1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ظہورِ امام مہدی (علیہ اسلام)روایات کے آئینہ میں

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از علی عمران, ‏29 اکتوبر 2009۔

  1. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    تعارف

    نام:۔ محمد (علیہ اسلام)
    باپ:۔ حسن عسکری(علیہ اسلام)
    سلسلہ نسب:۔حسن عسکری بن علی نقی بن محمد تقی بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن علی رضا بن الحسین بن علی ابن ابی طالب(علیہ اسلام)۔
    ماں:۔ نرجس بنت یشوعا بن قیصر بادشاہ روم
    کنیت:۔ ابو القاسم
    القاب:۔ مہدی،منتظر،صاحبِ زمان،قائم، حجتہ اللہ
    ولادت:۔ 15شعبان 255 ہجری،نصف شب کے وقت،شہر سامرا میں۔
    ابتدائے امامت:۔ 260 ہجری
    غیبتِ صغری:۔ اس غیبت کا عرصہ 69 سال ہے، مہدی اس عرصہ میں اپنے نائبین کے ذریعہ لوگوں سے خط و کتابت رکھتے تھے۔غیبت صغری کا دور چوتھے نائب کے انتقال پر 329 میں ختم ہوا۔
    نائیبین:۔۔۔۔۔۔اول۔۔۔۔۔۔۔۔ابو عمرو عثمان بن سعید بن عمرو عمری اسدی،متوفی 280 ہجری غالبآ
    ۔۔۔۔۔۔۔دوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید،متوفی 304 ہجری
    ۔۔۔۔۔۔۔سوم۔۔۔۔۔۔۔۔ابو القاسم حسین ابنُ روح نوبختی،متوفی326 ہجری
    ۔۔۔۔۔۔۔چہارم۔۔۔۔۔ابو الحسن علی بن محمد سمری،متوفی 329 ہجری
    غیبتِ کبری:۔ غیبت کبری کا یہ سلسلہ 329 ہجری سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔
    نقشِ خاتم:۔ انا حجتہ اللہ و خاصتہ
    نقشِ پرچم:۔ البیعتہ للہ
    انصارِ خاص:۔ 313(تین سو تیرہ)
    مقامِ ظہور:۔ مکہ معظمہ
    مقام بیعت:۔ رکن و مقام کے درمیان
    مدتِ حکومت:۔ اس میں اختلاف ہے۔40 یا 70 سال وغیرہ۔
    حدودِ سلطنت:۔ پورا کرہ ارض
    حلیہ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صورت و سیرت میں رسول سے مشابہ،چہرہ چاند کی طرح نورانی،داہنے رخسار پر سیاہ چمکتا ہوا تل،سر مبارک گول،اور کندھوں تک گیسو، پیشانی چوڑی اور روشن،ابرو کشیدہ، آنکھیں سرمگیں،ناک ستواں اور باریک،دانت چمکدار اور چوڑے،اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے، داڑھی گھنی اور سیاہ،ہاتھ نرم، سینہ کشادہ اور چوڑا،شکم باہر کو نکلا ہوا،پنڈلیاں پتلی۔
     
  2. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    علامات کا تعارف
    علاماتِ ظہور سے متعلق روایات کا ذخیرہ بھی اتنی بڑی کمیت میں ہے کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو متعدد ضخیم جلدوں پر مشتمل ہو گا۔یہاں کچھ منتخب روایات درج کی جا رہی ہیں اس لیے کہ مقصد فقط یہ ہے کہ ایک عام قاری کو ان علامات سے روشناس کرایا جائے تاکہ اس کے ذہن میں ظہور سے قبل ایک خاکہ تشکیل پا سکے۔
    علاماتِ ظہورِ مہدی کی دو قسمیں ہیں۔“خاصہ اور عامہ“۔ “خاصہ“ وہ علامات ہیں جن کا تعلق صرف اور صرف مہدی علیہ اسلام سے ہے جیسے تلوار کا آپ سے گفتگو کرنا یا پرچم کا خود بخود کھل جانا۔“ عامہ“ وہ علامات ہیں جو عوام الناس کے لئے ہیں۔ ایک اعتبار سے ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ علاماتِ کلیہ یعنی قبلِ ظہور کے عام سیاسی و معاشرتی اور معاشی حالات دینی اور لادینی افکار و نظریات طرزِ تعمیر، طرزِ زندگی اور خاندان اور برادریوں کے مسائل جو انسانی معاشروں پر کُلی اور مجموعی طور پر طاری ہوں گے۔ علاماتِ جزئیہ جو کسی خاص فرد، قوم یا معاشرہ یا ملک یا طبقہ یا جغرافیائی خطہ سے متعلق ہوں۔
    مذکورہ بالا تقسیم کے علاوہ علامات کی چار قسمیں ہیں۔
    (1):۔ علاماتِ بعیدہ:۔
    ان علامات و واقعات کے بیان سے بظاہر یہ بتلانا مقصود تھا کہ یہ ظہور سے قبل واقع ہوں گے، لیکن کتنے قبل واقع ہونگے یہ بیان کرنا مقصود نہیں تھا۔ لہذا اگر کوئی علامت پوری ہو جائے یا کوئی واقعہ رونما ہو جائے اور امام مہدی کا ظہور نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ روایت نادرست ہے۔ بلکہ اس کے بیان کی غرض ہی صرف اتنی تھی کہ بتلا دیا جائے، کہ ظہورِ مہدی سے قبل یہ واقعہ رونما ہو گا۔
    علاماتِ ظہور کے ذخیرہ میں بکثرت ایسی روایات ملتی ہیں جن میں بنی امیہ کا زوال، بنی عباس کی حکومت اور ان کا زوال، بصرہ اور کوفہ وغیرہ کی تباہی و ویرانی اور خراسان سے سیاہ پرچموں والے مغلوں کی آمد اور ایسے بہت سے دوسرے واقعات کو فرج(آزادی و کشادگی) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جب کہ حتمی اور یقینی فرج مہدی کا ظہور ہے۔ تاریخِ اسلام کے طالبِ علم جانتے ہیں کہ آلِ محمد کے چاہنے والوں کی تاریخ ترکِ وطن کی ،ہجرتوں کی، اور دور دراز علاقوں میں پوشیدہ ہونے کی اور سروں پر لٹکتی تلواروں کی تاریخ ہے۔ ان کی تاریخ ، گھٹن پریشانی، بیم و ترس اور خوفِ مال و جان کی تاریخ ہے۔ روایاتِ فرج کا مقصد یہ تھا کہ ان چاہنے والوں کو ان سے مستقل آگاہ رکھا جائے تاکہ صدیوں پر محیط ان کٹھن حالات میں وہ ہمت نہ ہار بیٹھیں اور ظہور سے نا امید نہ ہو جائیں لہذا انہیں آسائش اور کشادگی کے جو مواقع وقتآ فوقتآ ملنے والے تھے انہیں بتلا دیا گیا۔ فرج کہ یہ ساری روایات بھی علاماتِ ظہور کے ذیل میں مندرج ہیں۔ اس لیے کہ اگر ایک طرف یہ علامات وقتی فرج اور آسائش کا اعلان تھیں تو دوسری طرف ظہورِ مہدی کے عہد کی طرف پیش رفت کا بھی۔ اس لئے کہ ان کا وقوع پذیر ہو جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کہ عہدِ ظہور نسبتآ قریب ہوتا جا رہا ہے۔
    (2) علاماتِ قریبیہ:۔
    موضوع زیرِ بحث کی اصل اور بنیادی روایات وہی ہیں جو حقیقتآ ظہورِ مہدی کی علامات کے طور پر بیان کی گئی ہیں اور جن کے ظہور کا زمانہ ظہورِ مہدی سے نسبتآ قریب ہے۔ ان میں عام سیاسی و معاشرتی حالات وغیرہ بھی ہیں۔ مختلف شہروں اور ملکوں کی تباہی و بربادی کا تذکرہ بھی ہے اور مختلف علاقوں سے خروج کرنے والوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ وہ علامتیں ہیں کہ جب تک رونما نہ ہوں ظہور نہیں ہو گا۔ ان علامات میں سے ہر علامت کا ظہور اس بات کی دلیل ہے کہ ظہورِ مہدی کا وقت قریب آ رہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس علامت کے پورا ہوتے ہیں فورآ ظہور ہو جائے گا۔ البتہ بعض علامتیں ایسی ہیں جس میں یہ تصریح ہے کہ وہ ظہور سے متصل ہیں۔
    (3) علاماتِ حتمیہ:۔
    ان کے ساتھ کوئی قید یا شرط نہیں ہے۔ انہیں بہر حال ظہور سے قبل پورا ہونا ہے۔ مثلآ خروجِ دجال، بحوالہ روایتِ کمال الدین، صیحئہ آسمانی بحوالہ روایتِ مفضل ابنِ عمر، خروجِ سفیانی بحوالہ بحار الانوار وغیرہ۔
    (4) علاماتِ غیر حتمیہ:۔
    یہ مشروط علامات ہیں۔ اگر ان کی شرط پوری ہو گی تو یہ بھی پوری ہونگی ورنہ نہیں، ان کا تعلق خدا وندِ عالم کے قانون محوو اثبات یا با صطلاحِ دیگر قانونِ بداء سے ہے۔ اگر بعض واقعات مذکورہ قانون کے تحت وقوع پذیر نہ ہوں تو یہ روایت کے غلط ہونے کا ثبوت نہیں ہو گا۔
    روایاتِ علامات میں بیشتر خبر واحد ہیں۔ ان میں صحیح و ضعیف بھی ہیں اور مسند و مرسل بھی غرضکہ ہر قسم کی روایات موجود ہیں۔ ان کے راویوں میں مجہول الحال اور غیر موثق افراد بھی ہیں اور ثقہ بھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی روایات مجموعآ مفید یقین نہیں ہیں پھر یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ مہدویت کے دعویداروں نے بھی اپنے مفاد کی خاطر ان میں تحریفیں کی ہوں گی۔ لہذا روایات کی اسناد اور دوسرے داخلی اور خارجی قرائن کو پرکھنے کے بعد ہی کسی نتیجہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ میری یہاں کوشش یہ ہو گی کہ جن روایات کو بیشتر علماء و محدثین نے نقل فرمایا ہے انہیں کی جمع آوری ہو البتہ یہ ساری کی ساری روایات ایک ایسے محقق کا انتظار کر رہی ہیں، جو راویوں کی تحقیق کرے اور وہ قرینے تلاش کرے، جن کی مدد سے کسی بھی روایت کی صحت یا عدم صحت پر حکم لگایا جا سکے۔
    حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے عمومآ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سند کے ذریعہ متن کی توثیق کی جاتی ہے۔ یعنی اگر کسی روایت کے راوی ثقہ اور معتبر ہیں تو اس روایت کے متن پر اعتبار کیا جاتا ہے، لیکن ایک محقق کا یہ قول اپنے اندر بڑی ہی معنویت رکھتا ہے کہ بعض متن اپنی ذات میں اتنے بلند اور بے عیب ہوتے ہیں کہ اپنے سلسلہ سند کی توثیق کر دیتے ہیں۔ یہاں اس کے بیان کا مقصد یہ ہے اور قاری بھی میری اس بات سے اتفاق کرے گا کہ روایات زیرِ مطالعہ میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے بیشتر لفظ بلفظ اور حرف بحرف وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ یعنی ایسی روایات کی تعداد کم ہو گی، جنہیں تنقید کی کسوٹی پر پرکھنا ہو گا، لیکن اگر ان ان روایات کو عمل تنقید و تحقیق سے گزار دیا گیا تو اب سے ظہورِ مہدی تک کا جامع اور بے عیب خاکہ ہماری نظروں میں آ سکتا ہے۔ اسی طرح واقعات کی تقدیم و تاخیر کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے کہ اگر کسی موضوع کی ساری روایات جمع کر لی جائیں یا روایات سے وہ جملے نکال لئے جائیں جو موضوع سے متعلق ہیں تو اس کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں کہ وہ موضوع کب وقوع پذیر ہو گا۔ اس سے زیادہ وضاحت نہ قرینِ مصلحت ہے اور نہ تقاضائے وقت۔(واللہ اعلم بالصواب)
     
  3. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    علامات کی جمع آوری اتنا مشکل مسئلہ نہیں، بلکہ وہ چیز جو واقعۃٓ مشکل ہے وہ علامات کی تحقیق ہے اس لئے ایک محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ علامتوں کے سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کو پیشِ نظر رکھے۔
    (1) خطِ کوفی اپنی مختلف شکلیں تبدیل کرتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ وہ اپنی ابتدائی صورت میں واضح اعراب اور نقطوں سے مبرا تھا اور حروف میں بھی امتیازی صفات بہت کم پائی جاتی تھیں۔ اس لئے بعض استفساخ کی دشواریوں اور فروگزاشتوں کا پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ تحریق اور تخریق میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے۔ اس لئے مصنفین نے اس لفظ کو اپنی دونوں صورتوں میں محفوظ کیا ہے۔ نتیجہ کے طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کوفہ کی گلیوں میں جھنڈے پھاڑے جائیں گے یا جلائے جائیں گے۔ عوف سلمی کے بارے میں روایت ہے۔ “ما واہ تکریت“۔ اور دوسری میں ہے۔“ماواہ بکویت“۔ تکریت اور کویت دونوں ہی عرب کے علاقوں کے مشہور شہر ہیں، جس کی بناء پر یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سا شہر مراد ہے۔ اگرچہ ایسی غلطیوں سے نفسِ مضمون پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور حقیقت بہر حال محفوظ رہتی ہے لیکن ایک محکم تر نتیجے تک پہنچنے کے لئے یہ لازمی ہے۔
    (2) روایات میں اکثر مقامات پر شہروں، جگہوں اور قوموں کے وہ نام آئے ہیں جو اس زمانے میں مستعمل تھے اور آج متروک ہیں۔ اس لئ بات کو عام فہم بنانے کے لئے قدیم جغرافیہ کی رو سے جگہوں اور شہروں کا محل وقوع اور صدر اسلام کی قوموں کے ناموں کی تطبیق ضروری ہے۔
    (3) روایات کا پسِ منظر معلوم کرنا ضروری ہے کہ معصوم نے روایت کہاں بیان فرمائی تاکہ جگہ سے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کا تعین کیا جا سکے۔ اور جن لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے انہیں بھی آسانی سے شناخت کیا جا سکے۔
    (4) معصومین نے آخری زمانے کے سلسلے میں اس دور کی سیاست، سماج، معاشرت، اقتصاد غرضکہ سب ہی چیزوں پر تبصرہ فرمایا ہے، ان کی مختلف عنوانات کے تحت جمع آوری ذہنِ قاری کے لئے معاون ثابت ہو گی۔ اس کے علاوہ علامات کی چار بڑی قسمیں ہیں، جن کی وضاحت علامات کے ساتھ ہی کر دینا ضروری ہے۔ حتمیہ اور غیر حتمیہ، عام و خاص، حتمی علامات وہ ہیں جنہیں بہر طور پورا ہونا ہے اور غیر حتمی علامات اسباب و علل پر موقوف ہیں۔ عام وہ ہیں جو ہر جگہ پائی جائیں گی اور خاص وہ ہیں جو کسی خاص علاقے کے ساتھ مختص ہوں گی ان اقسام کو مدِ نظر رکھنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ جن روایات میں بظاہر تعارض و تناقص نظر آتا ہے ان کا تشفی بخش حل مل جائے گا۔
    (5) علامات کی اکثر و بیشتر روایات میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جن الفاظ میں وہ بیان کی گئی ہیں انہیں الفاظ میں پوری ہوں گی یا پوری ہو چکی ہیں۔ اس لئے زبردستی کسی کو مہدی ثابت کرنے کے لئے علامات میں دورازکار تاویلات کی گنجائشیں نہ پیدا کی جائیں ورنہ دوسری صورت میں یہ عظیم علمی خیانت متصور ہو گی۔
     
  4. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آخر میں اب ہم یہ بھی دیکھتے چلیں کہ ہمارے معاشرے میں ان روایات کا کردار کیا ہے؟ اور یہ انفرادی یا اجتماعی طور پر کون سا مثبت اثر مرتب کر رہی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ:
    (1) ان کے پڑھنے سے اعصاب کو سکون اور دل کو تقویت نصیب ہوتی ہے۔
    (2) انسان اپنے آپ کو ظہور مہدی کے لئے آمادہ کر سکتا ہے اور ان عیبوں سے بچ سکتا ہے جو ان روایتوں میں گنوائے گئے ہیں۔
    (3) یہ روایات ایمان میں اضافہ کا سبب ہیں اور اسلام، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلیبیت علیہ اسلام کی حقانیت کی دلیل ہیں۔
    (4) یہ اخبار بالغیب کی مہتم الشان نشانی ہیں۔
    (5) ان روایات کو غیر مسلموں کے سامنے بڑے فخر سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ کہ اگر ان کا سرچشمہ وحی و الہام نہیں ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان صدیوں بعد کی باتیں اتنی جامع اور مکمل تفصیل کے ساتھ بتلائے۔
     
  5. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    طویل روایات


    روایتِ معراج


    ابنِ عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب خداوند عالم مجھے معراج میں لے گیا تو میں نے ایک آواز سنی کہ اے محمد!
    میں نے کہا اے خدائے عظمت لبیک! اس وقت مجھ پر وحی ہوئی کہ اے محمد! فرشتوں نے کس چیز پر نزاع کی ہے۔ میں نے کہا پروردگار! مجھے علم نہیں ہے۔ خدا نے کہا اے محمد! تم نے انسانوں میں کسی کو اپنا وزیر، بھائی اور اپنے بعد وصی منتخب کیا ہے؟ میں نے عرض کیا پروردگار میں کسے منتخب کروں؟ تو خود میرے لیے منتخب فرما دے۔
    وحی آئی اے محمد! میں نے سارےآدمیوں میں علی ابنِ ابی طالب کو تمہارے لئے منتخب کیا ہے۔ میں نے عرض کی پروردگار میرے ابنِ عم کو؟تو اللہ نے وحی کی کہ اے محمد! علی تمہارا وارث ہے اور تمہارے بعد تمہارے علم کا وارث ہے اور قیامت کے دن تمہارا لواء حمد اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہی ساقی کوثر بھی ہے جو تمہاری امت کے آنے والے مومنین کو سیراب کرے گا۔
    پھر خدا وند عالم نے وحی کی اے محمد! میں نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ تمہارا دشمن اور تمہارے اہلیبیت اور ذریت طیبہ کا دشمن ہرگز ہرگز آبِ کوثر پی نہ سکے گا۔ اے محمد! تمہاری امت کو جنت میں داخل کروں گا مگر وہ داخل نہ ہو گا جو خود انکار کرے۔
    میں نے عرض کی پروردگار! کیا کوئی ایسا بھی ہے جو جنت میں داخل نہ ہونا چاہے۔ فرمایا کہ ہاں! میں نے عرض کی کہ وہ کیسے انکار کرے گا؟ تو اللہ نے مجھ پر وحی کی کہ اے محمد! میں نے تمہیں اپنی خلق سے منتخب کیا ہے اور تمہارے لئے تمہارے بعد وصی بھی منتخب کیا ہے اور اس کی اور تمہاری نسبت ہارون اور موسی کی نسبت قرار دی ہے فرق صرف یہ ہے کہ تمہارے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور میں نے اس کی محبت تمہارے دل میں ڈالی ہے اور اسے تمہاری اولاد کا باپ قرار دیا ہے۔ تمہارے بعد تمہاری امت پر اس کا وہی حق قرار دیا ہے جو تمہارا اپنی امت پر اپنی زندگی میں ہے جس نے اس کے حق کا انکار کیا اس نے تمہارے حق کا انکار کیا اور جس نے اس کی محبت کا انکار کیا اس نے تمہاری محبت کا انکار کیا اور جس نے تمہاری محبت سے انکار کیا اس نے جنت میں داخل ہونے سے انکار کیا۔
    یہ سن کر میں ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدے میں گر پڑا اس وقت آواز آئی اے محمد اپنے سر کو اٹھاؤ اور مجھ سے جو چاہو مانگو، تاکہ میں عطا کروں۔ میں نے عرض کی کہ اے پروردگار! میرے بعد میری پوری امت کو علی ابنِ ابی طالب کے دوستوں میں قرار دے کہ وہ سب قیامت کے دن حوضِ کوثر پر میرے پاس آ سکیں۔
    وحی آئی اے محمد! میں نے اپنے بندوں کی تخلیق سے قبل فیصلے کیے ہیں اور وہ طے ہو چکے ہیں۔ تاکہ جو گمراہ ہو اسے ہلاک کر دوں اور جو راہِ راست پر چلے اس کی ہدایت کروں میں نے تمہارے بعد تمہارا علم علی کو دیا ہے، میں نے اسے تمہارا وزیر بنایا ہے اور میں نے اسے تمہارے بعد تمہارے اہل و عیال اور تمہاری امت پر خلیفہ قرار دیا ہے۔ یہ میرا حتمی فیصلہ ہے جو اس سے دشمنی کرے، جو اس سے بغض رکھے اور تمہارے بعد اس کی فوری ولایت کا انکار کرے وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا تو جس نے اس سے بغض رکھا اس نے تجھ سے بغض رکھا اور جس نے تم سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے اس سے دشمنی کی اس نے تجھ سے دشمنی کی اور جس نے تم سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے اس سے محبت کی اس نے تم سے محبت کی اور جس نے تم سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔
    اور میں نے یہ فضیلت اس لیے قرار دی ہے اور تمہیں یہ عطا کیا ہے کہ میں اس کے صلب سے اور بتول کی نسل سے تمہاری ذریت سے گیارہ مہدی قرار دوں گا اور ان میں آخری وہ ہو گا جس کے پیچھے عیسی ابنِ مریم نماز پڑھیں گے وہ زمین کو عدل و داد سے بھر دے گا جیسی کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔ میں اسی کے ذریعہ انسانوں کو ہلاکت سے نجات دوں گا گمراہی سے ہدایت کی طرف لاؤں گا اور اسی کے ذریعے اندھے کو بینا بناؤں گا اور اسی کے ذریعہ مریض کو شفا یاب کروں گا۔
    میں نے عرض کی پروردگار یہ کب ہو گا! وحی آئی کہ جب علم اٹھا لیا جائے گا۔ اور جب جہالت ظاہر ہو جائے۔ اور جب قاریانِ قرآن کی کثرت ہو جائے۔ اور جب عمل کم ہو جائے۔ اور جب قتل کی کثرت ہو جائے۔ اور جب فقہائے ہدایت کم ہو جائیں۔ اور جب گمراہ و خائن فقہا کی کثرت ہو جائے۔ اور جب شعراء کی کثرت ہو جائے۔
    اور جب تمہاری امت کے لوگ قبرستان کو مسجد بنا لیں۔ اور جب قرآن آراستہ کیے جائیں۔ اور جب مسجدوں میں نقش و نگار بنائے جائیں اور جب ظلم وفساد بہت بڑھ جائے۔ اور جب برائیاں ظاہر ہو جائیں اور آپ کی امت کو اسی کی ترغیب دی جائے۔ اچھائیوں سے روکا جائے۔ مرد اکتفا کریں مردوں پر عورتیں عورتوں پر۔ اور جب حکمران کافر ہو جائیں۔ اور جب ان کے اعمال فاجر ہو جائیں۔ اور جب ان کے مددگار ظالم ہو جائیں۔ اور جب ان میں جو صاحبانِ رائے ہوں فاسق ہو جائیں۔ تو اس وقت تین علاقوں میں زمینیں دھنس جائیں گی۔ اور جب مشرق میں اور مغرب میں، جزیرۃ العرب میں اور شہر بصرہ میں تمہاری ذریت کے ہاتھوں تباہ ہو گا، جس کی پیروی سیاہ فام کریں گے ۔ اور حسن بن علی کی اولاد سے ایک شخص خروج کرے گا۔ اور مشرق میںاور مشرق میں دجال علاقہ سجستان( اس سے مراد سیستان ہے) سے خروج کرے گا۔ اور سفیانی کا ظہور ہو گا۔
    میں نے عرض کیا پروردگار! میرے بعد کیا کیا فتنے ہوں گے؟ خدا نے وحی کی اور بنی امیہ اور میرے عم زادوں(بنی عباس) کے فتنے سے آگاہ کیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے وہ سب کچھ بتا دیا۔ تو جب زمین پر آیا تو میں نے وہ سب بطورِ وصیت اپنے ابنِ عم(علی) کو بتا دیا اور اپنے عملِ رسالت کو انجام دیا۔ پس میں اس کی حمد کرتا ہوں جیسا کہ انبیاء نے کی ہے اور جیسا کہ ہر شے قبل میں حمد کرتی رہی ہےاور مستقبل میں خلق ہونے والی اشیاء قیامت تک حمد کرتی رہیں گی۔(بحار الانوار جلد 52 صفحہ نمبر 276)

    توضیح
    (1) عام معاشرتی حالات بیان فرمانے کے بعد مشرق، مغرب اور جزیرۃ العرب کے خسف کو بیان کیا گیا ہے۔ خسف کے معنی زمین کے دھنس جانے کے ہیں۔ زمین کا یہ دھنسنا اتنی اہم علامت ہے کہ اسے مستقل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ یہ زمین قدرتی اسباب کے ذریعہ دھنسے گی یا جنگوں میں بمباری وغیرہ کے سبب سے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ واقعہ بمباری وغیرہ کے سبب ہو گا۔ یہ تینوں خسف پے در پے ہوں گے یا فاصلہ کے ساتھ اس کی بھی وضاحت نہیں ہے۔ اگر فاصلے کے ساتھ ہوں تو پھر مشرق کے خسف کے حوالے سے ہیروشیما اور ناگاساکی کی بمباری پر بھی توجہ کرنی چاہیے۔
    (2) خسف کی متعدد روایات پائی جاتی ہیں۔ یہ عمل مختلف علاقوں میں ہو گا خصوصیت کے ساتھ بعض علاقوں کے نام روایات میں بیان کیے گئے ہیں۔
    الف:۔ شام کا ایک دیہات جابیہ یا خرستا یا ترستا یا خرسا،خرسنا، مرمرسی روایات میں یہ نام مذکورہ بالا طریقوں سے نقل ہوا ہے، لیکن صحیح جابیہ ہے۔بقول سید محسن امین عاملی کہ دمشق کا محلہ باب الجابیہ دلیل ہے کہ دمشق کے قریب ایک دیہات جابیہ نامی موجود تھا۔
    ب:۔ مسجدِ دمشق کا مغربی حصہ
    ج:۔ بلاد جبل کا بعض علاقہ۔ بلادِ جبل قم قزوین، ہمدان اور کردستان و کرمان شاہ پر مشتمل ہے اس خسف سے شہرِ قم مستثنی ہے۔
    د:۔ بصرہ میں خسف ہو گا، خون ریزی ہو گی گھر منہدم ہوں گے اور لوگ فنا ہوں گے اس کے علاوہ منارہ بصرہ کے خسف کا بھی ذکر روایات میں ہے۔
    ہ:۔ مصر میں بھی خسف ہو گا۔
    (3) خروج سفیانی سے قبل سید حسنی کا خروج ہو گا اور اس خروج کے بین الاقوامی اثرات مرتب ہوں گے، جن کے سبب کرہ ارض پر لڑی جانے والی جنگوں کا ظہرو ہر گا۔ بعض علماء نے اولادِ حسن کی جگہ اولادِ حسین تحریر کیا ہے۔ اگرچہ بیشتر نسخوں میں اولادِ حسن ہی تحریر ہے لیکن اگر دوسرے نسخے کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ خروج کرنے والے سید حسینی ہوں گے ان کے بارے میں تفصیلات نہیں ملتیں کہ یہ کون ہیں کہاں سے خروج کریں گے؟ اور ان کی جنگ کن لوگوں سے ہو گی جیسے کہ سید حسنی کے سلسلہ میں تفصیلات ملتی ہیں۔
    (4) اس روایت میں جس دجال کا ذکر کیا گیا ہے یہ مشہور دجال نہیں ہے جس کا تذکرہ بکثرت روایات میں پایا جاتا ہے اس لئے کہ وہ نزولِ عیسی کے وقت ظاہر ہو گا، وہ دجال جو مشرق سے خروج کرے گا اس کی تفصیلات نہیں معلوم ، ہو سکتا ہے یہ کوئی ایسا باطل پرست سرکردہ شخص ہو جو سید حسنی یا حسینی کے مقابل خروج کرے۔
     
  6. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    روایتِ جابر رضی اللہ عنہ
    جابر ابنِ عبداللہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج اور اس کے فرائض سے فارغ ہو گئے تو خانہ کعبہ کو وداع کرنے کے لئے تشریف لائے اور حلقہ در کو ہاتھ میں تھام کر باآوازِ بلند ارشاد فرمایا۔
    “اے لوگو!“ اس آواز کو سنتے ہی وہ سارے لوگ جو مسجد الحرام اور بازار میں تھے جمع ہو گئے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا: سنو! میں بتانا چاہتا ہوں جو میرے بعد ہو گا۔ تم میں سے جو حاضر ہیں وہ غائبین تک پہنچا دیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گریہ فرمانا شروع کیا اور آپ کو گریہ کرتے ہوئے دیکھ کر سارے حاضرین بھی رونے لگے۔ جب رسول اللہ کا گریہ رکا تو فرمایا کہ خدا تم پر رحم کرے، یہ جان رکھو کہ تم آج کے دن سے ایک سو چالیس سال تک اس پتے کی مانند ہو جس میں کانٹا نہ ہو پھر اس کے بعد دو سو سال تک ایسا زمانہ ہو گا جس میں پتہ بھی ہو گا اور کانٹا بھی پھر اس کے بعد فقط کانٹا ہے پتہ نہیں ہے۔
    یہاں تک کے اس زمانے میں سلطان جابر، بخیل سرمایہ دار، دنیا پرست عالم، جھوٹے فقیر، فاسق و فاجر بوڑھے، بے حیاء لڑکے، اور احمق عورتوں کے علاوہ لوگ نظر نہیں آئیں گے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گریہ فرمایا۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اٹھے اور انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ بتلائیے کہ ایسا کب ہو گا؟ ارشاد فرمایا، اے سلمان! یہ اس وقت ہو گا جب تمہارے علماء کم ہو جائیں گے اور تمہارے قاریان قرآن ختم ہو جائیں گے اور تم زکوۃ کی ادائیگی قطع کر دو گے اور اپنے اعمال کو ظاہر کرو گے۔ جب تمہاری آوازیں تمہاری مسجدوں میں بند ہوں گی اور جب تم دنیا کو سر پر اٹھاؤ گے اور علم کو زیرِ قدم رکھو گے اور جب جھوٹ تمہاری گفتگو ہو گی۔ غیبت تمہاری نقلِ محفل ہو گی اور حرام مالِ غنیمت ہو گا اور جب تمہارا بزرگ تمہارے خوردوں پر شفقت نہیں کرے گا، اور تمہارا خورد تمہارے بزرگوں کا احترام نہیں کرے گا اس وقت تم پر اللہ کی لعنت نازل ہو گی اور تمہاری امت تمہارے درمیان قرار دے گا۔ اور دین تمہاری زبانوں پر فقط ایک لفظ بن کر رہ جائے گا تو تم میں جب یہ خصلتیں پیدا ہو جائیں تو سرخ آندھی مسخ یا آسمان سے سنگ باری کی توقع رکھو اور میرے اس کلام کی تصدیق کتابِ خدا میں موجود ہے۔
    اے رسول کہہ دو کہ وہی اس بات پر قادر ہے کہ تم پر عذاب تمہارے سر کے اوپر سے نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے اٹھا دے یا ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے مقابل کر دے اور تم سے بعض کو بعض کی جنگ کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ہم کس طرح آیات کو بدل بدل کر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھ سکیں۔(سورہ انعام آیت 65)۔
    اس وقت صحابہ کا ایک گروہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ہمیں بتائیے کہ ایسا کب ہو گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب نمازوں میں تاخیر کی جائے اور شہوت رانی عام ہو جائے اور قہوے کی مختلف اقسام پی جانے لگیں اور باپ اور ماں کو لوگ گالیاں دینے لگیں یہاں تک کہ حرام کو مالِ غنیمت اور زکوۃ کو جرمانہ سمجھنے لگیں، مرد اپنی بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور اپنے ہمسائے پر ظلم کرے اور قطع رحم کرنے لگے اور بزرگوں کی شفقت اور رحم ختم ہو جائے اور خوردوں کی حیاء کم ہو جائے اور لوگ عمارتوں کو مضبوط بنانے لگیں اور اپنے خادموں اور لونڈیوں پر ظلم کرنے لگیں اور ہوا و ہوس کی بنیاد پر گواہی دیں اور ظلم سے حکومت کریں اور مرد اپنے باپ کو گالی دینے لگے اور انسان اپنے بھائی سے حسد کرنے لگے اور حصہ دار خیانت سے معاملہ کرنے لگے اور وفا کم ہو جائے اور زنا عام ہو جائے اور مرد عورتوں کے کپڑوں سے اپنے آپ کو آراستہ کرے اور عورتوں سے حیاء کا پردہ اٹھ جائے اور تکبر دلوں میں اس طرح داخل ہو جائے جس طرح زہر جسموں میں داخل ہو جاتا ہے اور نیک عمل کم ہو جائے اور جرائم بے انتہا عام ہو جائیں اور فرائض الہی حقیر ہو جائیں اور سرمایہ دار مال کی بناء پر اپنی تعریف کی خواہش کریں اور لوگ موسیقی اور گانے پر مال صرف کریں اور دنیا داری میں سرگرم ہو کر آخرت ہو بھول جائیں اور تقوی کم ہو جائے اور طمع پڑھ جائے اور انتشار و غارت گری بڑھ جائے اور ان کی مسجدیں آذان سے آباد ہوں اور ان کے دل ایمان سے خالی ہوں اس لیے کہ وہ قرآن کا استخفاف (توہین) کریں اور صاحبِ ایمان کو ان سے ہر قسم کی ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑے تو اس وقت دیکھو گے کہ ان آدمیوں کے چہرے آدمیوں نے چہرے ہیں اور ان کے دل شیطانوں کے دل ہیں اور ان کی گفتگو شہد سے شیریں ہے اور ان کے دل حنظل سے زیادہ کڑوے ہیں تو وہ بھیڑئیے ہیں جو انسانی لباس میں ہیں ۔ ایسے زمانے میں کوئی دن ایسا نہ ہو گا جب خدا ان سے یہ نہ کہے گا کہ کیا تم میری رحمت سے مغرور ہو گئے ہو؟ تمہاری جراتیں بڑھ گئی ہیں۔
    کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا؟ اور تمہاری بازگشت ہماری طرف نہیں ہو گی؟
    میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر مجھے خلوص سے عبادت کرنے والوں کی پرواہ نہ ہوتی تو میں گنہگار کو ایک چشم زدن کی بھی مہلت نہ دیتا اور بندگان متقین کے تقوے کی پرواہ نہ ہوتی تو میں آسمان سے ایک قطرہ بھی نہ برساتا اور زمین پر ایک سبز پتہ بھی نہ اگاتا۔
    اس وقت مومن کا دل اس کے پہلو میں اس طرح آب ہو گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔اس لئے کہ وہ برائیوں کو دیکھے گا لیکن اسے بدل دینے کی قدرت نہیں ہو گی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا کہ ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت حکمران ظالم و جابر ہوں گے۔ وزراء فاسق ہوں گے۔ عرفا ظالم ہوں گے امانت دار خائن ہوں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس وقت منکر معروف ہو جائے گا، اور معروف منکر ہو جائے گا، خائن کو امانت دار سمجھا جائے گا اور امین خیانت کرے گا اور جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی اور سچے کی تکذیب کی جائے گی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس وقت عورتوں کی حکومت ہو گی اور کنیزوں سے مشورہ لیا جائے گا اور لڑکے منبروں پر بیٹھیں گے اور جھوٹ بولنا ظرافت میں شمار ہو گا اور زکوۃ کو جرمانہ سمجھا جائے گا اور مالِ خدا کو غنیمت سمجھا جائے گا اور انسان اپنے والدین پر جورو جفا کرے گا اور اپنے دوست کے ساتھ حسن سلوک کرے گا اور دم دار ستارہ ظاہر ہو گا۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس وقت عورت تجارت میں اپنے شوہر کے ساتھ شریک ہو گی اور صاحبانِ عزت ذلیل ہوں گے اور غریب و فقیر شخص کی توہین کی جائے گی تو اس وقت بازار قریب ہو جائیں گے۔ ایک کہے گا کہ میں نے کچھ نہیں بیچا اور دوسرا کہے گا کہ میں نے کچھ نفع نہیں کمایا، تم نہیں دیکھو گے مگر اللہ مذمت کرنے والے کو۔ تو سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اس وقت ایسے لوگ حکمران ہوں گے کہ عوام اگر عوام گفتگو کریں گے تو حکمران قتل کر دیں گے، اور اگر چپ رہیں گے تو حکمران ان کے مالک بن جائیں گے اور ان لوگوں کی دولت سے خود دولت مند بن جائیں گے اور ان کی حرمت کو پامال کریں گے اور ان کا خون بہائیں گے اور ان کے دلوں کو اپنے رعب و دبدبہ سے معمور کریں گے اور تم انہیں دیکھو گے مگر ہراساں اور خوف زدہ، مرعوب اور سہما ہوا۔ سلمان فارسی نے کہا، یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت کچھ مشرق سے لایا جائے گا اور کچھ مغرب سے لایا جائے گا اور میری امت کو اس رنگ میں رنگا جائے گا۔ پس وائے ہو میری امت کے ضعیفوں پر ان لوگوں سے پس وائے ہو ان پر خدا کی طرف سے، وہ تو نہ چھوٹوں پر رحم نہ بڑوں کی عزت کریں گے نہ بدی کرنے والوں سے درگزر کریں گے ان کے جسم آدمیوں کے جسم ہوں گے اور ان کے دل شیطانوں کے دل ہوں گےسلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس وقت مرد مردوں پر اکتفا کریں گے اور عورتیں عورتوں پر اکتفا کریں گی اور لڑکے لڑکوں پر اس طرح ایک دوسرے سے حسد کریں گے جس طرح لڑکی پر کیا جاتا ہے جو اپنے گھر میں ہو، اور مرد عورتوں سے مشابہ ہوں گے اور عورتیں مردوں کے مشابہ ہوں گی اور عورتیں خود سواری کریں گی۔ میری امت کی ان عورتوں پر خدا کی لعنت ہو۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اس وقت مسجدوں کو اس طرح منقش کیا جائے گا جیسے کلیسا وغیرہ منقش ہوتے ہیں۔ اور قرآنوں کی طلاکاری کی جائے گی اور منارے طویل ہوں گے اور صفیں زیادہ ہو جائیں گی لیکن دلوں میں بغض ہو گا اور زبانوں پر اختلاف۔ سلمان نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت میری امت کے مرد اپنے آپ کو سونے کی چیزوں سے آراستہ کریں گے اور حریرو دینا کے لباس پہنیں گے۔ اور درندوں کی کھال کا نرم لباس استعمال کریں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔اس وقت سود ظاہر و آشکار ہو گا اور لوگ غیبت و رشوت کے ذریعے معاملہ کریں گے اور دین پست ہو جائے گا اور دنیا بلند ہو جائے گی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان ! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت طلاق کی کثرت ہو جائے گی اور اللہ کے لئے حداد جاری نہیں کی جائیں گی۔ لیکن اللہ کو کوئی شے ضرر نہیں پہنچا سکتی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا ، ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت مختلف آلات موسیقی اور مختلف ساز ظاہر ہوں گے انہیں میری امت کے شریر لوگ پسند کریں گے۔ سلمان نے کہا، کہ یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا، ہاں سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت میری امت کے سرمایہ دار تفریح کے لئے حج کریں گے اور متوسط طبقہ کے لوگ تجارت کے لئے اور غریب لوگ ریاکاری اور اپنا احترام کروانے کے لئے حج کریں گے تو اس وقت کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو غیر خدا کے لئے قرآن کی تعلیم حاصل کریں گے اور اسے آلاتِ موسیقی کی طرح قرار دیں گے۔ اور کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو غیر خدا کے لئے علم فقہ حاصٌ کریں گے اور زنا زادوں کی کثرت ہو جائے گی۔ اور قرآن کو گایا جائے گا اور لوگ دنیا کی طرف شدید میلان رکھتے ہوں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ یہ اس وقت ہو گا جب محارم کی ہتک حرمت ہو جائے اور گناہ اکتساب کئے جائیں اور اشرار کا نیک بندوں پر تسلط ہو جائے اور جھوٹ عام ہو جائے اور ضد ظاہر ہو جائے۔ عقلمند انسان پوشیدہ اور گوشہ نشین ہو جائے اور لوگ اچھے لباس پر فخرو مباہات کریں اور بغیر موسم کے بارش ہو لگے اور طبل و ساز کو پسند کرنے لگیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے نفرت کرنے لگیں یہاں تک کہ اس زمانے میں مومن کنیز سے بھی بدتر ہو جائے اور اس زمانے کے قاریوں اور عابدوں میں ملامت بازی آشکار ہو جائے تو یہ لوگ آسمان کے فرشتوں میں نجس اور پلید کے نام سے یاد کیے جاتے ہوں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت سرمایہ دار کو فقط افلاس کا خوف ہو گا۔ یہاں تک کہ سائل دو جمعوں کے درمیان سوال کرے گا لیکن کوئی اسے کچھ دینے والا نہ ہو گا۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت رومیفہ گفتگو کرے گا۔ سلمان نے پوچھا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یہ رومیفہ کیا ہے؟ فرمایا ایسا شخص انسانی مسائل پر گفتگو کرے گا جسے گفتگو نہیں کرنی چاہیے اور جو پہلے گفتگو نہیں کرتا تھا، پس یہ لوگ زمین پر باقی نہیں رہیں گے مگر بہت کم، یہاں تک کہ زمین اس طرح دھنس جائے گی کہ ہر شخص یہی خیال کرے گا کہ میرے علاقے میں دھنسی ہے۔ پھر وہ لوگ باقی رہیں گے جب تک اللہ چاہے گا، اور پھر ان کی بقا کے دوران زمین اپنے جگر کے ٹکڑے انہیں نکال کر دے گی۔ کہا سونا چاندی۔ پھر اشارہ فرمایا ستونوں کی طرح اور فرمایا کہ وہ جگر کے ٹکڑے اس کے مثل ہوں گے۔ اس دن سونا چاندی سے کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا اور یہی فقط“جاء اشراطھا“ کا مفہوم ہے۔
    (یہ روایت تفسیرِ قمی سے نقل کی گئی ہے)
     
  7. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    روایت نزال ابنِ سبرہ رضی اللہ عنہ


    نزال ابنِ سبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن امیرالمومنین علیہ اسلام نے ہمارے سامنے خطبہ دیا، پہلے خدا وندِ عالم کی حمد و ثناء کی اس نے بعد تین مرتبہ فرمایا اے لوگو! جو کچھ مجھ سے پوچھنا چاہو پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھے گم کر دو یہ سن کر صعصعہ بن صوحان اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا امیر المومنین دجال کا خروج کب ہو گا؟ فرمایا کہ بیٹھ جاؤ اللہ نے تمہاری بات سن لی اور اسے تمہارا مقصود بھی معلوم ہے۔ خدا کی قسم اس مسئلہ میں مسئول(جس سے سوال کیا گیا ہے) سائل سے عالم تر نہیں ہے۔(خروجِ دجال کے وقت سے لا علمی کا اظہار کیا گیا ہے اس لیے کہ وہ حتمی وقت فقط اللہ کے علم میں ہے)۔ لیکن اس کے خروج کی کچھ علامتیں ہیں۔ جو لفظ بلفظ متواتر پوری ہوتی رہیں گی۔ اگر تم چاہو تو علامتوں سے تمہیں آگاہ کر سکتا ہوں۔ صعصعہ نے عرض کی یا امیر المومنین ! ارشاد فرمائیے۔ فرمایا جو کہہ رہا ہوں اسے یاد رکھنا اس کی علامات یہ ہیں۔
    کہ جب لوگ نماز کو مار ڈالیں اور امانت کو ضائع کرنے لگیں اور سود کھانے لگیں اور رشوت لینے لگیں اور مستحکم عمارتیں تعمیر کرنے لگیں اور دین کو دنیا کے بدلے فروخت کر دیں اور سفہاء( ایسے غیر ذمہ دار اور بے پرواہ اشخاص جنہیں اپنے فرائضِ منصبی سے کوئی دلچسپی نہ ہو)کو عامل بنائیں اور کام پر معمور کریں، اور عورتوں سے مشورہ کرنے لگیں اور ہوا و ہوس کی پیروی کرنے لگیں اور ایک دوسرے کے خون کو بے قیمت سمجھنے لگیں اور حلم کو انسان کی کمزوری سمجھا جانے لگے اور ظلم و ستم باعثِ فخر ہو اور جب حکمران فاجر ہوں اور وزراء ظالم ہوں عرفا خائن ہوں اور قاریانِ قرآن فاسق ہوں۔ اور جب جھوٹی گواہیاں ظاہر ہو جائیں اور فسق و فجور، بہتان تراشی، گناہ و سرکشی کا علانیہ رواج ہو جائے اور جب قرآن مزین کیے جائیں اور مسجدوں میں نقاشی کی جائے، منارے طویل بنائے جانے لگیں اور شریر افراد کی تکریم کی جانے لگے اور صف بندیاں کثرت سے ہونے لگیں، اور خواہشوں میں اختلاف ہو جائے اور معاہدے ٹوٹ جائیں اور وقت موعود قریب آ جائے اور بیویاں حرصِ دنیا میں اپنے شوہروں کے ساتھ تجارت میں شریک ہونے لگیں۔ فاسق انسانوں کی آوازیں بلند ہوں اور انہیں سنا جانے لگے اور قوم کا سردار ان کا رذیل ترین شخص ہو اور فاسق و فاجر شخص کو اس کے شر کے خوف سے پرہیزگار کہنے لگیں اور جھوٹے کی تصدیق کی جانے لگے اور جب خیانت کار امین بن جائے اور گانے والی عورتیں آلاتِ موسیقی ہاتھ میں لے کر گانا گانے لگیں اور جب لوگ اپنے گزشتہ افراد پر لعنت بھیجنے لگیں اور عورتیں زین پر سوار ہونے لگیں اور جب عورتیں مردوں سے اور مرد عورتوں سے مشابہ ہو جائیں۔ گواہ گواہی طلب کئے بغیر گواہی دینے لگے اور دوسرا اپنے دوست کی خاطر خلافِ حق گواہی دے اور لوگ علم دین کو غیر دین کے لئے حاصل کریں اور دنیا کے کام کو آخرت کے کام پر مقدم قرار دیں اور جب لوگ بھیڑوں جیسے جسم پر بکری کی کھال پہن لیں۔ اور ان کے دل مردار سے زیادہ مستعفن ہوں گے اور صبر سے زیادہ تلخ ہوں گے(جب ایسا زمانہ آ جائے تو) اس وقت عجلت اور سرعت سے کام لینا اور بہت جلدی کرنا۔ اس وقت سکونت کے لئے بہترین جگہ بیت المقدس ہو گی، انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جب ہر شخص وہاں سکونت کی تمنا کرے گا۔ یہ سن کر اصبغ بن نباتہ کھڑے ہو گئے اور عرض کی یا امیرالمومنین! دجال کون ہے؟ فرمایا، آگاہ ہو جاؤ، کہ دجال صائد بن صید ہے، وہ شقی ہے جو اس کی تصدیق کرے اور وہ سعید ہے جو اس کی تکذیب کرے، وہ اصفہان نامی ایک شہر اور یہودیہ نامی ایک گاؤں سے خروج کرے گا۔ اس کی داہنی آنکھ نہیں ہو گی اور دوسری آنکھ پیشانی پر ہو گی اور صبح کے ستارے کی طرح روشن ہو گی۔ اس کی آنکھ میں کوئی چیز ہو گی جو جمے ہوئے خون کی طرح ہو گی۔ اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان تحریر ہوگا کہ کافر ہے اور ہر پڑھا لکھا اور جاہل اسے پڑھ سکے گا اور سمندروں کو پار کرے گا اور سورج اس کے ساتھ چلے گا۔ اور اس کے سامنے دھوئیں کا پہاڑ ہو گا اور اس کے پیچھے ایک سفید پہاڑ ہو گا، جسے لوگ غذا سمجھیں گے اور وہ شدید قحط کے زمانہ میں خروج کرے گا اور ایک سفید گدھے پر سوار ہو گا۔ اس کے گدھے کا ایک قدم ایک میل ہو گا۔ زمیں اس کے قدموں کے نیچے سمٹتی جائے گی وہ جس پانی کے قریب سے گزرے گا وہ قیامت تک کے لئے خشک ہو جائے گا، وہ بلند آواز سے خطاب کرے گا، جسے مشرق و مغرب تک جن و انس اور شیطان سنیں گے اور وہ کہے گا اے میرے دوستو! آؤ میرے پیچھے میں ہی وہ ہوں جس نے خلق کیا اور توازن و اعتدال بخشا اور رزق مقرر کیا اور پھر ہدایت کی پس میں تمہارا خدائے بزرگ و برتر ہوں، وہ دشمنِ خدا جھوٹا ہو گا اور یک چشم ہو گا کھانا کھائے گا اور بازاروں میں چلے گا۔ جب کہ تمہارا رب نہ یک چشم ہے اور نہ کھانا کھاتا ہے اور نہ بازاروں میں راستہ چلتا ہے نہ فنا پذیر ہے اس زمانے میں دجال کے اکثر پیرو زنا زادے اور سبز ریشمی لباس والے لوگ ہوں گے۔ خدائے عزو جل شام کی ایک پہاڑی پر جس کا نام“ عقبی افیق“ ہو گا دجال کو قتل کرے گا۔ یہ قتل اللہ جمعہ کے روز تین ساعت بعد اس شخص کے ہاتھوں کروائے گا جس کے پیچھے عیسی بن مریم نماز پڑھیں گے۔
    آگاہ ہو جاؤ کہ اس کے بعد ایک بہت بڑا حادثہ رونما ہو گا۔ ہم نے پوچھا کہ“ یا امیرالمومنین! وہ حادثہ کیا ہے؟“ فرمایا صفا کی طرف سے دابۃ الارض کا خروج ہے۔ اس کے ساتھ سلیمان کی انگوٹھی اور موسیٰ کا عصا ہو گا۔ وہ اس انگوٹھی کو جس مومن کے چہرے پر رکھے گا تو اس پر تحریر ہو جائے گا کہ یہ مومن حقیقی ہے اور جس کافر کے چہرے پر رکھے گا تو اس پر نقش ہو جائے گا کہ یہ کافر حقیقی ہے۔ یہاں تک کہ مومن آواز دے گا کہ اے کافر تجھ پر وائے ہو اور کافر کہے گا اے مومن! تیرا حال کتنا اچھا ہے مجھے یہ بہت پسند ہے کہ کاش میں بھی تیری طرح کامیاب و کامران ہوتا۔ پھر وہ دابہ اپنے سر کو بلند کرے گا اور مشرق و مغرب کے لوگ خدا کے اذن سے اسے اس وقت دیکھیں گے جب سورج اپنے مغرب سے طلوع کرے گا۔ اس وقت درِ توبہ بند ہو جائے گا نہ توبہ قبول ہو گی اور نہ کوئی عملِ صالح آسمان کی طرف جائے گا اور نہ کسی کا ایمان اسے فائدہ پہنچائے گا اگر اس نے پہلے ایمان قبول نہ کیا ہو یا ایمان کی حالت میں خیر نہ کیا ہو۔ پھر فرمایا اس کے بعد کے واقعات مجھ سے نہ پوچھو، اس لئے کہ میں نے اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد کیا تھا کہ اپنی عترت کے علاوہ کسی اور کو اس کی اطلاع نہ دوں گا۔ نزال ابن سبرہ نے صعصعہ سے پوچھا کہ اس بات سے امیرالمومنین کی کیا مراد ہے؟ صعصعہ نے جواب دیا کہ اے ابنِ سبرہ! وہ شخص جس کے پیچھے عیسیٰ بن مریم نماز پڑھیں گے وہ عترتِ رسول کا بارہواں اور اولادِ حسین علیہ اسلام کا نواں امام ہو گا۔ یہ وہی سورج ہے جو اپنے مغرب سے طلوع ہو گا، وہ رکن و مقام کے قریب ظاہر ہو گا زمین کو پاک کرے گا، میزانِ عدل کو قایم کرے گا۔ پھر اس کے بعد کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور امیرالمومنی نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے عہد لیا تھا کہ اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ آئمہ اہلبیت کے علاوہ کسی اور کو نہ بتلائیں گے۔
    (بحار الانوار جلد 52 صفحہ 193)
     
  8. پاکیزہ
    آف لائن

    پاکیزہ ممبر

    شمولیت:
    ‏10 جولائی 2009
    پیغامات:
    249
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    اچھا مضمون ہے۔ لیکن امام مہدی نے اگر ابھی آنا ہے تو 255 ہجری میں کس کی پیدائش ہوگئی؟ جن کا شجرہ نصب اوپر بیان کیا گیا ہے ؟
    میں نے سنا ہے کہ شیعہ لوگ کہتے ہیں کہ امام مہدی بہت صدیاں پہلے پیدا ہوکر کسی غار میں چلے گئے اور اب دوبارہ آنے والے ہیں
    کیا علی عمران صاحب اپ ایسا ہی کچھ بتانا چاہ رہے ہیں؟
     
  9. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    سوری پاکیزہ جی میں کسی کا عقیدہ بیان نہیں کر رہا بلکہ صرف روایات پیش کر رہا ہوں۔ ویسے تمام بڑی بڑی احادیث کی کتب بھری پڑی ہیں مختلف احادیث سے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد اپنے خلفاء کے نام اور ان کی تعداد بتائی ہے اور اس میں 12ویں امام مہدی ہیں۔ میرے خیال میں احادیث کی کتب صرف فقہی مسائل کے لئے ہی نہیں دیگر مسائل کے لئے بھی پڑھنی چاہییں۔
    اور اہلِ سنت والجماعت کے بڑے بڑے علماء اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ امام مہدی اس دنیا میں تشریف لا چکے ہیں۔ میں انشاء اللہ اگلی مرتبہ کوشش کروں گا کہ تمام بڑے بڑے علماء کے نام لکھ سکوں جنہوں نے اس سب کو تسلیم کیا ہے۔
     
  10. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    خطبہ البیان
    حضرت عبد اللہ ابنِ مسعود( یہ مشہور صحابی نہیں بلکہ فقط ایک راوی ہیں) نے فرمایا کہ جب علی مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو بصرہ آئے اور شہر کی جامع مسجد کے منبر پر بیٹھ کر آپ نے ایسا خطبہ دیا کہ لوگوں کی عقلیں مدہوش ہو گئیں اور ان کے بدن تھرا اٹھے جب انہوں نے آپ کے اس خطبہ کو سنا تو شدت سے گریہ کیا اور نالہ و شیون کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ حضرت ابنِ مسعور فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اسرارِ مخفیہ جو آپ کے اور خدا وند عالم کے درمیان تھے علی کو پوشیدہ طور پر بتلا دئیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نور جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک میں تھا وہ علی ابن ابی طالب کے چہرے میں منتقل ہو گیا تھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس مرض میں انتقال فرمایا۔ اس میں امیر المومنین علیہ اسلام کو وصیت بھی کی کی تھی اور یہ وصیت بھی کی تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے خطبۃ البیان کو بطور خطبہ ارشاد فرما دیں۔ جس میں پورے ماضی اور قیامت تک کے مستقبل کا علم ہے۔ پھر علی نے وفاتِ رسول کے بعد امت کے مظالم پر صبر کیا اور اس پر قیام کیے رہے۔ یہاں تک کہ ان کی زندگی کا پیمانہ چھلک اٹھا اور اس خطبہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت پر عمل کرنے کا مرحلہ آ گیا۔ پس امیر المومنین اٹھے اور منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ یہ آپ کی زندگی کا آخری خطبہ تھا۔ آپ نے پہلے حمد و ثنائے الہٰی کی پھر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکرِ خیر فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا اے لوگو! میں اور میرے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح ہیں (کلمہ والی انگلی اور درمیان والی انگلی کو ملا کر دکھلایا) اگر خدا کی کتاب میں ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں آسمان و زمین میں جو کچھ ہے بتلا دیتا اور اس کی تہہ میں کیا ہے وہ بھی بتلا دیتا۔ پس اس کی کوئی شے مجھ سے مخفی نہیں ہے اور اس کا کوئی کلمہ مجھ سے اوجھل نہیں ہے اور( یاد رکھو کہ) میری طرف وحی نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ یہ وہ علم ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تعلیم کیا ہے۔ انہوں نے پوشیدہ طور سے مجھے ہزار مسئلے بتائے ہیں اور ہر مسئلے میں ہزار باب ہیں اور ہر باب میں ہزار نوع ہیں۔ پس مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ تم مجھے گم کر دو۔ عرش کے علاوہ مجھ سے پوچھو میں تمہیں بتلاؤں گا۔ اور اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تمہارا کہنے والا کہے گا کہ علی ابنِ ابی طالب جادوگر ہے جیسا کہ میرے ابنِ عم کے بارے میں کہا گیاتو تمہارے خوابوں کے موارد بتلا دیتا اور خزانوں کے پوشیدہ راز بتلا دیتا۔ اور میں تمہیں بتلاتا کہ زمین کی تہہ میں کیا ہے۔ اور یہ ہے آپ کا وہ خطبہ جو آپ نے ارشاد فرمایا تھا اور اس کا نام خطبۃ البیان ہے۔
    پہلے آپ نے تفصیل کے ساتھ پروردگارِ علم کے اوصافِ جمیلہ و جلیلہ کا ذکر فرمایا۔ پھررسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتہائی جامع اور مبارک تذکرہ فرمایا، پھر ارشاد فرمایا:
    اے لوگو! جو نمونہ تھا وہ جا رہا ہے اور موت محقق ہو چکی ہے اور خوف و ترس بڑھ گیا ہے۔ اور کوچ کا وقت قریب آ گیا ہے اور میری عمر سے ایک قلیل وقفہ کے علاوہ کچھ باقی نہیں ہے، تو مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھے گم کر دو۔
    اس کے بعد آپ نے اپنے سو(100) اہم فضائل اَنَا(میں) کے ساتھ بیان فرمائے ہیں ۔ انہیں اس لئے ذکر نہیں کیا جا رہا کہ وہ ہمارے موضوع سے براہِ راست مربوط نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ بعض جملے قابلِ تشریح ہیں اور بعض قابلِ تاویل جس کی یہاں بلکل بھی گنجائش نہیں۔
    ایک سو ایک ویں(101) فضیلت میں آپ نے ارشاد فرمایا“ میں مہدی کا پدر ہوں جو آخری زمانے میں قیام کرے گا۔ یہ سن کر مالک اشتر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا امیرالمومنین! آپ کی اولاد میں یہ قائم کب قیام کرے گا؟ اس وقت آپ نے جواب میں فرمایا:
    جب باطل ونارواٰ مقدم ہو اور جب حق و حقیقت خفیف ہوں اور جب پہنچنے والی چیز پہنچ جائے اور جب پشتیں بھاری ہو جائیں اور امور ایک دوسرے کے قریب آ جائیں اور اظہار سے روک دیا جائے اور مالک کی ناک رگڑی جائے اور جب قدم بڑھانے والا قدم بڑھاتا جائے اور جب ہلاک ہونے والا ہلاک ہو جائے اور جب نہریں خشک ہو جائیں اور جب قبیلے باغی ہو جائیں اور جب سختیاں بڑھ جائیں اور عمر کوتاہ ہو جائے اور(فتنوں کی) تعداد دہشت زدہ کردے اور وسوسے ہیجان انگیز ہوں اور جب بھیڑئیے(ساہی) مجتمع ہو جائیں اور جب موجوں میں تموّج آ جائے۔ اور جب حج کرنے والا کمزورو ناتواں ہو جائے اور جب والہانہ پن میں شدت آ جائے اور جب دشمن ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہو جائیں اور قومِ عرب کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے اور طلب شدید ہو جائے اور ڈرنے والے پیچھے ہٹ جائیں اور جب قرض مانگیں جائیں اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوں، اور کم عقل دھوکہ کھا جائے اور خوش ہونے والا ہلاک ہو جائے۔ اور جب شورش کرنے والے شورش کریں اور جس کی اطاعت کی جاتی ہو وہ عاجز درماندہ ہو جائے اور کرن(نورِ شمس) تاریک ہو جائے اور سماعتیں بہری ہو جائیں اور پاک دامنی رخصت ہو جائے اور جب عدل و انصاف قابلِ علامت بن جائے اور جب شیطان مسلط ہو جائے اور جب گناہ بڑے ہو جائیں اور عورتیں حکومت کریں اور جب سخت اور دشوار حادثے رونما ہونے لگیں اور جب زہر برسانے والے زہر برسائیں اور جب کودنے والا ہجوم کرے اور خواہشات مختلف ہو جائیں اور بلائیں بزرگ ہو جائیں اور شکوے(شکائتیں) سدت اختیار کر لیں اور دعوے مسلسل جاری رہیں اور تجاوز کرنے والا اپنی حد سے تجاوز کر جائے اور غضب ناک ہونے والا غضب ناک ہو جائے اور جب جنگوں میں سرعت پیدا ہو جائے اور دین پر معترض ہونے والا تیز زبان ہو جائے اور بیابان دھول سے اٹ جائیں اور حکمران فریاد کرنے لگیں اور ایذا رسانی کرنے والا ایذا کے تیر برسائے اور مٹی ڈالنے والا مٹی ڈالے اور زمین کو زلزلہ آ جائے اور فرض(خداوندی) معطل ہو جائے اور امانت ضائع ہو جائے اور خیانت آشکار ہو جائے اور حفاظت(کرنے والی طاقتیں) خوفزدہ ہو جائیں۔ غیظ و غضب شدید ہو جائے اور موت لوگوں کو ڈرائے اور منہ بولے اٹھ کھڑے ہوں اور (سچے) دوست بیٹھ جائیں اور صاحبانِ دولت خبیث ہو جائیں اور شقی لوگ(اعلی مقامات تک) پہنچ جائیں اور معاشرے کے دانشور حق سے پھر جائیں اور امور مبہم ہو جائیں اور سستی و ناچاری عام ہو جائے اور کمال سے روکا جائے اور بخیل و حریص قرعہ میں ایک دوسرے پر غلبہ کی کوشش کریں اور کامیاب انسان روک دیا جائے اور عافیت لوگوں تک پہنچنے سے روک لی جائے اور جب بہت کھانے والا تیزی دکھلائے اور جب بے صبر اور ڈرپوک انسان اپنے سرو گردن کو جھکا لے اور ڈرپوک بہت تیز دوڑنے لگے اور جب تاریکی بکھرنے لگے اور جب بدمزاج اپنا چہرہ بگاڑ لے اور شب روی کرنے والا بجبر روک دیا جائے اور دانا نکتہ رس انسان کو قریب کر لیا جائے اور جب گائے کا بچھڑا سبک روی سے دوڑنے لگے(کمسن بچے اہم امور میں مداخلت کرنے لگیں)اور وہ چیز (یہ چیزیں برق بھی ہو سکتی ہیں اور خطرناک اسلحہ بھی جو جہاز سے گرایا جائے یا فضاء سے آئے) اوپر سے نیچے گرے جو حیران کن ہو اور افیق(افیق اردن میں ایک گھاٹی ہے) کو روشن کر دے اور دور کرنے والا دور کر دے اور جستجو کرنے والا جستجو کرے اور کوشش کرنے والا کوشش کرے اور رنج دینے والا رنج دے اور غضب ناک ہونے والا غضب ناک ہو جائے اور جب ناروا خون بہنے لگے اور کینہ پرور شخص کہیں پیغام بھیجے اور اضافہ والے کو مزید اضافہ ہو اور جو منتشر ہیں وہ مزید منتشر ہوں اور شماتت کرنے والے شماتت کریں اور بہت بوڑھا شخص رنج و تعب میں گرفتار ہو اور توٹنے والا ٹوٹ جائے اور غضب ناک ہونے والا نادم و پشیمان ہو اور قلیل حصہ پائے اور کوشش کرنے والا کوشش کرتا رہے اور قسم ہے نجمِ ثاقب(بعض لوگوں نے اسے ستارہ زحل مراد لیا ہے) کی اور قرآن کو زینت دیا جائے اور دیر(بعض محققین نے اسے دبران پڑھا ہے دبران چاند کی اٹائس منزلوں میں سے چوتھی منزل ہے) سرخ ہو جائیں۔ اور جب کہ شرطان تسدیس( یہ علمِ نجوم کی اصطلاحیں ہیں شرطان برجِ حمل کے دو ستارے ہیں اور تسدیس چاند کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے) میں ہو اور زہرقان(زہرقان چاند ہے) حالت تربیع میں ہو اور زحل سہم(زحل مقارنیہ کی حالت میں ہو گا۔ نجوم کی ان اصطلاحوں کو سمجھنے کے لئے اس علم کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔) کے خانے میں ہو اور وہ ہر چیز جو دوسری چیز کی طرف پلٹتی ہو ناپید ہو جائے اور بصرہ اور مکہ کے درمیان کے میدان روک دئیے جائیں اور مقدرات ثابت ہو جائیں اور دس(علامات) مکمل ہو جائیں اور زہرہ تسدیس میں ہو اور منتشرو پراگندہ افراد مختلف جگہوں سے جمع ہو جائیں اور ظاہر(یہ ترک ہیں جو قنطورہ کی نسل سے ہیں) ہو جائیں چپٹی ناکوں والے اور پستہ قد(غالبآ اس سے مراد چینی ہیں) چوڑے جسم والے توہم میں پڑ جائیں اور ان پر مقدم ہوں ایسے لوگ جو عالی قدر ہوں اور آزاد عورتوں کو معیوب قرار دیں اور جزیروں کے مالک ہو جائیں اور حیلہ و مکرو ایجاد کریں اور خراسان کو خراب کریں اور خانہ نشینوں کو خانہ نشینی سے پلٹا دیں اور قلعوں کو مسمار کر دیں اور پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کر دیں اور شاخوں کو کاٹ ڈالیں اور عراق کو فتح کر لیں اور دشمنی کرنے میں تیزی دکھائیں اس خون کے سبب جو بہایا گیا ہو(یہاں نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ کا انتہائی تیز رفتاری سے افغانستان پر الزام لگا کر حملہ کرنا قابلِ غور ہے)۔ پس اس وقت صاحب الزمان کے خروج کے منتظر رہو۔ پھر آپ منبر کے بلند ترین زینے پر تشریف فرما ہوئے۔ پھر فرمایا کہ ہونٹوں کے کنایہ میں یہ بات کرنے پر اور دہنوں کی پژمردگی پر آہ ہے۔پھر آہ ہے۔
    راوی کا بیان ہے کہ آپ نے داہنے اور بائیں نظر کی اور آپ نے عرب کے عشیروں اور ان کے سرداروں اور شرفائے اہلِ کوفہ اور بزرگانِ قبائل جو آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان پر نگاہ ڈالی اور وہ لوگ اس طرح دم سادھے ہوئے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ۔ پھر آپ نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور ایک غم ناک چیخ ماری اور حزن و اندوہ کا اظہار کیا اور کچھ دیر ساکت رہے۔ اتنے میں سویدا بن نوفل جو خوارج کے سرداروں میں تھا۔ ایک تمسخر کرنے والے کی طرح اٹھ کے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اے امیرالمومنین جو چیزیں آپ نے ذکر کی ہیں کیا آپ ان کے سامنے حاضر ہیں اور جو بھی آپ نے خبر دی ہے کیا آپ اسے جانتے ہیں؟ راوی کہتا ہے کہ امام اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے نگاہِ غضب سے گھور کے دیکھا، جس پر سوید ابنِ نوفل نے ایک بڑی چیخ ماری اس عذاب کے سبب جو اس پر نازل ہوا تھا اور اسی وقت مر گیا اور لوگ اسے اٹھا کر اس حالت میں مسجد سے باہر لے گئے کہ اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا۔
    پھر آپ علیہ اسلام نے فرمایا کہ کیا استہزاء کرنے والے یا مجھ جیسے شخص کا استہزاء کرنے والے اعتراض کرتے ہیں۔ کیا مجھ جیسے شخص کے لائق ہے یہ بات کہ وہ اس بات کو بیان کرے جسے نہیں جانتا اور اس چیز کا دعوی کرے جس کا اسے حق نہیں ہے؟ خدا کی قسم باطل(کام) کا انجام دینے والے ہلاک ہوں گے اور میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر میں چاہوں تو روئے زمین پر خدا کے منکر کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منافق کو اور وصی رسول کے مکذب کو زندہ نہ چھوڑوں میں اپنے حزن و اندوہ اور شکوہ کو فقط اور فقط خدا پر چھوڑ رہا ہوں اور وہ کچھ خدا کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو۔
    اس موقع پر صعصعہ ابنِ صوحان اور میثم اور ابراہیم ابن مالک اشتر اور عمرو بن صالح اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یا امیر المومنین زمانے کے آخر میں جو ہونے والا ہے وہ ہمارے لئے بیان فرمائیں۔ اس لیے کہ آپ کا بیان ہمارے دلوں کی حیات کا باعث ہے اور ہمارے ایمان میں اضافے کا سبب ہے آپ نے فرمایا ضرور تمہاری خوشی پوری کروں گا۔
    راوی کا بیان ہے کہ پھر آپ کھڑے ہوئے اور ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جنت کی تشویق اور آتشِ جہنم سے تحزیر تھی۔
    پھر فرمایا اے لوگو! میں نے اپنے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ فرمایا کہ میری امت میں سو(100) خصلتیں جمع ہوں گی جو کسی اور قوم میں جمع نہیں ہوئیں یہ سن کر علمائ و فضلائ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے تلوؤں کو چومنے لگے اور کہنے لگے یا امیرالمومنین! ہم آپ کو آپ کے ابنِ عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم دیتے ہیں کہ زمانے کے طول و عرض میں جو ہونے والا ہے اسے اس طرح ہمارے لیے بیان فرمائیں کہ عاقل اور جاہل دونوں سمجھ لیں۔
    راوی کا بیان ہے کہ آپ نے حمد و ثنائے الٰہی بیان کی پھر رسول اللہ کا ذکرِ مبارک فرمایا اور کہا کہ میری موت کے بعد جو کچھ ظہور پذیر ہو گا اور میرے بیٹے حسین کی ذریت سے قیام کرنے والے صاحب الزمان کے خروج تک جو کچھ ہو گا وہ بتلا رہا ہوں تاکہ تم اس بیان کی حقیقت سے آگاہ ہو جاؤ۔ انہوں نے پوچھا یا امیر المومنین! یہ کب ہو گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب فقہا میں موت واقع ہو جائے اور محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت نمازوں کو ضائع کر دے اور لوگ خواہشوں کی پیروی کرنے لگیں۔ اور جب امانتیں ضائع ہو جائیں اور خیانتیں بڑھ جائیں اور لوگ مختلف قسم کے نشہ آور مشروبات(قہوات) پینے لگیں اور ماں باپ کو گالی دینا اپنا شعار بنا لیں اور جھگڑوں کے سبب مسجدوں سے نمازیں اٹھ جائیں اور وہاں کھانوں کی نشستیں ہونے لگیں۔ برائیاں بڑھ جائیں اور اچھائیاں کم ہو جائیں اور آسمانوں کو نچوڑا جانے لگے اس وقت سال مہینوں کی طرح اور مہینہ ہفتہ کی طرح اور ہفتہ ایک دن کی طرح اور دن ایک گھنٹہ کی طرح ہو جائے گا۔ اس وقت بغیر موسم کے بارش ہو گی۔ اور بیٹا ماں باپ سے دل میں کینہ رکھے گا اس زمانے کے لوگوں کے چہرے خوبصورت اور ضمیر مردہ ہوں گے۔ جو انہیں دیکھے گا پسند کرے گا اور جو ان سے معاملہ کرے گا وہ اس پر ظلم کریں گے ان کے چہرے آدمیوں کے اور قلوب شیطانوں کے ہوں گے۔ وہ لوگ صبر سے زیادہ کڑوے، مردار سے زیادہ بدبو دار، کتے سے زیادہ نجس اور لومڑی سے زیادہ چالاک اور اشعب سے زیادہ حریص اور جرب سے زیادہ چپکنے والے ہوں گے جن برائیوں پر عامل ہوں گے ان سے باز نہیں آئیں گے اور اگر تم ان سے گفتگو کرو گے تو تم سے جھوٹ بولیں گے۔ اگر انہیں امانت دار بناؤ گے تو خیانت کریں گے اور اگر ان سے روگردانی کرو گے تو تمہارے پیٹھ پیچھے غیبت کریں گے اور اگر تمہارے پاس مال ہو گا تو حسد کریں گے۔اگر ان سے بخل کرو گے تو دشمنی کریں گے اور اگر تم ان کی تعریف کرو گے تو تم کو گالیاں دیں گے۔ وہ جھوٹ سننے اور حرام کھانے کے عادی ہوں گے۔ وہ زنا، شراب آلاتِ موسیقی اور ساز و آواز کو جائز جان کر استعمال کریں گے۔ فقیہ ان کے نزدیک ذلیل و حقیر ہو گا اور مومن کمزور اور کم حیثیت ہو گا اور عالم ان کے نزدیک پست درجہ اور فاسق ان کے نزدیک عالی مرتبت ہو گا اور ظالم ان کے نزدیک قابلِ تعظیم ہو گا اور کمزور انسان قابلِ ہلاکت ہو گا اور طاقت رکھنے والا ان کا مالک ہو گا۔ اور وہ امربلمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کریں گے۔ ان کے نزدیک استغناء دولت اور امانت مالِ غنیمت اور زکوۃ جرمانہ ہو گی۔ مرد اپنی بیوی کی اطاعت اور والدین کے ساتھ نافرمانی اور جفا کرے گا اور اپنے بھائی کو ہلاک کرنے کی کوشش کرے گا۔ فاجروں کی آوازیں بلند ہوں گی اور لوگ فساد، گانا اور زناکاری کو پسند کریں گے۔ لوگ مالِ حرام اور سود سے کاروبار کریں گے۔ اور علماء کو سرزنش کی جائے گی۔ آپس میں بہت خون ریزیاں ہوں گی۔ ان کے قاضی رشوتیں قبول کریں گے اور عورت عورت سے شادی کرے گی اور اس طرح آمادہ ہو گی جس طرح اپنے شوہر کے لیے آمادہ و آراستہ ہوتی ہے۔ اور ہر جگہ لڑکوں کی حکومت و سلطنت ہو گی اور نوجوان گانے اور شراب نوشی کو حلال کر لیں گے اور مرد مرد پر اکتفاء کریں گے اور عورتیں عورتوں پر اکتفاء کریں گی اور عورتٰن زینوں پر سواری کریں گی۔ اس وقت عورت ہر چیز میں اپنے شوہر پر مسلط ہو جائے گی اور لوگ تین ارادوں سے حج کے لئے جائیں گے۔ دولت مند تفریح کے لئے متوسط طبقہ والا تجارت کے لئے اور فقیر بھیک مانگنے کے لیے اور احکام(شریعت) باطل و معطل ہو جائیں گے اور اسلام پست ہو جائے گا اور شریر لوگوں کی حکومت ظاہر ہو گی اور دنیا کے ہر حصہ میں ظلم سرایت کر جائے گا۔ اس وقت تاجر اپنی تجارت میں اور سنار اپنے کام میں اور ہر پیشے والا اپنے پیشے میں جھوٹ بولے گا۔ اس وقت منافع کم ہو جائے گا۔ خواہشیں ضیق میں ہونگی۔ نظریات میں اختلافات ہوں گے اور فساد بڑھ جائے گا اور نیکی کم ہو جائے گی۔ اس وقت لوگوں کے ضمیر سیاہ ہو جائیں گے۔ لوگوں پر ظالم و جابر بادشاہ حکومت کرے گا۔ ان کی گفتگو بہت کڑوی ہو گی اور ان کے دل مردار سے زیادہ بدبودار ہوں گے۔ تو جب ایسا ہو جائے تو علماء مر جائیں گے۔ دل فاسد ہو جائیں گے۔ گناہ بکثرت ہوں گے۔ قرآن متروک ہو جائیں گے اور مسجدیں خراب ہو جائیں گی۔ آرزوئیں طویل ہوں گی اور اعمال قلیل ہوں گےاور شہروں میں نازل ہونے والے عظیم حادثوں کے لیے فصیلیں بنائی جائیں(بعید نہیں ہے کہ ان فصیلوں سے راڈار سسٹم مراد ہو۔ اس لیے کہ آج فضاؤں اور آسمانی حملوں کے عہد میں ماضی کی فصیلوں یا شہر پناہوں کی افادیت صفر ہے)۔ اس وقت ان میں سے اگر کوئی شخص دن رات میں نماز پڑھے تو نامہ اعمال میں کچھ نہیں لکھا جائے گا اور نہ اس کی نماز قبول ہو گی۔ اس لیے کہ وہ نماز میں کھڑا ہوا ہو گا اور دل میں سوچ رہا ہو گا کہ کیسے لوگوں پر ظلم کرے اور کیسے مسلمانوں کو دھوکہ دے۔
    ان کی غذا چرب پرندے اور تیہوا کی اقسام ہوں گی اور ان کا لباس حریر و ریشم کا ہو گا۔ وہ سود اور مالِ شبہہ کو حلال سمجھیں گے۔ سچی گواہیوں کے متعارض ہوں گے اپنے اعمال میں ریاکاری کریں گے۔ ان کی عمریں کم ہوں گی چغل خور ان سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ حلال کو حرام قرار دیں گے۔ ان کے افعال منکرات پر مبنی ہوں گے اور قلوب مختلف ہوں گے۔ ایک دوسرے کو باطل کا سبق پڑھائیں گے اور اعمال بد کو ترک نہیں کریں گے ان کے اچھے لوگ ان کے بُروں سے خوف کھائیں گے۔ لوگ خدا کے ذکر کے علاوہ کاموں میں ایک دوسرے کے محارم کی ہتک حرمت کریں گے۔ ایک دوسرے کی مدد کی بجائے روگردانی کریں گے اگر کسی صالح کو دیکھیں گے تو اسے واپس کر دیں گے اور اگر کسی گنہہ گار کو دیکھیں گے تو اس کا استقبال کریں گے۔ جو ان کی برائی کرے گا اس کی تعظیم کریں گے۔ غیر حلال زادوں کی کثرت ہو جائے گی اور باپ اپنی اولاد کے اعمال قبیحہ کو دیکھ کر خوش ہوں گے نہ انہیں منع کریں گے نہ باز رکھیں گے۔ مرد اپنی زوجہ کو قبیح حالت میں دیکھے گا نہ اسے منع کرے گا نہ اسے باز رکھے گا بلکہ اس کے حاصل کردہ مال کو خرچ کرے گا یہاں تک کہ اگر وہ عورت طول و عرض میں مناکحت کرتی پھرے تو وہ اسے مہتم نہ کرے گا۔ اور اگر لوگ اس عورت کے بارے میں کچھ کہیں گے تو کان نہیں دھرے گا تو یہی وہ دیوث ہے خدا جس کا کوئی قول اور عذر قبول نہیں فرمائے گا۔ اس کی غذا اور نکاح حرام ہے اور شریعتِ اسلام میں اس کا قتل اور لوگوں کے درمیان اس کی تذلیل واجب ہے اور قیامت کے دن وہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اس وقت کے لوگ ماں باپ کو اعلانیہ گالیاں دیں گے۔ اور بزرگانِ قوم ذلیل ہوں گے اور کم درجہ عوام بلندی پائیں گے اور بے شعوری اور اعصاب زدگی بڑھ جائے گی۔ اخوت فی اللہ نایاب ہو جائے گی۔ حلال پیسے کم ہو جائیں گے۔ لوگ بدترین حالت کی طرف پلٹ جائیں گے۔ اس وقت شیاطین کی حکومت کا دور دورہ ہو گا اور سلاطین کمزور انسان اور عوام پر اس طرح جست کریں گے جیسے چیتا اپنے شکار پر جست کرتا ہے۔ مال دار اپنی دولت میں بخل کریں گے اور فقیر اپنی آخرت کو دنیا کے عوض فروخت کر دے گا افسوس ہے فقیر پر کہ زمانہ اسے خسارہ ذلت اور سبلی میں مبتلا کر دے گا وہ اپنے اہل و عیال میں ضعیف و حقیر ہو گا۔ اور یہ فقیر لوگ ان چیزوں کی خواہش کریں گے جو حلال نہیں ہیں تو جب ایسا ہو گا تو ان پر ایسے فتنے وارد ہوں گے کہ ان سے مقابلہ کی طاقت نہ ہو گی۔
    آگاہ ہو جاؤ کہ فتنہ کا آغاز ہجری اور رقطی ہیں(“ھجر“ بحرین کی نواحی بستی ہے۔ ہجری وہاں کا رہنے والا ہو گا اور رقطی اس شخص کو کہتے ہیں جسے برص کا مرض یا کوئی ایسا مرض ہو جس میں جلد پر داغ ہو جائیں) اور اس کا اختتام سفیانی اور شامی ہیں÷ اور تم سات طبقوں میں منقسم ہو۔ پس پہلا طبقہ سختی سے زندگی گزارنے والوں کا ہے(دوسرے نسخہ کے مطابق پہلا طبقہ تقوی کی افزونی کا ہے)اور یہ سنہ70 ہجری تک ہے۔ اور دوسرا طبقہ مروت و مہربانی والوں کا ہے یہ سنہ 230 ہجری تک ہے۔ اور تیسرا طبقہ روگردانی کرنے والوں اور روابط کاٹنے والوں کا ہے یہ سنہ 550 ہجری تک ہے۔ اور چوتھا طبقہ سگ فطرتوں اور حاسدوں کا ہے یہ سنہ 700 ہجری تک ہے۔اور پانچوں طبقہ تکبر کرنے والوں اور بہتان لگانے والوں کا ہے یہ سنہ 820 ہجری تک ہے۔ اور چھٹا طبقہ فساد اور قتل اور دشمنوں سے سگ فطری کرنے والوں کا اور خائنوں کے ظاہر ہونے کا ہے یہ سنہ 940 تک ہے اور ساتواں طبقہ حیلہ جویوں، فریب کاروں، جنگ آزماؤں، مکاروں، دھوکہ بازوں، فاسقوں، روگرداں رہنے والوں اور ایک دوسرے سے دشمنی کرنے والوں کا ہے۔ یہ طبقہ لہو و لعب کے لئے عظیم الشان مکانات بنوانے والوں کا، غذائے حرام کے شائقین کا، مشکل امور میں گرفتاروں کا،شہوت دانوں کا، شہروں اور گھروں کی تباہی کا اور عمارات اور محلات کے انہدام کا ہے۔ اس طبقہ میں منحوس وادی سے ملعون(سفیانی شام میں وادی یابس سے خروج کرے گا) ظاہر ہو گا اس وقت پردے چاک اور بروج منکشف ہوں گے اور یہی حالات رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا قائم مہدی( صلوات اللہ وسلامہ علیہ) ظاہر ہو گا۔
    راوی کا بیان ہے یہ سن کر کوفہ کے سردار اور عرب کے اکابر اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور بولے یا امیرالمومنین! یہ فتنے اور عظیم حادثے جس کا آپ نے ذکر کیا ہمیں ان کے اوقات بھی بتا دیں۔ قریب ہے کہ آپ کی باتوں سے ہمارے دل پھٹ جائیں اور ہماری روحیں ہمارے جسموں کو چھوڑ دیں۔ ہمارا آپ سے جدا ہونا کس قدر افسوس ناک ہے خدا ہمیں آپ کے سلسلے میں کوئی بدی اور مکروہ نہ دکھلائے۔ پس علی علیہ اسلام نے فرمایا کہ جس چیز کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو اس پر حکم قضا جاری ہو چکا ہے۔ ہر شخص موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔ پس علی علیہ اسلام کے اس قول پر کوئی ایسا نہ تھا جس نے گریہ نہ کیا ہو۔ پھر آپ نے صدائے کرب بلند کی اور فرمایا آگہ ہو جاؤ کہ فتنوں کا آنا اس چیز کے بعد ہے، جس کی خبر دے رہا ہوں۔ مکہ اور مدینہ کے بارے میں کہ وہاں غبار آلود بھوک اور سرخ موت ہو گی۔ افسوس ہے کہ تمہارے نبی کے اہلبیت پر اور تمہارے شریفوں پر گرانی، بھوک، فقر، اور خوف کے سبب یہاں تک کے وہ لوگوں کے درمیان بدترین حال میں ہوں گے اور اس زمانے میں تمہاری مسجدوں میں ان کے حق میں کوئی آواز سنائی نہ دے گی اور نہ کسی پکار پر کوئی لبیک کہے گا۔ پھر اس کے بعد زندہ رہنے میں کوئی خیر نہیں ہے۔ اس وقت تم پر کافر بادشاہ حکومت کریں گے۔ جو شخص ان کی نافرمانی کرے گا اسے قتل کر دیں گے اور جو اطاعت کرے گا اسے دوست رکھیں گے۔ آگاہ ہو جاؤ، کہ پہلے تم پر بنی امیہ حکمران ہوں گے پھر بنی عباس کے بادشاہ ہوں گے۔ ان میں سے بہت سے قتل ہوں گے اور لوٹے جائیں گے۔ پھر آپ نے فرمایا ہائے ہائے وائے ہو تمہارے اس شہر کوفہ پر اور جو کچھ سفیانی کے ہاتھوں اس زمانے میں اس شہر پر ہونے والا ہے۔ جبکہ وہ ہجر(ہجر بحرین کا ایک شہر ہے اور دوسرے قول کے مطابق یمامہ سے دس روز اور بصرہ سے پندرہ دن کے فاصلے پر ایک علاقہ ہے)کی طرف سے آئے گا۔ ایسے گھوڑوں پر جنہیں شیروں جیسے طاقتور بہادر اور شکاری ہنکا رہے ہوں گے۔ ان کے مردار کے نام کا پہلا حرف شین ہے۔ یہ اس وقت ہو گا۔ جب جوان اشتر(اشتر نام بھی ہو سکتا ہے اور صفت بھی۔ گندم گول چہرے والے کو بھی کہتے ہے اور اٹھی ہوئی پلکوں والے کو بھی) خروج کرے گا اور میں اس کے نام سے واقف ہوں۔ وہ بصرہ آئے گا اور وہاں کے سرداروں کو قتل کرے گا اور عورتوں کو اسیر کرے گا۔ اور میں بہت سی جنگوں سے واقف ہوں۔ جو وہاں اور دوسری جگہ پر ہوں گی۔ وہاں ٹیلوں اور پشتوں کے درمیان کئی جنگیں ہوں گی۔ پس وہاں گندمی رنگ کا ایک شخص قتل کیا جائے گا اور وہاں بت پوجا جائے گا۔ پھر وہ حرکت کرے گا اور اسیر عورتوں کو لے جائے گا۔ اس وقت چیخیں بلند ہوں گی اور بعض بعض پر حملہ آور ہوں گے۔ پھر وائے ہو تمہارے کوفہ پر کہ وہ تمہارے گھروں میں اتر جائے گا، تمہاری عورتوں کا ملک بن جائے گا اور تمہارے بچوں کو ذبح کرے دے گا اور تمہاری عورتوں کی ہتک حرمت کرے گا اس کی عمر طویل ہے اور اس کا شر کثیر ہے اور اس کے مرد شیر ہیں وہ وہاں ایک بڑی جنگ لڑے گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ اس میں فتنے ہیں۔ اس میں منافقین، حق سے روگردانی کرنے والے دین خدا میں اور خدا کی بستیوں میں فساد کرنے والے اور بندوں کی راہ میں باطل کا لباس پہننے والے ہلاک ہو جائیں گے۔ اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ لوگ ایسی قوم کو قتل کر رہے ہیں، جس سے لوگ ڈرتے تھے اور جس کی آواز سے خوف کھاتے تھے، کتنے ایسے مقتول بہادر ہوں گے جن کی طرف دیکھنے سے بھی ہیبت ہو گی۔ پس ایک عظیم بلا نازل ہو گی، جس کے سبب ان کے آخری لوگ ان کے اول سے ملحق ہو جائیں گے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تمہارے شہر کے لئے علامات اور نشانیاں ہیں اور عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے عبرت ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ سفیانی بصرہ میں تین بار داخل ہو گا۔ عزت دار کو ذلیل کرے گا۔ اور عورتوں کو اسیر کرے گا وائے ہو شہر بصرہ پر کھنچی ہوئی تلوار سے زمین پر پڑے ہوئے مقتول سے اور بے عزت عورت سے، پھر وہ بغداد کی طرف آئے گا کہ وہاں کے باشندے ظالم ہیں۔ پس اللہ اس کے اور اس کے باشندوں کے درمیان حائل ہو جائے گا اور کس قدر بغداد اور اہلِ بغداد پر شدت اور سختی ہو گی اور سرکشی بڑھ جائے گی اور بادشاہ مغلوب ہو جائے گا۔ پس وائے ہو ویلم اور شاہون(اسے شاوان بھی پڑھا گیا ہے۔ شاوان مرو(خراسان) کا ایک دیہات ہے اور شاہون مازندران کے علاقے میں ہے۔ جب کہ شاہی قادسیہ کی ایک بستی ہے۔ ویلم گیسون، مازندران کے سلسلہ کوہ کو کہتے ہیں جس کے شمال میں قزوین ہے اور الموت اسی کا شہر ہے)والوں پر اور عجمیوں پر کہ صاحبِ فہم نہیں ہیں تم انہیں سفید چہروں(اس سے یورپی اقوام بھی مراد ہو سکتی ہیں) اور سیاہ دلوں والا دیکھو گے یہ آتشِ جنگ بھڑکانے والے ان کے دل سخت اور ان کے ضمیر سیاہ ہیں۔ وائے ہو پھر وائے ہو اس شہر پر جس میں یہ داخل ہوں اور اس زمین پر جس پر یہ سکونت کریں۔ ان کا خیر معدوم اور ان کا شر غالب ہو گا۔ ان کے چھوٹے ہمت میں ان کے بڑوں سے زیادہ ہوں گے۔ گروہ ان تک پہنچیں گے۔ اور ان کے درمیان کثرت سے لڑائیاں ہوں گی اور اہلِ جبال کے کُرد ان کے دوست ہو جائیں گے اور سارے شہروں کے بھی اور ہمدان کے کُرد بھی ان میں اضافہ کا سبب ہوں گے۔اور ہمدان، حمزہ اور عدوان(ہمدان،حمزہ اور عدوان عرب کے قبیلوں کے نام ہیں) بھی ان کے ساتھ ہوں گے ۔
    اور وائے ہو رے پر کہ وہاں قتلِ عظیم ہو گا۔ عورتیں اسیر ہوں گی اور بچے ذبح کئے جائیں گے اور مرد ختم ہو جائیں گے اور وائے ہو فرنگ کے شہروں پر کہ قتل وغارت اور ہلاکت وتباہی ہو گی اور وائے ہو سندھ (قدیم جغرافیہ میں سندھ ہندوستان سے علیحدہ ایک علاقہ تھا) اور ہندوستان کے شہروں پر کہ اس زمانے میں وہاں قتل ذبح اور خرابی ہو گی اور وائے ہو جزیرہ قیس( جزیرہ قیس خلیج فارس میں ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو موتی نکالنے کے سبب معروف ہے)پر ایک ڈرانے والے شخص سے جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ آئے گا تو وہاں کے سارے باشندوں کو قتل کر دے گا۔ اور یہ اچانک ہو گا۔ میں وہاں پانچ بڑے واقعات جانتا ہوں پہلا ساحلِ بحر پر ہو گا جو میدان کے قریب ہے۔ دوسرا کوشا(کوشا جزیرہ قیس کے قریب ایک علاقہ ہے) کے بالمقابل تیسرا مغربی علاقے میں چوتھا زولتین(کوشا کے قریب دو چھوٹے دیہات ہیں)کے درمیان اور پانچواں میدانی علاقے کے بلمقابل ہو گا۔ وائے ہو اہلِ بحرین پر کہ ان پر پے در پے تباہیاں آئیں گی ہر جانب سے ان کے بڑے اچک لئے جائیں گے اور چھوٹے اسیر ہوں گے۔ میں وہاں سات واقعات جانتا ہوں۔ پہلا اس جزیرہ میں جو شمال کی طرف الگ واقع ہے جس کا نام سماہیج(سماہیج عمان اور بحرین کے درمیان ایک جزیرہ ہے) ہے، دوسرا قاطع میں چشمہ شہر کی نہر کے درمیان، شمال مغربی حصہ میں، ابلہ اور مسجد کے درمیان، بلند پہاڑ کے درمیان، دو ٹیلوں کے درمیان جو جبلِ حبوہ کے نام سے مشہور ہیں۔ پھر وِکرخ کی طرف آئے گا ٹیلہ اور راستہ کے درمیان اور بیر کے درخت کے درمیان جو بدیرات یا سدیرات کہلاتے ہیں۔ ماجی کی نہر کی طرف پھر حورتین(حورتین مذکورہ علاقے کی دو وادیوں کے نام ہیں) کی طرف اور یہ ساتویں بڑی مصیبت ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ ایک سرکردہ عرب جو اکابر میں ہو گا اپنے گھر میں قتل کر دیا جائے گا اور اس کا گھر ساحلِ بحر کے قریب ہو گا۔ وہاں کے حاکم کے حکم سے اس کا سر قلم کیا جائے گا تو عرب اس پر مشتعل ہو جائیں گے پس بہت مرد قتل ہوں گے اور مال لوٹا جائے گا اس کے بعد عجم عرب پر خروج کریں گے اور خط(خط وہ علاقہ ہے جہاں کے خطی نیزے مشہور ہیں قطر اور قطیف وغیرہ اس کے قریبی علاقے ہیں)کے شہروں تک ان کا پیچھا کریں گے۔ وائے ہو خط والوں پر کہ ان پر پے در پے مختلف واقعے وارد ہوں گے پہلا بطحا(سنگریزوں والی زمین کا نام ہے)دوسرا دیورہ میں،ایک واقعہ صغصف میں(دیورہ کو دبیرہ پڑھا گیا ہے اور یہ بحرین کا ایک گاؤں ہے۔صغصف اسی علاقے کا ایک شہر ہے) ایک ساحل پر ایک دارین میں ایک اونٹ کا گوشت بیچنے والوں کے بازار میں ایک گلی کوچوں میں اور ایک لوگوں کے ہجوم میں ایک جرارہ میں ایک مدراس میں اور ایک تاروت میں۔ اور وائے ہو ہجر پر کہ کرخ کی طرف سے اس کی شہر پناہ پر جو کچھ ہو گا اور عظیم واقعہ قطر(قطر بحرین کے قریب عمان اور عقیر کے درمیان واقع ہے)میں ہو گا جو ایک ٹیلے کے نیچے ہو گا جو ایک ٹیلے کے نیچے ہو گا جس کا نام حسینی ہے۔ پھر اس کے بعد ایک واقعہ فرج(فرج فارس کا ایک شہر ہے) میں ہو گا۔پھر قزوین میں ہو گا۔پھر اراکہ(اراکہ قزوین کے قریب ایک شہر ہے) پھر ام خنور میں۔ وائے ہو نجد پر کہ قحط اور مہنگائی ہو گی میں وہاں کے بڑے بڑے واقع جانتا ہوں جو مسلمانوں کے درمیان ہوں گے۔ وائے ہو بصرہ پر کہ وہاں طاعون ہو گا اور پے در پے فتنے ہوں گے اور میں وہ عظیم واقعات جانتا ہوں جو واسط میں ہوں گے اور مختلف واقعات جو شط فرات اور مجینبہ(مجینبہ عراق اور یمن کے درمیان واقع ہے)کے درمیان ہوں گے اور وہ واقعات جو عونیات (عونیہ یمامہ کا ایک گاؤں ہے) میں ہوں گے اور وائے ہو بغداد پر رے کی طرف سے کہ موت ہو گی قتل ہو گا۔اور خوف ہو گا جو اہلِ عراق پر محیط ہو گا اس وقت ہو گا کہ جب ان کے درمیان تلوار چلے گی۔ پس اتنے قتل ہوں گے جتنے خدا چاہے گا اور اس کی علامت یہ ہے کہ جب روم کا بادشاہ کمزور ہو جائے گا اور عرب مسلط ہو جائیں گے (یہاں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمزوری کی وجہ سے عراق کا انتظام عراقی حکومت کے سپرد کرنے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا) اور لوگ فتنوں کی طرف چلنے لگیں چیونٹیوں کی طرح تو اس وقت عجم عرب پر خروج کریں گے اور بصرہ پر غالب آ‌جائیں گے۔ وائے ہو فلسطین پر کہ ناقابلِ برداشت فتنے وہاں وارد ہوں گے۔ تمام شہروں میں مغرب میں مشرق میں جنوب میں شمال میں، آگاہ ہو جاؤ کہ لوگ ایک دوسرے پر سوار ہو جائیں گے اور مسلسل جنگیں ان پر جست کرتی رہیں گے اور یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا کیا ہو گا اور تمہارا پروردگار بندوں پر ظلم نہیں کرتا پھر آپ نے فرمایا کہ بنی عباس میں جو خلافت سے خلع ہوا یعنی مقتدرباللہ اس پر خوشی نہ منانا وہ تو تغیر کی علامت ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں ان کے بادشاہوں کو اس وقت سے اُس زمانے تک پہچانتا ہوں۔
    تمہارے سرمایہ دار متکبر ہوں گے اور تمہاری وفا کم ہو گی“انا للہ و انا الیہ راجعون“ پڑھتا ہوں اس زمانے کے لوگوں کے لئے کہ ان پر مصیبتیں ٹوٹ کر آئیں گی اور وہ ان آفات سے عبرت حاصل نہیں کریں گے۔ شیطان ان کے جسموں میں مخلوط ہو گا، ان کے بدنوں کے اندر داخل ہو جائے گا۔ ان کے خون میں دوڑے گا اور انہیں جھوٹ بولنے کا وسوسہ کرے گا۔ یہاں تک کہ فتنے شہروں پر سواری کریں گے اور مسکین مومن ہمارا چاہنے والا کہے گا کہ میں کمزوروں میں سے ہوں۔ اس زمانے میں بہترین انسان وہ ہو گا جو اپنے نفس کی حفاظت کرے اور لوگوں سے معاشرت چھوڑ کر اپنے گھر میں مخفی رہے اور وہ جو بیت المقدس میں اس لئے سکونت کرے کہ وہ آثارِ انبیاء کا خواہشمند ہو۔ اے لوگو! برابر نہیں ہو سکتے ظالم و مظلوم اور نہ جاہل اور عالم اور نہ حق و باطل اور نہ عدل و ظلم برابر ہو سکتے ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کی شریعتیں آشکارا ہیں مجہول نہیں ہیں اور کوئی نبی ایسا نہیں جس کے اہل بیت نہ ہوں اور اہل بیت زندگی نہیں کرتے مگر یہ کہ ان کے مخالفین اور دشمن ان کے نور کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم تمہارے نبی کے اہلِ بیت ہیں۔ دیکھو! اگر وہ کہیں کہ تم ہمیں دشنام دو تو دشنام دے دینا اور اگر وہ کہیں کہ ہم پر ناروا کہو تو کہہ دینا اور اگر وہ کہیں کہ ہم اہلِ بیت کو رحمتِ خدا سے دور کہو تو کہہ دینا اور اگر وہ کہیں کہ ہم اہلِ بیت سے برات کا اظہار کرو تو نہ کرنا اور اپنی گردنوں کو تلوار کے نیچے رکھ دینا اور اپنے یقین کی حفاظت کرنا اس لئے کہ جو شخص بھی ہم لوگوں سے برات کرے اس سے خدا و رسول برات کرتے ہیں۔ آگاہ ہو جاؤ کہ کوئی دشنام اور حرفِ ناروا ہم تک نہیں پہنچتا نہ رحمتِ خدا سے دوری پہنچتی ہے۔ پھر فرمایا کہ افسوس ہے اس امت کے مسکینوں پر اور یہ لوگ ہماری پیروی کرنے والے اور ہمارے چاہنے والے ہیں۔ یہ لوگ لوگوں کہ نزدیک کافر ہیں اور خدا کے نزدیک نیک ہیں لوگوں کے نزدیک جھوٹے ہیں اور خدا کے نزدیک سچے ہیں اور لوگوں کے نزدیک ظالم ہیں اور خدا کے نزدیک مظلوم ہیں۔لوگوں کے نزدیک جور کرنے والے اور خدا کے نزدیک عادل ہیں اور لوگوں کے نزدیک خسارہ میں ہیں اور خدا کے نزدیک فائدے میں ہیں یہ لوگ خدا کی قسم کامیاب ہیں اور منافق خسارے میں ہیں۔ اے لوگو! تمہارے ولی صرف اور صرف اللہ، رسول اور وہ مومن ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔ اے لوگو! میں گویا دیکھ رہا ہوں کہ ان میں کا ایک گروہ کہے گا کہ علی ابنِ ابی طالب غیب جانتے ہیں اور وہ رب ہیں۔ مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور زندوں کو مارتے ہیں اور وہ ہر شے پر قادر ہیں(یہ نصیریوں کا ایک گروہ ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے) یہ جھوٹے ہیں رب کعبہ کی قسم اے لوگو! ہمارے بارے میں جو چاہو کہو لیکن ہمیں بندہ رکھو (خدا نہ بناؤ ہم بندے ہیں خدا نہیں) آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں عنقریب اختلاف اور تفرقہ ہو گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ جب سن ایک سو تریسٹھ(163) ہجری گزر جائے تو یہ مصیبتوں والے سنوں کا آغاز اور فتنوں کا شروع ہو گا جو تم پر نازل ہو گا اس کے بعد اس کے عقب میں وہماء ہے۔یہ فتنوں کے ہجوم کا سال ہے۔ پھر غزوہ کا سال ہے جو اپنے زمانے والوں سے جنگ کرے گا، پھر سقطاء ہے۔ جس میں بچے ماؤں کے پیٹ سے ساقط ہو جائیں گے، پھر کسحاء ہے جس میں لوگ قحط اور رنج و محن سے درماندہ ہو جائیں گے۔ پھر فتناء ہے جو اہلِ زمین کو فتنوں میں ڈال دے گا اور نازحہ ہے جو لوگوں کو ظلم کی طرف دھکیلے گا اور غمراء ہے جو لوگوں کو ظلم سے گھیرے گا اور منفیہ ہے جو دلوں سے ایمان کو لے جائے گا۔ اور کراء ہے جس میں جنگی سوار حملہ آور ہوں گے ہر طرف سے۔ اور برشاء ہے جس میں بروص شخص خراسان سے خروج کرے گا۔ اور سؤلاء ہے جس میں پہاڑوں کا حکمران خروج کرے گا اور سمندری چیزوں تک آ کر لوگوں کو مقہور کرے گا، پھر خدا ان جزیرے کے باشندوں کو نصرت عطا کرے گا۔ پھر اس کے بعد عرب خروج کریں گے اور سیاہ پرچم والا بصرہ پر خروج کرے گا، پس جوان(گروہ) اس کی طرف قصد کرے گا اور شام تک اس کا تعاقب کرے گا اور عنا ہے جس میں سوار بصرہ کے علاقے میں شدت کے ساتھ داخل ہوں گے اور طحناء ہے جو لوگوں کے رزق کو ہر علاقے میں پیس کے رکھ دے گا اور فاتنہ ہے جو عراقیوں کو فتنہ میں ڈال دے گا اور مرحاء ہے جو لوگوں کو غریب کر کے یمن لے جائے گا اور سکتاء ہے جس میں شام میں فتنے بند ہوں گے اور حدراء ہے جب فتنے رواں میں اتریں گے جو بحرین کے بالمقابل مشہور جزیرہ ہے اور طموح ہے جب خراسان میں شدید فتنے ہوں گے اور جوراء ہے جب فتنے زمین فارس پر ستمگری کریں گے اور ہوجاء ہے جب سر زمین خط پر فتنوں کا ہیجان ہو گا اور طولار ہے جب جنگیں شام میں طویل ہوں گی۔ اور منزلہ ہے جب فتنے عراق میں نازل ہوں گے اور طائرہ ہے جب فتنے سر زمینِ روم پر پرواز کریں گے۔ اور متصلہ ہے جب فتنے سر زمینِ روم سے متصل ہو جائیں گے اور محربہ ہے جب شہر زور میں کُرد ہیجان میں آئیں گے اور مرملہ ہے کہ عراق کی عورتیں بیوہ ہو جائیں گی اور کاسرہ ہے کہ فوجی اہلِ جزیرہ کو توڑ کر رکھ دیں گے اور ناحرہ ہے کہ لوگ شام میں نحر ہوں گے اور طامحہ ہے کہ بصرہ میں فتنہ شدید ہو گا اور قتالہ ہے کہ جب لوگ راس العین(راس العین حران اور نصیبین کے درمیان مشہور شہر ہے) میں پل کے اوپر قتل ہوں گے اور مقبلہ ہے کہ فتنے یمن و حجاز کی طرف متوجہ ہوں گے اور صروخ ہے جو عراقیوں پر اس طرح چیخے گا کہ انہیں امن نہیں ہو گا اور مسمعہ ہے جو اہلِ ایمان کو خواب میں بات سنائے گا اور سابحہ ہے جب فوجیں اہلِ جزیرہ اور کردوں کو قتل کرنے کے لئے سمندروں پر تیرتی ہوئی جائیں گی۔ اس سال بنی عباس یا ایک مرد اپنی خواب گاہ میں قتل ہو گا اور کربا ہے کہ مومنی کرب و حسرت سے مر جائیں گے اور غامرہ ہے کہ قحط لوگوں کو گھیر لے گا اور سائلہ ہے کہ نفاق دلوں میں جاری ہو گا اور غرقاء ہے کہ اس سال اہلِ خط غرق ہو جائیں گے اور حرباء ہے کہ خط والوں اور ہجر والوں پر قحط وارد ہو گا ہر علاقے میں یہاں تک کہ مانگنے والا چکر لگائے گا نہ کوئی اسے کچھ دے گا اور نہ رحم کھائے گا اور غالیہ ہے کہ میرے متبعین میں سے ایک گروہ غلو کرے گا اور مجھے خدا بنا لے گا اور یقینی طور پر ان کے قول سے بری اور بے زار ہوں۔ اور مکثاء ہے کہ لوگ رک جائیں گے۔ پس قریب ہے کہ منادی آواز دے سال میں دو بار کہ ملک آلِ علی ابن ابی طالب میں ہے وہ آواز جبریل کی ہو گی اور ابلیس ملعون آواز دے گا کہ ملک آلِ ابو سفیان میں ہے۔ پس اس وقت سفیانی خروج کرے گا اور ایک لاکھ افراد اس کی پیروی کریں گے پھر وہ عراق میں وارد ہو گا۔ پھر جلولا(جلولا بغداد کے قریب ایک قصبہ ہے)اور خانقین(خانقین ایران کی سرحد پر واقع عراقی شہر ہے) کے درمیان راہ منقطع کر دے گا۔ اور خانقین میں ایک زبان آور شخص کو قتل کرے گا۔ وہ شخص مینڈھے کی طرح ذبح ہو جائے گا۔ پھر شعیب ابنِ صالح سینستان اور سرکنڈوں کے علاقے سے خروج کرے گا۔ وہ ایک کانا شخص ہو گا۔ پس تعجب ہے اور سارا تعجب ہے ماہ جمادی اور ماہ رجب میں جو کچھ کہ ارضِ جزائر میں ہو گا۔ اس وقت گم شدہ ظاہر ہو گا ٹیلے کے درمیان سے وہ صاحبِ نصرت ہو گا اور وہ اس دن کانے سے جنگ کرے گا۔ پھر راس العین میں زرد رنگ کا ایک شخص پل پر ظاہر ہو گا اور ستر ہزار ایسے اشخاص کو قتل کرے گا جو اسلحوں سے لیس ہوں گے اور فتنہ عراق کی طرف پلٹے گا اور فتنہ شہر زور(شہرزور ہمدان کے کردوں کا پہاڑٰ علاقہ ہے) میں ظاہر ہو گا یہ عظیم ترین آفت اور بھیانک بلا ہو گی جس کا نام ہلہم یا ہلیم ہو گا۔
    راوی نے کہا پھر ایک جماعت اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی یا امیرالمومنین! یہ بھی بتلا دیں کہ یہ اصفر(زرد رنگ والا) کہاں سے خروج کرے گا اور اس کے وصف ہمیں بتلا دیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اس کا وصف بتلاتا ہوں۔ اس کی پیٹھ چوڑی ہے۔ پنڈلیاں چھوٹی ہیں، جلد غصہ کرنے والا ہے بائیس یا بارہ(یہ تردید یا تو لوح محو و اثبات کی روشنی میں خود امام کی طرف سے ہے اور اگر آپ کی طرف سے نہیں ہے تو پھر راوی کا سہو ہے۔واللہ اعلم)جنگیں لڑے گا وہ ایک کروی بوڑھا ہے، خوش شکل اور طویل العمر ہے۔ روم کے حکمران اس کے عقیدے پر آ جائیں گے اور اپنی عورتوں کو اپنے پیروں کے نیچے قرار دیں گے۔ وہ اپنے دین کی سلامتی رکھتا ہے۔ اس کا یقین اچھا ہے اس کے خروج کی نشانی یہ ہے کہ شہر روم کی بنیاد تین سرحدوں پر اس کے ہاتھوں تجدید پائے گی۔ پھر اس کروی کو ایک بوڑھا صابِ سراق تباہ کر دے گا جو سرحدوں پر غالب آ جائے گا۔ پھر وہ مسلمانوں کا مالک بن جائے گا اور بغداد کے لوگ اس کے لوگ اس کے لئے مزید اضافہ ہوں گے۔ پھر بابل(حلہ شہر عراق میں ہے اس کے قریب ہی بابل کے کھنڈرات موجود ہیں اب حلہ کا جدید نام بھی بابل ہے)میں شدید جنگ ہو گی جس میں خلقِ کثیر ہلاک ہو گی اور بکثرت زمینیں دھنس جائیں گی اور بغداد میں فتنہ واقع ہو گا اور پکارنے والا پکارے گا کہ فرات کے کنارے اپنے بھائیوں کے ساتھ ملحق ہو جاؤ۔ پھر اہلِ بغداد چیونٹیوں کی طرح اپنے گھروں سے نکلیں گے۔ ان میں سے پچاس ہزار افراد قتل ہوں گے پھر شکست کھا کر پہاڑوں میں پناہ لیں گے اور باقی ماندہ بغداد آ جائیں گے پھر پکارنے والا دوسری بار پکارے گا وہ پھر باہر آ جائیں گے اور اُسی طرح قتل ہوں گے پھر سر زمین جزائر تک خبر پہنچے گی تو وہ کہیں گی تو وہ کہیں گے اپنے بھائیوں تک پہنچو تو ان کے درمیان سے ایک زرد رنگ کا شخص خروج کرے گا اور بہت سے گروہوں کے ساتھ سرزمینِ خط پر آئے گا اور اہلِ ہجر اور اہلِ نجد بھی اس سے ملحق ہو جائیں گے۔ پھر یہ لوگ بصرہ میں داخل ہوں گے تو اہلِ بصرہ ان کے ساتھ ہو جائیں گے۔ پھر ایک ایک شہر سے دوسرے شہر میں داخل ہوتے ہوئے حلب پہنچیں گے اور وہاں بڑی ہولناک جنگ ہو گی وہاں وہ سو دنوں تک رہیں گے پھر اصفر(زرد رنگ والا) جزیرہ میں داخل ہو گا اور شام کو حاصل کرنے کے لئے بڑی بھیانک جنگ کرے گا۔ جو پچیس دن رہے گی اور خلق کثیر قتل ہو گی۔ پھر عراق کی فوج بلادِ جبل(بلادِ جبل کردوں کے علاقے کا نام ہے)پر چڑھائی کرے گی اور اصفر کوفہ آئے گا اور وہیں رہے گا کہ شام سے خبر آئے گی کہ حاجیوں کے لئے رستہ بند ہو گیا اس وقت حاجی مکہ جانے سے روک دئیے جائیں گے اور شام اور عراق سے کوئی بھی حج نہ کر سکے گا۔ البتہ مصر سے حج ہو گا۔ پھر اس کے بعد حج کا راستہ بند ہو جائے گا اور ایک چیخنے والا روم کی طرف چیخے گا کہ اصفر(زرد رنگ والا) مارا گیا۔ پھر وہ خروج کرے گا اور روم کی فوج کی طرف جو ہزار سالاروں (عبارت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اصفر(زرد رنگ والا) ہزار سالاروں کے ساتھ خروج کرے گا)پر مشتمل ہو گی اور ہر سالار کے تحت ایک لاکھ اسلحہ والے سپاہی ہوں گے یہ لوگ سر زمینِ ارجون اور شہر سوواء(مدینہ السوواء اندلس میں ہے اور اس کے قریب ہی شہر ارجون ہے)کے قریب اتریں گے۔ پھر یہ تباہ شدہ شہر ام الثغور تک پہنچیں گے۔ یہ وہ شہر ہے کہ سام بن نوح نے یہاں قیام کیا تھا۔ پھر اس شہر کے دروازے پر بہت بڑی جنگ ہو گی اور روم کی فوج وہاں سے کوچ نہیں کرے گی۔
    پھر ان کے خلاف ایک مرد ایسی جگہ سے خروج کرے گا جس کا فوجیوں کو علم نہیں ہو گا۔ اس کے ساتھ لشکر ہو گا۔ پھر بڑی قتل وغارت ہو گی پھر فتنہ بغداد کی طرف پلٹے گا اور لوگ ایک دوسرے کو قتل کریں گے۔ پھر فتنہ اپنے انجام تک آ جائے گا اور صرف دو خلیفہ باقی رہ جائیں گے اور وہ دونوں ایک ہی دن قتل ہو جائیں گے ایک بغداد کے مغرب میں اور دوسرا مشرقی علاقے میں۔ یہ اس میں ہو گا جسے ساتویں طبقہ کے لوگ سنیں گے۔ اس وقت بکثرت خسف(زمین کا دھنسنا) واقع ہو گا اور واضح سورج گہن واقع ہو گا۔ کوئی اس عہد کے گناہگاروں کو گناہ سے منع کرنے والا نہ ہو گا۔ پھر ابن یقطین اور سرکردہ اصحاب میں سے کچھ لوگ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا امیرالمومنین! آپ نے ہمیں سفیانی شامی کے بارے میں بتلا دیا۔ اب ہماری خواہش ہے کہ آپ اس کے عمل کے بارے میں کچھ بتلائیں۔ فرمایا کہ میں نے تمہیں بتلا دیا کہ اس کا خروج فتنوں کا آخری سال میں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ تفصیل بتلائیے، ہمارے دل خوفزدہ ہیں۔ ہم آپ کے بیان سے بصیرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے خراج کی نشانی تین پرچموں کا اختلاف ہے ایک پرچم عرب کا ہے وائے ہو مصر والوں پر جو عرب کے ہاتھوں اسے پہنچے گا۔ اور ایک پرچم بحرین کے جزیرہ اوال سے بلند ہو گا۔ جو سرزمینِ فارس سے ہے اور ایک پرچم شام سے بلند ہو گا۔ پس ان کے درمیان ایک سال تک کا فتنہ رہے گا پھر بنی عباس سے ایک شخص خروج کرے گا تو اہلِ عراق کہیں گے کہ تمہارے پاس ایسی قوم آئی ہے جو پا برہنہ ہے اور مختلف خواہشات رکھنے والی ہے تو شام و فلسطینکے لوگ ان کی آمد کی خبر سے مضطرب ہوں گے اور شام اور مصر کے بڑوں سے رجوع کریں گے تو وہ کہیں گے کہ حکمران کے بیٹے کو بلاؤ وہ اسے بلائیں گے اور غوطہ دمشق کے علاقہ حرستا(حرستا دمشق کے قریب ایک آباد قصبہ ہے)میں اس سے ملاقات کریں گے۔ پس جب وہ ملاقات کرے گا تو وہ اپنے نانیہالیوں کو جو بنی کلاب اور بنی دھانہ سے ہوں گے، نکال دے گا اور اس کے لئے وادی یابس میں ایک معتدبہ تعداد ہو گی۔ وہ لوگ اس سے کہیں گے کہ اے شخص تیرے لئے جائز نہیں ہے کہ تو اسلام کو ضائع کردے، تو لوگوں کو نہیں دیکھتا کہ کتنے ہوں گے اور فتنہ میں ہیں تو اللہ کا تقوی اختیار کر اور اپنے دین کی نصرت کے لئے باہر نکل وہ کہے گا کہ میں تمہارا صاحب نہیں ہو وہ کہیں گے کیا تو قریش سے نہیں ہے؟ اور قیام کرنے والا بادشاہ کے اہل بیت سے نہیں ہے؟ تجھے اپنے نبی کیا اہل بیت پر غیرت نہیں آتی کہ ان طویل مدت میں کتنی ذلت و خواری وارد ہوئی ہے۔ تم جو خروج کرو گے وہ مال کی طلب یا عیش کی خاطر نہیں ہو گا بلکہ تم اپنے دین کی حمایت کرو گے لوگ اسی طرح پے در پے اس کے پاس آتے جاتے رہیں گے اور وہ پہلی مرتبہ منبر پر چڑھے گا اور خطبہ دے گا اور انہیں حکم جہاد دے گا اور بیعت لے گا کہ وہ اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔ اس وقت کہے گا کہ جاؤ اپنے خلفاء کے پاس جن کا امر مانتے رہے ہو رضا سے یا کراہت سے۔ پھر وہ غوطہ کی طرف خروج کرے گا۔
    اسی طرح وہ شہر بہ شہر داخل ہو کر جنگ کرتا رہے گا تو پہلی جنگ حمص میں ہو گی دوسری رقہ میں پھر قریہ سبا میں اور یہ حمص میں ہونے والی سب سے بڑی جنگ ہو گی پھر وہ دمشق واپس آ جائے گا اور لوگ اس سے قریب ہو جائیں گے۔ پھر ایک لشکر مدینہ بھیجے گا اور ایک لشکر مشرق(عراق)کی طرف بھیجے گا تو بغداد میں ستر ہزار افراد مارے جائیں گے اور وہ تین سو حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرے گا۔ پھر اس کا لشکر کوفہ کی طرف روانہ ہوگا۔ تو کتنے مرد و زن گریہ کناں ہوں گے اور وہاں بڑی خلقت قتل ہو گی اور مدینہ جانے والا لشکر جب سرزمینِ بیداء پر پہنچے گا تو جبریل ان پر عظیم صیحہ کریں گے تو پورے لشکر کو اللہ زمین میں دھنسا دے گا اور لشکر کے عقب میں دو شخص ہوں گے ایک خوشخبری دینے والا اور ایک ڈرانے والا۔ تو یہ دونوں لشکر پر وارد ہونے والی صورتِ حول کو دیکھیں گے کہ اہلِ لشکر کے سر زمین سے باہر ہیں اور دھڑ دھنسے ہوئے ہیں تو اپنا مشاہدہ بیان کریں گے۔ پھر جبریل ان دونوں پر صیحہ کریں گے تو ان کے چہرے کو اللہ پشتہ کی طرف کر دے گا ان میں کا خوشخبری دینے والا مدینہ آئے گا اور مدینہ والوں کو خوشخبری دے گا کہ اللہ نے انہیں بچا لیا اور دوسرا ڈرانے والا سفیانی کے پاس پلٹ کر جائے گا اور اسے فوج کی حالت کی خبر دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ صحیح خبر جہنیہ(جہنیہ بنی قضاعہ کے ایک قبیلے کا نام ہے)کے پاس ہے۔ کیونکہ یہ بشیر و نذیر جہنیہ سے ہیں۔پھر اولادِ رسول میں سے ایک گروہ جو اشراف ہوں گے شہر روم کی طرف فرار کریں گے تو سفیانی روم کے حکمران سے کہے گا کہ ہمارے غلاموں کو ہمیں واپس دے دو تو وہ انہیں واپس بھیج دے گا، سفیانی مسجد دمشق کے مشرقی حصہ میں ان کی گردنیں کاٹ دے گا اور کوئی اس عمل پر ٹوکنے والا نہ ہو گا اور اس کی نشانی یہ ہو گی کہ شہروں میں شہر پناہیں بنائی جائیں گی۔ آپ سے کہا گیا یا امیرالمومنین! وہ شہر پناہیں بھی ہم سے بیان کر دیں آپ نے فرمایا ایک شہر پناہ(شہر پناہ یا فصیل سے مراد غالبا راڈر کا نظام ہے)کی شام میں تجدید کی جائے گی اور دو عجوز میں اور حران میں اور ایک واسط میں اور ایک بیضاء میں اور دو کوفہ میں اور ایک شوستر میں اور ایک آرمینہ میں اور ایک موصل میں اور ایک ہمدان میں اور ایک ورقہ میں اور ایک دیارِ یونس میں اور ایک حمص میں اور ایک مطر دین میں اور ایک رقطاء میں اور ایک رہبہ میں اور ایک ویر ہند میں اور ایک قلعہ میں بنائی جائے گی۔ لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ جب سفیانی ظاہر ہو گا تو بڑی بڑی جنگیں ہوں گی۔ اس کی پہلی جنگ حمص میں ہو گی پھر حلب میں پھر رقہ میں اور پھر قریہ سبا میں پھر راس العین میں پھر نصیبین میں اور پھر موصل میں اور یہ بڑی بھیانک جنگ ہو گی۔ پھر موصل میں بغداد کے مرد جمع ہو جائیں گے اور دیارِ یونس سے لخمہ تک بڑی ہولناک جنگ ہو گی، جس میں ستر ہزار مارے جائیں گے اور موصل میں شدید ترین قتال ہو گا تو سفیانی وہاں پہنچے گا اور ساٹھ ہزار افراد کو قتل کرے گا اور وہاں قارون کے خزانے ہیں اور وہاں عظیم حالات رونما ہوں گے جبکہ زمین دھنس چکی ہو گی سنگباری اور مسخ رونما ہو چکے گا اور دوسری زمینوں کی نسبت جلد دھنسے گی اس لوہے کی سیخ سے جو لرزنے والی زمین میں ہے اور سفیانی مسلسل ان لوگوں کو قتل کرے گا، جن کے نام محمد، علی، حسن، حسین، فاطمہ، جعفر، موسٰی، زینب، خدیجہ، اور رقیہ ہوں گے۔ یہ اس بغض و کینہ کے سبب ہو گا جو اسے آلِ محمد سے ہو گا۔ پھر سارے شہروں میں لوگ بھیجے گا اور بچوں کو جمع کروائے گا تو بچے اس سے کہیں گے کہ اگر ہمارے باپوں نے تیری نافرمانی کی ہے تو ہم نے کیا کیا ہے؟ تو ان بچوں میں سے جس کا نام مذکورہ ناموں میں سے ہو گا اسے تیل میں ڈلوا دے گا۔ پھر وہ تمہارے اس شہر کوفہ کی طرف آئے گا اور اس کی گلیوں میں حجام کی طرح چکر لگائے گا اور مردوں کے ساتھ وہی کرے گا جو بچوں کے ساتھ کیا تھا اور کوفہ کے دروازہ پر ان لوگوں کو پھانسی دے دیگا جن کے نام حسن و حسین ہوں گے۔ پھر وہ مدینہ جائے گا اور وہاں تین دن تک لوٹ مار کرے گا اور خلقِ کثیر کو قتل کر دے گا اور مدینہ کی مسجد پر حسن و حسین نامی لوگوں کو پھانسی دے گا۔ اس وقت اس کا خون جوش مارے گا۔ جیسا کہ یحیٰی بن ذکریا کے خون نے جوش مارا تھا۔ جب وہ دیکھے گا تو اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہو جائے گا اور وہ واپس شام کی طرف فرار اختیار کرے گا۔ تو وہ پورے راستے اپنا کوئی مخالفت کرنے والا نہیں دیکھے گا۔ جب وہ شہر میں داخل ہو جائے گا تو وہ شراب نوشی اور دیگر گناہوں میں اپنے آپ کو معتکف کر لے گا اور اپنے ساتھیوں کو انہی کاموں کا حکم دے گا۔ پھر سفیانی اس حالت میں باہر آئے گا کہ اس کے ہاتھ میں ایک حربہ ہو گا اور ایک عورت کو لانے کا حکم دے گا کہ راستے کے بیچ وہ اس عورت سے بدکاری کرے وہ بدکاری کرے گا۔ پھر اس کے بعد اس عورت کا شکم چاک کر دے گا اور اس کے پیٹ سے بچہ نکل کر زمین پر گر جائے گا اس وقت کوئی یہ جرات نہ رکھتا ہو گا کہ اس عمل سے اظہارِ نفرت کرے۔ اس وقت آسمانوں میں فرشتے مضطرب ہو جائیں گے اور اللہ قائم کو جو میری ذریت سے ہے خروج کا اذن دے گا اور وہی صاحب الزمان ہے۔ پھر اس کی خبر ہر جگہ مشہور ہو جائے گی اس وقت جبریل صخرہ بیت المقدس پر اتریں گے اور اہلِ دنیا کے لیے آواز بلند کریں گے کہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا یقینا باطل بھاگنے والا ہے۔ پھر امیر المومنین علیہ اسلام نے ٹھنڈی سانس بھری اور نالہ و زاری کی اور فرمانے لگے:
    اشعار کا ترجمہ:۔
    میرے بیٹے جب ترک ہیجان میں آ جائیں اور صف آرائی کریں تو مہدی کی ولایت کا انتظار کرو جو عدل کے ساتھ قیام کرے گا۔
    اور آلِ ہاشم کے بادشاہ جو روئے زمین پر ہوں گے وہ ذلیل ہو جائیں گے اور ان کی بیعت ان میں سے کی جائے گی جو لذت کے خواہاں اور بے ہودہ بات کرنے والے ہوں گے۔
    اور وہ بچوں میں سے ایک بچہ ہے جس کی اپنی کوئی رائے نہ ہو گی نہ ذمہ دار ہو گا نہ عقلمند۔
    پھر تم میں سے قائم حق قیام کرے گا حق کے ساتھ آئے گا اور حق پر عمل کرے گا۔
    وہ رسول اللہ کا ہم نام ہے۔ میری جان اس پر فدا ہے تو اے میرے بیٹو! اسے رسوا نہ کرنا اور اس کی طرف عجلت کے ساتھ جانا۔(ختم شد)
    اس کے بعد ظہور مہدی کا بیان ہے۔ آپ کی جنگوں اور فتوحات کا تذکرہ ہے آپ کے تین سو تیرہ اصحاب کا بہ قیدِ نام و مقام ذکر ہے۔ آپ کی حکومت کے استحکام کا بیان ہے اور آخر میں قیامت کے قائم ہونے کا بیان ہے۔ ہم نے اس پورے خطبہ سے فقط وہ حصہ نقل کیا ہے جو ہمارے موضوع یعنی واقعات و حوادثِ قبلِ ظہور سے متعلق ہے۔ اگر اس مختصر رسالہ میں گنجائس ہوتی تو از دیارِ بصیرت کے لئے پورا خطبہ بمعہ ترجمہ نقل کیا جاتا۔
    خطبہ کے بارے میں:
    میرے سامنے اس خطبہ کے مندرجہ ذیل نسخے ہیں
    (1) الزام الناصب شیخ علی یزدی حائری جُز دوم تین خطبے۔
    (2) الشیعہ والرجعۃ جز اول محمد رضا طبلسی
    (3) نوائب الدہور حسن میر جہانی جز دوم
    (4) نیابیع المودۃ شیخ سلیمان قندوزی
    (5) خطبۃ البیان طبع بحرین

    الزام الناصب اور الشیعۃ والرجعۃ میں خطبہ کی سند یہ ہے۔ محمد ابن احمد انباری۔ محمد ابن احمد جرجانی قاضی رے۔ طوق ابن مالک۔ عن ابیہ۔ عبداللہ بن مسعود۔ رفعہ الی علی ابن ابی طالب۔ محمد رضا طلبی نے اس خطبہ کو دوحۃ الانوار، شیخ محمد یزدی نے نقل کیا ہے اور نوائب الدہور میں یہ خطبہ عجائب الاخبار سید حسین توبلی سے نقل کیا گیا ہے۔ اس میں بھی یہی سلسلہ سند ہے۔ طلبی اور میر جہانی دونوں بزرگوں نے الذریعہ جلد ہفتم صفحہ 200 سے اس خطبہ کے متعلق معلومات اخذ کی ہیں۔ الذریعہ(طبع دوم صفحہ 200۔201 ) کے مطابق اس خطبہ کے نسخوں میں بہت اختلاف ہے۔ شیخ علی یزدی نے الزام الناصب میں اس کے تین نسخے نقل کئے ہیں۔ ایک میں اصحابِ قائم کا تذکرہ ہے دوسرے میں ان والیوں کا تذکرہ ہے، جنہیں آپ اپنی طرف سے معین فرمائیں گے اور تیسرا نسخہ الدرالمنظم فی اسرالاعظم تالیف محمد بن طلح شافعی متوفی 652 سے نقل کیا ہے۔ شیخ سراجدین حسن نے اس کے بعض اجزا الدرالمنظم سے اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں۔ اس کا ایک نسخہ خطبہ اقالیم کے ساتھ مکتبہ آستانِ قدس میں موجود ہے، جس کا سن کتابت 923 ہے۔ سید شبر نے اس پورے خطبہ کو اپنی کتاب علامات الظہور میں نقل کیا ہے۔ حافظ رجب برسی کی مشارق الانوار میں بھی اس کے کچھ جملے ملتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اسے خطبۃ البیان کے نام سے نقل کیا ہے۔ قاضی سعید متوفی 1103 نے شرحِ حدیثِ غمامہ میں اسے مختصرا نقل کیا ہے۔ محقق قمی متوفی 1231 نے جامع الشتات( جلد 5صفحہ 95) میں قاضی سعید کے نسخے کے کچھ فقروں کی شرح لکھی ہے۔ اس خطبہ کی اور بھی شرحیں ہیں، جن کا تذکرہ الذریعہ جلد 13 صفحہ 210،211 پر موجود ہے۔ اس کی ایک شرح خلاصہ الترجمان کے نام سے اور دوسری معالم التنزیل کے نام سے بھی ہے۔ نور علی ساہ متوفی 212 نے اس خطبہ کا فارسی ترجمہ کیا ہے، جس کا ایک جز ان کے دیوان کے ساتھ مکتبہ سپہ سالار تہران میں موجود ہے۔ کاشان کے حاکم شمس شمس الدین محمد کے حکم سے سن 846 میں اس کا منظوم ترجمہ کیا گیا۔ البتہ یہ خطبہ نہ نہج البلاغہ میں ہے نہ مناقب ابنِ شہر آشوب میں نہ بحارالانوار میں۔ اس خطبہ کے سلسلہ میں دو قول ہیں بعض کے خیال میں یہ کوفہ کا خطبہ ہے اور بعض کی رائے کے مطابق یہ بصرہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ دو ہوں۔
    اس خطبہ کے سلسلہ میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ اس کے نسخوں میں شدید اختلاف ہے۔ کسی نسخہ میں کچھ کم ہے کسی میں کچھ زیادہ ہے اور کسی نسخہ میں ایک فقرہ کی جگہ دوسرا ہے۔ اس کے علاوہ استناخ کے مسائل کی وجہ سے بھی لفظوں اور جملوں میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ محمد رضا اور میر جہانی کی رائے اس خطبہ کے سلسلے میں معتدل ترین رائے ہے۔ بعض نسخوں میں بعض فقرے قرآن مجید کی آیات و نصوص کے خلاف ہیں، لہذا یہ باور کیا جاتا ہے کہ مختلف ادوار میں صاحبانِ غرض نے اس میں کچھ ایسے اضافے کر دئیے ہیں جو ان کے مفیدِ مطلب تھے۔ لہذا اس خطبہ کے سلسلے میں محتاط رائے یہ ہے جو جملے بلکل ہی کتاب و سنت سے متصادم ہیں وہ الحاقی ہیں اور کلامِ امام نہیں ہیں۔ البتہ جن فقروں کی تاویل ممکن ہے ان کی تاویل کی جانی چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چند فقروں کے سبب پورا خطبہ مشکوک قرار دے دیا جائے، محقق قمی نے تحریر کیا ہے کہ اگر خطبۃ البیان جیسی باتیں ان کی طرف منسوب کی جائیں تو ان کے ظاہر پر حکم نہیں لگانا چاہیے اور نہ سرے سے ان کو باطل قرار دینا چاہیے۔
    اس خطبہ کو پڑھنے والا میری اس بات کی تائید کرے گا کہ اس خطبہ میں بہت مقامات پر خطیب منبر سلونی کا اسلوب بھی ہے، لب و لہجہ بھی ہے اور تیور بھی ہے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ اختلافِ رائے بھی فقط ان جملوں میں ہے جن میں امیرالمومنین نے اپنی ذات پر افتخار کیا ہے۔ وہ جملے اَناَ(میں) سے شروع ہوتے ہیں۔ اس اختلاف کا پیشگوئیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا میں نے وہ اختلافی حصہ یہاں نقل نہیں کیا ہے، خطبہ میں نامانوس اور اجنبی الفاظ کی کثرت ہے اور بعض فقرے ایسے ہیں جو بہت عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم معموں جیسے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ پیش گوئیوں کے موضوع پر لب و لہجہ میں ابہام اور اجمال دونوں ضروری تھے تاکہ باتیں اپنے اپنے وقت پر کھلتی چلی جائیں۔ ایسے فقروں کو اگر متشابہات قرار دیا جائے تو مناسب ہو گا۔
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم علی عمران بھائی ۔
    محنت سے تیار کردہ مضمون کے لیے بہت شکریہ ۔
    بابِ شہر علم نبوت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے علم کی وسعتوں کی خبر پا کر ایمانی کیف نصیب ہوا۔
    جزاک اللہ خیرا۔
     
  12. پاکیزہ
    آف لائن

    پاکیزہ ممبر

    شمولیت:
    ‏10 جولائی 2009
    پیغامات:
    249
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    بھائی علی عمران ۔ عقیدہ تو ظاہر ہے بیان ہوتا ہے بھلے کوئی انکار کرتا پھرے۔ امت کی اکثریت کا یہی موقف ہے کہ جیسے دیگر پہلےامام آل رسول ص سے اپنے اپنے وقت پر پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اسی طرح امام مہدی علیہ السلام بھی اپنے وقت پر جب اللہ کو منظور ہو گا وہ پیدا ہوں گے۔ صرف شیعہ حضرات انہیں کائنات سے انوکھی کوئی شخصیت بنا کر پیش کرنے کی وجہ سے انہیں 255 ہجری میں‌پیدا ہوچکنے پر اصرار کرتے ہیں اور اسی پر روایات بھی لکھتے رہتے ہیں جبکہ حضور نبی اکرم ص کی احادیث میں کہیں یہ ذکر نہیں ملتا کہ میرا بیٹا مہدی پیدا تو تیسری صدی ہجری میں ہوجائے گا مگر اسکا ظہور درجن ڈیڑھ درجن صدیوں بعد قرب قیامت میں ہوگا۔ اگر ایسا ہی ظہور کرنا ہوتا تو اللہ پاک امام علی رضٰ اللہ عنہ کو ہی بھیج دیتے یا امام حسین کو ہی بھیج دیتے کیونکہ وہ مرتبے کے اعتبار سے امام مہدی سے کہیں زیادہ بلند ہیں کیونکہ انکے جد ہیں۔
     
  13. پاکیزہ
    آف لائن

    پاکیزہ ممبر

    شمولیت:
    ‏10 جولائی 2009
    پیغامات:
    249
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    امام مہدی علیہ السلام کا ظہور قرب قیامت کی موجودہ چھوٹی چھوٹی نشانیوں کے دور میں نہیں ہوگا
    یہ عقیدہ رکھنا کہ امام مہدی آچکے ہیں یا آنے والے ہیں ۔۔ یہ کہنا علم حدیث سے لاعلمی و جہالت ہے

    ڈاکٹر طاہر القادری





    یہود و ہنود کے ایجنٹ مسلمان ملکوں‌پر حکمرانوں کی صورت میں مقرر کرکے اسلامی اقدار کا مٹا دینے ایجنڈا مکمل کررہے ہیں۔



    درخواست ہے کہ اس تقریر کے 27 حصے یوٹیوب پر ہیں ۔ سارے سنیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک ایک حدیث کے حوالے سے بتایا ہے کہ ابھی فتنوں اور قرب قیامت کی نشانیوں کا وہ آخری دور نہیں آیا جس میں امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے۔ ​
     
  14. پاکیزہ
    آف لائن

    پاکیزہ ممبر

    شمولیت:
    ‏10 جولائی 2009
    پیغامات:
    249
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    امام مہدی علیہ السلام کو پیدا کر چکنے والے

    " امام مہدی علیہ السلام کے پیدا ہوچکے" والا عقیدہ رکھنے والے لوگ، نزول عیسی اور دجال لعین کو بھی کہیں سے پیدا کریں ۔
    کیونکہ فرموداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق یہ تینوں ایک ہی زمانہ میں ہوں گے۔
    ڈاکٹر طاہر القادری




    ۔
     
  15. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    علی عمران بھائ اتنی تفصیل سے معلومات دینے کے لئے بھت بھت شکریہ۔۔۔ ۔ ۔ ۔

    تمام مسلمانوں میں خود امام مھدی علیہ السلام کی شخصیت کے حوالے سے کوئ اختلاف نھیں۔ ۔
    اختلاف صرف اس حوالے سے ھے کہ آیا پیدا ھو چکے ھیں یا پیدا ھوں گے ابھی۔ ۔ ۔ اور یہ اتنا بڑا اختلاف نھیں۔ ۔

    اور یہ جو کھا گیا کہ
    " امام مہدی علیہ السلام کے پیدا ہوچکے" والا عقیدہ رکھنے والے لوگ، نزول عیسی اور دجال لعین کو بھی کہیں سے پیدا کریں ۔
    کیونکہ فرموداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق یہ تینوں ایک ہی زمانہ میں ہوں گے
    تو یہ خود اس عبارت کے پڑھنے والے کی جھالت پر دلیل ھے۔ ۔ ۔ ۔
    اس سے کھاں ثابت ھوتا ھے کہ امام ابھی پیدا نھیں‌ھوئے ۔ ۔ ۔ آخر زمان میں یہ تینوں‌شخصیات ایک ھی زمان میں‌ھوں گے۔ ۔ ۔۔ ۔اور دجال کے بارے بھت سے علماء کا نظریہ یہ ھےکہ دجال ایک شخصیت کا نام ھے شخص کا نھیں اور یہ شخصیت اور کردار آج کے دور میں‌ بھی موجودھے۔ ۔
    اس سوال کرنے والے سے میں‌صرف یہ پوچھنا چاھتا ھوں‌کہ نبی اکرم ص نے فرمایا میرے بعدبارہ امام ھوں‌گے اور سارے قریش سے ھوں گے۔ ۔ اب ذرا ان کی تعداد نام کے ساتھ گن کر بتائیے !!!!
    اور رسول کی بھت سی احادیث میں‌ھےکہ زمین کبھی حجت خدا سے خالی نھیں رہ سکتی ۔ ۔ ۔ ۔بتائیے اس زمان کا حجت خدا کون ھے؟؟؟
     
  16. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    غیبت امام مہدی پر علماء اہلسنت کا اجماع
    جمہور علماء اسلام امام مہدی کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اس میں شیعہ اور سنی کا سوال نہیں ہر فرقہ کے علماء یہ مانتے ہیں کہ آپ پیدا ہو چکے ہیں۔ ہم علماء اہلِ سنت کے اسماء مع ان کی کتابوں اور مختصر اقوال کے درج کرتے ہیں۔
    (1) علامہ محمد بن طلحہ شافعی کتاب مطالب السئول میں یہ فرماتے ہیں کہ“امام مہدی سامرہ میں پیدا ہوئے ہیں جو بغداد سے 20 فرسخ کے فاصلہ پر ہے“۔
    (2) علامہ علی بن محمد بن صباغ مالکی کی کتاب فصول المہمہ میں ہے کہ“امام حسن عسکری گیارہویں امام نے اپنے بیٹے امام مہدی کی ولادت بادشاہ وقت کے خوف سے پوشیدہ رکھی“۔
    (3) علامہ شیخ عبداللہ ابن احمد خشاب کی کتاب تاریخ موالید میں ہے کہ “ امام مہدی کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم ہے آپ آخری زمانہ میں ظہور و خروج کریں گے“۔
    (4) علامہ محی الدین ابن عربی حنبلی کی کتاب فتوحات میں ہے کہ “ جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی تو امام مہدی ظہور کریں گے“۔
    (5) علامہ شیخ عبدالوہاب شعرانی کی کتاب الیواقیت والجواہر میں ہے کہ “ امام مہدی 15 شعبان سنہ 255 ھجری میں پیدا ہوئے ہیں آپ اس وقت یعنی 958 ہجری میں ان کی عمر703 سال ہے“۔یہی مضمون علامہ بدخشانی کی کتاب مفتاح الجنات میں بھی ہے۔
    (6) علامہ عبدالرحمن جامی حنفی کی کتاب شواہد النبوت میں ہے کہ “ امام مہدی سامرہ میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کی ولادت پوشیدہ رکھی گئی ہے وہ امام حسن عسکری کی موجودگی میں غائب ہو گئے ہیں“۔اسی کتاب میں ولادت کا پورا واقعہ حکیمہ خاتون کی زبانی درج ہے۔
    (7) علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب مناقب الآئمہ میں ہے کہ “ امام مہدی 15 شعبان سنہ 255 ھجری میں پیدا ہوئے ہیں۔امام حسن عسکری نے ان کے کان میں اذان و اقامت کہی ہے اور تھوڑا عرصہ کے بعد آپ نے فرمایا کہ وہ اس مالک کے سپرد ہو گئے جن کے پاس حضرت موسٰی بچپنے میں تھے“۔
    (8) علامہ جمال الدین محدث کی کتاب روضۃ الاحباب میں ہے کہ “ امام مہدی 15 شعبان سنہ 255 ھجری میں پیدا ہوئے اور زمانہ معتمد عباسی میں بمقام“سرمن رائے“ “از نظر برایا غائب شد“ لوگوں کی نظروں سے سرداب میں غائب ہو گئے“۔
    (9) علامہ عبدالرحمن صوفی کی کتاب مراۃ الاسرار میں ہے کہ “ آپ بطن نرجس سے 15 شعبان سنہ 255 ھجری میں پیدا ہوئے ہیں“۔
    (10) علامہ شہاب الدین دولت آبادی صاحب تفسیر بحر مواج کی کتاب ہدایتہ السعدا میں ہے کہ“ خلافت رسول حضرت علی کے واسطے سے امام مہدی تک پہنچی۔ آپ ہی آخری امام ہیں“۔
    (11) علامہ نصر بن علی جھمنی کی کتاب موالید آئمہ میں ہے کہ“ امام مہدی نرجس خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں“۔
    (12) علامہ ملا علی قاری کی کتاب مرقات شرح مشکٰوۃ میں ہے کہ“ امام مہدی بارہویں امام ہیں۔ شیعوں کا یہ کہنا غلط ہے کہ اہلِ سنت اہل بیت کے دشمن ہیں“۔
    (13) علامہ جواد ساباطی کی کتاب براہین ساباطیہ میں ہے کہ“ امام مہدی اولاد فاطمہ سے ہیں۔ وہ بقولے سنہ 255 ھجری میں پیدا ہو کر ایک عرصہ کے بعد غائب ہو گئے ہیں“۔
    (14) علامہ شیخ حسن عراقی جن کی تعریف کتاب الواقع میں ہے کہ انہوں نے امام مہدی سے ملاقات کی ہے“۔
    (15) علامہ علی خواص جن کے متعلق شعرانی نے یوامح اور الیواقیت میں لکھا ہے کہ انہوں نے امام مہدی سے ملاقات کی ہے“۔
    (16) علامہ شیخ سعدالدین کا کہنا ہے کہ“ امام مہدی پیدا ہو کر غائب ہو گئے ہیں۔“دور آخر زمانہ آشکار گردد“ اور وہ آخر زمانہ میں ظاہر ہوں گے جیسا کہ کتاب مقصد اقصی میں ہے“۔
    (17) علامہ علی اکبر ابن اسداللہ کی کتاب مکاشفات میں ہے کہ آپ پیدا ہو کر قطب ہو گئے ہیں“۔
    (18) علامہ احمد بلاذری بحوالہ احادیث لکھتے ہیں کہ آپ پیدا ہو کر محجوب ہو گئے ہیں“۔
    (19) علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے رسالہ نوادر میں ہے کہ “محمد بن حسن (المہدی) کے بارے میں شیعوں کا کہنا درست ہے“۔
    (20) علامہ شمس ابن حزری نے بحوالہ مسلسلات بلاوزی اعتراف کیا ہے۔
    (21) علامہ علاؤالدولہ احمد سمنانی صاحب تاریخ خمیس در احوالی النفس نفیس اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ “امام مہدی غیبت کے بعد ابدال پھر قطب بن گئے“۔
    (22) علامہ ملا حسین مینبدی کی شرح دیوان میں ہے کہ“ امام مہدی تکمیل صفات کے لئے غائب ہوئے ہیں“۔
    (23) علامہ ذہبی اپنی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ“ امام مہدی سنہ 256 میں پیدا ہو کر معدوم ہو گئے ہیں“۔
    (24) علامہ ابن حجر مکی کی کتاب صواعق محرقہ میں ہے کہ“ امام مہدی المنتظر پیدا ہو کر سرداب میں غائب ہو گئے ہیں“۔
    (25) علامہ عصر کی کتاب دفیات الاعیان کی جلد 2 صفحہ 451 میں ہے کہ“ امام مہدی کی عمر امام حسن عسکری کی وفات کے وقت 5 سال کی تھی وہ سرداب میں غائب ہو کر پھر واپس نہیں ہوئے“۔
    (26) علامہ سبط ابن جوزی کی کتاب تذکرہ خواص الآمہ کے صفحہ 204 میں ہے کہ“ آپ کا لقب القائم، المنتظر، الباقی ہے“۔
    (27) علامہ عبیداللہ امرتسری کی کتاب ارحج المطالب کے صفحہ 377 میں بحوالہ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان میں ہے کہ“ آپ اسی طرح زندہ اور باقی ہیں جس طرح عیسٰی (علیہ اسلام)، خضر (علیہ اسلام)، الیاس (علیہ اسلام) وغیرہم زندہ اور باقی ہیں“۔
    (28) علامہ شیخ سلیمان قندوزی نے کتاب نیابیع المودۃ صفحہ 393 میں۔
    (29) علامہ ابن خشاب نے کتاب موالید اہل بیت میں۔
    (30) علامہ شبلنجی نے نور الابصار کے صفحہ 152 طبع مصر 1322 میں بحوالہ کتاب البیان لکھا ہے کہ “ امام مہدی غائب ہونے کے بعد اب تک زندہ اور باقی ہیں اور ان کا وجود باقی اور زندہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں وہ اسی طرح زندہ اور باقی ہیں جس طرح حضرت عیسٰی علیہ اسلام، حضرت خضر علیہ اسلام اور حضرت الیاس علیہ اسلام وغیرہم زندہ اور باقی ہیں۔ ان اللہ والوں کے علاوہ دجال اور ابلیس بھی زندہ ہیں جیسا کہ قرآن مجید ، صحیح مسلم، تاریخ طبری وغیرہ سے ثابت ہے لہذا“لاامتناع فی بقائہ“ ان کے باقی اور زندہ ہونے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ علامہ چلمی کتاب کشف الطنون کے صفحہ 208 میں لکھتے ہیں کہ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان ابو عبداللہ محمد بن یوسف کنجی شافعی کی تصنیف ہے“۔
    (31) علامہ فاضل روزبہان کی ابطال الباطل میں ہے کہ“ امام مہدی قائم و منتظر ہیں۔ وہ آفتاب کی مانند ظاہر ہو کر دنیا کی تاریکی، کفر زائل کر دیں گے“۔
    (32) علامہ علی متقی کی کتاب کنزالعمال کی جلد 7 کے صفحہ 114 میں ہے کہ“ آپ غائب ہیں ظہور کر کے 9 سال حکومت کریں گے“۔
    (33) علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب دُرمنثور جلد3 صفحہ 23 میں ہے کہ“ امام مہدی کے ظہور کے بعد عیسٰی علیہ اسلام نازل ہوں گے“۔وغیرہ وغیرہ۔
     
  17. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ایک اعتراض کا جواب
    بعض علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جس مہدی کا ذکر احادیث میں آیا ہے اس کا نام “محمد“ اور والد کا نام “عبداللہ“ ہے۔ جبکہ شیعہ حضرات جس مہدی کا ذکر کرتے ہیں اس کا نام تو “محمد“ لیکن والد کا نام “حسن عسکری“ ہے لہذا شیعوں والا امام مہدی اصلی نہیں ہے۔ جبکہ ترمذی شریف کی حدیث میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ“اسم ابیہ اسم ابی“ یعنی اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام پر ہو گا۔
    اس پر علماء فریقین کا اتفاق ہے کہ آپ کی کنیت“ ابوالقاسم“ اور “ابو عبداللہ“ تھی اور اس پر بھی علماء متفق ہیں کہ “ابوالقاسم“ کنیت خود سرور کائنات کی تجویز کردہ ہے۔ مندرجہ ذیل کتب ملاحظہ ہوں
    جامع صغیر صفحہ 104۔
    تذکرہ خواص الامت صفحہ 204۔
    روضۃ الشہداء صفحہ 439۔
    صواعق محرقہ صفحہ 134۔
    شواہد النبوت صفحہ 312۔
    کشف الغمہ صفحہ 130۔
    جلاء العیون صفحہ 298۔
    درج ذیل تمام کتب اہلِ سنت والجماعت کے جید علماء کرام کی کتب ہیں۔
    یہ مسلمات سے ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے کہ مہدی کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہو گی۔ لیکن اس روایت میں بعض اہلِ اسلام نے یہ اضافہ کیا ہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مہدی کے باپ کا نام میرے والد محترم کا نام ہو گا۔ لیکن ترمذی شریف میں “اسم ابیہ اسم ابی“ نہیں ہے ۔ تاہم بقول صاحب المناقب علامہ کنجی شافعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ“ابیہ“ سے مراد ابوعبدالحسین ہیں۔یعنی اس سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ امام مہدی حضرت امام حسین کی اولاد سے ہیں۔
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ بھائی ۔ بہت اچھی معلومات ہیں۔
     
  19. جنید جانی
    آف لائن

    جنید جانی ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جون 2010
    پیغامات:
    2
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: ظہورِ امام مہدی (علیہ اسلام)روایات کے آئینہ میں

    علی عمران نے جو عقیدہ بیان کیا ہے وہ اہل سنت والجماعت کا نہیں ہے۔
    اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ان کتابوں میں موجود ہے۔
    لنک

    لنک
     
  20. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: ظہورِ امام مہدی (علیہ اسلام)روایات کے آئینہ میں

    ہممممممممم محترم جنید صاحب میں نے اوپر 30 کے قریب علماء اہلسنت کی مستند کتب کا حوالہ دیا اور یہی سچ ہے۔ رہی بات اصل عقیدے کی تو محترم پہلے اپنے ان مستند علماء کرام کو غیر عقیدے کا حامل ثابت کریں اور اگر نہیں کر سکتے تو برائے مہربانی اپنے والے عقیدے کو اہلسنت کا عقیدہ مت کہیں اور بھی 70 فرقے موجود ہیں کسی کے سر تھونپ دیں۔
     
  21. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: ظہورِ امام مہدی (علیہ اسلام)روایات کے آئینہ میں

    کافی تفصیلی مضمون لکھا ھے شکریہ عمران
     
  22. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: ظہورِ امام مہدی (علیہ اسلام)روایات کے آئینہ میں

    ابھی درمیان میں رہ گیا تھا وقت کی قلت کی وجہ سے آ نہیں سکا کوشش کروں گا پورا کر دوں۔پسند کرنے کا شکریہ
     
  23. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ظہورِ امام مہدی (علیہ اسلام)روایات کے آئینہ میں

    شکریہ علی عمران بھائ
     
  24. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ظہورِ امام مہدی (علیہ اسلام)روایات کے آئینہ میں

    ہم منتظر ہیں
     
  25. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: ظہورِ امام مہدی (علیہ اسلام)روایات کے آئینہ میں

    روایتِ حمران
    حمران بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ اسلام (یہ امام حسین علیہ اسلام کے بیٹے امام زین العابدین علیہ اسلام کے بیٹے امام محمد باقر علیہ کے فرزند ہیں اور فقہ جعفریہ انہی کے نام سے منسوب ہے اس کے علاوہ علمِ جفر اور کئی دوسرے علوم آپ ہی کے مکتبہ سے نکلے۔ مشہور مسلمان سائنسدان جابر بن حیان اور کئی دوسرے سائنسدان آپ ہی کے شاگرد ہیں۔ جنہیں آپ ختلف اشیاء کے خواص بتانے کے علاوہ تجربات کرنے کے طریقے اور تجربات کے لئے استعمال ہونے والے آلات بنانے کا طریقہ بتایا کرتے تھے۔) کی خدمت میں بنی عباس اور ان کے ہاتھوں مومنین کی پریشانی کا ذکر آیا تو امام علیہ اسلام نے فرمایا کہ میں ابو جعفر (منصور عباسی) کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ گھوڑے پر سر کر رہا تھا، اس کے آگے فوجیوں کے دستے چل رہے تھے۔ اور میں اس کے پہلو میں ایک گدھے پر ساتھ ساتھ تھا، اتنے میں ابو جعفر نے مجھ سے کہا کہ اے ابو عبداللہ مناسب تو یہ تھا کہ اللہ نے ہمیں جو قوت و عزت عطا کی ہے اس پر آپ خوش ہوں اور لوگوں میں یہ مشہور نہ کریں کہ آپ اور آپ کا خاندان اس امر (خلافت) کا زیادہ مستحق ہے تو ہم بھی آپ اور آپ کے خاندان کے درپئے آزار نہ رہتے۔
    امام نے فرمایا کہ میں نے اس کو جواب دیا کہ جس نے یہ بات میری طرف منسوب کر کے تجھ تک پہنچائی ہے وہ جھوٹا ہے۔ ابو جعفر(منصور) نے کہا کہ کیا آپ قسم کھا سکتے ہیں کہ آپ نے یہ نہیں کہا؟ میں نے کہا لوگ تو جادوگر ہیں، یعنی فساد پھیلانا چاہتے ہیں کہ تجھے میری طرف سے آزردہ کریں، تجھے ان باتوں پہ کان نہیں دھرنا چاہیے۔ اس لئے کہ ہماری احتیاج زیادہ ہے بہ نسبت تیری احتیاج کے جو ہم سے ہے۔
    پھر منصور نے مجھ سے کہا آپ کو یاد ہے کہ ایک دن میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ ہمیں سلطنت ملے گی یا نہیں؟ تو آپ کا جواب تھا کہ ہاں! تمہاری سلطنت طویل و عریض اور شدید ہو گی، تمہیں سلطنت کے لئے طویل مہلت ملے گی اور تمہارے دنیاوی امور میںبڑی وسعت پیدا ہو گی، یہاں تک کہ ایک محترم مہینہ میں ایک محترم شہر میں ہم میں سے ایک محترم شخص کا خون بہاؤ گے۔ (امام فرماتے ہیں) کہ میں نے دیکھا کہ اسے وہ حدیث اچھی طرح یاد ہے تو میں نے اس سے کہا کہ شاید اللہ تجھے اس عمل (قتل) سے باز رکھے اس لئے، کہ میں نے اس حدیث میں تجھے مراد نہیں لیا تھا۔ بلکہ میں نے تو فقط حدیث کی روایت کی تھی، اس کے علاوہ بھی ممکن ہے کہ اس قاتل سے مراد تیرے خاندان کا کوئی دوسرا شخص ہو جو اس عمل بد (قتل) کو انجام دے اس کے بعد منصور چپ ہو گیا، اس کے بعد پھر مجھ سے کچھ نہیں کہا۔
    جب میں گھر واپس آیا تو ہمارے چاہنے والوں میں سے ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ خدا کی قسم میں نے آپ کو منصور کے لشکر میں اس طرح دیکھا کہ آپ ایک گدھے پر سوار ہیں اور وہ ایک گھوڑے پر سوار ہے اور آپ کی طرف جھک کر گفتگو میں مصروف ہے، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے آپ اس کے زیرِ دست ہوں تو میں نے اپنے دل میں سوچا کہ مخلوقاتِ خدا پر حجت خدا ہے۔ یہ اس امر (خلافت) کا مالک ہے اور مقتداء ہے اور یہ دوسرا ظلم و جور کرتا ہے اور اولادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرتا ہے اور زمین میں خون ریزی کرتا ہے اس کے باوجود وہ گھوڑے پر سوار ہے اور آپ گدھے پرسوار ہیں۔ اس بات سے میرے دل میں شک پڑ گیا ہے اور مجھے دین اور زندگی کے تمام ہونے کا خطرہ ہے۔
    امام علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ اگر تو دیکھتا کتنے فرشتے میرے آگے پیچھے، دائیں بائیں اور چاروں طرف ہیں تو تو منصور اور ان کے ہمراہیوں کو حقیر سمجھتا۔ اس نے کہا کہ اب میرے دل کو سکون ہو گیا۔
    پھر اس نے سوال کیا کہ یہ لوگ کب تک حکومت کرتے رہیں ے؟ اور ہمیں کب سکون نصیب ہو گا؟ میں نے کہا کیا تجھے معلوم نہیں کہ ہر چیز کے لئے ایک مدت متعین ہے۔ اس نے کہا ہاں معلوم ہے، تو میں نے جواب دیا کہ یہ جاننا تیرے لے فائدہ مند نہیں ہے۔ اس لئے کہ جب ان کی تباہی کا وقت آئے گا تو چشم سے بھی کم وقت میں ان کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اگر تجھے پتہ چل جائے کہ ان کا حال خدا کی نگاہ میں کیا ہے تو تو ان سے اور زیادہ متنفر ہو جائے گا اگر تو اور سارے اہلِ دنیا بھی مل کر یہ چاہیں کہ یہ لوگ جتنے گنہگار ہں اس سے زیادہ گنہگار ہو جائیں تو یہ ممکن نہ ہو گا، تو شیطان تجھ سے یہ وسوسہ نہ کرے۔یقیناََ عزت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کے لئے ہے۔ لیکن منافقوں کو اس کا علم نہیں ہے، کیا تجھے معلوم نہیں کہ جو ہمارے عہدِ حکومت کا انتظار کرے گا اور خوف و اذیت پر صبر کرے گا۔ وہ کل ہمارے گروہ میں داخل ہو گا۔( اس کے بعد امام نے تفصیل کے ساتھ علامات بیان فرمائیں)
    جب تو دیکھے کہ حق مر گیا اور اہلِ حق ختم ہو گئے، اور دیکھے کہ ظلم و جور سارے شہروں پر مسلط ہو گیا، اور دیکھے کہ قرآن پرانا ہو گیا(یعنی کچھ طبقات کہیں کہ اسلامی قوانین پرانے ہو گئے جدید دنیا میں یہ کارآمد نہیں) اور اس میں وہ چیزیں پیدا کی گئیں جو اس میں نہیں ہیں اور خواہشِ نفس پر اس کی توجیہہ کی گئی، اور جب دیکھے کہ دین اس طرح متغیر ہو گیا جس طرح پانی متغیر ہوتا ہے، اور جب دیکھے کہ اہلِ باطل اہلِ حق سے بلند و برتر ہو گئے، اور جب دیکھے کہ شر ظاہر ہوا اور آشکار ہو گیا اور کوئی روکنے والا نہ ہو اور خود اصحاب شر معذرت خواہ نہیں ہیں (انہیں پشیمانی نہیں ہے)، اور جب دیکھے کہ فسق ظاہر و آشکار ہو گیا اور مرد مردوں پر اور عورتیں عورتوں پر اکتفا کرنے لگیں، اور جب دیکھے کہ مومن خاموش اور لب بستہ ہے اور اس کی بات قبول نہیں کی جاتی، اور جب دیکھے کہ فاسق جھوٹ بول رہا ہے اور اس کے جھوٹ کی تردید نہیں کی جا رہی ہے، جب تو دیکھے کہ چھوٹا بڑے کی تحقیر کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے، اور جب دیکھے کہ صلہ رحم کے بدلے قطع رحم ہو رہا ہے، اور جب دیکھے کہ فسق و فجور کی تعریف کی جا رہی ہے اور وہ اس پر ہنس رہا ہے اور کوئی اس کے قول کی تردید کرنے والا نہیں، اور جب دیکھے کہ نو عمر لڑکے عورتوں کی طرح غیر شرعی عمل کررہے ہیں، اور جب دیکھے کہ عورتیں عورتوں سے ازدواج کر رہی ہیں، اور جب دیکھے کہ مدح و ثناء(بلاوجہ کسی کی تعریف کرنا) کی کثرت ہو گئی ہے، اور جب دیکھے انسان اطاعت خدا کے مافی مال خرچ کر رہا ہے اور نہ اس کے ہاتھوں کو روکا جاتا ہے، اور جب تو دیکھے کہ مومن کی دینی جدوجہد کو دیکھ کر لوگ پناہ مانگنے لگیں، اور جب تو دیکھے کہ ہمسایہ اپنے پڑوسی کو اذیت پہنچا رہا ہے اور کوئی اسے منع کرنے والا نہیں، اور جب تو دیکھے کہ کافر اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ مومن فتنہ وفساد سے غمگین ہے، اور جب تو دیکھے کہ مختلف قسم کی شرابیں اعلانیہ پی جا رہی ہیں اور اسے پینے کے لئے وہ لوگ جمع ہوتے ہیں، جنہیں خوفِ خدا نہیں ہے، اور جب تو دیکھے کہ امر بالمعروف کرنے والا ذلیل ہو رہا ہے، اور جب تو دیکھے کہ فاسق خدا کے نا پسندیدہ اعمال و اشیاء میں طاقت ور اور مقبول ہے، اور جب تو دیکھے کہ اصحاب آیات ( شاید علمائے دین مراد ہیں) کی لوگ تحقیر کرتے ہیں، جو اصحاب آیات کو پسند کرتے ہیں ان کی ان کی بھی تحقیر ہو رہی ہے، اور جب تو دیکھے خیر کی راہبند ہے اور شر کا راستہ کھلا ہوا ہے، اور جب تو دیکھے کہ خانہ کعبہ معطل ہو گیا اور اسے ترک کرنے کا حکم دیا جا رہا ہو، اور جب تو دیکھے کہ کہنے والا اپنے قول پر عمل نہیں کرتا، اور جب تو دیکھے کہ مرد مردوں کے ساتھ اور عورتیں عورتوں کے ساتھ غیر شرعی عمل کے لئے اچھی اور فربہ کرنے والی غذا میں مشغول ہیں، اور جب تو دیکھے کہ مرد کی معیشت اس کی پشت کی طرف سے اور عورت کی معیشت اس کے سامنے کی طرف سے حاصل ہوتی ہے، اور جب تو دیکھے کہ عورتیں مردوں کی طرح اجتماعات کرنے لگی ہیں، اور جب تو دیکھے کہ بنی عباس میں عورتوں کی صفات پیدا ہوگئی ہیں وہ مہندی لگانے لگے ہیں اور اس طرح گنگھی کرنے لگے ہیں جیسے عورت اپنے شوہر کے لئے کرتی ہے۔ اور وہ مردوں کو اس لئے مال دینے لگیں کہ وہ ان کی عورتوں کے ساتھ غیر شرعی عمل کریں اور وہ مردوں کی رغبت میں مفاخرت کرنے لگیں اور اس عمل میں ایک دوسرے سے حسد کرنے لگیں، صاحب مال مومن سے زیادہ عزت دار ہو، سود عام ہو جائے اور سود خود قابلِ مذمت نہ ہو اور زناکاری پر عورتوں کی تعریف کی جانے لگے، اور جب تو دیکھے کہ مردوں کے ساتھ نکاح کرنے میں اپنے شوہر کی مدد کرنے لگے، اور جب تو دیکھے کہ اکثر انسان اور اچھے خاندان کے لوگ عورتوں کے فسق و فجور میں ان کی مدد کرنے لگیں، اور جب تو دیکھے کہ مومن غمگین، حقیر و ذلیل ہے، اور جب تو دیکھے کہ بدعتیں اور زناکاریاں عام ہو گئی ہیں، اور جب تو دیکھے کہ لوگ جھوٹے گواہ کے ذریعے ظلم کرنے لگے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ حرام حلال ہو گیا ہے، اور جب تو دیکھے کہ دین شخصی رائے بن گیا ہے اور قرآن و احکامِ قرآن معطل ہو گئے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ لوگ ارتکابِ گناہ کے لئے رات کا بھی انتظار نہیں کرتے، اور جب تو دیکھے کہ مومن اعمالِ قبیحہ کا انکار کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، فقط دل میں نفرت کرتا ہے، اور جب تو دیکھے کہ کثیر دولت ان چیزوں پر خرچ کی جانے لگی ہے جن سے خدا غضب ناک ہوتا ہے، اور جب تو دیکھے ک حکمران کافروں کو اپنے قریب کرتے ہیں اور اہلِ خیر کو دور کرتے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ حکمران کسی حکم کو جاری کرنے میں رشوت لینے لگے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ حکومت اس کو ملنے لگی ہے جو زیادہ مال کی پیش کش کرے، اور جب تو دیکھے کہ محرم عورتوں سے کاح ہونے لگے اور انہیں پر اکتفا ہونے لگے، اور جب تو دیکھے کہ انسان تہمت اور سوء ظن پر قتل کیا جا رہا ہے، اور مرد مردوں کے لئے جان و مال نثار کرنے لگے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ لوگ مرد کو عورت سے تعلق کرنے پر ملامت کرنے لگے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ مرد اپنی عورت کی اس کمائی پر گزارا کرنے لگے جو فسق و فجور سے حاصل ہوئی ہو اور اس کا علم ہونے کے باوجود وہ اس پر قائم و راضی ہو، اور جب تو دیکھے کہ عورت اپنے شوہر کو مجبور کرنے لگے اور ایسے کام کرنے لگے جو شوہر کو ناپسند ہوں او اپنے شوہر کے اخراجات برداشت کرنے لگے، اور جب تو دیکھے کہ مرد اپنی بیوی اور ملازمہ کو کرایہ پر دینے لگے اور ذلیل و پست غذا پر راضی ہو جائے، اور جب تو دیکھے کہ لوگ خدا کی جھوٹی قسمیں کثرت سے کھانے لگے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ قمار بازی علانیہ اور آشکار ہو گئی ہے، اور جب تو دیکھے کہ شراب علانیہ فروخت ہونے لگی ہے اور کوئی روک ٹوک نہیں ہے، اور جب تو دیکھے کہ مسلمان عورتیں اپنے آپ کو کافروں کے سامنے پیش کرنے لگی ہیں، اور جب تو دیکھے کہ لہو و لعب کی جگہیں کثرت سے ظاہر ہو گئی ہیں اور لوگ وہاں آنے جانے لگے ہیں۔ کوئی کسی کو منع نہیں کرتا بلکہ کوئی مع کرنے کی جرات نہیں کرتا، اور جب تو دیکھے کہ شریف انسان اپنے اس دشمن کے ہاتھوں ذلیل ہو رہا ہے، جس کی طاقت اور اقتدار سے خائف ہو، اور جب تو دیکھے کہ حکمرانوں کےمقرب وہ لوگ ہیں جو ہم اہلِ بیت پر سب و شتم کرتےہیں اور اس پر ان کی تعریف کی جاتی ہے، اور جب تو دیکھے کہ ہمارے دوستوں کی گواہی جھٹلائی جا رہی ہے اور قبول نہیں ہوتی، اور جب تو دیکھے کہ جھوٹی باتیں بیان کر کے ان پر فخر کیا جا رہا ہے، اور ج تو دیکھے کہ قرآن سننا لوگوں پر گراں گزرتا ہے، اور باطل کی سماعت اچھی معلوم ہوتی ہے، اور جب تو دیکھے کہ پڑوسی اپنے پڑوسی کا اس لئے احترام کرتا ہے کہ اس کی زبان سے‌ڈرتا ہے، اور جب تو دیکھے کہ حدودِ الٰہی معطل ہو گئے ہیں اور ان کی جگہ خواہشِ نفس پر عمل ہو رہا ہے، اور جب تو دیکھے کہ مسجدوں میں نقش و نگار اور طلا کاری ہو رہی ہے، اور جب تو دیکھے کہ لوگوں کے نزدیک سب سے بڑا سچا وہ ہے جو سب سے بڑا افترا پرداز اور جھوٹا ہے، اور جب تو دیکھے کہ شر و فساد ظاہر و آشکار ہو گیا ہے اور چغل خوری کی باقاعدہ کوشش کی جا رہی ہے، اور جب تو دیکھے کہ ظلم و تعدی عام ہے، اور جب تو دیکھے کہ غیبت کے ذریعے باتوں میں مک اور مزہ پیدا کیا جا رہا ہے اور لوگ اس کے ذریعے ایک دوسرے کو خوش خبری سنا رہے ہیں، اور جب تو دیھے کہ حج اور جہاد کا مطالبہ غیر خدا کے لئے ہو رہا ہے، اور جب تو دیکھے کہ بادشاہ مومن کو کافر کے ئے ذلیل کر رہا ہے، اور جب تو دیکھے کہ خرابے آبادیوں سے زیادہ ہو گئے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ انسان کی گزر اوقات کم ناپنے اور کم تولنے سے ہو رہی ہے، اور جب تو دیکھے کہ انسانی خون کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور بے دریغ بہایا جا رہا ہے، اور جب تو دیکھے کہ انسان ریاست اور حکومت کو دنیا کے لئے حاصل کر رہا ہے اور اپنے آپ کو اس لئے بدزبان مشہور کر رہا ہے کہ لوگ اس سے ڈریں اور امور کو اسی پر چھوڑ دیں، اور جب تو دیکھے کہ نماز کا استخفاف کیا جا رہا ہے، اور جب تو دیکھے کہ انسان کے پاس کثیر دولت ہے، لیکن جب سے اس کا مالک ہوا ہے اس نے حقوقِ شرعیہ ادا نہیں کیے، اور جب تو دیکھے کہ مردے کو قبر سے نکالا جا رہا ہے اور اسے اذیت دی جا رہی ہے اور اس کا کفن بیچا جا رہا ہے، اور جب تو دیکھے کہ انسان شب کو نشہ میں ہے اور صبح کو بھی مست ہے اور لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کر رہ ہیں، اور جب تو دیکھے کہ لوگ حیوانات کے ساتھ بدکاری کر رہے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ درندے ایک دوسرے کو پھاڑ کھا رہے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ انسان نماز کے لئے باہر نکلے اور جب واپس آئے تو اس کے جسم پر کپڑا نہ ہو، اور جب تو دیکھے کہ انسانوں کے دل سخت ہو گئے ہیں اور ان کی آنکھیں خُشک ہیں اور ذکرِ خدا ان کے لئے گراں ہے، اور جب تو دیکھے کہ نمازی اس لئے نماز پڑھ رہا ہے کہ لوگ اسے دیکھیں، اور جب تو دیکھے کہ فقیہہ دنیا داری جب ریاست اور طلب دنیا کے لئے تفقہ کر رہا ہے، اور جب تو دیھے کہ لوگ اس کے ساتھ ہیں جس کے پاس غلبہ اقتدار ہے، اور جب تو دیکھے کہ طلب حلال رکھنے والا قابلِ سرزنش اور لائق مذمت ہے، اور طلب حرام رکھنے والا قابلِ تعظیم ہے، اور جب تو دیکھے کہ حرم مکہ اور مدینہ میں ایسے کام ہو رہے ہیں جو خدا کو پسند نہیں ہیں اور کوئی انہیں منع کرنے والا نہیں ہے اور نہ کوئی انہیں عملِ قبیح سے باز رکھنے والا ہے، اور جب تو دیکھے کہ آلاتِ موسیقی مکہ و مدینہ میں علانیہ آشکار ہیں، اور جب تو دیکھے کہ انسان کوئی حق بات بیان کر رہا ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کر رہا ہے اور اس وقت کوئی اس کے پاس جائے اور نصیحت کرے کہ یہ تمہاری تکلیف شرعی نہیں ہے، اور جب تو دیکھے کہ لوگ ایک دوسرے کی طرف نگاہ کر رہے ہیں اور اہلِ شر کی پیروی کر رہے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ مسلک حق اور راہِ حق خالی ہے اور کوئی اس پر چلنے والا نہیں ہے، اور جب تو دکھے کہ میت کا استہزاء کیا جا رہا ہے اور کسی کو اس سے وحشت نہیں ہو رہی ہے، اور جب تو دیکھے کہ گذشتہ سال کی نسبت ہر آنے والے سال میں بدعت اور شر کا اضافہ ہونے لگا ہے، اور جب تو دیکھے کہ اخلاق اور اجتماعات میں سرمایہ داروں کی مطابقت ہونے لگے، اور جب تو دیکھے کہ فقیر کی مدد اس لئے کی جائے کہ اس پر ہنسا جا سکے اور غیر خدا کے لئے اس پر رحم کھایا جائے، اور جب تو دیکھے کہ علامتیں آسمان پر ظاہر ہو رہی ہیں اور کوئی خوف زدہ نہیں ہے، اور جب تو دیکھے کہ علانیہ لوگ ایک دورے پر (عملِ بد کے لئے) سوار ہو رہے ہیں۔ جیسے کہ جانوار ہوتے ہیں اور ان کے خوف سے کوئی انہیں منع نہیں کرتا، اور جب تو دیکھے کہ انسان مالِ کثیر غیر شرعی کاموں میں صرف کر رہا ہے اور مالِ قلیل بھی اطاعتِ خدا میں صرف کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، اور جب تو دیکھے کہ عاق کی کثرت ہو گئی ہے۔ والدین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے وہ اپنی اولاد کے پاس بدترین انسان کی حالت میں زندگی گزار رہے یں اور اولاد اپنے والدین پر افتراء پردازی کر کے خوش ہو رہی ہے، اور جب تو دیکھے کہ حکومت و سلطنت اور ہر وہ چیز جس کی انہیں خواہش ہے۔ اس پر غالب آ گئی ہے، اور جب تو دیکھے کہ بیٹا اپنے باپ پر افتراء کرتا ہے اور ماں باپ کے مرنے کی دعا مانگ رہا ہے اور ان کی موت سے خوش ہو رہا ہے، اور جب تو دیکھے کہ انسان نے ایک دن گزار لیا اور اس میں کوئی گناہِ عظیم مثلاََ زنا کاری یا کم فروشی یا دھوکہ یا شراب نوشی جیسا عمل سرزد نہیں ہوا اور وہ اس پر غمگین ہے کہ وہ دن بے کار اور اس کی عمر سے ضائع ہوا، اور جب تو دیکھے کہ بادشاہ کھانے کی اشیاء اور غلوں کا احتکاز کر رہا ہے، اور جب تو دیکھے کہ اولادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مال جھوٹ کے ذریعہ تقسیم ہو رہا ہے۔ اور قمار بازی اور شراب خوری میں صرف ہو رہا ہے، اور جب تو دیکھے کہ شراب کے ذریعے علاج کیا جا رہا ہے اور مریض سے اس کے فوائد بیان کئے جا رہے ہیں اور س کے ذریعہ شفا چاہی جا رہی ہے، اور ج تو دیکھے کہ انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دین کے ترک کرنے میں برابر ہیں، اور جب تو دیکھےکہ منافقین اور اہلِ نفاق کی ہوا مسلسل بندھی ہوئی ہے اور اہلِ حق کی ہوا ساکن ہے، اور جب تو دیکھے کہ آذان کہنے اور نماز پڑھانےکی اجرت لی جاتی ہے، اور جب تو دیکھے کہ مسجد ایسے لوگوں سے بھری ہوئی ہے جو خوفِ خدا نہیں رکھتے اور وہاں غیبت کرنے اور اہلِ حق کا گوشت کھانے جمع ہوتے ہیں اور وہاں شراب کی تعریف و توصیف کرتے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ بدمست انسان لوگوں کی پیش نمازی کر رہا ہے۔ اور کسی چیز کا ہوش نہیں ہے اور لوگ بھی اس کی بدمستی کو عیب نہیں سمجھ رہے ہیں اگر کوئی مست ہو تو لوگ اس کا احترام کریں، اس سے تقیہ کریں اور اس سے خوف کھائیں اسے چھوڑ دیں اور سزا نہ دیں، بلکہ نشہ کے سبب اسے معذور سمجھیں، اور جب تو دیکھے کہ یتیموں کا مال کھانے والا اپنے صالح ہونے کا ذکر کرتا ہے، اور جب تو دیکھے کہ قاضی حکمِ الٰہی کے خلاف فیصلے کرے، اور جب تو دیکھے کہ حکمران خیانت کرنے والوں کو حرص و طمع کے سبب امین بنا رہے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ حکمران میراث کو گناہ میں جری فاسقوں کو دے ہے ہیں اور یہ فاسق حکمرانوں سے میراث لے کر جو چاہتے ہیں وہ کر رہے ہیں۔ اور حکمرانوں نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے، اور جب تو دیکھے کہ منبر سے تقوٰی کا حکم دیا جائے اور حکم دینے والا خود اس پر عامل نہ ہو، اور جب تو دیکھے کہ اوقاتِ نماز کا استحفاف کیا جائے، اور جب تو دیکھے کہ صدقہ اور خیرات بھی سفارش پر دئیے جائیں۔ یہ عمل خدا کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کی مرضی سےکیا جائے، اور جب تو دیکھے کہ لوگوں کا مقصد زندگی ان کا پیٹ اور ان کی شرم گاہ ہے اور انہیں پرواہ نہیں کہ حرام کھا رہے ہیں، اور جب تو دیکھے کہ دنیا ان کے پاس آ گئی ہے، اور جب تو دیکھے کہ حق کے پرچم بوسیدہ ہو گئے۔
    تو ایسے موقع سے حذر کراور خداوندِ عالم سے نجات طلب کر اور جان لے کہ اس وقت انسان خدا کے غضب کی زد میں ہیں، اور خدا انہیں اس امر کے سبب مہلت دے رہا ہے جو اس کے ارادہ میں ہے تو ہمشہ متوجہ رہ، اور کوشش کر کے لوگ جن چیزوں میں مبتلا ہیں تو ان کے اس عمل میں شریک نہ ہو اور ان سے برات کا اظہار کر۔
     
  26. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: ظہورِ امام مہدی (علیہ اسلام)روایات کے آئینہ میں

    دین اور علم دین

    امام جعفر صادق علیہ اسلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ میری امت پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ قرآن کے فقط نقوش باقی رہ جائیں گے اور اسلام کا فقط نام باقی رہ جائے گا۔ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں گے لیکن اسلام سے بہت دور ہوں گے ان کی مسجدیں عمارت کے اعتبار سے صحیح ہوں گی لیکن ہدایت کے اعتبار سے خرابہ ہوں گی۔ اس زمانے کے فقہا بدترین اور شریر ترین فقہا ہوں گے جو آسمان کے نیچے ہوں گے انہیں سے فتنہ باہر آئے گا اور انہیں کی طرف واپس جائے گا۔
    (ظہور الحجہ صفحہ 134)
    ارشاد فرمایا کہ انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ اس زمانے میں جس طرح چور قتل کئے جائیں گے اسی طرح علماء بھی قتل کئے جائیں گے، کاش علماء اس وقت اپنے آپ کو بے وقوف اور احمق بنا لیں۔
    (علائم الظہور زنجانی صفحہ 317)
    امیر المومنین علیہ اسلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب مسلمان اپنے علماء سے نفرت کرنے لگیں اور اپنے بازاروں کی تعمیر کو ظاہر کرنے لگیں اور دولت کے لئے شادی کریں تو اللہ انہیں چار بلاؤں میں مبتلا کرے گا۔ اس زمانے میں قحط پڑے گا بادشاہ ( صاحب سلطنت) ظالم ہو گا۔ حکمران خیانت کار ہوں گے، اور مسلمانوں کے دلوں میں دشمنوں کا شدید خوف ہو گا۔
    (علائم الظہور زنجانی صفحہ 317)
    معاشرتی انقلاب
    ابنِ یعفور نے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ اسلام نے فرمایا کہ عرب کے سرکشوں پر افسوس ہے اس شر کے سبب جو قریب ہے۔ میں نے پوچھا آپ پر فدا ہو جاؤں عربوں میں سے کتنے قائم کے ساتھ ہوں گے؟ فرمایا کم ہوں گے۔ میں نے عرض کی خدا کی قسم میں عربوں میں بہت سے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو قائم کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہیں ( تو پھر کم کیوں ہوں گے؟) فرمایا کہ حتماََ لوگوں کا امتحان لیا جائے گا، انہیں ایک دوسرے سے الگ کیاجائے گا اور انہیں چھلنی میں چھانا جائے گا۔ یہاں تک کہ کثیر افراد اس چھلنی سے باہر آ جائیں گے۔
    (ظہور الحجہ صفحہ 45 )
    امیر امومنین علیہ اسلام نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا ہے۔ اس ذات ک قسم جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا۔ تم بُری طرح تہ و بالا کیے جاؤ گے اور تمہیں اس طرح چھانا جائے گا، جیسے کسی چیز کو چھلنی میں چھانا جاتا ہے اور تمہیں ابلتی ہوئی دیگ کی طرح نیچے اوپر کیا جائے گا، یہاں تک کہ تمہارے پست بلند اور تمہارے بلند پست ہو جائیں گے اور جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے آگے بڑھ جائیں گے۔ خدا کی قسم میں نے کوئی بات پردے میں نہیں رکھی اور کبھی خلافِ حقیقت گفتگو نہیں کی۔
    (نہج البلاغہ خطبہ نمبر 18)
    معاشرتی مزاج
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم ایک ایسا زمانہ بھی دیکھو گے کہ صبح اپنے شہر میں گزارو گے، اور شام کسی دوسرے شہر میں پہنچ جاؤ گے۔ تم اس زمانے میں غلافِ کعبہ جیسے لباس استعمال کرو گے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم اس زمانے میں بہتر ہیں یا اُس زمانے میں بہتر ہوں گے؟ فرمایا آج تمہارے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت ہے اور اس زمانے میں ایک دوسرے سے دشمنی کرو گے اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹو گے۔
    (ظہور الحجہ صفحہ30)
    فریبی معاشرہ
    اصبغ بن نباتہ نے امیرالمومنین علیہ اسلام سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ظہورِ قائم سے چند سال قبل بہت دھوکہ دینے والے ہوں گے، جن میں راست گو انسان کی تکذیب کی جائے گی اور جھوٹے انسان کی تصدیق کی جائے گی۔ اور افراد ماحل، مقرب ہو گے اور “روبیضہ“ ان چند برسوں سے بہت متعلق ہوں گے۔ میں نے پوچھا کہ روبیضہ کیا ہے؟ اور ماحل کیا ہے؟ فرمایا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا “وھو شدید المحال“ میں نے پھر پوچھا کہ محال کیا ہے؟ فرمایا مقصود مکار ہے۔
    (الزام الناصب، جلد 2 صفحہ نمبر 118)

    امیر المومنین علیہ اسلام نے فرمایا کہ انسانوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ مقرب نہ ہو گا، مگر چغل خور اور باتیں بنانے والا ظریف نہیں سمجھا جائے گا، مگر وہ جو فاجر ہو، جو انصاف کرنے والا ہو گا وہ ضعیف ہو گا۔ لوگ صدقہ کو جرمانہ شمار کریں گے، اور صلہ رحم کو احسان سمجھیں گے، اور عبادت کے ذریعہ لوگوں پر اپنی بزرگی اور عظمت جتائیں گے، تو ایسے زمانے میں حکومت عورتوں کے مشورہ سے ہو گی، لڑکوں کی حکمرانی ہو گی اور خواجہ سراؤں کی تدبیر و حکمت پر عمل ہو گا۔
    (ظہور الحجہ صفحہ 118)
    رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انسانوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب انسان بھیڑیئے بن جائیں گے تو جو شخص بھیڑیا نہیں بنے گا تو اسے دوسرے بھیڑیئے مل کر کھا جائیں گے۔
    (علائم الظہور، صفحہ 306)
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آخر زمانہ میں میری امت کے درمیان نفاق ظاہر ہو گا۔ امانت اٹھا لی جائے گی اور رحمت روک لی جائے گی۔ امانت دار پست سمجھا جائے گا اور خیانت کرنے والا امین سمجھا جائے گا۔ جب ایسا ہو گا تو تم پر سیاہ راتوں کی طرح فتنے نازل ہوں گے۔
    (ظہور الحجہ صفحہ 165)
    امام حسین علیہ اسلام سے روایت ہے کہ ایک شخص امیر المومنین علیہ اسلام کی خدمت میں‌ آیا اور اس نے سوال کیا کہ اپنے مہدی کے بارے میں بتائیں کہ کب ظہور ہو گا؟ فرمایان کہ جب کفار و اشرار کے صلب میں مومنین اور متقین ختم ہو جائیں گے اور جب دین کی نصرت کرنے والے اٹھ جائیں اس وقت ظہور ہو گا۔
    (علائم الظہور صفحہ 306)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں