1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صدر جارج ولن ٹُنگ بخش سے انٹرویو

'قہقہے، ہنسی اور مسکراہٹیں' میں موضوعات آغاز کردہ از نور, ‏30 اکتوبر 2007۔

  1. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    محترم و مکرم قارئین و صارفین ہماری اردو ۔

    ذرا اپنی حسِ طنز و مزاح کو جگائیں اور مندرجہ ذیل انٹرویو پڑھ کر اپنی آراء یا پھر آنٹی شمیم آرا سے نوازیں۔ شکریہ

    خبروں میں امریکی صدر جارج وِلن ٹنگ بخش کا ذکرِ خار بہت رہتا ہے اور اچھا یا بُرا، ہم ان کو اکثر یاد کرتے ہی رہتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ پچھلے دنوں یہ ہمارے ہی دیس میں وارد ہوگئے اور اگرچہ کہ انہوں نے زیادہ اخبار نویسوں کو منہ نہیں لگایا، تاہم ہم سے بات چیت پر فوری رضامند ہوگئے۔ صدر سے خاصی گفتگو رہی اور لامحالہ عراق پر بات چیت زیادہ ہوئی جو آپ کی نذر کر رہے ہیں۔


    ہم : سر انٹرویو میں خوش آمدید۔ آج کل آپ کا ہر انٹرویو لفظ عراق سے شروع ہوتا ہے۔ عراق کی صورت کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟

    ماسٹر بخش: ہم عراق میں جیت رہے ہیں۔ عراق آزادی اور خودمختاری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عراقیوں کو مزید طاقت دی جا رہی ہے تاکہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر مزید مضبوط ہو جائیں۔ وہ اپنے ملک کا نظم و نسق سنبھال رہے ہیں (ہمارے حکم کے تحت) ۔ صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر ہورہی ہے (کیونکہ ہرگذرتے دن کے ساتھ عراقی کم ہوتے جارہے ہیں (-: ۔

    ہم : سر عراق میں آپ نے کیا پایا جہاں روزانہ سیکڑوں عراقی مر رہے ہیں اور اکثر مبصرین کے مطابق وہاں خانہ جنگی شروع ہوچکی ہے۔

    ماسٹر بخش: میں عراق کے حالات سے نہ صرف مطمئن ہوں بلکہ خوش ہوں۔ آزادی قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں ہوتی یہ بات عراقی بہت جلد سمجھ لیں گے۔ عراقی قوم اس وقت قربانی کے مراحل سے گزر رہی ہے اور یہ قربانی انہیں آخری عراقی شہری تک دینی ہوگی۔

    دوسری اور اہم بات یہ کہ عراقی قوم اب ایک نئی قوم ہے۔ ہماری دخل اندازی سے پہلے ایک عراقی بھیڑوں کے جتھے کی طرح امن سے رہتے تھے۔ لیکن اب دیکھیے، وہ ایک دوسرے پر بلا خوف و خطر گولیاں چلا رہے ہیں، مر رہے ہیں اور مار رہے ہیں۔ یہ ہمارے ان کے ساتھ صرف تین سال رہنے کا ثمرہ ہے۔

    ہم :واہ جی واہ۔ یہ بتائیے کیا آپ کے خیال میں عراق میں خانہ جنگی شروع ہوچکی ہے؟

    ماسٹر بخش: جی ہاں بالکل اور یہ تمام اسی فریم ورک کا حصہ ہے جس میں اقوام کو آزادی حاصل ہوتی ہے۔ ہم امید کر رہے ہیں کہ دس پندرہ سالوں کی خونی جنگ کے بعد عراق مکمل طور پر پر امن اور آزاد جنگل ہو جائے گا جہاں انسان تو کیا ایک پرندہ بھی نہ ہوگا ۔

    ہم : سر روزانہ ایک دو امریکی فوجیوں کی ہلاکت کی خبر بھی سامنے آتی رہتی ہے۔ ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے: آپ عراقیوں کو آزادی دینے کے لیے اپنے فوجیوں کی زندگیاں داؤ پر کیوں لگا رہے ہیں؟ آپ نہیں سمجھتے کہ ان امریکی فوجیوں کی موت کے ذمہ دار آپ ہیں۔

    ماسٹر بخش: سب کچھ چھوڑو یہ بتاؤ فوجی لوگ پیسے کس بات کے لیتے ہیں؟ لڑنے مرنے کے ہی تو لیتے ہیں۔ پھر ان کی امّیاں اور بیویاں آ آ کر مجھے کیوں بور کرتی ہیں کہ ہمارے باپ بھائی کو مار دیا۔ تو فوج میں ڈلووایا ہی کیوں تھا، کسی ہوٹل کا ویٹر ہی رہنے دیا ہوتا۔

    ہم سمجھتے ہیں کہ عراق کی سونے جیسا تیل اگلتی زمین میں ہمارے لیے ابھی بہت کچھ باقی ہے اور اسی لیے ہم ابھی عراقیوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔ امریکی بوڑھی امّیوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی۔ خصوصاً اس عورت کو جو اکثر وائٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ جاتی ہے۔

    ہم : سر آپ نے پہلے کہا کہ عراق ویپن آف ماس ڈسٹرکشن (WMD) بنا رہا ہے۔ پھر کہا کہ عراق جوہری اور زہریلی گیسوں پر مبنی ہتھیار بنا رہا ہے۔ پھر کہا کہ عراقی صدر کے القاعدہ سے تعلقات ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ثابت ہوا۔ اب آپ اپنی عراق جنگ کو کیسے صحیح ثابت کرتے ہیں۔

    ماسٹر بخش: تم میرا اس پر آخری بیان بھول گئے۔ مجھے اس جنگ کا حکم خدا کی طرف سے ملا تھا۔ اب جاؤ وہاں سے کنفرم کرالو۔

    ہم : تین سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ابھی تک اس انتظار میں ہیں کہ عراق کا کوئی WMD سامنے آئے۔ اس درمیان آپ ہی کی جانب سے کئی WMD سامنے آگئے۔ سر آپ عراق میں ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کے لیے گئے تھے۔

    ماسٹر بخش: میں ثابت کرسکتا ہوں کہ ہمیں عراق میں ویپن آف ماس ڈسٹرکشن ملے ہیں۔

    ہم : وہ کیسے؟

    ماسٹر بخش: ماس کس کو کہتے ہیں۔ اردو میں بتانا۔

    روزنامہ بوریت: جی اردو میں ؟؟؟

    ماسٹر بخش: ہاں۔ وہ مصرع سنا ہوگا، “چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں“!

    ہم : (حیران ہوکر) سر، وہ تو گوشت کو کہتے ہیں۔

    جارج بخش: ہاں تو ماس کی ڈسٹرکشن، یعنی گوشت کی تباہی یا خاتمہ۔ جسم سے گوشت کے خاتمے کو ماس ڈسٹرکشن یا عام زبان میں ڈائیٹنگ کہا جاتا ہے۔ ہمیں عراق میں بڑے پیمانے پر ڈائیٹنگ کے لیے ضروری ادویہ ملی ہیں جو کہ صدام حسین کی ایک کمپنی تیار کر رہی تھی۔ پس ثابت ہوا کہ ہمارا الزام درست تھا۔ یہی ویپن آف ماس ڈسٹرکشن ہیں۔

    ہم : سر ابھی آپ کا ایک تازہ بیان آیا ہے کہ آپ عراق سے امریکی افواج واپس نہیں بلائیں گے اور یہ کام اب اگلے صدر کے ذمّے ہوگا۔ آپ نے ایسا کیوں کہا؟

    ماسٹر بخش: دراصل جب بھی فوجیں واپس پلٹتی ہیں تو انہیں پیچھے سے بہت جوتے پڑتے ہیں۔ یہ ایک قدیمی فوجی روایت ہے۔ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ساتھ بھی یہی ہونا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اس موقع پر میں موجود ہوں۔ تم دیکھ ہی رہے ہو کہ اس سارے جھگڑے میں میرے بال کتنے گر چکے ہیں۔ میں اب ٹنڈ پر مزید جوتیاں نہیں سہہ سکتا۔

    ہم : سر آپ کے اکثر جملے بڑے معنی خیز ہوتے ہیں اور لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے وہ مطلب نہیں ہوتے جو ڈکشنری سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ ان میں 'فریڈم' ایک لفظ ہے۔

    ماسٹر بخش: (خودکلامی کرتے ہوئے ) سب کچھ بتادوں۔ اپنی طرح ہوشیار کرلوں!

    دراصل میں اس طرح کی گفتگو پبلک میں کھولتا نہیں ہوں لیکن تم سے وعدہ کیا تھا کھل کے بات کرنے کا۔ بہرحال فریڈم کا مطلب ہے کہ امریکی آشیربادی انتظام۔

    ہم : اوہ سر، اور لفظ 'ٹیرر ' کا مطلب؟

    ماسٹر بخش: ہر اچھا مسلمان۔

    ہم : سر عموماً فوجی آپشن کسی صدر کا آخری آپشن ہوتا ہے تاہم آپ کے ساتھ دیکھا گیا ہے کہ یہ آپ کا پہلا آپشن ہوتا ہے، چنانچہ آپ ایران پر حملے کی تیاری شروع کرا چکے ہیں۔

    ماسٹر بخش: آپشن تو یہ میرا بھی آخری ہوتا ہے، مگر میں بچپن سے صفحہ آخیر سے پڑھنے کا عادی رہا ہوں۔

    ہم : سر آپ نے پیشگی چوٹ (pre-emptive strike) کی حکمتِ عملی کو اپنے دفاع کی مرکزی حکمتِ عملی بنا دی۔ اس کی وجہ؟

    ماسٹر بخش: جی ہاں یہ ہمارے دفاع کا پرانا حصہ ہے، تاہم یہ صفحہ 721 پر ہوا کرتی تھی۔ میں نے وہ صفحہ پھاڑ کر اس کو پہلے صفحے میں ہی نتھی کردیا ہے۔ یہ بھی میری حکومت کی ایک اہم کامیابی ہے۔

    پیشگی چوٹ کی حکمتِ عملی میری خاص حکمتِ عملی رہی ہے۔ اور یہ مجھے میرے ابے نے سکھائی تھی ۔ میں بچپن میں اپنے ہم جماعتوں پر اچانک حملہ آور ہو جایا کرتا تھا۔ دراصل مجھے اپنی کرتوتوں کی وجہ سے احساس ہوجاتا تھا کہ کب کوئی مجھے تھپڑ مارنے والا ہے، چنانچہ میں پہلے ہی اس کو تھپڑ مار دیا کرتا تھا تاکہ یہ مجھے تھپڑ مارنے کا خیال تک بھی دل میں نہ لائے۔ چنانچہ ان ادوار سے ہی مجھے اس حکمتِ عملی کے انتہائی مؤثر ہونے کا ادراک تھا۔

    ہم : سر دنیا میں آپ کو کئی ناموں سے جانا جاتا ہے، ماڈرن ہلاکو خان، فریڈم فائٹر، آج کا ہٹلر، انٹرنیشنل چودھری، جمہوریت کا دیوانہ، عالمی اڑاؤ ٹانگ، دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد وغیرہ وغیرہ۔ آپ خود کو ذاتی طور پر کیا کہلوانا چاہیں گے؟

    ماسٹر بخش: یہ جو تم نے بتایا سب میرے بدخواہوں کے القابات ہیں۔ پیار کرنے والے تو مجھے 'منکی بش' کہتے ہیں۔

    ہم : سر آپ نے حال ہی میں بھارت اور پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں بھارت کو نیوکلیائی ٹیکنالوجی تاہم پاکستان کو صرف دلاسے دیے۔ آپ نہیں سمجھتے کہ آپ نے پاکستان جیسے دوست کو ناراض کیا۔

    ماسٹر بخش: پاکستان ہم سے کبھی ناراض نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ انڈیا کے برعکس یہ ہمارا غلام ملک ہے۔ جس دن ایسا ہوا ہم اس کو پھر کوئی لالی پاپ تھما دیں گے اور وہ دوبارہ ہمارا بیَسٹ فرینڈ بن جائے گا۔

    ہم : آپ کی کوئی خواہش جو پوری نہ ہوئی ہو۔

    ماسٹر بخش: امریکی صدر بننے کے بعد مجھے اندازہ ہوا ہے کہ چار سالہ دورِ اقتدار کچھ خاص معنی نہیں رکھتا۔ اس لیے میں نے چار سال مزید بڑھوائے، مگر سچ ہے کہ یہ بھی بہت کم ہیں۔ اس کے باوجود میں نے کوشش کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کام کم سے کم وقت میں کرکے جاؤں۔ بہرحال دو تین فوجی کاروائیوں کے پروگرام پر ابھی بھی غور و خوض جاری ہے۔ ہمارا خاندان ایک بھائی یا بیٹے کی کمی بڑی شدت سے محسوس کر رہا ہے۔ ابّا بھی ڈھیلے آدمی تھے۔ اور میری اماں بہت بھولی۔

    ہم : ریٹائرمنٹ کے بعد کیا ارادے ہیں؟

    ماسٹر بخش: ریٹائرمنٹ کے بعد میں بے سہارا بچوں کے لیے ایک فلاحی ادارہ قائم کروں گا۔ یہ میری بچپن کی خواہش ہے۔

    ہم : آج ایسا کرلیں تو کیا ہی اچھا ہو۔

    ماسٹر بخش: ابھی بھی میں جو کچھ کر رہا ہوں اس کا اسی سے تعلق ہے۔

    ہم : (پھر حیرانگی سے ) سر وہ کیسے ؟؟

    ماسٹر بخش: (مسکرا کے) اتنا سمجھتے تو تم بھی امریکی صدر ہوتے ۔ چلو بتاتا ہوں کہ یہ جو دنیا بھر میں بچوں کو بے سہارا اور یتیم کر رہا ہوں ۔ انہی کے لیے تو فلاحی ادارہ بناؤں گا نا۔

    ہم : دنیا کا سب سے قیمتی وقت ہمارے اوپر صرف کرنے کا شکریہ۔

    ماسٹر بخش: آپ سے مل کر خوشی نہیں ہوئی۔ کیونکہ آپ نے بہت اوکھے اوکھے سوالات کیے ہیں۔ بائے بائے

    ---------------------------------------------------
    بشکریہ روزنامہ ۔ بوریت کراچی
    ----------------------------------------------------
     
  2. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    بس ٹھیک ہی ہے۔ :201:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں