1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صدام کی پھانسی

'گپ شپ' میں موضوعات آغاز کردہ از ساتھی, ‏31 دسمبر 2006۔

  1. ساتھی
    آف لائن

    ساتھی ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    245
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ’جس دھج سے کوئی مقتل ميں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
    يہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہيں‘​
    آپ بھی اپنی آرا کا اظہار کریں
     
  2. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا؟
    ميں تو دريا ہوں، سمندر ميں اتر جاؤں گا۔​
     
  3. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    جو قومیں اپنے اندرونی معاملات کے حل کے ليے دوسروں کا دماغ استعمال کرتی ہيں ان کا انجام ايسا ہی ہوتا ہے۔ کاش کوئی مشرف کو يہ سمجھائے کہ اگر صدام پر 148 شیعوں کے قتل کا مقدمہ چل سکتا ہے تو مشرف بھی مدرسہ والا قتل عام ياد رکھے۔ صدام نے بھي امريکہ کی خاطر اپنوں کو مارا اور مشرف بھی امريکہ کی خدمت گذاريوں ميں مصروف ہے۔خير؛ دشمن مرے تے خوشی نہ کریےُ سجنا وی مر جانا اے
     
  4. شامی
    آف لائن

    شامی ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اگست 2006
    پیغامات:
    562
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    :a191:
    کیا کوئی بتا سکتا ہے صدام نے امریکہ کا ساتھ کب دیا؟
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جی شامی بھائی !!
    آپ ساتھیوں کی معلومات میں اضافہ کے لیے صدام کے کچھ کارنامے۔

    صدام حسین نے سن انیس سو اناسی میں بکر کو خاموشی کے ساتھ اقتدار سے الگ کردیا اور خود ایک مطلق العنان حکمران بن گئے۔

    انہوں نے وزارت عظمی، ریوُلوشنری کمانڈ کونسل کے چیئرمین اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کے عہدے اپنے پاس رکھے۔

    ایران میں سنہ انیس سو اناسی میں امریکہ مخالف اسلامی انقلاب آنے کے بعد صدام حسین نے سنہ اسّی میں ایران کے ساتھ جنگ چھیڑ دی۔ جنگِ خلیج آٹھ سال تک جاری رہی جس میں دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ اور یہ جنگ امریکہ کی حمایت اور ہدایت پر شروع کی گئی تھی۔ اور اس جنگ میں صدام حسین کی دوستی جارج بش سینئر (موجودہ بش کا باپ) سے بنی۔ 1983 میں (موجودہ بش حکومت میں وزیرِدفاع اور کٹر یہودی) رمزفیلڈ جارج بش سینئر کے خاص ایلچی بن کر صدام حسین سے بغداد میں ملے اور بڑے پیمانے پر جدید اسلحہ سمیت دیگر مراعات سے عراق کو نوازا گیا۔

    اس جنگ میں صدام حسین کو امریکہ کی خاموش حمایت حاصل رہی اور صدام حسین کی حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کر دیا گیا۔ یہ ہی وہ زمانہ تھا جب 1982 میں دجیل میں ایک ناکام قاتلانہ حملے کے بعد وہاں 148 شیعوں کا قتل عام ہوا۔ (جس کی پاداش میں بالآخر صدام حسین کو 5 نومبر 2006 کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جس کے ٹھیک پچپن روز بعد 30 دسمبر کو انہیں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔)

    ان پر لگائے گیے الزامات اور جرائم کی فہرست میں مارچ 1988 میں حلبجہ میں پانچ ہزار کردوں کو زہریلی گیس سے ہلاک کرنا بھی شامل ہے۔‌

    علاوہ ازیں صدام اپنے دورِ اقتدار میں دہشت و بربریت کا دوسرا نام تھا۔ ہر مخالف کو سرِ عام قتل کرنا، اسکے خاندان کی عورتوں کی عصمت دری کرنا ایک معمول کا واقعہ تھا۔ اس کام کے لیے اسکے دونوں بیٹے بہت مشہور تھے۔

    ایسے شواہد بھی دستیاب ہیں کہ صدام حسین نے کویت پر حملہ بھی امریکہ کے کہنے پر ہی کیا تھا ۔ لیکن امریکہ اس کھیل میں صدام کو ڈبل کراس کر گیا اور صدام حسین کو محض ایک مہرے کے طور پر استعمال کرکے کویت پر عراقی قبضہ ہوتے ہی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے صدام کے خلاف قرارداد منظور کروانے کے صرف 2 گھنٹے بعد 20 ہزار امریکی فوجیں سعودی عرب میں اتار رہا تھا جو کہ آج بھی وہیں پر ہیں اور سعودی حکومت 90 سال تک ان امریکی نر و مادہ فوج کو اپنے ملک میں رکھنے اور اسکے اخراجات اٹھانے کا معاہدہ بھی کرچکی ہے۔

    المختصر یہ کہ امریکہ بہادر نہ صرف صدام بلکہ کم و بیش ہر مسلمان حکمران کو اپنی انگلیوں پر نچاتا ہے اور ہمارے حکمران اپنی کم ہمتی اور بزدلی کی بنا پر اسکے اشاروں پر ناچتے ہیں۔
     
  6. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    نعیم بھائی! وضاحت کا شکریہ!

    مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ اور یہ اُمتہِ مسلمہ کے لئے ایک لمحہءِ فکریہ ہے۔ کب تک ہمارے حکمران دُشمن طاقتوں کے اشاروں پر ناچتے رہیں گے؟؟ اور اگر یوں ہی چلتا رہا تو نہایت افسوس کے ساتھ مجھے کہنا پڑھ رہا ہے کہ:

    وہ دن دور نہیں جب:

    “ہماری داستانیں بھی نہ ہوں گی داستانوں میں“​
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    درست بات ہے عبدالجبار بھائی !!

    صرف ایک امید کی کرن ہے کہ امت مسلمہ کے حکمرانوں کی غداریوں کے باوجود الحمدللہ عام مسلمان کے اندر ابھی تک غیرتِ ایمانی کی رمق نظر آتی ہے۔ اسکے اندر ایک اضطراب پایا جاتا ہے اور وہ اس ظالمانہ نظام کو کسی نہ کسی صورت بدلنا چاہتا ہے۔ صرف عام مسلمان اوربالخصوص نوجوان طبقے کو صرف مخلص اور قیادت نہیں مل رہی۔ کیونکہ بدقسمتی سے مذہبی قیادت بھی کم و بیش دوغلی ہے۔ اور

    چمن والو ! چمن میں یوں گذارا چاہیئے
    باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی​

    کے مقولے پر عمل پیرا ہیں۔

    ہمارا کام اتنا ہے کہ ہمیں مل کر ان دین فروش ملاؤں اور طاغوت کے پاؤں چاٹنے والے بابوؤں کے چہروں سے نقاب نوچ کر انکا اصلی بھیانک چہرہ قوم کو دکھا کر ایک اہل، مخلص، دیندار اور قوم کا درد رکھنے والی قیادت کو متعارف کروانا ہوگا۔

    جس دن ہم اس کام میں کامیاب ہو گئے وہی دن مصطفوی انقلاب کا سورج لے کر طلوع ہو گا انشاء اللہ العزیز
     
  8. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    بات تو نعیم صاحب آپ کی بلکل درست ہے
    اللہ اہلِ اسلام کو اہل قیادت عطا کرے ( آ مین )
     
  9. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    لیکن وقت جتنا کم ہے اُسی رفتار سے بڑھتا چلا جا رہا ہے، ہمارا نوجوان بے راہروی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ نئی نسل کا اخلاق تباہ ہو رہا ہو اور دین سے بہت دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ آج نوجوان نسل میں سے کتنے فیصد لوگ مسجد کا رُخ کرتے ہیں؟ اور جب یہ بڑے ہو جائیں گے تو ان کے بچوں میں سے کون مسجد کا رُخ ‌کرے گا؟

    عیدین کو جیسے مسجدیں بھر جاتیں ‌ہیں عام دنوں میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ کیا وہ وقت دور نہیں‌ جب ہمارے مولوی صاحب بھی عیسائی پادریوں کی طرح (جیسے وہ اتوار کی اتوار گرجا کھول کر چند لوگ عبادت کرتے ہیں) جمعہ کے جمعہ دن مسجد کا تالا کھولیں گے اور صرف کچھ لوگ جمعہ کی نماز ادا کیا کریں گے؟‌ کیا وہ وقت دور نہیں کہ ہم صرف نام کے مسلمان رہ جائیں‌گے؟

    ہمیں آنکھیں‌کھولنی چاہیئیں، ابھی وقت ہے کہ ہم سب اُٹھ کھڑے ہوں، خود کو پہچانیں۔ ورنہ جو ہمارا حال ہے یہ ہمارے آقا :saw: کی دُعائیں ہیں‌ جو ہم عذابوں سے محفوظ ہیں، ورنہ کب کے زمیں بوس کر دیئے جاتے یا ہم پر بھی پُرانی قوموں کی طرح آگ برسا دی گئی ہوتی۔
     
  10. عمار خاں
    آف لائن

    عمار خاں ممبر

    شمولیت:
    ‏28 ستمبر 2006
    پیغامات:
    212
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    صدام کی پھانسی۔۔۔
    ایک ایسے ظالم کی موت جو پھانسی پر چڑھنے کے بعد مظلوم بن گیا۔
    صدام حسین نے ماضی میں جتنے بھی‌ظلم کئے، وہ اپنی جگہ۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وقت وہ ان مسلم لیڈروں میں شامل تھا جو امریکہ کی کھلے عام مخالفت کرتے تھے۔۔۔ جن کو اس تلخ حقیقت کا احساس تھا کہ امریکہ کا ساتھ محض سراب سے بڑھ کر کچھ نہیں! صدام حسین ایک ایسا لیڈر تھا جس کو جلد یا بدیر مگر یہ احساس ضرور ہوگیا تھا کہ امریکہ کبھی مسلمانوں کے مفاد کے لئے نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لئے کام کرتا ہے۔۔۔ مگر اس حقیقت کا ادراک کرنے کے بعد امریکہ نے اسے پھانسی پر لٹکادیا۔۔۔ یہ بھی تو ایک پالیسی ہے۔۔۔ جس مسلم راہنما کو امریکہ کی حقیقت کا احساس ہوتا ہے، وہ اسے زندہ رہنے ہی نہیں دیتا۔ بہر حال! مجموعی طور پر یہ وقت خوشی منانے کا نہیں۔۔۔ جب صدام کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو میں اپنے دل کو تسلی دیتا رہا کہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ پھر جب یہ سنا کہ اب پھانسی ہوگئی تب بھی اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کی خاطر یہ سوچتا رہا کہ صرف پروپیگنڈا ہوگا لیکن جب رات کو ویڈیو دیکھی تو جیسے ہر سپنا ٹوٹ گیا۔۔۔
    کاش کہ ہمارے حکمران دوبارہ پرانے تجربے نہ کریں اور صدام حسین نے جن تجربوں کے بات عقل پکڑی، ان تجربوں کو بنیاد بناکر امریکہ سمیت کسی غیر مسلم پر انحصار کرنا چھوڑ دیں۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عمار بھائی ۔ بہت اچھا تجزیہ کیا آپ نے۔

    لیکن مجھے اتنا اختلاف ضرور ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا۔ انہیں ضرور پتہ ہوتا ہے کہ انہیں ٹائیلٹ پیپر کی طرح یا طہارت کے لوٹے کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔
    لیکن میں نے تجزیہ کیا ہے اور 2 چیزیں نوٹ کی ہیں۔۔۔
    نمبر 1۔۔۔ ہمارے مسلمان حکمرانوں کے اندر ایمان کی ازحد کمی ہوتی ہے۔ انکا ایمان اللہ تعالی کی ذات کے علی کُلّ شئ قدیر ہونے پر نہیں ہوتا بلکہ سمجھتے ہیں کہ انکے اقتدار کی طوالت کا انحصار امریکہ کی خوشنودی پر ہے۔ اور اسی چکر میں وہ اسکی غلامی کا دم بھرتے جاتے ہیں۔ اپنے مسلمان بھائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے جاتے ہیں اور امریکہ کی خوشنودی میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

    نمبر 2۔۔۔۔ ہمارے حکمرانوں کے اندر جاہ پرستی انتہا درجے کی ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر جو حکومت میں آجاتا ہے پھر اسکے بعد وہ سیدھا قبر میں ہی جاتا ہے۔ اسکے علاوہ کوئی اور جگہ اسے پسند نہیں آتی۔ آپ عربوں سے لے کر پاکستان تک ایک ایک ملک کو دیکھ لیں۔ میرا خیال ہے شاید ایک دو ملکوں کے استثناء کے ساتھ ہر ملک میں خاندانی سیاست ، ملوکیت، شہنشاہیت، جاگیرداریت، سرماداریت یا آمریت کا دور دورہ نظر آئے۔ حتی کہ مسلمان دنیا کا مرکز سعودی عرب بھی بدقسمتی سے خاندانی شہنشاہیت کا شکار نظر آتا ہے ۔ جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے نہ دنیا کا کوئی اور جمہوری نظام۔
    تو جب حکمرانوں کے اندر جاہ پرستی آتی ہے تو وہ اقتدار میں رہنے کے لیے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر جائز نا جائز کر گذرتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلامی دنیا روز بروز ذلت و پستی کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔
    اور اسلام دشمن طاقتیں اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان حکمرانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
    اسکے برعکس غیر اسلامی ملکوں میں حکومت کو کم و بیش ایک خدمت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ سرکاری خدمت کے طور پر۔ بلاشبہ ہر کوئی دولت کمانا چاہتا ہے اور تھوڑی بہت ڈنڈی وہ بھی مارتے ہوں گے۔ لیکن قانون کی پابندی ضرور کی جاتی ہے۔

    کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ دنیا کے عظیم طاقت امریکہ کا دوبار منتخب شدہ صدر بل کلنٹن جب وہائٹ ہاؤس سے نکلا تو واشنگٹن میں ایک فلیٹ تلاش کرتا نظر آرہا تھا۔ اس نے کبھی اسکے بعد سیاسی جوڑتوڑ میں براہِ راست حصہ نہیں لیا۔ نہ ہی بش حکومت کو ناکام کرنے کے لیے جلسے جلوس نکالے۔
    جرمنی کا چانسلر گیرہارڈ شروڈر موجودہ لیڈی چانسلر انجیلا مارکل سے صرف ایک ووٹ سے ہارا۔ اگر چاہتا تو جوڑ توڑ کر کے کسی چھوٹی پارٹی کو ساتھ ملا کر ایک دو ووٹ کا اضافے سے وہ دوبارہ چانسلر بن سکتا تھا۔ لیکن اس نے سیاست سے ریٹائرمنٹ لی اور جب صحافیوں نے پوچھا کہ آئندہ کیا ارادے ہیں تو بولا “ میں قانون دان ہوں، فی الحال تو آرام کروں گا۔ بعد میں اگر دل چاہا تو قانون کی پریکٹس شروع کر دوں گا“
    آسٹریا کا سابق وزیراعظم وکٹرکلیما 5 سال حکومت کرنے کے بعد جب اگلے الیکشن میں نسبتاً کم اکثریت ملی حالانکہ کسی جماعت سے اتحاد کر کے وہ پھر بھی وزیراعظم بن سکتا تھا۔ لیکن اس نے سیاست ہی چھوڑ دی ۔ مشہور زمانہ آٹو کمپنی VolksWagonمیں جاب کی درخواست دی ۔ اور انکی یوگنڈا برانچ کا ڈائریکٹر بن کر آجکل یوگنڈا میں جاب کر رہا ہے۔
    انگلینڈ کے سابق وزرائے اعظم جان میجر، مارگریٹ تھیچر وغیرہ کے بارے میں کبھی سنا کہ وہ پھر سیاست میں جوڑ توڑ کر کے ٹونی بلیئر یا کسی اور کو فیل کرنے کے چکر میں ہیں ؟؟؟ نہیں ۔ کبھی اخباروں میں انکانام بھی شاید سننے میں نہ آئے۔

    اور ایک ہمارے مسلمان (چند ایک نیک لوگوں کے استثناء کے ساتھ) اُلو کے پٹھے حکمران ہیں کہ عمر گذر گئی۔ لوٹ مار کرتے۔ اتنی دولت لوٹ کی 7 نسلیں بھی آئندہ کھاتی رہیں تو کم نہ ہو۔ لیکن کرسی کے لیے آج بھی کتوں کی طرح امریکہ میں دم ہلاتے نظر آتے ہیں۔
    اور ہم مسلمان عوام انہی کو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ انہی کے جلسوں میں بھی جاتے ہیں اور انہی کو ووٹ بھی دے آتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔

    آخر ایک دن ہمیں ہی اس نظام کو بدلنے کے لیے خود کو بدلنا ہو گا۔
     
  12. عمار خاں
    آف لائن

    عمار خاں ممبر

    شمولیت:
    ‏28 ستمبر 2006
    پیغامات:
    212
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ماشاء اللہ! کافی معلومات ہے آپ کو۔
    بھائی! میں نے تو بہت سوچا ہے کہ کس طرح کیا کچھ ٹھیک کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ میری تو دلچسپی ہی سیاست میں ہے اور “علم مدنیت“ میرے مضامین میں شامل ہے لیکن کچھ تبدیلی کرنے کے لئے ضرورت ہے کہ پوری تندہی سے ایک پلیٹ فارم پر کام شروع کیا جائے۔ میں تو اپنے اردگرد نوجوانوں سے جب سیاست پر رائے پوچھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب کسی کو سیاست سے دلچسپی ہی نہیں رہی۔۔۔ سیاست کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔
    جو خود میں اہلیت ہونے کے باوجود اگر سیاست کی بہتری کے لئے سیاست میں نہ آئے، اسے سیاست کو برا کہنے کا کوئی حق ہی نہیں ہے! ہماری جتنی سیاسی جماعتیں ہیں، سبھی صوبائی یا نسلی امتیازات میں الجھی ہوئی ہیں۔۔۔ ایسے میں کیا امید کی جاسکتی ہے؟
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عمار بھائی ۔ سب سے پہلے تو آپکو اپنی اچھی سی فوٹو لگانے پر مبارکباد۔

    جہاں تک موضوع کا تعلق ہے۔ تو اسکا جواب آپ نے خود ہی اشارتاً دے دیا ہے۔ موجودہ سیاست گندگی کی ایک ایسی دلدل بن چکی ہے ۔ کہ شریف آدمی اگر اس میں پاؤں رکھے گا تو خود اسکا دامن بھی آلودہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے بھی لوگ ہچکچاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا سیاسی نظام کامیاب دنیا کی کسی جمہوریت سے بھی اصلاً مطابقت نہیں رکھتا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ نہ تو دنیوی جمہوریت ہے اور نہ ہی اسلامی جمہوریت۔ یہ سیاست برائے منفعت ہے۔ سیاست برائے مفاد ہے۔ سیاست برائے لوٹ مار ہے۔ سیاست برائے دہشت ہے اور سیاست برائے ذلت ہے۔

    اسکا حل یہ ہے کہ لوگوں کو اس سارے نظامِ سیاست سے ہی بیزاری کا شعور بیدار کیا جائے اور یہ کام مختلف چینلز پر کیا جا سکتا ہے۔ مختلف چینلز اس لیے کہ انسانی معاشرے میں مختلف طبقات ہوتے ہیں۔ جن کے ذریعے مختلف چینلز تک پہنچا جاسکتا ہے۔
    آپ کی بات صد فیصد درست ہے کہ پلیٹ فارم ایک ہی ہونا چاہیئے۔ اور ہمیں متحد ہو کر ، ایک مقصد “انقلاب“ کے لیے قطرہ قطرہ اکٹھا کر کے پوری قوم کو متحد کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ انشاءاللہ جمع شدہ یہ قطرات ایک دن سیلاب کی شکل ضرور اختیار کریں گے اور ہر طرح کی برائی کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔
    بقول اقبال :ra: ۔۔
    نہیں ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی​
     
  14. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ماشاءاللہ نعیم صاحب آپ کی بات درست ہے لیکن اس تندی باد مخالف کا کیا کریں جو آپ کے قطروں کو جمع ہی نہیں‌ ہونے دے رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ثناء اللہ بھائی ! ہماری اردو پر خوش آمدید :)

    آپ کے پیغام کے جواب میں 2 باتیں عرض کروں گا۔

    ایک اللہ تعالی کے ارشاد گرامی میں وعدہ۔۔۔

    لا تھنو ولا تحزنو وانتم الا علون ان کنتم مومنین (القرآن)

    نہ پست ہمت ہونا اور نہ غم کرنا۔ اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہوئے۔

    گویا۔ مومنین بننا ہمارا کام ہے اور غلبہ و کامیابی کا وعدہ اللہ تعالی پورا فرمائیں گے۔ اور اللہ تعالی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

    دوسری بات یہ کہ اگر اللہ تعالی کی حکمت و منشاء کے مطابق کسی وجہ سے ظاہراً کامیابی نہ بھی ہو سکے (جیسا کہ کربلا میں بظاہر سیدنا امام حسین(ع) شہید کردیے گئے) تو مومن پھر بھی خسارے میں کبھی نہیں رہتا۔

    اس لیے ہمیں ظاہری نتائج کی پروا کیے بغیر ، پست ہمتی سے جان چھڑا کر ، اعلائے کلمۃ الحق اور حق کو بلند کرنے کی جدوجہد کرتے رہنا چاہیئے۔
     
  16. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    سب سے پہلے تو نعیم بھائی اتنا زبردست لکھنے پر بے پناہ مبارکباد ۔ میری طرف سے بھی اور مرزا جی کی طرف سے بھی۔ بہت خوب!!!
    لیکن میرے بھائیو ایک بات یاد دلاتی چلوں کہ جو شخص دنیا سے چلا گیا اس کے بارے میں اب ایسی گفتگو مناسب نہیں۔ میری ناقص معلومات کے مطابق اگر کوئی دنیا میں اپنی سزا پوری کر گیا ہو تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا۔ اگر میں غلط ہوں تو تصحیح کریں مہربانی ہو گی۔
    سزا سے مراد کہ صدام حسین نے جو بھی کیا اس کو اس کی سزا پھانسی کی صورت مل گئی سو اب میرے خیال میں اس کے گناہوں کے بارے میں بات کرنا کچھ اچھا نہیں! ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارا انجام کیسا ہو گا۔ اللہ رحم کرے معلوم نہیں آخری وقت کیسا آئے گا!؟
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میری محترمہ بہن جی ۔ آپ کی معلومات درست ہیں کہ مرے ہوئے شخص کو برا نہیں‌کہنا چاہیئے۔ لیکن علماء و فقہائے کرام اس کی توجیہہ اور وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا حکم انفرادی حوالے سے ہوتا ہے نہ کہ اجتماعی و معاشرتی حوالے سے۔
    اگر کسی شخص نے کوئی ایسا غلط کام کیا جس کا تعلق اسکی ذات سے تھا تو اسکی ایسی خامی تو اسکی زندگی میں بھی دوسروں کو بتانا “ غیبت “ میں‌شمار ہوتا ہے۔ لیکن امام نووی :ra: غیبت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ایسی برائی کرتا ہے جس سے معاشرتی طور پر دوسرے مسلمانوں کو نقصان کا اندیشہ ہو اور معاشرے میں برائی و شر پھیلنے کا خطرہ ہو۔ تو کسی شخص کی ایسی برائی دوسروں‌کو اسکے شر سے بچنے کے لیے بیان کرنا “غیبت “ نہیں‌ہوگی۔

    بالکل ایسے ہی خود قرآن مجید میں سابقہ قوموں کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ انہیں برا بھلا بھی کہا گیا ہے ۔ صرف اس لیے کہ آئندہ آنے والے لوگ بالخصوص قرآن پڑھنے والے اس سے سبق حاصل کریں۔

    ایسے ہی صدام حسین اگر ایک شخص تھا تو وہ 35 سال تک ایک اسلامی ملک کا سربراہ بھی رہا اور اس دوران اس نے کروڑوں مسلمانوں کی بہتری یا نقصان کے لیے بے شمار قدم بھی اٹھائے۔ اب میرے خیال میں دیگر مسلمانوں‌کو ایسی غلطیوں سے آگاہ کرنے میں کوئی برائی نہیں جس سے کروڑوں مسلمانوں کو اجتماعی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ تاکہ اگر کسی طور یہ آواز موجودہ اربابِ اختیار تک پہنچ جائے تو وہ ایسی غلطیوں کا ارتکاب کرنے سے باز رہ سکیں۔ یا ہم بطور قوم ایسے حکمران منتخب کرنے سے گریز کریں جو صدام جیسی غلطیوں کا ارتکاب کرنے والے ہوں۔
     
  18. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    میرا اس لڑی کو دوبارہ سے شروع کرنے کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو گیا! :p
    آپ کے پہلے سارے جواب صحیح تھے بس اس وضاحت کی کمی تھی :wink:
    زبردست!
     
  19. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    بہت خوب نعیم صاحب۔ بہت عمدہ وضاحت کی ہے۔ واقعی ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھ کر اپنے مستقبل کو سنوارنے کی فکر کرنا چاہیئے کہ یہی بیدار قوموں‌کا شیوہ ہے۔

    اور آنٹی جی ۔۔۔۔

    آپ کو بھی داد نہ دینا بھی ناانصافی ہو گی۔ کمال دانسمندی سے آپ نے نعیم صاحب سے ایسی اہم وضاحت یہاں‌ارسال کروا دی۔

    گویا آپ نعیم صاحب کو امتحان میں ڈالنا چاہ رہی تھی۔۔۔ ہے نا ؟؟ :84:
     
  20. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    نہیں مقصد امتحان میں ڈالنا نہیں تھا۔ بس اس وضاحت کی کمی محسوس ہوئی تو میں نے دوبارہ سے اس لڑی کو شروع کر دیا۔ :84:
     
  21. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: صدام کی پھانسی

    جس دھج سے کوئی مقتل ميں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
    يہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہيں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں