1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شہباز شریف ۔۔۔۔ حبیب اکرم

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏1 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    شہباز شریف ۔۔۔۔ حبیب اکرم



    شہباز شریف نے اپنی گرفتاری سے دو دن پہلے چند صحافیوں سے جو ملاقات کی اس میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔ شہباز شریف نے بات شروع کی‘ جو پنجاب میں ان کے دس سالہ اقتدار سے شروع ہوتی ہوئی سیاست پر آگئی۔ ہم سب ان سے پس پردہ ہونے والی ملاقاتوں کا احوال سننے کے شائق تھے‘ لیکن شہباز شریف اس دن خبر دینے کیلئے اپنی سیاست کے رہنما اصول بتانے پر مُصر تھے۔ بہت سے لفظوں میں انہوں نے جو بتایا وہ یہ تھاکہ ملک چلانے کیلئے مزاحمت کی بجائے مشاورت بہترین راستہ ہے۔وہ حکومت کے خلاف تو کھل کر بول رہے تھے لیکن کسی اور کے خلاف نہیں۔مفاہمانہ اندازکی سیاست کرتے ہوئے بھی وہ عمران خان کو رعایت دینے کیلئے تیار نہیں‘ لیکن ان کے سوال کسی اور سے لڑائی کے حق میں بھی نہیں۔انہوں نے بزبانِ خاموشی بتا دیا کہ مفاہمت کی حکمت عملی ان کی اپنی جماعت کا سرِ دست وتیرہ نہیں۔ نواز شریف مزاحمت کا راستہ اختیار کر چکے ہیں اور تمام واقعات کا تجزیہ اب وہ اسی تناظر میں کرتے ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وزرائے اعظم کیسے آئے اور کیسے گئے‘ اس بارے میں نواز شریف نے سادہ سا موقف اپنا رکھا ہے یعنی ملک میں ہر وزیراعظم کو اوسطاً سواسال کیلئے حکومت ملی اور ہر آمر کو نو سال۔شہباز شریف کا زاویہ بالکل مختلف ہے۔اس دن اپنی مفاہمتی پالیسی کی وضاحت کیلئے تاریخ سے جو مثال وہ لے کر آئے ‘ جنرل ایوب خان کی 1954 ء میں بطور وزیر دفاع کابینہ میں شمولیت تھی۔مطلب یہ کہ جنرل ایوب خان کے ساتھ جو دیگر وزرا بیٹھے تھے‘ وہ سیاستدان ہی تھے اور پاکستان بنانے والے تھے۔ یہ قصور انہی لوگوں کا تھا کہ فوج کو سیاست میں راہ دی اور پھر طویل عرصے تک اسے اپنے اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرتے رہے۔

    آگے بڑھنے سے پہلے مجھے یہ اعتراف کرلینے دیجئے کہ پاکستانی سیاسیات کے ایک طالب علم کے طور پر میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد 1958 ء کے مارشل لاء تک ہمار ے سیاستدانوں کی اکثریت پہاڑ جیسی غلطیوں کا ارتکاب کرچکی تھی۔مولوی تمیزالدین خان کیس کے فیصلے سے لے کر 1958 ء کے مارشل لاء تک جو کچھ ہوا ‘ سیاستدانوں کی نالائقی اور مفاد پرستی کا نتیجہ ہی تھا۔ اگر نازک مزاج پر گراں نہ گزرے تو یہ بھی یاد کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ گورنر جنرل غلام محمد نے جو اسمبلی توڑی تھی‘ وہ عملی طور پر مردہ ہو چکی تھی‘ جسٹس منیر نے اپنے فیصلے کے ذریعے محض اسے دفن کیا تھا۔تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل ایوب خان کو بطور کمانڈر انچیف توسیع دینے والے وزیراعظم حسین شہید سہروردی تھے۔یہ بات بھی نہیں جھٹلائی جاسکتی کہ اس ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلا انتخاب ایک آمر نے ہی کرایا تھا۔یہ سب کہنے کا مطلب نہیں کہ فوج کی سیاست میں مداخلت کاتاریخی جواز موجود ہے‘ بلکہ مدعا صرف یہ ہے کہ سیاسی واقعات ایک سلسلے کی صورت میں رونما ہوتے ہیں‘ ان میں سے کوئی واقعہ دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔واقعات یہی بتاتے ہیں کہ سیاست میں اداروں کی مداخلت سیاستدانوں کی نالائقیوں کا نتیجہ ہے۔ جب جب سیاستدان کام نہیں کرپاتے وہ عوام کے احتساب سے بچنے کیلئے اداروں کی گود میں بیٹھنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہی بات اس دن شہباز شریف نے ہم سب کے سامنے یوں کہہ دی کہ ‘ ''ایک ہزاردفعہ آرٹیکل چھ لگا لیں ‘ دستور ٹوٹتا رہے گا۔ دستور کو بچانے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ عوام کی خدمت کی جائے اور عوام ہی اس دستور کے محافظ بن جائیں‘‘۔

    دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ‘ جن ملکوں میں قومی سلامتی کے ادارے اور سیاستدان جھگڑنے لگتے ہیں‘ کبھی ترقی نہیں کر پائے۔ اس لیے مہذب دنیا میں اگر کہیں یہ مسئلہ ہو بھی تو بند کمروں میں بحث مباحثہ کرکے طے کرلیا جاتا ہے‘ سیاسی جلسے جلوسوں کا موضوع نہیں بنایا جاتا۔منتخب حکومتیں عوام کی تائید سے آتی ہیں اور اپنی توجہ اختیارات کی جنگ پر نہیں بلکہ موجود اختیارات کے بہترین استعمال پر رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی لے لیجئے۔ طیب اردوان نے معیشت سنبھالی تو عوام نے ان کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کو بھی ناکام بنا دیا۔ خود نواز شریف کو دیکھ لیجئے۔ پہلے دورِ حکومت میں ان کی بہترین کارکردگی نظر آئی تو سپریم کورٹ نے صدر غلام اسحٰق خان کی توڑی ہوئی اسمبلی بحال کرکے نواز شریف کو دوبارہ وزیراعظم بنا دیا۔ اس کے بعد نواز شریف خود ہی اسمبلی توڑ کر گھر آگئے تو کوئی کیا کرسکتا تھا۔ نواز شریف نے دوسرے دورِ حکومت میں ایٹمی دھماکے کیے اور محبوب ہوگئے۔ انہوں نے ایک چیف آف آرمی سٹاف کو گھر بھیجا ‘کوئی کچھ نہ بولا۔ پھر انہوں نے امیر المومنین بننے کے لیے دستور میں ترمیم کرنے کی ٹھان لی تو سبھی کچھ کھو بیٹھے۔ تیسرے دورِ اقتدار میں ان کی کارکردگی بلا شبہ اچھی تھی لیکن پاناما کیس میں ان کے بچوں کی جائیدادوں نے معاملہ الجھا دیا اور ایسا الجھا دیا کہ اب تک وہ سلجھا نہیں پارہے۔ اس بندگلی سے نکلنے کے لیے اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا کہ سامنے والی دیوار توڑ دیں۔بطور حکمران ان کی اچھی کارکردگی کا اعتراف سبھی کرتے ہیں لیکن سیاستدان کی مجبوری ہوتی ہے کہ اس کا دامن بھی ہر وقت صاف رہے۔

    بارہ‘ تیرہ سال پہلے ایک بار چودھری اعتزاز احسن نے میرے سامنے آئین کی تشریح کرتے ہوئے بتایا تھا کہ منتخب حکمرانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت خودکو اپنے عہدے کا اہل ثابت کریں۔ کسی ایک لمحے بھی ان کی اہلیت پر سوال اٹھا اور وہ جواب نہ دے سکے تو نااہل قرار پائیں گے۔ بدقسمتی سے ماضی سے اٹھنے والے ایک سوال کا جواب نواز شریف نہیں دے سکے۔ یہ سوال خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ تھا‘ بہرحال اس کا جواب ان پر فرض تھا اور ہے۔ اب ایسے ہی سوالات کا سامنا شہباز شریف کو بھی ہے۔بطور وزیراعلیٰ ان کی کارکردگی مثالی رہی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں جو کچھ کیا‘ لوگ اسے بھول نہیں سکتے۔لیکن بہترین کارکردگی بھی کسی کو سوال اٹھانے سے نہیں روک سکتی اور جب سوال مالی معاملات پر ہو تو اس کا شافی جواب فرض ہوجاتا ہے۔ شہباز شریف اب گرفتار ہیں اور شاید غیر ضروری طور پر گرفتار ہوئے ہیں لیکن اپنے اور اپنے خاندان کے اثاثوں کا جواب انہیں بہرحال دینا چاہیے۔ دنیا کسی اخلاقی اصول پر اتنی متفق نہیں جتنی اس اصول پر ہے کہ حکمران کے مالی معاملات میں کوئی آلودگی ہو تو اس کا حقِ حکمرانی بھی ختم ہوجاتا ہے۔

    پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کو جانچنے کیلئے جو بھی پیمانہ استعمال کیا جائے اس کے مطابق اکثر جگہوں پر سیاستدانوں کی غلطیاں ہی نظر آتی ہیں۔ ان تعلقات کی خرابی میں جو اہم ترین سبب آپ کونظر آئے گا وہ ہے سیاسی حکمرانوں کا خود کو مختارِ کل اور ہر طرح کی جواب دہی سے بالا تر سمجھ لینا۔اس رویے کے ساتھ ظاہر ہے ملک تو دور کی بات ہے گھر نہیں چل سکتا۔ رویے اور اندازِ کار میں جس توازن کی پاکستان جیسے ملک کو اشد ضرورت ہے‘ وہ ہمارے سیاستدانوں میں کم کم ہی نظر آتا ہے۔مجھے یہ علم ہے کہ نواز شریف کی عدالتی نااہلی سے کچھ پہلے سول ملٹری تعلقات کو متوازن کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہوئی ۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ دو اہم شخصیات نے وزیراعظم سے ان کے دفتر ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔ وزیراعظم کے سٹاف تک یہ درخواست پہنچائی گئی ۔ کچھ دیر بعد وزیراعظم کے دفتر سے بتایا گیا کہ آپ تشریف لائیے ‘ چائے کافی پیجئے لیکن وزیراعظم آپ سے نہیں مل سکتے۔ ظاہر ہے اس کے بعد کہاں کے تعلقات اورکہاں کا توازن۔ پھر جس کے جو دل میں آیا اس نے کہا بھی اور کیا بھی۔اب صرف شہباز شریف ہیں جو آج بھی ماضی ‘ حال اور مستقبل کو جوڑ کر توازن قائم کرسکتے ہیں ۔اس کیلئے سبھی کو ان کی مدد کرنا ہوگی۔اگر ایسا نہ ہوسکا تو شاید کچھ دنوں میں کوئی توازن کی بات بھی نہ کرسکے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں