1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صدر بش اور کونڈالیزا رائس کی طرف سےفاش غلطیوں کا اعتراف

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏8 دسمبر 2008۔

  1. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    صدر بش اور کونڈو لیزا رائس کی جانب سے فاش غلطیوں کا اعتراف

    [​IMG]

    واشنگٹن .. . . .. . . .حسب روایت مدت اقتدار ختم ہونے کے قریب آتے ہی امریکی عہدیداروں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہونے لگا ہے۔اس بار سپر پاور کے طاقتورترین شخص جارج ڈبلیو بش اورمضبوط ترین خاتون کونڈولیزارائس نے بھی عرا ق جنگ سمیت دیگر غلطیوں کا اعتراف کیا ہے۔امریکی صدرجارج ڈبلیو بش نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے مدت اقتدار میں سب سے زیادہ قابل افسوس بات صدام کے حوالے سے ناقص خفیہ معلومات ہیں ۔جس میں کہا گیا تھا کہ عراق بے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کررہا ہے جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔اسی طرح کا اعتراف عراق پر حملے کے وقت صدر بش کی قومی سلامتی کی مشیر اور موجودہ وزیر خارجہ کونڈولیزارائس نے بھی کیا ہے۔اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیاکہ عراق جنگ کے حوالے سے امریکا نے ناقص خفیہ معلومات پر انحصار کیا ۔ کونڈولیزارائس نے اعتراف کیا کہ عراق جنگ سے پہلے اور جنگ کے بعد امریکا نے کئی غلطیاں کیں جن میں ایک غلطی عراق کو امریکی وزارت دفاع کے تحت دینا بھی شامل ہے۔تاہم انہوں نے امریکا کی جانب سے عراق جنگ اورصدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کا دفاع کیا۔مختلف چینلز کو انٹرویوز میں کونڈولیزارائس نے برما،زمبابوے کے حوالے سے امریکی ناکامیوں کا بھی اعتراف کیا۔۔

    بحوالہ : روزنامہ جنگ http://search.jang.com.pk/
     
  2. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    جس انٹرويو کا حوالہ ديا گيا ہے وہ آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔

    http://abcnews.go.com/video/playerIndex?id=6379043

    ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے اينٹلی جينس کی ناکامی محض امريکی اداروں تک محدود نہيں تھی بلکہ حقيقت يہ ہے کہ اس ايشو کے حوالے سے رپورٹنگ ميں امريکہ سميت بہت سے ديگر ممالک کے اداروں نے مساوی کردار ادا کيا تھا۔

    صدر بش اپنے انٹرويو میں ان عوامل اور محرکات کا ذکر کر رہے تھے جو عراق پر کاروائ کے فيصلے کے ضمن ميں زير بحث تھے۔ ڈبليو – ايم – ڈی پر انٹيلی جينس رپورٹ فيصلہ سازی کے عمل کا اہم حصہ تھی۔ اگر يہ رپورٹ مختلف ہوتی تو اس کے نتيجے ميں سرکاری اور غير سرکاری سطح پر بحث بھی مختلف ہوتی۔ اس وقت حکومتی سطح پر کيے جانے والے فيصلے ڈبلیو – ايم – ڈی کی موجودگی کی صورت ميں ممکنہ خطرات کی روشنی ميں کيے گۓ تھے۔ ليکن يہ حقيقت بہرحال اٹل ہے کہ صدام حکومت اس خطے اور عراقی عوام کے ليے ايک مستقل خطرہ تھی۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  3. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    اب کیا جانے حوت :pagal:
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حقائق تو بہت سے اٹل ہیں جناب۔ حقائق تو یہ بھی اٹل ہیں کہ بش حکومت بھی خود امریکی معیشت، امریکی استحکام ، امریکہ کی عالمی برتری اور امریکی عوام کے دنیا میں وقار کے لیے زبردست خطرہ تھی۔ :hasna: تو کیا اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے یونائیٹڈ نیشنز امریکہ پر چڑھائی کی کوئی بل منظور کر سکتی ہے ؟

    حقیقت تو یہ بھی اٹل ہے کہ اسرائیل کے فلسطین پر جارحانہ قبضے کے خلاف یونائیٹڈ نیشنز کے فلور پر 1949 کی قراردادیں پاس کی ہوئی ردی کی ٹوکری میں چلی گئیں لیکن ان پر عمل درآمد کی توفیق کسی کو نہیں‌ہوئی ۔

    حقیقت تو یہ بھی اٹل ہے کہ آج سے 2 دہائی کے قبل کے عراق (جب وہ صدام کے خطرے کے زیرسایہ پل رہے تھے) اور آج کے آزاد عراق (جب وہ امریکی استعمار کے وزارت دفاع کے زیر سایہ جی رہے ہیں) کی خوشحالی، امن و امان اور ترقی ، پوری دنیا پر واضح ہے :hasna:
     
  5. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    اس وقت اقوام متحدہ ميں قريب 1500 کے لگ بھگ قرارداديں موجود ہیں جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک ميں جاری تنازعات سے ہے۔ يہ غير منطقی سوچ ہے کہ ان تمام ممالک ميں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے ليے فوجیں بيجھی جانی چاہيے۔ يہ طريقہ کار تو اقوام متحدہ کے قيام کے بنيادی فلسفے کی ہی نفی کر ديتا ہے جس کے مطابق دنيا کے مختلف ممالک کے درميان تنازعات کے حل کے ليے سفارتی کوششوں کو زيادہ موثر بنانے پر زور ديا گيا ہے۔

    يہ بات قابل توجہ ہے کہ اسامہ بن لادن اور القائدہ کے خلاف قرارداد 1998 ميں منظور کی جا چکی تھی۔ اسی طرح صدام حکومت کے خلاف 1990 کی جنگ کے بعد کئ قراردادیں موجود تھيں جن پر عمل درآمد نہيں ہو رہا تھا۔ ليکن اس کے باوجود ان قراردادوں پر عمل درآمد کے ليے فوج کا استعمال نہيں کيا گيا۔ ليکن 911 کے واقعات کے بعد امريکی حکومت اور عالمی برادری پر يہ بات واضح ہو چکی تھی کہ افغانستان ميں القائدہ کے ٹھکانوں کے خاتمے کے ليے فوج کا استعمال ناگزير ہو چکا ہے۔

    ميں پھر اس بات کا اعادہ کروں گا کہ عراق اور افغانستان ميں فوج کے استعمال کا فيصلہ صرف اس وقت کيا گيا جب کئ مہينوں اور سالوں کی بحث، معاہدوں اور مذاکرات ميں مکمل ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہيں کرايا جا سکا۔

    امريکہ کی جانب سے فلسطين کے مسلۓ کے حوالے سے اقوام متحدہ ميں منظور کی جانے والی بہت سی قراردادوں کی مکمل حمايت کی گئ ہے جن ميں قرارداد نمبر 242، 338 اور 1397 قابل ذکر ہيں۔ امريکی حکومت کی جانب سے دونوں فريقين کے مابين معاہدے کے ليے سفارتی سطح پر مسلسل کوششيں کی جا رہی ہيں۔

    موجودہ امريکی صدر بش وہ پہلے امريکی صدر ہيں جنھوں نے ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام اور1967 سے جاری اسرائيلی تسلط کے خاتمے کے موقف کو سرکاری سطح پر تسليم کر کے اسے امريکی خارجہ پاليسی کا حصہ بنايا ہے اور اس حوالے سے عملی کوششيں بھی شروع کر دی ہيں۔ ان کوششوں کو امريکی سياسی منظرنامے پر عمومی طور پر يکساں حمايت حاصل ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فواد صاحب۔
    آپکے مالک و مربی بش پر جو جوتوں کی بارش ہوئی ہے ۔ ذرا اس پر بھی اپنی ریسریچ کے گل کھلائیے :hasna:
     
  7. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    بالکل درست کہا۔ اور نیو مڈل ایسٹ کا پلان بھی اسی آزادی کا حصہ تھا۔ عراق کی تباہی و بربادی سے لے کر شام و لبنان تک ہزاروں بےگناہ شہریوں کا خون بھی اسی فلسطینی آزادی کا حصہ تھا۔ 80 فیصد حمایت سے مکمل جمہوری انتخابات کے نتیجے میں حماس کی حکومت کی امریکی امداد روکنا بھی " عالمی جمہوری روایات کی پاسداری" کا بہترین نمونہ تھا۔

    فواد صاحب ۔ اگر نوکری کرنی ہی ہے تو مالکوں کو کہیے کہ کم از کم آپکو دلائل تو مضبوط رٹایا کریں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں