1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شمالی علاقوں کے طالب علموں کا تعلیمی سال محفوظ بنانے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏19 اگست 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    پاکستان کے شمالی علاقے یا سرمائی زون کے تعلیمی اداروں کے طلباء اور طالبات کا کورونا وائرس کی وجہ سے ایک تعلیمی سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے اور اس کے لیے حکومت کی جانب سے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آ رہے۔

    دنیا بھر میں جہاں تمام شعبے اس وائرس کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں وہاں تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات کا قیمتی تعلیمی سال بھی متاثر ہوا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ملک بھر میں تعلیمی ادارے 15 ستمبر سے کھولنے کا عندیہ دیے جانے کے بعد شمالی علاقوں کے شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد پریشان نظر آتے ہیں۔

    پاکستان کے بیشتر علاقوں میں تدریسی سال 260 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن شمالی علاقہ جات یا سرد علاقوں میں یہ سال 240 دنوں کا ہوتا ہے۔

    [​IMG]
    ،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES


    شمالی علاقہ جات کا تدریسی عملہ کیوں پریشان ہے؟
    صوبہ خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن میں چند روز قبل نجی تعلیمی اداروں نے 15 اگست سے تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ تین ماہ بعد 25 دسمبر سے ان کے علاقوں میں موسم سرما کی چھٹیوں کا آغاز ہو جائے گا اور اور یکم مارچ تک سکول بند رہے گے اس لیے انھیں اب اپنے تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کا تدریسی سال مکمل ہو سکے۔

    سوات سے نجی تعلیمی اداروں کی تنظیم کے سربراہ احمد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک سال میں 240 دن تک تدریسی عمل جاری رہتا ہے کیونکہ ان کے علاقے میں ایک مہینہ موسم گرما کی چھٹیاں اور دو سے ڈھائی ماہ سرما کی چھٹیاں ہوتی ہیں جس وجہ سے ان علاقوں میں تدریسی عمل کے لیے سال میں کم وقت ہوتا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ رواں برس شمالی علاقوں میں یکم مارچ سے سکول کھلے ہی تھے کہ 13 مارچ سے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا جس وجہ سے ان کے ہاں تعلیمی عمل معطل ہو کر رہ گیا۔

    احمد شاہ کا کہنا ہے کہ ’اب اگر 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت دی جاتی ہے تو ان کے پاس رواں برس تدریسی عمل کے لیے صرف 81 دن رہ جائیں گے جس میں نصاب مکمل نہیں ہو سکتا اور بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہو سکتا ہے۔‘

    حکومت شمالی علاقہ جات کے طلبا کے لیے کتنی فکر مند ہے؟
    موسم کی بنیاد پر تدریسی سال میں رد و بدل خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں تک محدود ہے اس لیے اب تک وفاقی سطح پر منعقدہ اجلاس میں ان سرد علاقوں کے تعلیمی اداروں کے بارے میں کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔

    رواں برس مارچ میں جب کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کا ملک میں آغاز ہوا تو 13 مارچ کو تعلیمی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا جس کے بعد یہی کہا جاتا رہا کہ دو ماہ کی بات ہے اس کے بعد ویسے بھی گرمی کی تین ماہ کی چھٹیاں ہونی ہیں اور اس وقت تک ملک میں وائرس کے پھیلاؤ کی شدت میں واضح کمی ہو سکتی ہے۔

    اس دوران وفاقی اور صوبائی سطح پر ان شمالی علاقوں کے بارے میں کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا جا سکا۔

    [​IMG]
    ،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES


    سوات کے مقامی صحافی غلام فاروق نے بی بی سی کو بتایا شمالی علاقوں میں ستمبر سے موسم بڑی حد تک سرد ہو جاتا ہے طلبا کے پاس دو ڈھائی ماہ ہی رہ جاتے ہیں۔ ماہرین تعلیم اور حکومت کو بیٹھ کر ان شمالی علاقوں کے تعلیمی اداروں کے بارے میں بھی لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔‘

    پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان کے علاقے ایسے ہیں جہاں سرد موسم کے باعث تعلیمی اداروں میں چھٹیاں دسمبر سے فروری تک ہوتی ہیں اور ان علاقوں میں تعلیمی سال عام طور پر مارچ میں شروع ہو جاتا ہے اور دسمبر میں ان علاقوں میں سالانہ امتحان ہو جاتے ہیں۔

    غلام فاروق کا کہنا ہے کہ ’اس برس تدریسی عمل باقاعدہ طور پر شروع ہی نہیں ہو سکا اور اب تدریسی سال ختم ہونے میں چند ماہ ہی رہ گئے ہیں۔ ایسے حالات میں اب حکومت کو ان علاقوں کے طلباء اور طالبات کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔‘

    سوات کے مقامی صحافی سبحان اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت نجی تعلیمی اداروں کے مالکان احتجاج کر رہے ہیں کہ انھیں ادارے کھولنے کی اجازت دی جائے۔‘

    چند روز قبل سوات میں نجی تعلیمی ادارے کھولنے کی کوشش کی گئی جس پر انتظامیہ نے سخت کارروائی کرتے ہوئے سکول مالکان اور اساتذہ کو حراست میں بھی لیا تھا۔

    حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟
    خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں تمام تعلیمی ادارے کھولنے کے لیے ضابطہ کار یا ایس او پیز تو جاری کر دیے ہیں جن میں کورونا وائرس سے بچاؤ اور اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات تجویز کیا گئے ہیں۔

    ان میں تھرمل سکینرز اور سینیٹائزر کے استعمال کے علاوہ سکول میں کلاس رومز کو جراثیم سے صاف کرنے کے لیے سپرے اور کلاس رومز میں 20 طالب علموں کو بٹھانا شامل ہیں۔

    تاہم حکومت نے ان شمالی علاقہ جات کے طلبہ و طالبات کے تعلیمی سال کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اب تک کسی ٹھوس لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا ہے۔

    اس بارے میں صوبائی وزیر تعلیم اکبر ایوب اور مشیر اطلاعات کامران بنگش سے رابطے کی بارہا کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

    مگر اس متعلق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا جیسا کہ دنیا بھر میں مخلتف شعبے کورونا وبا سے متاثر ہوئے ہیں اور اسی طرح تعلیمی اداروں سے منسلک افراد اور طالب علموں کی تعلیم کا حرج بھی ہوا ہے لیکن اس وقت حکومت کی اولین ترجیح بچوں کی صحت ہے، اس لیے بچوں کو اس وائرس سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے سے غافل نہیں ہے اور ہر پہلو پر غور کر رہی ہے، اسی طرح شمالی علاقوں میں تعلیمی اداروں کی مشکلات اور بچوں کے وقت کا احساس ہے اور اس بارے میں سوچ و بچار جاری ہے تاکہ بچوں کا مستقبل محفوظ ہو اور ان کا قیمتی وقت بھی ضائع نہ ہو۔

    انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ قومی سطح پر بھی زیر بحث لایا جائے گا اور شمالی علاقوں کے تعلیمی اداروں اور ان علاقوں کے بچوں کا تعلیمی سال محفوظ بنایا جائے گا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں