1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صومالیہ میں‌کیا ہو رہا ہے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نوید, ‏28 دسمبر 2006۔

  1. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    امید ہے کہ ساب ساتھی خیریت سے ہونگے


    صومالیہ میں‌کیا ہو رہا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    کسی کو پتا ہے کیا
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    صومالیہ میں تین ماہ کے لیے مارشل لاء لگا دیا گیا​


    صومالی وزیراعظم اسلامی ملیشیا کے جانے کے بعد لوگوں سے مبارکباد وصول کر رہے ہیں ۔
    صومالیہ کے وزیراعظم علی محمد غیدی نے کہا ہے کہ پارلیمان سنیچر کو اگلے تین ماہ کے لیے ملک میں مارشل لاء لگانے کا اعلان کرے گی۔
    صومالی وزیراعظم ابھی تک دارالحکومت موغا دیشو کی حدود میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔موغادیشو کے مضافاتی علاقے میں شہر پر مکمل عملداری کے لیے عبوری حکومت کے مختلف اراکین بات چیت کے ذریعے متفقہ انتظامات کی کوشش میں مصروف ہیں۔
    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کی ترجیحات میں ملکی استحکام اور ملیشیا کے جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنا ہے۔

    اس سے قبل صومالی فوج نے ایتھوپیا کی مدد سے ’یو آئی سی‘ کے دارالحکومت سے نکل جانے کے بعد اہم تنصیبات پر کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا تھا۔

    موغادیشو پچھلے چھ ماہ سے اسلامک ملیشیا کے قبضے میں تھا۔ ایتھوپیا نے کئی روز قبل صومالیہ کی عبوری حکومت کی مدد کے لیے ایک بڑی فوجی کارروائی شروع کی تھی۔ فوج کے شہر میں داخل ہوتے ہی کچھ شہریوں نے ان پر پھول برسائے تاہم دوسروں نے چھپنے ہی میں عافیت جانی۔

    صومالیہ نے ایتھوپیا کی فوج کی مدد سے اسلامی ملیشیا کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تھی

    اقوام متحدہ کے نمائندے کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں کی لڑائی میں سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔موغادیشو میں حالات معمول پر تھے مگر امریکی پشت پناہی سے جنگی سرداروں کےاقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں لڑائی کا آغاز ہوا۔

    علاوہ ازیں اسلامی ملیشیا کے رہنما شیخ شریف احمد نے الجزیرہ ٹیلی وژن کو بتایا تھا کہ ان کی افواج دارالحکومت سے اس لیے چلی گئی ہے کیونکہ اگر وہ یہ نہ کرتے تو اس شہر کو بھاری بمباری کا نشانہ بنایا جاتا کیونکہ بقول ان کے ’ایتھوپیا کی فوج صومالیوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔‘

    افریقی یونین نے بھی ایتھوپین فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صومالیہ چھوڑ دے۔ تاہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ایک ایسا بیان جاری کرنے میں ناکام رہی ہے جس میں صومالیہ سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلاء کی بات کی گئی ہو۔

    مبصرین کا کہنا ہے کہ ’یو آئی سی‘ کے انخلاء سے ملک میں اقتدار کا بحران پیدا ہو گیا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ دارالحکومت کی صورتحال مزید بگڑ جائے گی اور سنہ نوے کی دہائی کے حالات پیدا ہو جائیں گے جب شہر کے مختلف قبائلی گروہوں میں جنگ چھڑ گئی تھی۔
     
  3. ساتھی
    آف لائن

    ساتھی ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    245
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ماشااللہ نعیم بھائی آپ کو تو کسی چینل میں نیوز رپورٹر ہونا چاہیے
    بہت عمدہ طریقے سے معلومات سے آگاہ کیا آپ نے
    شکریہ​
     
  4. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    نعیم بھائی !
    اتنی اہم معلومات بہم پہنچانے پر بہت شکریہ
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    صومالیہ : کون کس کا حامی ؟

    صومالیہ: کون کس کا حامی؟​


    ایتھوپیا کی فوج کے تعاون کے بغیر صومالیہ کی حکومت کی کامیابی ناممکن تھی
    پچھلے چھ ماہ کے دوران صومالیہ کا زیادہ تر علاقہ المحاکم الاسلامیہ تنظیم کے زیر انتظام تھا لیکن اب ایتھوپیا کی مدد سے چلنے والی حکومت کی مزاحمت کی وجہ سے اس تنظیم کی شکست ہو گئی ہے۔
    اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ المحاکم الاسلامیہ اور صومالی حکومت کے درمیان یہ کشیدگی پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لی گی۔

    صومالیہ کی عبوری حکومت کو افریقی یونین، اقوام متحدہ اور بین الحکومتی اتھارٹی کی حمایت حاصل ہے۔

    لیکن اس حکومت کو سب سے زیادہ حمایت ایتھوپیا کی طرف سے حاصل ہے جیسا کہ ایتھوپیا کےوزیراعظم میلز زیناوی یہ نہیں چاہتے کہ ان کی سرحد کے پار کوئی اسلامی حکومت قیام میں آئے۔

    صومالیہ کے عبوری صدر عبدولائی یوسف کے ہمیشہ سے ہی ایتھوپیا کے ساتھ گہرے تعلقات رہے ہیں۔ 2004 میں صدر بننے کے بعد ان کا پہلا بیرونی دورہ ادیس ابابا کا تھا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے درخواست کی تھی کہ انہیں اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے ایتھوپیا سے بیس ہزار فوجیوں کی ضرورت ہے۔ ان کی عبوری حکومت دارالحکومت مورہ دیشو کی بجائے باوڈا میں قائم ہے۔

    حکومت کے زیر اثر علاقے باوڈا میں موجود صومالی پارلیمنٹ نے مورہ دیشو میں موجود المحاکم الاسلامیہ کی شدید مخالفت کے باوجود بیرونی فوجوں کو ملک میں تعینات کرنے کا بل پاس کر دیا۔

    کئی مہینوں تک ایتھوپیا اس بات سے انکار کرتا رہا کہ اس کی فوجیں صومالیہ میں موجود ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ صومالیہ میں صرف ان کی فوج حکومتی فوجوں کی تربیت کا کام سرانجام دے رہی ہے۔

    لیکن دسمبر کے آخر میں ایتھوپیا نے ایک بہت بڑا حملہ کرتے ہوئے المحاکم الاسلامیہ کے زیر انتظام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔

    ایتھوپیا کہ کہنا ہے کہ صومالیہ میں طویل عرصے تک قیام کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ صدر یوسف کو ایتھوپیا کی طرف سے ملنے والی مدد کے علاوہ اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ یمن سے بھی کئی جہاز اسلحہ اور بارود لے کر باودا میں آئے ہیں۔
    المحاکم الاسلامیہ نے مورہ دیشو میں امن قائم کیا ہے

    یمن سے آسٹریلیا اور یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے افراد کا ایک گروہ پکڑا گیا جس پر الزام تھا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی طرف سے صومالیہ پر لگائی گئی اسلحہ کی پابندی کی خلاف ورزی کی ہے۔

    المحاکم الاسلامیہ نے کینیا پر بھی اس بات کا الزام لگایا ہے کہ وہ بھی صومالیہ کی عبوری حکومت کا ساتھ دے رہا ہے۔

    المحاکم الاسلامیہ نے اپنی چھ ماہ کی حکومت کے دوران دارالحکومت مورہ دیشو میں نظم و ضبط نافظ کیا تھا۔اس تنظیم کو مالی امداد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے امراء کی طرف سے دی جاتی ہے۔

    صومالیہ کی عبوری حکومت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر سے اسلامی انتہا پسند المحاکم الاسلامیہ کی مالی مدد کرتے ہیں۔ جبکہ المحاکم الاسلامیہ نے اس بات
    کی تردید کی ہے۔

    اس بات کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ایرٹریا جس کا ایتھوپیا کے ساتھ کئی سال پرانا سرحدی تنازعہ ہے، المحاکم الاسلامیہ کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق المحاکم الاسلامیہ کے ساتھ ایرٹریا کے دو ہزار مسلح فوجی کام کر رہے ہیں۔ ایرٹریا نے اس بات کی تردید کی ہے۔

    المحاکم الاسلامیہ کے چیئر مین شریف شیخ احمد نے امریکہ اور اقوام متحدہ کو خط لکھتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔

    اپنے چار صفحات پر مشتمل خط میں انہوں نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ ان کی تنظیم اسلامی انتہا پسندوں اور وہ تنظمیں جو القاعدہ کی حامی ہیں، کو پناہ فراہم کرتی ہے۔
    صومالیہ میں عبوری حکومت کو ایتھوپیا کی مدد حاصل ہے

    لیکن المحاکم الاسلامیہ کے ایک اہم رہنما شیخ حسان داہر کا شمار امریکہ کی طرف سے جاری کردہ اس لسٹ میں شامل ہے جس میں دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام موجود ہیں۔

    اب اس بات کا خدشہ ہے کہ المحاکم الاسلامیہ ایک مزاحمت کار گروپ کی حیثیت سے اس علاقے میں کام کرے گی۔

    افریقی یونین نے ایتھوپیا کی فوجوں سے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس حملے کے بعد اب صومالیہ سے باہر نکل جائیں۔ جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یہ بیان جاری کرنے سے انکار کیا ہے کہ انہوں نے بیرونی فوجوں کے صومالیہ سے انخلاء کی درخواست کی ہے۔

    اس سے قبل دسمبر میں سلامتی کونسل نے ایک قرارداد پاس کی تھی جس کے تحت صومالیہ کی کمزور حکومت کو بچانے کے لیے آٹھ ہزار افریقی امن فوجیوں کی فراہمی کو ممکن بنانا تھا۔

    اس کے بعد جون میں سفارت کاروں نے صومالیہ میں بین الاقوامی تعلقاتی گروپ کی تشکیل دی جس کو امریکہ، برطانیہ، ناروے، سویڈن، اٹلی، تنزانیہ اور یورپی یونین کی حمایت حاصل تھی۔اس میں عرب لیگ، افریقی یونین اور کینیا نے مبصرین کی حیثیت سے شمولیت کی۔

    تعلقاتی گروپ کا قیام اس سے قبل اس امریکی حکمت عملی کی ناکامی کے بعد عمل میں آیا جس کے تحت ان فوجی کمانڈروں کو مدد فراہم کرنا تھا جو کہ کئی سالوں سے مورہ دیشو پر اپنا کنٹرول رکھے ہوئے تھے۔

    امریکہ کی نمائندگی کرنے والی افریقی افیئز کی نائب سیکٹریری آف سٹیٹ جندائی فریزر نے دعویٰ کیا ہے کہ ریڈیکل نظریات رکھنے والوں نے المحاکم الاسلامیہ میں اعتدال پسندوں کو پیچھے کر دیا ہے۔

    ان کا کہنا ہے: ’المحاکم الاسلامیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اب انتہا پسند ہیں جو کہ دہشت گرد ہیں اور جنگ کرنے کے لیے اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں‘۔
    اسلامی ملیشیاء کے خلاف ایتھوپیا کی فوج صومالیہ کی حکومت کی مدد کر رہی تھی

    درین اثناء تعلقاتی گروپ نے المحاکم الاسلامیہ اور صومالیہ کو آپس میں بات چیت کی دعوت دی۔ لیکن سوڈان کے دارالحکومت میں تین دور کی امن بات چیت کے باوجود یہ مزاکرات نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے۔

    ایک موقع پر مخالفین نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ فائر بندی کر دیں گے لیکن المحاکم الاسلامیہ کی طرف سے قبضہ جاری رہا اور دوبارہ جنگ جاری ہو گئی۔

    صومالیہ کی عبوری حکومت کو اب عرب لیگ کی دخل اندازی پر اعتماد نہیں تھی اور یہ بات چیت کسی نتیجے پر پہنچے بغیر نومبر میں ختم ہو گئی۔
     
  6. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    نعیم بھائی ۔ ایک بار پھر ایسا معلومات افزا پیغام ارسال کرنے پر شکریہ

    پتہ نہیں یہ سب کچھ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں‌ہو رہا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں