1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شہرِ اقبال و فیض

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از آزاد, ‏25 اگست 2010۔

  1. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    شہرِ اقبال و فیض​


    محسن عباس
    ٹورنٹو، کینیڈا​


    (کینیڈا میں مقیم صحافی محسن عباس کا اپنے آبائی شہر سیالکوٹ میں سر عام بھرے مجمع میں دو نوجوانوں کے قتل پر مضمون)۔

    ایک ہفتے کی چھٹی گزار کر گھر آیا تو معلوم ہوا کہ سیالکوٹ میں میرے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر دو نوجوان بھائیوں کی بھرے مجمع میں المناک ہلاکت نے دنیا بھر میں طوفان برپا کیا ہوا ہے۔

    گھر پر فون کیا تو بہن نے بتایا کہ یہ خبر تو پرانی ہو چکی ہے۔ میرے والد البتہ پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک رشتہ دار نے کہا کہ جٹوں اور کشمیریوں کی آپس میں لڑائی کا نتیجہ ہے۔

    مجھے دو نوجوان بھائیوں کی موت کا تو بہت دکھ ہے ہی مگر اس سے بھی زیادہ دکھ اس معاشرے کی موت کا ہے جو ٹرالی سے زمین پر گرتی ہوئی لاشوں کے مسخ شدہ چہروں کی تصاویر انتہائئ قریب جا کر بنا رہا تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اقبال اور فیض کے شہر سیالکوٹ میں اب انسان نہیں بلکہ صرف درندے ہی بستے ہوں۔

    ہندوؤں کی معتبر کتاب مہا بھارت میں سیالکوٹ کا وجود چھ ہزار سال پرانا ہے۔ مگر اس طرح کی درندگی کی مثال ان ہزاروں برسوں میں تو نہیں ملتی۔ چودہ منٹ کی اس دردناک وڈیو نے ابھی سر چکرا کے رکھ دیا ہے۔ نہ سو سکا نہ سمجھ میں آیا کہ کیا ہو رہا ہے پاکستان میں۔

    صنعتی شہر میں کہا جاتا ہے کہ بعض اداروں کے مالکان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ پولیس مقابلوں کے ’سپیشلسٹ‘ ایس ایچ او اس شہر میں تعینات کیے جائیں۔ ماضی میں سیالکوٹ میں ایسی درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگا اور ایسے واقعات ہوئے جہاں لاشوں کو سر عام بازاروں میں پھرایا گیا۔


    خبر سننے کے بعد مجھے سب سے پہلے ستائیس سالہ حافظ محمد عمران شہزاد نامی مقامی صحافی کی جان کی فکر لاحق ہوئی۔ اصل حقائق جاننے کے لیے حافظ عمران کو کال کی جو سارے واقعہ کا چشم دید گواہ ہے۔

    اپنے کیمرے کی آنکھ سے اس درندگی کو فلم بند کرنے والا مقامی رپورٹر وکیمرہ مین حافظ عمران اب تک ٹھیک طرح سو بھی نہیں سکا اور اوپر سے ملنے والی دھمکیوں نے اس کی والدہ اور بہن بھائیوں کا مسلسل خون خشک کیا ہوا ہے اور کیوں نہ ہو۔

    مجھے اچھی طرح یاد ہے جب سن دو ہزار دو میں سیالکوٹ میں ایک مقامی صحافی جعفر خان کو ٹھیک اسی دن جب ڈینیئل پرل کا قتل ہوا اس کی حاملہ بیوی کے سامنے قتل کیا گیا تھا جسے بعد میں مبینہ طور پر ’پولیس مقابلے‘ کا رنگ دیا گیا۔

    حافظ عمران اور ایک دوسرے رپورٹر بلال خان کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر فوٹیج ضائع کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ میں اور دوسرے مقامی صحافی ان نوجوانوں کی زندگیوں کے بارے میں بڑے فکرمند ہیں۔

    جہالت، ظلم اور فرقہ واریت کی کئی داستانیں میں نے بطور رپورٹر سیالکوٹ میں دیکھی تھیں جن میں قادیانیوں کے گھروں کو آگ لگا کر معصوم انسانوں کو زندہ جلانے سے لے کر عیسائیوں کے قتل بھی شامل ہیں مگر اس طرح کی المناک مثال نہیں ملتی۔

    میں نے بچپن سے لے کر آج تک اس شہر کی دیواروں نفرت، فرقہ واریت، شیعہ کافر، مرزائی واجب القتل، چلو چلو یہاں چلو اور وہاں چلو کے نعروں کے علاوہ کوئی کام کی چیز نہیں پڑھی ہے۔

    مجھے اچھی طرح یاد ہے جب بابری مسجد پر حملہ ہوا تھا تو کچھ مذہبی جنونیوں نے نوجوانوں کو دن دیہاڑے بھارت کی چیک پوسٹ پر خالی ہاتھ حملہ کرنے پر آمادہ کر لیا تھا جس کے نتیجے میں کچھ مارے بھی گئے تھے۔

    کینیڈا میں مقیم ایک سعودی قوانین کے حامی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے یہ بھاشن دیا کہ اس خبر کو اچھالنے سے عوام کو شعور ملے گا۔ انہوں نے اس کو مکمل طور پر ’تعلیمی وڈیو‘ قرار دیا ہے۔

    مجھے اپنے سکول کے ایک مرحوم استاد یاد آ رہے ہیں جوقادیانیوں سے نفرت کرنے والے طالب علموں کو سبق یاد نہ کرنے پر رعایت برتتے تھے۔ ہماری دادی اماں جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی وادی سے آ کر اس تجارتی شہر میں آباد ہوئی تھیں کہتی ہیں کہ اتنا بڑا ظلم تو انہوں نے بٹوارے کے دوران بھی نہ دیکھا تھا۔

    اس واقع کے ملزمان کو سزا ملے نہ ملے مگر شہر کے اندر لوگ ’ریلیکس‘ ہیں اور زندگی کو معمول کے مطابق گزار رہے ہیں۔ ایک دوست نے بتایا کہ ایسا لگتا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔


    پاکستان کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اس واقعے کے ملزمان کو بھی اسی جگہ لٹکایا جائے گا جہاں پر مقتول بھائیوں کو وحشیانہ تشدد کر کے ہلاک کیا گیا ہے۔

    لیکن سزا کے مطالبے کے ساتھ ساتھ ہر طرف سے لٹکا دینے اور بالکل وہی سلوک کرنے کی باتیں پریشان کن ہیں۔ محترم وزیر کا اس طرح کا بیان دینا نئی بات نہیں۔ ویسے بھی رحمان ملک کا تعلق بھی سیالکوٹ سے ہے۔

    رحمان ملک کے بیان کے بعد سے سیالکوٹ میں ہمارے ہمسایوں کا پندرہ سالہ لڑکا اس انتظار میں ہے کہ کب قاتلوں کو لٹکایا جائے گا تاکہ وہ اپنے نئے سیل فون پر لٹکتی لاشوں کی وڈیو بنا کر یو ٹیوب پر لوڈ کر سکے۔


    لاشیں، جنگلی جانور، کیمرے، سیل فون، نفرتیں، قتل اور یہ سب۔ میں ان خیالوں میں گم تھا کہ کشتی میں سفر کرنے والی ایک بوڑھی خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ ’تم کہاں سے آئے ہو؟‘۔

    میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا جنگل(جہاں جانور کیمرے والے فون استعمال کرتے ہیں)۔
     
  2. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    جواب: شہرِ اقبال و فیض

    مجھے رہ رہ کر خیاٌل آرہا ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر قائد اعظم اور بالخصوص علامہ اقبال کی روح پر کیا بیت رہی ہوگی !!! پاک ۔۔۔ ستان ۔۔۔۔۔ کیا یہ واقعی " پاک لوگوں کی جگہ " ہے ؟ کیا ہم پاک ہیں؟ کیا ہم خود کو پاک کہلوانے کے قابل ہیں ؟
     
    عقیل احمد ضیاء نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں