ایڈورڈ کی ایک نظم The Huntsman سے ماخوذ کاگوا ایک شکاری تھا۔ اور جنگل میں گھوم پھر کر شکار کرتا تھا۔ ایک دن جنگل میں گھومتے گھومتے اس ایک کسی انسان کا کٹا ہوا سر ملا۔ وہ اسے دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ اس نے اس کھوپڑی سے پوچھا۔ "تم یہاں کیسے پہنچے؟" کھوپڑی نے جواب دیا "میری زبان نے مجھے یہاں پہنچایا۔" کاگوا یہ خبر بادشاہ کو سنانے دوڑا کہ اسے ایک کھوپڑی ملی ہے جو باتیں کرتی ہے۔ جب بادشاہ نے کاگوا سے یہ بات سنی تو اسے یقین نہ آیا۔ لیکن کاگوا نے اصرار کیا کہ وہ سچ بول رہا ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے کچھ سپاہیوں کو حکم دیا کہ کاگوا کے ساتھ جائیں اور وہ دیکھیں اگر وہ کھوپڑی واقعی باتیں کرتی ہے تو اسے دربار میں پیش کریں۔ اور اگر کاگوا نے جھوٹ بولا ہوا تو اس کا سر وہیں قلم کر دیں۔ سپاہی کاگوا کو لے کر جنگل کی طرف چل دیئے۔ آخر کار وہ وہاں پہنچ گئے جہاں کھوپڑی پڑی تھی۔ کاگوا کھوپڑی کے پاس گیا اور بولا۔ "تم یہاں کیسے پہنچے؟" لیکن کھوپڑی نے کوئی جواب نہ دیا کاگوا نے پھر پوچھا۔ "تم یہاں کیسے پہنچے؟" لیکن کھوپڑی پھر بھی خاموش رہی۔ کاگوا نے التجائیہ لہجے میں کہا۔ "خدا کے لئے مجھے بتائو، تم یہاں کیسے پہنچے؟" لیکن کھوپڑی ویسے کی ویسے پڑی رہی۔ کاگوا کی بات جھوٹ ثابت ہو چکی تھی۔ سپاہیوں نے تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ اس کا سر دھڑ سے جدا ہو کر لڑھکتا ہوا کھوپڑی کے پاس جا گرا۔ اس وقت کھوپڑی نے زبان کھولی اور کاگوا کے سر پوچھا۔ "تم یہاں کیسے پہنچے؟" کاگوا کی کھوپڑی نے جواب دیا۔ "میری زبان نے مجھے یہاں پہنچایا۔"
جواب: شکاری اب ملک بلال بھائی چپ کرکے بیٹھ گئے ہیں ۔ یہاں شکریہ بھی قبول نہیں کررہے شاید زبان کی حفاظت کررہے ہیں۔ :hpy:
جواب: شکاری آپ سب لوگوں کا شکریہ۔ کچھ تحریریں انسانی شخصیت پر بہت اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ بھی ان میں سے ایک ہے اور یہ حقیقت ہے کہ میں نے یہ نظم پڑھنے کے بعد بولنا کافی کم کر دیا ہے۔