرو الدانی۔ ابو لعلکی۔ حاکم وغیرہ

    ۱۱: اور فرمائیں گے (یہ اس امت کا اعزاز ہے کہ اس کے بعض لوگ بعض کے امیر ہیں۔

    مسلم۔ احمد۔ الحاوی۔ ابو نعیمہ۔ ابو عمر الدانی۔ ابو یعلی وغیرہ

    ۷۔ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ

    کینیا (افریقہ) سے ابو محمد نامی ایک شخص نے مہدی منتظر کے بارے میں مکہ کے بہت ہی بااثر مذہبی مرکز رابطہ اسلامی سے دریافت کیا۔

    ۱۔ کیا حضرت مہدی موعود منتظر کا وجود ہے؟

    ۲۔ ان کے خروج کا زمانہ کب ہے؟

    ۳۔ وہ کہاں سے ظاہر ہوں گے؟

    اس ادارہ کے جنرل سیکرٹری محمد صالح القزاز نے اس کے جواب میں اس بات کی تصریح کرتے ہوئے کہ وہابی مذہب کے موٴسس ابن تیمیہ نے بھی ظہور مہدی کے متعلق احادیث کو تسلیم کیا ہے ایک مختصر سا کتابچہ جس کو مکہ کے پانچ معاصر جید علماء نے اس سلسلہ میں تحریر کیا تھا ابو محمد صاحب کے پاس روانہ کر دیا۔ ہم اس جواب کا خلاصہ اردو میں پیش کرتے ہیں۔

    شیخ محمد منتصر کتانی اور ان کے ساتھی لکھتے ہیں:

    وہ محمد پسر عبد الله حسن علوی فاطمی ہیں۔ وہ مہدی موعود ہیں جن کے سب منتظر ہیں۔ ان کے خروج کا زمانہ آخرا لزمان ہے۔ و ہ قیامت کبریٰ کی ایک علامت ہیں۔ وہ مکہ کے مغرب سے خروج کریں گے ان سے لوگ رکن اور مقام کے بیچ میں بیعت کریں گے۔ وہ ا س وقت ظاہر ہوں گے جب دنیا کو فساد، کفر ، اور ظلم نے گھیر لیا ہو گا وہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح سے کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔ وہ کرہ زمین پر سات سال حکومت کریں گے ان کے بعد حضرت عیسیٰں نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔

    پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے آخری بارہویں خلیفہ ہیں جن کے وجود کی پیغمبر صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے کتب صحاح میں روایت صحیحہ میں خبر دی ہے۔ بیشتر صحابہامام مہدی نے پیغمبر صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے حضرت مہدیں کی احادیث نقل کی ہیں۔

    یہاں پر شیخ محمد منتصر کتانی نے پیغمبر صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے صحابہامام مہدی کی ایک جمعیت کا نام لکھا ہے اور احادیث کی صحت بیان کی ہے اس کے بعد حضرت مہدیں کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کا نام لکھا ہے۔

    آخر میں لکھتے ہیں: حضرت مہدی ں کے خروج پر اعتقاد واجب ہے اور یہ اہل سنت و الجماعت کے عقائد سے ہے۔ اس کا منکر سنت سے جاہل ہے اور عقیدے میں بدعت گزار ہونے کے علاوہ کچھ نہیں۔“

    (مدیر ادارہ مجتمع فقہی اسلامی، محمد المنتصر الکتانی)
     
  7. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    عالمی نظام عدل و انصاف ایک حقیقت یا خواب
    کیا دنیا ظلم و جور سے پُر نہیں ہوئی؟
    کیا دنیا ظلم و جور سے پُر نہیں ہوئی؟

    جیسا کہ ہم نے اپنی گذشتہ گفتگو میں کہا ہے کہ نظریاتی اختلاف یا ٹکراو کی بنا پر ہونے والا ظلم و جور ہی حقیقتاً انقلاب کی علامت ہوتا ہے۔ اس لئے حق و انصاف کا نظریہ لے کر جب کوئی جماعت یا گروہ تمام دنیا سے ظلم و جور کے خاتمہ کے لئے اٹھے گا تو دنیا کے ظالم اور متکبر افراد اس کو ختم کرنے کے لئے اس پر ظلم جور کی انتہا کر دیں گے اور اس طرح سے دنیا ظلم جور سے بھر جائے گی۔

    لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت بھی دنیا میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تحریکیں، مذہبی، سیاسی اور سماجی جماعتیں ہیں جو کہ حریت و آزادی کے لئے قربانیاں دے رہی ہیں۔ عدل و انصاف، انسانی مساوات اور حقوق بشر کا دفاع کرنے کا عزم و ارادہ رکھتی ہیں اور اس مقصد کے لیے تکلیفیں اور مصیبتیں بھی برداشت کر رہی ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی حالت بھی اس وقت یہ ہے کہ چند ممالک کے چند خاندان اور ان خاندانوں کے بھی کچھ مادیت پسند افراد ہیں جو دنیا پر چھائے ہوئے ہیں اور کروڑوں انسان ہیں کہ جو ظلم و جور کی چکی میں پس رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں اور جو محروم و مجبور افراد اپنی انسانی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں اس جرم کی سزا میں نہایت بے دردی سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کے گھروں کو جلایا جاتا ہے۔ خواتین کی عصمتیں پامال کی جاتی ہیں ایسا ایسا ظلم کیا جاتا ہے کہ انسان کا دل صرف داستان ستم سن کر ہی کانپ جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے ہیں۔ طرح طرح سے ظلم کرنے کے طریقے ایجاد کئے جاتے ہیں۔

    تو پھر دنیا کے ظلم و جور سے پر ہونے میں ابھی کون سی کمی یا کسر باقی ہے؟

    مندرجہ بالا صورتحال کے پیش نظر یقینا ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے ظلم و جور سے پر ہونے میں ابھی کون سی کمی یا کسر باقی ہے کہ جو ظہور امام مہدی میں تاخیر کا سبب بن رہی ہے۔ ہم اپنی کوتاہ فکری اور کم علمی کے ساتھ اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کے ظلم و جور سے بھری ہوئی نظر آنے کے باوجود ظہور امام مہدی میں تاخیر ہونے کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟

    الله تعالیٰ کی عدالت اور انصاف کے پیش نظر اگر ہم یہ کہیں تو کوئی اس پر اعتراض یا کلام نہیں کر سکتا کہ دنیا میں جس کو جتنا علم و عقل،سمجھ بوجھ، مال و دولت اختیارات و وسائل اور جتنے زندگی کے لمحات حاصل یا میسر ہوں گے اور وہ ان کا جس طرح اور جس انداز میں استعمال کرے گا بروز قیامت اس سے اس کے مطابق ہی حساب کتاب ہو گا اور وہ سزا و جزا کا مستحق ٹھرایا جائے گا۔

    مثال نمبر ۱ :

    مثال کے طور پر ایک شخص اپنے تمامتر وسائل و اختیارات کے مطابق اپنی حلال کمائی میں سے ایک لاکھ روپیہ خوشنودی الہٰی کے لئے خرچ کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں دوسرا شخص ہے جو اپنے تمامتر وسائل و اختیارات کو استعمال کرنے کے باوجود اپنی حلال کمائی میں سے رضائے الہٰی کے لئے صرف ایک روپیہ خرچ کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ تمام خرچ کر دیتا ہے۔

    الله تعالیٰ کے عدل و انصاف کے پیش نظر ایک روپیہ خرچ کرنے والے اور ایک لاکھ روپیہ خرچ کرنے والے کا رتبہ و مرتبہ الله تعالیٰ کے ہاں برابر ہے کیونکہ دونوں نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے سو فیصدی وسائل کو الله کی راہ میں خرچ کیا ہے۔

    مثال نمبر۲:
     
  8. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    مثال کے طور پر ایک شخص جو کسی ملک کا حکمران ہے اور اس کے زیر اختیار کروڑوں افراد ہیں اور وہ ان کے ساتھ انتہائی نیک سلوک کرتا ہے۔ ان کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کرتا ہے۔ غرض یہ کہ اس کے اچھے سلوک اور انتظام حکومت کی وجہ سے کروڑوں افراد سکھ و چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔

    اور دوسری طرف ایک ایسا شخص کہ جو کسی خاندان کا سربراہ ہے اور اس کے زیر اختیار یا اس کے حسن سلوک کے محتاج صرف ایک یا چند ایک افراد ہیں اور وہ ان کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس سے راضی اور خوش ہیں۔

    ایک یا چند افراد سے نیک سلوک کرنے کے باوجود یہ شخص کروڑوں افراد سے نیک سلوک کرنے والے کے برابر ہے کیونکہ دونوں اپنے اپنے زیر اختیار افراد کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں۔

    گذشتہ دی گئی مثالوں سے تصویر کا صرف ایک ہی رخ واضح ہوتا ہے اس لئے اب ہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں گے۔

    مثال نمبر ۳:

    ایک شخص جس کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے اور وہ تمام کا تمام گناہ اور ناجائز کاموں میں خرچ کر دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں دوسرا شخص جس کے پاس صرف ایک روپیہ ہے اور وہ بھی تمام کا تمام فضول اور بے مقصد معصیت الہٰی میں خرچ کر دیتا ہے۔ تو اس صورت حال میں صرف ایک روپیہ گناہ کے کام میں خرچ کرنے کے باوجود یہ شخص ایک لاکھ روپیہ فضول اور گناہ میں خرچ کرنے والے شخص کے برابر کا مجرم ہے کیونکہ اس نے بھی اپنے تمام تر وسائل کو ضائع و برباد کیا ہے۔

    مثال نمبر۴:

    اسی طرح ایک شخص جو کسی ملک کا حکمران ہے اور وہ اپنے ملک کے لاکھوں افراد پر ظلم و جور کر رہا ہے ان کے حقوق غصب کیے ہوئے ہے اور اس کے مقابلے میں دوسرا شخص ہے جس کے زیر اختیار صرف ایک فرد ہے اور وہ اس ایک فرد کے ساتھ ظلم کرتا ہے اس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے تو اس صورت حال میں ایک شخص کے حقوق غصب کرنے والا شخص لاکھوں افراد پر ظلم کرنے والے شخص کے برابر کا مجرم ہے۔

    نتیجہ

    نتیجہ اس گفتگو کا یہ سامنے آتا ہے کہ الله تعالیٰ صرف یہ نہیں دیکھتا کہ فلاں شخص نے اس کی خوشنودی یا معصیت میں کتنا پیسہ خرچ کیا، کتنی کوششیں کیں، کتنے وسائل و اختیارات اور اوقات کا استعمال کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ الله تعالیٰ کی نظر میں اہمیت اس بات کی بھی ہے کہ کس شخص نے اپنے وسائل وا ختیارات طاقت و قوت کا استعمال، کتنے فیصدی اس کی رضا و خوشنودی کے کاموں کی خاطر کیا اور کتنے فیصدی اس نے اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں اس کی معصیت اور گناہ کے کاموں میں تباہ و برباد کیں۔

    بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے کہ:

    ﴿کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔﴾
     
  9. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ترجمہ: ”تم میں سے ہر شخص صاحب رعیت ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس کی جائے گی۔“

    یعنی اگر ہمارا اختیار صرف کسی ایک فرد پر ہی چلتا ہے اور ہم اس کی حق تلفی کر رہے ہیں تو اس صورت میں ہم بھی ان ہی ظالم حکمرانوں ہی کی طرح ہیں، ان ہی کی صف میں شامل ہیں جو کہ اپنے زیر اختیار افراد پر ظلم و جور کرتے ہیں۔

    ہماری اس گفتگو کا مقصد چونکہ یہ معلوم کرنا ہے کہ دنیا جو کہ ظلم و جور سے بھری نظر آتی ہے۔ تمام دنیا میں مظلوم اور بے بس انسانوں کی آہ و فغان کے باوجود حضرت امام مہدی کے ظہور میں تاخیر کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے دنیا کے ظلم و جور سے بھرنے میں کون سی کسر باقی ہے لیکن پچھلی مثالوں کی روشنی میں دنیا میں موجود ایسے افراد کے کردار و افعال کو اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو دنیا میں اکثریت ایسے افراد کی نظر آئے گی جو کہ اپنے اپنے وسائل و اختیارات کو غلط انداز میں صرف کر رہی ہے۔

    صورت حال یہ ہے کہ:

    لوگ اپنے سے طاقتور اور با اختیار افراد کے ظلم و جور کا شکار ہیں اور اپنے سے کمزور افراد کو اپنے ظلم و جور کا نشانہ بنا رہے ہیں

    اور دنیا میں حق و انصاف کے متعلق باتیں کرنے والی اکثر جماعتوں یا تنظیموں کے متعلق یہ بات انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ بیان کرنی پڑتی ہے کہ ان تنظیموں کے اکثر سربراہ اور ذمہ دار افراد اپنے سے تعلق رکھنے والے مجرم شخص کی مظلوم کے مقابلے میں بے جا حمایت اور مدد کر کے سمجھتے ہیں کہ جیسے انہوں نے بہت بڑی نیکی کی ہے جبکہ انہوں نے حق و انصاف کے مقدس ترین رشتے کو اپنے پاوٴں تلے روندا ہوتا ہے جبکہ

    حق و انصاف کا رشتہ حقیقتاًخدا، رسول اور قرآن سے رشتہ ہے دنیا کے تمام حق پرست اور انسان دوست افراد سے رشتہ ہےاور مجرم کی بے جا حمایت و مدد فرعون و یزید بلکہ تمام گروہ شیاطین و ظالمین کی حمایت و مدد کرنے کے مترادف ہے۔

    اس لئے:

    مجرم کی ہمیشہ مخالفت ہی کرنی چاہیے، چاہے اس سے کوئی بھی رشتہ ہو اور مظلوم کی حمایت، چاہے اس سے کوئی بھی رشتہ نہ ہو۔

    کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور نے ایک مسلمان کی بے جا حمایت کرنے کے خیال کو انتہائی سختی سے رد فرما کر عدل و انصاف کے ساتھ ایک یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا تھا۔ (صفحہ نمبر ۹۸ حیاة الصحابہامام مہدی (اردو) حصہ چہارم، از مولانا محمد یوسف کاندھلوی)

    آفاقی نظام عدل و انصاف کی راہ میں بنیادی رکاوٹ

    اگر نسل، علاقہ، زبان، فرقے،مذہب یا خاندان کی بنیاد پر عصبیت یا تعصب ہمیں کسی کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے سے روکتا ہے تو یہ بات اور یہ حالات آفاقی اور عالمی نظام عدل و انصاف کے قیام میں بہت بڑی اور بنیادی رکاوٹ ہیں۔
     
  10. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور اس بات میں یقینا کوئی شک و شبہ بھی نہیں ہے کہ حق و انصاف کا رشتہ حقیقتاً خدائے قادر و توانا سے رشتہ ہے، رب العالمین سے رشتہ ہے، رحمتہ العالمین حضرت محمد مصطفی سے رشتہ ہے، تمام انبیاء کرام اولیا الله، تمام صلحا اور شہدائے راہ حق سے رشتہ ہے جنہوں نے حق و انصاف کیلئے اپنی زندگیاں، راحت و آسائشیں جان، مال و اولاد قربان کر دی۔

    اس لئے اگر کوئی شخص خاندان، نسل، علاقہ اور زبان، وغیرہ کی بنیاد پر کسی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے، انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کا مطلب ظاہر ہے کہ وہ:

    ترجیح دیتا ہے اپنی نسل، علاقے، زبان، خاندان، فرقے، مذہب کو خدا، رسول اور قرآن پر۔

    اس لئے جب تک دنیا کے کونے کونے میں ہر جگہ اور ہر شعبے میں اصول پرست، انصاف پسند، نہ بکنے والے، نہ باطل قوتوں اور شہوانی خواہشات کے آگے جھکنے والے افراد کثرت سے نہیں ہوں گے جن کی نظر میں حق و انصاف کا رشتہ دنیا کے تمام رشتوں، نسبتوں اور تعلقوں سے زیادہ محترم، مقدس، مضبوط و مستحکم ہوگا اس وقت تک تمام دنیا میں نظام عدل و انصاف کے متعلق سوچنا بھی مضحکہ خیز بات ہے۔ تعصب و عصبیت کے بارے میں ایک حدیث مبارکہ ہے۔

    بحار الانوار، جلد ۸۳، صفحہ نمبر ۲۸۹ روایت ۸، باب ۱۳۳

    ﴿عن الصادق قال قال النبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم من کان فی قلبہ مثقال حبة من خر دل من عصبیة بعثہ اللّٰہ یوم القیامة مع اعراب الجاہلیة﴾

    ترجمہ: ”حضرت امام جعفر صادقں سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے دل میں رائی برابر عصبیت (یا تعصب) ہو الله تعالیٰ روز قیامت اسے زمانہ جاہلیت کے بدوں (عربوں) کے ساتھ محشور فرمائے گا۔“

    جیسے عوام ویسے حکمران

    جیسا کہ عام طور پر یہ بات مشہور ہے اور عقلی اور تاریخی طور پر ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ چند ایک احادیث مبارکہ سے بھی اس بات کے صحیح ہونے کی تائید ہوتی ہے کہ:

    ”جیسے لوگ ہوتے ہیں ان پر ویسے ہی حکمران مسلط ہو جاتے ہیں۔“

    یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ اگر کسی معاشرے میں برائیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے افراد نہ رہیں یا نہ ہونے کے برابر ہوں اور برے و برائیوں میں مبتلا افراد کثرت سے ہوں تو ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ معاشرے کے برے افراد ہی میں سے چند برے افراد حکومت اور اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں یعنی جیسے عوام اور ویسے ان ہی میں سے ان جیسے حکمران۔

    کتاب : وسائل الشیعہ۔ ج۱۱، ص۳۹۴

    تالیف: علامہ شیخ محمد بن الحسن الحر العاملی

    ناشر: دار احیاء الترات العربی بیروت
     
  11. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ﴿محمد بن عرفة قال سمعت ابا الحسن الرضا یقول لتأمرن بالمعروف و لتنہون عن المنکر او لیستعملن علیکم شرارکم فیدعو خیارکم فلا یستجاب لہم﴾۔

    ترجمہ: ”محمد بن عرفہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو الحسن الرضا علیہ السلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری ضرور بالضرور انجام دو وگرنہ تمہارے معاشرے کے بدترین افراد تم پر مسلط ہو جائیں گے اور پھر تمہارے نیک لوگ دعائیں بھی مانگیں گے تو یہ قبول نہ ہوں گی۔“

    سنن ترمذی، مترجم اردو

    مترجم اردو۔ جلد اول۔ ابواب الفتن۔ ص ۷۸۰

    مترجم: علامہ بدیع الزمان بن مولانا مسیح الزمان

    تاریخ اشاعت: اپریل ۱۹۸۸ء

    ناشر: ضیاء احسان پبلشرز

    ملنے کا پتہ: نعمانی کتب خانہ، حق اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور

    باب ما جاء فی الامر بالمعروف و النہی عن المنکر

    ﴿عن حذیفة بن الیمان عن النبی قال والذی نفسی بیدہ لتأمرن بالمعروف و لتہون عن المنکر او لیوشکن اللّٰہ ان یبعث علیکم عذابا منہ فتدعونہ فلا یستجیب لکم۔﴾

    ترجمہ: حضرت حذیفہ مام مہدی سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: قسم ہے اس پروردگار کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے امر کرو ساتھ اچھی بات کے اور منع کرتے رہو بری بات سے ورنہ قریب ہے کہ الله تعالیٰ بھیجے گا تم پر عذاب بہت بڑا اپنی درگاہ سے، پھر تم اس سے دعا کرو گے اور وہ قبول نہ کرے گا تمہاری دعا کو۔“

    مندرجہ بالا احادیث اور تاریخی شواہد و عقلی دلائل کی روشنی میں ہم اپنی اس گفتگو کو تقویت دینے اور صحیح ثابت کرنے کے لئے دو دلیلیں قائم کر سکتے ہیں۔

    دلیل نمبر۱

    جیسا کہ ہم نے اپنی گزشتہ مثالوں سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اپنے زیر اختیار افراد پر ظلم و جور کرنے والا اور بے تحاشا مال و دولت کو فضول معصیت الہٰی میں ضائع و برباد کرنے والا حکمران اور وہ ایک شخص جس کے پاس بہت ہی قلیل مقدار میں مال و دولت ہے اور اس کے زیر اختیار صرف کوئی ایک یا چند ایک افراد ہیں اور وہ اپنی اس قلیل ترین تمام دولت کو گناہ کے کام میں صرف کرتا ہے اور اپنے سے کمزور صرف ایک شخص کی حق تلفی کر رہا ہے وہ بھی اس حکمران ہی کی طرح مجرم ہے کیونکہ جیسے عوام ہوتے ہیں ان پر ویسے ہی حکمران مسلط ہو جاتے ہیں۔ یعنی اگر اس وقت بھی دنیا میں ظالم، سفاک اور برے افراد مسلط ہیں تو ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس وقت بھی دنیا میں اکثریت ظالموں ہی کی ہے فرق صرف دائرہ اختیار کا ہے تقریباً ہر شخص اپنے وسائل و اختیارات اور دائرہ کار کے مطابق ایک سے بڑھ کر ایک ظالم ہے۔

    دلیل نمبر۲

    دوسری دلیل جو ہم اپنی گفتگو کو صحیح ثابت کرنے کے لئے پیش کریں گے وہ یہ ہے چونکہ ہم نے یہ کہا ہے یا ہمارا نظریہ یہ ہے کہ تمام دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے ضروری اور لازمی ہے کہ اس دنیا میں ہر جگہ اور ہر شعبے میں حق و انصاف کے متوالے موجود ہونے چاہیں جو اپنے قول و فعل سے یہ بات ثابت کر سکتے ہوں کہ واقعی اور حقیقتاً وہ حق و انصاف کے خواہاں ہیں۔ گزشتہ بیان کردہ حدیث جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرنے کا ایک نتیجہ برے حکمران کا مسلط ہو جانا ہے اس کی روشنی میں یہ اصول سامنے آتا ہے کہ کسی علاقے یا ملک پر ویسا ہی فرد حکمران بنتا ہے جیسے کہ اس علاقے کے لوگ ہوتے ہیں۔

    اس لئے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تمام دنیا میں نظام عدل و انصاف کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ تمام دنیا میں ہر جگہ ایک کافی معقول تعداد عدل و انصاف کے اصولوں سے آشنا اور ان پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کو اچھے کاموں کا حکم کرنے اور برے کاموں سے روکنے والے افراد کی ہونی چاہیے تا کہ ہمارے درمیان برے حکمرانوں کی بجائے کوئی عادل اور منصف حکمران آئے۔ (انشاء الله تعالیٰ
     
  12. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    عالمی نظام عدل و انصاف ایک حقیقت یا خواب
    ظہورِ امام مہدی کے وقت دنیا کے ظلم و جور
    ظہورِ امام مہدی کے وقت دنیا کے ظلم و جور سے بھرنے کی عمومی تشریح اور اس کے رد کرنے کی وجوہات



    ہم تھوڑی دیر کے لیے فرض کرتے ہیں کہ جس وقت امام مہدی ظہور فرمائیں گے اس وقت دنیا میں ظالم، مغرور، متکبر، حریص، لالچی، برے اور بدکردار افراد کی اکثریت ہوگی اور لوگوں کے دل حسد، خیانت، منافقت، غیبت، علاقائی، نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات، جھوٹ، دھوکا، سستی، بے حسی اور جہالت جیسی برائیوں سے بھرے ہوں گے۔

    جبکہ یہ تمام برائیاں ہی نظام عدل و انصاف کے قیام میں رکاوٹ ہیں۔

    اس لیے سوچنے کی بات ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ دنیا کی اکثریت ان تمام برائیوں میں مبتلا ہو اور نظام عدل و انصاف قائم ہو جائے۔

    سفاک، ظالم اور خود سر افراد موجود ہوں اور نظام عدل اور امن و امان قائم ہو جائے لوگوں کے دل حرص و لالچ سے بھرے ہوں اور دولت کی مساویانہ تقسیم ہو جائے۔

    لوگوں کے دلوں میں حسد و خیانت جیسی گندگیاں موجود ہوں اور دنیا میں نظام محبت و اخوت قائم ہو جائے۔

    آخر یہ کیوں کر ممکن ہوگا۔

    کہ فساد و خونریزیاں امن و امان میں بدل جائیں گی۔ تنگ دستی، بھوک و افلاس خوشحالی و شادمانی میں بدل جائے گی۔

    جہالت کی تاریکیاں علم و عمل کے سورج میں گم ہو جائیں گی۔ غرور و تکبر کی بجائے عاجزی و انکساری اور مساوات ہوگی۔

    جبکہ یہ تمام برائیاں اپنے عروج پر ہوں گی تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوگ امام مہدی کی کسی غیر معمولی قوت یا معجزے سے متأثر ہوکر یا خوفزدہ ہوکر متقی و پرہیزگار بن جائیں گے۔

    جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جبراً لوگوں کی ذہنیت اور افکار کو بدل دینا سنت الٰہی اور آیات قرآنی کے خلاف ہے کیونکہ الله تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے لوگوں کو صرف نصیحت فرمائی ہے۔ اچھائی اور برائی دونوں راستوں کے انجام نیک و بد سے آگاہ فرما کر نیکی کا راستہ اپنانے کی ترغیب دلائی ہے اور برائی کے انجام سے ڈرایا ہے۔ ہر شخص آزاد ہے وہ جونسا چاہے راستہ اختیار کرے۔

    قرآن مجید فرقان حمید جو کہ تا قیام قیامت تک کے لئے ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ ہے اس کی آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ الله تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام اور ان کے جانشینوں کا فرض صرف یہ مقرر فرمایا ہے کہ وہ الله کا پیغام اس کے بندوں تک احسن طریقے سے پہنچا دیں۔

    جیسا کہ سورہٴ نحل، آیت نمبر ۹ میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

    ﴿وَ عَلَی اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْھَا جَآئِرٌ وَ لَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾

    ترجمہ: ”اور (خشک و تر) میں سیدھی راہ (کی ہدایت) تو خدا ہی کے ذمہ ہے اور بعض رستے ٹیڑھے ہوتے ہیں اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا۔“

    یعنی خدا کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگوں کی زبردستی ہدایت کی جائے اگر ایسا نہ ہوتا تو سب ہی ہدایت پا جاتے۔
     
  13. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    سورہ بقرہ، آیت ۲۵۶ :

    ﴿لآٰ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ﴾

    ترجمہ: ”دین میں کسی طرح کی زبردستی نہیں کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی ہے۔“

    سورہٴ آل عمران، آیت ۲۰:

    ﴿فَاِنْ حَآجُّوْکَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ لِلّٰہِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّنَ ءَ اَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ﴾

    ترجمہ: ”(اے رسول) پس اگر یہ لوگ تم سے (خواہ مخواہ) حجت کریں تو کہہ دو میں نے خدا کے آگے سر تسلیم خم کر دیاہے اور جو میرے تابع ہیں (انہوں نے بھی) اور (اے رسول) تم اہل کتاب اورجاہلوں سے پوچھو کہ کیاتم بھی اسلام لائے ہو (یا نہیں) پس اگر اسلام لائے ہیں تو بے کھٹکے راہ راست پر آگئے اور اگر منہ پھیریں تو (اے رسول) تم پر صرف پیغام اسلام پہنچا دینا فرض ہے (بس) اور خدا اپنے بندوں کو دیکھ رہاہے۔“

    سورہٴ تغابن، آیت نمبر ۱۲

    ﴿وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ﴾

    ترجمہ: ”خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر تم نے منہ پھیرا تو ہمارے رسول پر صرف پیغام کا واضح کر کے پہنچا دینافرض ہے۔“

    دوسرے یہ کہ تاریخ گواہ ہے کہ الله تعالیٰ کے کسی بھی پیغمبر اور اس کے سچے جانشین نے کسی بھی دور میں اپنے نظریات زبردستی مسلط نہیں فرمائے اور نہ ہی الله تعالیٰ کے کسی پیغمبر نے معجزات کے ذریعے کسی کی طبیعت اور کردار کو بدلا ہے بلکہ معجزات کا استعمال عام طور پر الله تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے من جانب الله ہونے یعنی ان کے دعویٰ نبوت کی سچا ئی کو لوگوں پر ثابت کرنے کے لئے فرمایا ہے۔

    کیا سنت الٰہی تبدیل ہو جائے گی؟

    کیا ایسابھی ممکن ہے کہ سنت الٰہی امام مہدی کے وقت تبدیل ہو جائے اور انبیاءِ کرام علیہم السلام کی سنت طریقہ کاراور قرآنی آیات کے برخلاف امام مہدی زور و زبردستی اور معجزانہ طریقے سے کسی خارجی قوت وطاقت کے استعمال سے دنیا میں نظام عدل وانصاف قائم فرما دیں۔

    ہمیں اپنی کم علمی اور کو تاہ نظری کی وجہ سے صرف دو وجوہات ہی ایسی نظرآتی ہیں جن کی بناء پر دنیا سے ظلم وجورکے خاتمہ اور نظام عدل وانصاف اور ایک صالح معاشرے کے قیام کے لئے سنت الٰہی تبدیل ہوسکتی ہو۔

    کیا الله تعا لیٰ یہ چاہتا ہے کہ ایک خاص عرصے تک دنیا میں ظلم و جور ہوتا رہے (نعوذبالله)

    کیاایسا ممکن ہے کہ الله تعالیٰ یہ چاہتا ہو کہ ایک خاص عرصے تک دنیا میں ظلم وجور ہوتا رہے اور جب دنیا ظلم وجور سے بھر جائے۔دنیا میں ظالم، فاسق اور بد کردار افراد کی اکثریت ہوجائے اوروہ ایک دوسرے پرظلم وجور کی انتہا کردیں۔مزید ظلم وستم دیکھنا اسے پسند نہ آہے۔دوسرے لفظوں میں جب اس کا دل یہ تماشا دیکھتے دیکھتے بھر جا ئے گا تو وہ امام مہدی کو غیر معمولی قوت اور معجزات کے ذریعے نظام عدل و انصاف قائم فرمانے کیلئے بھیج دے گا (نعوذ بالله)

    شاید پہلے الله تعالیٰ یہ سمجھتا تھا کہ لو گ نصیحتوں، حکمت اور دانا ئی سے متاثر ہو کر نیک و پرہیزگاربن جا ئیں گے۔ (نعوذبالله)
     
  14. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    سنت الٰہی کے تبدیل ہونے کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پہلے(نعوذ بالله) شاید الله تعالیٰ یہ سمجھتا تھا کہ لوگ اچھی اچھی نصیحتوں اور حکمت و دانائی کی باتوں سے متاثر ہو کر نیک و پرہیزگار بن جائیں گے اور ایک صالح و نیک معاشرہ تشکیل پا جائے گا۔ لیکن جب ہزاروں سال گزرنے اور ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کے جانشینوں اور لاکھوں کی تعداد میں پیروکاروں کی انتھک جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے باوجود تمام دنیا میں عدل و انصاف قائم نہیں ہو سکے گا تو آخر کار الله تعالیٰ اپنا طریقہ کار یا سنت تبدیل فرمائے گا اور امام مہدی کو بزور شمشیر زبردستی بے پناہ طاقت و قوت اور غیر معمولی معجزات کے ذریعے جبراً نظام عدل و انصاف اور قرآنی احکامات نافذ کرنے کا حکم صادر فرمائے گا۔

    مندرجہ بالا دونوں صورتیں شان الٰہی کے قطعاً خلاف ہیں

    لیکن یہ دونوں صورتیں شان الٰہی کے قطعاََ خلاف ہیں کیونکہ ان دونوں صورتوں میں الله تعالیٰ کے رحیم و کریم، حکیم و دانا اور عالم الغیب ہونے کی اعلیٰ ترین صفات پر حرف آتا ہے۔ کیونکہ اگر الله تعالیٰ نے دنیا میں عدل و انصاف جبراََ ہی نافذ کروانا ہوتا تو اس کے لئے اتنے طویل انتظار کی کیا ضرورت تھی جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عام انسان دوست اور رحم دل شخص صرف اور صرف ایک لمحے کے لئے بھی ظلم و ستم ہوتے دیکھنا گوارہ نہیں کرتا۔ چہ جائیکہ خالق عدل و انصاف ہر قسم کی قدرت و طاقت رکھتے ہوئے بغیر کسی قاعدہ، اصول اور مصلحت کے ایک طویل عرصے تک ظلم و جور ہوتے دیکھنا گوارہ کرے۔

    سورہٴ روم آیت نمبر ۴۱ میں ارشاد قدرت ہوتا ہے:

    ﴿ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾

    ترجمہ: ”خشکی پر اور سمندروں میں جو فتنہ و فساد پھیل رہا ہے یہ انسان کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔“

    سورہ یونس، آیت نمبر ۴۴:

    ﴿اِنَّ اللّٰہَ لاٰ یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّلٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾

    ترجمہ: خدا تو ہرگز لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا مگر لوگ خود اپنے اوپر (اپنی کرتوت سے) ظلم کیا کرتے ہیں۔“

    سورہٴ حم سجدہ، سورہ نمبر ۴۱، آیت نمبر۴۶:

    ﴿وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ﴾

    ترجمہ: ”تیرا پروردگار بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔“

    سورہٴ آل عمران، آیت ۲۰ صفحہ نمبر ۸۸ پر یہ آیت بیان کی جا چکی ہے۔

    اور قرآن مجید ہی کی آیت کے مطابق انبیاء کرام علیہم السلام کے مبعوث ہونے کا مقصد ہی نظام عدل و انصاف کا قیام ہے۔

    سورہٴ حدید کی آیت نمبر۲۵ میں ارشاد رب العزت ہے:

    ﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰاتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰابَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾

    ترجمہ: ”ہم نے یقینا اپنے پیغمبروں کو واضح و روشن معجزے دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور (انصاف کی) ترازو نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔
     
  15. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    عالمی نظام عدل و انصاف ایک حقیقت یا خواب
    عقیدہٴ انتظار باعث ِجمود یا باعث تحرک اما م
    عقیدہٴ انتظار باعث ِجمود یا باعث تحرک امام کے متعلق عالم اسلام کے مختلف فرقوں کے جید علمائے کرام کے عقائد پیش کرنے کی وجہ

    حضرت امام مہدی کے متعلق عالم اسلام کے مختلف فرقوں کے جید علمائے کرام کے عقائد بیان کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات موجود ہے کہ ظہور امام مہدی کا عقیدہ شاید تمام مسلمانوں کے مسلمہ عقائد میں شامل نہیں ہے بلکہ کسی ایک یا چند ایک فرقوں کے عقائد میں شامل ہے۔

    شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کے اکثر مذہبی اور سیاسی رہنما اس دنیا سے ظلم وجور کے خاتمے عدل و انصاف کے قیام اور پیغام الٰہی دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے اس غلام اور جانشین کا ذکرنہیں کرتے جو الله تعالیٰ کے حکم سے تمام دنیا میں عدل و انصاف قائم فرما کر عالم انسانیت کو ظالموں کے چنگل سے آزاد فرمائے گا جبکہ یہ عقیدہ نہ صرف یہ کہ تمام مسلمانوں کے مسلمہ عقائد میں شامل ہے بلکہ دنیا کے دوسرے آسمانی مذاہب کے ماننے والے بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ زمانہ آخر میں انسانوں کا نجات دہندہ آئے گا۔

    جیسے یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کے منتظر ہیں۔

    عیسائی حضرت عیسیٰ ں کے منتظر ہیں۔

    ہندو کسی کلکی اوتار کے انتظار میں ہیں۔

    اور زرتشی کسی (sociosh) سو شیوش کے منتظر ہیں۔

    غرض یہ کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب دنیا کے روشن مستقبل سے مایوس نہیں ہے۔ ہمارے خیال اور سمجھ کے مطابق بنیادی طور پر تین وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم نے اس قدر مسلمہ معروف اور ہمہ گیر عقیدے کو یا تو فراموش کیا ہوا ہے یا پھر ہم اس پر گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

    اس عقیدے کوفراموش کرنے کی وجوہات

    ۱۔ عقیدے کی کمزوری
     
  16. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارا قرآن اور رسول پر ایمان کمزور ہے سینکڑون احادیث مبارکہ میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ امام مہدی ظہور فرما کر دنیا کو عدل و انصاف سے پر فرما دیں گے۔

    ۲۔ طاغوتی طاقتوں کے مفادات کے خلاف ہے

    دنیا کے ظالم وجابر افراد جنہوں نے الله کے آزاد بندوں کو اپنے مفادات کی خاطر غلام بنایا ہوا ہے وہ لوگوں کو اس نجات دہندہ کے عقیدے سے جان بوجھ کر بے خبر رکھنا چاہتے ہیں تا کہ دنیا کے مظلوم عوام اور بے بس افراد اپنے روشن اور تابناک مستقبل سے مایوس ہو کر ظلم سے نجات حاصل کرنے کی خواہش اور جدوجہد کو لاحاصل اور فضول سمجھ کر ظلم و بربریت کے سامنے گھٹنے ٹیکے رہیں اور ظلم کے خلاف بغاوت کا خیال تک اپنے دل میں نہ لائیں۔

    ۳۔ اس عقیدے کو جمود کا باعث سمجھا جاتا ہے

    تیسری وجہ جس کی وجہ سے عام طور پر لوگ اس موضوع پر گفتگو کرنے سے احتراز کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس تصور انتظار پر نہ صرف غیر مسلم بلکہ بہت سے مسلمان مفکرین بھی تنقید کرتے ہیں اور اسے معاشرے میں جمود اور بے عملی کا باعث قرار دیتے ہیں اور اس کے علاوہ چند ایک نام نہاد پڑھے لکھے افراد اس عقیدے کو من گھڑت بھی قرار دیتے ہیں۔ اس لئے بھی لوگ اس عقیدے کو موضوع بحث بنانے سے گریز کرتے ہیں۔

    ہم اس تیسری اور آخری وجہ پر ہی تفصیل سے گفتگو کریں گے اس لئے کہ ان کے اس اعتراض یا تنقید کو بے جا بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ واقعاََ یہ عقیدہ بہت سے مسلمانوں میں جمود اور بے عملی کا باعث بن رہا ہے اس لئے یہ بات ہمارے لئے انتہائی باعث تشویش ہے اور ہمیں اس بات پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ عقیدہ جمود و بے عملی کا باعث قرار دیا جا رہا ہے جبکہ یہ عقیدہ عقل کل حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ و آلہ وسلم اور سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام نے خالق علم و حکمت کے حکم سے لوگوں تک پہنچایا ہے اس لئے اس عقیدے کے معاشرے پر انتہائی درجہ مثبت اور تعمیری اثرات مرتب ہونے چاہییں۔


    ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہونے کی وجوہات کیاہیں۔ ہم اس کا صحیح اور حقیقی رخ دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر کیوں ہیں۔

    اس مقصد کے لئے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کسی بھی شخص کا انتظار کرنے کی شرائط کیاہوتیں ہیں یا ہو سکتیں ہیں یا دوسرے الفاظ میں حقیقی منتظرین کے لئے کن کن باتوں کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے۔

    انتظار کرنے کی شرائط

    اصولی طور پر کسی بھی انتظار کرنے والے کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ وہ جس کا انتظار کر رہا ہے اس کی آمد کیا کسی چیز سے مشروط ہے یا غیر مشروط۔ اگر منتظرین کو اس بات کا علم نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں آنے والے کی معرفت حاصل نہیں ہے۔

    کسی بھی آنے والے کی آمد میں مندرجہ ذیل صورتوں میں سے کوئی نہ کوئی صورت ضرور موجود ہو گی۔

    ۱۔ آمد خاص وقت سے مشروط ہونا

    اس صورت میں آنے والے کی آمد کسی خاص وقت کے گزرنے سے مشروط ہوتی ہے یعنی اس صورت میں آنے والے کی آمد کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ جب کوئی خاص مدت یا عرصہ گزر جائے گا تو فلاں شخص آجائے گا۔ مثلاً دو گھنٹے یا دو سال بعد فلاں شخص آجائے گا۔ یہاں آنے والے کی آمد ایک خاص وقت کے گزرنے سے مشروط ہے۔

    ۲۔ خاص حالات سے مشروط ہونا
     
  17. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    اس صورت میں آنے والے کی آمد کے لئے کسی خاص قسم کے حالات و واقعات کا موجود ہونا ضروری ہے جب تک وہ حالات نہیں ہوتے فلاں شخص کے آنے کا قطعاََ کوئی امکان نہیں ہوتا ہے مثلاً یہ کہا جائے کہ جب تک فلاں شہر یا ملک میں امن و امان نہیں ہو گا اس وقت تک فلاں شخص نہیں آئے گا یا کسی آنے والے کی طرف سے یہ شرط ہو کہ جب تک فلاں ملک یا فلاں شہر یا گھر کے لوگ اپنی فلاں عادات کو بدلیں گے نہیں یا ترک نہیں کریں گے۔ اس وقت تک وہ قطعاََ نہیں آئے گا۔ چاہے کتنی ہی مدت گزر جائے یعنی اس صورت میں آنے والے کی آمد قطعی طور پر خاص حالات سے مشروط ہے۔

    ۳۔ آمد غیر مشروط ہونا

    اس صورت میں آنے والے کی آمد حالات اور اوقات کی قید و بند سے بالکل آزاد ہوتی ہے یعنی آنے والے کی آمد کسی بھی قسم کے حالات و واقعات اور کسی بھی وقت میں متوقع ہوتی ہے۔

    دنیا جس کے انتظار میں ہے اس کی آمد کس بات سے مشروط ہے

    اہل اسلام کی تمام تر احادیث کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اگر ہم باقی تمام مذاہب عالم کی بھی تمام کتابیں پڑھ ڈالیں تو نتیجتاً ہم آنے والے کی آمد وقت سے مشروط ہونے کو قطعی طور پر رد کر سکتے ہیں کیونکہ سینکڑوں احادیث میں کسی میں بھی ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ اتنی مدت گزرنے کے بعد اس ہستی کا ظہور ہو جائے گا۔ ذات الٰہی تو ظاہر ہے کہ اس وقت واقف ہی ہے مگر ہمیں بہرحال اس بات کی اطلاع قطعاً نہیں دی گئی کہ اتنی مدت یا اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اس ہستی کا ظہور ہوگا۔

    دوسرا یہ کہ ہم امام مہدیں کے ظہور کو غیر مشروط بھی قرار نہیں دے سکتے کیونکہ امام مہدی کے ظہور کی اطلاع کے ساتھ ساتھ مختلف حالات و واقعات کا بیان اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ ظہور امام مہدی خاص حالات و واقعات سے مشروط ہے۔

    کیونکہ اگر صرف آپں کے ظہو رکی اطلاع دینی مقصود ہوتی تو فقط یہی فرمانا کافی تھا کہ امام مہدی ظہور فرما کر اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور بس۔ کسی قسم کے حالات و واقعات بیان کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔

    حضرت امام مہدیں کے ظہور کو حالات و و اقعات سے مشروط کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے مشیت الٰہی کو حالات و واقعات میں مقید کر دیا ہے بلکہ یہ فیصلہ ہم نے احادیث مبارکہ کے مطالعہ کی روشنی و رہنمائی میں ہی کیا ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ الله تعالیٰ ہی کی مرضی و منشا یہ ہے کہ خاص حالات و واقعات کی موجودگی میں امام مہدیں کا ظہور پر نور ہو گا۔
     
  18. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    کیونکہ ظاہر ہے کہ احادیث مبارکہ کسی نجومی کی پیش گوئیاں نہیں ہے کہ جن میں اندازہ لگایا گیا ہو کہ مثلاً ان حالات میں اور ایسے، اس طرح سے یہ بات ممکن ہے بلکہ یہ اطلاعات ہمیں حضورنے الله تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا کردہ علم اور اسی کے حکم سے ہم تک پہنچائیں جوکہ ظاہر و پوشیدہ کا علم رکھنے والا ہے۔

    اس بات کا فیصلہ کرنے کے بعد کہ ظہور امام مہدی خاص حالات و واقعات سے مشروط ہے ہمیں حقیقی منتظر بننے کی شرائط جاننے کی یا اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے حصول کے لئے یہ دیکھنے کی ضرورت بھی ہے کہ ہم جس کے منتظر ہیں اس کے انتظار کی بنیاد کس بات پر ہے ہمارا یہ انتظار ”انتظار یقین“ ہے یا ”انتظار امید“



    ہم اس لحاظ سے انتظار کی دو قسمیں بیان کر سکتے ہیں۔

    (۱) انتظار یقین

    (۲) انتظار امید

    ۱۔ انتظار یقین

    یعنی ایسا انتظار جو یقین کی بنیاد پر کیا جائے۔ کوئی سمجھدار اور عاقل شخص نہ تو اس وقت تک کسی کا انتظار کرتاہے اور نہ ہی کسی کو انتظار کرنے کی تاکید و نصیحت کرتا ہے جب تک مندرجہ ذیل شرائط نہ پائی جاتی ہوں۔

    (۱) انتظار کرنے والے کو بھرپور انداز میں یہ یقین دلایا گیا ہو کہ آپ انتظار کریں فلاں شخص ضرور آئے گا۔

    (۲) جن کو انتظار کرنے کی تاکید کی جا رہی ہے انہیں تاکید کرنے والے کی ذات پر پورا یقین و اعتماد ہو۔

    ۲۔ انتظار امید

    انتظار امید میں انتظار یقین کے برعکس نہ تو انتظار کرنے والے کو کسی کی طرف سے یہ یقین دلایا گیا ہوتا ہے فلاں شخص ضرور آئے گا اور نہ ہی انتظار کرنے والے کو آنے والے کی آمد کا یقین ہوتا ہے بلکہ کوئی شخص یا گروہ اپنی خواہشات و ضروریات کے تحت حالات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگاتا ہے یا لگا سکتا ہے کہ شاید فلاں شخص آجائے یا فلاں کام ہو جائے۔
     
  19. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    انتظارِ مہدی انتظارِ یقین ہے یا انتظارِ امید؟

    مسلمانوں کو امام مہدی کا یقین دلانے والی ذات والا صفات وہ ہے جس کو دوست اور دشمن سب صادق کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور یقین مسلمانوں کو دلایا گیا ہے اس لئے کسی مسلمان کے لئے اپنے رسول صلی ا لله علیہ و آلہ و سلم کی بات پر یقین نہ کرنے کی وجہ صرف اس کے ایمان کا نقص ہو سکتا ہے اور کوئی وجہ نہیں ہوسکتی اور باقی مذاہب کے ماننے والوں کے ہاں بھی یہ تصور انتظار ان کی مذہبی کتابوں میں موجود ہے۔

    مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انتظار امام مہدی انتظار یقین ہے۔

    مندرجہ ذیل حدیث مبارکہ سے ہمیں اندازہ ہو گا کہ حضرت محمد نے ظہور امام مہدی کا یقین کتنے بھرپور اور زور دار طریقے پر دلایا ہے۔

    ترجمہ: ”آپ نے فرمایا کہ اگر دنیا کا ایک دن بھی رہ جائے گا تو الله تعالیٰ اسی دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ اس میں ایک شخص مجھ سے یا میرے اہل بیت میں سے اس طرح اٹھا دے گا کہ اس کا نام میرا نام اور میرے باپ کا نام اس کے باپ کا نام ہو گا وہ عدل و انصاف سے زمین کو اس طرح بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔“

    دنیاکے حق پرست، بے بس، مظلوم و مجبور انسانوں کو مایوسی اور بے دلی سے بچانے کے لئے ظالم و جابر حکمرانوں سے نجات کے جذبے اور جدوجہد کو پر یقین اور بھرپور انداز میں جاری و ساری رکھنے کے لئے اس سے بہتر الفاظ میں یقین دلانا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس بات کا امکان تھا کہ کچھ منتظرین اور حق و صداقت کے علم بردار دنیا پر ظالم و جابر افراد کی مضبوط گرفت کو دیکھ کر خیال کرتے کہ ان ظالمین کے پنجہ سے عالم انسانیت کو چھڑانا ناممکن ہے یا شاید کبھی دنیا پر ایسا وقت آئے کہ دنیا ایٹمی یا دوسرے انتہائی خطرناک ترین ہتھیاروں کی جنگ یاجنگ کے خطرے کی بناء پر تباہی کے اس قدر قریب پہنچ جائے کہ لوگ یہ محسوس کریں کہ بس اب چند لمحوں میں دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی۔ سارا نظام شمسی درہم برہم ہو جائے گا۔

    ایسی صورت حال میں انسان دوست قوتیں جو کہ دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہی ہوں ممکن تھا کہ مایوس ہو کر اپنی کوششیں ترک کر دیتیں اور حالات کے سامنے سینہ سپر رہنے کی بجائے ہتھیار ڈال دیتیں کہ اب جب کہ یہ دنیا ہی ختم ہونے والی ہے تو اس دنیا میں عدل و انصاف کے لئے کوشش کا کیا فائدہ۔
     
  20. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    لیکن نبی کریمنے دنیا کے مظلوم، بے بس اور حق پرست انسانوں کو بد سے بدترین حالات میں بھی ایک لمحے کے لئے بھی دنیا میں عدل و انصاف کے قیام سے مایوس اور اس کے لئے کوششیں ترک کرنے کو پسند نہیں فرمایا ہے۔

    مستضعفین عالم کو بھرپور انداز میں یقین و حوصلہ دیا ہے کہ ظہور امام مہدیں اور دنیا میں نظام عدل و انصاف کا قیام ایک امر ربی ہے، وعدہ الہٰی ہے جو کہ ضرور بالضرور پورا ہو کر رہے گا۔

    نتیجہ

    گذشتہ گفتگو کی روشنی میں تصور انتظار کو جمود اور بے عملی کا باعث قرار دیئے جانے یا سمجھنے کی دو بڑی اور بنیادی وجوہات ہمارے سامنے آئیں ہیں۔

    ۱۔ پہلی یہ ہے کہ ایک تو اعتراض کرنے والوں نے اور اکثر انتظار کرنے والوں نے اس بات میں کوئی غور و فکر نہیں کیا کہ اس انتظار کی بنیاد کس چیز پر ہے امید پر ہے یا یقین پرہے۔

    ۲۔ دوسرے نہ تو ان اعتراض کرنے والوں کی سمجھ میں یہ بات آئی اور نہ ہی بہت سے انتظار کرنے والوں نے اس بات کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کی کہ آنے والے کی آمد حقیقتاً کچھ خاص قسم کے حالات و واقعات کے رونما ہونے اور خاص قسم کے وسائل و اسباب کے مہیا ہونے سے مشروط ہے۔

    کیونکہ ایسے افراد سستی اور بے عملی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جن کے انتظار کی بنیاد نہ تو یقین پر ہو اور نہ ہی ان کی نظر میں آنے والے کی آمد خاص حالات و وسائل کے پیدا ہونے سے مشروط ہو اور وہ سوچے بیٹھے ہوں کہ نہ تو ہمارے اختیار میں کچھ ہے اور نہ ہی دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے ہماری کوئی ذمہ داری ہے فلاں ہستی ہی آ کر ہمیں پریشانیوں سے نجات دلا سکتی ہے تو ایسے افراد خود کو لاچار ، بے بس اور خود کو نظام عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری سے بری الذمہ تصور کر سکتے ہیں۔

    لیکن وہ افراد جو کسی فرد کا انتظار ایک تو پورے یقین و اعتماد کے ساتھ کر رہے ہوں اور دوسرے ان کی نظر میں آنے والے کی آمد کچھ خاص حالات و واقعات اور وسائل و اسباب کے معرض وجود میں آنے سے یا لے کر آنے سے مشروط ہو توایسے شخص کا اس طرح سے انتظار کرنے والے افراد کے لئے یہ بات ممکن نہیں ہے کہ وہ جمود یا بے عملی کا شکار ہو ں یہ بات انتہائی دکھ اور افسوس کا باعث ہے کہ مسلمانوں میں بہت سے افراد شعوری یا لاشعوری طور پر یہ سوچ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں یا اس انتظار میں ہیں کہ امام مہدیں جلد ظہور فرماکر دنیا کو عدل و انصاف سے پر فرما دیں۔ انہوں نے دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری کلیتاً خدااور امام مہدی پر ہی ڈال دی ہے اسی قسم کے لوگوں کی وجہ سے کچھ لوگوں کو تصور انتظار کو تنقید کانشانہ بنانے کا موقعہ ملا ہے۔

    وہ تصور جو کہ انتہائی درجہ محرک اور انقلابی ہے وہ بہت سے مسلمانوں میں اپنی کم علمی کی وجہ سے جمود کا باعث بن رہا ہے ایسے افراد کو بنی اسرائیل کے ان افراد سے تشبیہ دی جا سکتی ہے کہ جب حضرت موسیٰں نے انہیں ایک قصبے میں داخل ہونے کے لئے کہا جہاں کچھ مسلح کفار قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔
     
  21. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    اس واقعہ کو الله تعالیٰ نے سورہ مائدہ آیت: ۲۴۔۲۱ میں بیان فرمایا ہے:

    ﴿یٰاقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلاٰ تَرْتَدُّوْا عَلٰی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ قَالُوْا یٰا مُوْسٰی اِنَّ فِیْھَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ وَ اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَا حَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْھَا فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْہِمُ الْبَابَ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ قَالُوْا یٰا مُوْسٰی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھَا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلآٰ اِنَّا ھٰہُنَا قَاعِدُوْنَ﴾۔

    ترجمہ: (حضرت موسیٰں نے فرمایا) اے میری قوم (شام کی) اس مقدس زمین میں جاوٴ جہاں خدا نے تمہاری تقدیر میں حکومت لکھ دی ہے اور (دشمن کے مقابلہ میں) پیٹھ نہ کرو (کیونکہ) اس میں تو تم خود الٹا گھاٹا اٹھاو گے وہ لوگ کہنے لگے کہ اے موسیٰ اس ملک میں تو بڑے زبردست (سرکش) لوگ رہتے ہیں اور جب تک وہ لوگ اس میں سے نکل نہ جائیں ہم تو اس میں کبھی پاوٴں بھی نہ رکھیں گے ہاں اگر وہ لوگ خود اس میں سے نکل جائیں تو البتہ ہم ضرور جائیں گے مگر دو آدمی جو خدا کا خوف رکھتے تھے اور جن پر خدا نے اپنا فضل و کرم کیا تھا وہ بے دھڑک بول اٹھے کہ ارے ان پر حملہ کر کے (بیت المقدس) پھاٹک میں داخل ہو جاؤ پھر (دیکھو تو یہ ایسے بودے ہیں کہ) ادھر تم پھاٹک میں داخل ہوئے اور (یہ سب بھاگ کھڑے ہوئے اور) تمہاری جیت ہو گئی اور اگر تم سچے ایماندار ہو تو خدا ہی پر بھروسہ رکھو وہ کہنے لگے اے موسیٰ (چاہے کچھ ہو) جب تک وہ لوگ اس میں ہیں ہم تو ہرگز پاوٴں نہ رکھیں گے ہاں تم جاوٴ اور تمہارا خدا (جائے) اور دونوں جا کے لڑو ہم تو یہیں جمے بیٹھے ہیں“

    اس واقعہ کو بیان کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ دنیا میں نظام عدل و انصاف کا قیام خدا، رسول اور امام کی ذمہ داری ہے اس کا قیام ہماری کوششوں اور جدوجہد کا محتاج نہیں اور نہ ہی ہماری کوشش اور جدوجہد ظہور امام مہدی میں تعجیل کا باعث بن سکتے ہیں تو ایسے لوگوں کی یہ سوچ یقینا ان یہودیوں ہی کی طرح کی پست اور بزدلانہ سوچ ہے کہ جنہوں نے حضرت موسیٰں سے کہا تھا کہ آپ جائیں اور آپ کا خدا جائے ہم تو یہیں بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں جبکہ ہماری سوچ اور ہمت حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے ان باوفا اور جانثار اصحاب رضی الله تعالیٰ عنھم کی طرح ہونی چاہیے کہ جب جنگ بدر کے موقع پر حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کا امتحان لینے کے مقصد سے مشورہ فرمایا تھا کہ آیا دشمنوں کا انتظار کریں یا واپس مدینے پلٹ جائیں تو حضرت مقداد رضی الله تعالیٰ عنہ نے بڑھ کر عرض کیا:

    ”یا رسول الله ہم یہودی نہیں ہیں کہ آپ سے کہہ دیں کہ آپ جانیں اور آپ کاخدا جانے ہماری کوئی ذمہ داری نہیں۔ بلکہ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں جو حکم دیں ہم اسے اپنا فریضہ سمجھیں گے۔ آپ حکم دیں تو سمندر میں کود جائیں اور اگر حکم دیں تو آگ میں چھلانگ لگا دیں۔“
     
  22. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    عالمی نظام عدل و انصاف ایک حقیقت یا خواب
    وقت ظہور کے حالات اور وجوہات
    وقت ظہور کے حالات اور وجوہات انقلاب ظہورامام مہدی کے حالات سے قبل از وقت آگاہ ہونے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

    احادیث کی کتابوں میں حضرت امام مہدی کے قبل از ظہور، بوقت ظہور بعد از ظہور اور تکمیل انقلاب کے بعد کے حالات ارشاد فرمائے گئے ہیں یقینا ہمیں کسی نہ کسی مقصد اور مصلحت کے تحت ان حالات سے قبل از وقت آگاہ فرمایا گیا ہے کیونکہ بلاوجہ اور بے مقصد بات کا بیان کرنا شان ختمی مرتبت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے قطعاً خلاف ہے۔

    اس لئے ہمیں چاہیے کہ ان حالات و واقعات کو اپنے پیش نظر رکھ کر اس بات پر غور و فکر کریں کہ بیان کردہ حالات و واقعات کیسے اور کس طرح آنے والے کی آمد کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں اور ان حالات سے قبل از وقت آگاہی ہمیں بہتر اور صحیح طرز فکر و عمل اپنانے میں کس طرح سے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔

    ہم اس باب میں صرف دو احادیث مبارکہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کریں گے جن میں تکمیل انقلاب کے بعد دنیا کے حالات کے متعلق بتایا گیا ہے تا کہ ہمیں ان تبدیلیوں کی وسعت، اہمیت اور ہمہ گیریت کا تھوڑا سا اندازہ ہو سکے جو امام مہد ی ں کے ظہور کے بعد دنیا میں آنے والے انقلاب کی وجہ سے رونما ہوں گی۔

    یہ احادیث مبارکہ جو ہم تکمیل انقلاب امام مہدی کے بعد کے حالات کے متعلق پیش کر رہے ہیں اس قسم کی احادیث مبارکہ مفتی اعظم محمد شفیع سابق صدر مدرس دار العلوم کراچی نے اپنی کتاب ”علامات قیامت اور نزول مسیح“ میں بھی بیان کی ہیں اور ان کو انہوں نے صحیح اور مستند قرار دیا ہے۔

    ۱۔ انقلاب امن و امان

    سنن ابن ماجہ مترجم جلد سوم

    ترجمہ: علامہ وحید الزمان خان

    تشریح و تصریح: مولانا محمد سلیمان صاحب

    ناشر: خالد گرجا کھی گوجرنوالہ

    ملنے کا پتہ: اہل حدیث اکادمی، کشمیری بازار، لاہور

    صفحہ نمبر ۳۲۳، حدیث نمبر ۹۷۲

    ﴿ترفع الشحناء والتباغض و تنزع حمة کل ذات حمة حتی یدخل الولیدہ یدہ فی الحیة فلا تضرہ و تفر الولیدة الاسد فلا یضرہا و یکون الذئب فی الغنم کانہ کلبہا﴾
     
  23. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ترجمہ: ”اور آپس میں لوگوں سے کینہ اور بغض اٹھ جائے گا (سب ایک دوسرے سے محبت کریں گے) اور ہر ایک زہریلے جانور کا زہر جاتا رہے گا یہاں تک کہ بچہ اپنا ہاتھ سانپ کے منہ میں دے دے گا وہ کچھ نقصان نہ پہنچائے گا اور ایک چھوٹی بچی شیر کو بھگا دے گی وہ اس کو ضرر نہ پہچائے گا اور بھیڑیا بکریوں میں اس طرح رہے گا جیسے کتا ہو جو کہ ان مین رہتا ہے“

    صفحہ نمبر ۳۲۴، حدیث نمبر ۹۷۲:

    ﴿و تملأ الارض من السلم کما یملا الاناء من الماء و تکون الکلمة واحدة فلا یعبد الا اللّٰہ و تضع الحرب او زارہا﴾

    ترجمہ: ”اور زمین صلح سے بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جاتا ہے اور سب لوگوں کا کلمہ ایک ہو جائے گا سوائے خدا کے کسی کی پرستش نہ ہو گی (سب لوگ کلمہ لا الہ الا اللّٰہ پڑھیں گے) اور لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے گی۔ (یعنی لوگ ہتھیار اور آلات جنگ اتار کر رکھ دیں گے مطلب یہ ہے کہ لڑائی دنیا سے ختم ہو جائے گی)“

    یعنی اس حکم الٰہی کی تکمیل ہو چکی ہو گی کہ:

    ترجمہ: ”اور لڑتے رہو یہاں تک کہ فساد باقی نہ رہے اور صرف الله کا دین رہ جائے“ (سورہ بقرہ، آیت: ۱۹۳)

    ۲۔ معاشی انقلاب

    ابن ماجہ جلد سوم

    صفحہ نمبر ۳۳۰، حدیث نمبر ۹۷۸

    ﴿عن ابی سعید الخدری ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال یکون فی امتی المہدی ان قصر فسبع و الا فتسع فتنعم فیہ امتی نعمة لم ینعموا مثلہا قط توٴتی اکلہا و لا تدخر منہم شیئا و المال یومئذکدوس فیقوم الرجل یا مہدی اعطنی فیقول خذ﴾

    ترجمہ: حضرت ابو سعید خدریامام مہدی سے روایت ہے آنحضرت نے فرمایا: میری امت میں مہدی ں پیدا ہوں گے اگر وہ دنیا میں کم رہے تو بھی سات برس تک رہیں گے اور نہیں تو نو برس رہیں گے ان کے زمانے میں میری امت ایسی خوش ہو گی کہ ویسی خوش کبھی نہیں ہوئی ہو گی اور زمین کا یہ حال ہو گا کہ اپنا سارا میوہ اُگا دے گی اور کچھ اٹھا نہ رکھے گی اور مال ان کے زمانے میں ڈھیر لگا ہو گا اور ایک شخص کھڑا ہو گا اور کہے گا اے مہدی مجھ کو کچھ دو وہ کہیں گے لے لے (یعنی جتنا تو چاہے اس ڈھیر میں سے لے لے)۔“

    صفحہ نمبر ۸۳۵:

    ﴿عن ابی ہریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم لقیء الارض افلا ذکبدہا امثال الاسطو من الذہب و الفضة فیجئینی السارق فیقول فی ہذا قطعت یدی و تجیئ القاتل فیقول فی ہذا قتلت و یجیئ القاطع فیقول فی ہذا قطعت رحمی ثم یدعونہ فلا یاخذون منہ شیئا﴾
     
  24. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ترجمہ: قے کر دے گی زمین اپنے جگر گوشوں کو مثل کھمبوں (ستون) کے سونے اور چاندی سے فرمایا آپ نے پھر آئے گا چور اور کہے گا اسی کے لئے میرا ہاتھ کاٹا گیا اور آئے گا قاتل اور کہے گا اسی کے لئے میں نے خون کیا اور آئے گا قاطع رحم اور کہے گا اسی لئے میں قطع رحم کیا پھر چھوڑ دیں گے یہ سب لوگ اور کچھ نہ لیں گے اس میں سے۔“

    صفحہ نمبر ۳۲۵،حدیث نمبر ۹۷۳ (ابن ماجہ، جلد سوم)

    ﴿ و یفضیض المال حتٰی لا یقبلہ احد﴾

    ترجمہ: ”اور مال کو بہائیں گے لوگوں پر (بے شمار دیں گے) یہاں تک کہ کوئی اس کو قبول نہ کرے گا۔“

    صحیح مسلم، جلد نمبر ۶

    مع شرح نووی (مختصر مترجم، صفحہ نمبر۴۴۱)

    مترجم: علامہ وحید الزمان

    ناشر: مشتاق بک کارنر، اردو بازار، لاہور

    ﴿عن ابی سعید و جابر بن عبد اللّٰہ قالا قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یکون فی آخر الزمان خلیفة یقسم المال و لا یعدہ﴾

    ترجمہ: ابو سعیدامام مہدی اور جابر بن عبد اللهامام مہدی سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ”اخیر زمانہ میں ایک خلیفہ ہو گا جو مال کو بانٹے گا اور شمار نہ کرے گا۔“

    صحیح بخاری شریف مترجم اردو

    ناشر: مکتبة رحمانیہ، ۱۸، اردو بازار، لاہور

    باب نمبر ۱۱۲۵، حدیث نمبر ۱۹۹۵ءء

    ﴿حدثنا معبد معت حارثہ بن وہب قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول تصدقوا فسیأتی علی الناس زمان یمشی (الرجل) بصدقتہ فلا یجد من یقبلہا﴾

    ترجمہ: ”معبد نے ہم سے بیان کیا کہ میں نے حارثہ بن وہب سے سنا ہے اس نے کہا ہے کہ میں نے رسول الله سے سنا، آپ نے فرمایا کہ خیرات کرو اس لئے کہ عنقریب ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ (آدمی) صدقہ لے کر پھرے گا لیکن اس کا کوئی قبول کرنے والا نہیں پائے گا“
     
  25. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ۳۔ عالمگیر دینی انقلاب

    سنن ابو داوٴد مترجم اردو

    ناشر: اسلامی اکادمی، ۱۷، اردو بازار، لاہور

    ترجمہ: علامہ وحید الزمان

    صفحہ نمبر ۳۲۶، حدیث نمبر۸۸۳

    ﴿و یعمل فی الناس بسنة نبیہم صلی اللّٰہ علیہ وسلم و یلقی الاسلام بجرانہ الا الارض﴾

    ترجمہ: ”اور جاری کریں گے لوگوں میں ان کے نبی کی سنت کو اور اسلام اپنی گردن زمین میں ڈال دے گا (یعنی تمام زمین کو گھیر لے گا)“

    صفحہ نمبر ۳۴۰، حدیث نمبر ۹۱۹ (سنن ابوداوٴد)

    ﴿و یہلک اللّٰہ فی زمانہ الملل کلہا الا الاسلام﴾

    ترجمہ: ”اور تباہ کر دے گا الله تعالیٰ ان کے زمانے میں سب مذہبوں کو سوا اسلام کے (یعنی ساری دنیا میں دین اسلام ہی رہے گا)۔“

    مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے ہمیں اس انقلاب کی وسعت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کس قدر وسیع ہمہ گیر و ہمہ جہت انقلاب ہو گا جو کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں انتہائی درجہ مثبت اور تعمیری تبدیلیوں کا باعث بن کر انسانی زندگی کو انتہائی درجہ پرسکون، پرامن، اور خوشحال بنا کر خوشیوں اور مسرتوں سے لبریز کر دے گا۔

    امام مہدی کا ظہور کن حالات و واقعات سے مشروط ہے؟

    اب دیکھنا یہ ہے کہ اتنا عظیم اور ہمہ گیر انقلاب کن کن مراحل، مشکلات، جدوجہد، قربانیوں اور حکمت عملیوں سے گزر کر پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے یعنی احادیث مبارکہ میں امام مہدی کے ظہور کے وقت کے جو حالات بیان فرمائے گئے ہیں وہ کیا ہیں یا دوسرے الفاظ میں ظہور امام مہدی جو کہ تمام دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کا ضامن ہے کن حالات و واقعات سے مشروط ہے۔

    ایک مشہور اور متفق علیہ حدیث جو کہ ہم گذشتہ صفحات میں بیان کر چکے ہیں جس میں امام مہدی کے ظہور کے وقت دنیا کے حالات بیان فرمائے گئے ہیں وہ یہ ہے:

    ”وہ (امام مہدی) دنیاکو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسی کہ وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔“

    پچھلے صفحات جن میں ہم نے امام مہدی کے متعلق علمائے کرام کے عقائد بیان کیئے ہیں ان میں مکہ کے مذہبی مرکز رابطہ العالم الاسلامی کے جید علمائے کرام نے امام مہدی کے حوالے سے جو کتابچہ تحریر کیا ہے اس میں انہوں نے یہی حدیث مبارکہ مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کی ہے:

    ”ظہور کے وقت دنیا ظلم و جور سے بھری ہو گی، کفر کا پرچار ہو رہا ہو گا، خدا وند عالم آپ (حضرت مہدی) کے ذریعہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی ہو گی۔“

    قبل اس کے کہ ہم اس بات پر گفتگو کریں کہ دنیا کا ظلم و جور سے بھرنا کیونکر امام مہدی کے ظہور اور دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کا باعث بنے گا۔ پہلے ہم ا س بات پر غور و فکر کریں گے۔ قرآنی آیات اور تاریخی واقعات کی روشنی میں دیکھیں گے کہ اس دنیا میں آنے والے انقلابات کی وجہ کیا ہوتی ہے یعنی فلسفہ انقلاب کیاہے؟ کس محرک اور کس بنیاد پر لوگ انقلاب برپا کرنے کے لئے اٹھتے ہیں اور کن وجوہات،حقائق اور شرائط کی موجودگی یا عدم موجودگی کسی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے یا ناکامی سے دوچار کر نے کا باعث بنتی ہیں اور جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ جب کوئی معاشرہ ظلم و جور سے بھر جاتا ہے تو اس علاقے میں انقلاب آتا ہے اس طرح جب ساری دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی تو تمام دنیا میں انقلاب آ جائے گا کیا یہ نظریہ صحیح ہے
     
  26. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    مندرجہ بالا سوالات پر بحث کرنے کے لئے ہم فلسفہ انقلاب پر گفتگو کریں گے۔



    وجوہات انقلاب

    انقلاب کا لفظی مطلب ہے: تبدیلی، کسی ایک چیز کا اس کی متضاد حالت میں تبدیل ہو جانا انقلاب کہلاتا ہے اور اصطلاحی طو ر پر انقلاب کا جو مطلب سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی علاقے یا ملک میں حکومت یا نظام حکومت کا تبدیل ہو جانا یا پھر لوگوں کے نظریات و افعال کا بدل جانا وغیرہ وغیرہ۔

    دنیا میں آنے والے کسی بھی انقلاب کی وجوہات اور اس کی کامیابی کے اسباب کا جائزہ لینے کے لئے ہم مندرجہ ذیل سوالات پر گفتگو کریں گے۔

    ۱۔ انقلاب کامحرک کیا ہے یعنی کس وجہ اور بناء پر لوگوں کے دلوں میں انقلاب برپا کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے یا وہ انقلاب کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے انقلاب برپا کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

    ۲۔ کسی بھی انقلاب کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کی ضمانت کیا ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے؟ کیونکہ کسی معاشرے کے افراد کے دلوں میں صرف انقلاب کی خواہش اور اس کے لئے کوشش اور جدوجہد اس کی کامیابی سے برپا ہونے کی دلیل یا ضمانت قطعاً نہیں ہو سکتی۔ انقلاب کی خواہش رکھنا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے میں بہت زیادہ فاصلہ ہے۔

    مندرجہ بالا سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لئے ہم دیکھیں گے کہ محرک انقلاب کیاہے۔

    ۱۔ محرک انقلاب

    عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ جب کوئی معاشرہ ظلم و ستم سے بھر جاتا ہے تو پھر اس معاشرہ میں انقلاب آ جاتا ہے اس خیال یا نظریہ کے مطابق انقلاب کی وجہ یا محرک ظلم و جور کی زیادتی ہے۔

    لیکن اگر ہم معمولی غور کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ حقیقتاً محرک انقلاب ظلم و جور نہیں بلکہ کوئی نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے کیونکہ اگر ہم شروع انسانی تاریخ سے لے کر آج تک کے حالات پر نظر ڈالیں تو ہمیں نظریات کے حوالے سے دنیا کے افراد بنیادی طور پر صرف دو ہی گروہوں میں تقسیم نظر آئیں گے۔

    ۱۔ ایک گروہ وہ ہے جس کا نظریہ ہے کہ الله تعالیٰ جو کہ وحدہ لا شریک ہے ہمارا خالق مطلق اور پروردگار ہے ہم اپنے ہر قول و عمل کے لئے اس کے سامنے جوابدہ ہیں۔

    اس نظریہ پر ایمان رکھنے والوں کے لئے الله تعالیٰ نے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ نہ تو خود کسی پر ظلم و جور کریں اور نہ کسی کو اپنے یا کسی اور کے اوپر ظلم کرنے کا موقع دیں اس گروہ کو ہم الہٰی حاکمیت اعلیٰ پسند گروہ کہہ سکتے ہیں۔
     
  27. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    ۲۔ جبکہ دوسرا گروہ وہ ہے جو خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا، یا دولت اور طاقت کے نشے میں اپنی حیثیت کو بھلا بیٹھا ہے۔ اس گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی کا آپ مالک ہے وہ جو چاہے کرے یہ گروہ اپنے مفاد اور عیش و آرام کی خاطر کسی پر ظلم و جور کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اس گروہ کو ہم خود پرست یا مادیت پسند گروہ کہہ سکتے ہیں۔

    دنیا میں انہیں دو گروہوں میں سے کسی ایک کا کبھی غالب اور کبھی مغلوب ہونا عام طور پر انقلابات کا باعث بنتا رہا ہے۔ جس علاقے اور جس وقت میں الٰہی حاکمیت اعلیٰ پسند گروہ غالب آیا ہے تو اس وقت معاشرہ میں ظلم و ستم، برائیوں، فساد اور خونریزیوں کے خلاف عدل وا نصاف، امن و سکون اور اچھائیوں کا انقلاب آیا ہے اور جب خود پرست افراد کو غلبہ حاصل ہوتا ہے تو اچھائیوں، امن و سکون کے خلاف ظلم و جور اور بدیوں کا انقلاب آتا ہے اور معاشرہ فساد اور خونریزیوں سے بھر جاتا ہے۔

    کیونکہ انقلاب کا مطلب صرف یہی تو نہیں ہے کہ معاشرے کے لوگ ظلم و ستم سے تنگ آ کر حق و انصاف کیلئے جدوجہد کریں بلکہ انقلاب کا مطلب تو صرف اور صرف تبدیلی ہے کسی بھی ایک چیز کا اس کی متضاد حالت میں بدل جانے کا نام انقلاب ہے۔ اس لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ ظلم و جور سے بھرے معاشرے میں عدل و انصاف کا انقلاب ہی آئے بلکہ ایک پر امن اور عدل و انصاف کے اصولوں سے آشنا معاشرہ لاقانونیت اور ظلم و جور کا خوگر بھی بن سکتا ہے۔

    دنیا میں آنے والے دونوں قسم کے انقلابات سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں لوگ نیکی سے بدی کی طرف بھی آئے ہیں اور بدی سے نیکی کی طرف بھی قدم بڑھایا ہے۔

    جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے اعلان نبوت کے وقت ان کی امتوں کے افراد مختلف قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے یعنی اس وقت خود پرست افراد کا غلبہ تھا۔ ایسے حالات میں انبیاء کرام علیہم السلام الٰہی حاکمیت اعلیٰ کے نظریہ کی مسلسل اور منظم انداز میں پورے خلوص اور یکسوئی سے تبلیغ فرما کر عدل و انصاف کا انقلاب لائے اور معاشرے کو برائیوں سے پاک فرمایا۔ لیکن انبیائے کرام علیہم السلام کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی امتوں یا قوموں کے افراد نے مسلسل اور منظم انداز میں تبلیغ حق کا کام انجام دینے میں سستی اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا۔ نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہیں دیا۔ اس کے نتیجہ میں پُر امن و پُرسکون معاشرے خود پرست افراد کی خود سریوں، فساد اور خونریزیوں کی دلدل میں پھنس کرتباہ و برباد ہو گئے۔
     
  28. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    اس بات کا واضح طور پر ثبوت قرآن مجید کی آیات میں بھی ملتا ہے۔ سورہٴ ہود، آیت نمبر ۱۱۶ میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

    ﴿فَلَوْ لاٰ کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُولُوْا بَقِیَّةٍ یَّنْھَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ قَلِیْلًا﴾

    ترجمہ: ”جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان میں سے کچھ لوگ ایسے عقل والے کیوں نہ ہوئے جو (لوگوں کو) روئے زمین پر فساد پھیلانے سے روکا کرتے (ایسے لوگ تھے تو) مگر بہت تھوڑے سے۔“

    (سورہٴ مائدہ، آیت نمبر ۷۹)

    ﴿کَانُوْا لاٰ یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾

    ترجمہ: ”اس برے کام سے جس کو انجام دے رہے تھے ایک دوسرے کو منع نہیں کیا کرتے تھے (بلکہ اس پر باوجود نصیحت اڑے رہتے) جو کام یہ لوگ کرتے تھے کیاہی برا تھا۔“

    ۲۔ کسی ایک گروہ کی کامیابی کی ضمانت

    جیسا کہ ہم نے یہ کہا کہ انقلاب کا محرک نظریہ ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی انقلاب کی خواہش کرنا نظریہ رکھنا اور اس کی خاطر کوشش و جدوجہد کرنا کسی بھی انقلاب کی کامیابی کی دلیل یا ضمانت قطعاََ نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جب تک ہم اس بات پر یقین نہ کر لیں کہ ہمارے مخالف نظریہ رکھنے والے افراد اپنے نظریات سے کتنے مخلص ہیں اور کتنے طاقتور منظم اور با اختیار ہیں۔ دو مخالف گروہوں میں سے کسی ایک کی کامیابی کا انحصار مندرجہ ذیل باتوں پر ہوتا ہے۔

    ۱۔ اپنے نظریہ پر اپنے مخالف فریق کے مقابلے میں زیادہ پختہ اور کامل یقین۔

    ۲۔ دوسرے کے مقابلے میں زیادہ متحد منظم اور طاقتور ہونا۔

    ۳۔ اپنی تمام تر ذہنی جسمانی صلاحیتوں اور مادی وسائل کا بھر پور استعمال کرنا۔

    چونکہ بات ہے ہی مقابلے کی، اس لئے ہر چیز میں مقابلتاََ دیکھا جائے گا کہ کس کا پلہ بھاری ہوتا ہے اس لئے جو گروہ بھی اپنے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دوسرے کے مقابلے میں زیادہ پر خلوص انداز میں اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں بہترین حکمت عملی کے ساتھ صرف کرے گا وہی اپنے نظریے کے مطابق انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ غیر منظم اوقات میں غیر منظم کوشش کسی بھی انقلاب کی کامیابی کا باعث نہیں بن سکتی۔

    نتیجہ
     
  29. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    مندرجہ بالا گفتگو کی روشنی میں انقلاب کے حوالے سے جو نتائج ہمارے سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں۔

    انقلاب کا مطلب

    انقلاب کا مطلب کسی ایک نظریہ والے گروہ یا جماعت کا اپنے مخالف گروہ کے نظریات و افعال کو شکست دے کر اپنے نظریات کو طاقت و قوت کے استعمال کے ذریعے یا دلیل و منطق کا سہارا لے کر معاشرے میں نافذ کر دینا ہے۔

    محرک انقلاب

    گذشتہ گفتگو کی روشنی میں ہم خود کو یہ کہنے میں حق بجانب سمجھتے ہیں کہ باعث انقلاب یا محرک انقلاب کوئی نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے کیونکہ اگر ہم ظلم و جور کی زیادتی کو عدل و انصاف کے انقلاب کا محرک قرار دیں تو پھر ہم ایک پر امن معاشرے میں ظلم و جور کے انقلاب کا باعث کس چیز کو قرار دیں گے؟ ظاہر ہے کہ ہم عدل و انصاف کی زیادتی کو ظلم و جور کے انقلاب کا باعث قرار نہیں دے سکتے۔

    اس لئے حقیقت یہ ہے کہ:

    ظلم کے خلاف عدل کا انقلاب

    انصاف پسندوں کے اپنے نظریہ پر پختہ اور کامل یقین کے ساتھ ساتھ اپنے نظریہ سے مخلص ہونے کی دلیل ہے اور

    عدل کے خلاف ظلم کا انقلاب

    خود پرست گروہ کے طاقتور اور منظم ہونے یا دوسرے الفاظ میں الٰہی حاکمیت اعلیٰ پسند گروہ کی کوتاہی، کمزوری، بزدلی اور غیر منظم ہونے کی دلیل ہے۔

    ٴُٴٴُٴُٴُٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴٴمختصر یہ کہ یہ سوچ خیال یا نظریہ ہی ہوتا ہے جو کسی انسان یا افراد کو کسی کام کے کرنے پر آمادہ کرتا ہے کیونکہ اگر کسی فرد یا قوم کا نظریہ ہی یہ ہو کہ انہوں نے ظلم کی آغوش میں آنکھ کھولی ہے اور ظلم ہی کی بانہوں میں جان دینی ہے یعنی مطلب یہ کہ اگر کوئی یہ سمجھ بیٹھا ہو کہ ظلم سہنا اس کے مقدر میں شامل ہے تو جب تک اس کے نظریات میں تبدیلی نہیں آئے گی وہ کبھی بھی ظلم کے خلاف جدوجہد کے لئے آمادہ نہیں ہو گا۔

    اس لئے جب تک کسی کے ذہن میں کوئی نظریہ لائحہ عمل، خواہش یاتمنا جنم نہیں لیتی یا کوئی شخص اس بات کا احساس نہیں دلاتا اس وقت تک وہ انقلاب کی خاطر نہیں اٹھتا۔ چاہے وہ نظریہ اور خواہش اعلیٰ انسانی اقدار پر مبنی ہو یا تنگ نظری، تعصب، خود غرضی اور خود پرستی پر مبنی ہو۔

    انسانی تاریخ مختلف نظریات کی وجہ سے مختلف اوقات میں آنے والے انقلابات سے بھری پڑی ہے اس دنیا میں مذہب کے نام پر بھی انقلاب آئے ہیں،معاشی نظریہ بھی اس دنیا میں انقلاب لانے کا سبب بنا اور لوگ نسل پرستی یعنی نسلی برتری کے نظریات کی خاطر بھی اٹھے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ کون صحیح نظریات کے لئے اٹھا اور کون غلط نظریات کی خاطر، لیکن یہ بات ضرور ہے کہ انقلاب کی کوشش اور جدوجہد کسی نہ کسی نظریے اور خیال کی مرہون منت ہوتی ہے۔
     
  30. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    عالمی نظام عدل و انصاف ایک حقیقت یا خواب
    ظلم و جور کی زیادتی علامت ِانقلاب ظلم و جور کا انقلاب سے تعلق
    ظلم و جور کی زیادتی علامت ِانقلاب ظلم و جور کا انقلاب سے تعلق

    ہم اس بات کی نفی کر چکے ہیں کہ ظلم و جور کی زیادتی محرک انقلاب ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ظلم و جور اور انقلاب کا آپس میں گہرا تعلق ہے کیونکہ ظلم و جور کی زیادتی اور انتہا انقلاب کے قریب ہونے کی علامت ہوتی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کس قسم کا ظلم و جور کس انقلاب کی علامت ہوتا ہے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ظلم و جور فساد، خونریزی، برائیاں اور بدکرداریاں باطل و ظالم حکومتوں اور جابر حکمرانوں کے دور میں موجود ہوتی ہی ہیں لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی ظالم و جابر حکمران کے ظلم و جور کا نشانہ کوئی خاص فرد یا گروہ ہوتا ہے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کسی ظالم حکمران کو کسی فرد یا گروہ سے اپنی چوہدراہٹ یا حکومت چھین لیے جانے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے یا وہ سمجھتا ہے کہ فلا ں گروہ یا جماعت اس کے مفادات و نظریات کے لئے نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے یا بن رہا ہے۔ تو وہ اس فرد یا گروہ پر ظلم و جور کی انتہا کر دیتا ہے۔

    مثال کے طور پر جس طرح کہ فراعین مصر کا دور حکومت یقینا ظلم و جور اور بربریت، فساد اور خونریزیوں سے بھرا ہوا نظر آتا ہے لیکن ایک زمانے میں بنی اسرائیل کے لوگوں پر فرعون کے مظالم انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ فرعون کے خواب کی تعبیر کے مطابق بنی اسرائیل میں ایک ایسے بچے کو جنم لینا تھا جو کہ فرعون کی حکومت و اقتدار کے خاتمہ کا باعث بنے گا۔ اس لئے وہ اپنے اقتدار کی بقا اور سلامتی کی خاطر بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے ہر لڑکے کو قتل کروا دیتا تھا۔

    ﴿وَ اِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآ ءَ کُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآ ءَ کُمْ وَ فِیْ ذٰلِکُمْ بَلآٰءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ﴾۔ (سورہٴ بقرہ، آیت ۴۹)

    ترجمہ: ”اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم نے تمہیں قوم فرعون (کے پنجہ) سے چھڑایا جو تمہیں بڑے بڑے دکھ دے کر ستاتے تھے تمہارے لڑکوں پر تو چھری پھیرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو (اپنی خدمت کے لئے) زندہ رہنے دیتے تھے۔ اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے صبر کی سخت آزمائش تھی۔“

    اسی طرح اگر ہم آج کل کے دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں تو ہم واضح طور پر محسوس کر لیں گے کہ اس وقت طاغوتی اور سامراجی طاقتوں کی سازشوں، ناانصافیوں اور ظلم و تشدد کا نشانہ ساری دنیا میں خاص طور پر مسلمان ہی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ دنیا کی طاغوتی طاقتیں یہ بات جانتی ہیں کہ اگر دنیا کی کوئی قوم ان کے ناجائز مفادات اور مکروہ عزائم کو نقصان پہنچا کر یا خاک میں ملا کر ان کی متکبرانہ چوہدراہٹ اور اجارہ داریوں کے راستے میں حائل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ صرف اور صرف یہی امت مسلمہ ہی ہے۔

    مندرجہ بالا گفتگو کے نتیجے میں ہم دو طرح کے معاشروں کو سطحی نظر سے دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ظلم و جور سے بھرے ہوئے ہیں۔

    ۱۔ لاقانونیت کی بنا پر ظلم و جور
     

اس صفحے کو مشتہر کریں