1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شُو شُو

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از Guest, ‏20 اپریل 2009۔

  1. Guest
    Online

    Guest مہمان

    شُو شُو
    از: طاہر مسعود
    کراچی یونیورسٹی، کراچی پاکستان

    میدان میں شام ہو چکی تھی۔۔۔ہوا بند ہونے کی وجہ سے حبس کی کیفیت تھی۔۔۔مختلف عمروں کے چھوٹے بڑے بچوں پر مشتمل دو ٹیمیں فٹ بال کھیلنے میں‌ مگن تھیں۔۔۔ان ہی میں یاسر بھی تھا۔۔۔سب سے کم عمر کھلاڑی، یہی کوئی سات سال کا۔۔تماشائی سوچتے ہوں گے کہ خدا جانے کس نے اُسے اِس میچ میں‌ کھیلنے کی دعوت دی ہے۔۔کیونکہ وہ سارے میدان میں گیند کے پیچھے پیچھے دوڑا پھرتا تھا۔۔اور گیند اس کے ہاتھ نہ آتی تھی۔ بڑی عمر کے کھلاڑی اس گیند کے قریب پٹھکنے ہی کب دیتے تھے۔جونہی وہ گیند کے نزدیک پہنچتا کوئی، شارٹ، لگا کر گیند کو اس سے دور کر دیتا تھا۔۔۔یاسر دوڑ دوڑ کر ہلکان ہو چکا تھا لیکن اس کا شوق مدھم نہیں پڑا تھا۔۔۔وہ کسی اُمید پر بہت لگن کے ساتھ گیند کے تعاقب میں لگا ہوا تھا۔۔۔۔

    میں میدان سے باہر ایک پلیا پر بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔۔یاسر کی قابل رحم حالت پر مجھے ترس آرہا تھا۔۔۔میرا جی چاہ رہا تھا کہ میدان میں داخل ہو کر گیند چھین کر اس ننھے کھلاڑی کے حوالے کردوں تا کہ ہو جتنا جی چاہے کھیلے۔۔۔۔لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ کھیل کے اصول کے خلاف ہوتا۔۔تھوڑی دیر بعد یہ دیکھ کر میری خوشی کا انتہا نہیں رہی کہ گیند یاسر کے پاس تھی۔۔۔وہ اسے لے کر آگے بڑھ رہا تھا ۔۔۔مسرت سے اس کا چہرہ لال ہو رہا تھا۔۔لیکن ابھی وہ چند قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ ایک لحیم و شحیم لڑکے نے بڑی آسانی سے اس سے گیند چھین لی۔۔اب یاسر اُس کے پیچھے پیچھے تھا لیکن وہ لڑکا اس کے قابو آتا تھا نہ گیند۔۔۔

    میں نے منہ پھیر لیا۔۔مجھ سے یاسر کی بے بسی دیکھی نہ جاتی تھی۔۔اس کی بے بسی سے کسی کو بھی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔کھیل دیکھنے والے اور کھیل کھیلنے والے سب کھیل میں منہمک تھے۔۔۔۔

    یاسر کو میں اُس زمانہ سے جانتا ہوں جب وہ پیدا ہوا تھا۔۔نرس نے اسے لا کر میری گود میں ڈال دیا تھا اور میں نے جھک کر اپنے اکلوتے بیٹے کی پیشانی پر بوسہ دیا تھا۔۔اور نرس کو جب پانچ سو کا نوٹ انعام میں تھمایا وہ ششدررہ گئی۔۔۔"اتنی بڑی رقم؟"

    " جو بچہ تم نے لا کر مجھے تھمایا ہے اس کے مقابلہ میں یہ رقم بہت تھوڑی ہے۔۔۔"۔۔ یہ کہہ کر میں نے یاسر کو لئے بستر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔میں نے اس کے کانوں‌میں اذان اور اقامہ کہی۔۔۔۔اسے شہید چٹایا۔۔۔اور بارگاہ ایزدی میں اس کی درازئی عمر اور کامیابی کی سچے دل سے دعا کی۔۔۔میں ان دنوں بیمار تھا۔۔۔طرح طرح کے خلجان مجھے پریشان کیے رہتے تھے۔۔لیکن عجیب سی بات ہے کہ یاسر کی آمد کے ساتھ ہی میں صحت یاب ہو گیا تھا۔۔۔۔۔

    جوں جوں وہ بڑھتا گیا میری اس سے دوستی گہری ہوتی گئی۔۔۔میں اسے پہلے رات کو لوری سناتا تھا ۔۔جب وہ کہانیاں سننے اور سمجھنے کے قابل ہو گیا تو کہانیاں سنانے لگا۔۔۔لوری اور کہانی سننے کی عادت تو اس کی ایسی ہو گئی تھی کہ اس کے بغیر سوتا ہی نہ تھا۔۔اب میں اسے دینی واقعات کہانی کی صورت سنانے لگا۔۔وہ ان واقعات کو سن کر سوال کرتا تھا۔۔ایسے سوال جن میں سے بعض کے جواب مجھ کو نہیں آتے تھے۔۔اور میں اسے غلط سلط جواب دینے کے بجائے اپنی لا علمی مان لیتا تھا۔۔وہ ذہین تھا۔۔خوبصورت تھا۔۔بہت متحرک تھا۔۔۔اسے کہانیوں میں رستم سہراب کی کہانی سب سے زیادہ پسند تھی۔۔ہر رات وہ اس کہانی کو سننے کی فرمائش کرتا۔۔خاص طور پر وہ حصہ جب سہراب رستم کو پہچان کر اپنا ہتھیار پھینک دیتا ہے اور اپنے باپ رستم کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے۔۔۔نہ جانے کیا بات تھی۔۔کہ وہ بار بار اس حصہ کو غور سے سنتا تھا۔۔ایک دن میں جب اس سے کشتی لڑ رہا تھا ۔۔اور لڑتے لڑتے جھوٹ موٹ چِت ہو گیا اور نعرہ مارا:

    "سہراب جیت گیا اور رستم ہار گیا!"

    تو یاسر نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔۔" پاپا ! سہراب کیسے جیت سکتا ہے؟ اس کے پاپا نے تو اسے مار دیا تھا۔۔۔!"

    یہ سن کر میرے سینے میں ایک گھونسا لگا۔۔۔یہ کیسی بات تھی جو اسے یاد رہ گئی تھی۔۔۔!

    "یاسر کیا تم بھول گئے۔۔۔۔؟ میں نے کہا۔۔۔" سہراب کی لاش پہ اپنے قتل ہو جانے والے بیٹے کے سرہانے بیٹھ کر رستم کتنا رویا تھا۔۔۔؟"

    "ہاں پاپا وہ اپنے بیٹے کو مارنے کے بعد رویا تھا۔۔۔"

    یاسر کی آنکھوں میں‌نمی تھی اور میں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا تھا۔۔۔کیا یاسر کو سہراب کی موت کا غم تھا یا اسے رستم کی سنگ دلی نے افسردہ کر دیا تھا۔۔۔؟ کون جانے۔۔!

    (جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ بہت زبردست بہت خوب نقشہ کھینچا ھے
    الفاظ کو کس مہارت اور خوبصورتی سے استعمال میں لایا گیا ھے بھئی :a180: :a180: :a180:
     
  3. Guest
    Online

    Guest مہمان

    شکریہ۔۔اس کا بقیہ حصہ بھی پڑھیئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر تبصرے سے مزئین بھی کیجئے گا اس لڑی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکریہ بہت بہت۔۔جیتی رہیں اور خوش رہیں۔۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ کاشفی بھائی ۔
    بہت اچھا مضمون ہے۔ :mashallah:
     
  5. Guest
    Online

    Guest مہمان

    (گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

    برسات کا موسم آیا تو یاسر کو برانکائٹس (Bronchitis) ہو گیا۔۔۔وہ رات بھر کھانستا رہتا۔۔۔کھانسی کا دورہ ایسا پڑتا کہ میں اور میری بیوی پریشان ہو جاتے۔۔ ہم نے اسے کئی ڈاکٹروں کو دکھایا، بہتر سے بہتر علاج کرایا لیکن کھانسی ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔۔ جب وہ دواؤں سے ٹھیک نہیں‌ ہوا تو میں نے اسے عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر لے گیا۔۔۔ اور وہاں آہ و زاری کے ساتھ دعا کی۔۔عجیب اتفاق دیکھئے کہ یاسر رفتہ رفتہ ٹھیک ہو گیا۔۔۔۔ اب وہ روز صبح سویرے اسکول جانے کے لئے اٹھ بیٹھتا۔۔۔۔ میں اسے اپنے ہاتھوں سے تیار کراتا، ناشتہ وغیرہ کرا کے اسے اسکول چھوڑنے جاتا۔۔ گاڑی سے اتر کر وہ خدا حافظ کہہ کہ دوڑتا ہوا اسکول کے گیٹ کے اندر داخل ہو جاتا۔۔۔جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوجاتا میں اُسے دیکھتا رہتا تھا۔۔۔۔۔۔

    ایک دن میری بیوی نے عجیب بات کہی۔۔۔اس نے کہا۔۔۔" آپ یاسر کے لئے برگد کا پیڑ ثابت ہو رہے ہیں۔۔جس طرح کوئی ننھا منا پودا برگد کے پیڑ کے نیچے پھل پھول نہیں‌سکتا اسی طرح آپ کی شخصیت اس کی شخصیت کے بننے میں مزاحم ہورہی ہے۔۔۔"

    "مجھے کیا کرنا چاہیئے؟۔۔۔" میں نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔

    "آپ سایہ کی طرح اس کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔۔۔اسے چھوڑ دیجئے۔۔۔اسے چھوٹے موٹے معاملات میں‌خود ہی فیصلہ کرنے دیجئے۔۔۔۔آپ اس کی بیساکھی کیوں بنتے ہیں۔۔۔؟"

    مجھے احساس ہوا کہ بیوی سچ کہہ رہی ہے۔۔۔یاسر میرے اعصاب پر چھا گیا تھا۔۔اور میں ہمہ وقت اس کے دل و دماغ پر سوار رہنے کے لئے کوشاں رہتا تھا۔۔لاشعورہ طور پر ہی سہی۔۔۔۔لیکن میں‌یہ چاہتا تھا کہ یاسر میرے علاواہ کسی اور کے بارے میں نہ سوچے۔۔۔یہ چیز اس کی ذہنی نشوونما کے لئے مفید نہیں تھی۔۔میں بتدریج اس سے فاصلہ قائم کرنا شروع کر دیا۔۔۔اس نے جلد ہی محسوس کرلیا۔۔۔۔

    "پاپا! آپ مجھ سے محبت نہیں‌کرتے؟" ایک دن اس نے پوچھا۔۔۔

    "یہ تم نے کیسے جانا؟"

    "آپ مجھے وقت نہیں دیتے۔۔۔آپ میرے ساتھ کھیلتے نہیں۔۔۔"

    بیٹا! تم دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلا کرو۔۔اب تم بڑے ہو رہے ہو۔۔۔"

    "مجھے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنا اچھا نہیں‌لگتا۔۔۔مجھے آپ کے ساتھ کھیلنا اچھا لگتا ہے۔۔۔" اس نے بضد ہو کر کہا۔۔۔۔۔

    میں اسے آکاش بیل بنا دیا تھا جو قریب دیوار یا درخت پر چڑھ جایا کرتی ہے۔۔۔مجھے اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔۔۔لیکن میں‌ نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ وہ تنہائی کے احساس سے گھر گیا ہے اور اس سے بچنے کے لئے وہ خود سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔لان کی کیاریوں کے درمیان وہ اپنے بازو ہوا میں لہراتا ، منہ سے عجیب عجیب نامانوس آوازیں نکالتا اور بھاگتا رہتا۔۔۔۔ایسا وہ بنا تھکے کئی گھنٹے تک کر لیا کرتا تھا۔۔میں نہیں سمجھ سکا کہ اسے اس بے معنی عمل میں کیا مزہ ملتا ہے۔۔۔۔

    ایک دن میں نے اس سے پوچھ لیا۔۔۔" یاسر! تم بھاگ کر منہ سے شُو شُو کی آوازیں کیوں نکالتے ہو؟ "

    وہ جھینپ گیا۔۔۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ میں اس کی اتنی خبر گیری رکھتا ہوں۔۔۔

    "میں‌کھیلتا ہوں۔۔۔"

    "کوئی اکیلے بھی کھیلتا ہے یاسر۔۔۔؟"

    آپ جو میرے ساتھ نہیں کھیلتے۔۔۔۔"

    "کھیلتا تو ہوں۔۔۔۔لیکن ہر وقت تو نہیں کھیل سکتا۔۔مجھے اور بھی کام کرنے ہوتے ہیں۔۔۔"

    وہ چپ رہا۔۔۔میں‌نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں‌ نمی تیرنے لگی ۔۔۔اس کو کوئی دوست نہیں تھا۔۔وہ اکیلا تھا۔۔۔بالکل اکیلا۔۔۔۔

    (جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
     
  6. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    زبردست بہت خوبصورت تحریر ھے الفاظ کا استعمال خوب ھے اور بہت گہری بات کو عام زبان اور انداز میں پیش کیا گیا ھے جو ایک اچھے لکھاری کا ہی خاصہ ہے

    بہت شکریہ علی سید جی



    اور میں نے پہلے بھی گذارش کی تھی کہ اگر آپ اپنے نک سے ہی آئیں تو ہم سب کو خوشی ہو گی امید ھے آپ اس پہ غور فرمائیں گے
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    افسانہ بہت خوب چل رہا ہے۔
    بلکہ دوسری قسط زیادہ پرکشش ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں