1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

صاحب نہج البلاغہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ ۔۔۔۔ راضیہ سید

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    صاحب نہج البلاغہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ ۔۔۔۔ راضیہ سید



    شب ہجرت ہے، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اللہ تعالی کے حکم سے مدینہ کی جانب رواں دواں ہیں ۔ کفار مکہ اپنی امانتیں لینے کے بہانے آپ ﷺ کو نعوذ باللہ قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن خدا کو رسول اللہ کی نصرت مطلوب ہے ۔ رسول اللہﷺ نے اپنے بستر پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو سلا دیا ۔ جب صبح کفار اپنی امانتیں لینے آئے تو علی کرم اللہ وجہہ کو محو خواب پایا، انھیں بیدار کر کے یہ پوچھا کہ ’’ محمدﷺ کہاں ہیں ؟ ‘‘ تو آپ تیروں اور تلواروں کا خوف محسوس کئے بغیر گویا ہوئے کہ ’’ کیا تم انھیں ( محمدﷺ ) کو میرے حوالے کر کے گئے تھے جس کے لئے میں تمھیں جوابدہ ہوں ؟ ‘‘

    شیر خدا ، حیدر کرار ،مولا علی کرم اللہ وجہہ کی بہادری کا یہ ایک واقعہ ہے کہ جس نے کفار مکہ اور مشرکین کے دلوں میں خوف پیدا کر دیااور ان کے حوصلے پست ہونے لگے ۔ ابھی تو خیبر کا میدان جس میں علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی شجاعت کی دھاک بٹھا دی کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

    حدیث بنوی ہے کہ جب خیبر کے قلعے کو باوجود کوشش کے ۴۰ دن تک فتح نہ کیا جا سکا تو نبی آخر الزماں ﷺنے فرمایا کہ ’’ کل میں عَلم اس شخص کو دوں گا کہ جس سے میں اور میرا اللہ دونوں راضی ہیں ۔ ‘‘ پھر چشم فلک نے ایک الگ ہی نظارہ دیکھا ، علی کرم اللہ وجہہ کی ذوالفقار تھی اور کافروں کی کٹتی ہوئی گردنیں ۔ جب مرحب نے میدان میں آ کر آپ کو للکارا کہ میرا نام مرحب ہے اور آج تک کوئی مجھے شکست نہیں دے سکا ۔ تو شیر خدا نے بھرپور جوش و جذبے سے ہاشمی خون اور اپنے ماں کے شیر کی طاقت سے لبریز ہو کر کہا ’’ میں وہ ہوں کہ جس کا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے اورمیں اسلام کا سپاہی ہوں اور جہاد کرنے آیا ہوں ۔ ‘‘

    مواخات کے موقع پر جب مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا جا رہا تھا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک کونے میں افسردہ کھڑے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جب نگاہ پڑی تو اداسی کا سبب پوچھا ، تو علی کرم اللہ وجہہ کہنے لگے کہ آپ نے سب کو بھائی بھائی بنا دیا لیکن میرا کوئی بھائی نہیں ۔ یہ سننا تھا کہ نبی اکرم نے علی کرم اللہ وجہہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا کہ ’’ اے علی کرم اللہ وجہہ تم دنیا اور آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو ۔ ‘‘

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو کرم اللہ وجہہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے بچپن سے لے کر شہادت تک کبھی بھی کسی بت کی پرستش نہیں کی بلکہ آپ تو دوش پیغمبرﷺ پر کھڑے ہو کر بتوں کو توڑنے والے ہیں ۔ آپ نے مدینہ ، کوفہ کی کئی بیوائوں اور یتیموں کی سرپرستی کی ۔ آپ کا عدل و انصاف بے حد مشہورتھا ۔ ایک مقدمے میں خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہہ سے فیصلہ نہ ہو پایا تو یہ مقدمہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آیا ۔ آپ نے درست انداز سے فیصلہ فرما دیا ۔ خلیفہ دوئم آپ کے عدل سے بے پناہ متاثر ہوئے اور انھوں نے کہا ’’ اگر علی نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا ۔ ‘‘خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہہ کی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حق میں یہ گواہی ان کے علم وانصاف کا برملا اعتراف ہے ۔

    حدیث نبوی ہے کہ ’’ علی کا ذکر کرنا عبادت ہے ، علی کے چہرے کی طرف نظر کرنا عبادت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنی مجالس کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ذکر سے زینت دو۔ ‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سوا دنیا میں ہمیں کوئی ایسا نظر نہیں آتا جس نے سلونی سلونی ( یعنی جو چاہو مجھ سے پوچھ لو ) کا دعوی کیا ہو ۔ نہج البلاغہ آپ کی تصنیف ہے جس میں آپ کے خطابات ، بہت سی حکایتیں ، آپ کے احکامات اور امور مملکت کو چلانے کے لئے کئی واضح اصول ہیں ۔ جب آپ نے حضرت مالک اشتر کو مصر کا گورنر بنایا تو انھیں احکامات الہی اور رسول اللہ ﷺکے طریقوں کے مطابق حکومت چلانے کے لئے باقاعدہ ایک خط تحریر کیا ۔

    نہج البلاغہ وسیع احکامات کا مجموعہ ہے تاہم چند ایک قارئین کی پیش خدمت ہیں۔
    کوئی بھی حکومت نظام کفر پر تو چل سکتی ہے لیکن ظلم پر نہیں ۔
    انسان کی خود پسندی اس کے حریفوں میں سے ایک ہے ۔
    کسی کے بھی ہاتھ پائوں نہ کاٹو اگرچہ کہ وہ کاٹنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو ۔
    موت انسان کی نظر سے اوجھل ہے اور امیدیں فریب دینے والی ہیں۔
    درگذر کرنا کامیابی کی زکوۃ ہے ۔
    غیرت مند کبھی زنا نہیں کرتا۔

    غرض کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ہر ہر بات میں علم و حکمت کے دریا پوشیدہ ہیں ۔ ایسے ہی تو انھیں باب المدینہ العلم نہیں کہتے لیکن افسوس ہے اس شقی عبدا لرحمن ابن ملجم پر جس نے سن ۳۰ ہجری ۱۹ رمضان المبارک کو مسجد کوفہ میں زہر میں بجھی ہوئی تلوا ر کا وار آپ کے سر اقدس پر حالت سجدہ میں کیا اور آپ ۲۱ رمضان المبارک کو شہید ہو گئے۔ ابن ملجم ملعون نے صرف امام حسن و حسین علیہم السلام کو ہی یتیم نہیں کیا بلکہ امت مسلمہ کے ہر ذی شعور انسان کو باپ کی شفقت سےمحروم کر دیا ۔ آج کا دن سوگوار ہے کہ نفس رسول ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے خالق کی آواز پر لبیک کہا اور یہ کہا کہ خدا کی قسم علی کامیاب ہو گیا ۔ آج حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نجف کو اپنے وجود کی تابانی سے منور کر کے نجف اشرف بنا دیا اور ابن ملجم کا نام و نشان اس طرح مٹ گیا کہ جیسے وہ تھا ہی نہیں۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے روضہ مبارک پر ان گنت زائرین کی حاضری اس بات کی گواہ ہے کہ قرآن کی یہ آیت بالکل سچ ہے کہ ’’ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور بیشک باطل مٹنے کے لئے ہی ہے ۔‘‘



     

اس صفحے کو مشتہر کریں