1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شکر گزار شہزادہ (پہلی قسط - دوم-سوم) ۔۔۔۔۔۔ تحریر : ثوبیہ سلیم

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏15 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    شکر گزار شہزادہ (پہلی قسط - دوم-سوم) ۔۔۔۔۔۔ تحریر : ثوبیہ سلیم

    بادشاہ جنگل میں پریشان یہاں،وہاں گھوم رہا تھا۔وہ شکار کرنے کی غرض سے جنگل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا تھا،لیکن ان سے جدا ہو کر راستہ بھٹک گیا تھا اور اب اسے واپس جانے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔
    جنگل بے حد گھنا تھا اور کچھ ہی دیر میں رات ہونے والی تھی۔بادشاہ پریشان تھا کہ آخر وہ کیا کرے۔اتنے میں اسے سامنے سے ہاتھ میں لاٹھی تھامے ایک بوڑھا آتا ہوا دکھائی دیا۔اس بوڑھے کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک تھی لیکن بادشاہ خوفزدہ ہوئے بغیر دم سادھے کھڑا رہا۔بوڑھا ،بادشاہ کے قریب آیا اور غصیلے لہجے میں پوچھنے لگا’’تم کون ہو اور میرے جنگل میں کیا کر رہے ہو‘‘؟بادشاہ نے اسے تمام ماجرا کہہ سنایا کہ کس طرح وہ اپنے ساتھیوں سے الگ ہوا اور اب اسے واپس جانے کا راستہ نہیں مل رہا۔بادشاہ کی بات سن کر بوڑھا ہنسنے لگا اور بولا’’اس جنگل میں آنے کا راستہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن یہاں سے کوئی میری مدد کے بغیر واپس نہیں جا سکتا۔‘‘

    بادشاہ بولا’’کیا آپ یہاں سے نکلنے میں میری کوئی مدد کر سکتے ہیں؟اس کے بدلے آپ جو بھی مانگیں گے میں دینے کو تیار ہوں‘‘۔

    بوڑھا شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا’’یقینا میں تمہیں واپس محل جانے کا راستہ بتا سکتا ہوں لیکن میری ایک شرط ہے‘‘۔

    بادشاہ جلدی سے بولا’’میں آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار ہوں‘‘۔دراصل بادشاہ اندر سے خوفزدہ تھا کہ اگر وہ اس جنگل میں لا پتہ ہو گیا تو جلد ہی اسے خونخوار جانور اپنی خوراک بنا لیں گے۔اس لیے وہ اپنی آخری امید بوڑھے کو سمجھ رہا تھا اور جلد از جلد واپس محل پہنچنا چاہتا تھا جہاں اس کی ملکہ اور چھوٹا سا بیٹا اس کی راہ تک رہے تھے۔

    بادشاہ کی بات سن کر بوڑھا بولا’’میں تمہاری جنگل سے نکلنے میں مدد کروں گا،لیکن واپس پہنچ کر محل کے دروازے سے جو پہلی چیز اپنے قدموں پر چلے بغیر باہرآئے گی وہ تمہیں مجھے دینا ہو گی‘‘۔بوڑھے کی بات سن کر بادشاہ نے منظور کر لیا اور اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔بوڑھا بادشاہ کو ستانے کی خاطر دشوار راستوں سے ہوتا ہوا جنگل پار کر رہا تھا۔ اگلے روز تھکن سے نڈھال بادشاہ کو جب اپنا محل نظر آیا تو اس کے اندر پھر سے جوش بھر گیا۔وہ تیزی سے چلتا ہوا محل کے قریب پہنچا اور اس سے پہلے کہ محل کے گیٹ تک جاتا پیچھے سے آواز آئی’’بادشاہ !اپنا وعدہ یاد رکھنا میں کل اسی وقت آئوں گا‘‘۔

    بوڑھے کی بات سن کر بادشاہ محل کی جانب بڑھنے لگا۔پہریداروں نے بادشاہ کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے اندر ملکہ کو اطلاع دینے گئے ۔ آس پاس کے سبھی لوگ جو بادشاہ کے جنگل میں کھوجانے کی خبر سے پریشان تھے ،خوش ہوتے ہوئے محل کی جانب بڑھنے لگے،لیکن اس سے پہلے کہ بادشاہ محل کا گیٹ پار کرتا ملکہ اپنے چھوٹے سے بیٹے کو اٹھائے دوڑتی ہوئی بادشاہ کی جانب لپکی۔بادشاہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے رُکنے کو کہا ،لیکن وہ شاید بادشاہ کاا شارہ سمجھ نہ پائی اور تیزی سے گیٹ پار کر کے شہزاد ے کو بادشاہ کی گود میں دے دیا۔یہ دیکھ کر بادشاہ کے اوسان خطا ہو گئے ۔ ملکہ نے شہزادے کو گود میں اٹھائے گیٹ پار کیا تھا۔اس کا مطلب شہزادہ وہ پہلی چیز تھا جو اپنے قدموں پر چلے بغیر محل کی دہلیز سے باہر آئی تھی،اور وعدے کے مطابق بادشاہ کو کل شہزادہ بوڑھے شیطان کے سپر د کرنا پڑتا۔یہ سوچ کر بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے،ملکہ پریشان ہو کر بادشاہ کو دیکھنے لگی اور اس سے رونے کا سبب پوچھا جس پر بادشا ہ نے ملکہ کو اندر چلنے کا اشارہ کیا ۔ وہ محل میں پہنچے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ملکہ سے مخاطب ہوتے ہوئے بادشاہ بولا ’’ملکہ!آپ یقینا سوچ رہی ہوں گی کہ اس قدر خوشی کے موقعے پر میرے رونے کا سبب کیا ہے؟تو میں آپ کو وہ پورا قصہ سناتا ہوں جو جنگل میں مجھ پر بیتا‘‘۔اس کے بعد بادشاہ نے ساری بات ملکہ کو سنائی تو بوڑھے سے کیا جانے والا وعدہ سن کر ملکہ کے بھی پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ان دونوں کو اپنا شہزادہ جان سے بھی زیادہ عزیز تھا اور وہ کسی قیمت پر بھی اپنا بیٹا بوڑھے شیطان کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے۔رات بھر دونوں سوچتے رہے کہ آخر وعدہ پورا کرنے کے لیے بوڑھے کو کس طرح مطمئن کیا جائے،اور پھر آخر بادشاہ کے ذہن میں ایک ترکیب آئی جو اس نے ملکہ کو بھی بتائی تو وہ بھی کچھ سوچنے لگی۔

    (جاری ہے)
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    شکر گزار شہزادہ (دوسری قسط) ۔۔۔ ثوبیہ اسلم

    اگلے دن بادشاہ نے اپنے خادمو ں کو شہر میں کسی ایسے بچے کی تلاش میں بھیجا جو اسی دن پیدا ہو ا ہو جس دن شہزادے کا جنم ہوا تھا۔شام تک خادم بادشاہ کے پاس یہ خبر لے کر آئے کہ محل سے کچھ ہی دوری پر موجود ایک گھر میں شہزادے کا ہم عمر بچہ موجود ہے۔
    بادشاہ نے بچے کے والدین کو پیغام بھجوا کر محل میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔دونوں میاں،بیوی حیران و پریشان بادشاہ کے پاس پہنچے ۔وہ شدیدگھبرا رہے تھے کہ آخر ایسی کیا بات ہوئی ہو گی جو زندگی میں پہلی بار بادشاہ نے انہیں محل میں طلب کیا ہے۔بادشاہ تخت پر بیٹھا کسی گہری سوچ میں گُم تھا۔پاس ہی کرسی پر شہزادے کو گود میں اٹھائے ملکہ بھی بیٹھی تھی۔بادشاہ جانتا تھا کہ جو وہ کہنے جا رہا ہے اسے ماننادنیا کے کسی بھی والدین کے لیے مشکل ترین کام ہو گا۔کافی دیر سوچنے کے بعد بادشاہ نے ہمت کر کے اپنی بات شروع کی’’تم دونوں میری رعایا ہو اور مجھے اپنے لوگوں کے خلوص اور محبت پر کوئی شک نہیں،میں تم دونوں کو کسی امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا لیکن ملکی سلامتی کی خاطر آج ایک مطالبہ کرنے جا رہا ہوں‘‘۔

    وہ دونوں میاں،بیوی پورے دھیان سے سن رہے تھے،لیکن بادشاہ کی پوری بات سننے کے بعد ان کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔در اصل بادشاہ چاہتا تھا کہ شہزادے کو بوڑھے کے سپرد نہ کیا جائے کیونکہ کل کو شہزادے نے ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالنی تھی۔اس لیے وہ شہزادے کے ہم عمر بچے کو بوڑھے کو دینا چاہتا تھا۔ماں،باپ کے لیے اپنے بچے کو خود سے دور بھیجنا نہایت تکلیف دہ تھا لیکن وہ بادشاہ کو انکار نہیں کر سکتے تھے،اس لیے دکھی دل کے ساتھ اپنا بچہ انہیں سونپ دیا۔جو بادشاہ نے اگلے دن وعدے کے مطابق بوڑھے کے حوالے کر دیا۔

    وقت یونہی گزرتا رہا اور شہزادہ جوان ہو گیا۔وہ اکثر اوقات اپنے ساتھیوں یا سپاہیوں کے ساتھ شہر کی سیر کو نکلا کرتا تھا۔شہزادے نے ایک بات محسوس کی تھی کہ جب بھی وہ شہر میں ایک دکان کے پاس پہنچتا ہے تو وہاں موجود مرد اور خاتون کی آنکھیں اسے دیکھ کر نم ہو جاتی ہیں۔ایک روز شہزادے سے رہا نہ گیا تو اس نے جا کر ان سے سبب دریافت کر ہی لیا۔جس پر آدمی نے شہزادے کو بتایا کہ کس طرح انہوں نے ملک کی خاطر اپنا بیٹا قربان کیا تھااور اگر آج وہ ان کے پاس موجود ہوتا تو شہزادے کا ہی ہم عمر ہوتا۔بس اسی وجہ سے جب بھی وہ اسے دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔

    شہزادے کو بے حد دُکھ ہوا کہ اس کی وجہ سے کسی کے والدین کو اپنا بچہ قربان کرنا پڑا۔شہزادے نے دل میں ایک ارادہ کیا اور بادشاہ سے اجازت لے کر چند سپاہیوں کے ہمراہ اسی جنگل کی جانب چل پڑا جہاں بوڑھا شیطان رہتا تھا۔بادشاہ نے شہزادے کو روکنے کی کوشش کی اور بتایا بھی کہ اس جنگل میں داخل ہونا آسان ہے لیکن وہاں سے باہر نکلنے کے لیے اسے بوڑھے شیطان کی ہی مدد لینی پڑے گی۔شہزادے نے بادشاہ کو تسلی دی اور اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے چل پڑا۔شہزادہ نہایت عام سے لباس میں موجود تھا اور کوئی بھی اسے دیکھ کر نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کسی ریاست کا اکلوتا شہزادہ ہو گا۔کئی دن کی تلاش کے بعد آخر ایک روز اسے جنگل میں پانی کا برتن بھرتے ایک لڑکا نظر آیا۔شہزادہ یونہی بات کرنے کے بہانے اس کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ وہ راستہ بھٹک گیا ہے۔لڑکے کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات اُبھرے اور وہ آہستہ آواز میں بولا’’اس جنگل سے نکلنے کا راستہ آج تک میں بھی نہیں جان پایا۔کاش میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا‘‘۔

    شہزادہ پھر گویا ہوا’’تم کون ہو اور جنگل میں کیا کر رہے ہو‘‘؟لڑکے نے اسے بتایا کہ یہاں وہ ایک بوڑھے کا نوکر ہے۔وہ نہیں جانتا کہ بوڑھے نے اسے کہاں سے حاصل کیا تھا لیکن جب سے اس نے ہوش سنبھالا ہے وہ دن،رات بوڑھے کی خد مت کرنے میں مصروف ہے۔کئی بار اس نے یہاں سے نکلنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن ہر بار ناکام ہو جاتا ہے۔شہزادہ فوراً سمجھ گیا کہ یقینا یہ وہی لڑکا ہے جو بادشاہ نے اس کے بدلے بوڑھے کے حوالے کیا تھا۔شہزادہ کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا’’بے فکر ہو جائو بھائی!ہم دونوں جلد اس جنگل سے باہر نکلنے والے ہیں‘‘۔(جاری ہے)
     
  3. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    شکر گزار شہزادہ (آخری قسط) ۔

    لڑکا حیرت سے شہزادے کی جانب دیکھ رہا تھا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟شہزادہ لڑکے کو سمجھاتے ہوئے بولا’’ہمیشہ یاد رکھنا میرے بھائی،ایک آدمی اکیلا ہوتا ہے لیکن ایک کے ساتھ ایک لگا دیا جائے تو گیارہ بن جاتے ہیں۔مجھے تمہاری تھوڑی سی مدد اور کچھ معلومات چاہیے ہوں گی اس کے بعد خدا نے چاہا تو ہم یقینا یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔
    لڑکا بولا’’میں کس طرح تمہاری مدد کر سکتا ہوں‘‘۔شہزادے نے جواب دیا’’بس مجھے اپنے ساتھ لے چلو اور کوئی ایسا بہانہ سوچ لو جو سن کر بوڑھا مجھے بھی پاس رکھنے پر راضی ہو جائے۔اس کے بعد باقی کام میرا ہے‘‘۔لڑکے نے اثبات میں سر ہلایا اور شہزادے کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔جلد ہی وہ جنگل میں اس جگہ پہنچ گئے جہاں بوڑھے آدمی کا چھوٹا سا لکڑیوں کا بنا گھر موجود تھا۔شہزادہ لڑکے کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہوا تو سامنے ہی بوڑھا شیطانی آنکھوں سے انہیں گھورنے لگا۔شہزادے کو دیکھتے ہی اس کے ماتھے پر غصے کے آثار نمو دار ہو گئے ۔وہ لڑکے سے غصیلے لہجے میں مخاطب ہوتے ہوئے بولا’’’یہ کس کوساتھ لے آئے ہو؟تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ جس کام سے بھیجا جائے اتنا ہی کر کے واپس آیا کرو۔کسی اجنبی سے بات کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں پھر بھی تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے‘‘۔

    لڑکا چہرے پر بیچارگی سجائے بولا’’مالک ! یہ میرا دوست ہر گز نہیں ہے،میں اپنے کام سے ہی جا رہا تھا جب راستے میں اس سے ملاقات ہوئی ۔یہ بیچارہ راستہ بھول گیا ہے اس لیے منت سماجت کر رہا تھا کہ اپنے ساتھ لے چلوں۔اس نے وعدہ کیا ہے کہ آپ جو بھی حکم دیں گے اس کے مطابق ہر کام کر دیا کرے گا‘‘۔اب بوڑھے کا غصہ کسی حد تک کم ہو چکا تھا۔اس نے لڑکے کو بھی اپنے پاس کاموں کی غرض سے ہی رکھا ہوا تھا اس لیے سوچنے لگا کہ دوسرا لڑکا بھی جوان اور تندرست معلوم ہوتا ہے۔اسے جنگل سے نکلنے کا راستہ بتانے کی بجائے اپنے پاس کاموں کے لیے رکھنا زیادہ بہتر ہو گا۔بوڑھے نے شہزادے کو اسی وقت اپنے لیے خود بستر لگانے کا حکم دیا اور کھانا ،کھانے کے بعد خاموشی سے سو رہا۔

    اگلے کئی دن یونہی بیت گئے۔بوڑھا صبح سویرے لڑکے اور شہزادے کو کام بتا کر نکل جاتا اور شام اس کے واپس آنے تک وہ لوگ کام کرتے کرتے ہلکان ہو جاتے۔

    چند روز شہزادے نے خاموشی سے بوڑھے کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی اور ارادے کے مطابق کوئی کاروائی نہ کی۔وہ غور کر رہا تھا کہ بوڑھے کے معمولات کیا ہیں اور وہ گھر سے باہر جاتے ہوئے کون سے چیزیں لازمی لے کر جاتا ہے۔بوڑھے کے پاس ایک کپڑے کاتھیلا موجو دتھا جسے کسی کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی۔اس لیے کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کے اندر کیا موجود ہے،لیکن یہ بات یقینی تھی کہ بوڑھے کے لیے وہ تھیلا بے حد خاص ہے ،کیونکہ سوتے وقت بھی وہ اس کے سرہانے موجود ہوتا اور کوئی دن ایسا نہ تھا جب بوڑھا تھیلے کو گھر بھول گیا ہو۔شہزادے نے غور کیا کہ کھانا کھانے سے پہلے بوڑھا جب ہاتھ دھونے جاتا ہے تو اس دوران چند منٹ کے لیے تھیلا اس کے بستر پر پڑا رہتا ہے۔شہزادہ اپنے ذہن میں پورا پلان ترتیب دے چکا تھا۔اب اسے صرف مناسب موقعے کا انتظار تھا،جو جلد ہی مل گیا۔

    حسب ِمعمول بوڑھا کھانا،کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے لیے گیا تو شہزادے نے جلدی سے کوئی چیز بوڑھے کے تھیلے میں ڈال دی اور نہ نظر آنے والا چھوٹا سا سوراخ تھیلے کے نیچے کر دیا۔اس دوران لڑکے نے نظر رکھی کہ کہیں بوڑھا انہیں پکڑ نہ لے،لیکن شہزادہ اپنا کام پورا کر چکا تھا۔اب اسے صرف رات ہونے کا انتظار تھا۔شہزادے نے لڑکے کو بھی سمجھا دیا تھا کہ وہ آج رات یہاں سے نکلنے والے ہیں۔

    لڑکا بے حد خوفزدہ تھا کہ اگر وہ یہاں سے بھاگنے کے باوجود جنگل سے نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو بوڑھا ان کی چمڑی ادھیڑ دے گا،لیکن شہزادے نے اسے تسلی دی اور بے فکر رہنے کو کہا۔

    اگلے دن رات اندھیرا ہونے کے بعد جب بوڑھا کھانا کھا کر گہری نیند سو چکا تو شہزادے نے لڑکے کو جگایا اور آہستگی سے دونوں گھر سے باہر نکلے۔انہوں نے رستہ دیکھنے کے لیے ہاتھ میں ایک مشعل بھی اُٹھا رکھی تھی۔دراصل شہزادے نے بوڑھے کے تھیلے میں ہمراہ لائی ہوئی ایک ایسی پُڑیا ڈالی تھی جس میں سے گہرے رنگ کے بیج مسلسل گر رہے تھے۔اس طرح بوڑھا جب جنگل سے باہر گیا تو بیجوں کے ذریعے راستہ بنتا گیا۔شہزادہ لڑکے کو لے کر بیجوں کو دیکھتے ہوئے چند ہی گھنٹوں میں جنگل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگیا،او ر اس سے پہلے کہ صبح کا سویرا ہوتا اور بوڑھے کو ان کے بھاگنے کی خبر ملتی شہزادہ لڑکے کے ساتھ محل میں داخل ہو چکا تھا۔یہاں پہنچ کر اس نے لڑکے کے والدین کو محل میں بُلوایا ۔جو اپنے بیٹے کو سامنے پا کر خوشی سے دیوانے ہو گئے۔بادشاہ نے انہیں اگلے چند روز کے لیے اپنا مہمان کیا تا کہ ان کا شکریہ ادا کیا جا سکے اور بڑے انعام کے ساتھ ان کا بیٹا بھی انہیں واپس سونپ دیا۔ (ختم شُد)


     

اس صفحے کو مشتہر کریں