1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صحابہ کرام کے ایمان افروز واقعات

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از زین, ‏12 جون 2011۔

  1. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جب عالم دنیا میں ہر طرف شرک و کفر کی آوازیں ہر جگہ سے شروع ہوگئیں اور پوری دنیا میں بت پرستی جیسی بدترین لعنت نے دنیا والوں کو اپنے اندھیروں میں چھپالیا، انسان ذات نے اپنے کریم رب کی بندگی چھوڑدی اور درندوں جیسی زندگی گذارنے کا آغاز کردیا، جہالت اور گمراہی کی وجہ سے اپنے خدا کے رشتوں کو بھلادیا، اپنے جگر کے ٹکڑوں کو زندہ در گور کرنے جیسی ملعون رسومات کو اپنا مقصد بنایا، اور بھی سینکڑوں برائیاں اپنے وجود میں شامل کردیں اور ہر سمت اندھیرا چھا گیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی ذات کو انسان ذات کی حالت پر رحم آگیا اور اپنے محبوب و برگزیدہ پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کا آخری پیغمبر و ہادی بناکر دنیا میں انسان ذات کی رہنمائی کے لیے پیدا فرمایا۔ جب نبی مکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان اطہر سے اپنے پروردگار عالم کا پیغام لوگوں تک پہنچانا شروع کیا تو ہر طرف سے اس رسول مکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے اس پیغام سے روکنے کی کوشش شروع کردی اور جس شخص نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو قبول کیا اس پر مصیبتوں کے پہاڑ گرانے شروع کردیے اور طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کردیں۔ لیکن یہ شمع رسالت کے پروانے، آسمان نبوت کے چمکتے ستارے، بستان نبوت کے مہکتے پھول، آفتاب رسالت کی چمکیلی شعائیں اور آغوش نبوت کی پروردہ ہستیاں اپنے آقا صلّی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جانیں، مال، اولاد قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن اس رسول محترم صلّی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کیا۔ اس وقت رب کائنات نے ان مقدس ہستیوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ”أُوْلَئِکَ الَّذِینَ ہَدَاہُمُ اللَّہُ وَأُوْلَئِکَ ہُمْ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ“ (الزمر 18)۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور یہی عقل والے ہیں۔ جب ان مقدس ہستیوں نے اپنے ان خود ساختہ معبودوں کی غلامی کو چھوڑ کر ایک خدا کی غلامی اختیار کی تو انہیں لوگوں نے وہ تکالیف دینا شروع کردیں جن کو پڑھ کر انسان کانپ اٹھتا ہے، لیکن سلام ہے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جنہوں نے اپنی جانیں اسلام کی خاطر قربان کردیں لیکن اپنے مولیٰ کریم کے پیغام کو اپنے دل سے نکالنے کا تصور بھی نہیں کیا۔ ان مقدس ہستیوں کے واقعات کو پڑھ کر ایک مسلمان کا ایمان شک و شبہات سے پاک ہوجاتا ہے اور ہر قدم پر اپنی کامیابی کا یقین زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

    شمع رسالت کے پروانے
    حضرت یاسر بن عامر رضی اللہ عنہ یمن کے باشندے تھے۔ یہ آپس میں چار بھائی تھے، حضرت یاسر، مالک، حارث اور ایک چھوٹا تھا۔ یہ چوتھا نمبر بھائی جس سے سب زیادہ محبت کرتے تھے ایک مرتبہ کہیں گم ہوگیا جس کی کوئی خبر ان کو نہ ملی۔ یہ لوگ اپنے بھائی کی محبت کی شدت کی وجہ سے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے بھائی کو ڈھونڈنے کے لیے گھر سے نکلے۔ اپنے علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن ان کا محبوب بھائی ان کی نظروں نے نہیں دیکھا۔ آخر حضرت یاسر رضی اللہ عنہ اپنے دونوں بھائیوں مالک و حارث کے ساتھ اپنے بھائی کو تلاش کرتے کرتے مکہ پاک کی سر زمین میں پہنچ گئے، لیکن یہاں بھی انہیں اپنے بھائی کے متعلق کوئی معلومات نہ مل سکی۔ لیکن اس پاک سر زمین میں آقائے نامدار آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے توحید کا پرچم بلند کر رکھا تھا اور یہ دولت حقیقی حضرت یاسر کے مقدر میں لکھی جاچکی تھی۔ جیسے ہی یہ اعلان اس مقدس شخصیت کے کانوں میں پہنچا تو اپنے بھائیوں کو کہنے لگا کہ میں نے وہ دولت ابدی حاصل کرلی ہے کہ اب مجھے کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے، اگر رہنا چاہتے ہو تو میرے ساتھ رہ سکتے ہو ورنہ تم اپنی مرضی سے مجھے چھوڑ کر جاسکتے ہو، مجھے تم سے شکایت نہیں ہے۔ یہ بات سن کر دونوں بھائی مایوس ہوکر سر زمین مکہ پاک سے اپنے ملک یمن چلے گئے۔ لیکن حضرت یاسر بن عامر رضی اللہ عنہ نے مکہ پاک میں سکونت اختیار کردی اور یہاں ابوحذیفہ بن مغیرہ سے حلیفانہ تعلقات پیدا کرلیے۔ ابوحذیفہ نے اپنی ایک نیک سیرت لونڈی حضرت سمیہ بنت خباط رضی اللہ عنہا حضرت یاسر بن عامر رضی اللہ عنہ کو بخش دی جس سے انہوں نے نکاح کرلیا اور اپنی زندگی کے دن مکہ پاک میں گذارنے لگے۔ بالآخر قدرت نے حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہما کو ایک خوبصورت و سیرت بچا عطا فرمایا جس کا نام حضرت عمار رضی اللہ عنہ رکھا گیا۔ یہ مقدس بچہ آگے چل کر اپنی سیرت و صورت، کردار و گفتار و عشق رسول میں جل کر تاریخ اسلام کا ایک مستقل لعل بن گیا، جس کی سیرت و عشق کے واقعات پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

    ابوحذیفہ بن مغیرہ نے حضرت یاسر و سمعیہ و عمار رضی اللہ عنہما کو بڑی اچھی طرح سے رکھا تھا۔ پھر جب ابوحذیفہ بن مغیرہ نے وفات کی تو آل یاسر رضی اللہ عنہ اپنی زندگی کے لمحات گذارنے کے لیے کسی کے محتاج نہیں تھے۔ پھر وقت نے کروٹ بدل ڈالی تو وادی غیر ذی ذرع کے سالار محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا اور ہر طرف توحید کا پیغام عام کردیا، تو آہستہ آہستہ لوگ اس اعلان نبوت پر لبیک کہہ کر دین اسلام کو اپنا آخری سرمایہ سمجھ کر اس دین کو قبول کرنے شروع ہوگئے۔ جیسے جیسے لوگ مسلمان ہونے لگے تو اہل مکہ نے مصائب کو بڑھانا شروع کردیا اور جس کو بھی دین اسلام کو قبول کرتے ہوئے دیکھتے تو اس پر ٹوٹ پڑتے اور انہیں بہت ہی دردناک سزائیں دیتے تھے۔ کسی کو مکہ کی ریتیلی زمین پر لٹاکر اس کے سینے مبارک پر بڑے پتھر رکھ دیتے تھے، کسی کو ناک میں دھواں دیتے تھے، کسی کو گلیوں میں گھسیٹتے رہتے تھے، کسی کو لوہے کی زرہ پہنا کر انگاروں پر ڈال دیتے تھے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی عبرتناک سزائیں فقط اسی لیے دی جاتی تھیں کہ لوگو تم فقط بتوں کی عبادت کرو، اللہ تعالیٰ کے پیغام کو چھوڑ دو۔ لیکن جب سے سزائیں بڑھنے لگیں تو حلقہ اسلام میں لوگ بھی زیادہ شامل ہونے لگے اور توحید کے پرستاروں نے عزائم کفار کو دیکھ کر اپنا جان، مال، اولاد قربان کردیا لیکن اب ان ظالموں سے آنکھوں میں آنکھیں ملاکر فرماتے تھے اب دنیا کی کوئی طاقت ہمارے سینوں میں سے دین اسلام کی محبت کو مٹا نہیں سکتی، تمہاری یہ سزائیں ہمارے ایمان کو متزلزل نہیں کرسکتیں، تم اپنا بدترین کام کرتے رہو ہم اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب جیسے ہی کفار مکہ کو حضرت یاسر و سعید و عمار رضی اللہ عنہم کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو بنی مخزوم کے لوگ غیظ و غضب میں جل اٹھے اور اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لیے آل یاسر رضی اللہ عنہ پر تکالیف کا دائرہ بڑھادیا۔ ان توحید کے متوالوں کو اتنا مارتے تھے کہ ان کا جسم مبارک خون میں سرخ ہوجاتا تھا، پھر کفار کہتے تھے کہ اب بتاؤ ایمان کو چھوڑتے ہو یا نہیں، اگر نہیں چھوڑو گے تو ہم تمہیں ایسی عبرتناک سزائیں دیں گے کہ لوگوں کے لیے مثال بن جاؤ گے۔ جب کفار مکہ یہ اپنا ناپاک ارادہ ظاہر کرتے تھے تو یہ تینوں فرماتے تھے کہ محمد رسول صلّی اللہ علیہ وسلم پر ہماری ہزار جانیں بھی قربان ہیں، اگر ہم اسی حالت میں بھی فوت ہوگئے تو ہمیں موت سے کوئی شکوہ نہیں، بلکہ ہم فخر سے کہیں گے کہ محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں قربان ہوئے ہیں۔ یہ جواب سن کر کفار جل جاتے تھے۔ پھر ان کو لکڑیوں، گھونسوں اور لاتوں سے اتنا پیٹتے تھے کہ یہ مظلوم بے ہوش ہوجاتے تھے، پھر جب ہوش میں آتے تھے کفار پوچھتے تھے بتاؤ اب کیا ارادہ ہے، اذیتیں برداشت کرنے کا شوق ہے یا ایمان چھوڑتے ہو۔ یہ سن کر یہ مجاہدینِ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ دامن مصطفی کو ہم کیسے چھوڑدیں، ہمارا اتنا کمزور ایمان نہیں۔ ایک مرتبہ ظالم کفار کے ہاتھوں سے یہ تینوں اذیتناک سزائیں جھیل رہے تھے تو وہاں سے ہادی حق حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا۔ ان کی مظلومی و بیکسی دیکھ کر آپ کا دل بھر آیا تو فرمانے لگے ”اِصْبِرُوْ یآ اٰلِ یَاسِرَ فَاِنَّ مَوْعِدَ کُمْ الجَنَّۃ“ اے آل یاسر! صبر کرو، تمہاری جگہ جنت ہے۔ ایسی بدترین سزاؤں سے بھی کفار کا سینہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور زیادہ اذیت ناک سزا دینے کے لیے کفار مکہ کے سردار ابوجہل نے حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ عنہا کو فرط غضب میں سب و شتم کی بوچھاڑ کی اور پھر اس مظلوم عورت کو برچھی مارکر شہید کردیا اور یوں حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ عنہا تاریخ اسلام کی پہلی شہید خاتون بن گئیں۔ کروڑہا سلام ہوں اس کی جرأت پر کہ اپنی جان تو دیدی لیکن اپنے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کیا، اور تاریخ کے ورقوں میں اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ ظالم کسی کے دل پر حکومت نہیں کرسکتا۔ دل پر حکومت تو بڑی چیز ہے کسی کے ارادوں کو بھی نہیں مٹا سکتا۔ جب یہ کربناک خبر حضرت یاسر بن عامر رضی اللہ عنہ کو ملی کہ اس کی بیوی کو ظالموں نے شہید کردیا ہے تو اس اندوہناک خبر سے حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کوبہت صدمہ پہنچا اور روتے ہوئے اپنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ! صلّی اللہ علیہ وسلم اب تو ظالموں نے ظلم کی انتہا کردی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کو صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا ”اللّٰہم لَا تُعَذِبْ اَحْداً من آل یاسر بالنار“ اے اللہ! خاندان یاسر کو دوزخ کی آگ سے بچانا۔

    اس واقعہ کے بعد بھی ظالموں کے ناپاک ارادے ختم نہ ہوئے بلکہ اور بھی زیادہ مضبوط ہوگئے۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کفار مکہ نے مظلوم بوڑھے یاسر رضی اللہ عنہ کو اتنا مارنا شروع کردیا کہ آپ بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آتے تھے تو کفار کہتے تھے اپنا آخری انجام بھی عنقریب دیکھ لوگے ورنہ تم ایمان کو چھوڑدو۔ آپ فرماتے تھے ظالمو تم میری جان تو لے سکتے ہو، میری مظلومہ بیوی کو شہید کرسکتے ہو، میرے محبوب بیٹے عمار پر تکلیف کی لرزہ خیز سزاؤں کی داستانیں تو قائم کرسکتے ہو، لیکن ہمارے قلوب میں میرے کریم رب نے جو اسلام کا بیج بویا ہے اس کو تا قیامت اکھاڑ نہیں سکو گے، غیظ و غضب میں جل کے مرجاؤ گے لیکن میرے ایمان کو کچھ نہیں کرسکو گے۔ یہ صبر کے پہاڑ تھے جنہوں نے اسلام کی خاطر ایسی سزائیں برداشت کیں کہ اگر پہاڑوں پر گرتیں تو وہ بھی پرزہ پرزہ ہوجاتے، لیکن اس مرد حق پرست کے ارادے کو مٹا نہیں سکے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ”اُوْلٰٓئکَ ہُمْ المُوْمِنُونَ حَقَّا“۔ (انفال) یہی سچے مؤمن ہیں۔

    با الآخر حضرت یاسر رضی اللہ عنہ بھی ان ظالموں کی سزائیں سہتے سہتے شہید ہوگئے لیکن اپنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوڑا۔ رضی اللہ عنہم۔

    جب حضرت یاسر و بی بی سمیہ رضی اللہ عنہما شہید ہوگئے تو اب کفار نے ان کے بیٹے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو اپنی ظالمانہ کاروائی کا نشانہ بنایا۔ وہ ہی ظلم وہ ہی تکلیفیں وہ ہی اذیتیں وہ ہی مصیبتیں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو دینے لگے جو ان کے مظلوم والدین کو دے دے کر شہید کردیا تھا۔ اب اس توحید کے قائل کو مشرکین و کفار نے بھوکا، پیاسا رکھنا شروع کردیا۔ پھر جب کفار سوچتے تھے کہ اب یہ اپنا دین اسلام چھوڑدے گا تو پھر آپ کو ایسی دردناک سزا دیتے تھے جسے سن کر انسان کا رواں رواں کانپ اٹھتا ہے۔ یہ ظالم لوگ اس بھوکے، پیاسے شیر کو گرم ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاتے تھے جس کی آگ کی وجہ سے آپ کا جسم مبارک جل جاتا تھا اور جسم سے خون بہنے لگتا تھا۔ لیکن اس صبر کے پہاڑ کے استقلال میں ذرا برابر بھی فرق نہیں آتا تھا اور اس کے قدم راہ حق میں ذرہ بھر بھی نہیں ڈگمگاتے تھے۔

    ایک مرتبہ جب ظالموں نے آپ کو دھکتے ہوئے انگاروں پر لٹا رکھا تھا تو اس وقت اتفاق سے میرے پیارے آقا و مولیٰ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کا اس جگہ سے گذر ہوا۔ جب آپ نے پیارے صحابی حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کی یہ حالت دیکھی تو آپ کا دل بہت کڑھا اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا اور فرمایا:

    ”یا نار کونی بردا و سلاما علیٰ عمار بن یاسر کما کنت علیٰ ابراہیم“

    ترجمہ: اے آگ تو عمار بن یاسر کے لیے اسی طرح ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے بن گئی تھی۔

    حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے صبر و استقامت کا وہ مظاہرہ کیا جس سے تاریخ اسلام میں اس مرد مجاہد کو تاقیامت صابرین میں یاد کیا جائے گا۔ پھر وہ خوشی کے لمحات بھی آگئے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ”اب ہجرت کی تیاری کرو“۔ جب میرے آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ہوا تو حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو بھی یہ موقعہ نصیب ہوا اور مدینہ پاک میں پہنچ کر امن کا سانس لیا۔ یہ وہ ہستیاں تھیں جن کے خون سے اسلام کے باغ کی آبیاری کی گئی، جن کے لہو سے اسلام پوری دنیا میں پھیلا، ان ہی کے صدقے ہمیں بھی اسلام نصیب ہوا۔

    بڑھاپے کے دنوں میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی پشت مبارک پر سیاہ داغ نظر آتے تھے، جس کی وجہ پوچھنے پر آپ فرماتے تھے یہ وہ نشان ہیں جب مجھے انگاروں پر سلایا جاتا تھا، گرم ریت پر لٹایا جاتا تھا، لیکن میں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا، کبھی زبان سے کوئی شکوہ شکایت نہیں کی۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما ہجرت کے موقع پر قباء میں اس مقدس مسجد کی تعمیر کے وقت پتھر ڈھوتے تھے اور اس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ یہ اسلام کی سب سے پہلی مسجد تھی جس کی تعمیر کے وقت آپ سب سے زیادہ اینٹیں اٹھاتے تھے اور یہ رجز پڑھتے تھے

    نحن المسلمون نبنی المساجد

    ”ہم مسلمان ہیں ہم مسجدیں بناتے ہیں“۔

    پھر جب آپ مدینہ پاک میں اپنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں رہنے لگے تو ساری مصیبتیں، تکلیفیں، اذیتیں ختم ہوگئیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں کفار مکہ کو ذلیل و خوار کیا اور اس جنگ میں ابوجہل جیسے ظالم لوگ مارے گئے تو میرے آقا و مولیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو فرمایا کہ ”قد قتل اللہ قاتل امک“ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ماں کے قاتل کا بدلہ لے لیا۔

    حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تقریباً سب جنگوں میں شامل ہوکر داد شجاعت حاصل کیا تھا۔ آپ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جنگ یمامہ کی خونریز جنگ میں وہ بہادری دکھائی جس سے مرتدین کے کلیجے پھٹ گئے۔ اسی جنگ میں آپ کا ایک کان مبارک بھی شہید ہوگیا، لیکن آ پ نے اس کی کچھ پرواہ نہیں کی اور کفار کی صفوں کو الٹ کر رکھدیا۔ کئی کفار آپ کے ہاتھوں جہنم رسید ہوگئے۔ جب ایک موقع پر مسلمانوں کے قدم اکھڑتے دیکھے تو ایک بلند چٹان پر کھڑا ہوکر للکارا ”اے مسلمانو! کیا جنت سے بھاگ رہے ہو؟ میں عمار بن یاسر ہوں، ادھر پلٹو“۔ ان کی للکار سن کر وہ پلٹ پڑے اور مرتدین کو اپنی تلواروں پر رکھ لیا۔ یہ مرد قلندر، مرد مجاہد، صحابی رسول حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خلافت میں کوفے کے گورنر رہے اور انصاف کے تقاضاؤں کو پورا کرکے دکھایا۔ پھر اس صحابی رسول کو جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے داد شجاعت دیتے ہوئے شہادت نصیب ہوئی۔

    اللہ تعالیٰ ہمیں جمیع صحابۂ رسول کی سیرت و کردار پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: صحابہ کرام کے ایمان افروز واقعات

    جزاک اللہ الخیر
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: صحابہ کرام کے ایمان افروز واقعات

    السلام علیکم زین بھائی ۔
    بہت ایمان افروز مراسلہ اور اسلوبِِ تحریر بہت خوبصورت اور محبتِ رسول :drood: سے لبریز ہے۔
    جزاک اللہ خیر۔
     
  4. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: صحابہ کرام کے ایمان افروز واقعات

    ھارون بھائی اور نعیم بھائی بہت بہت شکریہ حوصلہ افزائی کا :n_TYTYTY:
     
  5. نورمحمد
    آف لائن

    نورمحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مارچ 2011
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: صحابہ کرام کے ایمان افروز واقعات

    جزاک اللہ۔۔۔۔۔
     
  6. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: صحابہ کرام کے ایمان افروز واقعات

    شکریہ نور محمد بھائی :p_rose123:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں