1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

طلعت محمود ۔۔۔۔۔۔ تحریر : عبدالحفیظ ظفر

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    طلعت محمود ۔۔۔۔۔۔ تحریر : عبدالحفیظ ظفر

    سب کچھ لُٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا؟ طلعت محمود بے مثل پلے بیک سنگر، غزل گائیک اور اداکار تھے

    یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک غزل گائیک پلے بیک سنگر ہو اور پھر اداکاری کے میدان میں بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھاتا ہو۔ پاکستان میں مہدی حسن شاندار غزل گائیک تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک بے مثال پلے بیک سنگر بھی تھے۔ ان کی فلمی گائیکی کا بھی ایک زمانہ معترف ہے اور پھر اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ مہدی حسن نے پنجابی فلموں کے لئے بھی کئی گیت گائے اور ان گیتوں کو بھی بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
    طلعت محمود کو بھی مہدی حسن کی طرح پہلے غزل کا بادشاہ کہا جاتا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انہوں نے بہت عمدہ غزلیں گائیں۔ 50کی دہائی میں وہ بڑے مشہور غزل گائیک اور پلے بیک سنگر تھے۔ 60کی دہائی کے شروع تک ان کے نام کا ڈنکا بجتا رہا۔ پھر جب 60 کی دہائی کے آخر میں روک ا ین رول کا زمانہ آیا تو ان کی اہمیت بھی ختم ہوتی گئی۔ وہ بھارت کے بڑے گلوکاروں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی گائیکی کا اپنا ایک الگ انداز تھا اور اس انداز کو اور کوئی نہیں اپنا سکا۔ غزلوں اور فلمی گیتوں کے علاوہ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری بھی کی۔ ویسے تو وہ شروع سے ہی اداکار بننے کے آرزو مند تھے لیکن قسمت کو یہ منظور تھا کہ وہ پہلے گلوکار بنیں۔ یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ طلعت محمود اداکاری کے میدان میں وہ کچھ نہیں کر سکے جوایک کامیاب اداکار کے لئے ضروری ہوتا ہے پھر ایک مقام ایسا آیا کہ انہوں نے اداکاری کو خیر آباد کہہ دیا۔
    ۔24فروری 1924 ء کو لکھنؤ میں پیدا ہونے والے طلعت محمود اوائل عمری میں ہی موسیقی میں دلچسپی لینے لگے۔ وہ اس زمانے کے بڑے کلاسیکل گویوں کے پاس کئی کئی گھنٹے بیٹھے رہتے اور ان کی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے۔ وہ ایک قدامت پرست مسلمان گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جہاں گائیکی کو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ماں باپ کے اعتراضات کے باوجود طلعت محمود نے فلموں میں کام شروع کر دیا۔ پھر انہوں نے 1939ء میں غزل گائیکی شروع کی۔ اُس وقت اُن کی عمر صرف 16برس تھی۔ انہوں نے آل انڈیا ریڈیو لکھنؤ پر داغ دہلوی، میر تقی میر، جگر مراد آبادی کی غزلیں گائیں۔ ان کی آواز دیگر تمام گلوکاروں سے مختلف تھی۔ غزل گوئی کے حوالے سے ان کی شہرت صرف لکھنؤ تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ کلکتہ تک پہنچ گئی۔ استاد برکت علی خان، کے ایل سہگل اور ایم اے رؤف اُس دور کے نامور غزل گائیک تھے۔ انہوں نے فلم ''شکست‘‘ کیلئے یہ کلاسیکل گیت گایا ''سپنوں کی سہانی دنیا کو‘‘ اور اس کے بعد فلم ''چاندی کی دیوار‘‘ کیلئے گایا گیا اُن کے اس گیت نے بھی چونکا کے رکھ دیا۔ ''لاگے تو سے نینا‘‘۔
    ۔1944ء میں انہوں نے وہ گیت گایا جس نے انہیں شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ ''تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی‘‘ یہ ایک غیر فلمی گیت تھا۔ طلعت محمود نے کلکتہ اور ممبئی کی فلمی صنعت کیلئے 16فلموں میں اداکاری کی۔ 1949 ء میں طلعت محمود ہندی فلمی صنعت میں گلوکاری کرنے کیلئے ممبئی چلے آئے۔ یہاں پہلے ہی ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ تین فلمیں جن میں انہوں نے اداکاری کی کلکتہ میں ہٹ ہوئیں۔ کلکتہ میں انہوں نے کئی بنگالی گیتوں کی ریکارڈنگ کرائی۔ 50 اور 60 کی دہائی میں انہوں نے اُس دور کے ممتاز موسیقاروں کے لئے کئی گیت گائے۔ جب انہوں نے فلم ''آرزو‘‘ کے لئے انیل بسواس کی موسیقی میں یہ گیت گایا ''اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو‘‘ تو اُن کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ طلعت محمود کی آواز بہت ملائم اور لطیف تھی۔ وہ سیمی کلاسیکل اور نان۔ کلاسیکل غزل کے بانی تھے۔ ان کے اثرات ان کے ہم عصروں نے بھی قبول کئے۔ لکشمی کانت پیارے لال بھی طلعت محمود کی ملائم اور لطیف آواز سے بڑے متاثر تھے۔ یہ طلعت محمود ہی تھے جنہوں نے لیجنڈری غزل گو مہدی حسن اور جگجیت سنگھ کیلئے راستہ ہموار کیا اس لئے غزل گائیکی کے حوالے سے اُن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، طلعت محمود نے اہل موسیقی کے دلوں کو فتح کیا اور پوری دنیا میں اپنے فن کا سکہ جمایا۔
    ۔1950 ء کی دہائی میں گلوکاروں کی جس تکون نے موسیقی کی دنیا میں تہلکہ مچایا ان میں محمد رفیع، مکیش اور طلعت محمود کے نام شامل ہیں۔ وہ پیدائشی غزل گائیک تھے۔ اپنی شاندار گائیکی کے انداز اور خوبصورت لہجے کی بدولت ان کے مداحوں میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ طلعت محمود نے نوجوان گلوکاروں کی ایک پوری نسل کومتاثر کیا جو ان کے بعد آئے۔ ان میں جگجیت سنگھ اور پنکچ ادھاس شامل ہیں۔ طلعت محمود نے نوتن، مالا سنہا اور ثریا جیسی اداکاراؤں کے ساتھ اداکاری کی۔ ان کی قابل ذکر فلموں میں راج لکشمی، آرام، ٹھوکر، دلِ ناداں، وارث، ایک گاؤں کی کہانی اور سونے کی چڑیا‘‘ شامل ہیں۔
    ۔60کی دہائی میں آخر میں جب ''روک این رول‘‘ کا آغاز ہوا تو طلعت محمود جیسے گلوکاروں کا زوال شروع ہو گیا۔ ایک طرف تو وہ فلموں سے کنارہ کش ہو گئے تو دوسری طرف ان کی گائیکی کے کیرئر کو بھی نقصان پہنچا۔ وہ نغمات گاتے رہے لیکن بہت کم۔ 1952 ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''داغ‘‘ کے گیتوں نے انہیں بہت عروج دیا۔ اس کے بعد ''دیوداس، سجاتا، بارہ دری اور پھر ایک سال‘‘ جیسی فلموں میں انہوں نے یادگار گیت گائے۔ ذیل میں ہم پہلے طلعت محمود کی اُن مشہور غزلوں کا ذکر کریں گے جو آج بھی ذوق و شوق سے سنی جاتی ہیں۔
    ۔-1 دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے (غالب)
    ۔-2 اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل (آرزو)
    ۔-3 عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی (غالب)
    ۔-4 پھر مجھے دیدہ تر یاد آیا (غالب)
    ۔-5 غمِ عاشقی سے کہہ دو (غیر فلمی)
    ۔-6 راتیں گزار دی ہیں (غیر فلمی)
    ۔-7 بگڑے ہوئے نصیب کا افسانہ ہی تو ہوں (غیر فلمی)
    -8 جہاں میں کوئی نہیں ہے اپنا (غیر فلمی)
    ۔-9 دو کافر آنکھوں نے مارا (غیر فلمی)
    طلعت محمود کے بنگالی گیتوں نے بھی بڑی دھوم مچائی۔ اب ہم اپنے قارئین کے لئے طلعت محمود کے مشہور زمانہ فلمی گیتوں کا ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے بہت عرصہ تک دھوم مچائے رکھی۔ اب بھی ان کے گیت کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
    ۔-1 جائیں تو جائیں کہاں (ٹیکسی ڈرائیور)
    ۔-2 ہم سے آیا نہ گیا (دیکھ کبیرا رویا)
    ۔-3متوا کیسی یہ آگ (دیوداس)
    ۔-4 سب کچھ لٹاکے ہوش میں (ایک سال)
    ۔-5 تصویر بناتا ہوں (بارہ دری)
    ۔-6 اے مرے دل کہیں اور چل (داغ)
    ۔-7 ہم درد کے ماروں کا (داغ)
    ۔-8 زندگی دینے والے سُن (دل ناداں)
    ۔-9 شامِ غم کی قسم (فٹ پاتھ)
    ۔-10 پھر وہی شام وہی غم (جہاںآرا)
    ۔-11جلتے ہیں جس کے لئے (سجاتا)
    ۔-12 رات نے کیا کیا خواب دکھائے۔ (ایک گاؤں کی کہانی)
    ۔-13 ملتے ہی آنکھیں (بابل)
    ۔-14 جھومے رے نیلا امبر (ایک گاؤں کی کہانی)
    ۔-15 یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی (سنگدل)
    طلعت محمود نے ایس ڈی برمن، انیل بسواس، سلیل چودھری، روی، ناشاد اور شنکر جے کشن کی موسیقی میں گیت گائے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک شریف النفس اور حلیم الطبع شخص تھے، وہ کم آمیز اور کم گو تھے۔ دلیپ کمار نے انہیں ''پرفیکٹ جنٹلمین‘‘ کہا تھا۔ وہ صاف گو تھے اور اپنے دل کی بات زبان پر لے آتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے لتا منگیشکر سے گلِہ کیا کہ وہ ان کے ساتھ اس لئے گیت نہیں گاتیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ اس پر لتا نے فوری طور پر اس کی تردید کی اور پھر انہوں نے طلعت محمود کے ساتھ گیت گائے۔ طلعت محمود نے پورے کیرئر کے دوران 800کے قریب گانے گائے۔ انہیں پدم شری کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
    طلعت محمود نے 1951ء میں ایک بنگالی عیسائی خاتون لتیکہ سے شادی کی جو بعد میں مسلمان ہو گئیں اور ان کا نام نسرین رکھا گیا۔ ان کے دو بچے ہیں جن کے نام خالد اور سبینہ ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں انہیں رعشہ ہو گیا تھا۔ 9 مئی 1998ء کو یہ عظیم فنکار اس جہاں سے کوچ کر گیا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں