1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔
  1. زوہا
    Offline

    زوہا ممبر

    Joined:
    Apr 11, 2011
    Messages:
    104
    Likes Received:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    قریش ایک دن دوپہر کو بڑے بھاری کام کے لیے جمع ہوئے، ابوجہل نے بڑے دھڑلے کے ساتھ ان سے یہ دعویٰ کیا کہ وہ یاسر اور اس کے گھر والوں سے اپنی مرضی کے مطابق ہر قسم کی بات کہلوانے میں کام یاب ہو گیا ہے ۔ وہ کہنے لگا:
    میں نے ان کو اتنا ستایا اور اس قدر مارا پیٹا کہ بالکل موت کے کنارے آن لگے اورانہیں اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ انہوں نے قریش کے معبودوں کو کلمات خیر سے یاد نہ کیا اورمحمد صلی الله علیہ وسلم کو خوب برا بھلا نہ کہہ دیا۔
    عتبہ بن ربیعہ بولا:
    نہیں ابو الحکم! یا سر تو بڑا دل گردے والا آدمی ہے۔ میرے خیال میں وہ مر جائے گا، لیکن تمہاری بات ہر گز نہ مانے گا۔
    ابو جہل نے کہا:۔
    اور اگر مان لی ؟ کہو تو تمہارے سامنے اس کے منہ سے کہلوالوں؟
    عتبہ بن ربیعہ بولا:
    ارے چھوڑو ابو الحکم! یہ تو محض تمہاری خوش فہمی ہے، میرے خیال میں تو شاید تم اس بیچارے بوڑھے کی جان لے کر چھوڑو گے۔
    ابو جہل بولا:
    اوراگر اس نے ہمارے معبودوں کے حق میں اچھے الفاظ اور محمد صلی الله علیہ وسلم کے حق میں برے الفاظ بول دیے تو؟
    عتبہ نے کہا:
    چلو، پھر بیس اونٹ تمہارے۔
    ساتھ ہی شیبہ بن ربیعہ نے کہا:
    اوراتنے ہی میری طرف سے!
    ابوجہل بولا:
    تم لوگوں کو اپنے مال کی کچھ پرواہ ہی نہیں ہے ! آج تو خوب سخاوت دکھا رہے ہو !
    عتبہ نے کہا!
    اچھا اگر یاسر تمہارے ہاتھ سے مر گیا… فوراً ہی شیبہ بولا:
    اور تم اس سے یہ الفاظ نہ کہلواسکے تو پھر؟
    ابو جہل نے کہا:
    پھر جو تم فیصلہ کرو۔
    عتبہ بولا:
    نہیں ،ہم کوئی فیصلہ ویصلہ نہیں کریں گے، ہم تمیں کوئی مالی نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔ بس یہی کافی ہے کہ تم خود ہی اپنی ناکامی پر کڑھتے رہو۔
    آخر یہ تینوں جفا کار جن کی عقل شرط بازی نے مار دی تھی ، وہاں سے اٹھ کر آئے اور یاسر ، سمیہ اور عمار کو مشق ستم بنتے دیکھنے لگے۔
    قریش نے مکہ میں ایسی اذیت رسانی اور ظلم وستم کبھی نہ دیکھا تھا جیسا کہ اس روز دیکھنے میں آیا۔ لیکن اس جبر وتشدد کے باوجود ان ظالموں کی مراد پور ی نہ ہوئی۔
    ابوجہل اوراس کے ساتھی آئے تو انہو ں نے دیکھا کہ قدِ آدم چمڑے کی ٹنکیاں پانی سے بھری رکھی ہیں۔ ایک جانب آگ دہک رہی ہے اور داغنے کے اوزار اس پر تپائے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف اس مسلم خاندان کے تینوں نفر ہاتھ پاؤں بندھے، راستے کے ایک جانب بے کار، لاوارث مال کی طرح پڑے ہیں۔
    ابو جہل اپنے ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچا تو اپنے غلاموں کو ان تینوں قیدیوں کے لانے کا حکم دیا۔ انہوں نے یاسر، سمیہ اور عمار کو اس کے آگے لاپٹخا۔ ان بے کسوں کی زبانوں پر اس وقت بھی ذکر الہی جاری تھا۔ ابوجہل نے اُن پر اندھا دھند کوڑے برسانے شروع کر دیے، پھر آگ سے جلایا، پھر ان پر پانی کی مشکیں لنڈھا دیں اور بار بار یہی مشق ستم جاری رکھی۔ پھر اس نے پانی میں ڈبونے کا حکم دیا تو انہیں پانی سے بھری ہوئی چرمی ٹنکیوں میں اس قدر غوطے دیے کہ ان کا سانس گھٹنے لگا۔ پھرانہیں باہرہوا میں نکال لیا اور سانس ٹھیک ہونے کا انتظار کرتا رہا کہ دیکھو! اب کچھ دم آنے پر کیا کہتے ہیں ۔ لیکن انہو ں نے پھر وہی” الله، الله“ کہنا شروع کر دیا اور محمد کی تعریفیں بیان کرنے لگے ۔ ابوجہل اب غصہ سے آگ بگولہ ہو گیا تھا۔ بھنا کہ سمیہ سے کہنے لگا:
    ہمارے معبودوں کو اچھا اور محمد (صلی الله علیہ وسلم)کو برا بھلا نہیں کہے گی تو یونہی سِسک سِسک کر مر جائے گی ۔ یاد رکھ! اگر محمد( صلی الله علیہ وسلم) اور اس کے خدا سے انکار نہ کیا تو آج شام دیکھنی نصیب نہ ہو گی ۔
    سمیہ نے نہایت پرسکون، لیکن کچھ ٹوٹی ٹوٹی آواز میں کہا: ناس جائے تیرے معبودوں کا! مجھے موت سے پیاری کیا چیز ہے ؟ پھر کم از کم تیری منحوس بھونڈی شکل تو دیکھنے میں نہیں آئے گی!
    عتبہ اور شیبہ بن ربیعہ یہ سن کر بہت ہنسے اور ابوجہل غصہ میں آپے سے باہر ہو کرسمیہ کے پیٹ میں بری طرح لاتیں مارنے لگا، لیکن سمیہ لڑ کھڑاتی ہوئی، پر سکون آواز میں کہتی جارہی تھی! ناس جائے تیرے معبودوں کا!
    ابوجہل اب غصہ سے پاگل ہو گیا۔ اس نے بے تاب ہو کر ہاتھ میں پکڑ ہوا نیزہ سمیہ کے کھینچ مارا۔ ایک ہلکی سی چیخ بلند ہوئی اور اسلام کی راہ میں پہلی شہادت سمیہ کے حصہ میں آئی۔
    یاسر نے چلا کر کہا:
    اوخدا کے دمشن ! تونے اسے قتل کر دیا! لعنت ہے تجھ پر اورتیرے معبودوں پر !!
    عمار نے کہا:
    تو نے قتل کر دیا۔ اے خدا کے دشمن ! لعنت ہے تجھ پر اورتیرے معبودوں پر ! اب جل بھُن کر خاک ہو جاکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے جنت کا عدہ کیا ہے۔
    یاسر نے کہا:
    یقینا خدا کا وعدہ سچا ہے۔
    لیکن ابوجہل نے کچھ آگے کہنے کی مہلت نہ دی اور پیٹ پر زور سے لات ماری۔ یاسر کی چیخ نکلی اور اسلام کا دوسرا شہید بھی جاں بحق ہو گیا۔
    عتبہ اور شیبہ نے ابوجہل سے کہا:
    کیا تم نے ہم سے نہیں کہا تھا کہ اگر میں یاسر اور اس کی بیوی سے اپنے دین کا اقرار کرانے میں کام یاب نہ ہوا تو پھر تم جو چاہو فیصلہ کرنا۔
    ابوجہل چُپ رہا، لیکن قریش کے دوسرے سرداروں نے کہا:
    ہاں! بے شک یہی کہا تھا! ہم اس بات کے گواہ ہیں!
    عتبہ نے کہا:
    پھر تمہیں چاہیے کہ اس شخص کو آزاد کرکے چھوڑ دو، تاکہ یہ اپنے ماں باپ کو دفن کر دے۔
    اس روز ابوجہل بڑے غیظ وغضب میں شکستہ خاطر ہو کر گھر لوٹا۔ معلوم نہیں اُس کے غم وغصہ کا اصل سبب کیا تھا؟
    آیا وہ ان دونوں شہیدوں کے ہاتھ سے نکل جانے پر سیخ پاتھا۔ کہ وہ اس کا دلی منشاپورا کیے بغیر مر گئے یا ان کے صبر وثبات سے جل بھن رہا تھا کہ وہ بغیر کسی گھبراہٹ، بے چینی اور بے صبری کا اظہار کیے ختم ہو گئے۔ کیونکہ یہ چیز قریش اور اس کے قدیم مذہب پر محمد صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے جدید مذہب کا غلبہ ظاہر کرتی تھی۔
    کیونکہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے ساتھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی خاطر جانیں قربان کر رہے تھے، آپ کے دین کی راہ میں شہید ہو رہے تھے اور قریش کے بے کس وبے بس لوگ ،نیز شرفاء اور حلیف بھی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی طر ف دوڑ دوڑ کر جارہے تھے اوران پرایمان لا رہے تھے ،
    اگر چہ اکثر لوگ اپنا ایمان چھپائے رکھتے اور بہت ہی کم اس کا اظہار کرتے ، لیکن بہرحال وہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہی کی طرف دوڑتے اور آپ صلی الله علیہ وسلم ہی پر ایمان لاتے تھے ۔ پھر یہ بے کس وبے بس اور غلام لوگ ،جو پہلے کبھی قریش کے شرفا اور امرا پر ایمان رکھتے ، ان ہی مغروروں کے مطیع وفرماں بردار رہتے اور آگے پیچھے انہی سے ڈرتے،
    اب کچھ سرکشی اوربغاوت کرنے لگے تھے اوران کی سیادت واقتدار کو ناپسند کرتے تھے۔ کبھی تو علی الاعلان ایسا کرتے اورکبھی خفیہ طور پر۔ اورپھر قریش جب ان میں سے کسی آزاد یا غلام سے کبھی مواخذہ اور احتساب کرتے اور تنبیہ کے طور پر اس کو سزا دیتے تو وہ بھاگتا، نہ ڈرتا، حکم مانتا نہ کسی طرح دبتا، بلکہ ہر قسم کی اذیت اور ظلم وستم برداشت کرنے کے لیے بڑی خوشی اور اطمینان سے سینہ سپر ہو جاتا اوراس کے چہرے کی مسکراہٹ ان جفاکاروں کے دل کباب کر دیتی۔
    معلوم نہیں ابوجہل اس وجہ سے طیش میں آیا، یا اس وجہ سے کہ قریش کی طرح محمد صلی الله علیہ وسلم بھی اس اذیت رسانی اور ظلم وستم کی داستانیں کانوں سے سنتے ہیں، آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور خوب اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن پھر بھی نہ ڈرتے ہیں ، نہ مرعوب ہوتے ہیں اورنہ اپنے نئے دین کی تبلیغ اور اس کا پر چار ترک کرتے ہیں۔
    پھر یہی نہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر نکلتے ہیں اوراپنے ان متبعین کو جو مشق ستم بنے ہوئے ہیں ، ایسے کلام سے تسلی اور دلاسے دیتے ہیں جسے وہ فوراً ہی دل میں گرہ دے لیتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان اذیتوں اورتکلیفوں کے سہنے میں وہ اور بھی پختہ اور ثابت قدم ہو جاتے ہیں…
    آخر قریش کے ساتھ اس سے زیادہ اور کیا مذاق ہو گا! ان کی اس سے زیادہ اور کیا تحقیر ہو گی ! ان کے اقتدار کی اس سے زیادہ اورکیا تذلیل ہو گی! ان کے امرا ورؤسا کا اس سے زیادہ اورکیا تمسخر ہو گا! قرب وجوار کے اہل عرب کیا کہیں گے؟
    جب انہیں معلوم ہو گا کہ قریش کے پہلو میں ایک کانٹا ہے ،جس نے ان کے امرا ورؤسا اور ارباب دانش وبنیش کو عاجز کردیا ہے۔ وہ اس حقیر سے کانٹے کو اپنے پہلو سے نکال بھی نہیں سکتے ،بلکہ ان کی ترکیبوں اور تدبیروں کے باوجود وہ اور جڑ پکڑتا جارہا ہے اوراب اپنے گرد چھوٹے چھوٹے دوسرے کانٹے بور ہا ہے ۔
    جو اگرچہ اس کے برابر مضبوط اور تیزنہیں ، لیکن ایذارسانی اورتکلیف دہی میں کسی طرح اس سے کم نہیں ہیں ۔ ان کی بدولت قریش کا تمام جسم لہولہان ہونے کو ہے اورپھر اس کے زخم کے مندمل ہونے کی کوئی امید باقی نہیں رہے گی!
    نہیں معلوم، آیا ابوجہل ان وجوہات کی بنا پر برا فروختہ ہوا یا اس وجہ سے کہ اس کی شدت اور سختی سردارانِ قریش کے خیال میں بالکل فضول تھی ، نہ ان کو اپنی ذات کے لیے اس میں کوئی فائدہ نظر آتا تھا، نہ اپنے معبودوں کے لیے، بلکہ یہ سخت گیری ایک ایسے قتل پر منتج ہوئی، جسے قریش نے کبھی پسند نہ کیا اور اس کی وجہ سے محمد صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب اپنے دین میں اور زیادہ پختہ اور ثابت قدم ہو گئے!
    یا شاید وہ اس وجہ سے خشم گین ہوا کہ عتبہ اور شیبہ اس سے جیت گئے اوراب فتح پاکر اس کی نمائشی ہو شیاری اور دور اندیشی اور مصنوعی مستقل مزاجی اور جھوٹی تجربہ کاری کا مذاق اڑانے لگیں جس کا وہ اکثر جاو بے جا اظہار کرتا رہتا تھا۔
    اس ناکامی کے بعد یہ بھی اندیشہ تھا کہ وہ دونوں قریش کو اپنا گرویدہ نہ بنا لیں اوراس ذی اقتدار قبیلہ کے تمام جذبات واحساسات کے واحد مالک نہ بن جائیں کہ قریشی پھر انہیں کی سنیں، انہیں کا دل بہلائیں اور وہ قریش کی محبت اورحمایت حاصل کرکے اس کی قیادت سنبھال لیں! یا شاید ابوجہل ان تمام اندیشوں کی بنا پر غضب ناک ہوا مجھے اس کے متعلق کچھ نہیں معلوم! لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ بڑے غیظ وغضب میں اپنے گھر گیا۔
    اظہار تو برہمی اور خفگی کا کر رہا تھا ،لیکن اندرونی طور پر شکستہ دل اورپریشان خاطر تھا۔ اسی وجہ سے اس کامزاج کچھ چڑ چڑا ہو گیا تھا۔گھر میں سے بھی نہ کوئی اس سے بات کر سکتا تھا، نہ سن سکتا تھا، وہ نہ کھانے پر بیٹھا، نہ کوئی بات کہی سنی، بلکہ تنہائی اور خلوت اختیار کر لی اور اسی پریشان حالی، غم وغصہ اور حزن وملال کی حالت میں تمام رات گزار دی اور سوائے چند جھپکیوں کے نیند سے بالکل محروم رہا۔
    ابوجہل تو اس طرح اپنے گھر سدھارا اور اسی بے چینی میں رات کاٹی۔ دوسری جانب زخمی عمار کو اٹھا کر لوگ ان کے گھر لے گئے اوران کے ساتھ ان کے ماں باپ کی نعشیں بھی ان کے گھر پہنچا دیں۔ ان تینوں کو قریش کے ہی چند لوگوں نے اٹھایا تھا۔ ان میں مسلمان بھی تھے اور غیر مسلم بھی ۔ اس وقت دونوں اپنی باہمی عداوت بھول گئے تھے یا ازخود بھلا دی تھی۔ ان کے ذہن میں بس ایک خیال سمایا ہوا تھا کہ ان میں ایک مصیبت زدہ ہے، جس کی غم خواری کرنی ہے اور دومیتیں ہیں ۔ جنہیں جلد ازجلد دفن کرنا ہے ۔
    یہ سوچ کر وہ سب اٹھے اورایک دوسرے سے ہر ممکن تعاون کیا۔ وہ عمار کی غم خواری کرنے لگے، لیکن عمار کو اس غم خواری کی ضرورت نہ تھی، پھر انہوں نے عمار کے والدین کی تجہیز وتکفین میں ہاتھ بٹایا، بے شک اس تعاون کی انہیں ضرورت تھی۔ والدین کو دفن کرنے کے بعد عمار اپنے گھر آئے تو مشرکین ان سے رخصت ہوئے اورمسلمان حلقہ باندھ کر اُن کے گردبیٹھ گئے۔
    اس وقت عمار کی حالت یہ تھی کہ بدن اب تک ان مظالم کی شدت اورتکلیف محسوس کر رہاتھا۔ دل ایمان کی حلاوت سے سر شار تھا اور طبیعت ماں باپ کے رنج وغم سے اُداس تھی۔ عثمان بن عفان نے ان سے کہا:
    تمہیں آخر ان کا غم کیوں ہے؟ انہوں نے تو اپنا وقت پورا کر لیا اورتم سے پہلے ہی خدا کی نعمت اوررضا حاصل کر لی ؟ کیا تم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے نہیں سنا، وہ ایک مرتبہ تمہارے لیے جنت کا وعدہ فرمارہے تھے اورایک دفعہ تمہیں صبر کی تلقین کرکے دعا فرمائی تھی کہ ۔” اے الله! آل یاسر کو بخش دے۔“ تو کیا تم صبر نہیں کرو گے ؟
    عمار بولے:
    ابو عمرو! آپ نے بجا فرمایا۔ مجھے یہ زیبا نہیں کہ میں ان پر رنج کروں، بلکہ مجھے تو ان کی خوشی منانی چاہیے کہ وہ مجھ سے پہلے ہی جنت میں پہنچ گئے۔ آخر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو یہ وعدہ دیا تھا اور خدا کا وعدہ سچا ہے۔
    عثمان نے کہا:
    اور تمہیں بھی تو دیا تھا!
    عمار نے کہا:
    افسوس ابو عمرو! اگر میں بھی ان دونوں کے ساتھ مر جاتا تو بے شک مجھے بھی خوش ہونے کا حق تھا۔ لیکن وہ دونوں تو گزر گئے اوراب میں رہ گیا ہوں۔ زندگی میں فتنے بہت ہیں اور نفس کمزور ہے۔ مجھے اس بات کا بے حد افسوس ہے کہ موت نے مجھے ان سے جدا کر دیا اوراب میں لوگوں کا تختہ مشق بنوں گا۔ وہ مجھے گناہوں اوربرائیوں پر آمادہ کریں گے ، میرے اعمال حبط ہوں گے اورنیکیاں مٹیں گی۔
    عثمان بولے:
    خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، اس کی مہربانی سے آس نہ توڑو تمہیں گناہوں کا اسی طرح موقعہ ملے گا۔ جیسے نیک اعمال کا۔ برائیوں سے اسی طرح واسطہ پڑے گا جیسے نیکیوں سے، تمہیں زندگی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے، جب کہ رسول الله ہم میں موجود ہیں۔
    عمار نے کہا:
    ہاں! یہ بات تو ٹھیک ہے۔
    پھر وہ اس پھرتی سے اٹھ کھڑے ہوئے جیسے کوئی دکھ، بیماری یا تکلیف سرے سے تھی ہی نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان میں وہی قوت وطاقت لوٹ آئی ہے جیسی دوسرے قوی انسانوں میں ہوتی ہے ۔ وہ اٹھتے ہوئے عثمان اوراپنے دوسرے احباب سے کہنے لگے:
    واہ بھئی واہ! ہم خواہ مخواہ یہاں رُکے بیٹھے ہیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس کیوں نہ چلیں!
    پھر وہ سب کے سب دارِ اَرقم گئے اوراپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے ساتھ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھے اور آپ کی باتیں سننے لگے ۔ آپ انہیں نصیحت فرماتے، دلوں کو پاک کرتے اور قرآن پڑھ کر سناتے۔
    ابوجہل نے عتبہ بن ابی ربیعہ اوراس کے بھائی سے جا کر کہا:
    تم نے عمار کی رہی سہی جان کو موت کے منھ سے بچا لیا! اگر تم بیچ میں نہ پڑتے اورمجھے اور اس کو اکیلا چھوڑ دیتے تو زمین میں دو کے بجائے تین دفن ہوتے۔
    عتبہ بولا:
    پھر تو ہم نے تمہارا بوجھ ہلکا کر دیا، ابو الحکم!
    ابوجہل بدنیتی اور بد باطنی سے مسکرایا اورکہنے لگا:
    میں نہیں چاہتا کہ میرا دشمن مر جائے،اس طرح اس کو سکون اور آرام مل جاتا ہے، وہ میری سزا اور گوشمالی سے بچ جاتا ہے۔ اس سے میرے دل کو بڑی کوفت ہوتی ہے۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ وہ زندہ رہے، میں اسے بار بارستاؤں، عذاب اورتکلیف کے تلخ گھونٹ پلاؤں، تڑپاؤں، چخواؤں اور رلاؤں۔ تمہیں لات اور عزیٰ کی قسم! جو آج سے میرے اور عمار کے بیچ میں پڑو، ورنہ اپنے قبیلے اور تمام بنو مخزوم کے درمیان جنگ چھیڑدوگے۔ یاسر ہمارا حلیف تھا، سمیہ ہماری باندی تھی، عمار کو اب بھی ہم اپنا غلام سمجھتے ہیں۔
    شیبہ بولا:
    لیکن تمہارے چچا ابو حذیفہ نے تو عمار اوراُس کے دونوں بھائیوں کو آزاد کر دیا تھا۔
    ابو جہل نے کہا۔
    بہرحال ان کا حقِ ولا ہمیں ہی حاصل ہے۔
    عتبہ ڈھیلا ہو کر بولا!
    اچھا ،یہ بات ہے!
    ابوجہل نے اپنے ارادے دل میں پوشیدہ رکھے اور خدا نے عمار کے لیے درجے اورمرتبے پوشیدہ رکھے۔ جب تک عمار مکہ میں رہے وہ انہیں مسلسل ایذائیں دیتا رہا ،اس کی جدت طرازی نے وہ نئے نئے انداز ستم ایجاد کیے کہ اس کی اذیت رسانی زبان زدِ عام ہو گئی، سب سے پہلا کام اس نے یہ کیا کہ عمار کی زندگی اور آزادی کو برقرار رکھا۔
    لہٰذا وہ ان کی جان ضائع نہ ہونے دیتا اور نہ انہیں قید خانہ کی کوٹھری میں ڈالتا، بلکہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب کے لیے وجہ عبرت بناتاکہ اس سے سبق لیں۔ جب ضرورت محسوس کرتا انہیں اذیت دیتا اور جب ظلم وستم کے نظارہ کا شوق چراتا انہیں مشق ستم بنانے اٹھ کھڑا ہوتا۔
    گویا اس نے شیطان سے عہد کر لیا تھا کہ عمار کو وہ سزا دے کر رہے گا جو ان کے والدین کو نہ دے سکا اوران سے وہ اقرار کراکے چھوڑے گا جو اقرار یا سر اور سمیہ سے نہ کراسکا اورہر طریقے سے ا نہیں اس بات پر مجبو رکر دے گا کہ وہ اس کے معبودوں کو اچھے الفاظ سے یاد کریں اور حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو برا بھلا کہیں۔ اس کام میں شیطان نے اس کی پوری پوری مدد کی اور قریش کے چند بیوقوفوں نے بھی اس کا ہاتھ بٹایا۔
    اس طرح خوب ستا لینے کے بعد اس نے عمار کو کچھ عرصہ کے لیے سُکھ اور آرام میں چھوڑ دیا۔ ان کی جان، بدن اوردین وایمان کو عارضی طور پر عافیت دے دی۔ اس کے بعد نہ کوئی تکلیف دی، نہ کچھ گزند پہنچایا، حتی کہ عمار کو ہر قسم کی تکلیف اور آزار سے آرام مل گیا اور وہ سمجھے کہ بس اب میں ان آزمائشوں اور فتنوں سے امن میں ہو گیا ہوں،
    لہٰذا وہ ہر روز صبح دار ارقم جاتے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم سے حکمت کی باتیں سنتے اوراپنی باتیں سناتے۔ پھر شام کو گھر واپس آجاتے۔ گھر میں انہوں نے ایک ایسی چیز بنا رکھی تھی ، جواب تک کسی مسلمان نہیں بنائی تھی۔ انہوں نے وہاں ایک مسجد بنا لی تھی جہاں وہ رات کا بیشتر حصہ خدا کی عبادت میں گزارتے۔
    آخر خداوند تعالیٰ نے ان کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی:(ترجمہ)”( بھلا وہ مشرک اچھا ہے) یا وہ جو اوقات شب میں زمین پرپیشانی رکھ کر اوربا ادب کھڑے رہ کر عبادت کرتا ہے ، آخرت سے ڈرتا ہے اوراپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے ؟ کہو !بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اورجو نہیں رکھتے دونوں برابر ہو سکتے ہیں اور نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقل مند ہیں۔“
    لیکن ایک روز نبی صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے گرد جمع تھے ، جب دن کافی چڑھ گیا تو انہوں نے وہاں عمار کو نہ پایا۔ اس کا ذکر نبی صلی الله علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمار کو خداکی راہ میں ستایا جارہا ہے ۔ پھر نبی صلی الله علیہ وسلم دن چڑھے بطحائے مکہ کے ایک مقام سے گزرے۔
    وہاں ابوجہل کو دیکھا کہ وہ پھر اپنی پہلی حرکتوں پر اُترآیا ہے۔ نہایت تیزآگ دہک رہی ہے، چمڑے کی بڑی بڑی ٹنکیوں میں پانی بھرا ہوا ہے ، عمار کو ان دونوں کے درمیان ڈال رکھا ہے ۔ قریش کے احمق لوگ انہیں نیزے چبھو رہے ہیں اور آگ میں جلا رہے ہیں ۔ عمار صبر وسکون کے ساتھ خاموش کھڑے دل ہی دل میں خدا کو یاد کر رہے ہیں ، زبان سے ایک حرف نہیں نکالتے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے جب یہ ہول ناک منظر دیکھا تو کمال شفقت سے فرمایا:
    ”اے آگ! تو عمار پر بھی اسی طرح ٹھنڈی اور باسلامت ہو جا، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہوئی تھی۔“
    ابو جہل نے عمار کو اس طویل عرصہ اذیت وابتلا میں اس قدر آگ سے جلایا تھا کہ ان کی جان لینے کے لیے کافی تھا۔ لیکن الله تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ﴿ادعونی استجب لکم﴾ (مجھ سے دعا مانگو، میں قبول کروں گا) عمار کے لیے خدا سے اس شخص نے دعا کی تھی جو اسے تمام بندوں سے پیارا اورمحبوب تھا۔ خدا کی حکمت بھی خوب ہے اورہر کام کا ایک وقت معین ہے ۔
    عمار نے اس روز ایسی ایسی اذیتیں برداشت کیں جن میں سے بعض تو انسان سہار سکتا ہے ، لیکن بعض کا سہنا اس کے بس سے باہر ہے ۔ آخر جب سورج ڈھلنے لگا تو ان پر ظلم وستم موقوف ہوا اور وہ اپنے گھر واپس آئے۔ ابوجہل نے پھر ان کو کافی دن تک ڈھیل دیے رکھی، حتی کہ عمار نے خیال کیا کہ اب دوبارہ ان کو مشق ستم نہ بنایا جایائے گا۔ لیکن ابوجہل نے یہ ڈھیل محض اس لیے دی تھی کہ اپنے ظلم وستم میں شدت پیدا کرے اور اذیتوں میں اضافہ کرے۔
    ایک روز نبی صلی الله علیہ وسلم نے عمار کو دیکھاکہ وہ نہایت غم گین حالت میں ہیں کہ پہلے کبھی نہ تھے اور آنکھوں سے آنسو بھی رواں ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے قریب آئے، نہایت شفقت سے ان کے آنسو پونچھے اور آنکھوں کو سہلاتے ہوئے فرمانے لگے:
    ارے ابن سمیہ! کیوں روتے ہو ؟ یہی ہوا ہیناکہ کفار نے تمہیں پکڑ کر پانی میں غوطے دیے اورتم نے گھبرا کر ایسے ایسے الفاظ کہہ دیے! کوئی حرج نہیں۔ اگر وہ پھر ایسا کریں تو تم پھر یہی کرنا۔
    لیکن پھر ان لوگوں نے فوراً ہی ایسا نہ کیا، بلکہ عمار کو کافی دن مہلت دی اور خوب آرام کرنے دیا، مگر پھر پکڑا تو خوب ستایا اور بری طرح ان پر ظلم ڈھایا۔ پھر چھوڑ دیا تو عمار غیرت ملی سے عرق عرق ہو کر افسردہ حالت میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پھر حاضر ہوئے۔ اس وقت بھی ان کی آنکھوں سے اشک رواں تھے، چہرہ فق اوراداس تھا اور اس پر ٹپاٹپ آنسو گر رہے تھے۔
    نبی صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا تو پوچھا:
    عمار! کیاخبر ہے؟
    عمار نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا:
    نہایت بری خبر ہے یا رسول الله! بخدا آج مجھے اس وقت تک خلاصی نہ ملی جب تک میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی شان میں بُرے الفاظ اور اُن کے معبودوں کے حق میں کلمات خیر استعمال نہ کیے۔
    رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
    تم اپنا دل کیسا پاتے ہو؟
    عمار نے عرض کی:
    میرا دل ایمان سے مطمئن ہے۔
    رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ مضائقہ نہیں۔ اگر وہ پھر ایسا کریں تو تم بھی ایسا ہی کرنا۔
    اس کے بعد ہی خدا وند تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہ آیت نازل فرمائی:
    ” جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرے، وہ نہیں جسے کفر پر زبردستی مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، بلکہ وہ جو دل کھول کر کفر کرے، تو ایسوں پر الله کا غضب ہے اور ان کو بڑا سخت عذاب ہو گا۔“
    اس بدترین اذیت اور عذاب سے، جو کبھی ختم ہو جاتا اور کبھی پھر شروع ہو جاتا، عمار نے اس وقتخلاصی پائی جب کہ الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا، چناں چہ عمار نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اورپھراس کے بعد مدینہ ہجرت کی اوروہاں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ امن وسلامتی سے اطمینان کی زندگی بسر کرنے لگے۔
     

Share This Page