1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔
  1. اقبال ابن اقبال
    آف لائن

    اقبال ابن اقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏31 دسمبر 2012
    پیغامات:
    14
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    شرک کی حقیقت
    انداز بیاں گر چہ میرا شوق نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
    قرآن وہ کتاب ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔
    قرآن وجہ دلیل اور نور ہے،قرآن شفاء ہے، قرآن پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، قرآن پاک نے ہمیشہ غور و فکر کرنے کی دعوت دی اور اسے ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع لانے کی ترغیب دلائی لیکن ہر پڑھنے والا اور قرآن پاک میں سطحی نظر کرنے والا یا نہ سمجھے کے قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے تمام ہی افراد مقصد کو پالیں گے۔نہیں ہر گز نہیں بلکل قرآن پاک نے خود اس کی تردید کی۔
    بہت سے لوگ اس قرآن سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور بہت سے اس سے ہدایت پاتے ہیں۔(سورۃ البقرۃ:26 )
    سوال یہ پیدا ہوتا ہے بہت سے لوگ قرآن پڑھ کر گمراہ کیوں ہوجاتے ہیں؟اس کا جواب مفسرین نے یہ بیان کیا ہے وہ قرآن کریم پڑھتے تو ہیں پر ان کا دل قرآن کے نور سے منور نہیں ہوتا وہ قرآن کی آیات کا غلط ترجمہ اور غلط مفہوم سمجھ لیتے ہیں، غلط معنی اور غلط مفعوم سمجھنے کی وجہ سے وہ گمراہ ہو جاتے ہیں۔چناچہ ایسا ہی ایک گروہ گزرا جس نے قرآن کریم کی ایک آیت پر نظر کرتے ہوئے دوسری آیت کا انکار کر دیا ،
    اس گروہ کے تفصیلی حالات بخاری شریف،مسلم اور ابن ماجہ اور دیگر آحادیث کی کتابوں میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ علامہ امام عبدالرحمن بن جوزی البغدادی الرحمن جن کا وصال597ھجری میں ہوا انھوں نے 800 سال پہلے اپنی کتاب تلبیس ابلیس میں بھی ان خارجیوں کے بارے میں تفصیلََا لکھا ہے ۔خارجی وہ لوگ تھے جو کلمہ بھی پڑھتے تھے،قرآن کی بھی تلاوت کرتے تھے،عبادت بھی کرتے تھے بلکہ اس قدر شدت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے تھے کہ عبداللہ بن عباس نے فرمایا ! میں نے ان سے بڑ ھ کر عبادت میں کوشش کرنے والی کوئی قوم نہیں دیکھی،سجدوں کی کثرت کی وجہ سے ان کی پیشانی پر زخم پڑ گئے۔
    لیکن قرآن مجید فرقان حمید غلط سمجھنے کی وجہ سے یہ ایسے گمراہ ہوئے کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور تمام صحابہ کرام پر شرک کا الزام لگا دیا اور وہ کہنے لگے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اسلام سے خارج ہیں( نعوذباللہ من ذالک) وہ جس آیت کوبنیاد بنا رہے تھے وہ قرآن مجید فرقان حمیدکی یہ آیت ہے(فیصلہ کرنے والا تو صرف اللہ کی ذات ہے)حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کرنے کے لیے کسی کو فیصلہ کرنے والا مقرر کیا تو یہ خارجی کہنے لگے ۔(فیصلہ کرنے والا تو صرف اللہ ہے)حالاں کہ اس آیت کے یہ مطلب نہیں،اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ حقیقی طور پر فیصلہ کرنے والا اللہ تعالی ہے،حقیقی حکم وہی ہے اور جو شخص فیصلہ کرے انسانوں میں سے اسے چاہیے کے قرآن و آحادیث کے مطابق فیصلہ کرے حقیقی فیصلہ کرنے کا اختیاراللہ کو ہے،لیکن وہ نہ سمجھ سکے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عبداللہ بن عباس کو بھیجا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان خارجیوں سے کہا جو بظاہر کلمہ بھی پڑھتے تھے اور قرآن کی تلاوت بھی کرتے تھے فرمایا (اگر میں قرآن سے ثابت کر دوں کہ انسانوں میں سے فیصلہ کرنے والا مقرر کیا جا سکتا ہے تو کیا تم اپنی بات سے رجوع کر لو گے؟ تو کہنے لگے (ہاں ہم کر لیں گے)تو حضرت عبداللہ بن عباس نے سورۃ النساء :آیت# 35 کی تلاوت فرمائی(جب میاں بیوی کے درمیان جھگڑاہو جائے اور تم ان کے درمیان صلح کرانا چاہو تو ایک حاکم فیصلہ کرنے والا شوہر کی طرف سے مقرر ہو اور دوسرا حاکم فیصلہ کرنے والا بیوی کی طرف سے مقرر ہو)حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا (اے خارجیو!ذرا سوچو کے رب العالمین 2 فیصلہ کرنے والے مقرر فرما رہا ہے ،تو اگر اللہ کے سوا کسی اور کو فیصلہ کرنے والا مقرر کرنا شرک ہوتا تو کبھی قرآن شرک کی دعوت نہ دیتا ،اور وہاں مراد ہے کہ حقیقی فیصلہ کرنے والا صرف اللہ ہے )کتنا پیارا انداز تھا مگر افسوس خارجیوں کی اکثریت اپنی ضد پر قائم رہی صرف چند خارجی ایسے تھے جنھوں نے توبہ کی ( وما توفیقی الابا للہ ۔۔۔ توفیق تو دینے والا صرف اللہ کی ذات ہے)
    ٰٓٓان تمام باتوں سے یہ پتا چلا کہ اگر قرآن پاک کا غلط مفعہوم لے لیا جائے تو بعض اوقات کتنی غلط راہ پر وہ چلا جاتا ہے،کہ وہ قوم عبادت بھی کر رہی ہے مگر حضرت علی اور صحابہ کو مشرک سمجھ کر خود دائرہ اسلام سے خارج ہو رہی ہے۔ان کی عبادتیں ضائع ہو رہی ہے ،ایسی قرآن مجید فرقان حمید میں کئی مثالیں ہیں،بظاہر ایک آیت کا غلط مطلب سمجھ لیا تو دوسری آیت ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے،اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی آیاتیں آپس میں ٹکراتی نہیں ہیں۔اگر مفہوم غلط لیا جائے تو اس کی وجہ سے انسان غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے مثلََا قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا گیا (سورۃ التوبہ:129) ِ ََََِِِ "ِ ِ فرما دیجئے میرے لیے اللہ کافی ہے"اب اگر کوئی اس کا مفہوم لے کہ اللہ کافی ہے اور اس کے سوا کسی اور کو کافی کہنا شرک ہے تو قرآن مجید فرقان حمید پر اعتراض واقعی ہوتا ہے ،(سورہ انفال:64)"اے نبی آپ کو اللہ بھی کافی ہے اور آپ کی پیروی کرنے والے نیک صالح مومنین بھی آپ کو کافی ہیں "سوال یہ ہے کہ جب اللہ کافی ہے تو کسی اور کی کیا حاجت،تو اسکا جواب مفسرین نے بڑا پیار ا دیا ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ اللہ کافی ہے تو اس سے مراد یہ لیا جائے گا کہ حقیقی طور پر سب کچھ دینے والا اللہ ہی ہے،اور جہاں یہ کہا جائے گا کے نیک مومنین کافی ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی عطا سے کافی ہیں،اسی طرح ایسی اور بھی مثالیں ہیں ،مثال کے طور پر اللہ تعالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیراللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہونا چاہیے،بعض اوقات یہ جملہ کہا جاتا ہے،یقینََا بلاشبہ تمام کام کو بنانے والی ذات تو اللہ ہی کی ہے،اس کی مشئیت کے بغیر توایک ذرا بھی حرکت نہیں کرسکتا لیکن ان ساری گفتگو سے اگر یہ کوشش کی جائے کہ دو جہا ں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کو بے اختیارثابت کرنے کی کوشش ہو اور یہ تصور دینے کی کوشش ہو کہ حضورنہ کچھ کر سکتے ہیں نہ کچھ دے سکتے ہیں اللہ کی عطاسے بھی نہیں دے سکتے ،اگر یہ نظریہ ہو تو معاذاللہ ثمّہ معاذاللہ تو قرآن کی کئی آیات اور احادیث طیبہ کا انکار ہو جائے ،ایک چھوٹی سی مثال پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ بخاری ،مسلم اور دیگراحادیث کی کتابوں میں تفصیلََا موجود ہے کہ "میدان محشر میں لوگ نجات کے لیے انبیاء کے پاس جائیں گے تو انبیاء فرمائیں گے جاؤ کسی اور کے پاس اور پھر جب لوگ حضور کی خدمت میں آئیں گے تو پیارے آقا فرمائیں گے میں ہی تمہاری شفاعت کروں گا ،تو اگر یہ عقیدہ رکھ لیا جائے کہ اللہ کی دی ہوئی طاقت سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہیں کر سکتے تو یہ قرآن کی کئی آیتوں کا انکا ر ہے اور آحادیث کا بھی انکار ہے۔خارجی قوم جس غلط فہمی کا شکار ہوئی وہ یہ تھی کہ انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت علی اور صحابہ کریم مشرک ہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے شرک کو سمجھا نہیں کہ شرک کسے کہتے ہیں؟ اصل میں شرک کی تین قسمیں ہوتی ہیں ۔ شرک فی العبادت،شرک فی الذّات اور شرک فی الصّفات۔
    شرک فی العبادت، یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو عبادت کے لائق سمجھا جائے،جیسے مشرکین مکہ جنھوں نے خانہ کعبہ میں 360 بت رکھے تھے اور ان کی پو جا کرتے تھے جب کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہی نہیں ہے۔
    شرک فی الذّات یہ ہے کہ یہ تصور کیا جائے کہ خالق کائنات کی دو ذات ہے ایسا تصورشرک فی الذّات ہے۔
    الحمداللہ مسلمان نہ شرک فی العبادت میں مبتلا ہیں اور نہ ہی شرک فی الذّات میں مبتلاہیں ۔
    تیسری قسم ہے شرک فی الصّفات جسے سمجھنا بے حد ضروری ہے اس کی تعریف یوں بیان ہوئی ہے کہ جو اللہ تعالی کی صفات ہیں ان کے برابر کسی اور کی صفات تصور کرنا یہ شرک فی الصّفات ہے۔شر ک فی الصّفات نہ سمجھنے کی وجہ سے کئی لوگ اللہ کی عبادت کرنے کے باوجود گمراہ ہو گئے۔
    (سورۃ بقرہ :143 )" بے شک اللہ تعالی لوگوں پر رؤف اور رحیم ہیں" اللہ رؤف بھی ہے اور رحیم بھی ہے قرآن مجید فرقان حمیدمیں دوسرے مقام پر فرمایا (سورۃ توبہ:128 )" بے شک تمہارے پاس تم ہی میں سے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بھاری ہے،تمہاری بھلائی کو بہت چاہنے والے ہیں،مومنوں پر رؤف اور رحیم ہیں" ایک طرف فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالی رؤف اور رحیم ہیں اور دوسری طرف فرمایا جارہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ شرک فی الصّفات نام ہے برابری کا تو پھر یہ تو صفات ایک جیسی ہو گئیں۔اور دونوں قرآن کی آیتیں ہیں او ر قرآن تو شرک سے دور کرتا ہے ۔دلوں کو شرک سے پاک کرتا ہے، مفسرین نے بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی،فرمایا کہ رؤف الرحیم اللہ بھی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں لیکن برابری نہیں ہے اللہ کا رؤف الرحیم ہونا ذاتی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رؤف الرحیم ہونا اللہ کی عطا سے ہے۔اللہ تعالی ہمیشہ سے رؤف الرحیم ہے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم رؤف الرحیم ہیں جب سے اللہ نے انہیںیہ مقام اور مرتبہ دیا ہے،جب یہ فرق ہو گیا تو برابر ی نہ رہی اور شرک لازم نہ آیا۔
    ایک اور مثال حاضر خدمت ہے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد ہوا ہے (سورہ نمل:65 )" تم فرما دو جو کوئی آسمان اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا"ایک طرف فرمایا گیا کہ اللہ ہی غیب کا علم جانتا ہے دوسری طرف ارشاد ہوا(سورہ جن:26-27 )" غیب کا جاننے والارب العالمین غیب کا علم کسی کو نہیں دیتا مگر اپنے رسولوں کو پسند فرماتا ہے اور انہیں غیب کا علم عطاء فرماتا ہے"دونوں آیتیں قرآن کی ہیں ان دونوں آیتوں کا مفہوم مفسرین نے یہ بیان کیا کہ حقیقی طور پر غیب کا علم جاننے والا صرف اور صرف اللہ ہے ، اللہ کی عطاکے بغیر کوئی کچھ نہیں جانتا اور جب اللہ تعالی عطافر مائے تو محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں ، اللہ بھی غیب کا علم جانتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی غیب کا علم جانتے ہیں لیکن برابری نہیں ہے اللہ تعالی کا علم ذ اتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم اللہ کی عطاسے ہے ،جب فرق ہو گیا تو برابری نہ ہوئی۔
    قرآن مجید میں اس کی ایک اور مثال بھی دی جا سکتی ہے (سورۃ محمد:11 )" مسلمانوں کا مولا مددگار اللہ ہے"پھر دوسری جگہ فرمایا (سورۃ تحریم :4 )"بے شک اللہ ان کا مولا ہے مددگار ہے اور جبرائیل بھی مولا مددگار ہیں اور صالح مومنین مددگار ہیں اور فرشتے بھی مولا مددگار ہیں"سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف ارشاد ہو رہا ہے کہ اللہ مولا مددگار ہے اور اور دوسری طرف فرمایا جارہا ہے کہ اللہ بھی مددگار ہے جبرائیل بھی مددگارہیں اور نیک مومنین بھی مددگار ہیں اور فرشتے ببھی مددگار ہیں جبکہ دونوں آیتیں قرآن کی ہیں کوئی ٹکراؤ نہیں ،سمجھنا یہ ہے کہ اللہ تعالی مولا ہے مددگار ہے حقیقی طور پہ اور ذاتی طور پر اور جبرائیل اور نیک مومنین مددگار ہیں اللہ کی عطاسے،اللہ نے اپنی مدد کا انہیں ذریعہ اور وسیلہ بنایا ،قرآن مجید کی ایک اور آیت کریمہ اس مفہوم کو واضح کرتی ہے ،( سورۃمائدہ:55 )"تمہارے مددگار ہیں اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والے"اللہ بھی مددگار ہیں رسول بھی مددگار ہیں اور ایمان والے بھی مددگار ہیں ،وہی فرق ہے اللہ حقیقی اور ذاتی طور پر مددگار ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نیک صالح مومنین کی مدد اللہ کی عطاسے ہے ،اللہ کی عنایت سے اور اللہ کے کرم سے حقیقی مددگار صرف اللہ ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور نیک مومنین اللہ کی مدد کے حصول کا ایک ذریعہ ہیں ایک وسیلہ ہیں،یہاں پر ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ کہہ دیاگیا کہ اللہ تمہا را مددگار ہے اور اسی طرح پچھلی آیت میں یہ کہہ دیا گیا کہ اللہ ہی ان کا مولا ہے مددگار ہے تو جب اللہ کی مدد کا ذکر کر دیا گیا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،جبرائیل اور نیک صالح مومنین کی مدد کا ذکرکیوں کیا گیا ؟
    کیا اللہ تعالی کی مدد نا کافی ہے ؟ہر گز یہ بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ قرآن یہ عقیدہ بیان کر رہا ہے کہ اللہ تعالی ہی مدد فرمائے گا لیکن اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو مقام ،مرتبہ اور بلندی عطا فرماتا ہے اور ان سے وابسطہ رہیں گے،اور ان کی بارگاہ میں حاضر ہونگے،تو اللہ تعالی کرم فرمائے گااور ان کے وسیلے سے ہمارا بیڑہ پار فرمادے گا۔

    قرآن کی آیتیں پیش کی جارہی ہیں اور ان آیات کا مفہوم کیا ہے کہ اگر ایک آیت سے غلط مفہوم لے لیا جائے تو قرآن کی دوسری آیت اس سے ٹکراجائے،حالانکہ قرآن میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ۔(سورۃ شورےٰ:49 )"اللہ جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے"اور دوسرے مقام پر (سورۃ مریم :19) حضرت جبرائیل امین حضرت مریم کے پاس آئے اور جبرائیل امین نے کیا کہا ؟"جبرائیل امین علیہ السلام بولے میں تو صرف تیرے رب کا بھیجا ہوا قاصد ہوں میں اس لیے آیا ہوں کہ تجھے ستھرا اور پاکیزہ بیٹا عطا کروں"ایک طرف فرمایا گیا کہ بیٹے اور بیٹیاں اللہ ہی دیتا ہے اور دوسری طرف جبرائیل امین کہہ رہے ہیں میں تجھے نیک صالح بیٹا عطا کروں ۔حقیقی طور پر عطا کرنے والا اللہ ہی ہے اور جبرائیل جو عطاکر رہے ہیں وہ اللہ کی عطاسے کر رہے ہیں ۔
    (سورۃ الزُمر:42)"اللہ ہی جانوں کو موت دیتا ہے "زندگی موت دینے والا اللہ ہی ہے،(سورۃ سجدہ: 42)"آپ فرمایئے کہ موت کے فرشتے حضرات عزرائیل تمہیں موت دیں گے "سوال یہ ہے کہ حضرت عزرائیل موت دیں گے قرآن یہ بیان کر رہا ہے اور ایک طرف یہ کہ موت دینے والا اللہ ہے،دونوں آیاتوں میں کوئی ٹکراو نہیں ،سمجھنا یہ ہے کہ حقیقی طور پر موت دینے والا اللہ ہی ہے اور حضرات عزرائیل اللہ کی عطاء سے یہ کام سرانجام دیتے ہیں۔
    ذرا بتائیں بیماروں کو شفا ء دینے والا کون ہے؟ اللہ ۔ مردوں کو زندہ کون کرتا ہے ؟اللہ کرتا ہے ۔لیکن حضرت عیسٰی عکلیہ السلام اعلان فرما رہے ہیں (سورۃآ ل عمران:49)"میں بیماروں کو شفاء دیتا ہوں ،مادرزاد اندھوں کو آنکھیں دیتا ہوں،برص کے مریضوں کو شفاء دیتا ہوں،اور میں مردوں کو زندہ کرتا ہوں، (لیکن آپ خود وضاحت فرما رہے ہیں) بِاذنِ للہ،کرتامیں ہی ہوں پر اللہ کے حکم سے"تو جب عطائی اور ذاتی کا فرق ہو گیا تو برابری نہ ہوئی تو شرک نہ ہوا۔
    رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منافقین تھے منافقین بھی ان چیزوں کو نہ سمجھ سکے اور انھوں نے اتنی بڑی جر أت کی کہ اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انھوں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر شرک کا الزام لگا دیا اسکی تفصیل کا مطالعہ کریں ۔حضرت علامہ فخرالدین رازی جن کا وصال606 ہجری میں ہوا عالم اسلام کے مشہورترین تفسیر کبیر جلد4# صفحہ150# بیروت کے نسخے میں آپ نے مفصل بیان فرمایا ہے ۔اور یہی تفصیل تفسیر خازن،جلد # 1صفحہ # 405 میں بھی موجود ہے۔
    یہاں پر یہ عرض کروں کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو مقام اور مرتبے کی بلندی دیتا ہے ،انھیں طاقت و قدرت دیتا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ بیشک اللہ ہر چاہت پر قادر ہے وہ جسے جو مقام اور مرتبہ دینا چاہے وہ دے سکتا ہے۔اللہ کی قدرت کو محدود نہ سمجھا جائے۔اللہ تعالی نے حضرت سلمان علیہ السلام کو کیسی حکومت دی،جنات آپکے تابع ہوئے،پرندوں کی بولیاں آپ سنتے اور سمندر میں موجود مچھلیوں سے آپ گفتگو کرتے،یہ جو آپ کو مقام اور مرتبہ دیا گیا پوری دنیا کی حکومت دی گئی،آپ ہواؤں میں اڑتے ،ہوا آپ کے تابع تھی،یہ مقام اور مرتبہ کس نے دیا ؟اللہ نے دیا ۔اللہ اپنے بندوں کو جو مقام اور مرتبہ دے بندے کو چاہیے کے اللہ کی قدرت پر یقین رکھے اور وہ یہ کہے کہ اللہ تعالی جو چاہے کر سکتا ہے۔
    (بخاری: جلد # 2 ،صفحہ # 963 ،کتاب الرقاق،حدیث # 6021 )
    حدیث قدسی:ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "بیشک اللہ تعالی فرماتا ہے جو میرے ولی سے دشمنی رکھے گا،جو میرے محبوب بندے سے دشمنی رکھے گا اس کے لیے میرا اعلان جنگ ہے"
    محبوب بندے سے دشمنی کے کیا معنی ہیں ؟ محبوب بندے کے مقام اور مرتبے کو گھٹانے کی کوشش کرنا اللہ نے انھیں جو مقام دیا اس مقام کو تسلیم نہ کرنا عزت و تعزیم و توقیر مسلمانوں کے دلوں سے نکالنے کی کوشش کرنا یہ دشمنی ہے ۔اور فرمایا "میرابندہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ فرائض کے ذریعے میری بارگاہ میں قرب حاصل کرتا ہے اور میرا بندہ فرا ئض کے بعد نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتاہوں اور جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اسکے وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے میں اس کی وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کے وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے وہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر میرا وہ مقبول بندہ مجھ سے کوئی چیز مانگے سوال کرئے دعا مانگے تو میں ضرور بہ ضرور اس کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہوں "
    مفسر کبیر ،حضرت علامہ فخرالدین رازی اس حدیث قدسی کی تشریح فرماتے ہیں (تفسیرکبیر ،جلد # 7 صفحہ # 436 ) "جب اللہ کا نیک بندہ مسلسل عبادت کرتا ہے اور اللہ کا مقبول بن جاتا ہے اور پھر وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ فرماتاہے میں اس کے کان بن جاتا ہوں میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں اس کا مطلب ہے کہ جب اللہ کے جلال کا نور اس کے کان بن جاتا ہے تو وہ قریب کی باتیں بھی سنتا ہے اور دور کی باتیں بھی سنتا ہے، جب اللہ کے جلال کا نور اس کی آنکھیں بن جاتا ہے تو وہ قریب کو بھی دیکھ لیتا ہے اور دور کو بھی دیکھتا ہے اور جب اللہ کے جلال کا نور اس کے ہاتھ بن جاتا تو اللہ تعالی اسے وہ طاقت دیتا ہے کہ وہ قریب اور دور آسان اور مشکل وہ تمام کاموں پر قدرت رکھتا ہے اور وہ وہ کراماتیں دکھاتا ہے کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں"امام جلال الدین سیوطی نے بھی اسی قسم کی تشریح بیان فرمائی ہے۔
    قرآن مجید فرقان حمید میں بھی اللہ کے نیک بندوں کی طاقت کا ذکر ہے،ملکہ بلقیس ملک سبا کی ملکہ اس کا وہ تخت جو 80 گز لمبا 40 گز چوڑا،سونے چاندی اور ہیرے جواہرات سے سجا ہوا،دو مہینے کی مصافت پر تھا ،دومہینے تک گھوڑا دوڑتا رہے تب جا کر اس کے فاصلے کوطے کرے، سخت پہرے میں،سات کمروں کے سات تالوں میں بند تھا ،اس پر پہرے دار مقرر کیا گئے،
    حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے فرمایا ملکہ بلقیس میرے پاس آ رہی ہیں ،ان کے آنے سے پہلے تم میں سے ہے کوئی جو میرے پاس ان کا تخت لے کر آئے؟ قرآن بیان فرما رہا ہے کہ ایک طاقت ور جن نے کہا کہ میں لے آؤں گا ،آپ نے فرمایا کب لے کر آؤ گے؟کہنے لگا شام ہونے سے پہلے لے آؤں گا ۔آپ نے فرمایا یہ تو تاخیر ہو جائے گی ،مجھے اس سے بھی پہلے چاہیے۔(سورہ نمل: 40 )"کہا اس بندے (آصف بن برخیہ)نے جس کے پاس کتاب (زبور )کا علم تھاکہا میں اس تخت کو لے کر آؤں گا آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے "حضرت سلمان ؑ نے کہا لے آ ؤ تو آصف بن برخیہ نے فوراََ ہی تخت کو آپ کے سامنے حاضر کر دیا۔
    غور طلب بات یہ ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کا امتی جس کے پاس زبور کا علم ہے اس کے پاس اتنی طاقت ہے تو اللہ کے محبوب کے کامل ولیوں میں کتنی طاقت ہو گی جو قرآن کا علم جانتے ہوں اور پھر سردار الانبیاء کا تو کیا ہی کہنا۔
    حضرات ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی کے دور خلافت میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والامسیلمہ کذاب نے سر اٹھا یا اس کے ساتھ 60 ہزار فوجی تھے اس جنگ یما مہ میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ایک موڑ وہ آیا کہ مسلمان سخت مشکل میں مبتلا ہوئے پریشانی میں مسلمانوں کے سپاہ سالار حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ تعالی عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کے لیے پکارا،ابن کثیر جنھیں دینا محقق تسلیم کرتی ہے ،البدایہ والنہایہ ،جلد# 6 صفحہ # 24 ،وہ لکھتے ہیں "اس وقت ان صحابہ کرام کا یہ شعارر تھا کہ وہ حضور کو مدد کے لیے پکارر ہے تھے "اب مجھے یہ بتائیے کہ صحابہ کرام سے بڑھ کر توحید کو سمجھنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ اگر کسی کو مدد کے لیے پکارنا شرک ہوتا تو صحابہ کرام ہر گز نہ پکارتے ،ہاں اتنا عرض کر دوں کہ جب ہم کسی سے مدد مانگتے ہیں توعقیدہ ہونا چاہیے کہ انھیں جو طاقتیں ہیں وہ اللہ کی عطاسے ہیں ، وہ اللہ کی اجازت سے مدد کرتے ہیں ۔
    بس اتنا سجھ لیں کہ شرک جب ہو گا کہ جب ہم کسی کی صفت کو یہ سمجھیں کہ یہ اس کی ذاتی ہے،اللہ کی عطاء کردہ نہیں تو شرک ہے
    واللہ اعلم بالصواب اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن کوصحیح طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تحریر کی غلطیوں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی معاف فرمائے، اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نصیب فرمائے اور جو مقام اللہ نے اپنے اولیاء کو عطا کیا ہے اسے بلاشبہ ماننے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
    نوٹ: اس تحریرکو عالم اہلسنت کے بیان میں سے لکھا گیا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں