1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شریعت اسلامیہ میں مردوعورت کے لیےحکم کا تحقیقی جائزہ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏4 اکتوبر 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام پاک وصاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق وعادات کی تہذیب کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے جو اہم تدیبرکرتاہے، وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچاکر پاکیزہ زندگی کاقیام ہے ۔چنانچہ اسی سلسلے میں اسلام نے حفاظتِ نظر پر زور دیا ہے؛ چونکہ بدنظری تمام فواحش کی بنیاد ہے، اس لیے قران وحدیث سب سے پہلے اس کی گرفت کرتے ہیں۔

    ارشاد باری تعالی ہے:

    قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۱)

    ترجمہ: ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بیشک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔

    اور اسی طرح عورتوں کو بھی غض بصر کا حکم دیاگیاہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:

    وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ(۲)

    ترجمہ: اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں!

    حقیقت یہ ہے کہ ”بدنظری“ہی ”بدکاری“ کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی وجہ سے ان آیات میں نظروں کی حفاظت کے حکم کو”حفاظتِ فرج“ کے حکم پر مقدم رکھا گیا ہے۔شریعتِ اسلامیہ نے ”بدنظری” سے منع کیا او ر اس کافائدہ یہ بتایا کہ اس سے شہوت کی جگہوں کی حفاظت ہوگی نیز یہ چیز تزکیہٴ قلوب میں بھی معاون ہوگی ۔ ”غضِ بصر“ کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیاہے ۔نگاہ نیچی رکھنا فطرت اور حکمتِ الٰہی کے تقاضے کے مطابق ہے؛اس لیے کہ عورتوں کی محبت اوردل میں ان کی طرف خواہش فطرت کا تقاضاہے ۔

    ارشاد ربانی ہے:

    زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاءِ(۳)

    ”لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں“۔

    آنکھوں کی آزادی اوربے باکی خواہشات میں انتشار پیدا کرتی ہے ۔ایک حدیث میں بدنظری کو آنکھو ں کا زنا قرار دیا گیا ۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

    فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ(۴) ”آنکھوں کازنا دیکھناہے“۔

    راستے میں مجلس جماکر بیٹھنے سے اسی وجہ سے منع کیا گیا ہے کہ وہ عام گزر گاہ ہے ،ہرطرح کے آدمی گزرتے ہیں، نظر بے باک ہوتی ہے ،ایسا نہ ہو کہ کسی پر نظر پڑے اور وہ برائی کا باعث بن جائے ۔

    صحابہ کرام سے ایک دفعہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو!صحابہ نے اپنی مجبوری پیش کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کو جب کوئی مجبوری ہو تو راستہ کا حق ادا کرو!صحابہ نے سوال کیا راستہ کا حق کیاہے“۔؟

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذَی وَرَدُّ السَّلَامِ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنْ الْمُنْکَرِ(۵)

    ” نگاہ نیچی رکھنا ،اذیت کا ردکرنا ،سلام کا جواب دینا ،اور بھلی بات کاحکم دینا اور بری بات سے منع کرنا“۔

    حدیث میں نظر کو شیطانی زہر آلود تیر قرار دیا گیاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

    النَّظْرَةُ سَہْمٌ مَسْمُومٌ مِنْ سِہَامِ إبْلِیسَ مَنْ تَرَکَہَا مِنْ مَخَافَتِی أَبْدَلْتہ إیمَانًا یَجِدُ حَلَاوَتَہُ فِی قَلْبِہِ(۶)

    ”بدنظری شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک زہریلا تیرہے، جو شخص اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے، میں اس کو ایک ایسی ایمانی قوت دوں گا، جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں پائے گا“۔

    نگاہ کا غلط استعمال بہت سارے فتنوں اور آفتوں کا بنیادی سبب ہے ۔چونکہ دل میں تمام قسم کے خیالات و تصورات اور اچھے بُرے جذبات کا برا نگیختہ و محرک ہونا، اسی کے تابع ہے؛اس لیے اسلام میں نگاہوں کو نیچا رکھنااور ان کی حفاظت کرنابڑی اہمیت کا حامل ہے ۔

    بدنظری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے حسرت وافسوس اور رنج وغم کی کیفیت ہوجاتی ہے ۔کئی دفعہ نظر کا تیر دیکھنے والے کو خود ہی لگ کر اس کے دل ودماغ کو زخمی کردیتاہے ۔

    حافظ ابن قیم (م۷۵۱ھ)لکھتے ہیں:

    کُلُّ الْحَوَادِثِ مَبْدَاُہَا مِنَ النَّظَرِ $ وَمُعْظَمُ النَّارِ مِنْ مُسْتَصْغَرِ الشَّرَرِ

    کَمْ نَظْرَةٍ بَلَغَتْ فِی قَلْبِ صَاحِبِہَا $ کَمَبْلَغِ السَّہْمِ بَیْنَ الْقَوْسِ وَالْوَتَرِ

    یَسُرُّ مُقْلَتَہُ مَا ضَرَّ مُہْجَتَہُ $ لَا مَرْحَبًا بِسُرُورٍ عَادَ بِالضَّرَرِ

    یَا رَامِیًا بِسِہَامِ اللَّحْظِ مُجْتَہِدًا $ أَنْتَ الْقَتِیلُ بِمَا تَرْمِی فَلَا تُصِبِ

    یَا بَاعِثَ الطَّرْفِ یَرْتَادُ الشِّفَاءَ لَہُ $ اِحْبِسْ رَسُولَکَ لَا یَأْتِیکَ بِالْعَطَبِ(۷)

    ترجمہ: تمام حادثات کی ابتدا نظر سے ہوتی ہے، اور بڑی آگ چھوٹی چنگاریوں سے ہوتی ہے، کتنی ہی نظریں ہیں جو نظر والے کے دل میں چبھ جاتی ہیں، جیساکہ کمان اور تانت کے درمیان تیر ہوتا ہے، اس کی آنکھ ایسی چیز سے خوش ہورہی ہے جو اس کی روح کے لیے نقصان دہ ہے۔ ایسی خوشی جو ضرر کو لائے، اس کے لیے خوش آمدید نہیں ہے۔ اے نظر کا تیر چلانے میں کوشش کرنے والے! اپنے چلائے ہوئے تیر سے توہی قتل ہوگا! اے نظر باز! تو جس نظر سے شفا کا متلاشی ہے، اپنے قاصد کو روک! کہیں یہ تجھ ہی کو ہلاک نہ کردے۔

    یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ نگاہ کا غلط استعمال انسان کے لیے نقصان دہ ہے ۔اسی لیے شریعت نے عفت وعصمت کی حفاظت کے لیے ”غضِ بصر“کاحکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں مردوں اور عورتوں دونوں کو ”غضِ بصر“کاحکم دیا گیا؛مگر جمہور فقہا ء نے اس حکم میں مرد وعورت کے درمیان فرق کیاہے ۔پہلے مردوں کے لیے غض بصر کے حکم میں اہل علم کا موقف ذکر کرکے پھر عورتوں کے لیے اس حکم کاتفصیلی جائزہ پیش کیا جاتاہے ۔

    مردوں کے لیے غضِ بصر کا حکم :

    (۱) اس پر اجماع ہے کہ مردکے لیے دوسرے مردکے ستر کے علاوہ پورے جسم کی طرف نظر کرناجائز ہے۔(۸)

    (۲) اس پر بھی اہل علم کا اجماع ہے کہ بے ریش لڑکے کو لذت اور اس کی خوبصورتی سے متمتع ہونے کے ارادہ سے دیکھنا حرام ہے ۔(۹)

    مردوں کا عورتوں کی طرف دیکھنے کی تین صورتیں ہیں:

    (۱) مرد کا اپنی بیوی کو دیکھنا جائز ہے۔

    (۲)مرداپنی ذی محرم عورتوں کے مواضع زینت کو دیکھ سکتاہے اورحنفیہ کے نزدیک مواضعِ زینت میں ،سر ،چہرہ ،کان ،گلا،سینہ،بازو،کلائی، پنڈلی،ہتھیلی اورپاؤں شامل ہے ۔(۱۰)

    (۳)مرد کااجنبیہ عورت کی طرف نظر کرنا، اس میں تفصیل ہے:

    $ اگر مرد کسی عورت سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے تو اُس کے لیے اس عورت کا چہرہ دیکھنا جائز ہے ۔

    امام کاسانی  (م۵۸۷ھ)لکھتے ہیں:

    وکذا إذا أراد أن یتزوج امرأة فلا بأس أن ینظر إلی وجہہا(۱۱)

    ”اور اسی طر ح جو شخص کسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے کوئی حرج نہیں کہ وہ اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھے “؛ بلکہ ایسی عورت کے چہرہ کی طرف نظرکرنے میں جمہور فقہاء کااتفاق ہے ۔

    امام نووی  (م۶۷۶ھ)مخطوبہ کی طرف جواز نظر والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

    وفیہ استحباب النظر إلی وجہ من یرید تزوجہا وہو مذہبنا ومذہب مالک وأبی حنیفة وسائر الکوفیین وأحمد وجماہیر العلماء(۱۲)

    ”اوراس حدیث میں اس عورت کے چہرے کی طرف نظرکرنا اس شخص کے لیے مستحب ہے جو نکاح کا ارادہ رکھتا ہو اور یہی ہمارا مذہب ہے اور مالک،ابو حنیفہ، تمام اہلِ کوفہ اوراحمد سمیت جمہور علماء کا ہے ۔

    طبیب بغرضِ علاج اجنبیہ کو دیکھ سکتاہے ۔

    امام رازی  (م۶۰۶ھ)لکھتے ہیں:

    یجوز للطبیب الأمین أن ینظر إلیہا للمعالجة(۱۳)

    ”شریف الطبع طبیب کے لیے عورت کی طرف بغرضِ علاج نظر کرنا جائز ہے “۔

    گواہ عورت کے خلاف گواہی دیتے وقت اور قاضی عورت کے خلاف فیصلہ کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ سکتاہے ۔

    علامہ حصکفی(م۱۰۸۸ھ)لکھتے ہیں :

    فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا ․․․․․․․․ إلا النظر لحاجة کقاض وشاہد یحکم ویشہد علیہا(۱۴)

    ”پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے؛ البتہ ضرورت کے وقت ،دیکھنا جائز ہے، مثلا قاضی کا فیصلہ سناتے یا گواہ کا گواہی دیتے وقت دیکھنا “۔

    ہنگامی حالات میں، مثلا کوئی عورت پانی میں ڈوب رہی ہے یا آگ میں جل رہی ہے تو اس کی جان بچان کے لیے اس کی طرف دیکھا جاسکتاہے۔

    امام رازی  لکھتے ہیں :

    لو وقعت فی غرق أو حرق فلہ أن ینظر إلی بدنہا لیخلصہا(۱۵)

    ”اگر عورت پانی میں ڈوب رہی ہو یا آگ میں جل رہی ہو تو اس کی جان بچانے کے لیے اس کے بدن کی طرف دیکھنا جائز ہے“ ۔

    اور اسی کے ساتھ لاحق کرتے ہوئے مزید یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ زلزلہ وسیلاب ،چھتوں کا گرجانا ،آسمانی بجلی کا گرنا ،چوری ڈکیتی کے وقت بھی افراتفری کے عالم میں یہی حکم ہوگا ۔

    معاملہ کرتے وقت یعنی ،اشیاء کے لینے و دینے اور خریدوفروخت کے وقت بھی عورت کے چہرے کی طرف نظر کی جاسکتی ہے ۔

    امام کاسانی لکھتے ہیں :

    لأن إباحة النظر إلی وجہ الأجنبیة وکفیہا للحاجة إلی کشفہا فی الأخذ والعطاء(۱۶)

    ”اشیاء کے لینے اور دینے کی ضرورت کی وجہ سے اجنبیہ کے چہرے کی طرف نظر کرنا جائز ہے“۔

    امام نووی  لکھتے ہیں :

    جواز النظر للحاجة عند البیع والشراء(۱۷)

    ”خرید وفروخت کی ضرورت کے وقت عورت کی طرف نظر کرنا جائز ہے “۔

    اور اس کی وجہ یہی ہے کہ بائع یا مشتری معاملہ کرتے وقت اس عورت کو پہچان لے؛ تاکہ اگر کسی وجہ سے چیز واپس کرنی پڑے کسی نقصان وضرر کے وقت ، یا بعد میں قیمت وصول کرنی ہو تو دوسر ی عورتوں سے الگ شناخت کی جاسکے۔(۱۸)

    جبکہ بعض اہل علم کی رائے میں خرید وفروخت کے وقت عورت کا چہرہ کھولنا یا مرد کا دیکھنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ ایسی ضرورت نہیں ہے کہ جس کے بغیر کو ئی چار ئہ کار نہ ہو؛چونکہ عورتیں بیع وشرا نقاب وحجاب کے ساتھ بھی کرسکتی ہیں(۱۹)۔اور یہی بات عصرِ حاضر کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے؛ اس لیے کہ آج کل تو باقاعدہ خریدی ہوئی چیز کی رسید مل جاتی ہے، جس سے اس چیز کے واپس کرنے میں مزید کسی شناخت کی ضرورت نہیں ہے ۔مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ بغیرکسی حاجت او ر ضرور ت کے اجنبیہ کی طرف دیکھنے میں جمہور فقہاء اور حنفیہ کے درمیان اختلاف ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں