1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شعورِآگہی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از ایم اے رضا, ‏11 نومبر 2008۔

  1. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli: :titli: پرسکون اور کامیاب زندگی





    ہماری زندگیوں کا بہت بڑا حصہ سکون کی تلاش میں گزرتا ہے اور یہی تلاش ہمیں بے سکون کر دیتی ہے اور زندگی گزرتے ہوئے بھی بسر ہو جائے یہ کافی ادق ہے---سکون کا کامیاب زندگی کے ساتھ لازم وملزوم کاتعلق ہے مگر یہ اجزائے ترکیبی موجودہ دور میں اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوئے ہیں کہ اگر کسی کے سامنے "سکون""پرسکون""اطمینان"جیسے موضوعات کو بیان کیا جائے تو وہ حیران وپریشان ہو کرکہتا ہے کہ کیا یہ چیزیں جو آپ بیان کررہے ہیں یہ اس دنیا میں کہیں موجود بھی ہیں یا کہ نہیں؟----اگر ایسے موضوعات کو بطور سوال سامنے رکھا جائے تواکثر دو رائے ملتی ہیں پہلی یہ کہ میں پر سکون اور اطمینان بخش ہوں اور دوسری یہ کہ میں پرسکون نہیں ہوں بے سکون ہوں یا غیر اطمینان بخش ہوں ---

    بنظر غائر اگر دیکھا جائے تو کسی بھی سوال کے ممکنہ اور قرین قیاس دو ہی جوابات ہو سکتے ہیں ہاں یا نہ اس اعتبار سے یہ جوابات اپنی جگہ پر درست ہیں مگر اس میں ایک پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے کہ دونوں جوابات کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ تو موجود ہو گی کوئی نہ کوئی راستہ کوئی نہ کوئی ذریعہ یا طریقہ تو ہو گا جس کے بعد یہ جواب بنا ہاں یا نہ مطلب سکون یا بے سکون اور اطمینان بخش یا غیر اطمینان بخش ------

    اگر وہ ذریعہ ،راستہ یا طریقہ جسے استعمال کیا جارہا تھا اگر وہ متنازعہ ہو جائے تو پھر ہم کسی تہہ تک نہیں پنہچ سکتے کہ آیا وہ ہر شخص کے لیے سکون کا باعث ہو گا یا کسی کسی کے لیے یعنی دس افراد کے سامنے تو نتیجہ درست اور مثبت رہا اور اگلے پانچ کے سامنے جا کر غلط یا منفی ہو گیا ------

    بطور مثال اگر کسی چیز کو سامنے رکھنا ہو تو چلیے موسیقی کو ہی رکھ لیتے ہیں ---موسیقی جن لوگوں کو پسند ہے وہ لوگ کہتے ہیں جی کہ ہمیں موسیقی سن کر بہت سکون مل رہا ہے ہم بہت پرسکون ہیں ہمیں اس سے طمانینت قلب میسر آتی ہے اور قلب کے گوشوں پر اطمینان کی واردات ہوتی ہے ----مگر اس کے برعکس کچھ لوگ اس کو شدید کوفت کا سامان سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ اسکی شدید مخالفت کرتے ہیں مگر یہاں ایک اعتراض اٹھتا ہے چلیے اسکو بھی حل کیے چلتے ہیں جو لوگ اس (موسیقی)کو سکون اور اطمینان کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ معترض ہوتے ہیں کہ جس شخص نے مخالفت کی ہے اسکو صحیح دھن جو اس کے موافق تھی وہ نہیں سنائی گئی چلیں اس بات کو بھی درست مان لیتے ہیں -------

    مگر یہ اعتراض تو خود اپنا حل بتا رہا ہے کہ موسیقی کی کوئی ایسی دھن نہیں ہے جو ہر شخص کو متاثر کر سکے اور جو ہر شخص کی طبیعت کو سکون دے کر طمانینت قلب کا سامان کر سکے ------شخص بدلنے سے دھن بدل جاتی ہے فرد بدلنے سے ساز بدل جاتا ہے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ اعتراض اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وجہ سکون اور ذریعہ سکون دو الگ الگ چیزیں ہیں اگر وجہ سکون سمجھ میں آجائے تو ذریعہ سکون کو سمجھنا اور اس میں تطبیق کرنا اور زیادہ آسان ہو جائے گا------

    وجہ سکون اگر ٹھیک طرح سے کام کر رہی ہو ذرائع سکون بھی صحیح اور حقیقی معنوں میں موءثرطریقے سے کارگر ہوتے ہیں اور اگر وجہ سکون بذات خود تشکیک اورالجھن شکار ہو تو ذرائع سکون کے لیے اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اس شک کو زائل کریں ممکنہ سلجھاءو کا حل پیش کرسکیں اب صرف ایک چیز بچتی ہے کہ جو کہ وجہ سکون و اطمینان ہو سکتی ہے وہ ہے "موڈ"یعنی "رویہ" اگر یہ درست ہو تو کوئی بھی ذریعہ سکون ہمیں سکون پہنچاتا ہے اور اگر اس میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو ہم بے سکون ہو جاتے ہیں اور یہی بے سکونی ہم ذریعہ سکون کے صحیح ہونے یا نہ ہونے پر تھونپ دیتے ہیں حالانکہ سارا مسئلہ موڈ کا ہوتا ہے یعنی رویہ کا ہوتا ہے اگر موڈ ٹھیک ہو توسب ٹھیک ہے ---غلط ہو یا خراب ہو تو اتنی ہی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے -------

    جیسے کہ رونے اور ہنسنے میں فرق صرف موڈ کا ہوتا ہے اگر موڈ ٹھیک ہوتو لوگ رونے کو بھی خوشی کے آنسو بنا دیتے ہیں موڈ یا رویہ کو درست کرنے کے لیے شعور ،تحت الشعور، اور لاشعور تینوں کو مناسب توازن کی ضرورت ہوتی ہے انکی صحیح نشوونما بہتر اور صحت مند موڈ یا رویہ کا باعث بنتی ہے-----

    اس سارے استدلال سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ شعور ،تحت الشعور اور، لاشعور کے مابین توازن کا مطلب کامیاب زندگی ہے ---اور کامیاب زندگی میں سکون اور اطمینان کا تناسب جس قدر زیادہ ہو گا اس قدر وہ زندگی کامیاب اور بہتر ہو گی-----------------------



    -----------------------------------------ایم اے رضا-------------------------------------------------
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اچھی باتیں ہیں ایم اے رضا بھائی ۔
    لیکن شعور، تحت الشعور اور لاشعور میں توازن کیسے آ سکتا ہے ؟
    یا کیسے لایا جا سکتا ہے ؟
    اس پر بھی کچھ تحریر فرمائیے گا ۔ پلیز۔

    مندرجہ بالا تحریر کے لیے شکریہ :dilphool:
     
  3. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    بہت خوب ۔ ایم اے رضا صاحب :a180:
     
  4. عاطف چوہدری
    آف لائن

    عاطف چوہدری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جولائی 2008
    پیغامات:
    305
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم سوال پوچھا رضا سے ہے جواب دینے کی جسارت کر رہا ہون اپنے مطالق ،،،،،،دماغ جتنا ہے اتنا



    شعور آپ چلتے ہو گھومتے ہو ادھر ادھر دیکھتے ہو آپ کو پتہ ہے فلاں چیز کہاں پڑی کیسے استمھال کرنا ہے اسکو وغیرہ

    تھت الشعور ،،،،،،،،،کوہی واقعہ دس سال پہلے ہوا آپ دس سال بعد وہاں سے گزرے آپ کو یاد آ گیا دس سال بعد ،،،،،،،،،،یاد

    لاشعور،،،،،،،،،وہ کام جو ناممکن نظر آتے ہین انسانی آنکھ سے
    معجرہ جتنے بھی رونما ہوتے ہین لاشور کی بدولت


    ان تینوں میں توازن کیسے ہو

    شعور غور کرتا رہتا ہے دنیا کی چیزوں میں سوال پیدا کرتا ہے تجس یہ کیوں ہوا کیسے ہو،،،،،،جب جواب نیہں ملتا تو انسان یہ کہہ کر مطمن ہو جاتا ہے اللہ نے کیا
    بے شک ہر چیز اللہ کرتا ہے مگر اپنے نظام کے مطابق

    توازن قاہم کرنے کے لیے بہت سی مشقین ہین،،،،،،،،میں نیہں جاون زیادہ تفیلات پر

    صرف یہ کہتا ہون کہ
    آپ شعور کو اجاگر کرنے کے لیے یکسو ہو کر سوچیں ایک ہی سوچ کو بساین ،،،،،ایک سوچ مثال کے طور پر
    آپ کھانا کھاتے ہو ہوٹل میں اپ سوچ رکھو یہ میرے رب نے اپنے ہاتھوں سے دیا،،،،،،،
    آہستہ آہستہ آپکی سوچ پکتہ ہوتی جایے آپ کی نیت بھی صاف ہوتی جایے گی،،،،،
    پھر جب آپ کی سوچ پکتہ ہو گی تو آپ کو جس چیز کا جواب نیہں ملے گا آپ وہ چیز اپنے لاشعور سے منگوا گے،،،،،مطلب یہ جو ماوس ہے میرے ہاتھ میں میں اسکی طرف نیہں دیکھو گا لیکن یہ کوبکود چلے گا
    جب آپ کا رابطہ آپ کے اندر والے دماغ سے ہو جایے گا ،،،تو کا دماغ تیز ہو جایے گا کوہی کام کرنے سے پہلے آپ کو اپنے آپ سے پوچھنا پڑے گا کہ فلاں کام کیسے کرون سوچ آیے گی اور کام ہو جایے گا
    اور جب آپ تیسرے ھصہ سے کام لینے کی باری آیے گی یعنی لامکان اور وقت کی دقت سے رکاوٹ جو کھڑی ہے اس سے پردہ اٹھ جایے گا
    تینوں چیزوں کا رابطہ ہونے کے بعد انسان میں سپرنیچر چیزین آ جاتی ہین
    انسان اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے کود شناشی رب شناشی ،،،،،،،،،
    پہلی چیز،،،،،،،،،اپنی سوچ میں اپنے رب کو لاو،،،،،،،
    جب سوچ میں رب آ‌گیا ،،،،،،،،،تو کہتے ہین میں میں نہیں تم ہو گیا ہون
    ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
    فلاسفی کے لیے معافی ھاھا کیا کرون ہر وقت سوچتا جو رہتا ہون رب کہاں ہے کب اس دنیا کو سنوارے گا
     
  5. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    عاطف بھائی آپ کا پیغام پڑھا۔۔۔۔۔۔پڑھ کے سوچا تو سمجھ آئی کہ بات تو آپ کی صحیح ہے لیکن یہ پڑھ کے سمجھ نہیں آئی کہ آخری لائن میں آپ نے اپنی ہی باتوں کو کیوں جھٹلا دیا :soch:
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    عاطف چوہدری بھائی ۔ وضاحت کا شکریہ ۔
    اگرمیں غلط نہیں تو یکسوئی اور ارتکاز کے یہ سبق تو روحِ تصوف ہے

    اللہ تعالی آپکے علم و عرفان میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
     
  7. عاطف چوہدری
    آف لائن

    عاطف چوہدری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جولائی 2008
    پیغامات:
    305
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    مسز مرزا،،،،
    سوچ آیے اسلیے جھٹلایا اپنے آپکو

    اگر سوچ قابو میں آجایے تو بات کو سمجھنا کوہی مشکل کام نہیں
    انسان کے اندر دو سوچین ہوتی ہین
    ایک سوچ کہتی ہے ،،،،،،،،،،،،،نہیں،،،،،،،،،،دوسری سوچ کہتی ہے ،،،،،،،،ہاں
    ،،،،،،،،،،،،،،
    ان دنوں کو کنٹرول آ‌جایے تو دنیا کو سمجھنے میں آسانی مہیا ہو جاتی ہے
    جیسے،،،،،،،،،،،،،

    میں کہتا ہون رب ایک ہے،،،،،،،

    ایک سوچ کہہ رہی ہے،،،،،،،،،،،نہیں
    دوسری کہہ رہی ہے ،،،،،،،،،،ہاں

    قرآن کی گراہمر کیا کہتی ہے عربی جاننے والوں سے پوچھ لو،،،،،،،،،کیونکہ رب تعالی نے ایسی زبان میں قرآن اتارا نبی کریم صلم پر جو سیدھا روع کے اندر جایے نہ کہ صڑف مادی اکلاق سکھایے
    روھانی اکلاق بھی سکھاتا ہے قرآن

    نہیں ہے کوہی عبادت کے لاہق،،مگر ہاں صرف اللہ
    ،،،،،،،،،پہلے کلمہ میں مل گی دنوں سوچین،،،،،،،،،،
    یہ علم ہے اسکو نعیم صاھب جو مرضی کہہ لو،،،،،،،،،میں نہ صوفی ہون مگرہاں طالب علم
    صرف دعا (امتی) ہون اپنے نبی کریم صلم کی
    ربی زدنی علماٰئ

    اے رب میرے علم میں اضافہ فرما
    آمین
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عاطف چوہدری بھائی ۔ جزاک اللہ
    رب کریم ایسا علمِ نافع عطا فرمائے۔جس سے انسان کو شعور و آگہی نصیب ہوجائے۔ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں